ثانیہ کانوں میں ہینڈفری لگاۓ بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر گانے سننے میں مگن تھی جب روحاب اس کے کمرے میں آیا اور اس کے کانوں سے ہینڈفری کھینچ کر بیڈ پر پھینکی۔
ثانیہ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور بیڈ سے اٹھتی ہوئی بولی۔
یہ کیا بدتمیزی ہے۔
بدتمیزی یہ نہیں بلکہ وہ ہے جو تم نے اس رشتے سے انکار کر کے کی ہے۔
رشتے سے انکار ہی تو کیا ہے اس میں بدتمیزی والی کون سی بات ہوگئی۔
ثانیہ کو سمجھ نا آئی کہ اس میں بدتمیزی والی کون سی بات تھی۔
اچھا تو جو ماما سے کہا کہ اپنے لاڈلے سے پوچھ لیں کہ وہ کسی اور لڑکی پر تو نہیں مرتا یہ نا ہو کہ کہیں زبردستی اسکی شادی مجھے سے کروا دیں اور بعد میں میری زندگی عذاب بن جاۓ۔
روحاب نے اسکی کی گئی باتیں اسی کو بتائیں۔جبکہ تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں صرف تم سے محبت کرتا ہوں۔
ہاں تو ٹھیک ہی تو کہا تھا میں نے جس لڑکے کے پیچھے ہر وقت لڑکیوں کا ہی ہجوم لگا رہے اس لڑکے سے شادی کے لئے تو میں بلکل بھی راضی نہیں ہو سکتی۔
میں نہیں مانتا ثانی کہ صرف اس وجہ سے تم نے انکار کیا ہے وجہ کچھ اور ہے پلیز بتاؤ۔
دیکھو روحاب تم پر تو ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں اس لئے بہتر ہے کہ تم انہی میں سے کسی ایک کا ہاتھ تھام لو اور میری جان چھوڑو کیوں کہ میرا انکار تو اب اقرار میں بدلنے سے رہا۔
ثانیہ لاپروائی سے کہتی ہوئی باہر جانے لگی جب روحاب نے جھٹکا دیتے ہوئے اسے سامنے کیا اور اسے دونوں بازوؤں سے زور سے پکڑ لیا۔
اف کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے۔
ثانیہ نے اس کی مضبوط گرفت سے نکلنے کی ناکام کوشش کی۔
یہی کہا ناں تم نے کہ جو ہزاروں لڑکیاں مجھ پر مرتی ہیں ان میں سے کسی ایک کا ہاتھ تھام لو۔
اگر ان ہزاروں میں سے ایک بھی تم ہوتی تو کب کا تمہیں اپنا چکا ہوتا۔روحاب ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔
یہی تو بات ہے مسٹر روحاب کہ میں ان لڑکیوں میں کبھی شامل نہیں ہونا چاہتی جو صرف تمہارے عہدے پر مرتی ہیں انھیں تم سے کوئی غرض نہیں۔
لیکن مجھے تو تمہارے عہدے اور تم سے دونوں سے کوئی غرض نہیں کیوں کہ میں نے اپنا جیون ساتھ چن لیا ہے جو کے ہر لحاظ سے تم سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
ثانیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے اس پر طنز کیا۔کیا کہا تم نے جیون ساتھ کس کی بات کر رہی ہو تم۔
"زارون کی"
ثانیہ نے اس کی کیفیت سے بے خبر مزے سے کہا۔تم زاروں سے پیار کرتی ہو اس لئے تم نے مجھے انکار کیا۔روحاب کو یقین نا آیا۔
پہلی بات میں نے زارون کو نہیں بلکہ زارون نے مجھے چنا ہے پرپوز کیا ہے اس نے مجھے۔
اور دوسری بات کہ میں اس سے پیار کرتی ہوں یا نہیں یہ تو میں نہیں جانتی۔
ہاں مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ وہ مجھے اپنے لئے ہر لحاظ سے بہتر لگتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ رہتا بھی انگلینڈ میں ہے اور ہر ملک میں گھومتا ہے اور انگلینڈ میں تو اسکا اپنا بڑا گھر ہے۔
قسم سے میں تو گھر کی تصویریں دیکھ کر حیران ہی رہ گئی۔
اور پتا بھی ہے تمہیں ایک مہینے کا ڈیڑھ لاکھ کماتا ہے کہہ رہا تھا کہ شادی کے بعد مجھے بھی اپنے پاس بلا لے گا۔
سب کچھ ہی تو ہے اس کے پاس اور وہ بھی اپنا۔تمہارے پاس ہے کیا اتنا کچھ۔
تم تو مجھے صرف وہی کچھ دے سکتے ہو جو پہلے سے ہی میرے پاس ہے۔
جو ضرورتیں تم میری پوری کر سکتے ہو وہ سب تو ماما پاپا بھی کر سکتے ہیں۔
بولو گھوما سکتے ہو مجھے پوری دنیا اپنی یہ وردی چھوڑ کر لے جا سکتے ہو مجھے امریکہ انگلینڈ ملائشیا اور ہر جگہ۔
تم تو اگر رکھو گے نہیں تو اس گھر میں ہی رکھو گے اور اگر اپنا گھر لے بھی لیا تو یہیں لو گے ناں مگر مجھے یہاں نہیں رہنا۔
مجھے تو زارون سے شادی کر کے انگلینڈ جانا ہے گھومنا پھرنا ہے آزاد بغیر کسی روک ٹوک کے۔
مگر یہاں تم جیسے لوگ صرف پابندیاں ہی لگا سکتے ہو۔
آخر ایسا ہے ہی کیا تم میں جو میں شادی کے لئے ہاں کر دیتی۔
ثانیہ نے ہنستے ہوئے اسکا مذاق اڑایا۔
ثانیہ وہی تھی جو کچھ دیر پہلے کہہ رہی تھی کہ لڑکیاں صرف اس کے عہدے پر مرتی ہیں نا کے اس پر مگر اب خود بھی تو ایسا ہی کر رہی تھی۔
اسے زارون سے کوئی غرض نہیں تھی اگر تھی تو صرف اس کی کمائی سے اپنی خواہشات سے اپنے بڑے بڑے خوابوں سے جنہیں وہ صرف زارون سے شادی کر کے ہی پورا کر سکتی تھی۔
روحاب کو لگ رہا تھا کہ بس اتنی ذلت بہت ہے اس سے زیادہ اب وہ برداشت نہیں کر سکتا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ ثانیہ اس کے لئے ایسی سوچ رکھتی ہے اتنی مطلبی کہ اپنے مطلب کے سامنے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔
ثانیہ وہ لڑکی تھی جس سے اس نے شدت سے پیار کیا تھا اور بدلے میں اس نے بھی ہر موقع پر اس سے اپنی محبت ظاہر کی تھی۔
مگر زارون کی شان و شوکت کو دیکھ کر اسے روحاب کی شان و شوکت پھیکی لگنے لگی تو وہ اسے ٹھکراتی ہوئی زارون کی طرف بڑھ گئی۔
ثانیہ وہ لڑکی تھی جس لے قدموں میں روحاب نے اپنا دل تک رکھ دیا مگر اس نے ایک ٹھوکر سے ہی اسے پڑے پھینک دیا۔
روحاب سرخ ہوتی آنکھیں لئے واپس مرنے لگا جب دروازے پر کھڑی سجل کو دیکھ کر رک گیا۔
سجل اس کے پاس آئی اور بولی۔
آپ کیوں میری آپی کی خوشیوں کے بیچ میں آرہے ہیں اگر وہ زارون بھائی سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس میں غلط ہی کیا ہے۔
اگر وہ آپ سے شادی کر کے خوش نہیں رہ سکتیں تو ان کے انکار پر چپ کیوں نہیں ہو جاتے آپ۔
ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں آپی جتنی بھی لڑکیاں آپکے آس پاس نظر آتی ہیں وہ صرف آپ کے عہدے پر مرتی ہیں نا کے آپ پے۔
سجل تم بیچ میں مت بولو میں بات کر چکی ہوں اور یہ میرے انکار پر چپ بیٹھنے یا نا بیٹھنے مگر میں زارون سے شادی کرنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔
اور اب اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنے والی۔ثانیہ سجل کو چپ کرواتی اسے اپنے ساتھ لئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
جبکہ روحاب ثانیہ اور سجل کی باتوں پر بیچ و تاب کھاتا تن فن کرتا گھر سے ہی باہر نکل گیا۔
۔*************************
اور بس اس دن سے لے کر آج تک روحاب نے سجل سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔
اس وقت تو جو دل میں آیا ثانیہ کی حمایت میں اسنے کہہ تو دیا مگر اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اسے وہ سب باتیں نہیں کہنی چاہیے تھیں۔
کیوں کے روحاب غلط نہیں تھا اور نا ہی وہ ثانیہ کی خوشیوں کے بیچ آرہا تھا۔
اگر قصور تھا تو ثانیہ کا تھا۔
کیوں کہ اس نے صرف انکار ہی نہیں کیا تھا بلکہ انکے کے ساتھ ساتھ اس کی تذلیل بھی کر ڈالی تھی جس کا حق دار وہ بلکل بھی نہیں تھا۔
بہت دفعہ سجل کے دل میں خیال آیا کہ وہ جا کر روحاب سے اپنی ان باتوں کی معافی مانگ لے مگر ڈرتی تھی کہ روحاب ضرور اسے ڈانٹ دے گا کیوں کہ وہ اس دن کا بھول کر بھی ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا چاہے خود اسے وہ ایک دن بھی بھولا نا ہو۔
خیر یہ بات صرف ان تینوں کے بیچ کی تھی یہ بات ان دونوں کے علاوہ صرف سجل ہی جانتی تھی کہ روحاب کسی سے بہت پیار کرتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ثانیہ ہے۔
اور یہ کہ ثانیہ نے آخر روحاب کے رشتے سے انکار کیوں کیا۔
گھر میں سب یہ جانتے تھے کہ ثانیہ کا رشتہ شہلا نے مانگا تھا مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ روحاب کی اپنی بھی یہ دلی خواہش تھی۔
ورنہ سب کو سمجھ آ جاتی کہ وہ شادی کے لئے راضی کیوں نہیں ہوتا۔
سب یہ جانتے تھے کہ ثانیہ نے انکار اس وجہ سے کیا کیوں کہ زارون اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور ثانیہ کو بھی اس سے شادی پر کوئی اعتراض نا تھا مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ روحاب سے شادی پر آخر کیوں اعتراض تھا۔
۔**************************
سجل انہی باتوں کو سوچتی ابھی تک ٹیرس پر بیٹھی تھی جب کسی نے پیچھے سے اسے
"بھاؤ"
کہہ کر ڈرایا۔وہ جانتی تھی کہ یہ موحد کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
مگر اس وقت اس کا لڑنے کا کوئی موڈ نہیں تھا اس لئے بولی۔
کیا تلکیف ہے۔
سر میں تکلیف ہے اس لئے پلیز کافی بنا دو ناں۔
موحد نے جھٹ سے جواب دیتے ہوئے کافی کی فرمائش کی۔
دماغ تو ٹھیک ہے رات کے بارہ بج رہے ہیں اس ٹائم پیو گے کافی۔
ہاں پی لوں گا بس تم بنا دو۔
میں نہیں بنانے والی جاؤ انعم سے کہو میں نیچے نہیں جا رہی۔
سجل نے انکار کرتے ہوئے اسے انعم سے رابطہ کرنے کا کہا۔
نکمی ہو تم پوری کی پوری تم سے تو کسی کام کے لئے مان جانے کی امید کرنا ہی بیکار ہے۔
موحد اسے نکمی کہتا ہوا اپنی سویٹ سی کزن انعم یعنی انو کے پاس آیا جو کہ ابھی تک جاگ کر پڑھ رہی تھی۔
انو میری سویٹ اور پیاری سی کزن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسکے مت لگائیں اس کے بغیر بھی کام کر سکتی ہوں آپکا۔
انعم جانتی تھی کہ اسے کوئی کام ہی ہے جو تعریف کر رہا ہے اس لئے اسکی اگلی بات شروع کرنے سے پہلے ہی بول پڑی۔
کتابیں پڑھ پڑھ کر سیانی نہیں ہوتی جا رہی ہر بات پہلے سے ہی سمجھنے لگی ہو۔
کام بتائیں موحد بھائی۔
مجھے کافی بنا دو انو اور وہ بھی مزے کی۔
موحد نے کام کی بات کی۔ٹھیک ہے آپ اپنے کمرے میں جائیں کافی آپ تک پہنچ جاۓ گی۔
انعم کسی روبوٹ کی طرح بولی۔
اچھا ویسے کب تک پہنچ جاۓ گی اور کیا خود بخود پہنچ جائے گی۔
کافی کے لئے انتظار کا دورانیہ کتنا ہوگا۔
صرف پانچ منٹ اس کے بعد جا رہی ہوں بنانے۔اوکے میں جا رہا ہوں اپنے کمرے میں اور پانچ منٹ کا مطلب صرف پانچ منٹ۔
موحد اس کے ہاتھ سے پین پکڑتا ہوا کھڑا ہوگیا اور جانے لگا۔
ارے موحد بھائی یہ پین تو دیتے جائیں۔
کیوں دوں واپس اور ویسے بھی میرے بیگ میں ایک بھی پین موجود نہیں ہے اور تمہارے ہر وقت بیگ کھول کر بیٹھے رہنے کا ایک تو فائدہ تو ہوتا ہے کہ تم سے کم از کم سٹیشنری کی چیزیں تو مل جاتی ہیں۔موحد کا کمرا نیچے تھا اس لئے وہ پین لئے نیچے چلا گیا۔
انعم بھی کتابیں سمیٹتی کھڑی ہوگئی تا کہ کافی دینے کے بعد وہ موحد سے پین تو لے آئے۔
وہ پین کبھی واپس لینے نا جاتی اگر وہ پین اسے روحاب بھائی نے اتنے پیار اور مان سے نا دیا ہوتا اور یہ نا کہا ہوتا کہ میرے خیال سے انعم تمہارے نزدیک اس تحفے سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں ہو سکتا۔
اس قلم سے تمہیں خود نہیں سیکھنا ہے اور دوسروں کو بھی سکھانا ہے۔
اور ان سب نکموں سے سے آگے بڑھنا ہے۔
روحاب اسکی ہر برتھ ڈے پر اسے پین کتاب جیسی چیزیں ہی تحفے میں دیتا تھا۔
جو کہ واقعی میں اس کے لئے سب تحفوں سے بڑھ کر ہوتی تھیں۔
کیوں کہ وہی تو اس کے کام آتی تھیں اس کی صلاحیتوں کو ابھارتی تھیں۔
۔************************
سجل تم نے آج بھی یونیورسٹی سے چھٹی کر لی۔ثمرین بیگم نے اسے لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھتے دیکھا تو پوچھا۔
ماما فنکشن تھا آج یونیورسٹی میں تو میں نے بھلا جا کر کیا کرنا تھا۔
سجل نے ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
تو کیا ہوا تھوڑا بہت دماغ ہی فری ہو جاتا ہے بندے کا معارج بھی تو گئی ہے تم بھی چلی جاتی۔
معارج کسی فنکشن کو چھوڑ دے ایسا ہو سکتا ہے بھلا اسے تو موقع چاہیے نئے نئے کپڑے جوتے اور جیولری پہننے کا اور سے ڈھیر و ڈھیر میک اپ تھوپنے کا۔سجل کی بجاۓ ثانیہ نے کہا۔
ثانیہ کسی کا تمسخر اڑائے بغیر کوئی بات مکمل کر لے ایسا بھی بھلا ہو سکتا تھا کیا۔
ثانیہ اپنے لہجے میں نرمی پیدا کرو بیٹا اب تمہاری شادی ہونے والی ہے۔
یوں ہر کسی کا مذاق اڑاتی رہو گی تو آگے بھی یہی عادت اپناؤ گی۔
ثمرین بیگم نے اسے سمجھایا مگر ثانیہ کوئی بات سمجھنے والی کہاں تھی بلکہ الٹا یہ بولنے لگی۔
میں نے کون سا کوئی غلط بات کہی ہے ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔
اور یہ ہماری بیوقوف سجل کبھی منہ دھو کر کریم تک نہیں لگائی۔
اور میں تمہیں بتا رہی ہوں سجل ابھی سے کہ میری شادی پر تم ایسا روکھا منہ لے کر مت گھومتی پھرنا۔
معارج سے ہی سیکھو کچھ کیسے ہر وقت تیار شیار رہتی ہے اور شادی پر تو اس نے تیاری کے سارے ریکارڈ توڑ دینے ہیں اس لئے تم بھی ابھی سے تیاری شروع کر دو۔
ثانیہ نے نے جیسے بات سجل کے دماغ میں بٹھانی چاہی۔دیکھوں گی آپی ابھی فلحال میرا کوئی موڈ نہیں۔
سجل نے یہ کہہ کر ثانیہ کی بات کو جیسے ہواؤں میں اڑا دیا۔
سجل کو میک اپ اور نت نئے کپڑوں وغیرہ میں کوئی دلچسبی نہیں تھی۔اور نا ہی آج تک کسی نے اسے میک اپ میں دیکھا تھا۔
اسے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت بھی نہیں تھی کیوں کہ وہ عام و سادہ سے لباس اور میک اپ سے بے نیاز چہرے میں بھی سب کزنوں سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔
ثانیہ بھی کچھ کم پیاری نہیں تھی مگر اس کے چہرے پر سجل کی طرح معصومیت اور بھولا پن بلکل بھی نہیں تھا۔
سجل کے چہرے میں سب سے خوبصورت اس کی بڑی بڑی آنکھیں اور لمبی گھنی پلکیں تھیں۔
جو ہر ایک دفعہ دیکھنے والے کو دوبارہ نظریں اٹھا کر دیکھنے پر مجبور کر دیتیں۔اور رہی انعم تو وہ تو تھی ہی سب کزنز سے مختلف۔
اس کی رنگت سجل اور ثانیہ کی طرح گوری نہیں بلکہ سانولی تھی لیکن نین نقش بہت پیارے تھے۔اور یہی سانولی رنگت کتنے لوگوں کو اپنی طرف اٹریکٹ کرتی تھی اس بات سے وہ بے خبر تھی۔
با خبر تو تب ہوتی جب کتابوں کی دنیا سے باہر نکل کر دیکھتی۔
۔***********************