میں نے خوامخوا ہی سجل پر اتنا غصہ کر دیا کچھ زیادہ ہی غلط باتیں سنا دیں اسے جبکہ اسکا کوئی قصور ہی نہیں۔
اس نے جو بھی باتیں کی تھیں صرف اور صرف ثانیہ کی حمایت میں کی صرف اس کی محبت میں اور تو اور اس پر دل توڑنے کا الزام بھی لگا دیا۔
جبکہ سب کو معلوم ہے کہ وہ جتنی بھی شرارتی کیوں ناں سہی مگر کبھی اپنی شرارت سے یا ویسے بھی کسی کا دل نہیں توڑا۔
جبکہ میں نے جب جب وہ میرے سامنے آئی ہے تب تب کچھ نا کچھ کہہ کر اسکا دل توڑا ہے مگر اس نے پھر بھی کبھی میری کوئی بات دل میں رکھ کر اسکا برا نہیں جانا اسے ہمیشہ بھلا دیا۔
اور ایک میں ہوں کہ اب تک انہی باتوں کو دل میں لئے بیٹھا ہوں۔اس نے کہا تھا کہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں آپی۔
یعنی جو کچھ بھی اس نے کہا صرف اپنی آپی کی نظر میں ٹھیک ہونے پر کہا۔
میں جانتا ہوں کہ سجل کا کوئی قصور نہیں ہے کیوں کہ وہ جو کچھ بھی کہتی ہے ثانیہ کی حمایت میں کہتی ہے۔
وہ جو کچھ بھی کرتی ہے صرف اس کی محبت میں۔مگر سجل بھی تو سمجھے کہ وہ جس کی محبت میں کسی کی نظر میں بری بنتی ہے اسکو اسکی رتی بھر بھی پرواہ نہیں۔
وہ ثانیہ کی محبت میں چاہے کچھ بھی کر لے مگر وہ خوش نہیں ہو سکتی۔
روحاب یہی سب سوچتا بیڈ سے اٹھا اور اپنے کمرے سے نکلتا ہوا ثانیہ کے کمرے کی طرف آیا جو کہ اب سجل کا تھا۔
اس نے کمرے میں دیکھا تو سجل کہیں بھی نہیں تھی وہ سمجھا شاید ٹیرس پر ہوگی اس لئے آگے بڑھا۔
مگر سجل بیڈ کی دوسری سائیڈ سے ٹیک لگاۓ زمین پر بیٹھی تھی۔
روحاب اس کے پاس آیا۔اور اس کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا۔
اس سے پہلے وہ کبھی بھی خود سے سجل کے پاس نہیں آیا تھا۔سجل نے ابھی تک کپڑے نہیں بدلے تھے وہ ابھی بھی انہی بھیگے کپڑوں میں بیٹھی نجانے کن سوچوں میں گم تھی۔
آنکھوں سے آنسوؤں کی لکیر ابھی بھی بہہ رہی تھی۔سجل تم نے ابھی تک کپڑے چینج کیوں نہیں کیے۔سجل نے چونک کر دیکھا تو روحاب اس کے بلکل پاس بیٹھا ہوا تھا۔
اس نے بغیر کوئی جواب دیے اٹھنا چاہا تو روحاب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ واپس بیٹھا دیا اور بولا۔دیکھو سجل میں باہر سے تمہیں جتنا سخت اور اکڑو نظر آتا ہوں اتنا ہوں نہیں۔
ہاں اگر ہوں بھی تو صرف برے لوگوں کے لئے۔مجھے اپنی غلط باتوں کا احساس ہے۔
میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں تم سے نفرت بلکل بھی نہیں کرتا۔
ہاں مگر میرے دل میں تمہارے لئے ناپسندیدگی ضرور پیدا ہو گئی تھی ان باتوں کی وجہ سے جو کہ تم نے صرف ثانیہ کی حمایت میں کی تھیں نا کہ اپنے دل سے۔
میں تم پر غصہ کرتا ہوں کیوں کہ تم میرا غصہ اور میری ڈانٹ چپ چاپ سن لیتی ہو برداشت کر لیتی ہو۔
اگر تم وہ سب برداشت نا کرتی اور آگے سے بولتی تو شاید میں تمہیں دوبارہ ڈانٹتا بھی نہیں۔
مگر خیر میری ڈانٹ اتنی غلط بھی نہیں ہوتی کیوں کہ تمہاری شرارتیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔
مگر آج کی باتوں کے لئے میں یعنی اکڑو خان تم سے معافی مانگتا ہوں۔
"ایم ریلی سوری سجل"
میں نے جو بھی کہا اس کے لئے کیوں کہ تم ویسی بلکل بھی نہیں ہو جیسا میں سوچتا آیا ہوں۔
میں تو ہمیشہ تمہیں غلط ہی سمجھتا رہا کبھی ان باتوں کو سائیڈ پر رکھ کر تمہیں دیکھا ہی نہیں۔
لیکن آج تم نے اور تمہاری باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں غلط تھا۔
ایک گھر میں رہنے کے باوجود میں نے یہ جانا ہی نہیں کہ تم کتنی اچھی ہو۔روحاب کی اس آخری بات پر سجل نے اپنے بازو پر چٹکی کاٹی کہ کہیں وہ خواب تو نہیں دیکھ رہی۔
مگر چٹکی کاٹنے پر اس کے منہ سے سی کی آواز نکلی۔تب اسے یقین آیا کہ یہ خواب نہیں ہے۔
روحاب جو ایک دو لا ئینوں سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا آج اتنا کچھ بولنے کے بعد معافی بھی مانگ رہا تھا۔
"حیرت ہے یہ تو معجزہ ہوگیا"
روحاب بھائی معافی مانگ رہے ہیں اور وہ بھی مجھ سے یعنی آج معلوم ہوا کہ احساس نام کی چیز ان میں بھی موجود ہے۔
سجل میں تم سے بات کر رہا ہوں روحاب نے اس کی ساکت آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہراتے ہوئے اس اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔
کیا کہہ رہے تھے آپ۔سجل نے دوبارہ اپنی تسلی کے لئے پوچھا۔
میں نے کہا کہ تم ویسی بلکل بھی نہیں ہو جیسا میں نے سمجھا۔
ایم سوری ان سب باتوں کے لئے جنہوں نے تمہیں ہرٹ کیا۔سجل کو آج روحاب کا الگ ہی روپ دکھائی دیا۔سوری تو مجھے کہنا چاہیے روحاب بھائی۔
میں اکثر سوچتی تھی کہ اپنی ان سب باتوں کے لئے آپ سے معافی مانگ لوں۔
مگر اس بات سے ڈرتی تھی کہ آپ تو اس بارے میں ذکر ہی نہیں کرنا چاہتے ہوں گےکہیں میرے سوری کہنے پر آپکو اور غصہ ہی نا آجائے۔
تم ایک دفعہ ہمت کر کے آتی تو سہی شاید میرا غصہ تب ہی ختم ہو جاتا جو تب سے لے کر اب تک تھا۔
یعنی روحاب نے یہ بات کہہ کر یہ بتا دیا تھا کہ اسکا غصہ تب سے لے کر اب تک ہی تھا آج کے بعد نہیں۔روحاب مسکرا رہا تھا جبکہ سجل اسے آنکھوں میں حیرت لئے دیکھے گئی۔
روحاب بھائی مجھے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں حیرت سے کہیں میں بیہوش ہی نا ہو جاؤں۔
سجل یہی سوچ رہی تھی کہ اچانک لائٹ چلی گئی۔باہر موسم بہت خراب تھا کمرے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں اور پردے ہوا کی وجہ سے بار بار اڑ رہے تھے۔
سجل کو اندھیرے سے بہت ڈر لگتا تھا وہ تھوڑے بہت اندھیرے میں تو رہ لیتی تھی مگر جب مکمل اندھیرا ہوتا تو اسکی سانس رکنے لگتی۔
لائٹ بند ہونے کی وجہ سے ایک تو وہ پہلے ہی ڈر گئی تھی اوپر سے بادل گرجنا شروع ہو گئے۔
سجل ڈر کے مارے بے اختیار روحاب کے سینے سے جا لگی۔
ایسے موسم میں ہمیشہ معارج اور انعم اس کے ساتھ ہوتی تھیں تو وہ انہیں گلے لگا لیتی تھی اور شاید ابھی بھی وہ اسی بھول میں تھی۔
مگر جب اسے احساس ہوا تو جلدی سے بولی۔روحاب بھائی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
روحاب کے دل میں ایک دم کوئی خیال آیا۔
تین سال پہلے کچھ ایسا ہی منظر تھا جب ثانیہ ڈر کے مارے اس کے گلے لگ گئی تھی اور کہنے لگی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے روحاب۔
اور وہی وہ لمحہ تھا جب روحاب کے دل میں ثانیہ کی محبت کا پودا لگ گیا اور پھر آہستہ آہستہ وہ بڑا ہوتا گیا۔
مگر جس کی محبت کا پودا وہ دل میں لگاۓ بیٹھا تھا اسی نے وہ پودا جڑوں سمیٹ اکھاڑ کر پھینک دیا۔اور اب سجل اس کے سینے سے لگی وہی کہہ رہی تھی۔
روحاب نے دھیرے سے اسے خود سے الگ کیا اور بولا۔ویسے تو کبھی لائٹ نہیں جاتی مجھے تو لگتا ہے کہ مین سوئچ میں کوئی پرابلم ہو گئی ہے میں دیکھتا ہوں۔
میں بھی چلوں گی آپ کے ساتھ میں اکیلی یہاں نہیں رک سکتی اور وہ بھی اندھیرے میں۔
روحاب اٹھنے لگا جب سجل نے بھی اٹھنا چاہا۔ہاں آجاؤ۔
روحاب نے موبائل کی ٹارچ لائٹ آن کی اور اسے اپنے ساتھ آنے کا بولا۔
وہ دونوں سیڑھیوں کے نیچے لگے مین سوئچ کے پاس آئے۔
روحاب نے اسے موبائل پکڑا کر روشنی مین سوئچ کی طرف رکھنے کو کہا۔
جبکہ سجل روشنی اس کی طرف کیے اسے دیکھنے لگی اور سوچنے لگی۔
روحاب بھائی دل کے کتنے اچھے ہیں ناں بس میری وجہ سے ہی مجھ سے اتنے تلخ رہتے تھے۔
سجل بہتر ہوگا اگر تم لائٹ میرے چہرے پر مارنے کی بجاۓ مین سوئچ کی طرف رکھو۔
روحاب نے اسکو ابھی تک لائٹ ایک ہی پوزیشن میں اس کے چہرے کی طرف رکھے دیکھا تو بولا۔جی روحاب بھائی۔
سجل نے لائٹ فوراً مین سوئچ کی طرف کر دی۔اف کیا مصیبت ہے۔
روحاب اپنا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔کیا ہوا روحاب بھائی کرنٹ لگ گئی کیا جلدی سے پیچھے ہٹیں یہاں سے۔
اوهو سجل تم تو چپ کرو کوئی کرنٹ ورنٹ نہیں لگی مجھے دروازہ اکھرا ہوا ہے اسکا تھوڑا سا وہی لگا ہے۔
کہہ بھی رہا تھا تم سے کہ لائٹ اس طرف رکھو مگر تم تو کان بند کیے کھڑی ہو۔
اب صبح ٹھیک کرنا ہے اس دروازے کو یاد کروا دینا مجھے اور اگر میں نا ہوا تو موحد سے یہ کام کرنے کے لئے کہہ دینا سمجھ آئی۔
جی روحاب بھائی۔
سجل نے کسی فرمابردار بچے کی طرح سر ہلا دیا۔روحاب نے مین سوئچ چیک کرنے کے بعد اسکا مین بٹن جو کہ اس نے بند کیا تھا اب آن کر دیا صحن کا زیرو بلب جگمگا اٹھا۔
"اچھو"
سجل نے چھینک ماری اور پھر ایک نہیں دو نہیں اکٹھی چار۔
اس کی چھینکوں کی آواز پورے گھر میں گھونج اٹھی۔تم اوپر والوں کو نا سہی مگر لگتا ہے نیچے والوں کو ضرور اٹھا کر چھوڑو گی۔
اور اس سے پہلے کہ وہ تمہاری مزید چھینکوں سے اٹھیں اپنے کمرے میں چلو اور سونے کی تیاری کرو دو بج چکے ہیں۔
روحاب نے ٹائم دیکھا اور اسکو کہتا ہوا خود بھی اوپر آگیا۔
سجل کے ہاتھ سے موبائل لے کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
جبکہ سجل اسکی پشت کو دیکھنے لگی اور دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہونے لگی۔
مگر دھرم سے نیچے گری۔
"آہ"
اپنے کمرے کی طرف جاتا روحاب اسکی آواز پر واپس مرا اور پوچھنے لگا۔کیا ہوا سجل۔
کچھ نہیں روحاب بھائی وہ بس جوتا گیلا ہونے کی وجہ سے پاؤں پھیسل گیا۔
اس لئے کب سے کہہ رہا تھا کہ اپنا حلیہ درست کرو۔سجل جلدی سے اٹھی دروازہ بند کر کے واش روم میں گس گئی۔
اب اس سے کیا کہتی کہ آپکو دیکھنے کے چکر میں کھلے دروازے کا پتا ہی نہیں چلا۔
۔*************************
یہ ایک کھنڈر نما جگہ تھی جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔
سجل وہاں لگے درخت کے پاس کھڑی تھی۔ارد گرد آگ ہی آگ لگی ہوئی تھی۔
ڈر کے مارے سجل کانپ رہی تھی۔وہ آگ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔
ارد گرد سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں۔سجل میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ادھر سے ادھر ہل کر خود کو آگ سے بچا سکے۔
جب آگ بلکل اس کے قریب پہنچ گئی تو کسی مہربان ہاتھ نے اسے جلدی سے اپنی طرف کھینچ لیا۔
سجل آپی کیا ہوا کیوں چیخیں مار رہی ہیں۔انعم اس کی چیخ سن کر اٹھ بیٹھی تھی۔
سجل نے ارد گرد دیکھا تو وہ اس کا کمرہ تھا۔انعم آج پڑھتے پڑھتے اسی کے ساتھ سو گئی تھی۔
انعم میں نے خواب دیکھا اور وہ بھی بہت برا اور ڈراؤنا۔
آپی آپ آج سارا دن خوفناک ناول پڑھتی رہی ہیں ناں شاید اسی لئے آپکو ایسا خواب آیا ہے آپ یہ پانی پییں اور سو جائیں۔
سجل نے چپ چاپ پانی پیا اور لیٹ گئی۔یہ خواب آج سارا دن خوفناک ناول پڑھنے کی وجہ سے نہیں آیا تھا۔یہ خواب تو اسے کئیں دنوں سے مسلسل آرہا تھا۔
اور وہ روز چیخ مار کر اٹھ جاتی تھی۔اور پھر اس کے لئے دوبارہ سونا مشکل ہو جاتا تھا۔
مگر آج انعم اس کے ساتھ تھی اس نے انعم کے گرد بازو حائل کر دیا اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔انعم نے اس کے ساتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا جو کہ ٹھنڈا ہو رہا تھا۔
انعم جانتی تھی کہ اب اس کو مشکل سے ہی نیند آئے گی اس لئے اسے تھپکی دینے لگی تا کہ وہ جلدی ہی سو جائے۔
۔**************************
سجل باجی جی موحد جی کہاں ہیں۔حسینہ نے موحد کو گھر نا پا کر سجل سے پوچھا۔
حسینہ ان کے سامنے والے گھر میں کام کرتی تھی وہ بچپن سے وہیں رہتی تھی۔
اسکا دماغی توازن کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
جب بھی کام سے فارغ ہوتی تو یہاں چلی آتی یا جب بھی اسے معلوم ہوتا کہ موحد اس وقت گھر پر ہے تو کام پورا کرنے کی بجاۓ اسے ادھورا چھوڑ کر ہی چلی آتی۔
اور ابھی بھی وہ ایسے ہی آئی تھی۔
موحد بعض دفعہ تو اس سے بات کر لیتا مگر کبھی کبھی اسے دیکھتے ہی گھر سے بھاگ نکلتا اور جب تک وہ چلی نا جاتی واپس نا آتا۔
ابھی بھی وہ بلی کی طرح دھیمے قدم اٹھاتا باہر کی طرف نکل رہا تھا جب سجل بولی۔
ارے موحد تو وہ رہا سجل نے باہر نکلتے ہوئے موحد کی طرف اشارہ کیا۔
حسینہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں موحد ایک قدم زمین پر اور دوسرا ہوا میں لٹکائے اسٹیچو بنا کھڑا تھا۔
موحد نے نظریں گھما کر سجل کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو
"کوئی نہیں بیٹا تمہیں تو میں دیکھ ہی لوں گا موقع پر ہی بدلہ لیتی ہو تم"
جبکہ سجل اس کے چہرے پر آئے تاثرات کے مزے لینے لگی۔
حسینہ موحد کی طرف جانے لگی تو موحد نے وہی سے کہا۔
ارے حسینہ کماری تم کیوں زحمت کر رہی ہو قدم اٹھانے کی میں آجاتا ہوں نا تمہارے پاس۔
ہائے موحد جی کتنے اچھے ہیں ناں آپ سچ میں۔حسینہ خوشی سے بولی۔
کیسی ہو تم حسینہ۔موحد نے اس کے نام پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔
کیوں کہ نام تو اسکا حسینہ تھا مگر اپنے نام کی طرح وہ حسین بلکل بھی نہیں تھی۔
مگر شمار وہ خود کو دنیا کی حسین ترین لڑکیوں میں کرتی تھی۔
میں تو جی بلکل بھی ٹھیک نہیں کام کر کر کے بور ہو جاتی ہوں مگر جب آپکو دیکھتی ہوں ناں تو بلکل ٹھیک ہو جاتی ہوں ساری بوریت ختم ہو جاتی ہے۔موحد جی
"آئی لو یو سو مچ"
آپ مجھ سے شادی کر لیں ناں اور مجھے اس گھر میں لے آئیں کیوں کہ بیگم صاحبہ کے ہاں میرے بلکل دل نہیں لگتا اداس ہو جاتی ہوں ناں آپ کے بغیر۔حسینہ نے بڑے مزے سے یہ بات کہہ تو دی مگر اس کے پرپوزل سے موحد کا دل کیا پاس پڑا گلدان اپنے سر پر دے مارے کہ اس نے حال ہی کیوں پوچھا اس حسینہ کا۔
تم اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے حسینہ ہائے قسم سے میں تو خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں۔
معارج ہاتھ میں پانی کا گلاس لئے ابھی لاؤنج میں آئی تھی مگر موحد کی اس بات سے پانی پیتی معارج کے منہ سے پانی کا فوارہ چھوٹا اور ساتھ ہی ساتھ ہنسی کا بھی۔
موحد حسینہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا جا رہا تھا جبکہ حسینہ شرماہت کے مارے اپنا آدھا دوپٹہ تک کھا گئی۔
ویسے حسینہ تم کتنی حسین ہو ناں تمہارے حسن پر ایک گانا تو بنتا ہے۔موحد نے اس کی روکھی اور سیاہ رنگت کو دیکھتے ہوئے گانا شروع کیا
"میں اگر کہوں تم سا حسین کائنات میں نہیں ہے کہیں تعریف یہ بھی تو سچ ہے کچھ بھی نہیں۔۔۔۔کسی زبان میں وہ لفظ ہی نہیں کہ جن میں تم ہو کیا تمہیں بتا سکوں۔
(واقعی میں کسی بھی زبان میں وہ ہی نہیں جن سے تمہاری تعریف کی جا سکے موحد نے دل میں جلتے ہوئے کہا)
موحد گانا گا کر چپ ہوا تو پورے لاؤنج میں قہقوں کی آواز گھونجنے لگی جن میں انعم کی آواز بھی شامل تھی۔
جبکہ حسینہ خوشی سے پاگل ہوتی ہوئی دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر دروازے کی طرف بھاگ گئی۔جس پر موحد نے دونوں ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کیا اور پھر سجل کی طرف ایسے دیکھتا ہوا کہ اب بچو تم اس کی طرف آیا۔
سجل اس کی نظریں پڑھتی بڑے ابا کے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔
۔**************************