آج گھر میں گہری خاموشی تھی۔
نا ہی آج ڈنر بنا اور نا ہی کسی نے ویسے کچھ کھانے کی زحمت کی۔
روحاب نے خود سجل کے لئے سوپ بنایا اور اسے پلانے لگا۔مگر سجل نے پینے سے منع کر دیا۔
سجل اپنی طبیت دیکھو اور اپنے نخرے دیکھو۔بس میں نے کہا نا تم اب چپ چاپ یہ سوپ پیو گی تو مطلب پیو گی۔
روحاب نے اسے مصنوئی غصہ دکھاتے ہھے ڈانٹا تو وہ برا سا منہ بناتے ہوئے سوپ پینے لگی۔
اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آنسو بھی جنہیں وہ اب بہانہ نہیں چاہتی تھی۔
۔****************
تم سب لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے اتنا بے بس کر دیا ہے کہ میں اب کچھ نہیں کر سکتی۔
مگر اس کے باوجود بھی میں نے ایک کام تو کر دیا ہے جس کا انجام تم لوگوں کو میرے جانے کے بعد دکھائی دے گا۔
اچھا نہیں کیا آج تم لوگوں نے میرے ساتھ۔
ثانیہ چھت پر کھڑی خود ہی سے باتیں کر رہی تھی بلکہ زہر اگل رہی تھی۔
تم سب نے مجھے میری زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
مگر میں اتنی آسانی سے نہیں جا رہی۔اکیلی نہیں مروں گی بلکہ تمہیں مار کر مروں گی سجل۔
میرے مرنے سے سے کسی کو کوئی فرق پڑے یا نا پڑے مگر تمہارے مرنے سے تو پڑے گا نا۔
کتنا دکھ کتنی تکلیف ہوگی ناں سب کو۔
اور یہی تو مجھے چاہیے۔
کاش میں سب کی تکلف دہ حالت دیکھنے کے لئے زندہ رہ جاتی مگر نہیں اب تو مرنا ہی پڑے گا مجھے بھی اور تمہیں بھی۔
اور روحاب کے بچے تم۔۔۔۔۔
میری بد دعا ہے کہ تم کبھی خوش نا رہو سب ترس جائیں تمہارے چہرے کی ایک مسکراہٹ دیکھنے کے لئے۔
بہتر ہے کہ تم بھی اس کے ساتھ ہی مر جاؤ کیوں کہ اس کے بعد بھی تو تمہیں پل پل مرنا ہی ہے۔
ویسے یہ تمہارا پل پل مرنا زیادہ بہتر ہے۔
جا رہی ہوں میں اپنی طرف سے تم لوگوں کو ڈھیروں خوشیاں دے کر۔۔۔۔
اور اپنا آخری مقصد پورا کر کے۔۔۔
جا رہی ہوں میں۔۔۔
ہا ہا ہا۔۔۔
ثانیہ پاگلوں کی طرح قہقے لگانے لگی۔
اور پھر دونوں بازو پھیلائے دیوار سے نیچے چھلانگ لگا گئی۔
۔*****************
سجل نے ابھی دو چمچ ہی لئے تھے کہ اس کی حالت بری ہونے لگی۔
گلے پر ہاتھ رکھے وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی۔
سجل کیا ہوا تمہیں۔
روحاب سوپ کا پیالہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسے دیکھنے لگا۔
سجل اچانک اٹھی اور واش روم بھاگ گئی۔
اور پھر سنک کے سامنے کھڑی ہو کر الٹیاں شروع کر دیں۔
سجل آر یو اوکے۔۔۔
روحاب نے دروازہ بجا کر پوچھا مگر کوئی جواب نا آیا۔
روحاب سے اب انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا اس لئے وہ اندر چلاگیا۔
جب وہ دروازہ کھول کر اندر گیا تو سجل چکرا کر گرنے ہی والی تھی۔
روحاب نے جلدی سے اسے اپنی بانہوں میں لیا اور تقریباً بھاگتا ہوا اسے گاڑی میں لے آیا اور پھر گاڑی ہوسپٹل کی طرف بڑھا دی۔
۔***************
ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے۔۔۔؟
کافی ٹائم بعد جب ڈاکٹر روم سے باہر نکلی تو روحاب بولا۔
وہ اب ٹھیک ہیں۔
اسے ہوا کیا تھا ڈاکٹر۔۔۔
انھیں زہر دیا گیا تھا۔۔
وہاٹ زہر؟؟؟
روحاب کو تو جیسے کرنٹ لگا۔
جی ہاں پر یہ اچھا ہوا کہ انہوں نے اسی وقت الٹیاں شروع کر دیں ورنہ زہر کو پورے جسم میں پھیلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
جتنا زہر موجود تھا وہ نکال دیا گیا ہے اینڈ ناؤ شی از فائن۔
چونکہ وہ پریگنینٹ ہیں اس لئے اب آپکو انکا اور بھی خیال رکھنا پڑے گا روحاب صاحب اور شکر کریں بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
ڈاکٹر اسے سجل کی خاص طور پر کیئر کرنے کی ہدایت دے کر واپس مڑ گئی۔
جبکہ روحاب غصے سے مٹھیاں بند کئے کھڑا تھا۔
یہ کام یقیناً ثانیہ کا تھا اور آج وہ اسے چھوڑنے نہیں والا تھا۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا ابھی مروڑ دے مگرسجل کی ابھی کنڈیشن نازک تھی اس لئے اسے رات ہسپتال ہی رکنا پڑا۔
۔****************
وہ خاموشی سے دروازہ کھولے سجل کے پاس آیا۔سجل لگاۓ گئے انجکشن کی وجہ سے گہری نیند میں تھی۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں مبتلا ہے اس لئے سجل کے لئے ایک لمبی پر سکون نیند بہت ضروری ہے۔
اور روحاب جانتا تھا کہ سجل کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوا اور جو کچھ آج ہوا اس کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہے۔
روحاب اس کے پاس بیٹھا اور اس کے بالوں کو سہلانے لگا۔
میری جان مجھے معاف کر دو مجھے اگر معلوم ہوتا کہ اس سوپ میں زہر ہے تو میں کبھی بھی ضد کر کے تمہیں وہ سوپ نا پلاتا۔
مگر آج میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جس نے تمہیں اس حال میں پہنچایا ہے اسکو میں چھوڑوں گا نہیں۔اب میں بلکل بھول جاؤں گا کہ وہ ثانیہ تمہاری بہن ہے۔
تم بس اب جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔
روحاب نے اس نازک سی لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور اپنے دل سے لگا لیا تا کہ اس کہ دل میں جلتی آگ پر اس کے نازک ہاتھ کے احساس سے ٹھنڈک کی پھوار پر سکے۔
۔****************
صبح ہوتے ہی وہ سجل کو لئے گھر واپس لوٹا۔
اس ارادے کے ساتھ کہ آج تو وہ ثانیہ کا قتل کر کے ہی چھوڑے گا وہ اس قابل ہی نہیں کہ اسے زندہ سلامت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جا سکے۔
مگر وہ سجل کو لئے جب گھر میں داخل ہوا تو بے یقینی سے سامنے کا منظر دیکھ کر حیرت کا پتلا بنا وہی کا وہی کھڑا رہ گیا۔
صحن میں گھر اور محلے کے تمام لوگ موجود تھے۔سب کے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے بلکہ پھوٹ پھوٹ کر رویا جا رہا تھا۔
اور جس کے لئے رویا جا رہا تھا وہ بے جان وجود صحن کے بیچ اور بیچ پڑا تھا۔
سجل تو وہیں روحاب کے پیروں میں بیٹھی پھوڑ پھوٹ کر رونے لگی۔
یہ تم نے کیا کیا ثانیہ۔۔۔
آخر کیوں کیا ایسا۔۔۔۔ثمرین بیگم روتے ہوئے مسلسل اس سے کلام کر رہی تھیں۔
روحاب زمین پر اس کے پاس بیٹھا اور اسے کندھوں سے تھام کر اپنے ساتھ لگا لیا مگر ایک لفظ بھی تسلی کا نا بول سکا۔
کون جانتا تھا کہ ثانیہ نے جیسا کہا تھا وہ ویسا کر دکھاۓ گی۔۔۔۔۔۔
ثانیہ وہ لڑکی تھی جس نے ساری زندگی سواۓ حسد کرنے کے اور کچھ سیکھا ہی نا تھا اور حسد کرنے والے کو اسکی اس بیماری سے نجات صرف اور صرف ایک موت ہی دلا سکتی ہے۔
جو کہ آج اسکو مل گئی تھی۔
حسد کرنا بھی اس کا اپنا ہی انتخاب تھا اور موت بھی۔
اور اس کے یہ دونوں انتخاب ہی غلط تھے کیوں کہ اس کے دونوں انتخاب سب کے لئے دکھ کا باعث ہی بنے۔
۔******************
آج اس گھر میں ایک ننھا سا مہمان آیا تھا اوہ سوری بلکہ آئی تھی۔
ایک ننھی سی پڑی۔
سب اس ننھی پڑی کے گرد جمع تھے۔
کبھی کوئی اسے اپنی بانہوں میں لے رہا تھا تو کبھی کوئی۔
کیوں کہ وہ تھی ہی اتنی پیاری کہ جو بھی اسے اپنی بانہوں میں لیتا اس سے نظریں ہٹانا ہی بھول جاتا۔آخر میں باری معارج کی آئی تو روحاب نے جلدی سے اسے معارج سے لے لیا۔
ارے بھائی کیا کر رہے ہیں ابھی تو پکڑا ہے میں نے اب کچھ دیر تو اسے میرے پاس رہنے دیں۔
پورے ایک منٹ پکڑا ہے تم نے اسے اور مجھے دیکھو جس نے اپنی پڑی کو غور سے دیکھا بھی نہیں۔
مجھے بھی تو دیکھنے دو اپنی پرنسز کو۔روحاب نے اسے جی بھر کر دیکھا اور پھر سجل کو تھما دیا۔سجل جو کب سے اس انتظار میں تھی اسکو لئے بیڈ سے اتری اور اس ننھی منی گڑیا کو سامنے بیٹھی ابیہا کی جھولی میں ڈال دیا۔
ابیہا حیران ہو کر سجل کو دیکھنے لگی۔
ابیہا ہی کیا باقی سب بھی حیران ہوگئے۔
ایسے حیران مت ہوں آپی میں تو کب سے اس انتظار میں تھی۔
سوچتی ہی رہتی تھی کہ کب یہ دن آئے اور کب میں اسے آپ کے حوالے کروں۔
اور یہ میری نہیں زارون کی خواہش تھی۔
جانتی ہیں جانے سے ایک دن پہلے وہ میرے پاس آئے تھے۔
اور ہاتھ جوڑ کر التجا کی تھی کہ میں انکی اولاد کو آپ کے حوالے کروں۔
میں نے تو انکو اسی دن معاف کر دیا تھا۔
جانتی ہیں انہوں نے کیا کہا تھا کہ اللّه تو بندے کی بڑی سے بڑی خطا کو بڑے سے بڑے گناہ کو معاف کر دیتا ہے جب وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی مانگے۔انہوں نے جو بھی کیا جیسا بھی سہی مگر میں انکے جڑے ہوئے ہاتھوں انکی التجاؤں کے سامنے اپنے دل کو اور سخت نا کر سکی۔
لوگوں کے تو پتھر دل بھی پگھل جاتے ہیں آپی مگر میں نے تو اپنے دل تو کبھی پتھر بنایا ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ خدا انکو نا پسند کرتا ہے جو کسی کا دل توڑتے ہیں اور انکو پسند کرتا ہے جو دل جوڑتے ہیں کسی کو معاف کر دیتے ہیں چاہے معافی مانگنے والا کتنا ہی گناہ گار کیوں نا ہو۔۔۔
تو بس میں نے بھی انھیں معاف کر دیا مگر مجھے افسوس ہے میں انکے سامنے یہ نا کہ سکی کہ میں نے آپکو معاف کر دیا۔
میں نے تو انکو معاف کر دیا ہے مگر ہو سکے تو آپ سب بھی انھیں معاف کر دیجئے گا میری خاطر ہی سہی۔
سجل نے دیکھا سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اس لئے جلدی سے بات بدل گئی۔
خیر میں یہ کہہ رہی تھی کہ آپی یہ گڑیا اب آپکی ہے اور اس کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گیں۔
اب جلدی سے بتائیں کیا نام رکھیں گی اسکا۔
ابیہا مسکراتی ہوئی اس ننھی سی جان کو چومنے لگی اور بولی۔
"ثانیہ"
اس کمرے کے تمام افرار جو اس کی مسکراہٹ پر مسکرائے تھے مگر ثانیہ کے نام پر ان کی مسکراہٹ کہیں غائب ہوگئی۔
میں جانتی ہوں کہ آپ سب یہ نام سن کر ضرور حیران ہونگے۔
مگر میں اس کا نام ثانیہ رکھ کر آپکو وہ ثانیہ دکھانا چاہتی ہوں جو زندگی کہ ہر لمحے کو خود بھی جیتی ہے اور دوسروں کو بھی جینے دیتی ہے۔
میں آپکو وہ ثانیہ دکھانا چاہتی ہوں جسے دیکھ کر حسین زندگی کا گمان ہو۔
جسے دیکھ کر لوگوں کی بے جان زندگی میں جینے کی امنگ پیدا ہو نا کہ مرنے کی تمنا۔
میں یہ ثانیہ دکھا کر آپ لوگوں کی زندگی سے وہ ساری تلخیاں دکھ تکلیفیں مٹانا چاہتی ہوں جو اس نام سے آپ سب کے چہروں پر ظاہر ہوتی ہیں۔
میں سب کے سامنے ایک نئی ثانیہ لانا چاہتی ہوں۔۔۔
آپ سب ہی بتائیں کیا میں یہ نام رکھ کر ٹھیک کر رہی ہوں۔۔
ابیہا نے آخر میں پوچھا کہ شائد اس کے اس نام سے کوئی مطمئن نا ہو۔مگر بڑے ابا نے آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور بولے ہمیشہ خوش رہو بیٹا۔
سجل جو ابیہا کے پاس کھڑی تھی روحاب کے پاس آئی اور بولی۔
روحاب میں نے ٹھیک کیا ناں۔
تم نے جو بھی کیا ٹھیک کیا میں تمہارے اس فیصلے سے بہت خوش ہوں سجل۔
ایم سو ہیپی میری جان۔
روحاب نے مسکراتے ہوئے اس کو اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کے ماتھے پر پیار بھرا بوسہ دیا۔
۔*****************
ایک سال گزر چکا تھا انعم کے پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی موحد نے اسے گھیر لیا۔
بہت ہوگیا انو کی بچی بہت کر لیں تم نے پڑھائیاں۔آج ہی جا رہا ہوں میں ماما کے پاس۔
تیاری کر لو اپنا کمرہ چھوڑ کر میرے کمرے میں شفٹ ہونے کی۔
موحد نے شہلا سے اس بارے میں بات کی تو وہ جو پہلے ہی اس انتظار میں بیٹھی تھیں باقی سب سے بات کر کے شادی کی ڈیٹ فکس کر دی۔
تیاریاں تو پہلے ہی مکمل تھیں۔
ان دونوں کے ساتھ ساتھ روحاب کو دولہا اور سجل کو بھی دلہن بنا دیا گیا۔
۔*****************
روحاب سجاوٹ سے بھرپور کمرے میں داخل ہوا۔سجی سنوری سجل کے پاس آیا۔
وہ اپنا سرخ اور گولڈن لہنگا پورے بیڈ پر پھیلائے بیڈ کے بیچ و بیچ بیٹھی تھی۔
تمہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے آج کے دن خاص طور پر میرے لئے آسمان سے کوئی حور اتار دی گئی ہے۔
بہت ہی حسین لگ رہی ہو میری جان تمہارے حسن کی تعریف میں میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہیں کہ جن میں تم کیا ہو یہ میں بتا سکوں۔
جانتی ہو کتنا ارمان تھا مجھے تمہیں دلہن کے جوڑے میں سجا سنورا دیکھنے کا۔
ویسے یہ معارج بھی ناں پورا آدھا گھنٹہ لگا کر مجھے اندر بھیجا ہے اس نے۔
تم ہی سفارش کر دیتی میری کیا ہوتا اگر جلدی اندر آ جاتا تو۔۔۔۔
میں کون سا کہیں بھاگی جا رہی تھی ابھی بھی تو یہیں۔۔۔۔۔
سجل نے بولتے بولتے اپنی زبان کو بریک لگائی۔
اف سجل تم بھی پاگل ہو بھولو مت تم اس وقت دلہن ہو اس لئے بس چپ رہو اور شرماؤ۔
سجل نے دل ہی دل میں خود کو ڈپٹا۔
جبکہ روحاب اس کی ادھوری بات پر ہنسنے لگا۔
تم نہیں بدل سکتی سجل لگتا ہے کہ تم ہمیشہ ایسے ہی رہو گی۔
اور اگر سچ بتاؤں تو میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ ایسی ہی رہو۔
تھوڑی کم عقل۔۔۔
تھوڑی چلبلی۔۔۔
اور لڑتی جھگڑتی۔
تمہاری انہی نوک جوک اور باتوں سے مجھے ہمارے رشتے ہی خوبصورتی کا احساس ہوتا ہے۔
تم نے تو میرے اندر سے اس اکڑو خان کو نکال ہی دیا ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا۔
لگتا ہے تمہارا ہی عکس پڑا ہے جو میں بھی کچھ کچھ خوش مزاج بن ہی گیا ہوں ورنہ تم اکیلی ہی نہیں تھی جو مجھے اکڑو خان کہتی تھی۔
ویسے بیگم صاحبہ آج میں بہت بہت بہت زیادہ خوش ہوں اتنا کہ۔۔۔۔۔
کیا ہوا میں یہاں اپنی خوشی ظاہر کر رہا ہوں اور تم ہو کہ عجیب عجیب منہ بنا رہی ہو۔
وہ آپکو تو پتا ہے روحاب میں نے نا ہی کبھی اتنا ہیوی میک اپ کیا ہے اور نا ہی ایسا ڈریس اور جیولری پہنی ہے۔
میرا تو دم گھٹ رہا ہے میں یہ سب اتارنے جا رہی ہوں۔سجل نے یہ کہتے ہوئے بیڈ سے اترنا چاہا۔
ارے خبردار جو تم نے بیڈ سے ایک قدم بھی نیچے اتارا تو۔روحاب اتنی اونچی بولا کہ سجل تو کانپ ہی گئی۔۔۔۔
ابھی تو میں نے تمہیں جی بھر کر دیکھا بھی نہیں۔آج کہ دن میرے لئے کم از کم تھوڑی دیر ہی پلیز ایسے ہی رہو۔
اتنی پیاری لگ رہی ہو اب جی بھر کر دیکھنا تو بنا ہی ہے میرا۔
روحاب نے اسکا سفید نازک و ملائم ہاتھ تھاما جو اس کے نام کی مہندی سے بھرا ہوا تھا اور اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
اور پھر ٹکٹکی باندھے اسے جی بھر کر دیکھے گیا۔جبکہ سجل شرم کے مارے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئی۔
سنو اے ہم سفر میری
مجھے تم سے یہ کہنا ہے
مجھے تم سے محبت تھی
مجھے تم سے محبت ہے
میرے دن رات میں تم ہو
میری ہر بات میں تم ہو
خوشی کے جتنے موسم بھی
تمہارے ساتھ دیکھے ہیں
میرے جیون کا حاصل ہیں
تمہارے نام کے جگنو،
تمہارے لمس کی خوشبو،
تمہارے پیار کا جادو
میری رگ رگ میں شامل ہیں
میں اپنی ذات کے چاہے کسی موسم میں رہتا ہوں
ہر اک موسم تمہارا ہے
تمہارا ساتھ پیارا ہے
میرے ہر پل میں رہتی ہو
جو میرا دل ہے پاگل سا
اسی پاگل میں رہتی ہو
سنو! تم سے یہ کہنا ہے
کہ تم میری محبت سے کبھی مت بدگماں ہونا
کہ میری زندگانی کے سبھی رستے جو سچ پوچھو
تمہاری سمت آتے ہیں
میں تم سے دور رہ پاؤں یہ اب ممکن نہیں جاناں
سنو! عہد محبت کی مجھے تجدید کرنی ہے
پرانی بات ہے لیکن مجھے پھر بھی یہ کہنی ہے
مجھے تم سے محبت تھی، مجھے تم سے محبت ہے
ہر اک موسم تمہارا ہے
تمہارا ساتھ پیار ہے
سنو اے ہمسفر میری !!!
روحاب نے اپنی جیب سے ایک نازک سی گولڈ کی بریسلیٹ نکالی اور سجل کا ہاتھ تھام کر اس کی کلائی میں سجا دی۔
ہے تو یہ ایک نازک سی بریسلیٹ لیکن لایا میں بہت پیار سے ہوں کیوں کہ تم پر نازک چیزیں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔
بہت پیاری ہے یہ روحاب تھینک یو سو مچ۔
ایسے تو میں تھینک یو نہیں لوں گا اس کے لئے تمہیں پہلے تجھے کچھ بولنا پڑے گا۔
کیا بولنا پڑے گا۔
سجل نے پوچھا۔
وہی جو تم اکثر مجھے میری پیٹھ پیچھے کہتی ہو۔
"ہونہہ اکڑو خان کہیں کے"
روحاب نے سجل کی نقل اتاری۔
ارے آپ سن لیتے تھے۔
سجل حیران ہوئی۔
ہاں بلکل چلو اب جلدی سے ویسے ہی غصے سے بولو۔روحاب نے لہجے میں شرارت سموئے کہا۔
جی نہیں میں نہیں کہنے والی۔
لیکن کیوں؟؟
کیونکہ اب آپ اکڑو خان نہیں ہیں ناں۔
اچھا تو پھر کیا ہوں اب بتانا ذرا۔
اب تو آپ میرے۔۔۔۔
سجل کیا میرے۔۔۔۔۔اف جلدی بولو بھی۔۔۔۔
اب تو آپ میرے مجازی خدا ہیں۔
اس لئے اب آپکی پیٹھ پیچھے تو کیا میں آپ کے سامنے بھی کچھ نہیں کہوں گی۔
ارے واہ تم تو بہت سمجھدار ہو گئی ہو۔
ماشاللہ نظر نا لگے کسی کی۔
روحاب نے ثمرین بیگم کی طرح کہا۔
وہ سجل کی نظر اتارتے ہوئے اکثر ایسا ہی کہتی تھیں۔
جبکہ سجل روحاب کے اس انداز پر ہنسنے لگی۔
روحاب آدھی ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکائے لیٹ گیا اور ہنستی ہوئی سجل کے لئے دل میں دعا کرنے لگا کہ اسکی خوشیوں کو واقعی میں کسی کی نظر نا لگے۔
۔*********************