انعم ادھر آؤ۔
موحد نے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی انعم کو اپنے پاس بلایا۔
جی موحد بھائی کچھ کام ہے کیا۔نہیں کام نہیں ہے تم بس اپنی کلائی آگے کرو۔
کیوں کیا نبض چیک کرنی ہے میری مگر وہ تو الحدلللہ نارمل رفتار سے چل رہی ہے۔انعم نے ناسمجھتے ہوئے کہا۔
تم بھی ناں حد کرتی ہو انو بس میں نے کہا ناں کلائی آگے کرو تو مطلب کرو۔موحد کے یہ کہنے پر انعم نے اپنی کلائی فوراً موحد کے سامنے کر دی۔
موحد نے شاپر سے گجرے نکل کر اسکی کلائیوں میں پہنا دیے۔
کچھ ہی فاصلے پر کھڑا روحاب ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
موحد کے دل میں انعم کے لئے جو جذبات تھے وہ روحاب سے چھپے ہوئے نہیں تھے۔
موحد دو ہی گجرے لے کر آیا تھا جو کہ اس نے انعم کی پہنا دیے۔موحد بھائی میں نے تو گجرے نہیں منگوائے۔
انعم گجروں کو اپنی کلائیوں اور گھماتی ہوئی بتانے لگی۔
ہاں جانتا ہوں تم نے نہیں منگوائے مگر انہیں دیکھ کر میرا دل کیا کہ تمہارے لئے لے جاؤں تو بس لے آیا۔
کیا سچ میں۔۔۔۔تھینک یو سو مچ موحد بھائی۔
انعم نے خوش ہوتے ہوئے اسے شکریہ کہا اور معارج اور سجل کے پاس چلی آئی جو کہ کب سے گجروں کا انتظار کر رہی تھیں۔
۔****************************
ارے انعم اپنے بازو دکھاؤ ذرا۔
معارج نے انعم سے کہا تو اس نے اپنے دونوں بازوں اس کے سامنے کر دیے جن میں گلاب اور موتیے کے پھول کے گجرے سجے ہوئے تھے۔
یہ گجرے کہاں سے لئے تم نے۔
یہ گجرے تو مجھے موحد بھائی نے لا کر دیے ہیں کہہ رہے تھے کہ گجرے دیکھ کر میرا دل کیا کہ تمہارے لئے لے جاؤں تو لے آیا۔
انعم مزے سے اسے بتانے لگی۔اس نے ایسا کہا۔سجل معارج کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑی۔
جبکہ گجرے تو ہم نے اس سے منگوائے ہیں جھوٹا کہیں کا چلو معارج لے کر آئیں اس سے گجرے۔
سجل معارج کا ہاتھ پکڑ کر اسے لان میں لے کر جانے لگی۔
جب انعم نے انہیں آواز دے کر بتایا کہ موحد بھائی تو صرف دو ہی گجرے لے کر آئے تھے جو کہ انہوں نے مجھے پہنا دیے اب آپ دونوں کیا لینے جا رہی ہیں۔
جبکہ انعم کے یہ بتانے پر انہیں موحد پر اور زیادہ غصہ آگیا۔
انعم جانتی تھی کہ وہ دونوں موحد سے گجرے نکلوائے بغیر اسے چھوڑنے والی نہیں اس لئے مسکراتی ہوئی ٹیبل سے پھولوں کی پلیٹ اٹھا کر خود بھی لان میں چلی آئی۔
۔*******************************
موحد میرے پیارے بھائی اب شاباش ذرا جلدی سے یہ بتانا کہ ہم دونوں نے جو گجرے منگوائے تھے وہ کہاں ہیں۔
معارج نے کمر پر ہاتھ باندھے بظاہر مسکراتے ہوئے مگر دانت پیستے ہوئے پوچھا۔
کون سے گجرے؟ موحد نے سر پر ہاتھ رکھے یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ کون سے گجروں کی بات کر رہی ہیں۔
مگر پھر جلد ہی اسے یاد آگیا تو ان کی غصے سے پھولی صورتیں دیکھتے ہوئے اٹکتے ہوئے بولا۔
اوہ اچھا۔۔۔۔وہ گجرے۔۔۔۔ہاں لایا ہوں ناں تم لوگ کوئی کام کہو اور میں نا کروں ایسا کبھی ہوا ہے کیا۔
اس نے آخر میں اپنی بتیسی دکھائی۔
اچھا تو پھر نکالو گجرے۔
سجل ہاتھ اس کے سامنے کرتی ہوئی گجرے مانگنے لگی۔اوہو ارے وہ تو میں گاڑی میں ہی بھول آیا تم لوگ رکو میں لے کر آیا۔
موحد انہیں اگلی بات کرنے کا موقع دیے بغیر گیٹ سے باہر نکل آیا۔
وہ دونوں گجرے لئے بغیر اسکا پیچھا چھوڑنے والی تو تھیں نہیں اس لئے گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی گجروں کی دکان کی طرف بڑھا دی۔
۔**************************
روحاب کی ڈیوٹی کبھی دن کی ہوتی اور کبھی رات کی آج کا فنکشن چونکہ رات کا تھا اور ڈیوٹی دن کی تو اس لئے وہ ڈیوٹی پر چلا ہی گیا اور فنکشن شروع ہونے سے دس منٹ پہلے ہی گھر پہنچا۔
وہ لان میں کھڑا تھا جب اوپر سے کسی نے پھول برسائے۔
پھولوں کی خوشبو سے اس نے پہلے تو دو چھینکیں ماریں اور پھر نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا جہاں سے پھولوں کی برسات ہوئی تھی اور وہاں اوپر کھڑی سجل مسکرا رہی تھی۔
روحاب کو لگا کہ شائد اس کی نظریں دھوکا کھا رہی ہیں کیوں کہ سجل اسے دیکھ کر ہمیشہ گھبراتی تھی نا کے مسکراتی تھی۔
اور آج تو مسکرانے کے ساتھ ساتھ پھول بھی برسائے گئے تھے۔
سجل کسی چیز سے ٹھوکر لگنے کی وجہ سے خود کو سنبھال نہیں پائی تھی اس لئے جا کر سیدھا گرل کے ساتھ لگی جس کی وجہ سے سارے پھول نیچے گر گئے۔
اوہو سجل تم بھی نا مہمانوں کا ویلکم دروازے پر کرنا ہے نا کہ ٹیرس پر۔
سجل خود سے ہم کلام ہوتی ہوئی مسکرانے لگی۔
اس نے نیچے دیکھا جہاں کوئی کھڑا تھا لان کے اس حصے میں لائٹیں بہت کم لگی تھیں جس کی وجہ سے سجل دیکھ نا سکی کہ وہ کون ہے۔
مگر پھر اس نے گرل پر تقریباً لٹکتے ہوئے نیچے غور سے دیکھا تو اسکا منہ کھلنے کے ساتھ ساتھ پھولوں والی خالی پلیٹ بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔روحاب جلدی سے پیچھے ہوا کیوں کہ اگر وہ پیچھے نہیں ہٹتا تو وہ پلیٹ سیدھا اس کے سر پر آکر لگنے والی تھی۔
ہائے ربا پھول گرنے پر تو شائد وہ کچھ نا کہتے مگر اب تو بےعزتی پکی۔
اب کیا کروں۔
ہاں ایسا کروں گی کہ اگر کچھ کہا تو کہہ دوں گی کہ وہ میں تھی ہی نہیں۔
سجل خود کو ریلیکس کرتی ہوئی جلدی سے واپس مری اور سیڑھیاں اترنے ہی لگی تب ہی اس کی ٹکر کسی سے ہوئی۔
سامنے والے نے اسے گرنے سے پہلے ہی تھام لیا۔
سجل نے ڈر کے مارے سر ہی نا اٹھایا کہ کہیں یہ روحاب ہی تو نہیں۔
سجل کیا ہو گیا ہے دھیان سے چلو ناں۔
ارے زارون بھائی آپ۔۔۔شکر ہے آپ ہیں۔
سجل نے زارون کی آواز پر سر اٹھایا اور شکر کیا۔زارون نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور بولا کیوں تم کیا سمجھی تھے کہ کون ہے۔
زارون اسے ابھی تک بانہوں سے تھامے کھڑا تھا۔
میں سمجھی کہ شائد روحاب بھائی ہیں۔
تم روحاب سے اتنا ڈرتی کیوں ہو؟۔۔۔۔
کس نے کہا آپ سے میں بھلا کیوں ڈرنے لگی ان سے میں کوئی ڈرتی ورتی۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا چپ کیوں ہوگئی۔
زارون نے اس سے پوچھنے کے بعد پیچھے دیکھا تو سمجھ گیا کیوں کے روحاب سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آرہا تھا۔
زارون جو ابھی تک سجل کو تھامے کھڑا تھا جلدی سے ہاتھ پیچھے ہٹا لئے۔
جبکہ سجل کھڑی سوچ رہی تھی کہ بھاگ جاؤں یا کھڑی رہوں۔
زارون جلدی سے سیڑھیاں اترتا نیچے چلا گیا کیوں کہ فنکشن شروع ہو چکا تھا بس اسی کا انتظار تھا۔روحاب اب چلتا ہوا سجل کے پاس آیا اور بولا۔
لگتا ہے کہ تمہیں مجھ سے کوئی خاص دشمنی ہے جو کبھی مجھے فل میٹھا کھلا کر مارنے کی کوشش کرتی ہو تو کبھی میرا حلیہ بگاڑنے کی۔
کبھی جان بوجھ کر مجھ پر بارشیں برساتی ہو تو کبھی پھول جبکہ تم جانتی تو کہ مجھے گلاب سے سخت الرجی ہے۔
اور آج تو تم نے حد ہی کر دی آج تو سر ہی پھاڑنے والی تھی تم میرا وہ بھی موٹے کانچ کی وزنی پلیٹ سے جو کہ سیدھا میرے سر پر آکر لگنے والی تھی۔روحاب نے سجل کے آئے روز اس پر کیے جانے والے کارنامے اسے گنوائے۔
نہیں روحاب بھائی وہ میں تو نہیں تھی۔
سجل نے سوچا سمجھا جواب اسے سنا دیا۔
اگر مجھے دکھائی نا بھی دیتا ہوتا تو بھی مجھے معلوم ہی تھا کہ وہ تمہارے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
کیوں کہ ایسے الٹے سیدھے کام کرنا صرف تمہارے ہاتھوں کو ہی پسند ہیں۔
اب جاؤں جلدی سے نیچے معارج کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہے ہے مگر تم یہاں کام بگاڑنے کے موقعے تلاش کر رہی ہو شائد۔
سجل کو یاد آیا کہ وہ معارج کو دو منٹ کا بول کر اوپر آئی تھی اور اب پورے دس منٹ ہوگئے تھے۔روحاب کے کہنے کی دیر تھی کہ سجل گرل کو تھامتی سیڑھیاں اترنے لگی تا کہ کہیں جلدی کے چکر میں وہ گر ہی نا جائے۔
۔******************************
روحاب بیٹا یہاں اوپر آؤ اسٹیج پر تم بھی رسم ادا کرو مہندی کی۔
پھپھو نے سب کے رسم کرنے کے بعد اسکو آواز دی جو اسٹیج سے تھوڑا سا فاصلے پر کھڑا تھا۔
اف پھپھو روحاب بھائی کو بھول نہیں سکتی تھیں کیا۔
سجل منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
جبکہ روحاب بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہا تھا۔بہرحال وہ اسٹیج پر آیا۔
پہلے ابیہا اور سفیان کی مہندی کی رسم کی اور پھر زارون اور ثانیہ کی طرف آیا۔
ثانیہ کا تو اسے دیکھ کر ہی منہ بن گیا۔روحاب نے ثانیہ کی طرف دیکھے بغیر رسم ادا کی اور وہاں سے اٹھ گیا۔
موحد کیمرہ لئے سب کی ویڈیو اور تصویریں بنا رہا تھا۔
روحاب اسٹیج سے نیچے اترنے لگا جب اسکا پاؤں مرا اور وہ گرنے لگا مگر تب ہی پاس کھڑی سجل نے اسے جلدی سے تھام لیا۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جب موحد نے ان دونوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کیمرے میں کیپچر کر لیا۔
روحاب جب سیدھا ہوا تو سجل جلدی سے بولی۔روحاب بھائی اب اس بات پر تو آپ بلکل بھی غصہ مت کرنا کیوں کہ اب میں نے کوئی کام خراب نہیں کیا بلکہ آپکو گرنے سے بچایا ہے۔
دیکھیں ناں اگر آپ گر جاتے تو آپکی کتنی بےعزتی ہوتی۔۔۔
میرا مطلب ہے کہ آپ تو شرمندہ ہو جاتے ناں اگر سب آپ پر ہنستے تو۔
سجل نے معصومیت سے اپنی طرف سے بڑے پتے کی بات بتا کر شاباشی لینے کی کوشش کی۔
"شٹ اپ"
روحاب غصے سے بولا۔
سجل فوراً شٹ اپ ہوگئی۔
روحاب وہاں سے ہٹ گیا تو بولی۔
حد ہوگئی بھلائی کا تو کوئی زمانہ ہی نہیں رہا۔
اور میں نے بھی بھلا کس سے بھلائی کر دی جسے بھلائی لفظ سے ذرا بھی آشنائی نہیں۔
ہونہہ اکڑو خان کہی کے۔
۔************************
فنکشن ختم ہونے کے بعد سب واپس آگئے۔
معارج اور انعم تو تھکن کی وجہ سے آتے ہی سو گئیں۔جبکہ سجل ابھی بھی جاگ رہی تھی۔
روحاب اپنا درد سے بھاری سر لئے چھت پر جانے لگا جب سیڑھیاں چڑھتا وہ دو سیڑھیاں پیچھے ہی رک گیا۔
کیوں کہ سامنے زارون اور ثانیہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے بلکل قریب کھڑے تھے۔
زارون کوئی آجائے گا اس لئے اب میں جانے لگی ہوں۔ثانیہ اس کے بازو ہٹاتی ہوئی واپس جانے لگی جب اس کی نظر سیڑھیوں پر کھڑے روحاب پر پڑی تو وہ واپس جانے کا ارادہ ترک کرتی ہوئی پھر سے زارون کی بانہوں میں آگئی۔
کیا ہوا تم تو نیچے جانے والی تھی ناں۔
ہاں بس پھر دل نہیں کیا تم سے دور جانے کا۔ثانیہ نے قدرے اونچی آواز میں کہا۔
روحاب غصے سے مٹھیاں بھینچتا ہوا نیچے آگیا۔جب سامنے سے آتی سجل نے اسے روکا اور بولی۔
روحاب بھائی آپ کہاں تھے کب سے آپکو ڈھونڈ رہی ہوں بڑے پاپا آپکو بلا رہے ہیں۔
مجھے ڈھونڈنے سے بہتر ہے کہ تم جا کر اپنی بہن کو ڈھونڈو اس اور نظر رکھو شرم و حیا سب بھلائے بیٹھی ہے۔
روحاب اسے یہ کہہ کر اسے تقریباً دھکا دیتے ہوئے سیڑھیاں اترتا بڑے پاپا کے کمرے میں چلا گیا۔
اب انہیں کیا ہوگیا۔
میں نازک سی گڑیا اور انہیں دیکھو کیسے دھکا دے کر چلے گئے مجھے۔
اور کیا کہہ رہے تھے یہ کہ اپنی بہن پر نظر رکھو۔نظر رکھنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو اپنے کمرے میں ہیں۔سجل یہ کہتی ہوئی ثانیہ کے کمرے میں آئی مگر وہ وہاں نہیں تھی۔
ارے آپی تو یہاں نہیں ہیں روحاب بھائی تو چھت سے آرہے تھے کیا پتا آپی بھی وہیں ہوں اور پھر سے ان کے بیچ کوئی بات ہوئی ہوگی۔
سجل یہی اندازہ لگاتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی مگر روحاب کی طرح وہ بھی دو سیڑھیاں پیچھے ہی رک گئی۔
صحیح کہہ رہے تھے روحاب بھائی شرم و حیا تو واقعی میں ختم ہوگئی ہے آپی میں اب میں کیا کہوں انہیں۔
سجل چپ چاپ بغیر کوئی آہٹ کیے سیڑھیاں اتر آئی۔اور اپنے کمرے میں آگئی۔
معارج خراٹے مارے سو رہی تھی۔
انعم کان پر کشن رکھے ادھر ادھر کروٹیں بدل رہی تھی۔
سجل نے بیڈ سے سرہانہ پکڑا اور صوفے پر آکر لیٹ گئی۔
کیوں کہ وہ بھی بہت تھک چکی تھی شادی کی تیاریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ روحاب کی باتیں سن سن کر اور اب معارج کے خراٹوں کی وجہ سے اپنی نیند خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس لئے بیڈ سے قدرے دور پڑے صوفے پر سو گئی۔
۔*****************************