اس رات کوئی بھی سو نہیں پایا تھا۔ نوشی بھی تمام رات نہیں سو پائی ۔ نتیجتاً صبح اس کے سر میں شدید درد تھا۔اٹھ کے بھی کسلمندی سے پڑی رہی۔آج چھٹی کا دن تھا ۔دن کے گیارہ بج رہے تھے ۔ اس وقت تک وہ ناشتہ وغیرہ بنا کے کام والی کے سر پہ کھڑے ہو کے گھر صاف کروا چکی ہوتی تھی ۔پھر چھو ٹے چھوٹے بکھیرے سمیٹتے دوپہر کی تیاری کرتی ۔ وہ اٹھ کے بال سمیٹتے ہوئے جوتا پائوں میں اڑس کر باتھ روم گھس گئی۔ نہا کے گیلے بال سلجا کے شانوں پہ ڈالے وہ باہر نکلی ۔گھر میں غیر معمولی چہل پہل تھی ۔لائونج کی طرف آتے اسے ایسا لگا کوئی مہمان آیا ہے ۔ مگر لائونج سے آتی مانوس آوازوں نے اس کے خیال کی تردید کر دی ۔ وہ لائونج کے دروازے پہ ہی ٹھٹک کے رک گئی ۔اندر کا منظر ہی اتنا عجیب تھا۔شانی اور مانی ہنستے ہوئے اپنی رات کو بکھیری ہوئی چیزیں سمیٹ رہے تھے۔خالہ صوفے پہ بیٹھی انہیں سمجھا رہی تھیں ۔
"دیکھو شانی ! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کام خود کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنے کپڑوں پہ پیوند بھی خود لگاتے تھے ۔اس لیے آج سے تم لوگ خود اپنا کام کرنا ۔ماما تھک جاتی ہیں نا بیٹا !۔"کشن وغیرہ اپنے ٹھکانے پہ رکھتے شانی نے سر دھنا مانی جھاڑو اور سوپر ہاتھ میں لیے فرش پہ بکھرے مونگ پھلی کے چھلکوں کو پریشانی سے دیکھ رہا تھا۔
"دادی میں انہیں کیسے اٹھائوں ؟ مجھ سے یہ گندا کام نہیں ہوگا ۔یہ آپ خود کر لیں یا کام والی آئے گی تو وہ کر لے گی ۔" اپنی ننھی سی ناک نخوت سے سکیڑتے ہوئے مانی نے بے حد حقارت سے زمین پہ پڑے گند کو دیکھا ۔ زبیدہ بیگم شرمندہ سی ہو گئیں ۔ یہ ان ہی کے لاڈ پیار کا نتیجہ تھا کہ وہ دونوں اتنے لاپرواہ تھے۔
"یہ گند میں نے تو نہیں پھیلایا ۔ نا فریدہ (کام والی ) نے پھیلایا ہے ۔یہ تم لوگوں نے پھیلایا ہے تم ہی سمیٹو گے ۔ اور فریدہ آج نا آئی تو یہ کون سمیٹے گا ۔تمھاری ماما کی آج طبعیت خراب ہے ورنہ وہ کہاں اتنی دیر تک سوتی ہے ۔" حتمی لہجے میں سمجھاتے ہوتے آخر میں وہ نوشین کے لیے پریشان ہوئیں ۔نوشی بے اختیار مسکرا دی ۔
" سہی کہہ رہی ہیں ماما ! آپ نوشی کی طبعیت مجھے بھی ٹھیک نہیں لگی۔ اسی لیے تو بنا کوئی شور کیے تیار ہو کے آپ کے پاس لائونج میں آ گیا ۔ عقیل نے مجھے اتنے اسرار سے لنچ پہ نا بلایا ہوتا تو میں آج نا جاتا ۔ میں کوشش کروں گا جلد آ کے نوشی کو ڈاکٹر کے پاس لے جائوں ۔" دوسرے صوفے پہ پشت کیے جوتے پہنتے اظہر گویا ہوئے ۔وہ چونک گئی وہ انہیں نہیں دیکھ پائی تھی ابھی تک وہ گھر کی کایا پلٹ پہ ٹھیک سے حیران بھی نا ہو پائی تھی کہ ایک منظر نے اسے مبہوت کر دیا۔ اظہر اپنے گھر پہننے والے جوتے لیے لائونج سے باہر آئے ۔اسے لائونج کے دروازے پہ کھڑے دیکھ کے مسکرائے۔
"اٹھ گئی تم اب کیسی طبعیت ہے تمھاری ؟ فان کلر کی شرٹ پہ بلیک پینٹ پہنے اظہر ہمیشہ سے زیادہ ڈیشنگ اور فریش لگ رہے تھے ۔اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"گڈ مگر پھر بھی میں جلد آنے کی کوشش کروں گا پھر ڈاکٹر کے پاس چلیں گے ۔" جملہ مکمل کرتے وہ کمرے کی طرف چل دیئے ۔وہ حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتی لائونج میں آ گئی ۔ جہاں بچے اسے اپنی اپنی کارکردگی بتانے کے لیے بےتاب کھڑے تھے۔وہ خالہ کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا دی۔
"اوکے مانی شانی اب تم لوگ اپنے روم میں جا کے فریش ہو جائو پھر ناشتہ کرتے ہیں ۔" اس نے چمکارتے ہوئے انہیں بھیجنا چاہا ۔
"ماما ناشتہ تو بابا نے باہر سے لا دیا تھا ہم نے کر بھی لیا ۔آپ اپنا اور دادو کا ناشتہ بنا لیں ۔" تفصیل سے بتاتے مانی اور شانی اپنے روم کی طرف چل دیئے ۔اسی دوران اظہر بھی خدا حافظ کہتے نکل گئے ۔تو وہ ٹھنڈی سانس بھرتی خالہ کے پاس صوفے پہ بیٹھ گئی۔
"مجھے معاف کر دیں خالہ میں نے آپ کا بہت دل دکھایا ۔ یقین کریں خالہ میں خود بھی سکون سے نہیں رہی ۔آپ میری ماں جیسی ہیں اور میں نے ہمیشہ آپ کو ماں جیسا ہی سمجھا۔آپ بڑی ہیں میں نے آپ سے اتنی بدتمیزی کی" شرمندہ لہجے میں خالہ کا ہاتھ پکڑ کے وہ نم آنکھوں سے بولی تو خالہ بے اختیار نوشی کے سر پہ ہاتھ رکھ گئیں ۔
"ضروری نہیں کہ ہر بار غلطی بچوں کی ہی ہو کئی دفعہ بڑے بھی نا دانستگی میں غلطی کے مرتکب ہو جاتے ہیں بس اپنی بڑائی کے زعم میں ڈوب کر غلط کو بھی درست ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔" اس کا سر ہولے سے تھپکتے ہوئے جیسے زبیدہ خاتون یہاں تھیں ہی نہیں ۔ کچھ دیر تک خاموش رہ کر پھر گویا ہوئیں ۔
"ایک بیوہ عورت کے لیے اپنی اکلوتی اولاد کو پالنا کتنا مشکل ہے تم نہیں سمجھ سکتی نوشی ۔ اور اولاد بھی وہ جو کئی منتوں ،مرادوں کے بعد ملی ہو۔احمد ہمیشہ اظہر کو ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھتے تھے ، ان کے بعد میں نے اپنی بساط کے مطابق اظہر کی ہر خواہش پوری کی مجھے اظہر سے اتنی محبت تھی کہ میری کل کائنات میری زات کا محور میرا بیٹا تھا ۔ میں سمجھتی تھی اظہر کی ہر خوشی میرے جینے کا مقصد ہے ۔ مگر میں غلط تھی ۔ کل تم نے جو بھی کہا سہی کہا محبت اگر انسان کو سنوارتی ہے تو کئی دفعہ اس کی زات میں بڑے بڑے خلا بھی پیدا کر دیتی ہے ۔ اکثر جب اظہر اپنی ضد کی خاطر میرا دل دکھا دیا کرتا تھا ۔ میں سمجھتی تھی یہ اس کا ناز اٹھوانے کا ایک طریقہ ہے ۔ میں ہنس کے ٹال دیتی تھی ۔ آہستہ آہستہ اس میں بہت بہتری آئی مگر اس کی ضد اس کا جذباتی پن بے جا غصے کی عادت ہنوز قائم ہے ۔ اور میں اپنے پوتوں میں یہ خامیاں نہیں دیکھنا چاہتی ۔"
نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا تو وہ مسکرا دی ۔
"جی خالہ ۔ ۔! جیسا آپ چاہتی ہیں ویسا ہی ہوگا ۔بس آپ مجھے معاف کر دیں ۔" وہ ابھی بھی احساس ندامت سے چور تھی۔
"پاگل ہو گئی ہو کیا کبھی بیٹیاں بھی مائوں سے معافی مانگتی ہیں ۔ تم میری بیٹی ہو ہمیشہ میں نے تمھیں بیٹی ہی سمجھا۔ چلو اب ناشتہ بنائو ماں بیٹی مل کے ناشتہ کریں پھر دوپہر کی تیاری بھی تو کرنی ہے ۔ان شیطانوں کو ابھی پھر بھوک لگ جائے گی ۔محبت سے شانی مانی کا تذکرہ کرتے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں تو نوشی بھی مسکراتے ہوئے کچن کی طرف چل دی ۔
ختم شد