معارج گھر کے بڑے کہاں ہیں۔
ڈنر کے بعد معارج لاؤنج میں ٹی وی لگاۓ ڈرامہ دیکھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ناخنوں کو بھی سنوار رہی تھی جب ابیہا اور پھپھو گھر میں داخل ہوئیں۔
ارے ابیہا آپی آپ کب آئیں۔ میں پرسوں کی آئی ہوں اور آج اس لئے آئی ہوں کہ مجھے سب کو کچھ ضروری بات بتانی ہے۔
تم سب کو لاؤنج میں بلا لو تا کہ سب کے سامنے بات ہو سکے۔
معارج نے ابیہا کی طرف دیکھا جو کچھ کچھ غصے میں تھی جبکہ پھپھو روئی روئی لگ رہی تھیں آنکھیں تو ابیہا کی بھی سرخ ہوئی تھیں۔
معارج چپ چاپ بڑے کمرے کی طرف بڑھ گئی جہاں تمام گھر کے لوگ موجود تھے۔
۔****************
بڑے مامو میں جو بات آپکو بتانے جا رہی ہوں جانتی ہوں اس سے آپکو بہت دکھ پہنچے گا اور یقیناً غصہ بھی آئے گا۔
لیکن اس بات کا جاننا آپ کے لئے ضروری ہے کیوں کہ اس بات سے بے خبر رہ کر آپ ان کو قصور وار سمجھ رہے ہیں جو بے قصور ہیں۔
اور آپ جانتے ہیں کہ میں کسی بے قصور کو سزا ملتے ہوئے اور کسی قصور وار کو سزا سے بچتے ہوئے دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتی۔
ابیہا بیٹا آخر تم کہنا کیا چاہ رہی ہو۔رفیق صاحب کی بجاۓ رمیز صاحب بولے۔
میں آپکو یہ بتانے آئی ہوں کہ سجل کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اسکا قصور وار روحاب نہیں بلکہ میرا بھائی زارون ہے۔
ابیہا نے آخر وہ بات کہہ ہی ڈالی جس کے دوہرانے پر اسے بھی بہت تکلیف ہونی تھی۔
وہاٹ۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔
بڑے پاپا کو شاک لگا۔
میں ٹھیک کہہ رہی ہوں بڑے مامو۔
زارون بھائی سجل کو پسند کرتے تھے مگر یہ پسندیدگی ان کے دل میں پہلے سے نہیں تھی بلکہ شادی کے دن سے شروع ہوئی۔
انہوں نے ثانیہ کو طلاق بھی اسی لئے دی تا کہ سجل کو پا سکیں مگر طلاق کے معاملے میں ثانیہ اور زارون بھائی برابر کے شریک ہیں اس معاملے میں میں صرف زارون بھائی کو ہی قصور وار نہیں ٹھہراؤں گی۔
زارون بھائی نے سوچا کہ جب طلاق کے بعد بھی ان کے لئے سجل کو حاصل کرنا مشکل ہے تو انہوں نے یہ سب کیا۔
میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں مامو سجل کے ساتھ جو بھی ہوا میں تو ایسا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔
مگر میرے بھائی نے ہم سب کو آپکے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
مجھے تو شرم آرہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ وہ سب کسی اور نے نہیں بلکہ میرے اپنے بھائی نے کیا ہے۔
ابیہا روتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔
کہاں ہے وہ گھٹیا انسان لے کر آؤ اسے میرے سامنے ساری زندگی جسے اپنے سگے بیٹوں کی طرح رکھا اس نے اپنے رشتوں کا مان لحاظ سب بھلائے اتنی گھٹیا حرکت کی۔
آج تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں موحد بلا کر لاؤ اس کمینے کو۔
رمیز صاحب تعیش میں آگئے۔
وہ یہاں نہیں ہیں چھوٹے مامو جا چکے ہیں واپس۔ابیہا نے انہیں سچ بتایا۔
ایسے کیسے جا سکتا ہے وہ میری بچی کے کردار پر اتنا بڑا داغ لگا کر اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال کر بھاگ گیا اب واپس۔
اسے واپس سجل نے ہی بھیجا ہے مامو کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ روحاب اسے جیل میں گھسیٹے۔کیوں کہ اس طرح جب ساری بات پورے خاندان کو معلوم ہوتی تو سب کی زندگیوں پر برا اثر پڑتا۔
سجل کا کہنا ہے کہ اسکا زارون کو واپس بھیجنے کا مقصد انہیں سزا سے بچانا نہیں بلکہ ان کے گھر والوں کو تکلیف سے بچانا ہے جو ان کی وجہ سے ہم پر آتیں۔روحاب ابھی گھر میں داخل ہوا تھا ابیہا کی آخری بات وہ سن چکا تھا۔
اور اب سجل کو غصے سے گھور رہا تھا۔
جو کہ ابھی کچھ دیر پہلے شور سن کر نیچے آئی تھی۔
وہ اپنی ہی نظروں میں چور سی بن گئی۔
زرمین پھپھو جو صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں اٹھ کر رمیز صاحب کے قدموں میں آکر بیٹھ گئیں اور بولیں۔اس بے غیرت اولاد کے لئے میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔
اس نے تو اپنی ماں بہن کا بھی خیال نہیں کیا یہ سب کرتے ہوئے۔
میرے ویر میرے جڑے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لے سب کے سامنے اور مجھے یہاں سے معافی دیے بغیر مت لوٹانا مجھ سے اپنا رشتہ مت توڑنا آپ یہی سمجھ لیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔
وہ میرا بیٹا ہو ہی نہیں سکتا جس نے یہ کیا۔
ارے زرمین یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔
رمیز صاحب نے انہیں کھڑا کیا۔
جو کچھ بھی ہوا سب اس گستاخ کی طرف سے تھا اس میں تمہاری تربیت کا کوئی عمل دخل نہیں یہ رونا دھونا بند کرو اور ایک اور دفعہ بھی مجھ سے اب معافی مت مانگنا۔
اگر وہ یہاں ہوتا تو میں واقعی میں بھول جاتا کہ وہ تمہارا بیٹا ہے اور اسکا وہ حشر کرتا کہ دوبارہ کسی کی بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نا دیکھتا۔
بدنامی صرف ہماری ہی نہیں آپکی بھی ہے اس لئے یہ بات اس گھر سے باہر نہیں نکلے گی اور یہ بات یہاں پر کھڑے تمام لوگ کان کھول کر سن لیں۔
رمیز صاحب کی اس بات پر تمام بچوں نے جلدی سے سر ہلا دیا سواۓ ثانیہ کہ جو یہ سوچ رہی تھی کہ گھٹیا پن میں تو یہ زارون واقعی میں اپنے نام کا ایک ہی نکلا۔
بڑے پاپا کی نظر دروازے پر کھڑے روحاب پر پڑی وہ اسے اپنے پاس بلانے کی بجاۓ خود ہی اس کی طرف چلے آئے اور بولے۔
میں نے تم سے کہا تھا کہ تم میرے بیٹے ہو ہی نہیں سکتے مگر تم نے تو ثابت کر دیا کہ تم میرے ہی بیٹے ہو۔میرا گھبرو شیر۔
اب ایسے کیا دیکھ رہے ہو آجاؤ گلے لگ جاؤ اپنے باپ کے۔
بڑے پاپا نے اپنے دونوں بازو کھول دیے تو روحاب ان میں سما گیا۔
مگر ایک بات کی سمجھ نہیں آئی روحاب تم نے سارا قصور اپنے سر کیوں لیا ہمیں اسی وقت سب سچ سچ کیوں نا بتایا۔
زارون کو اسی وقت سزا کیوں نا دلوائی۔
میں نے ایسا اس لئے کیا پاپا کیوں کہ میں اسے دکھانا چاہتا تھا کہ میں اس سب کے باوجود بھی سجل کو اپنا سکتا ہوں۔
اس نے یہ سب صرف سجل کو ہی پانے کے لئے نہیں کیا بلکہ اسکا مقصد یہ بھی تھا کہ میں اس سب کے بعد سجل کو ٹھکرا دوں گا۔
مگر میں اس کی طرح گھٹیا نہیں ہوں پاپا میں سجل کے سراسر بے قصور ہونے پر اسے ٹھکرانا نہیں چاہتا تھا۔
دوسرا اس کے بعد سجل سے نکاح کر کے اسے یہ دکھانا چاہتا تھا کہ سجل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا کر میں نے سجل کو اس سے بہت دور کر دیا ہے۔
اور پھر جب سب سوچا سمجھا ناکام ہونے پر وہ خالی ہاتھ ہو جاۓ گا تب میں اسے اسکے کیے کی سزا بھگتانے کے لئے جیل بھجوا دوں گا مگر۔۔۔۔۔۔
روحاب نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے دوبارہ سجل کی طرف غصے سے دیکھا۔
سجل جلدی سے موحد کے پیچھے چھپ گئی۔
۔*********************
میرا سرہانہ پکڑاؤ۔۔۔
روحاب کمرے میں آتے ہی بولا۔
سرہانہ پکراؤں کیا مطلب اسکا کیا کریں گے آپ۔
سرہانہ کس لئے ہوتا ہے سر رکھنے کے لئے ناں میں بھی وہی کروں گا۔
روحاب اسے کہنے کی بجاۓ سرہانہ خود ہی پکڑنا چاہتا تھا مگر اسے کہنا ہی پڑا کیوں کہ وہ ایک سرہانے کو سر کے نیچے رکھے اور دوسرے کو گود میں رکھے بیٹھی ہوئی تھی بلکہ تقریباً لیٹی ہی ہوئی تھی۔
سجل نے سرہانہ سائیڈ پر رکھ دیا تا کہ وہ لیٹ جاۓ مگر وہ سرہانے اٹھاۓ صوفے پر چلا گیا۔
ارے آپ وہاں کیوں چلے گئے۔
کیوں کہ مجھے تمہارے ساتھ نہیں سونا۔
مگر کیوں نہیں سونا یہاں پر کانٹے چھبتے ہیں کیا آپکو۔۔۔
سجل نے بولتے بولتے زبان دانتوں تلے دبائی۔
اف سجل بیوقوف زبان سنبھال کر بات کر۔سجل نے خود کو ڈپٹا۔
مجھے تم سے اس قدر بیوقوفی کی توقع بلکل بھی نہیں تھی سجل تم نے جو بھی کیا ہے ناں اس کے لئے میں تم سے سخت ناراض ہوں۔
خیر تمہیں میری ناراضگی کی بھلا کیا فکر۔
اگر تمہیں ذرا سا بھی احساس ہوتا ناں اس بات کا کہ مجھے کتنا غصہ آئے گا یا کتنا برا لگے گا تمہارا زارون کو یہاں سے واپس بھیج دینا تو تم کبھی ایسا نا کرتی۔
خیر میں اب اور اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا اس لئے پلیز مجھے دوبارہ آواز مت دینا۔
روحاب بازو سر پر رکھے آنکھیں بند کر گیا۔جبکہ سجل سوچنے لگی ناراضگی تو روحاب کی واقعی میں بنتی ہے۔
مگر اب وہ روحاب کو مناۓ گی کیسے کیوں کہ اسے منانا سب سے مشکل کام تھا صرف اس کے لئے ہی نہیں سب کے لئے۔
۔********************
سجل کو نیند نہیں آرہی تھی رات کے دو بج رہے تھے۔روحاب تو بڑے مزے سے سو رہا تھا جبکہ اسکی ناراضگی کی وجہ سے سجل کو کسی صورت نیند نہیں آرہی تھی۔
وہ اٹھی اور کمرے سے باہر چلی آئی۔
انعم اور معارج کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے کسی کی باتوں کی آواز سنائی دی۔
یہ آواز معارج کی تھی۔یہ معارج اس وقت تک کیوں جاگ رہی ہے۔
انعم تو اتنی دیر تک کبھی نہیں جاگی پھر یہ کس سے باتیں کر رہی ہے۔
سجل دروازہ کھول کر اندر آئی تو معارج نے جلدی سے موبائل سائیڈ پر رکھ دیا۔
سجل کمرے میں چلتے زیرو بلب کی روشنی میں اسے ایسا کرتا دیکھ چکی تھی۔
معارج تم اس وقت تک جاگ کر کس سے باتیں کر رہی ہو۔
ارے نہیں کسی سے بھی تو نہیں میں تو یہ ناول پڑھ رہی تھی۔
معارج نے پاس پڑی بک اٹھا کر اسے دکھائی۔
تم نوولز کب سے پڑھنے لگ گئی اور وہ بھی اتنی کم روشنی میں۔
سجل کو اس کی بات پر ذرا برابر یقین نا آیا۔
ہاں بس وہ عادت ہوگئی ہے اتنی کم روشنی میں پڑھنے کی۔
معارج الٹے سیدھے بہانے بنانے لگی۔
عادت ہوگئی ہے اتنی کم روشنی میں اتنی دیر تک نوولز پڑھنے کی یا فون پر کسی سے باتیں کرنے کی۔سجل نے بات اس انداز سے کی کہ معارج چور سی بن کر نظریں جھکا گئی۔
دیکھو معارج اب کیا مجھ سے بھی چھپاؤ گی کہ تم کس سے باتیں کرتی ہو بتاؤ کون ہے وہ۔
سجل وہ اصل میں۔۔۔۔
وہ کیا معارج اب بتا بھی دو۔
وہ ساحر ہے۔
کون ساحر؟۔۔۔۔
وہی جو یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔کون وہ ساحر جس سے تمہاری یونیورسٹی کے پہلے دن ہی لڑائی ہوئی تھی اور وہ بھی اچھی خاصی۔
ہاں وہی ہے۔۔۔
اف میرے خدایا۔۔۔
سجل نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
اسے یقین نا آیا کہ معارج اس ساحر کی بات کر رہی ہے جو سب کی نظر میں ایک مشکوک انسان ہے کوئی بھی لڑکی اس سے دوستی رکھنے کی روادار نہیں۔
پھر معارج کیسے ایسا کر سکتی ہے۔
مگر سجل تم میرا یقین کرو وہ ایسا بلکل بھی نہیں ہے جیسا کہ میں نے اسے سمجھا۔
اسکو گھٹیا جاہل بدتمیز سب کچھ ہی کہہ ڈالا مگر میں غلط تھی وہ تو بہت اچھا انسان ہے۔
تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا معارج۔
وہ انسان جسے کوئی بھی ٹھیک کردار کا مالک نہیں سمجھتا اور اسکا ایسا کردار تو صاف ظاہر بھی ہوتا ہے تم اسے پسند کیے بیٹھی ہو۔
تم غلط کر رہی ہو معارج وہ تمہیں صرف اپنی گھٹیا باتوں میں پھسا رہا ہے اور کوئی بات نہیں۔
میری مانو تو آج ہی اسے گڈ بائے بولو اور نکالو اسے اپنے دل و دماغ سے۔
سجل وہ ویسا بلکل بھی نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی ہو۔
معارج نے اس کی غلط فہمی دور کرنا چاہی۔
وہ ویسا ہی ہے جیسا کہ میں سوچ رہی ہوں۔
اگر تم مجھے اپنا مخلص دوست سمجھتی ہو تو پلیز آیندہ اس بندے سے بات مت کرنا اور ہاں ملنے کا تو کبھی سوچنا ہی مت بہت بڑی غلطی کرو گی تم۔
مگر وہ تو پرسوں مجھے ملنے کے لئے بلا رہا ہے۔
تم خواہ مخوا میرا دماغ فضول سوچوں کی طرف مت لگاؤ سجل کیوں کہ میں اسے ہاں بھی بول چکی ہوں۔معارج سجل کی بات ماننے کو کسی صورت تیار نا تھی۔
دیکھو معارج میں تمہارا برا نہیں سوچ رہی ہمیشہ اچھا ہی سوچوں گی۔
اچھا ٹھیک ہے مان لیا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے مگر تم اتنا تو جانتی ہو ناں کہ ایک تنہا مرد اور عورت کے بیچ تیسرا ہمیشہ شیطان ہوتا ہے۔
کچھ لوگ تو اپنے نفس پر قابو پا کر اپنے ایمان پر قائم رہ جاتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ آسانی سے ڈگمگا جاتے ہیں۔
میری صرف ایک بات یاد رکھنا اس گھر سے قدم باہر نکالنے سے پہلے وہ بھی اس کام کے لئے جو تمہیں بار بار روکے تو ایک بار بس ایک بار اپنے ماں باپ کی عزت کے بارے میں ضرور سوچ لینا اور رک جانا۔
سجل اسے بہت پیار سے سمجھاتی ہوئی واپس اپنے کمرے میں آگئی۔
پہلے تو روحاب کی ناراضگی کی وجہ سے مگر اب معارج کی وجہ سے وہ رات بھر جاگنے والی تھی۔
۔************************
سجل کچن میں کھیر بنا رہی تھی کیوں کہ روحاب کو کھیر بہت پسند تھی۔
سجل میری بچی تم کچن میں کیا کر رہی ہو۔
ثمرین بیگم نے اسے چولہے کے پاس کھڑے کچھ بناتے دیکھا تو پوچھنے لگیں۔
ماما میں کھیر بنا رہی ہوں روحاب کو بہت پسند ہے ناں اس لئے۔
تم مجھے کہو بھلا میں بنا دیتی ہوں تم جا کر آرام کرو شاباش۔
نہیں ماما میں ان کے لئے کھیر اپنے ہاتھوں سے بنانا چاہتی ہوں۔
اصل میں وہ مجھ سے اس دن کے ناراض ہیں جس دن سے میں نے۔۔۔۔۔
سجل نے بات ادھوری چھوڑ دی کیوں کہ جانتی تھی کہ اس گھر میں کوئی بھی زارون کا نام لینا پسند نہیں کرتا۔
ثمرین بیگم سمجھ تو گئی تھیں اس لئے بولیں۔روحاب کی ناراضگی بنتی ہے سجل مگر میں یہ نہیں کہوں گی کہ تم نے اسے واپس جانے کا کہہ کر غلط کیا۔
تم اپنی جگہ درست تھی اور روحاب اپنی جگہ بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ میری بچی تو بہت سمجھ دار ہوگئی ہے۔
ثمرین بیگم نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔چلو شاباش تم کھیر بناؤ مجھے معلوم ہے کہ روحاب تم سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکے گا۔
بیٹا میں ذرا تمہاری پھپھو کی طرف سے ہو کر آئی بہت اکیلا محسوس کرتی ہیں وہ خود کو رومان تو سارا دن اسکول اور اکیڈمی ہی رہتا ہے ابیہا کے سسرال والے اسے اب آئے دن تو بھیجنے سے رہے۔
ان بچوں سے تو جب کہتی ہوں کہ وہاں سے ہو آئیں تو ایک بار جا کر واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔
مگر آج تو دونوں صاحب زادیاں سو رہی ہیں موحد نکلا ہے دوستوں کے ساتھ اور ثانیہ کی تو چھوڑ ہی دو اسکو کسی کا احساس کروانا شائد کسی کے بس کی بات نہیں اس لئے میں ہی ہو کر آئی ذرا۔
جی ماما آپ جائیں میں کھیر بنا کر اپنے کمرے میں ہی جا رہی ہوں آپ میری فکر مت کرنا۔
چلو ٹھیک ہے۔
ثمرین بیگم کچن سے نکل گئیں تو سجل کھیر دیکھنے لگی۔
سجل بیٹا میری بات سننا ذرا اور ہاں آتے ہوئے ایک گلاس پانی بھی لے آنا۔
شہلا بیگم نے اپنے کمرے سے سجل کو آواز دی۔جی بڑی ماما آ رہی ہوں۔
سجل گلاس میں پانی ڈال کر چولہے کی آنچ دھیمی کر کے کچن سے نکل کر شہلا بیگم کے کمرے میں چلی گئی۔
سجل کے جاتے ہی ثانیہ کچن میں داخل ہوئی۔
وہ شائد کچن کے خالی ہونے کا ہی انتظار کر رہی تھی۔یہی کہہ رہی تھیں نا آپ ماما کہ مجھے احساس کروانا کسی کے بس کی بات نہیں ویسے ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں آپ۔
آپ سب اپنی دنیا میں خوش اور مگن رہیں اور میں اکیلی جلتی کڑکتی رہوں ایسا تو ہو نہیں سکتا۔
اگر میں جل رہی ہوں ناں تو میں اس آگ سے تم سب کو بھی دور نہیں رکھنے والی جلد ہی تم سب بھی اس آگ کی لپیٹ میں آنے والے ہو اور خاص طور پر تم سجل میڈم۔
بڑی آئی اپنے شوہر کے لئے کھیر بنانے والی۔
تمہاری کھیر تو نا آج تک ٹھیک بنی ہے نا اور ہی بنے گی۔
ثانیہ نے شیلف پر پڑے ڈبوں میں سے ایک ڈبہ اٹھایا اور آدھے سے زیادہ کھیر میں الٹ دیا اور پھر کھیر کو ہلاتے ہوئے بولی۔
لو جی اب کھلاؤ تم اپنے روحاب کو کھیر۔
بڑی آئی اسکی ناراضگی دور کرنے والی اب دیکھتی ہوں کہ یہ کھیر کھا کر اسکی ناراضگی کیسے دور ہوتی ہے۔
اگر میں نے بھی تم سے روحاب کو چھین نا لیا تو میرا نام بھی ثانیہ نہیں۔
تم بس اب دیکھتی ہی جاؤ۔
جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔
ثانیہ زہریلی مسکراہٹ لئے ہاتھ جھاڑتی ہوئی وہاں سے نکل گئی
۔*******************