چھوڑیں مجھے۔
آج جواب دوگی تو ہی چھوڑوں گا۔
کیا جواب دوں میں کیا سننا چاہتے ہیں آپ۔وہی جو کسی نے تمہارے دماغ میں بھر دیا ہے۔
وہی جس کی وجہ سے تم مجھ سے کھینچی کھینچی سی رہنے لگی ہو۔
مجھے کسی نے بھی کچھ نہیں کہا اس لئے اب چھوڑیں مجھے۔
سچ بولو گی تو ہی چھوڑوں گا۔
روحاب نے اس کے بازو پڑ گرفت اور بھی مظبوط کر دی۔
ٹھیک ہے تو پھر میں آپکو سناؤں گی نہیں بلکہ دکھاؤں گی۔
سجل اس کے ہاتھ اپنے بازوؤں سے ہٹاتی ہوئی الماری میں بنے دراز کی طرف بڑھی۔
دراز کھول کر اس میں سے وہ چیزیں نکالیں جن کی وجہ سے اس کا دماغ گھوما ہوا تھا۔
لا کر بیڈ پر روحاب کے سامنے پھینکیں اور بولی۔اب بتائیں یہ اب تک آپکے اس دراز میں محفوظ کیا کر رہی تھیں۔
یہ گلاب ان سے تو خاص الرجی ہے ناں آپکو پھر آخر کیوں سنبھال کر رکھا ہے اسے۔
سجل نے سوکھا ہوا گلاب اس کے سامنے لہرایا۔
نا پسند کرتے ہیں ناں آپ ثانی آپی کو پھر یہ تصویریں ابھی تک یہاں کیا کر رہی ہیں۔
زہر بھرا ہے ناں آپکے دل میں ان کے لئے تو پھر یہ محبت بھرے اشعار یہ غزلیں اظہار محبت سے بھری ہوئی ڈائری ان کے لئے پھر ابھی تک یہاں کیوں ہے۔اور ہاں یہ انگوٹھی کیا دوبارہ انہیں پہنانے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ۔
سجل کیا فضول بولے جا رہی ہو چپ کر جاؤ۔روحاب نے اسے چپ کروانا چاہا۔
اچھا میں فضول بول رہی ہوں تو پھر آپ ہی بتا دیں آخر سچ کیا ہے۔
کیوں کہ آپ تو جھوٹ بولتے ہی نہیں ناں۔یہ روحاب کے لئے سجل کا پرانا ڈائلاگ تھا۔
صحیح کہا تم نے میں نے ہمیشہ سچ بولا ہے اور سچ کا ساتھ دیا ہے اور آیندہ بھی دیتا آؤں گا۔
یہ تمام چیزیں میرے دراز میں اس لئے موجود نہیں تھیں کہ مجھے ابھی بھی ان سے کوئی دلی لگاؤ ہے۔بلکہ اس لئے موجود تھیں کہ کب تم انہیں دیکھو اور انہیں اپنے ہاتھوں سے نکال کے پھینکو اور مجھ سے جھگڑو کے میں نے ابھی تک ان کو کیوں اپنے پاس رکھا۔
اب آپکی زندگی میں صرف میں ہوں صرف میں اور آپکی ہر چیز بس مجھ سے وابستہ ہونی چاہیے۔میں تمہارے منہ سے یہ الفاظ سننا چاہتا تھا بس اتنی سی خواہش رکھتا تھا۔
یہ نہیں چاہتا تھا کہ تم میری محبت پر شک ہی کرنے لگ جاؤ۔
میں چاہتا تھا کہ تم مجھ سے جڑی ان تمام چیزوں کو جو مجھے بہت تکلیف دیتی ہیں خود اپنے ہاتھوں سے دور کرو۔
اور یہ انگوٹھی رکھنے کا مقصد تم ہو سجل۔یہ انگوٹھی میں تمہیں پہنانا چاہتا تھا تمہیں بتلانا چاہتا تھا کہ اس انگوٹھی کی اصل حقدار صرف تم ہو۔
میں نے یہ بہت محبت اور مان سے خریدی تھی مگر لینے والے کو اس کی قدر نا ہوئی۔
اس کی اصل قدر صرف تم ہی جان سکتی تھی مگر افسوس سجل تم تو ابھی تک میرے پیار کی قدر کو ہی نہیں سمجھ پائی۔
تم اتنا تک نہیں جان پائی کہ میرا پیار تمہارے لئے کوئی وقتی یا جھوٹا نہیں ہے۔
اور ہاں یہ غلط اور گھٹیا باتیں تمہارے دماغ میں جس نے بھری ہیں میں اچھے سے جان چکا ہوں کہ وہ کون ہے۔
صرف ان چیزوں کو دیکھنے سے ہی تم اتنی بڑی غلط فہمی کا شکار نہیں ہو سکتی کیوں کہ اگر تمیں مجھے برا یا غلط سمجھنا ہی ہوتا تو تم تب ہی سمجھ لیتی جب اس مونا نامی لڑکی کے ساتھ زارون نے میری تصویروں کا غلط استعمال کروایا تھا۔
مگر جب تک کوئی تمہارا دماغ اپنے مطابق نا کرے تب تک ہوتا نہیں اور اب جان چکا ہوں کہ تم کس کی زبان بول رہی ہو۔
ثانیہ نے کیا ہے ناں تمہیں میرے خلاف اسی نے بھرا نا تمہارے دماغ میں یہ خناس۔
کچھ بھی ہو جاۓ تم نے ہمیشہ اسی کی باتوں پڑ یقین کیا ہے اسی کا ساتھ دیا ہے تو ٹھیک ہے آگے بھی اسی کی باتوں پڑ یقین کر کے میرے ساتھ اپنا رشتہ اچھے سے نبھاتی رہنا۔
اور ہاں جاتے جاتے صرف اتنا کہوں گا کہ نجانے وہ دن کب آئے گا جس دن تمہیں جھوٹ سچ۔۔۔۔
اچھے برے۔۔۔۔
کھڑے کھوٹے۔۔۔
میں فرق نظر آئے گا۔
روحاب غصے سے بولتا آخر میں اسے اسکی عقل کی کمی کا بتا گیا۔
جبکہ سجل بیڈ پڑ شرمندہ سی بیٹھ گئی۔
اف یہ میں نے کیا کر دیا۔
ہر بار میں ایسا ہی کرتی ہوں اپنی بیوقوفیوں اور غلط باتوں سے ہمیشہ ان کا دل دکھا دیتی ہوں۔
مگر اس دفعہ تو کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔
اب میں کیا کروں۔
سجل کے دماغ سے ثانیہ کی باتیں اب بلکل نکل چکی تھیں اگر تھیں تو صرف روحاب کی باتیں۔
۔**********************
معارج کے لئے رشتہ آیا تھا۔
رفیق صاحب کے دوست کی فیملی تھی۔
انہوں نے رشتہ تو سجل کے لئے مانگا تھا مگر یہ معلوم ہونے پڑ کہ وہ تو شادی شدہ ہے تو معارج کے لئے کہہ دیا۔
لڑکے کا نام سلمان تھا۔انجینئر تھا۔عمر اٹھائیس سال تھی۔
لڑکا دیکھا بھالا تھا اچھی فیملی تھی شروع سے جان پہچان تھی اس لئے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی تھی۔
معارج سے پوچھا گیا تو اس نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا اور کرتی بھی کیا ساحر کے اتنے بڑے دھوکے کے بعد وہ اب اپنی مرضی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اس لئے بڑوں کی رضا میں راضی ہوگئی۔
بس پھر کیا تھا لڑکے والوں کی طرف سے جلدی شادی کا اسرار ہوا تو گھر میں شادی کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔
سجل تو اس حالت میں بازاروں کے چکر لگانے سے رہی اس لئے معارج کے پاس ہی رہتی۔
معارج اس رشتے پڑ کچھ اداس اداس سی تھی۔اس نے شہلا اور ثمرین کو اپنی مرضی کی شوپنگ کا کہہ دیا اور خود آئے روز بازار جانے سے انکار کر دیا۔
سب حیران تھے کہ معارج جو بازاروں کی جان نہیں چھوڑتی تھی اب معذرت کر کے گھر بیٹھ گئی ہے۔
خیر تیاریاں زوروں پڑ تھیں آخر مہندی کا دن آن بھی پہنچا اور پتا بھی نا چلا۔
۔*********************
سجل کو آٹھواں مہینہ لگ چکا تھا۔
نک سک سی تیار ہوئی سجل بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔وہ ریڈ دوپٹے اور گولڈن فراک پہنے ہوئے تھی۔
وہ آج خاص روحاب کے لئے تیار ہوئی تھی ورنہ تو وہ تیار ہی نہیں ہوتی تھی۔
کیوں کہ روحاب ابھی تک اس سے ناراض تھا۔
روحاب کی اسے سمجھ نا آتی تھی جب ماننا ہوتا تو بغیر مناۓ ہی مان جاتا مگر جب وہ منا منا کر تھک جاتی تو تب اس کے موڈ میں رتی بھر بھی فرق نا پڑتا۔
سجل نے شیشے میں اپنا جائزہ لیا۔
اس وقت وہ ڈھول ڈرم سی لگ رہی تھی۔
لڑکی تو میں لگ ہی نہیں رہی کہیں سے پوری کی پوری آنٹی ہی لگ رہی ہوں۔
سجل نے اپنا حلیہ دیکھتے ہوئے خود سے کہا۔
تم لڑکی عورت کی بات کر رہی ہو مجھے تو تم کسی دوسرے پلانٹ سے آیا ہوا کوئی ایلین لگ رہی ہو۔موحد نے کمرے میں آتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔تم تو چپ ہی رہو اڑیٹ۔۔۔۔
مسز روحاب اوہ سوری مسز اکڑو خان میں یہاں آپکو یہ بتانے آیا ہوں کہ چھوٹی ماما کہہ رہی ہیں کہ اگر آپ نے تیاری مکمل فرما لی ہے تو آپ ان خوبصورت پیروں کے ساتھ ننھے قدم اٹھا کر نیچے تشریف لے آئیں اور آکر اپنی ڈیوٹی سر انجام دیں۔
میرا مطلب ہے کہ سجل کی بچی نیچے چل کر مہندی کی تھالیاں سجاؤ کیوں کہ یہ کام تم نے اپنے سر لیا تھا۔
موحد پہلے اسے عزت دیتا ہوا پھر آخر میں اپنے سابقہ انداز میں بولا۔
او ہاں میں تو بھول ہی گئی تھی چلو چلیں۔
سجل موحد کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل گئی مگر موحد بھاگنے میں پھرتی دکھاتا ہوا منٹوں میں غائب۔جبکہ سجل آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔
ارے ثانی آپی آپ ابھی تک اوپر ہیں اور یہ آپ پیچھے کیا چھپا رہی ہیں کچھ خاص ہے کیا۔
ارے نہیں کچھ بھی تو نہیں میں نے کیا چھپانا ہے۔ثانیہ آئل کی شیشی دوپٹے میں چھپائے جلدی سے اس کے سامنے سے اوجھل ہو گئی۔
سجل کندھے اچکاتی ہوئی کہ ہوگا کچھ آگے پڑھی اور سیڑھیاں اترنے لگی۔
مگر تیسری سیڑھی پڑ پاؤں رکھتے ہی اسکا پاؤں بری طرح پھسلا۔
بلیک شلوار قمیض میں ملبوس سیڑھیاں چڑھتے روحاب نے جلدی سے اسے پکڑا اور جلدی کے چکر میں وہ زور سے گرل کے ساتھ جا لگا۔کوہنی میں ایک دم درد کی لہر اٹھی۔مگر اسے کہاں پرواہ تھی پرواہ تھی تو صرف سجل کی۔
سجل میری جان آر یو اوکے۔روحاب نے بے حد فکر مندی سے پوچھا۔
سجل اپنا سانس درست کرتی ہوئی بولی۔میں ٹھیک ہوں روحاب بس وہ میرا پاؤں۔۔۔۔۔
سجل کی بات ادھوری ہی رہ گئی کیوں کہ اس کی نظر سیڑھی پڑ گرے آئل پڑ پڑی جو وافر مقدار میں سیڑھی پڑ موجود تھا۔
اس آئل کی وجہ سے میرا پاؤں پھسل گیا مگر یہ اتنا سارا آئل یہاں گرایا کس نے۔
سجل نے روحاب سے ایسے پوچھا جیسے اسے تو سارا کچھ ہی معلوم تھا۔
پتا نہیں شاید مہندی کی تھالیاں اوپر نیچے لاتے گر گیا ہو گا تم ایسا کرو ہاتھ دو اپنا اور آہستہ آہستہ اترو۔
روحاب نے اسکا ہاتھ خود ہی تھام لیا اور اسے لئے سیڑھیاں اترنے لگا۔
روحاب بھول گیا تھا کہ وہ تو کئیں دنوں سے سجل سے ناراض ہے۔
روحاب ایک بات بولوں آپ تو مجھ سے ناراض تھے ناں۔
سجل نے اسے یاد دلایا۔
سجل میں تم سے کتنا ہی ناراض سہی مگر کبھی اتنا ناراض نہیں ہو سکتا کہ تمہیں کسی خطرے میں دیکھ کر بھی صرف اپنی ناراضگی کی ہی فکر کروں تمہاری نہیں۔
ہاں اگر تمہیں میری ناراضگی کی اتنی ہی فکر ہے تو میں پھر سے ناراض ہو جاتا ہوں۔
روحاب نے جان بوجھ کر ایسا کہا۔ارے نہیں نہیں ایسا مت کیجئے گا ایک تو آپ نے اتنے دنوں بعد ناراضگی ختم کی ہے اب پلیز دوبارہ ناراض مت ہونا۔
سجل جلدی سے بول پڑی۔
روحاب ہنس پڑا اور بولا۔سجل تم پلیز اپنا دھیان رکھا کرو ادھر ادھر دیکھتی نہیں اور چل پڑتی ہو۔
میں تو سارا دن گھر نہیں ہوتا ورنہ خود تمہارا خیال رکھتا۔
بہت فکر مند رہتا ہوں تمہارے لئے چاہے جتنا بھی ناراض رہوں تم سے مگر تمہاری تکلیف کا سوچ کر ہی مجھے خود کو تکلیف ہونے لگتی ہے۔
روحاب کی بات پر سجل سوچنے لگی اگر روحاب اسے نا پکڑتا تو وہ منہ کے بل سیڑھیوں سے گرنے والی تھی۔اور پھر کیا ہوتا اس سے آگے وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
روحاب آپ اگر دو دن مجھ سے بات کرتے ہیں تو باقی کے دس دن ناراضگی میں ضائع کر دیتے ہیں۔
سجل نے منہ پھلاتے ہوئے کہا۔
مائے ڈیر وائف تم میں صرف یقین کی کمی ہے اور وہ بھی میرے لئے ورنہ تو میرا تم سے جھگڑا اور ہے ہی کس بات کا۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں روحاب اور پتا نہیں کیوں مجھے لگتا ہے کہ ثانی آپی ہمیں ایک ساتھ خوش دیکھنا نہیں چاہتیں۔
تمہیں تو صرف ایسا لگتا ہے ناں سجل جبکہ مجھے اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ وہ ایسا ہی چاہتی ہے۔مگر وہ تمہیں مجھ سے کتنا بھی دور کرنے کی کوشش کیوں نا کر لے ہمیشہ اس کوشش میں ناکام ہی رہے گی۔
ایک منٹ سجل۔
روحاب نے بات کرتے کرتے جیب سے موبائل نکالا۔کسی کی کال آرہی تھی۔
روحاب نے کال بیک کرنا چاہی تو موبائل میں بیلنس نا تھا۔
شیٹ یار سجل تمہارے موبائل میں بیلنس ہوگا کیا مجھے ارجنٹ کال کرنی ہے۔
یاد کریں جناب وہ دن جب میں نے بھی آپ سے یہی کہا تھا مگر مجھے جو جواب ملا وہ ابھی تک میرے حافظے میں محفوظ ہے۔
خیر کیا یاد کریں گے جائیں لے لیں موبائل روم میں پڑا ہے۔
سجل کے کہنے پر روحاب کو وہ دن یاد آگیا جب سجل نے اس سے اپنی دوست کو ارجنٹ کال کرنے کے لئے موبائل مانگا تھا۔
وہ مسکرا دیا اور موبائل لینے روم میں چلا گیا۔
۔********************
موحد ڈھولکی اپنے سامنے رکھے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔
خواتین و حضرات اور ان کے بچے برائے مہربانی میری طرف توجہ فرمائیں۔
چونکہ آج میری پیاری سی بہن کی مہندی کی رسم ہے اور مہندی بغیر ڈھولکی اور گانے شانے کے ادھوری سی لگتی ہے۔
اس لئے ڈھولکی بجانے کی شروعات میں کروں گا۔موحد نے ڈھولکی سنبھالی جو کہ اس سے سنبھل نہیں رہی تھی۔
بدمعاش کہیں کا اٹھ یہ لڑکیوں کے کرنے والے کام ہیں نا کہ لڑکوں کے۔
شہلا بیگم نے اپنے اس شرارتی ہونہار کو مسکراتے ہوئے جھڑکا۔
میری پیاری ماں آپ یہ پکڑیں چمچ اور بجانا شروع کریں۔
موحد نے انہیں چمچ پکڑا کر ڈھولکی بجانا شروع کر دی۔
جبکہ سب اس کی ڈھولکی کی ٹوٹی پھوٹی تال کو انجوئے کرنے لگے۔
سجل ان سب کے ساتھ زمین پر بیٹھنے کی بجاۓ صوفے پر معارج کے پاس بیٹھ گئی۔
روحاب بھی فون سے فارغ ہونے کے بعد اس کے ساتھ ہی آکر بیٹھ گیا۔
سجل یہ انگوٹھی تم نے کب پہنی۔
روحاب نے وہی انگوٹھی اس کے ہاتھ کی تیسری انگلی میں دیکھی تو پوچھنے لگا۔
اگر آپ اپنی ناراضگی کو ایک پل کے لئے سائیڈ پر رکھ کر مجھے دیکھتے تو آپکو معلوم ہوتا کہ یہ انگوٹھی تو میں نے اسی دن سے پہنی ہوئی ہے۔
اس سب کے لئے سوری سجل مگر مجھے تو لگا تھا کہ تم اس انگوٹھی کو کبھی نہیں پہنو گی۔
کیوں نہیں پہنتی روحاب آپ نے ہی تو کہا تھا کہ اس انگوٹھی کی اصل حقدار میں ہوں اور حقدار کو اسکا حق تو ملنا ہی چاہیے ناں۔
اور یہ دیکھیں یہ تو مجھے بلکل فٹ ہے سچ کہوں تو آپکی پسند بہت ہی لا جواب ہے آئی رئیلی لائک اٹ۔ ۔۔۔تم نے ٹھیک کہا میری جان میری پسند تو واقعی میں بہت لا جواب ہے۔
روحاب نے نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے کہا۔اسکا اشارہ سجل کی طرف تھا۔
اور میری پسند بھی کچھ کم لا جواب نہیں ہے۔سجل اس کی بات کے اختتام کے ساتھ ہی بول پڑی۔
جی بیگم صاحبہ میرے جیسا بندہ جس کی بھی پسند ہوگا اسکا ہر انتخاب لا جواب ہی ہوگا ناں اور۔۔۔۔
کیا مطلب جس کی بھی پسند صرف میری پسند ہیں آپ۔
سجل نے اسے بیچ میں ٹوکا۔ہاں ہاں میں وہی کہہ رہا تھا۔
روحاب نے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جسے وہ دل پر رکھے اپنی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
۔******************
ارے بہن آج کل تو جس کے گھر بھی جاؤ یہی سننے کو ملتا ہے کہ فلاع کی اولاد نہیں میری بیٹی کی اولاد نہیں میری بہو کی نہیں بہت ہی پریشان ہوں۔
ابیہا اپنی ساس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی جب پاس بیٹھی عورتوں نے یہ باتیں شروع کر دیں۔
اور نہیں تو کیا میری اپنی بہو کو دیکھ لو آٹھ مہینے سے زیادہ ہو گئے شادی کو مگر ابھی تک خوشخبری نا سنائی۔
تائی امی نے ابیہا کے بارے میں کہا اور اس طرح کہا جیسے خوشخبری سنانا اور نا سنا اس کے بس میں ہو۔دوسری عورت لمبی سی اچھا کرتے ہوئے ایسے حیران ہونے لگی جبکہ حیران ہونے والی کوئی اتنی بڑی بات تھی نہیں۔
اک دم ابیہا کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔
اسے اچانک یاد آیا اسے تو سجل کو ایک چیز دینی تھی۔
وہ وہاں سے اٹھی اور صوفے پر بیٹھی سجل کے پاس چلی آئی۔
سجل روحاب سے باتیں کرنے میں مصروف تھی جب ابیہا نے اسے پکارا۔
سجل یہاں آنا ذرا تم سے کچھ کام ہے۔جی آپی آرہی ہوں۔
سجل روحاب کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑواتی جو کہ وہ چھوڑ نہیں رہا تھا اور جان بوجھ کر اسے ابیہا کی بات سننے میں دیر کروا رہا تھا ابیہا کے پاس چلی آئی۔
ابیہا اسے لیتی ہوئی اس کے کمرے میں آگئی اور اسے ایک خط تھما دیا۔
سجل پلیز یہ خط بغیر پڑھے پھاڑنا مت۔
میں نہیں جانتی کہ اس میں کیا لکھا ہے مگر زارون بھائی نے مجھے یہ تمہیں دینے کے لئے کہا تھا۔
میرا ماما کی طرف چکر نہیں لگ سکا اس لئے تمہیں یہ فوراً دے نا سکی۔
زارون بھائی نے کہا تھا کہ یہ خط میں تم تک لازمی پہنچا دوں اور یہ خط صرف تم ہی پڑھو نا کہ کوئی اور۔
میں نہیں جانتی کہ یہ خط پڑھنے کا صحیح وقت ہے یا نہیں مجھے نہیں معلوم اس کے اندر جو لکھا ہے اسے پڑھ کر تمہیں خوشی ہوگی یا دکھ مگر آج میں نے تم تک تمہاری امانت پہنچا دی ہے پڑھ لو۔
ابیہا اسے خط پڑھنے کا کہہ کر اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
۔***********************