روحاب پولیس اسٹیشن سے باہر نکلا اور پولیس موبائل میں بیٹھنے لگا جب ایک لڑکی تیزی سے اس کے پاس آئی۔
انسپکٹر روحاب میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔
روز اخبار میں آپ کے کارناموں کے بارے میں پڑھتی ہوں۔
آپ تو خطروں کے کھلاڑی ہیں۔
ہر مجرم کے سراغ کا پتا لگا لیتے ہیں۔
میں آپ کے ساتھ ایک سیلفی لینا چاہتی ہوں کیا میں لے سکتی ہوں۔
روحاب نے اس پاگل لڑکی کو دیکھا اور بولا۔ایکسکیوزمی کیا آپ سائیڈ پر ہونگی اس وقت ہمیں ایمرجنسی کیس آن پڑا ہے اس لئے محترمہ راستہ دیں۔مگر وہ محترمہ سن کہاں رہی تھی بس ایک سیلفی کی رٹ لگاۓ جا رہی تھی۔
اور پھر روحاب کے غصے کی پرواہ کیے بغیر ایک کی بجاۓ دو سیلفیاں لے ڈالیں۔
اور ٹیھنک یو سو مچ کہتی ہوئی جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے واپس چلی گئی۔
انسپکٹر روحاب اس گروہ کے ٹھکانے کا پتا معلوم ہو گیا ہے ہمیں اس گروہ کو پکڑنے میں دیر نہیں کرنی حولدار نے آکر بتایا۔
تو وہ گاڑی میں بیٹھ گیا اور باقی حولدار بھی پیچھے بیٹھ گئے۔
۔****************************
وہ دونوں بیٹھے قہقے لگا رہے تھے اتنی خوبصورت لڑکی لانے پر ان دونوں کی پیسے کے متعلق سوچنے پر خوشی ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔
ان کے ساتھ اب اور تین لڑکے بھی موجود تھے جو کسی لڑکی کو لانے کی بجاۓ خالی ہاتھ لوٹے تھے۔آجاؤ نکمو تم لوگ خوبصورت تو کیا کوئی عام لڑکی بھی اٹھا کر نہیں لائے اور ہمیں دیکھو کیسا مہتاب اٹھا کر لائے ہیں۔
وہ دونوں اپنا کارنامہ انہیں بتا رہے تھے جبکہ دوسری طرف سجل چلا رہی تھی پلیز آگ کو بھجا دو۔
مگر وہ سن کہاں رہے تھے وہ تو بس اس پکار کے انتظار میں تھے کہ ہاں میں جاؤں گی۔
تب ہی باہر سے پولیس کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور ساتھ ہی ساتھ فائرنگ بھی شروع ہوگئی۔
پولیس نے تم لوگوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اس لئے بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔
اس سے پہلے کہ وہ واقعی میں بھاگنے کی کوشش کرتے پولیس دروازہ توڑ کر اندر آگئی۔
سجل کو اتنا تو معلوم ہو چکا تھا پولیس آن پہنچی ہے مگر وہ آگ کے دھویں کی وجہ سے کچھ دیکھ نا سکی۔
کوئی آگ بھجانے کے لئے پانی ڈال رہا تھا۔
ایک طرف سے آگ بھجانے پر دوسری طرف سے آگ اوپر اٹھتی۔
اس سے پہلے کہ وہ سجل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی کسی نے اسے درخت سے کھول کر وہاں سے قدرے دور کھینچ لیا۔
سجل آگ کی وجہ سے پسینے سے بھیگ چکی تھی۔اس کا سانس اکھر چکا تھا اور بے تحاشہ کھانسی شروع ہوگئی تھی۔
سجل تم ٹھیک ہو ناں؟۔۔۔
اس آواز پر سجل نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو اکھرا سانس بھی رکنے لگا۔
مسلسل آتی کھانسی کو بریک لگ گئی۔
سامنے روحاب اپنی پولیس کی وردی میں کھڑا فکر مندی سے اسے بازؤں سے تھامے کھڑا تھا۔
اس کا مطلب بابا جی جن کی بات کر رہے تھے وہ روحاب بھائی ہیں۔سجل کا تو سر چکرانے لگا۔
حولدار دیکھ کیا رہے ہو جلدی سے ہتھکڑیاں لگاؤ انہیں اور لے جاؤ گاڑی میں۔
روحاب نے انہیں حکم دیا جو یہ کام پہلے ہی کر چکے تھے۔تب ہی کہیں سے گولی کی آواز آئی جو روحاب کے بازو پر آکر لگی۔
گولی سجل کو لگنے والی تھی مگر روحاب سامنے آگیا۔
پکڑو ان کو دھیان کہاں ہے تم لوگوں کا۔روحاب غصے سے بولا۔کیوں کہ ان میں سے ایک لڑکا دیوار کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔
روحاب بھائی آپ ٹھیک تو ہیں ناں۔اب تو سجل کو واقعی میں یقین ہوگیا تھا کہ بابا جی ٹھیک کہہ رہے تھے۔میں ٹھیک ہوں گاڑی میں چلو۔
روحاب نے اسے اپنے ساتھ لئے گاڑی میں بٹھایا اور موحد کو کال کر کے پولیس اسٹیشن آنے کا کہا۔جب گاڑی پولیس سٹیشن کے سامنے رکی تو موحد وہاں موجود تھا۔
سجل کو موحد کے ساتھ گھر بھجوا کر وہ خود اندر چلا گیا۔
۔**************************
سجل میری بچی تم ٹھیک تو ہو ناں۔
ثمرین نے اسے بے تحاشہ چومتے ہوئے کوئی تیسری دفعہ پوچھا۔
میں ٹھیک ہوں ماما مگر روحاب بھائی کو گولی لگی ہے اور وہ بھی میری وجہ سے مجھے بچاتے ہوئے۔
سجل روحاب کے لئے فکر مند تھی۔
سجل بیٹا زیادہ پریشان مت ہو اور خود کو قصور وار مت ٹھہراؤ اس بارے میں کیوں کہ پولیس والوں کا تو کام بھی ایسی سچویشن کا سامنا کرنا ہے خطروں سے لڑنا اور دوسروں کو بچانا ہے۔
اور اس دوران گولیاں بھی کھانی پڑتی ہیں اور اس کے باوجود بھی ڈٹے رہنا ہی خود کو مضبوط کرنے اور اپنی وردی کے ساتھ مخلصی کا ثبوت ہے۔
بڑے ابا نے یہ کہہ کر سجل کی پریشانی کم کرنا چاہی۔سجل کو یاد پڑا کہ روحاب کو اس سے پہلے بھی دو دفعہ گولیاں لگ چکی تھیں مگر وہ ان کی پرواہ کیے بغیر ہر دفعہ اگلے دن ڈیوٹی کے لئے نکل پڑتا۔
۔*************************
ابیہا اب بس بھی کر دو رونا تمہاری دعا قبول ہو چکی ہے سجل مل گئی ہے۔
سفیان نے اسکے دعا کے لئے اٹھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے پیار سے کہا۔
کیا واقعی میں آپ سچ کہہ رہے ہیں سفیان۔ابیہا نے پوچھا اور پھر سفیان کے ہاں میں سر ہلانے پر دوبارہ سے ہاتھ اٹھا لئے اور شکر ادا کرنے لگی۔
سفیان پلیز آپ مجھے لے جائیں ناں سجل کے پاس۔ہاں کیوں نہیں چلو ابھی چلتے ہیں۔
سفیان نے فوراً حامی بھری۔
ابیہا اپنی چادر لئے سفیان کے ساتھ گاڑی میں آبیٹھی۔
۔***************************
موحد روحاب بھائی کو کیسے پتا چلا کہ میں کہاں ہوں۔سجل اصل میں تمہیں جن لوگوں نے پکڑا تھا وہ ایک گروہ تھا جو لڑکیوں کو اغوہ کر کے کوٹھے پر لے جاتا تھا۔
پولیس کتنے دنوں سے اس گروہ کی تلاش میں تھی جب میں نے انہیں تمہارے بارے میں بتایا تو انہیں گمان گزرا کہ ہونہہ یہ ضرور اس گروہ کا کام ہے۔
اور وہ تو شکر ہے کہ انہیں آج ہی ان کے ٹھکانے کی خبر ہو گئی اور وہ وقت پر وہاں پہنچ گئے۔
موحد تو کیا وہ اس کوٹھے پر موجود لڑکیوں کو بھی چھڑوا لیں گے۔
ہاں اس گروہ سے کوٹھے کا پتا اگلوا کر وہاں جن لڑکیوں کو زبردستی لے جایا گیا ہے انھیں چھڑوا لیں گے۔
اوہ تو یعنی جو لڑکیاں وہاں اپنی مرضی سے جاتی ہیں وہ وہیں رہتی ہیں اس لئے وہ آگ لگا کر مجھے منانے کی کوشش کر رہے تھے۔
سجل نے سوچا اور پھر شکر ادا کیا کہ باقی لڑکیوں کی طرف اسے بھی کوٹھے پر لے جایا نہیں گیا چاہے اسے بعد میں چھڑوا بھی لیا جاتا مگر اب کم از کم وہاں نا جانے اور اس پر طوائف کا دھبہ تو نہیں لگا ناں۔
۔***************************
میں بہت پریشان تھی تمہارے لئے مگر اللّه کا شکر ہے کہ تم بلکل ٹھیک ہو۔
ابیہا نے اس کے کمرے میں آتے ہی کہا۔ابیہا آپی میں نے آپکو بتایا تھا ناں کہ بابا جی نے کیا کہا تھا۔
ہاں بتایا تھا کیوں کیا ہوا۔آپکو پتا ہے ناں کہ روحاب بھائی نے مجھے بچایا ہے اس سے پہلے کہ آگ مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور پھر اس کے بعد میرے سامنے آکر گولی بھی خود پر کھا لی۔
وہ منظر بلکل ویسا ہی تھا جیسا بابا جی نے بتایا تھا۔انہوں نے پہلے مجھے ایک خطرے سے نکالا اور پھر دوسرا خطرہ بھی خود پر لے لیا۔
اب آپ ہی بتائیں میں اسے کیا سمجھوں۔
ابیہا کچھ دیر اس کی بات پر غور کرتی رہی اور پھر بولی۔
تم اسے وہی سمجھو جو بابا جی نے کہا ہے کیوں کہ مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے دیکھو سجل تم تو جانتی ہو کہ میں نہیں مانتی کہ اگر کوئی کسی خواب کی تعبیر بتا دیتا ہے تو پھر یقیناً ویسا ہی ہوتا ہے کبھی کبھی اس کے بر عکس بھی ہو جاتا ہے مگر میں ان بابا جی کی بات سے اس لئے متفق ہوں کیوں کہ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔
مگر آپی آپکو تو پتا ہے کہ روحاب بھائی کا رویہ میرے ساتھ کیسا ہے۔
اگر ٹھیک ہوتا تو مجھے ماننے میں آسانی ہوتی مگر اب تو میں یہ سوچنے اور مجبور ہو گئی ہوں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
دیکھو سجل روحاب کا رویہ تمہارے ساتھ پہلے کتنا روڈ تھا مگر اب بہتر ہوا ناں اور دیکھنا اب آہستہ آہستہ بلکل ٹھیک ہو جائے گا۔
اور ویسے ایک بات ہے کہ اگر میں تم دونوں کو ایک ساتھ امیجن کروں تو تم دونوں ایک ساتھ بہت اچھے لگتے ہو۔
اور میں دل سے چاہتی ہوں کہ تم دونوں کی قسمت ایک ساتھ لکھ دی جاۓ۔
ابیہا کی بات سے سجل کے دل میں ہلچل سی ہوئی۔ابیہا آپی آپ آج رات یہیں رک جائیں ناں۔
سجل نے بڑے مان سے اسے روکنا چاہا۔
میری جان میں ضرور رک جاتی مگر تائی امی گھر پر نہیں ہیں ناں اس لئے ہر چیز کی ذمہ داری فلحال مجھ پر ہے۔
اگر وہ گھر پر ہوتیں تو سفیان سے پوچھ کر ضرور رک جاتی مگر ابھی تو جانا ہوگا۔
سجل یہ سن کر اداس ہوگئی۔ارے اداس کیوں ہوگئی ابھی تم ایسا کرو سو جاؤ اور جب تم صبح اٹھو گی تو میں تمہارے پاس ہی ہونگی۔
سچ آپی سجل خوشی سے بولی۔
ہاں سفیان سے کہہ دوں گی کہ صبح آفس جاتے ہوئے مجھے یہاں ڈراپ کر جائیں۔
ابیہا نرمی سے اس کا گال چوتھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
۔**************************
معارج اور انعم کتنی دیر تک اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔
وہ دونوں بھی اس کے لئے بہت پریشان تھیں۔معارج تو اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
اور پھر کچھ دیر بعد انعم بھی جانے لگی تو سجل نے اسے اپنے پاس ہی روک لیا۔
انعم تم آج میرے پاس ہی سو جاؤ مجھے ڈر لگے گا۔انعم مسکراتی ہوئی اس کے ساتھ لیٹ گئی۔
سجل ثانیہ کے بارے میں سوچنے لگی سب اس کے مل جانے پر بھاگتے ہوئے یہاں چلے آئے تھے سواۓ ایک ثانیہ کے۔
اس کا کہنا تھا کہ میری طبیت ٹھیک نہیں ہے اور ویسے بھی سجل اب جب گھر آہی گئی ہے تو پھر کسی بھی وقت جا کر مل لوں گی ابھی جانا ضروری تو نہیں ہے۔
اس وقت سجل کی آنکھوں میں یہ سن کر آنسو آگئے تھے۔
اللّه نے اسے بڑی بہن دی بھی تو ایسی جس نے کبھی بڑی بہن کی طرح اس پر اپنی محبت نچھاور ہی نا کی تھی بلکہ ہمیشہ روب ہی جھاڑا تھا۔
ابھی بھی یہ سوچ کر سجل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
انعم نے اس کے آنسو صاف کیے اور بولی میں جانتی ہوں کہ آپ کیا سوچ رہی ہیں مگر آپ شائد بھول گئی ہیں کیا کہ آپکی ایک اور بہن بھی ہے جو کہ آپ سے بہت پیار کرتی ہیں یعنی کہ میں۔
اس لئے اب آپ دوبارہ رونا مت انعم نے اسے گلے لگا لیا۔سجل کے اندر جسے ٹھنڈ سی پر گئی۔
۔****************************
انعم کب سے سو چکی تھی جبکہ سجل ابھی تک جاگ رہی تھی صرف اور صرف روحاب کے انتظار میں۔
آج سے پہلے بھی روحاب کو گولیاں لگی تھیں مگر کبھی سجل نے اتنی فکر نہیں کی مگر آج نجانے کیوں اسے بہت فکر ہو رہی تھی۔
نیچے دروازہ کھلنے کی آواز آئی یعنی روحاب آگیا تھا۔روحاب جب کمرے میں چلا گیا تو سجل بھی بیڈ سے اٹھی کمرے سے نکلتی ہوئی اس کے کمرے کے پاس آئی اور دروازہ ناک کرنے لگی۔
روحاب بھائی میں آجاؤں۔۔
ہاں آجاؤ۔
روحاب کو جیسے معلوم تھا کہ وہ ضرور آئے گی۔اجازت ملنے پر سجل اندر چلی آئی۔
تم ابھی تک سوئی کیوں نہیں۔
روحاب نے اس کے ابھی تک جاگنے کی وجہ پوچھی کیوں کہ اس وقت ایک بج رہا تھا۔
وہ میں آپ کا انتظار کر رہی تھی۔
کیوں مجھ سے کوئی کام تھا کیا۔
نہیں بس آپ سے یہ پوچھنا تھا کہ آپ ٹھیک ہیں ناں پٹی تو کروا لی ناں آپ نے۔
تو اور تمہیں کیا لگ رہا تھا تب سے ایسے ہی گھوم رہا ہونگا ظاہر ہے پٹی تو کروانی ہی تھی۔
روحاب نے اس کے عجیب سوال کا جواب دیا۔
اچھا تو کھانا کھایا آپ نے۔کھانے کا موڈ نہیں چاۓ پی کر آیا ہوں تم زیادہ فکر مت کرو میری جاؤ جا کر سو جاؤ۔
روحاب اسے سونے کا بولتا اپنی واچ اتارتا خود بیڈ پر لیٹ گیا۔
روحاب بھائی آپکو پتا ہے سب مجھ سے ملنے آئے مگر ثانی آپی نہیں آئیں۔
نجانے کیوں سجل نے یہ بات روحاب سے کہہ ڈالی۔اور حیرانی کی بات تو یہ تھی کہ ثانیہ کے ذکر پر روحاب نے اسے ذرا بھی نا ڈانٹا۔
بلکہ الٹا یہ بولا کہ اسے اپنے علاوہ کبھی کسی اور کی فکر بھی ہوئی ہے کیا۔
احساس لفظ اس کو سوٹ نہیں کرتا تب ہی شائد وہ اس سے دور ہی رہتی ہے اس لئے تم اس کے بارے میں سوچ کر اپنا وقت برباد مت کرو۔
میں سونے لگا ہوں تم بھی سو جاؤ اور ہاں جاتے ہوئے لائٹ اور دروازہ ضرور بند کر جانا۔
سجل لائٹ اور دروازہ دونوں بند کرتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی۔
۔*******************