اگلے مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو ابیہا سفیان زارون ثانیہ کی شادی تھی۔
شادی کی تیاریاں اور بھی زور و شور سے چلنے لگیں۔ابیہا کی شادی اس کے تایازاد سفیان سے طے پائی تھی۔
ان کی منگنی بچپن سے ہی کر دی گئی تھی۔ابیہا سیدھی سادی گھڑیلو لڑکی تھی۔
اس کی خوبصورتی اس کی سادگی اور نیک سیرت میں تھی۔
وہ اپنا زیادہ وقت مذہبی پروگرام سننے اور دینی کتابیں پڑھنے میں گزارتی تھی۔اس کے لہجے میں نرماہت تھی۔
جو بھی اس کو سنتا اس کی باتوں کے سحر میں کھو جاتا۔سفیان بھی اسی سحر میں کھو گیا تھا۔
اور یہ ابیہا کی خوبیاں اور منفرد سیرت ہی تھی جو سفیان لڑکیوں ساتھ پڑھنے کے باوجود بھی کسی اور لڑکی سے متاثر نا ہو سکا۔وہ اپنے والدین کے انتخاب پر بہت خوش تھا۔
سجل کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی یا کبھی دل اداس ہوتا تو وہ ابیہا کے پاس چلی آتی اور اس سے باتیں کر کے اس کا دل قدرے ہلکا ہو جاتا۔سجل اس وقت بھی ابیہا کے پاس موجود تھی۔
ابیہا آپی آپ نے تو ابھی تک کوئی تیاری شروع نہیں کی اور ادھر ثانی آپی نے تو بیوٹی پوڈکٹس لا کر اپنے چہرے پر لیپ کرنا بھی شروع کر دیے ہیں۔
اور ساتھ ہی ساتھ معارج نے بھی اپنا حصہ ڈال لیا ہے۔اچھا سجل تم یہ بتاؤ کہ تمہیں میرے چہرے کو دیکھ کے لگتا ہے کہ واقعی میں اسے بیوٹی پروڈکٹس کی ضرورت ہے۔ابیہا نے کپڑے پریس کرتے ہوئے سجل سے پوچھا۔
ہاں ضرورت تو نہیں ہے مگر پھر بھی لڑکیاں اپنی شادی سے پہلے بیوٹی کریمز کا استمال کرتی تو ہیں ہی۔
ویسے ضرورت تو ثانی آپی کو بھی نہیں مگر پھر بھی اتنی ساری چیزیں اٹھا لائی ہیں۔
اچھا چلو ان باتوں کو چھوڑو یہ کپڑے پکڑو انہیں ہینگ کرو میں باقی کی کپڑے پریس کر لوں۔
ابیہا اسے چپ کرنے کا بولتی کام میں لگا کر دوسرے کپڑے پریس کرنے لگی۔
۔************************
سجل ادھر آؤ۔
سجل پھپھو کے گھر سے واپس آرہی تھی وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی جب ثانیہ نے اسے آواز دی۔
سجل اس کے پاس آئی اور بولی۔جی ثانی آپی ۔یہ پائپ پکڑو اور پودوں کو پانی دو۔
ثانیہ نے اپنی اس کام سے جان چھڑوانے کے لئے جس کے کرنے کا ثمرین بیگم اسے بول کر گئی تھیں جلدی سے پائپ سجل کو تھما کر خود اندر کھسک گئی۔
اف ایک تو ثانی آپی ہر کام مجھے کہہ کر خود بھاگ جاتی ہیں۔
سجل بڑبڑاتی ہوئی پودوں کو پانی دینے لگی۔
تب ہی موحد بھی باہر سے آیا اور سیدھا اسی کی طرف آگیا۔
کیا ہوا ایسے منہ بنا کر پودوں کو پانی کیوں دے رہی ہو لاؤ مجھے دو پائپ میں دوں پانی۔
موحد نے اس کے دینے سے پہلے ہی پائپ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
ویسے سجل یہ پودا کتنا بڑا ہوگیا ہے ناں جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے تب دادا ابو نے لگایا تھا اور اب دیکھو اسے۔
موحد نے گلاب کے پودے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں واقعی میں میں نے تو کبھی غور ہی۔۔۔۔۔۔
سجل کی باقی کی بات منہ میں ہی رہ گئی کیوں کے موحد نے پائپ سجل کی طرف کر دیا جس سے تیز پانی کا فوارہ سجل کے منہ پر پرا تو وہ چیخ اٹھی۔۔۔
"موحد کے بچے"
موحد فوراً پائپ چھوڑتا ہوا جھولے کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔
"اسی لئے کہہ رہے تھے لاؤ مجھے دو پائپ میں دوں پانی"سجل منہ ٹیرا کر کے اس کی نقل اتارتی ہوئی پائپ پکڑ کر اس کی طرف بھاگی"
موحد اب دروازے کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
لو کر لو اپنا بدلہ پورا کیا یاد کرو گی۔
موحد بازو پھیلائے بھیگنے کو تیار ہوگیا۔سجل یہ سوچے بغیر کہ وہ اتنی جلدی مان کیسے گیا فوراً پائپ اس کی طرف کر دیا اور آنکھیں بند کیے ہنسنے لگی۔
بچو اب آئے گا ناں مزہ۔
اور جب آنکھیں کھولیں تو چکرا کر رہ گئی پائپ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
کیوں کہ سامنے روحاب اپنے پولیس یونیفارم میں بھیگا کھڑا تھا اور دانت پیستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
جبکہ موحد تھوڑے فاصلے پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سیٹی بجاتا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"ہائے اب کیا کریں گے یہ سجل گھبراتی ہوئی ہاتھ اٹھا کر بولنے لگی۔
آل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو۔
سجل یہ کیا منہ ہی منہ میں بڑبڑائے جا رہی ہو۔موحد نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
سجل نے فوراً آنکھیں کھولیں اور سامنے دیکھا مگر وہاں روحاب نہیں تھا۔
یہ کہا چلے گئے ابھی تو یہیں تھے۔
سجل نے موحد سے پوچھا۔
جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے۔موحد نے بتایا۔
"کہاں اوپر"
سجل نے ہاتھ اٹھایا اور آسمان کی طرف انگلی کرتے ہوئے پوچھا۔
اوفو پاگل میرا مطلب ہے اندر سے آئے تھے اور وہیں چلے گئے۔
موحد نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا۔
اوہو اچھا۔۔۔
سجل نے ہولے سے سر ہلایا۔
اور پھر کچھ دیر پہلے کی جانے والی موحد کی حرکت یاد آنے پر بولی۔
یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے موحد تمہیں تو میں چھوڑوں گی نہیں۔
اس نے جھک کر گھاس سے پائپ اٹھایا اور دوبارہ سے اس کے پیچھے بھاگنے لگی۔
۔****************************
بڑی ماما آج میں کھیر بناؤں گی۔
سجل نے بڑی ماما کو کھیر بنانے کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا تو بولی۔
یہ آج سورج مشرق کی بجاۓ مغرب سے کیسے نکل آیا بڑی ماما۔
انعم کالج سے ابھی واپس آئی تھی اور پانی پینے کے لئے سیدھا کچن میں ہی آگئی تھی۔
اور اب یہ سن کر حیران ہوتی ہوئی پوچھنے لگی۔
تم ضرور پانی پینے آئی ہوگی یہ لو پکڑو پانی اور چلو نکلو شاباش کچن سے۔
سجل نے جلدی سے اسے پانی کا گلاس تھما کے کچن سے نکال دیا۔
جبکہ انعم بھی مزید کچھ کہے بغیر چپ چاپ باہر آگئی۔
بڑی ماما اب بس آپ مجھے بتائیں کہ کھیر بناتے کیسے ہیں۔
آپ نے بس بتانا ہے بنا میں خود ہی لوں گی۔
سجل نے ان سے کھیر کی ریسیپی پوچھی اور کھیر تیار کرنے لگی۔
کھیر بنا کر اسے ٹھنڈی ہونے کے لئے یاد سے فریج میں رکھ دینا سجل۔
بڑی ماما اسے کھیر بناتا دیکھ کر بعد میں اسے فریج میں رکھنے کا بول کر کچن سے نکل گئیں۔
۔*************************
آج آپ سب کو ایک مزے کی بات بتاتی ہوں کہ آج کی کھیر ہماری پروفیشنل شیف سجل نے بنائی ہے۔
اس لئے آپ سب اسے ضرور کھائیے گا۔
کھائیے گا نہیں بلکہ صرف چکھئے گا کیوں کے ان کی کھیر کو چکھنے کے بعد آپ اسے مزید کھا ہی نہیں سکتے۔
سجل جو انعم کی پہلی بات پر بہت خوش ہو رہی تھی اس کی آخری بات پر بولی۔
جس دن تم بنائی گی ناں اس دن میں بھی تمہیں دیکھ لوں گی انعم کی بچی۔
انعم اس کی بات کو نظر انداز کرتی پلیٹ میں کھیر ڈالنے لگی اور باقی سب کو بھی سرو کرنے لگی۔
سب سے پہلے کھیر روحاب کے حصے میں آئی اس لئے اس نے کھانا بھی پہلے شروع کر دی۔
یہ کیا بنایا ہے۔
کیا تمہیں کھیر بنانے کا ڈھنگ نہیں۔
روحاب نے کھیر بامشکل نگلی اور پلیٹ پرے کھسکا کر پانی پینے لگا۔
سجل جو کھیر والا چمچ ابھی منہ تک لے کر جانے ہی والی تھی۔
روحاب کی اس بات پر اس کا اسکا چمچ ہوا میں ہی رہ گیا۔
کیا ہوا روحاب بھائی کیا کھیر اچھی نہیں بنی۔
سجل نا سمجھی سے پوچھنے لگی۔
کھا کر دیکھو تو تمہیں پتا چلے کے کتنی کو اچھی بنی ہے۔
کھانے کا دل نہیں چاہ رہا کوئی اتنی بھی چینی ڈالتا ہے کھیر میں۔
لگتا ہے پورے کا پورا ڈبہ ہی الٹ دیا ہے تم نے تو میٹھے والا زہر بنا دیا ہے اسکو۔
لو پکڑو اور کھاؤ اکیلی ہی تم اسے روحاب اپنی پلیٹ اس کے سامنے پٹکتا ہوا لمبے لمبے ڈھنگ بھرتا ہوا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
جبکہ سجل کی آنکھوں میں نمکین پانی بھر آیا۔اس سے پہلے کہ وہ بھی اٹھ کے جاتی موحد جلدی سے بولا۔
حد کرتے ہیں بھائی بھی اچھی بھلی تو ہے کھیر کیا ہوا اگر چینی تھوڑی زیادہ ہوگئی۔چینی ہی تو ہے کوئی نمک تھوڑی نا ہے۔
ویسے تو بہت اچھی بنی ہے یہ موحد نے چمچ بھر کر کھیر منہ میں ڈال لی۔
چینی واقعی میں بہت زیادہ تھی مگر موحد اس کا روتا ہوا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا اس لئے زبردستی مسکراتا ہوا کھیر کھانے لگا۔
موحد بھائی بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں سجل آپی اچھی بھلی ٹھیک تو بنی ہے کھیر انعم نے بھی یہ کہتے ہوئے کھیر کھانا شروع کر دی۔
انعم ثانیہ سے زیادہ سجل سے قریب تھی۔
کیوں کہ وہ ثانیہ کی طرح خود سر اور ضدی نہیں تھی۔
تھوڑی لاپرواہ تھی مگر وہ کسی کا دل نہیں توڑتی تھی۔
اور یہی بات انعم کو اسکی بہت پسند تھی۔
ثانیہ نے بھی پلیٹ پرے کھسکا دی۔
معارج ان دونوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگی مگر ثانیہ کی طرح کھیر کھانے کی ہمت اس میں بھی نہیں تھی۔
سجل بیٹا کیا ہوگیا اگر چینی تھوڑی زیادہ ہوگئی آج پہلی دفعہ بنائی ہے ناں بناتی رہو گی تو آہستہ آہستہ سیکھ جاؤ گی۔
ثمرین بیگم نے اسے پیار سے کہا۔
وہ تو خوش تھیں کہ آج پہلی بار چاہے ٹھیک نا سہی مگر سجل نے کچھ بنایا تو سہی۔
سجل نے دیکھا کہ پاپا بڑی ماما اور بڑے پاپا بھی چپ چاپ کھیر کھا رہے تھے۔
سجل نے اپنے آنسو صاف کیے اور مسکرا دی۔روحاب نے صبح والی حرکت اور اب کھیر دونوں کا غصہ ایک ساتھ ہی نکالا تھا۔
مگر سجل صرف ایک روحاب کی وجہ سے موڈ خراب کر کے باقی سب کی محبتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس لئے مسکراتی ہوئی خود بھی کھیر کھانے لگی۔
۔**************************
اور پتا ہے پھر خود با خود میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
بندہ اگر تعریف نہیں کر سکتا تو کم از کم برائی بھی مت کرے مگر نہیں انہوں نے تو میری اچھی خاصی بےعزتی کر کے رکھ دی۔
سجل نے کل والا واقع ابیہا کو سنایا۔
اچھا اب تم رات کی طرح پھر سے رونے مت لگ جانا کیوں کہ آج میں تمہیں زبردست سی کھیر بنانا سکھانے والی ہوں۔
اور جتنے دن شادی میں رہ گئے ہیں اتنے دن تم روز میرے پاس آؤ گی اور میں تمہیں کھانا بنانا سکھاؤں گی اوکے۔
ابیہا نے اسے خوش کرنے کے لئے کہا اور سجل واقعی میں خوش ہوگئی اور بولی۔سچ میں آپی۔
ہاں سچ میں سکھاؤں گی اب تم فریج میں سے دودھ نکالو اور میں کھیر کے لئے چاول بھگو لوں۔
سجل نے دودھ والی کیتلی نکال کر شیلف پر رکھی جب زرمین پھپھو کچن میں داخل ہوئیں۔
ابیہا میں ذرا تمہارے مامو کی طرف جا رہی ہوں رومان آئے تو اسے یہ لسٹ دے کر چیزیں منگوا لینا۔
زرمین پھپھو نے لسٹ ابیہا کو تھمائی اور پھر سجل سے پوچھنے لگیں۔
سجل بیٹا رمیز اور رفیق بھائی گھر پر ہی ہیں ناں۔
پاپا تو آفس میں ہیں پھپھو مگر بڑے پاپا گھر ہی ہیں۔سجل نے انہیں بتایا تو وہ سے ہلاتی ہوئیں کچن سے نکل گیں۔
۔***********************
آخر شادی کا انتظار کرتے کرتے مہندی کا دن آن ہی پہنچا۔زاروں شادی سے آٹھ دن پہلے پاکستان واپس آیا تھا۔دونوں گھروں کے اندر اور باہر رنگ برنگی لائٹیں سجا دی گئیں۔
مہندی کے فنکشن کا انتظام لان میں کیا گیا تھا۔مہندی چاروں کی اکٹھی کی جانی تھی اور پھپھو زرمین کے گھر کی جانی تھی۔
سجل کب سے تیار ہو کر بیٹھی ہوئی تھی مگر معارج کی تیاری ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔
سجل مہندی رنگ کی فراک میں بغیر کسی میک اپ کے بہت پیاری لگ رہی تھی۔
سجل نے زبردستی معارج کو شیشے کے سامنے سے ہٹایا اور اسکا ہاتھ پکڑتی ہوئی اسے نیچے لان میں لے آئی۔
اوفو سجل مجھے پوری طرح سے تیار تو ہونے دیتی۔معارج نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا اور بال سیٹ کرنے لگی۔
اچھی بھلی تیار ہو تو گئی ہو۔پلیز باقی کا میک اپ شادی کے دوسرے فنکشن کے لئے بھی سنبھال کر رکھ لو پر ابھی تو موحد سے گجرے منگواؤ مجھے پہننے ہیں۔
سجل کو گجرے بہت پسند تھے۔ہاں میں بھی کہوں کلائیوں میں کچھ کمی سی محسوس ہو رہی ہے۔معارج نے کہا۔
سجل نے اس کی کلائیوں کو دیکھا جن میں ڈھیر و ڈھیر چوڑیاں پہننے کے باوجود بھی ابھی گجروں کی کمی باقی تھی۔
میں موحد کو گجروں کا کہہ کر آئی۔
معارج گیٹ کے پاس کھڑے موحد کو گجرے لانے کا کہنے چلی گئی۔
۔*********************