تم۔۔۔۔
زارون نے سجل کو اپنے کمرے میں دیکھا تو اس کے پاس آیا اور بولا۔
بہت تیز ہو تم بہت ہی چالاک چپ چاپ روحاب سے نکاح کروایا لیا اور مجھے کانوں کان خبر تک ہونے نا دی۔
بہت ہی گہری چال چلی ہے اس روحاب نے میرے بچے کو اپنا بول کر تمہیں حاصل کر لیا۔
اور تم نے کیا کیا سجل تمہیں تو میں۔۔۔۔
زارون اور بھی کچھ بولنے والا تھا جب سجل بول پڑی۔
کیا کریں گے اب آپ جتنا برا اور غلط کرنا تھا وہ تو آپ نے کے لیا۔
بہت برا ہوا ناں کہ آپ کا پلان نا کام ہو گیا۔
روحاب وقتی طور پر سب کی نظروں میں گر ضرور گئے ہیں مگر انہیں اٹھانے والے ابھی باقی ہیں۔
جب سب کو معلوم ہوگا کہ گناہ گار کون ہے تب انہیں انکا کھویا ہوا مقام واپس مل جاۓ گا۔
چاہتی تو میں بھی ہوں کہ آپکو سزا ملے مگر جو سزا آپکو روحاب دیں گے وہ بہت درد ناک ہوگی۔
اس لئے آج یہ کہنے آئی ہوں کہ اس سے پہلے کہ روحاب آپکو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کر دیں اور پھر وہ سلوک کریں جو ہر مجرم کے ساتھ ہوتا ہے آپ چپ چاپ یہاں سے واپسی کے لئے روانہ ہو جائیں۔
ورنہ پرسوں آپکو یہاں سے نکلنے کا موقع نہیں ملے گا۔اور ہاں اس بھول میں مت رہنا کہ میں آپکو بچا رہی ہوں میں صرف اور صرف پھپھو اور ابیہا آپی کو بچا رہی ہوں ان کی خاطر آپکو اس سب سے آگاہ کر رہی ہوں۔
میں نہیں چاہتی کہ پھپھو کو اس عمر میں اتنا بڑا دکھ ملے اتنا بڑا دکھ وہ برداشت نہیں کر پائیں گیں۔
اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ آپکی بہن کی زندگی برباد ہو جاۓ گی۔
اگر ایک دفعہ آپ جیل چلے گئے تو سارے خاندان کو پتا لگنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آخر جیل جانے کی وجہ کیا ہے۔
اور پھر ساری زندگی ابیہا آپی کو آپکی وجہ سے طعنے ملتے رہیں گے۔
اور کیا معلوم کہ اسکی نوبت ہی نا آ ئے اور ابیہا آپی ہمیشہ کے لئے اسی گھر میں بیٹھ جائیں۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپکی بہن پر طلاق کا دھبہ لگ جاۓ۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ ساری زندگی رومان کو یہ طعنہ سننے کو ملے کہ ایک بھائی ایسا ہے تو دوسرا نا جانے کیسا ہوگا۔
کون دے گا اسے اپنی بیٹی۔صرف اور صرف آپکی وجہ سے کئیں زندگیاں تباہ ہو جائیں گیں۔
آپ صرف اکیلے نہیں ہیں بلکہ آپ کے ساتھ کئیں رشتے جڑے ہیں کم از کم انکا ہی خیال کر لیں ہمارا نا سہی اپنی فیملی کا ہی کر لیں۔
آپکی ماں بہن بھائی کسی ایک کا ہی احساس کر لیں کسی ایک سے تو محبت ہوگی ہی آپکو کہ آپ مزید کچھ کئے بغیر یہاں سے چلیں جائیں۔
بولیں کریں گے ایسا۔۔۔۔۔
یہ کیا بولیں گے سجل جنہوں نے اتنا بڑا گناہ کر دیا ان کے لئے اس سے آگے اور بھلا کچھ مشکل ہو سکتا ہے۔سجل اور زارون دونوں نے ایک ساتھ سر اٹھا کر دروازے پر دیکھا جہاں ابیہا کھڑی تھی۔
آنکھوں میں بے یقینی کے آنسو تھے۔
وہ سب کچھ سن چکی تھی۔
جیل جانا ان کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہوگی سجل ان کے اس فعل سے ہم جیئں یا مریں انہیں بھلا کیا پرواہ۔
انہیں تو بس اپنی انا تو تسکین پہنچانی ہوتی ہے ناں ہر معاملے میں پھر چاہے ان کی ضد کی وجہ سے کسی کا گھر ہی کیوں نا برباد ہو جاۓ۔
ان سے پوچھو کہ ان کی کوئی بہن ہے بھی یا نہیں۔کسی کی بہن کے ساتھ اتنا غلط کرتے ہوئے انہیں اپنی بہن کا ذرا بھی خیال نا آیا۔
کسی کی بیٹی کے ساتھ ایسا کرتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ کل کو جب انکی بیٹی ہوگی اور کوئی اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا تو انہیں اچھا لگے گا کیا کتنی تکلیف ہوگی اپنی بیٹی کی دفعہ یہ خیال نا آیا انکو۔
ایسا کرنے سے انکے خاندان کا نام روشن ہونے والا تھا کیا۔جانتے ہیں زارون بھائی سال ہونے کو آیا ہے اور میری طرف سے کسی کو کوئی خوشخبری سننے کو نہیں ملی میں نے تو ہر معاملے میں صبر شکر کیا اور اس معاملے کو بھی خدا کی مرضی سمجھ کر صبر کیا۔
مگر جانتے ہیں جب رپورٹس کروانے پر معلوم ہوا کہ میں کبھی بھی ماں نہیں بن سکتی تب سے لے کر اب تک مجھے تائی امی سے کتنی کو باتیں کتنے کو اولاد نا ہونے کے طعنے سننے کو ملتے ہیں۔
میں نے تو اس پر بھی صبر کیا کہ کوئی بات نہیں اللّه کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔
مگر تائی امی جو ہر بات میں مجھے آگے رکھتی تھیں ہر کام میں میرا مشورہ لیتی تھیں اب کسی کام کے لئے تو کیا ویسے بھی مجھے بلانا گوارا نہیں کرتیں۔چپکے چپکے سفیان سے کہتی ہیں کہ اس سے تو تمہیں کبھی اولاد نا ہوگی میری مانو تو دوسرا بیاہ کر لو۔
وہ تو سفیان ہی ایسا نہیں چاہتے ورنہ تو تائی امی مجھے طلاق دلوانے میں کوئی کثر نا چھوڑیں۔
آپ جانتے ہیں کہ آپکے اس غلط کام کی اگر انھیں خبر ہوئی تو مجھے طلاق دلوانا انکے لئے کوئی مشکل نہیں رہے گا۔
کون سنے گا ساری عمر طعنے کہ تمہاری بیوی کے بھائی نے کسی کی بیٹی اور بہن کے ساتھ اتنا غلط کیا۔
اچھا نام اچھالا ہے آپ نے اپنے خاندان کا پہلے ثانیہ کو طلاق دی اور مجھے باتیں سننی پڑیں۔
مگر تب تو سب یہی سمجھتے تھے کہ قصور وار صرف ثانیہ ہے جبکہ قصور آپ دونوں کا ہے اور اب سجل کے ساتھ۔۔۔
چھی شرم آنی چاہیے آپکو شرم۔۔۔۔
کیوں کیا آپ نے یہ سب میری چھوڑیں ماما کا ہی سوچ لیتے انھیں اگر یہ سب معلوم ہوگا تو وہ کیسے برداشت کریں گیں وہ تو پہلے ہی پریشان رہتی ہیں میرے لئے۔
جانتے ہیں ناں جب سے پاپا نے دوسری شادی کی ہے ماما کتنا ٹوٹ گئی ہیں۔
انکی بیوی انھیں یہاں آنے نہیں دیتیں وہ ہم سب کو بھولے بیٹھے ہیں۔
ہمارے پاپا تو ہم سے دور ہو گئے اب کیا آپ ماما کو بھی ہم سے دور کرنا چاہتے ہیں۔
ماما بہت کمزور پر گئی ہیں اندر سے مگر ہمیں دکھاتی اس لئے نہیں کہ کہیں ہم بھی ان کی طرح ہمت نا ہار بیٹھیں۔
انہوں نے ہمارے لئے اپنے دل کو کس طرح مظبوط کیا ہے اس کا اندازہ بھی ہے آپکو۔بہت پریشانیاں دیکھی ہیں ماما نے وہ بھی اپنی اولاد کی خاطر۔
مگر اب جب انکی اولاد ہی انکو اتنا برا دکھ دے گی تو وہ کیسے سہہ پائیں گی بولیں۔
وہ اب اس سے زیادہ خود کو مضبوط نہیں کر سکیں گیں۔پاپا کی دوسری شادی کا دکھ میری اولاد نا ہونے کا دکھ آپکی طلاق ہونے کا دکھ۔
ہر طرف سے دکھ ہی تو ملے ہیں انھیں اب خدا کا واسطہ ہے انھیں یہ دکھ مت دیجئے گا۔
وہ اپنے جوان بیٹے کو جیل میں جاتا وہاں کہ ظلم سہتا نہیں دیکھ سکیں گیں۔
ابیہا نے روتے ہوئے زارون کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔کیا کرے گا رومان جب سارے دوست اسکا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔
صرف آپکی وجہ سے اسکا کردار بھی مشکوک ہو جاۓ گا۔
پلیز بھائی میرے ان جڑے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لیں اور چلیں جائیں یہاں سے واپس۔
زارون نے آنسو بہاتی ابیہا کے جڑے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور پھر سجل کے قدموں میں بیٹھ گیا۔میں مانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ ہی نہیں بلکہ سب کے ساتھ مگر کاش میں ایسا کرنے سے پہلے ایک بار ہی سہی تم سب کے بارے میں سوچ لیتا ایک بار یہ سوچ لیتا کہ اسکا انجام کیا ھوگ تو میں کبھی ایسا مت کرتا۔
مگر کیا کرتا میں پاگل ہی تو ہوگیا تھا سوچ سمجھ سب دور بھاگ گئی تھی مجھ سے۔
میں سوچنا چاہتا بھی تو اس وقت میرے اندر تمہیں پانے کا جنون اتنا بڑھ چکا تھا کہ سوچ ہی نا پاتا۔
میں جانتا ہوں سجل کہ سوری لفظ بہت چھوٹا ہوگا تمہارے لئے مگر پھر بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں تم سے۔
کبھی اگر تمہیں اپنے دکھ کے سامنے یہ لفظ بڑا لگنے لگے تو معاف کر دینا مجھے اور میں جانتا ہوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
کیوں کہ تمہاری تکلیف کے سامنے میرا یہ لفظ بے معنی ہے۔
لیکن اگر کبھی بھی یہ ذرا سا بھی معنی رکھے تو معاف ضرور کر دینا۔
زارون ابھی چپ ہی ہوا تھا کہ سجل بول پڑی۔آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں آپکا یہ لفظ میرے زخموں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
میں کبھی بھی اپنا دل اتنا بڑا نہیں کر سکتی کہ آپ کے مجھ پر کئے گئے اتنے بڑے ظلم کے بعد آپکو آسانی سے معاف کر دوں اور سب کچھ بھول جاؤں۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا سنا آپ نے کبھی بھی نہیں۔میں آپکو سزا سے بچانا چاہتی ہوں صرف آپ کے اور میرے اپنوں کی وجہ سے مگر میرا رب آپکو جو سزا دے گا اس سے میں آپکو نہیں بچا سکوں گی۔
اس لئے اگر معافی مانگنی ہے تو اللّه سے مانگیں کیوں کہ میرا دل ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ آپکو آسانی سے معاف کر دوں۔
سجل اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو نظر انداز کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
جبکہ زارون خالی ہاتھ لئے زمین پر ہی بیٹھتا چلا گیا۔
۔**************************
صبح کے چھ بجے ہوئے تھے۔
روحاب جاگنگ کے لئے باہر نکل گیا۔
سجل بھی اٹھ چکی تھی۔
صبح کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے لطف اندوز ہونے کے لئے وہ لان میں آگئی اور ادھر سے ادھر چکر لگانے لگی۔
"سجل"
تب ہی کسی نے اسے آواز دی۔
سجل نے مڑ کر دیکھا تو سامنے زارون تھا۔
اس کے ماتھے پر بل پر گئے۔
صاف ظاہر تھا کہ وہ صبح صبح زارون کا چہرہ دیکھنے کی خواہش بلکل نہیں رکھتی تھی۔
آپ گئے نہیں ابھی تک۔
نہیں دو گھنٹے بعد کی فلائٹ ہے۔
زارون نے بتایا۔
ہاں تو پھر جائیں اس سے پہلے کہ روحاب آجائیں۔سجل میں تم سے کچھ کہنے آیا ہوں۔
مجھے آپ سے کچھ نہیں سننا اس سے پہلے کہ میرا دماغ خراب ہو جاۓ چلے جائیں بلکہ آپ کیوں جائیں گے آپکو اگر نہیں جانا تو کوئی بات نہیں میں ہی چلی جاتی ہوں یہاں سے۔
سجل یہ کہتی ہوئی آگے بڑھی مگر زارون اس کا ہاتھ تھام کر اس کے سامنے آگیا۔
کیا بدتمیزی ہے ہاتھ چھوڑیں میرا۔
زارون نے جلدی سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور بولا۔
پلیز ایک آخری بار میری بات سن لو ایک بات منوانے آیا ہوں تم سے سجل پلیز انکار مت کرنا۔
زارون نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
سجل نے اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور بولی۔
آپ جتنی ظالم نہیں ہوں میں جو وحشی بن جاۓ تو پھر سارے رشتے بھول جاتا ہے مگر مجھ میں انسانیت ہے زارون صاحب۔
آپکو جو کہنا ہے کہئے میں سن رہی ہوں ہاں مگر ذرا جلدی اس سے پہلے کہ روحاب آ جائیں۔
زارون نے اجازت ملنے پر ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر وہ بات کہہ دی۔سجل یک ٹک اسے دیکھے گئی۔
وہ آخر کیا کہہ رہا تھا۔سجل کتنی دیر حیران کھڑی اسے دیکھتی ہی رہی جب وہ دوبارہ بولا۔
سجل پلیز میری یہ آخری بات مان لینا میں برا انسان نہیں ہوں مگر وقتی طور پر بن گیا تھا۔
سب ٹھیک ہی کہتے ہیں بہت انا پرست ہوں میں۔
ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو انا کا مسلہ بنا لیتا ہوں۔مگر ایسا بلکل نہیں ہے کہ مجھ میں احساس مر چکا ہے مجھے احساس ہے جو کچھ بھی میں نے کیا اس کا۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔
تم کہتی ہو نا سجل کہ تم نے کبھی کسی کا دل نہیں توڑا کیوں کہ دل تو خدا کا گھر ہوتا ہے۔
خدا دل توڑنے والوں کو سزا دیتا ہے انہیں ناپسند فرماتا ہے۔
تو تمہیں یہ بھی معلوم ہوگا سجل کہ خدا پسند انکو کرتا ہے جو معاف کرنے والا ہوتا ہے دوسروں کو اللّه کی رضا کے لئے معاف کرتا ہے چاہے معافی مانگنے والا کتنا ہی گناہگار کیوں نا ہو بس معاف کرنے والے کا دل بڑا ہونا چاہیے۔
اور میں جانتا ہوں کہ تمہارا دل بہت بڑا ہے ایک نا ایک دن تم مجھے ضرور معاف کر دو گی مجھے یقین ہے اس بات کا۔
زارون سجل سے معافی کی التجا کرنے کے بعد تھکے ہوئے قدم اٹھاتا یہاں سے بہت دور جانے کے لئے گیٹ سے باہر نکل گیا۔
سجل آنکھیں بند کئے آنسو پینے لگی۔
کاش آپ نے ایسا نا کیا ہوتا کاش۔
سجل اب آنسو پینے کی بجاۓ انہیں آنکھوں کر ذریعے باہر آنے کا رستہ دینے لگی۔
۔*******************
موحد بھائی واپس کریں میرا موبائل۔
انعم موحد کے پیچھے اپنا موبائل لینے کے لئے بھاگ رہی تھی۔
جبکہ موحد اس کا موبائل ہاتھ میں پکڑے اسکی تمام دوستوں کو گروپ میسج کرنے لگا۔
ایک عدد لارج پیزا ود کولڈ ڈرنک۔
چکن منچوڑین ود فرائڈ رائس۔
زینگر ود جوس اور پھر آئس کریم فائیو سٹار ہوٹل میں میری طرف سے تم سب کے لئے آج بلکل فری۔
پانچ بجے پورے پہنچ جانا تم سب کی پیاری اور کھلے دل کی مالک دوست انعم۔۔۔۔
موحد نے یہ لکھنے کے بعد میسج سینڈ کر دیا۔
موحد بھائی کیا میسج کر رہے ہیں میری دوستوں کو اب دکھا بھی دیں۔
وہ اب بھی اس کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
موحد سیڑھیاں اترتا نیچے آیا جب سامنے سے آتی معارج سے اس کی ٹکر ہوئی اور معارج دھرم نیچے۔موحد بدتمیز اندھے کہیں کے جاہل انسان۔
معارج اپنا بازو سہلاتی اسے کوسنے لگی۔
سیم ورڈز فار یو۔
موحد نے مزے سے جواب دیا۔
موحد بھائی اب تو دے دیں موبائل۔
انعم کو اپنے موبائل کی ہی پڑی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ ضرور کوئی الٹے سیدھے میسجز ہی کرے گا جو اسے بہت مہنگے پڑیں گے۔
اور ہوا بھی ایسا ہی موحد نے اسے آرام سے موبائل تھما دیا۔
جب اس نے میسج پڑھا تو اسکا منہ ایسا بن گیا جیسے ابھی رو دے گی۔
کیوں کہ اس کی دوستوں کے بھی میسجز آچکے تھے۔ارے واہ یعنی آج تو ہمارا ڈنر فری بہت مزہ آنے والا ہے آج تو۔
تم فکر مت کرو ہم آجائیں گے پورے پانچ بجے۔
اور ہاں یہ جو مینو تم نے بتایا ہے یہ کچھ کم نہیں لگ رہا۔
کم والی بات پر انعم نے فوراً اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔لیکن چلو کوئی بات نہیں ہم کھا لیں گے یہ سب بھی۔انعم چہرہ گھمائے موحد کی طرف ہوئی اور بولی۔
اب آپ ذرا مجھے یہ بتائیں کہ انہیں اتنا سب کچھ کھلاۓ گا کون۔
ظاہر ہے تم۔۔۔
انعم کے پوچھنے پر موحد نے آرام سے انعم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
اور اب ذرا یہ بھی بتا دیں کہ اتنا ہیوی خرچہ میں کروں گی کہاں سے۔
اب یہ تو تمہارا مسلہ ہے تمہاری دوستیں ہیں تم نے انوائٹ کیا ہے تم ہی جانو مجھ سے کیا پوچھ رہی ہو۔موحد اپنا سارا کیا کرایا انعم پر تھوپ کر مزے سے وہاں سے ہٹ گیا۔
جبکہ انعم منہ کھولے ہکا بکا اسے دیکھے گئی۔
موحد گانے کی دھن پر سیٹی بجاتا باہر جانےگا جب باہر سے حسینہ اپنے حسن کا جلوہ لئے داخل ہوئی۔موحد الٹے پاؤں واپس مڑنے لگا مگر حسینہ اسے دیکھ چکی تھی اس لئے کسی ہیروئن کی طرح اپنے بال لہراتی بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
موحد جی یہ دیکھیں آج میں نے اپنے ہاتھوں پیروں اور چہرے پر وہ جو سفید والا آٹا نہیں ہوتا وہ لگایا تھا۔
اس لئے دیکھیں کتنی پیاری اور نکھری نکھری لگ رہی ہوں۔موحد نے اسے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسکا کالا رنگ بدلہ بدلہ اس لئے لگ رہا تھا کیوں کہ اس کے چہرے پر مٹی جمی ہوئی تھی۔
وہ شائد گھر کی ڈسٹنگ کر کے آرہی تھی۔
ہاں لگ تو رہی ہو۔۔۔موحد نے آہستگی سے کہا۔
اور یہ دیکھیں آج تو میں نے سوٹ بھی نیا پہنا ہے۔میری بیگم صاحبہ ہیں ناں بہت ہی اچھی ہیں اپنے وہ تمام کپڑے جو وہ نہیں پہنتیں وہ مجھے دے دیتی ہیں۔
انہیں معلوم جو ہے کہ ان کے کپڑے ان سے زیادہ مجھ پر ہی جچتے ہیں۔
حسینہ کی آخری بات پر موحد اور معارج کا دل چاہا کہ وہ دل کھول کر ہنسیں سواۓ انعم کہ جو ابھی بھی موبائل ہاتھ میں لئے اپنی دوستوں کے ایک کے بعد ایک آنے والے میسجز کو دیکھ کر منہ بنا رہی تھی۔حسینہ تم کتنی اچھی ہو ناں میرے لئے پلیز ایک گلاس پانی لے آؤ گلا بہت خشک ہو رہا ہے۔
موحد کے کہنے کی دیر تھی کہ حسینہ بھاگتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
موحد نے بھی اس کے جیسی پھرتی دکھائی اور بھاگتا ہوا گھر سے ہی باہر نکل گیا۔
حسینہ پانی کا گلاس لئے لاؤنج میں آئی۔
ارے یہ موحد جی کہاں گئے۔
حسینہ نے معارج سے پوچھا۔
وہ اصل میں پاپا کا فون آیا تھا آفس بلا رہے تھے اسے اور تمہیں تو پتا ہے کہ ہمارا موحد کتنا فرمابردار بچہ ہے ایک ہی فون پر چلا گیا۔
معارج نے بہانہ بنا دیا۔
"اچھا"
حسینہ کا منہ لٹک گیا۔
آج تو میں خاص انکے لئے تیار ہو کر آئی تھی مگر وہ تو مجھے جی بھر کا دیکھ بھی نا سکے۔
معارج کے دل میں آیا کہ وہ کہہ دے کہ اگر وہ تمہیں جی بھر کر دیکھ لیتا ناں تو دوبارہ کسی کو ایک نظر دیکھنے کے قابل بھی نا رہتا۔
ایسا کریں یہ لیں آپ ہی پانی پی لیں۔
حسینہ نے گلاس معارج کی طرف بڑھایا۔
حسینہ نے ایک نظر گلاس اور ایک نظر اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا جن پر لگی مٹی گلاس پر صاف واضح ہو رہی تھی۔
ارے نہیں مجھے بلکل پیاس نہیں ہے۔
معارج کو تو الٹی آنے لگی۔حسینہ گلاس لئے واپس کچن میں چلی گئی۔
۔******************