انعم تھکی ہاری گھر داخل ہوئی اور موحد کے سامنے والے صوفے پر بیگ پھینکتی ہوئی خود بھی گرنے والے انداز میں صوفے پر بیٹھ گئی۔
ارے انو آگئی تم۔
موبائل پر گیم کھیلنے میں مصروف موحد کی نظر اس پر پڑی تو پوچھنے لگا۔
موحد بھائی ابھی مجھے مت بلائیں میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔
انعم واقعی میں تھکی ہوئی تھی اس لئے ہولے سے بولی۔
کیوں تم کیا اپنے کالج کے دوسرے کیمپس سے جنگ لڑ کے آئی ہو جو اتنا تھک گئی ہو کہ نا سن سکتی ہو نا بول سکتی ہو۔
اوہو نہیں موحد بھائی آج کالج میم سپورٹس ڈے تھا میں نے بھی حصہ لیا تھا اس لئے تھک گئی ہوں۔
انعم نے اسے اپنے تھکنے کی اصل وجہ بتائی۔
موحد کو ارد گرد کے ماحول سے بیگانہ معصوم اور ہر وقت پڑھائی مگن رہنے والی اپنی یہ کزن نجانے کیوں اتنی اچھی لگتی تھی۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا اور بولا۔
انو تم مجھے موحد بھائی کیوں بلاتی ہو بس موحد ہی بولا کرو صرف دو سال کا ہی تو فرق ہے تم میں اور مجھ میں۔
آپ مجھے انو کیوں بلاتے ہیں صرف انعم کہا کریں۔جواب میں انعم نے یہ کہہ ڈالا۔
انو تو میں تمہیں پیار سے کہتا ہوں پاگل۔
ہاں تو میں بھی آپکو بھائی پیار سے ہی کہتی ہوں انعم نے معصومیت سے کہا۔
جبکہ انعم کی اس بات پر موحد اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔
انعم کو کیا معلوم تھا کہ موحد کو اس کے پیار سے بھائی بلانے پر پیار نہیں بلکہ غصہ آتا تھا۔
لیکن اب تم مجھے پیار سے صرف موحد ہی کہو گی اوکے۔موحد نے اسے آرڈر دیا۔
میں تو آپکو وہی بلاؤں گی جو میں آپکو بلاتی ہوں اوکے۔
انعم بھی اسی کے انداز میں بولتی ہوئی بیگ اٹھاۓ کھڑی ہوگئی اور اوپر جانے لگی۔
اچھا سنو تو سہی اگر یہ نہیں کر سکتی تو کم از کم کچن سے کچھ کھانے کے لئے ہی لے آؤ بھوک لگ رہی ہے۔
موحد نے سیڑھیوں کی طرف جاتی انعم کو آواز دی۔بس آپ اور سجل آپی ہر وقت کھانے کا ہی سوچتے رہا کریں۔
بیگ رکھ کر آتی ہوں تو پھر دیتی ہوں۔
انعم یہ کہتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
۔****************************
معارج سجل اور انعم ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں۔جبکہ ثانیہ ان سے الگ ساتھ والے کمرے میں رہتی تھی۔
معارج اور سجل تو رات گئے تک باتوں میں لگی رہتیں جبکہ انعم کو ان دونوں کے اتنی اونچی باتیں کرنے اور ہنسنے سے پڑھنے میں دقت ہوتی تھی۔
یار ماما ثانی آپی اور چھوٹی ماما ابھی تک آئیں کیوں نہیں شادی کو ابھی پورے تین مہینے باقی ہیں اور ثانی آپی ایسے شاپنگ کرتی ہیں جیسے کل ہی انکی شادی ہو۔معارج نے کہا۔
اچھا چلو چھوڑو ایسا کرتے ہیں پھپھو کی طرف چلتے ہیں۔ادھر جانے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ پھپھو اور ابیہا آپی بھی انکے ساتھ ہی گئی ہیں ابیہا آپی کو بھی تو شاپنگ کرنی ہے اپنی شادی کی۔
معارج نے یہ بتاتے ہوئے پھپھو کے گھر جانے کے لئے کھڑی ہوتی سجل کو پھر سے واپس بیٹھا دیا۔
اچھا تو اب کیا کریں مجھے تو سخت قسم والی بوریت ہورہی ہے۔
بوریت ہو رہی ہے آپی تو اپنی بکس لے کر کچھ پڑھ ہی لو آپی انعم نے مفت مشورہ دیا۔
تم تو چپ ہی رہو کتابی کیڑے۔سجل کو اس کا مشورہ ذرا بھی پسند نا آیا۔
کرنا کیا ہے آپی چھت پر چل کر پتنگ اڑاتے ہیں۔رومان اسکول سے سیدھا ادھر ہی آگیا تھا اور اب ان کے کمرے میں آتے ہوئے انہیں پتنگ اڑانے کا مشورہ دیا۔جس پر سجل فوراً کھڑی ہوئی اور بولی یس گڈ آئیڈیا۔۔۔اور ساتھ معارج کو بھی گھسیٹ لیا۔
انعم سے پوچھنا تک گوارا نا کیا کیوں کے پوچھنے اور ہمیشہ کی طرح ایک ہی جواب ملنا تھا کہ مجھے آپ لوگوں کے ان فضول کاموں میں کوئی دلچسبی نہیں ہے اس لئے مجھے ان سب سے دور ہی رکھیں۔
بلکہ ان کے کمرے سے جانے پر وہ ہمیشہ شکر ہی کرتی۔
انعم کی طرح معارج کو بھی اس کام سے کوئی دلچسبی نہیں تھی اس لئے اپنے پسندیدہ کاموں میں سے ایک کام کرنے کے لئے ڈریسنگ ٹیبل سے ریڈ نیل پالش اٹھائی اور ان کے ساتھ چل پڑی۔
۔**********************
زرمین پھپھو کی چھت کی دیوار ان کی دیوار کے برابر تھی۔
اس لئے رومان اپنی چھت پر چلا آیا۔
سجل بھی دیوار پھلانگتی وہیں آگئی۔
رومان نے پتنگ اڑانا شروع کر دی جب پتنگ تھوڑا اوپر پہنچی تو سجل نے ڈور اس کے ہاتھ سے کھینچ لی۔
سجل آپی یہ کیا کیا آپ نے ہمیشہ میرے ہاتھ سے کھینچ لیتی ہیں سجل آپی دے دیں نا تھوڑی دیر کے لئے۔
بلکل بھی نہیں ارے ابھی تو میں نے پکڑی ہے اور جب تک میں کسی کی پتنگ کاٹ نا لوں میں تو نہیں دینے والی۔سجل نے اسے پتنگ دینے سے صاف منع کر دیا۔رومان منہ بناتا ہوا دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔
تب ہی موحد دیوار پھلانگتا ہوا سجل کے پاس آیا اور بولا۔
سجل یہ کیا کر رہی ہو تمہیں تو ٹھیک سے پتنگ بھی نہیں اڑانی آتی ادھر لاؤ مجھے دو۔
موحد نے پتنگ اپنے قبضے میں لینا چاہی۔
جی نہیں تم منہ دھو رکھو۔موحد نے جب دیکھا کہ یہ ایسے نہیں دینے والی تو دوبارہ بولا۔
سجل وہ دیکھو وہ بڑی سی نیلی پتنگ ارے اسے کاٹو۔کون سی کہاں ہے مجھے تو نظر نہیں آرہی۔سجل نے آسمان پر ارد گرد نظر دوڑائی۔
اور یہی وہ موقع تھا جب موحد نے پتنگ اس کے ہاتھ سے کھینچ لی۔
"موحد جھوٹے کہیں کے"
سجل کو غصہ آگیا۔
موحد ہنستا ہوا بولا۔
سٹوپڈ تمہیں تو اتنا بھی نہیں پتا کہ سب سے بڑی اور نیلے رنگ کی پتنگ تو ہماری ہی ہے۔
جبکہ رومان دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ یہ سوچ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے پتنگ سجل کے پاس گئی پھر سجل کے ہاتھ سے موحد کے پاس اور اب موحد کے ہاتھ سے آگے کس کے پاس جائے گی اور نا جانے اس کے پاس کب آئے گی۔
سجل غصہ کھاتی ہوئی واپس اپنی چھت پر جانے لگی جب دیوار کے اس پار روحاب کو کھڑا دیکھ کر فوراً الٹے پاؤں واپس مری اور سیدھا موحد کے کندھے سے جا کر لگی۔
اوفو جنگلی بلی کبھی تو اگلے بندے کو دیکھ لیا کرو ادھر ادھر دیکھتی نہیں بس حملہ کر دیتی ہو۔موحد اسے سنانے کے بعد پھر پتنگ اڑانے لگا۔
کیا کروں کیسے جاؤں واپس یہ تو دیکھ بھی ایسے رہے ہیں جیسے ابھی کھا جائیں گے۔
روحاب کا رویہ سجل کے ساتھ ہمیشہ سے ہی روڈ نہیں تھا بلکہ ڈیڑھ سال پہلے سجل نے روحاب کو کچھ باتیں سنائی تھیں جو کہ روحاب کو بہت ناگوار گزری تھیں جو اسے نہیں کرنے چاہییں تھیں۔
اور تب سے لے کر اب تک روحاب اسے ہمیشہ ناپسندیدہ نظروں سے ہی دیکھتا تھا۔
جبکہ انعم اسے ان سب سے مختلف اور اچھی لگتی تھی کیوں کہ وہ اپنا سارا وقت صرف اور صرف پڑھائی کو دیتی تھی۔
ان سب جیسے فضول حرکتیں اس میں نہیں تھیں۔سجل ڈرتی ڈرتی دیوار کے پاس آئی اور بولی۔
روحاب بھائی آپ کیا سائیڈ پر ہونگے مجھے چھت پر آنا ہے۔
اگر چھت پر آنا ہے تو انسانوں کی طرح دروازے سے ہو کر آؤں دیوار پھلانگنے کی کیا ضرورت ہے۔
جواب سجل کی توقع کے عین مطابق تھا اس لئے جلدی سے بولی۔
آنا تو مجھے نیچے سے ہی تھا روحاب بھائی مگر وہ کیا ہے ناں کہ چھت کا دروازہ بند ہے پھپھو گھر نہیں ہیں ناں اس لئے مجھے آنے دیں۔
دروازہ چاہے کھلا ہی کیوں نا ہوتا آنا تو اس نے پھر بھی دیوار سے ہی تھا۔
روحاب اس سے مزید کچھ کہہ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے وہاں سے ہٹ گیا۔
سجل جلدی سے دیوار پھلانگتی ہوئی چھت پے آگئی۔معارج ابھی بھی چھت پر ہی تھی وہ روحاب کے آنے پر نیل پالش چھپا گئی تھی اور اب منہ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔
سجل نیچے جانے لگی تو وہ بھی اس کے ساتھ ہی نیچے آگئی۔
۔************************
سب ڈنر کے لئے کھانے کی میز پر موجود تھے۔موحد تمہاری پڑھائی ختم ہونے میں کتنا وقت رہ گیا ہے۔بڑے پاپا نے کھانے کے دوران پوچھا۔
بس چند مہینے ہی رہ گئے ہیں پاپا۔
موحد نے جواب دیا۔
اس کے بعد کیا ارادہ ہے تمہارا؟۔۔۔۔اس کے بعد کرنا کیا ہے پاپا جی پڑھائی کے بعد کچھ آرام بھی تو بنتا ہے ناں بس وہ کروں گا اور اگر اس کے بعد آپ میری شادی کا سوچیں تو زیادہ بہتر۔۔۔۔۔۔۔۔
موحد اپنی ہی دھن میں بولے جا رہا تھا جب ساتھ والی چیئر پر بیٹھی سجل نے اسے کہنی ماری تو اسکی چلتی زبان کو بریک لگی۔
جب تمہارا ٹائم آئے گا تو تمہاری شادی بھی ہو جائے گی لیکن ابھی تم پڑھائی ختم ہونے کے فوراً بعد بزنس جوائن کرو گے۔
آج کہہ رہا ہوں دوبارہ کہنا نا پڑے پڑھائی ختم ہوتے ہی اگلے دن تم مجھے آفس میں نظر آؤ۔بڑے پاپا یعنی رفیق صاحب نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی اور پھر پوری طرح سے کھانے میں مشغول ہو گئے۔
ویسے ماما ثانی آپی کے ساتھ ساتھ آپکو بھی روحاب بھائی کی شادی کر دینی چاہیے۔
موحد نے رفیق صاحب کے چپ ہونے کے بعد روحاب کی شادی کا ذکر شروع کر دیا۔
خیالات تمہارے کچھ غلط نہیں ہیں میں بھی یہی چاہ رہی تھی مگر روحاب مانتا ہی نہیں جو میں لڑکی ڈھونڈنا شروع کروں۔
شہلا بیگم نے روحاب کی طرف دیکھتے ہوئے موحد سے کہا۔
جبکہ روحاب سر جھکائے کھانے میں اس طرح مصروف تھا جیسے یہاں اس کی نہیں بلکہ کسی باہر والے کی بات ہو رہی ہو۔
ویسے کیوں نہیں مان رہے آپ بھائی آپ نے کوئی لڑکی ڈھونڈ رکھی ہے کیا۔
موحد نے مزے سے یہ بات کہہ تو دی مگر اس کی اس بات پر جوس پیتی ثانیہ ایک دم کھانسنے لگی۔
روحاب نے اپنے سامنے پڑا پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔
ثانیہ نے گلاس پکڑنا چاہا مگر پھر پکڑانے والے کو دیکھ کر اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
سجل نے ان دونوں کی طرف دیکھا اس سے پہلے کہ روحاب گلاس واپس رکھتا سجل نے آگے ہو کر گلاس اس کے ہاتھ سے لے لیا اور ثانیہ کو پانی پلانے لگی۔پانی پینے کے بعد ثانیہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
سجل نے بھی مشکل سے دو تین نوالے لئے اور خود بھی اٹھ کر اس کے پاس آگئی۔
۔*************************
ثانی آپی آپ ٹھیک ہیں ناں۔
سجل نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا تھا۔ثانیہ نے لاپروائی سے جواب دیا۔
ثانی آپی آپکو لگتا ہے کہ آپ نے روحاب بھائی کی بجاۓ زارون بھائی کا انتخاب کر کے ٹھیک کیا ہے آپ زارون بھائی کو اپنے ہم سفر کر طور پر چن پر مطمئن تو ہیں ناں۔
میں زارون سے منگنی کر کے بہت خوش ہوں اور مطمئن ہوں اور تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ میرے سامنے تم اپنے اس سو کولڈ روحاب بھائی کا ذکر بھی مت کیا کرو نام بھی مت لیا کرو۔
اور ہاں ویسے تو وہ ٹھیک ہے مگر شادی کے لئے مجھے سوٹ ایبل نہیں ہے۔
ثانیہ نے اس طرح کہا جیسے وہ کوئی چیز ہو جو پسند نا آئے تو ریجیکٹ کر دی جائے۔
آپی مانا کے روحاب بھائی اکڑو ہیں مگر ویسے تو ان میں کوئی کمی نہیں ہے وہ بھی تو ہر لحاظ سے آپ کے لئے بہتر ہیں۔
سجل نے روحاب کی پرسنالٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا۔
میرے لئے جو بہتر ہے اسے میں نے چن لیا ہے۔
اور اگر تمہیں وہ اتنا ہی اچھا لگتا ہے تو تم کر لو ناں اس سے شادی۔میں کیوں کروں میرے تو وہ بھائی ہیں۔
سجل کو تو اس کے سامنے جانے سے ہی ڈر لگتا تھا جبکہ ثانیہ شادی کی بات کر رہی تھی۔اور وہ تو آپ کو پسند۔۔۔۔۔
سجل میرا سر مت کھاؤ اپنے کمرے میں جاؤ مجھے زارون سے بات کرنی ہے۔
ثانیہ اس کی بات بیچ میں کاٹتی ہوئی زارون کو کال ملانے لگی۔
سجل اس کے پاس سے اٹھ گئی کیوں کے ساتھ والے کمرے سے معارج اسے آوازیں دے رہی تھی۔
۔**************************
کیا ہے معارج کیوں آوازیں دے رہی ہو۔
سجل کمرے میں آئی اور اس سے پوچھنے لگی۔
شکر ہے تم آگئی یار سجل یہ پکڑو سٹریٹنر اور جلدی سے میرے پیچھے والے بال سٹریٹ کر دو تھوڑے سے ہی ہیں باقی کے میں نے کر لئے ہیں۔
لگتا ہے آئے دن بال سٹریٹ کر کر کے تمہیں اپنے بال خراب کرنے کا زیادہ ہی شوق ہے۔
اور یہ بتاؤ کہ اب کیا ضرورت پر گئی بال سٹریٹ کرنے کی سجل نے اس کے بال سٹریٹ کرتے ہوئے پوچھا۔
تم بھول گئی کیا کل یونیورسٹی میں فنکشن ہے اور ابھی تو مجھے فیشل بھی کرنا ہے اس لئے تم جلدی ہاتھ چلاؤ۔
معارج نے اسے کل کے فنکشن کا بتایا جسے سجل واقعی میں بھولی بیٹھی تھی۔
اوفو سجل کیا کر رہی ہی جلاؤ تو نہیں دور رکھ کر کرو۔
معارج نے سی کی آواز نکالتے ہوئے اپنی گردن پر ہاتھ رکھا۔
خود ہی تو کہہ رہی ہو جلدی ہاتھ چلاؤ۔سجل نے معصومیت سے جواب دیا۔
اچھا چلو چھوڑو تم اسے اور جا کر اپنی تیاری کرو۔معارج نے سٹریٹنر اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
کون سی تیاری۔سجل کو سمجھ نا آئی۔ کیا مطلب کون سی تیاری کل جانا نہیں ہے تمہیں کون سے کپڑے پہننے ہیں نکالو جا کے۔
میں نہیں جا رہی معارج تم اکیلی ہی چلی جانا مجھے کوئی شوق نہیں ہے فضول میں تیار ہو کر یونیورسٹی میں گھومنے کا۔
سجل جا کر بیڈ پر بیٹھ گئی اور بیڈ پر پڑی ماریا کی کتاب اٹھا کر اس کے ورق گردارنے لگی۔
تم تو ہمیشہ انکار ہی کرنا خیر تم نے نہیں جانا تو نا سہی مگر مجھے تو بتاؤ یہ ڈریس کیسا رہے گا کل کے لئے۔
معارج نے اسے کل کے لئے کام دار میکسی دکھاتے ہوئے پوچھا۔
پاگل تو نہیں ہوگئی معارج تم عام سے فنکشن پے جا رہی ہو کسی شادی پے نہیں۔
سجل نے اتنا کام دار اور وزنی ڈریس دیکھتے ہوئے کہا۔تم جو بھی کہو مگر میں تو یہی پہن کے جاؤں گی اور اب میں اسے پریس کرنے جا رہی ہوں۔
معارج وہی ڈریس لئے اسے پریس کرنے چلی گئی۔
جبکہ سجل کتاب واپس بیڈ پر رکھتے ہوئے ٹیرس پر آگئی اور اس دن کے بارے میں سوچنے لگی جب ثانیہ نے کس قدر بےدردی اور سرد مہری کے دکھاتے ہوئے روحاب کے پرپوزل سے انکار کیا تھا۔
۔*************************