زبیدہ خاتون جو سمجھ رہیں تھیں کہ انہوں نے زرا سا تھک کے ایک بڑا جھگڑا روک لیا ہے۔ وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار تھیں ۔ہر روز شام کو نوشین اظہر کے گھر پہننے والے کپڑے تیار رکھتی تھی ۔اظہر نے اسی خیال کے تحت جلدی سے فریش ہونے کی نیت سے وارڈروب کھولا مگر کپڑے ندارد ۔ وہ جو آج ٹینشن سے پھرپور تھکن زدہ دن گزار کے آتے ہی نہانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔غصے سے سیخ پا ہو گیا۔
"نوشین کہاں ہو ؟ میرے کپڑے کہاں رکھے ہیں نکال کے دو مجھے ۔" اس کی چنگاڑ سارے گھر میں گونجی تھی ۔ٹی وی دیکھتے بچے اور سجدے میں گری زبیدہ بیگم پوری جان سے لرز گئے ۔
"کیا ہو گیا ہے ۔کیوں چلا رہے ہو۔ کچن میں تھی میں۔کام کر رہی تھی ۔فارغ نہیں تھی۔ بولو کیا مسئلہ ہے ۔" ہاتھ دوپٹے سے صاف کرتی وہ لٹھ مار انداز میں بولی تو اظہر کچھ شرمندہ ہوا۔
"سوری یار گرمی کی وجہ سے دماغ خراب ہوا ہے ۔جلدی سے کپڑے نکال دو میں نہا لوں۔تاکہ دماغ کچھ ٹھکانے آئے۔" دھیمے لہجے میں معزرت کرتا وہ تولیہ نکالنے لگا ۔
"تم خود کیوں نہیں نکال کے آئرن کر لیتے ۔مجھے کچن میں سو کام ہے اب اتنا سا کام تو خود کر ہی سکتے ہو نا۔" اپنی بات مکمل کر کے وہ جانے لگی تو اظہر تولیہ ایک بازو پہ ڈالے مڑا اور جارحانہ انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ کے روکا۔
"روز تیار رکھتی ہو میرے کپڑے آج کیا کام ہے ۔آج کون سا انوکھا کام ہے تمھیں ؟پاگل تو نہیں ہو گئی کہیں " استعجاب لیے لہجہ اب کی بار سخت ہوا تھا۔گرفت بہت سخت تھی ۔نوشی کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔
" ہاں پاگل ہو گئی ہوں میں۔سارا دن گدھوں کی طرح کام کر کر کے ۔کیا میں نوکر ہوں اس گھر کی ؟ میری کوئی زات نہیں ،کوئی خواہشات نہیں ؟ میں نہیں تھکتی ؟ مجھے نہیں آرام چاہئے؟بچوں کی چیزیں سمیٹوں گھر سنبھالوں یا آپ کی چاکری کرتی رہوں ؟" نوشی آج جیسے پھٹ ہی پڑی ۔اس کا ہاتھ ابھی بھی اظہر کے ہاتھ میں تھا ۔اظہر اس قدر بدتمیزی پہ دنگ رہ گیا۔
"ارے یہ کیا کر رہے ہو ؟ چھوڑو اس کا ہاتھ کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو کیوں بچوں کی طرح لڑ رہے ہو؟"زبیدہ خاتون گھبرائی ہوئی سی اوپر آئیں تھیں ۔زبردستی بیٹے کی گرفت سے نوشی کا ہاتھ چھڑایا جو سرخ پڑ چکا تھا۔وہ اسی لمحے سے تو ڈرتی تھیں اظہر کو غصہ نہیں آتا تھا ۔مگر جب آتا تھا تو وہ بھول جاتا تھا کہ سامنے کون ہے اور وہ کیا کر رہا ہے۔
"سمجھا لیں اماں اسے مجھے ٹیڑھے لوگ پسند نہیں ۔نا ہی ٹیڑھے مزاج پسند ہیں۔جو بھی مسئلہ ہے بدتمیزی کیے بنا صاف صاف کہے ۔" اظہر کا سرد لہجا اس کے غصے کی انتہا کا گواہ تھا۔
"مجھے نہیں خالہ ! سمجھنے کی ضرورت آپ کے لاڈلے کو ہے ۔انہیں سمجھائیں ۔ بلکہ میرا فیصلہ سنائیں ۔" طنزیہ مسکراتے ہوئے سینے پہ بازو لپیٹ کر اکڑ کر کھڑی ہو گئی ۔جنگ کا بگل بج چکا تھا ۔زبیدہ بیگم کو لگا اب کے وہ کچھ بھی سنبھال نہیں پائیں گی۔
"نوشی! بیٹا تم چاہتی ہو نا کہ میں تمھارا ہاتھ بٹایا کروں ۔تو میں بٹائوں گی میری جان ۔ ۔! چھوڑو یہ جھگڑا اور اظہر کو کپڑے نکال دو۔ وہ تھکا ہوا آیا ہے ۔اسی لیے چڑچڑا ہوا ہے ۔نہا لے گا تو فریش ہو جائے گا ۔غصہ بھی ٹھنڈا ہو جائے گا ۔ " انہوں نے دبے لفظوں سے بہو کو سمجھایا تو اظہر پیچ وتاب کھا کے ان کی طرف مڑا ۔
" یہ آپ ہی کے لاڈ پیار کا نتیجہ ہے سارا ۔" شکوہ کناں نظروں سے زبیدہ خاتون کو دیکھتا وہ بیڈ پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا ۔تو معاملہ ٹھنڈا ہوتا دیکھ کے نوشی پھر میدان میں اتر آئی ۔
"بس میں نے کہہ دیا ۔آج سے میں اپنے بچوں کے کام کروں گی ۔اور خالہ آپ اپنے بچے کے کام کریں گی آپ ہی تو کہتی ہیں۔ بچوں کے کام کرنا ماں کا فرض ہوتا ہے۔اب پورا کریں اپنا فرض۔" وہ زبیدہ خاتون کی طرف گھوم کر مظبوط لہجے میں بولی۔ تو اظہر نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو۔
"تمھارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔؟ امی ضعیف ہیں ،بیمار ہیں ، تم اب ان سے مقابلے کرو گی۔تم تو کہتی تھیں ۔امی تمھارے لیے ماں کے جیسی ہیں ۔یہ ساس کب سے سمجھنا شروع کر دیا تم نے؟ یا ڈرامے تھے وہ سب ۔؟" مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی نوشی ۔" سر تھامے بیٹھے اظہر نے ملامت بھرا شکوہ کیا ۔نوشی ایک پل کے لیے سن رہ گئی۔
"اظہر!ایسے نہیں کہتے ۔مجھے نوشی کے خلوص پہ کوئی شک نہیں بلاشبہ اس نے ہمیشہ بیٹیوں کی طرح میری خدمت کی ہے ۔تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے ۔نوشی میری بیٹی نہیں بہو ہے۔" اسے بری طرح ڈپٹ کر وہ اپنے تئیں بات ختم کر چکی تھیں۔
" خالہ ! میں تھک جاتی ہوں ۔آپ مجھے اچھی کہیں یا بری میرا فیصلہ نہیں بدلنے والا ۔اب کے بعد وہی ہوگا جو میں کہہ رہی ہوں ۔میں اپنے بچوں کے کام کروں گی۔ آپ اپنے بچے کے ۔میں اظہر کے کسی بکھراوے کو ہاتھ نہیں لگائوں گی۔ہاں وہ کام کر دوں گی جو آپ سے نہیں ہوتے۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔" قطعی لہجے میں کہتی وہ کچن کی طرف چل دی ۔وہ جانتی تھی ۔اب خالہ اظہر کو سمجھائیں گی۔ کیوں کہ وہ جتنا اظہر سے پیار کرتیں تھیں ۔اتنا ہی اسے بھی چاہتی تھیں ۔
صبح اظہر اس سے کلام کیے بنا بغیر ناشتے کے آفس چلے گئے ۔ان کی چیزیں آج بھی زبیدہ خاتون نے سمیٹیں ۔گھر
میں رفتہ رفتہ سرد جنگ چھڑ گئی ۔کوئی بھی اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔اظہر نے کھانا باہر سے کھانا شروع کر دیا۔وہ رات گئے واپس آتا جب نوشی سو چکی ہوتی۔ صبح ضد میں اور زیادہ چیزیں بکھیر کر چلا جاتا ۔جنہیں زبیدہ خاتون کو اس کے جانے کے بعد سمیٹنا پڑتا ۔