دن پر دن گزر رہے تھے۔ وہی روز کی روٹین اس دن بھی وہ بچوں کو اسکول اور اظہر کو آفس بھیج کر خالہ کو ناشتہ کروا کے سٹور چلی آئی۔ کچن کا سامان تقریباً ختم تھا ۔وہ پہلے ہر سنڈے اظہر کے ساتھ علاقے کے ہی شاپنگ سینٹر سے سب سامان خرید لیا کرتی تھی ۔مگر اسے بارگننگ کی بری عادت تھی ۔حالانکہ شاپنگ سینٹر میں ہر چیز کی پرائس فکس ہوتی ہے ۔ہر چیز پہ لگے ٹیگ پڑھ کے بھی وہ سیلزمین سے بحث میں پڑ جاتی کئی نادیدہ اسٹورز کا حوالہ دے کر قیمتیں کم کروانے کی کوشش کرتی رہتی ۔پہلے پہل تو سیلزمین اس کی باتوں پہ ہنستے اور فکس پرائس پر بھی بحث کرنے پہ بیزار ہوتے مگر مسکرا کے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔پھر آہستہ آہستہ ان کی بیزاری کی جگہ ناگواری نے لے لی ۔ ایسے موقعوں پہ اظہر پہ گھڑوں پانی پڑ جاتا ۔سیلزمین کی آنکھوں میں صاف لکھا ہوتا ۔
"سمجھائو یار اپنی پاگل بیوی کو فکس پرائس پہ بھی بحث کیے جا رہی ہے۔ " اظہر مارے شرمندگی کے اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے جاتے ۔آخر کب تک شرمندہ ہوتے رہتے ۔نوشی کا پھر وہی موقف تھا۔
"ارے آپ نہیں جانتے ان لوگوں کی مکاریوں کو۔ ان لوگوں کو سستے داموں میں سامان ملتا ہے یہ ٹیگ بدل کر اپنی پسند کی قیمتیں سیٹ کر لیتے ہیں ۔" وہ اس کے ساتھ گھسٹتے ہوئے بھی بولی جاتی ۔اظہر اس کی حرکتوں سے سخت پریشان ہو گئے ۔آخر انہوں نے ایک حل نکالا۔ اب وہ نوشی کو خریداری کے لیے شاپ کے اندر بھیج کے خود گاڑی میں بیٹھے رہتے ۔کیونکہ ان کے خیال میں نوشی کو کوئی چیز سمجھانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
سیلزمین نے بھی خندہ پیشانی سے چند دن ہی برداشت کیا ۔پھر ایک دن مالک کو بھی بلا لیا دونوں نے اسے کھری کھری سنا کے روانہ کر دیا ۔وہ اس دن خوب سیخ پا رہی بس نہیں چلتا تھا اس سیلزمین اور مالک کا جا کے گلا دبا دے۔مگر یہ اس کے بس میں نہیں تھا۔وہ سارا دن اس نے سٹور کے مالک اور سیلزمین کو غائبانہ کوستے گزارا ۔ پھر اس نے اپنے علاقے کے سٹور میں جانا ہی چھوڑ دیا۔اور ساتھ ہی کچھ حد تک بارگننگ کی عادت بھی۔اب اس نے ٹیکسی کر کے اپنے علاقے سے دور ایک شاپنگ سینٹر میں جانا شروع کر دیا ۔
"واٹ آ پلیزینٹ سرپرائز یار نوشی کیسی ہو تم ۔؟"
اس وقت بھی وہ ٹیگ پہ لگی پرائس دیکھ دیکھ کے حیران ہو رہی تھی ۔جب پیچھے سے ایک شناسا آواز سن کے ٹھٹک گئی۔
"ارے سارہ کی بچی تم ، کیسی ہو ؟کب پاکستان آئی مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کیا ؟" ایک سانس میں نوشی نے کئی سوال پوچھ لیے تو سارہ قہقہ لگا کے ہنس دی ۔
"صبر ،صبر کیا ہو گیا ہے یار ایک سانس میں اتنے سوال سانس تو لو یار ۔بالکل نہیں بدلی تم پہلے جیسی جذباتی اور جلد باز ہو ۔" سارہ نے مسکراتے ہوئے اسے گلے لگایا تو وہ شرمندہ ہو گئی ۔
" مگر ان دس سالوں میں تم بہت بدل گئی ہو ۔ تم تو وہ سارہ ہی نہیں رہی جو دو پونیاں کیے کالج آتی تھیں ۔ ساری لڑکیاں تمھیں چھیڑتی تھیں کہ بڑی ہو جائو اب کالج آ گئی ہو۔ اب تو کیا ٹھاٹھ باٹھ ہیں جناب کے آخر امریکہ والا شوہر جو مل گیا ہے جنابہ کو ۔" رشک سے بھرپور لہجے میں سارہ کے لیے ستائش تھی ۔ریڈ کلر کے ڈیزائنر سوٹ میں بے حد قیمتی بیگ کاندھے پہ ڈالے سارہ مسکرا دی ۔
"تم کیا جانو پگلی سکھی کہ خوشیوں کے ہنڈولے میں کانٹوں کی کتنی میخیں جڑی ہوتیں ہیں ۔ جو بظاہر بہت سنہری اور بے ضرر نظر آتیں ہیں۔ مگر حقیقت میں بہت تکلیف دے اور ناقابل برداشت ہوتی ہیں " سارہ سوچ کر رہ گئی۔ کہہ سکی تو بس اتنا ۔
"تمھیں کیا پتا پردیس کے کیا کیا دکھ ہوتے ہیں۔۔کئی کئی سال تو اپنوں کی شکل دیکھنے کے لئے ترس جاتے ہیں۔ خیر چھوڑو یہ بتاؤ کہ تم لوگ کہاں رہتے ہو ۔آجکل میں نے سنا ہے ۔افضل چاچا نے وہ گھر بھی چھوڑ دیا ہے۔ تمہارا نمبر بھی شاید چینج ہوگیا ہے۔" بات کو ہنسی کا رنگ دیتے ہوئے اس نے بات کا رخ نوشی کی طرف موڑ دیا تو ساتھ چلتے ہوئے نوشی مسکرا دی۔
"وہ گھر چھوڑ دیا یار ! اپنا لے لیا تھا ۔وہیں کراچی میں پھر میری خالہ کے گھر شادی ہو گئی ۔اظہر میرے کزن جانتی تو ہو تم انہیں ۔اب تو بچے بھی ہیں ماشاءاللہ"اپنے بارے میں بتاتے ہوئے اس کے چہرے پہ رنگ ہی رنگ تھے ۔سارہ مسکرا دی ۔اپنوں سے جدائی کے سوا غم تو اس کی زندگی میں بھی کوئی نہیں تھے۔ بس پردیس کی تنہائی اس کو راس ہی نہیں آ رہی تھی ۔واپس جا کے ہفتوں پریشان رہتی تھی۔
"اظہر صاحب تو بہت اسمارٹ اور زہین تھے ۔ یقیناً اچھے شوہر بھی ہوں گے ۔تم تو بہت خوش ہو گی ۔" شاپنگ سینٹر سے نکلتے ہوئے سارہ نے کہا ایک پل کو نوشی مسکرا کے رہ گئی ۔اسے بہت ساری خوشیوں میں اپنی وہ چھوٹی سی الجھن یاد آ گئی ۔جو آج کل اس کی جان کو آئی ہوئی تھی۔
"ایک الجھن ہے تو سہی مگر یہاں نہیں بتا سکتی ۔کیا ہم کہیں بیٹھ کے کافی پی سکتے ہیں ۔؟ اگر تمھیں جلدی نہیں تو" اس نے سامان ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے ۔اپنی الجھن سارہ سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا ۔
اگلے آدھے گھنٹے میں وہ ریسٹورنٹ میں کافی پیتے ہوئے ساری کتھا سارہ کو سنا چکی تھی۔اور سارہ کے مشورے نے ثابت کیا کہ اس کا فیصلہ غلط نہیں تھا ۔اس دن اس ریسٹورنٹ سے وہ بہت مطمئن ہو کے اٹھی تھی۔