وہ شادی کر کے حیدرآباد اپنی سگی خالہ کے گھر آئی تھی ۔ زندگی مکمل طور پہ چینج ہو گئی تھی ۔ گو خالہ نے ہمیشہ ماں جیسا پیار دیا تھا ۔اور شوہر صاحب تو تھے ہی اس کی خوبیوں کے معترف ۔مگر پھر بھی بہت کچھ بدل گیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ مانی اور شانی نے آ کر زندگی میں جو تھوڑی بہت کمی تھی اس کو پورا کر دیا ۔ خالہ تو گویا ہوائوں میں اڑنے لگیں ۔مانی اور شانی کو ہتھیلی کا چھالا بنا لیا اکلوتے بیٹے کے دو سپوت گویا ان کی دو آنکھیں تھی ۔جان تو وہ بیٹے اور بہو پہ بھی دیتی تھیں ۔مگر انہیں بھی اصل سے سود پیارا تھا۔اس بے تحاشہ محبت نے جہاں کئی کمیاں پوری کیں ۔ وہیں مانی اور شانی کو بے حد ضدی اور بے ترتیب شخصیت کا مالک بنا دیا تھا ۔اس ساری صورتحال نے نوشین اظہر جیسی سگھڑ اور سلیقہ مند لڑکی کو چکرا کے رکھ دیا ۔اس دن بھی وہ اپنی طرف سے کچن سمیٹ کر آٹا گوندھ کر آٹےوالا برتن ٹھکانے لگا کے کمرے میں جانے لگی ۔ تو لائونج سے گزرتے ہوئے وہ شانی اور مانی کو لڈو کھیلتے ہوئے دیکھ کر غصے سے بھنا گئی۔ ۔ ۔ ۔
"مانی شانی ۔۔! میں نے تم لوگوں سے کہا تھا ۔ میرے کچن سے فارغ ہونے سے پہلے مجھے سوئے نظر آئو تم ۔ اور تم یہاں کھیل رہے ہو" اس نے جا کے صوفے پہ مانی کے مقابل بیٹھے شانی کو کان مروڑ کر کھڑا کیا تو وہ واویلا مچانے لگا ۔ ۔
"ماما ! آہ چھوڑیں درد ہو رہی ہے سو جاتے ہیں ۔چھوڑ دیں پلیز کل سے جلدی سوئیں گے وعدہ " درد سے کراہتے ہوئے وہ وعدے وعید پہ اتر آیا۔
"میں خوب جانتی ہوں تمھارے جھوٹے وعدوں کو۔ روز ایسے ہی بارہ بجا دیتے ہو۔ پھر صبح میں جانتی ہوں میں کیسے تم گدھوں کو اٹھاتی ہوں۔ تم لاتوں کے بھوت باتوں سے مانتے ہی نہیں" غصے میں اس کی آواز بلند ہو گئی تھی ۔خالہ افتاں و خیزاں بھاگی چلی آئیں ۔ ۔ ۔
"ارے ارے ۔ ۔ ۔ ۔یہ کیا کر رہی ہوں معصوم بچوں کو ایسے مارتے ہیں بھلا؟؟؟دیکھو تو کیسے معصوم سے بچے کا کان لال کر کے رکھ دیا ہے۔" شانی کو کھینچ کر اپنے ساتھ لگا کر چمکارتے ہوئے وہ اسے لتاڑنے لگیں تو وہ اور سیخ پا ہوئی۔
"خالہ آپ ان کی حمایت مت کیا کریں ۔میں ابھی انہیں کہہ کے گئی ہوں کہ میرے کچن سمیٹنے سے پہلے تم لوگ سوئے نظر آئو ۔ میں نے کچن بھی سمیٹ لیا ،برتن بھی دھو لیے ،صبح کے لیے آٹا بھی گوندھ لیا یہ وہیں کے وہیں ہیں ۔ " لہجے کو زبردستی نرم کرتے ہوئے وہ نرمی سے بولی ۔
"ارے ۔ ۔ ۔ میں نے ہی تو کہا تھا ان سے کہ کھیل لیں یہ ہی تو عمر ہے ان کی کھیلنے کی۔ اب کیا تمھاری عمر میں جا کے کھیلیں گے؟؟" اشارے سے دونوں بچوں کو لڈو سمیت اپنے کمرے میں بھیجتی زبیدہ خاتون نے کڑے تیوروں سے نوشین سے پوچھا تو وہ کراہ کر رہ گئی ۔
"خالہ ! میں تھک جاتی ہوں۔ میرے سے اب اتنا کام نہیں ہوتا میں چاہتی ہوں یہ اپنی زمہ داری سمجھیں۔ اپنی بکھیری چیزیں خود سمیٹیں۔ ٹائم پہ سوئیں ٹائم پہ جاگیں۔ جیسے شاہین باجی کے بچوں کی روٹین سیٹ ہے۔ ویسے ہی یہ بھی قائدے سے چلیں ۔تا کہ صبح اٹھیں تو چاک و چوبند ہوں اور اپنی پڑھائی پہ پوری توجہ دے سکیں ۔" انہیں رسان سے سمجھاتے ہوئے وہ پاس پڑے صوفے پہ ڈھے سی گئی۔ ۔ ۔
"ارے شاہین کی تو تم بات ہی نا کرو اس نے تو اپنے بچوں کو الارم والی گھڑی بنا رکھا ہے ۔ اس وقت کھانا کھانا ہے ، اس وقت سونا ہے ،اس وقت کھیلنا ہے ، اس وقت بات کرنی ہے۔ بھلا بندہ کوئی ٹائم بم تو ہوتا نہیں جو ٹائم پہ ہی پھٹے گا ۔ اور تم کیوں تھک جاتی ہو لو چار پانچ لوگوں کے کام سے بھی کوئی تھکتا ہے ۔اور تھک بھی جاتی ہو تو اظہر سے کہو کام والی کا انتظام کر دے بچوں پہ کیوں غصہ اتار رہی ہو"وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے اسے سمجھاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں تو وہ ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ کمرے میں آئی تو رات کے دس بج رہے تھے ۔وہ بیڈ کرائون سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئی ۔ اپنے گرد کاغذات کا ڈھیر لگائے لیپ ٹاپ پہ مصروف اظہر چونک کے اسے دیکھنے لگ گیا۔
"کیا ہوا ؟ غصے میں لگ رہی ہو۔" کچھ لمحے وہ اس کے جواب کا منتظر رہا پھر کام میں مصروف ہو گیا ۔ ۔سوچ بچار کے بعد وہ دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی۔
"وہی روز کے مسائل مجھے سمجھ نہیں آتی میں خالہ کو کیسے سمجھاؤں اس طرح بچے بگڑ رہے ہیں ۔ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار ان کی عادات خراب کر رہا ہے ۔اسکول سے آتے ہیں ۔ بیگ یہ پھینک جوتے وہ مار کپڑے بدلے بنا ٹی وی کے آگے براجمان ہو جاتے ہیں ۔ پھر ڈانٹ ڈپٹ کر کے کپڑے بدلوا کے کھانا کھلاتی ہوں۔ جو نواب زادے کارٹون دیکھتے ہوئے ٹھنڈا کر کے کھاتے ہیں ۔پھر ہوم ورک کرنے کے لیے مجھے انہیں کتنی بار کہنا پڑتا ہے یہ میں ہی جانتی ہوں پھر رات تک یہ ہوتے ہیں اور ان کی مستیاں ہوتی ہیں کچھ کہتی ہوں تو خالہ میرے وہ لتے لیتی ہیں کہ کیا بتائوں؟؟" تفصیل بتاتے ہوئے ایک دم اس کی نظر اظہر پہ پڑی تو وہ جو دبی دبی ہنسی ہنس رہا تھا دیکھ لیے جانے پہ پیٹ پکڑ کے وہ قہقہے لگانے لگا کہ الامان الحفیظ ۔ نوشی تیورا کے رہ گئی ۔کشن اٹھا کے اظہر کو دے مارا جسے کیچ کر کے وہ ایک طرف رکھ چکا تھا۔
"مجھے لگ ہی رہا تھا تم کوئی نا کوئی شکایت لگانے والی ہو ۔ ایک بات تو بتائو آج تم میری ماں اور ان کے پوتوں سے اتنا جلتی کیوں ہو ؟کیا تمھاری دادی تم سے پیار نہیں کرتی تھیں ؟" ہونٹوں تلے مسکراہٹ دبائے وہ اس سے پوچھ رہا تھا ۔وہ جانتی تھی اب وہ اسے چڑا کے موضوع سے ہٹانا چاہتا ہے ۔
"نہیں جی میری دادی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں ۔ مگر اس پیار نے مجھے بگاڑا نہیں سنوارا تھا ۔جب کہ اب بچے بگڑ رہے ہیں ہر بات میں مجھے خالہ کی مثال دیتے ہیں منہ نہیں دھوئیں گے دادی کہتی ہیں بار بار منہ دھونے سے خشکی آتی ہے ، دوپہر کو نہیں سوئیں گے دادی کہتی ہے دوپہر کو سونے والے سست ہوتے ہیں لو بھلا بتاؤ یہ بھی کوئی بات ہے۔" ہاتھوں پہ لوشن ملتے ہوئے وہ بولی تو اس کے لہجے میں تلخی تھی۔
"پاگل لڑکی اماں پیار کرتی ہیں دونوں سے اس لیے وہ ان کے زیادہ ناز اٹھاتی ہیں ۔ جانتی تو ہو کہ اصل سے سود زیادہ پیارا ہوتا ہے ۔" نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے اظہر سنجیدگی سے بولے ۔
"اظہر. ۔! آپ بھی جانتے ہیں میں نے امی میں اور خالہ میں کبھی فرق محسوس نہیں کیا ہمیشہ یہ سمجھا کہ میری دو مائیں ہیں ۔ تم جانتے ہو جب ہم کبھی ناراض ہوتے ہیں تو خالہ آپ کو ناشتہ بنا کے دیتی تھیں اور آپ سمجھتے تھے میں نے بنایا ہے ۔اور میرے تکیے کے پاس گلاب اور سوری کا کارڈ رکھ دیتی تھیں میں سمجھتی تھی آپ نے رکھا ہے۔ اور ایسے ہی خاموش کردار نبھاتے ہوئے وہ ہماری صلح کروا دیتی تھیں ۔وہ میری ماں ہیں اظہر مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں مگر بات بچوں کی ہے۔" وہ نم آنکھوں سے کہتی چلی گئی ۔
" تم ضرورت سے زیادہ حساس ہو رہی ہو ۔ پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔" اسے سمجھاتے وہ پھر کام میں مصروف ہو گیا تو وہ بڑبڑاتی الارم سیٹ کر کے تکیے پہ سر پٹختی لیٹ گئی ۔ اظہر نے سائیڈ لیمپس بند کیے اور اپنا کام سمیٹ کر لائونج میں صوفے پہ آ بیٹھا ۔اسے ابھی کافی دیر تک کام کرنا تھا گھڑی رات کے گیارہ بجا رہی تھی ۔ رات کی فسوں خیزی اپنے عروج پہ تھی۔
"بعض دفعہ انسان جن چیزوں کو بہت معمولی سمجھ کے قابل توجہ نہیں گردانتا وہی چیزیں پھر انسان کو اس ناقابل تلافی نقصان میں مبتلا کر دیتی ہیں جن کا ازالہ ممکن ہی نہیں ہوتا"
"اوں ہون مجھے کیا میں ہی بچی ہوں دن رات کڑھنے کے لیے جو مرضی کریں۔ میں اب کچھ نہیں کہوں گی۔" اندھیرے کو گھورتے ہوئے اس نے سر جھٹک کر کروٹ بدلی۔