جو دن۔۔۔جو عمر بچوں کے کھیلنے کودنے۔۔زندگی کو یادگار بنانے کے دن ہوتے ان دنوں اس بچی کا نکاح ہوچکا تھا- اسکے سارے خواب اسکی آنکھوں سے چھین لیے گئے تھے جو اس نے ابھی دیکھنے بھی شروع نہیں کیے تھے- وہ خواب دیکھتی بھی کیا جس کے ماں باپ ، بھائی بہن ، رشتدار کوئی بھی نہ ہو۔۔۔اسکی ایک داجی وہ بھی اسے اللہ کے حوالے کرکے خالقِ حقیقی سے جا ملیں تھیں- اور ایک ایسے شخص کے ساتھ ایسے بندھن میں جوڑ چکی تھیں کہ وہ آئندہ کبھی خواب دیکھ ہی نا پائے- اسے اس شخص کی عمر سے کوئی لینا دینا نہیں تھا پر یہ بندھن اسکے ﺫہن کو بہت متاثر کر چکا تھا۔۔۔وہ ابھی دو گھنٹے پہلے ہی ہوش و حواس میں آئی تھی-
ان دونوں کا نکاح ہو چکا تھا ریان اسے اپنے گھر لے آتا ہے کیونکہ اب داجی بھی نہیں تھی اسکا ایک ہی سہارا بس ریان شاہ تھا اور اس معصوم لڑکی نے دنیا دیکھی کب تھی جو وہ اکیلی رہ جاتی-
ریان بھی ایسا نہیں چاہتا تھا کی وہ اکیلی رہے-اب وہ اسکی ﺫمہ داری تھی اور وہ اپنی ﺫمہ داریوں کو نبھانا اچھے سے جانتا تھا-!!
"تم یہاں سکون سے رہو- کوئی بھی پریشانی ہو یا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو مجھے بتا دینا۔۔۔۔ٹھیک ہے؟؟" اس نے اثبات میں سر ہلا دیا-
ریان اپنے روم میں آکر سوچنے لگا کہ اب حویلی میں کیسے یہ خبر دینی ہے- یہ بات وہ کسی کو فون پہ بتا بھی نہی سکتا تھا اسے پتہ تھا اسکی باتیں سن کے آغاجان نے قیامت برپا کر دینی ہے-
وہ اپنے فیصلے دوسروں کو کب خود کرنے دیتے تھے جو ریان کر چکا تھا-پر اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
"کال کرو اسے اور کہو فوراً پہنچے حویلی-" آغاجان اپنے بیٹے نواز شاہ کو حکم جاری کرکے چائے کی طرف متوجہ ہوگئے تھے- اور اوپر ٹیرس پہ کھڑی عریبہ خوشی سے جھوم اٹھی تھی کی اب وہ بس اسکا ہو ہی جائیگا کیونکہ یہ فیصلہ آغاجان کا تھا-
ان کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی تو فیصلہ سے انکار کرنا دور کی بات تھی۔۔ ہمیشہ وہ اپنی من مانیاں کرتے آئے تھے تبھی آج انکا بیٹا اور پوتا ان سے دور تھا۔۔۔!!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
عشال کو بہت بھوک لگی تھی پر وہ بولتی کس کو کوئی ہوتا اسکو سننے والا تو وہ بولتی- پر جب زیادہ دیر گزر گئی تو وہ کچن میں آگئی اسے پورے کچن میں ایک چاکلیٹ جار کے علاوہ کچھ نظر ہی نہی آیا۔۔۔تو اس نے وہی چاکلیٹ جار اٹھا کر انگلیوں سے کھانا شروع کردیا۔۔ اتنی دیر میں ایک عورت اسے نظر آئی جو یہاں کام کرتی تھی
"بٹیا جی اسکو بریڈ پہ لگا کے کھاتے آپ ایسے نا کھائیں صاحب نے دیکھ لیا تو ﮈانٹ پڑی گی آپکو۔۔۔انکو کچن میں گند پسند نہیں ہے-"
وہ عورت ایک ہی سانس میں اسے بتا کے چلی گئی تھی-
اب اس بیچاری چھوٹی سی لڑکی کو بریڈ کی کیا سمجھ تھی وہ تو میٹرک پاس بھی نہی تھی۔۔وہ اسی طرح انگلیوں سے کھاتی رہی-
ریان جو کھانا کھانے آرہا ہوتا اسکو دیکھ کے مسکراتا ہے پھر فریج سے بریڈ نکال کر اسکے پاس آکر جار اس سے لے لیتا ھے۔
"اسکو ڈبل روٹی پہ لگا کے کھاتے ہیں-"وہ اسے سلائس پکڑاتے ہوئے بتاتا ہے اور خود کیلئے کھانا نکالتا ہے-
"تمہیں بھی بھوک لگی ھوگی نکال دوں کھانا؟؟"
وہ اس سے پوچھتا ہے اور عشال جو بھوکی بیٹھی ہوتی ہے فوراً سر اثبات میں ہلا دیتی ہے۔۔!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ریان آج اسی وقت حویلی پہنچو۔۔تمہارے آغاجان کا حکم ہے-"
ریان نے ابھی پہلا نوالہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ نواز شاہ کی کال آگئی-
"ایسی بھی کیا بات ہوگئی ہے بابا جو آغاجان کو اتنی جلدی پڑی ہے۔۔۔کہا تو تھا کل صبح آجاؤں گا۔۔" ریان نے ایک نظر عشال پہ ﮈالی جو سر جھکائے چپ چاپ کھانے سے انصاف کرنے میں مصروف تھی۔۔!!
"وہ تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں عریبہ سے جلد از جلد۔۔۔"
یہ بات تو اسے پتہ ہی تھی کہ آغاجان کیا کچھ سوچ بیٹھے ہیں پر یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اتنی جلدی مچائیں گے-نواز شاہ کی بات پر اسکے دماغ میں جکر چلنے لگے تھے-بھوک بھی مٹ چکی تھی
"ٹھیک ہے بابا میں رات تک آنے کی کوشش کرتا ہوں-"
ٹھیک ہے بیٹا اللہ حافظ!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
"عافی۔۔عافی۔۔سنو نا۔۔۔" عریبہ اسے جنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کرتی ہے پر وہ جان بوجھ کر سوتی بنی رہی
"ٹھیک ہے سوتی رہو میں تو تیار ہو رہی ہوں ریان جو آرہا ہے" عریبہ خوش ہوتے ہوئے بولی جا رہی تھی اسے تو خبر بھی نہی تھی کہ اسکی خوشیاں ملیامیٹ ہونے والی ہیں-
"یہ کیا کہ رہی ہو کل تک تو بھائی کا ارادہ ہی نہیں تھا آج اچانک کیسے۔۔؟ عافیہ ریان کا نام سنتے ہی اٹھ گئی تھی-
"میں نے خود سنا ہے آغاجان نے بلایا ہے وہ یقیناً مجھ سے شادی کرنے کیلئے بلا رہے ہونگے۔۔!!" عریبہ چہک چہک کر بتا رہی تھی اور عافیہ سوچتی رہی کہ ریان بھائی مان جائینگے اتنی آسانی سے شادی کیلئے۔۔۔۔۔؟
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
"عشو میرا جانا ضروری ہے۔۔کل شام تک میں واپس آجاؤں گا!! وہ اسے بہلانے میں مصروف تھا جب سے اسنے اپنے جانے کا بتایا عشال کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے-
"آپ مجھے گندی بچی سمجھتے ہیں تو کیوں لائے آپ مجھے یہاں اور اب داجی کی طرح آپ بھی چھوڑ کے جا رہے ہیں۔۔!!" اسکے آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
"میں چھوڑ کے نہیں جا رہا عشو۔۔۔کل شام تک پکا واپس آجاؤں گا-" وہ اسے بچوں کی طرح بہلا رہا تھا۔۔
"نہیں آپ مجھے وہاں چھوڑ آئیں جہاں وہ بچے رہتے جن کے ماں باپ ان سے محبت نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔میرے ماں باپ بھی مجھ سے محبت نہیں کرتے تھے، نہ داجی محبت کرتی تھیں تبھی وہ مجھے اکیلا چھوڑ گئیں آپ بھی چلیں جائیں۔۔۔"
وہ معصوم بچی رو رو کے بولی جا رہی تھی۔۔۔ریان کو اس پہ ترس آرہا تھا۔۔۔!!
"اچھا بابا ٹھیک ہے تم بھی میرے ساتھ چلو۔۔۔۔اب رونا نہی۔۔۔۔جا کر جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔!!"
ریان نے اسکے گالوں پر پیار کرتے ہوئے کہا تو وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور تیار ہونے بھاگ گئی۔۔۔ریان مسکراتا رہا۔۔۔۔!!!!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ارے واہ۔۔واہ۔۔۔اتنی تیاریاں کس لیے ہورہی ہیں میری بہنا"۔۔۔۔۔زین جو عافیہ کو بلانے آیا تھا عریبہ کی تیاریوں کو دیکھ کے چپ نہ رہ سکا ویسے کونسا اسکی زبان بند رہتی تھی۔۔!!
"ریان آرہے ہیں رات کو" عریبہ نے شرماتے ہوئے کہا جیسے وہ اسکے سامنے کھڑا ہو-
"آہم۔۔آہم تبھی میک اپ کی دکان لگائی بیٹھی ہو-"زین اور سنجیدہ ہوجائے یہ ناممکن تھا اور احمد کے ساتھ مل کر تو دونوں کی شرارتیں دوسروں کو کانوں کو پکڑنے پہ مجبور کردیتی تھیں-
"بکواس نہ کرو اور دفع ہوجاؤ یہاں سے ورنہ میں گلا دبا ﮈالوں گی تمہارا۔۔" عریبہ کو اسکی باتیں غصہ دلا دیتی تھیں-
"ہائے ہمارے جینا کسی کو بھاتا کیوں نہیں ہے جب دیکھو ہم دونوں کو مار ﮈالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں" احمد کب پیچھے رہ سکتا تھا جہاں زین وہاں احمد نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا-
"تم دونوں کی حرکتیں بھی مار ﮈالنے والی ہیں ریان کو آنے دو میں شکایت لگاتی ہوں" عریبہ کا غصہ ساتویں آسمان تک پہنچنے والا تھا-
وہ دونوں بھاگ گئے کہ آغاجان ہی کہیں نہ سن لیں ان کی باتیں پھر جو کلاس لگنی تھی وہ رات تک چلتی رہنی تھی۔۔!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
وقار شاہ (آغاجان) کی 4 اولادیں ہیں نواز شاہ انکی پہلی اولاد ہے انکی شادی خاندان میں ہوئی تھی اورعائشہ انکے لیئے ایک اچھی ہمسفر ثابت ہوئی تھیں- انکا ایک ہی بیٹا ریان شاہ ہے جو اسلام آباد میں اپنی پوسٹ کی وجہ سے ہوتا تھا-
مبین شاہ وقار شاہ کی دوسری اولاد تھے انکا ایک بیٹا احمد جو کہ یونیورسٹی جاتا ہےاور انکی اکلوتی بیٹی مہک جو میٹرک کرچکی ہے اب گھر میں ہوتی ہے-
عظمی شاہ وقار شاہ کی تیسری اولاد تھیں۔۔وہ بھی خاندان میں بیاہی گئیں تھیں انکے شوہر اظہر سعودیہ میں ہوتے ہیں اسیلئے اب وہ زیادہ تر میکے ہی ہوتی ہیں انکی دو بیٹیاں عریبہ اور عافیہ ہیں عریبہ کو پڑھنے کا شوق نہیں تھا اسنے میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کی تھی اور عافیہ مہک کے ساتھ ہی میٹرک کے نتائج کے انتظار میں تھی۔۔۔زین اس گھر کی رونق اور شرارتی لڑکا تھا وہ بھی احمد کے ساتھ یونیورسٹی جاتا اور باقی سارا دن سب کو ستاتھا۔۔۔!!!
عرفان شاہ وقار شاہ کی آخری اولاد جن کو سب چاہتے بھی بہت تھے کیونکہ انکی پرورش انکے باپ،بھائی اور بہن نے مل کر کی تھی- ان کی پیدائش کے وقت ہی انکی ماں خالق حقیقی سے جا ملی تھیں-
انہوں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی اور وقار شاہ کے فیصلوں کو ٹھکرایا تھا- جس کی وجہ سے آج تک ان پہ شاہ حویلی کے سارے دروازے بند تھے-
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
ج سے میرے صرف دو بیٹے ہیں جو آج تک میرے ہر فیصلوں کو مانتے آئے ہیں جو میرے فیصلوں کو ٹھکرائے گا اسکے لئیے اس حویلی کے سارے دروازے بند ہوجائیں گے" آغاجان اپنا فیصلہ سنا کے جا چکے تھے اب انکا یہاں کوئی کام نہیں تھا اسی لیے وہ اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر ہمیشہ کیلئے شاہ حویلی چھوڑ کر جا رہے تھے-
"چاچو۔۔۔پیچھے سے آواز لگانے والا صرف انکا پیارا بھتیجا تھا۔۔۔بابا چاچو کو روکیں۔۔وہ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔۔!! وہ پانچ سال کا بچہ اپنے باپ کو جھنجوڑ رہا تھا پر اسکےبابا اسے وہیں چھوڑ کر اپنے کمرے کے طرف بڑھ گئے۔۔!!
'چاچو آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں۔۔پلیز چاچو۔۔۔۔وہ رو رو کے اپنے چاچو کو روکنے والا ایک ہی تھا!!
عرفان نے اسے اپنے ساتھ لگا کے اسکے آنسو صاف کیے۔۔۔۔!!
'میرا بھتیجا روتا تو نہیں تھا۔۔وہ تو بہت بہادر ہے نا۔۔۔اسکے چاچو اسکے لیئے چاکلیٹ لینے جارہے ہیں۔۔۔میں اپنے بھتیجے کے پاس واپس آجاؤں گا-'
چھوڑ کر جانے والے صرف بہلاوے ہی دے سکتے تھے جو کہ اس وقت عرفان شاہ بھی اپنے بھتیجے کو دے رہے تھے اور وہ بچہ تب بھی انکے بہلاوے میں نہیں آیا تھا۔۔۔اسکی ماں کو ہی زبردستی اسے لانا پڑا تھا-ورنہ آغاجان سے کوئی بعید نہ تھی کہ وہ معصوم بچے پر بھی ہاتھ اٹھا لیتے۔۔!!
عرفان ہم کہاں جائیں گے؟؟ یہ انکی بیوی کی آواز تھی جو ان سے سر چھپانے کی جگہ کا پوچھ رہی تھیں-
فاطمہ ہم پہلے سے ہی جانتے تھے کہ آغاجان کبھی آپکو اپنائیں گے نہیں اور یہی بات ہم نے آپکو شادی سے پہلے بتا دی تھی اب ہم بس شہر جاکر اسی فلیٹ میں رہ سکتے ہیں جو ہمارا ہے-!!
♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡