چلیں زارون بھائی جلدی سے پیسے نکالیں۔
معارج سجل اور انعم دودھ پلائی کی رسم کے بعد زارون سے پیسے مانگنے لگیں۔
دے بھی دیں اب کیا دل نہیں کر رہا آپ کا پیسے نکالنے کو لیکن آپ اس بھول میں مت رہیے گا کہ ہم اپنی بات سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
تیس ہزار کا مطلب تیس ہزار۔۔۔
چلیں اب دیں۔
سجل اب باقاعدہ اسٹیج پر زارون کے پاس بیٹھ گئی۔زارون اس حسن کے پیکر کو دیکھے گیا۔
سجل کو جی بھر کر دیکھنے کے بعد اس نے ثانیہ کی طرف دیکھا۔
جو تیار شیار ہوئی دلہن بننے کے باوجود بھی سادہ سی سجل سے زیادہ حسین نہیں لگ رہی تھی۔زارون بھائی اب بس بھی کر دیں اپنی سالی صاحبہ کو تکنا ورنہ یہ آپ کے دیر کرنے پر تیس ہزار کی بجاۓ ساٹھ ہزار نکلوا لے گی۔
موحد نے اسے سچی بات بتائی تو آخر کار زارون نے جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
اور سجل کے لئے تیس ہزار کی بجاۓ واقعی میں ساٹھ ہزار نکل کر اسے تھما دیے تو اس کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی حیران رہ گئے۔
جبکہ ثانیہ دل ہی دل میں غصہ کھا کر رہ گئی کہ اتنے سارے پیسے کتنے آرام سے نکال کر تھما دیے فضول کے آئے ہیں کیا۔
اس کے دل کو تو ابھی سے کچھ ہونے لگا۔سجل نے جلدی سے پیسے پکڑ لئے اور بولی۔
ارے واہ زارون بھائی میں نے تو تیس ہزار بولا تھا آپ نے تو ڈبل دے دیے۔
یہ تو صرف ساٹھ ہزار ہیں اگر تم دو لکھ بھی مانگتی تو وہ بھی دے دیتا۔
زارون نے اس کے چہرے پر نظریں ٹکائے کہا۔جبکہ روحاب کو زارون کی آنکھوں میں اک عجیب سی چمک نظر آئی وہی چمک جو مہندی کی رات کو جب زارون سجل کو بازوؤں سے تھامے کھڑا تھا تب اس کی آنکھوں میں تھی۔
مگر وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ایسا واقعی میں ہے یا صرف اسے ہی ایسا لگ رہا ہے۔
سجل تیس ہزار معارج اور انعم کو دے کر بولی اب تم لوگ اپنے پیسے ادھے ادھے کر لو کیوں کے یہ باقی کے تو میرے ہوئے۔
ارے ایسے کیسے تمہارے ہیں مجھے بھی تو میرا حصہ دو۔موحد بیچ میں کود پڑا۔
تمہارا حصہ کونسا؟
دیکھو سجل میں بھی تو زارون بھائی کا سالا ہوں اور ہاں ساٹھ ہزار والی بات میں نے ہی کی تھی تو انھیں ساٹھ ہزار دینے کا خیال آیا۔
چلو اب جلدی سے نکالو میرا حصہ۔ویسے موحد دودھ پلائی کی رسم لڑکیاں کرتی ہیں نا کے لڑکے اس لئے پیسے بھی انہی کے بنتے ہے مگر پھر بھی یہ لو پکڑو کیا یاد کرو گے تم۔
سجل نے جیسے احسان کرتے ہے ایک ہزار کا نوٹ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
ارے یہ کیا ہے۔
اس سے بہتر ہے کہ تم دو ہی ناں یہ لو پکڑو رکھو اپنے پاس ہی۔موحد اسے ہزار واپس پکڑتا وہاں سے جانے لگا جب سجل جلدی سے بولی۔
کیا تکلیف ہے یہ لو پکڑو۔اس نے موحد کو پانچ ہزار کا نوٹ تھمایا۔
یہ ہوئی ناں بات اب لگ رہی ہو ناں تم میری کزن۔موحد خوش ہوتا ہوا بولا۔جبکہ سجل بھی اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
۔"************************
ثانیہ کی شادی ختم ہوئی تو سب نے سکون کا سانس لیا۔
اور جی بھر کر اپنی تھکاوٹ اتاری۔
سجل نے ثانیہ کی شادی کے اگلے دن ہی اسکے کمرے پر قبضہ کر لیا اور پھر وہیں ڈیرہ ڈال لیا۔
ثانیہ ویسے تو اپنا جھوٹا بھی کسی کو نا دیتی مگر یہ سوچ کر کہ وہاں انگلینڈ میں تو میں محلوں جیسے گھر کے بڑے بڑے کمروں میں رہوں گی پھر بھلا مجھے اس چھوٹے سے کمرے کی کیا ضرورت ہے۔
یہ کمرا سجل کو دے دیا۔
دو مہینے بعد سجل کے پیپرز تھے۔پورا سال تو اس نے مستی میں گزار دیا۔
مگر اب جبکہ وہ علیحدہ کمرے میں رہتی تھی تو رات گئے تک پڑھتی رہتی۔
سجل پڑھائی میں اچھی تھی مگر لاپروائی بہت کرتی تھی۔
جب اسے کچھ سمجھ نا آتا تو وہ انعم سے پوچھنے چلی جاتی اور کہتی کہ تمہارے پڑھاکو ہونے کا یہ تو فائدہ ہے کہ تم سے ہر چیز کا نالج مل جاتا ہے۔
چلو اب شاباش جلدی سے یہ تھیوڑی سمجھا دو۔سجل کے بار بار اس کے پاس آنے اور سمجھنے پر انعم اپنی بکس لئے اسی کے پاس آجاتی تا کہ سجل کو بار بار اٹھ کر آنے کی ضرورت نا پڑے۔
جبکہ ان دونوں کی غیر موجودگی میں معارج رات گئے تک کسی سے باتیں کرتی رہتی اور انعم کے آنے پر سوتی بن جاتی۔
۔***************************
باہر موسم بہت خراب تھا تیز ہوا کے ساتھ ساتھ بارش بھی بہت ہو رہی تھی۔
روحاب جب گھر آیا تو بارہ بج رہے تھے۔
سجل کو رات دیر تک جاگنے پر دوبارہ بھوک لگ جاتی تھی۔اس لئے وہ کچن میں کھانے کے لئے کچھ ہلکا پھلکا لینے آئی۔
جب وہ کچن سے باہر نکلی تو روحاب سیڑھیاں چڑھتا اوپر جا رہا تھا۔روحاب بھائی آپ ابھی آئے ہیں کیا۔۔۔سجل نے پوچھا۔
نہیں دو گھنٹے ہو چکے ہیں بس دروازے پر کھڑا یہی سوچ رہا تھا کہ اندر جاؤں یا نہیں۔
روحاب کو اس سے اسی جواب کی توقع تھی جبکہ سجل کو بھی اس سے اسی جواب کی توقع تھی۔روحاب بھائی کھانا لاؤں آپ کے لئے۔
نہیں کوئی ضرورت نہیں مجھے بھوک نہیں۔روحاب جواب دیتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جبکہ سجل اس کے منع کرنے کے باوجود بھی کھانا لے کر اس کے کمرے میں آگئی۔
سائیڈ ٹیبل پر کھانے کی ٹرے رکھ کر وہ واپس مڑنے لگی جب روحاب واش روم سے نکلا اور بولا۔
تمہیں منع کر چکا تھا ناں کھانے کے لئے پھر بھی کیوں لے آئی۔
کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ آپ نے منع مجھے کیا ہے کوئی اور پوچھتا تو آپ کبھی منع نہیں کرتے۔مگر غصہ تو آپکو ہمیشہ مجھ پر آتا ہے ناں تو اس لئے کھانے کو تو منع ناں کریں۔
کھانا کھا لیں روحاب بھائی کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ اپنے صرف صبح کے ناشتے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا۔روحاب کچھ نا بولا۔
سجل واپس جانے لگی جب اسکا ہاتھ لگنے سے سائیڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ گرنے لگا۔
سجل نے اسکے گرنے سے پہلے ہی اسے سیدھا کر دیا۔تب ہی اس کی نظر لیمپ کے پاس پڑی سرخ رنگ کی کھلی ڈائری پر پڑی جس پر سکیچ بنا ہوا تھا۔
اس نے ڈائری ہاتھ میں لی اور سکیچ کو غور دیکھنے لگی۔
کیوں کہ یہ سکیچ ثانیہ کا بنایا گیا تھا۔
بلکل اتنے ہی بال تیکھی ناک گال پر بڑا سا تل گلے میں لاکٹ جو وہ ہر وقت پہنے رکھتی تھی۔اور ساتھ ہی شعر لکھا گیا تھا۔
روحاب نے آگے بڑھ کر جلدی سے اس کے ہاتھ سے ڈائری کھینچ لی اور بولا۔
تمہیں ذرا بھی مینرز نہیں کہ کسی کی چیز کو اس سے پوچھے بغیر ہاتھ نہیں لگاتے۔
پر تمہیں کیسے معلوم ہوگا عقل ہوگی تو تب ناں۔کیا دیکھ رہی تھی تم کہ کس کا سکیچ ہے یہ
دیکھ لیا ناں پتا لگ گیا ناں اب جاؤ یہاں سے۔
روحاب کو اسکا اپنی ڈائری کو ہاتھ لگانا بہت ناگوار گزرا۔
آپ بہت محبت کرتے ہیں ناں ثانی آپی سے مگر اب تو انکی شادی ہو چکی ہے زارون بھائی سے آپکو انھیں بھول جانا چاہیے۔
سجل نے یہ سوچے بغیر کہ اسکی اس بات سے روحاب کو کتنا غصہ آسکتا ہے پھر بھی کہہ دی۔
تمہیں مجھے سمجھانے یا بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے کسے یاد رکھنا چاہیے اور کسے بھول جانا چاہیے۔میں کسی کو بھی یاد رکھوں یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے اور نا ہی تمہیں اس سے کوئی مطلب ہونا چاہیے۔
مطلب ہے روحاب بھائی وہ میری آپی ہیں اور شادی شدہ ہیں۔
آپ کا کوئی حق نہیں بنتا انھیں دن رات یاد رکھنے کا انھیں ہر وقت سوچنے کا۔
سجل یہ بھول گئی تھی کہ پہلے جن باتوں کے کرنے کی وجہ سے وہ روحاب کی ناپسندیدگی مول لے چکی ہے اب بھی وہی کرنے جا رہی ہے۔
میرا دماغ میری سوچیں میں جسے مرضی یاد کروں تمہیں مجھ سے سوال جواب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
اور جب تک تم یہاں کھڑی رہو گی میرے غصہ میں اور بھی اضافہ کرتی رہو گی اس لئے بہتر ہے کہ اور کوئی بھی بات کیے بغیر یہاں سے چلی جاؤ۔
میں نہیں جاؤں گی روحاب بھائی اور تب تک نہیں جاؤں گی جب تک میں جان نا لوں کہ آخر آپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں۔
آخر میں آپکو زہر سے بھی بری کیوں لگتی ہوں۔لوگ تو اپنی زندگی سے تنگ آکر زہر تک کھا لیتے ہیں۔مگر آپ تو چاہے جتنا مرضی تنگ آجائیں کبھی میری شکل دیکھنا تک پسند نہیں کریں گے۔
آخر کیوں روحاب بھائی آج بتا ہی دیں۔کیوں کہ تم بھی بلکل اپنی بہن جیسی ہو تم دونوں محبت کرنے والوں کو سمجھ ہی نہیں سکتیں۔
بلکہ اگر کچھ جانتی بھی ہو تو محبت کرنے والوں کو ٹھکرانا۔
غلط کرتی ہو تم دونوں اور پھر غلط کا بھرپور ساتھ بھی دیتی ہوں۔
تمہیں بھی اپنی بہن کی طرح دولت عیش و عشرت پسند ہے اسی کی طرح بڑے بڑے خواب دیکھنا خود غرض مطلبی اسی کی طرح ہو تم۔
کیوں کہ ہر معاملے میں تم اس کا ساتھ دیتی ہو چاہے وہ غلط ہی کیوں نا ہو۔بے قدری سے ہر کسی کا دل توڑ دینے والی سامنے والے کی تذلیل کر کے رکھ دینے والی تم اسی کی طرح ہو اسکا غلط بھی تمہاری نظر میں ٹھیک ہے۔تم سجل نہیں بلکہ ثانیہ ہو۔
اور رہی بات محبت کی تو وہ مجھے اس سے ہے نہیں بلکہ تھی اب میرے دل میں اس کے لئے صرف اور صرف زہر اور تلخیاں کیوں کے وہ اپنا مقام میری نظروں میں کھو چکی ہے۔
تم لوگوں کو ظاہر سے میں محبت سخت اور مضبوط نظر آتا ہوں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تم دونوں کی زہرآلودہ باتوں نے مجھے اندر سے ختم کر دیا ہے جلا کر رکھ دیا ہے میرے وجود کو۔
روحاب اسے اس کی بات کا جواب دینے کے بعد خاموش ہوگیا۔
اور پھر ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا تک نہیں جو کہ آنکھوں میں آنسو لئے اسے حیرانی سے تکے جا رہی تھی۔
آپ ایسا سمجھتے ہیں مجھے۔۔۔
۔مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں نے جو باتیں دل سے نہیں بلکہ صرف اپنی بہن کی حمایت میں کہیں تھیں انکی وجہ سے میں آپکی نظر میں اتنا گر چکی ہوں کہ آپ نے مجھ پر خود غرض مطلبی اور عیش پرست جیسے الزامات لگا ڈالے۔
مگر خیر آپ کہہ رہے ہیں تو سچ ہی ہوگا کیوں کہ آپ تو ماہان ہیں ناں آپ نے تو کبھی کچھ غلط کہنا تو دور کی بات کبھی ایسا سوچا تک نہیں ہینا۔
اب آیندہ سے کوشش ہی کروں گی کہ آپکے سامنے نا ہی آؤں۔
کیوں کہ میں بھی اب مزید اپنی بےعزتی برداشت نہیں کر سکتی اور نا ہی آپ کے سامنے آکر خود کو مزید گرا ہوا ثابت کرنا چاہتی ہوں۔
سجل دکھ سے بولتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔جبکہ روحاب کو اسکی باتوں سے احساس ہوا کہ وہ شائد کچھ زیادہ ہی غلط بول گیا ہے وہ سب کہہ گیا ہے جو اسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔
۔*************************
روحاب ٹیرس پر کھڑا کچھ دیر پہلے اس کے اور سجل کے درمیان ہونے والی باتیں سوچ رہا تھا۔
جب اس کی نظر لان میں پڑی کرسی پر بیٹھے وجود پر پڑی۔وہ یقیناً سجل تھی جو کہ اس تیز برستی بارش سے بےپرواہ وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔
روحاب ٹیرس کا دروازہ بند کرتا نیچے لان میں آگیا۔جب وہ سجل کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ چہرہ گھٹنوں پر رکھے ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔روحاب کے دل کو ایک دم کچھ ہوا۔
اس نے بلکل نا سوچا تھا کہ اس کی باتوں سے سجل کو کتنی تکلیف پہنچے گی اور وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جائے گی۔
سجل تم اس طرح بارش میں کیوں بھیگ رہی ہو۔روحاب نے اسے آواز دی سجل نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے وہ ظالم کھڑا تھا جس نے ہر بار اسے چوٹ پہنچائی تھی۔
وہ کھڑی ہوئی اور بولی۔اب کیوں آئے ہیں آپ کیا اب بھی کچھ کہنا باقی رہ گیا ہے۔
اچھا تو اب یہ کہنے آئے ہوں گے کہ اپنی بہن کی طرح تم بےشرم اور بےحیا بھی ہو۔
سجل میں ایسا کچھ بھی کہنے نہیں آیا۔
روحاب نے اس کی سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ہاں تو پھر کیوں آئے ہیں آپ میں تو ایک بری لڑکی ہوں میرے سینے میں تو دل ہی نہیں ہے بے حس ہوں میں آپکے مقام سے گر چکی ہوں ناں میں۔
تو پھر ایسی لڑکی سے بات کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے آپکو۔جایے یہاں سے۔
سجل تلخ لہجے میں بولی۔روحاب نے دیکھا کہ یہ وہی لڑکی تھی جو کبھی اس کے سامنے نظریں اٹھا کر بات نہیں کرتی تھی۔
بلکہ اس کے سامنے آجانے پر گھبرا جاتی تھی اور اب بے خوف و بے ڈر اس کے سامنے کھڑی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول نہیں رہی تھی بلکہ چلا رہی تھی۔سجل اندر چلو بارش میں بھیگ کر بیمار ہو جاؤ گی۔روحاب پہلی دفعہ اس کے ساتھ آرام سے بولا۔
کیوں کہ آخری دفعہ کب بولا تھا یہ تو سجل کو یاد نا تھا۔
آپکو کب سے فکر ہونے لگی میری بیماری کی۔میں چاہے بیمار ہوں یا مر جاؤں آپکو میری جھوٹی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
سجل فضول بات مت کرو اور اندر چلو۔روحاب کو اس کی مرنے والی بات اور غصہ آگیا۔
میں نہیں جاؤں گی تو مطلب نہیں جاؤں گی۔سجل غصے سے منہ پھیرتی ضد پر اڑ گئی۔
میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں تم سے اندر چل رہی ہو یا نہیں۔روحاب نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
"نہیں"۔۔۔
سجل نے بھی دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔لگتا ہے تم ایسے نہیں مانو گی۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑیں میرا ہاتھ۔روحاب اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آیا تو وہ بولی۔
میں نے کہا میرا ہاتھ چھوڑیں۔لو چھوڑ دیا۔روحاب نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا تو وہ اپنا ہاتھ مسلنے لگی۔
بہت برے ہیں آپ بہت ہی برے۔سجل یہ کہتے ہوئے پھر سے رونے لگی۔
تم مجھے برا سمجھو یا اچھا مگر میری ایک بات کان کھول کر سن لو اگر دوبارہ تم مجھے لان میں بھٹکتی ہوئی نظر آئی اب تو میں نے کچھ نہیں کہا مگر تب ضرور برا بن کر دکھاؤں گا۔
اور نا ہی مجھے تمہارے یہ بھیگے ہوئے کپڑے نظر آئیں جا کر چینج کرو انہیں۔
روحاب کو معلوم تھا کہ سجل پر ہمیشہ سے اسکا غصہ ہی کام آیا ہے اس لئے اسے وارن کرتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔
۔************************