ساقیا اِیک نظر جام سے پہلے پہلے
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے
خوش ہو اِے دِل کہ محبت تو نبھا دی تو نے
لوگ تو اُجڑ جاتے ہیں اَنجام سے پہلے پہلے
ساقیا اِیک نظر جام سے پہلے پہلے
اَب تیرے ذِکر پر ہم بات بدل دِیتے ہیں
کتنی رَغبت تھی تیرے نام سے پہلے پہلے
ساقیا اِیک نظر جام سے پہلے پہلے
سامنے عمر پڑی ہے شب تنہائی کی
وہ مجھے چھوڑ گیا شام سے پہلے پہلے
ساقیا اِیک نظر جام سے پہلے پہلے
کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔ
غیر معروف سے گم نام سے پہلے پہلے
ساقیا اِیک نظر جام سے پہلے پہلے