سجل کو جب ہوش آیا تو کمرے میں سوائے ثانیہ کے اور کوئی موجود نا تھا۔
ثانیہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
اٹھ گئی تم پتا ہے کب سے تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہی تھی صرف میں ہی نہیں بلکہ پورے گھر والے۔
لیکن کیوں۔
سجل نے پوچھا۔یہ تو جب تم نیچے چلو گی تو تمہیں معلوم ہو ہی جاۓ گا۔
اب اٹھو بھی جلدی سے۔
سجل اٹھی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی کمرے سے باہر نکل گئی۔
ثانیہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر نکل آئی۔
سب لاؤنج میں خاموش بیٹھے تھے۔ثمرین اسے دیکھتے ہی اس کی طرف چلی آئیں۔
قہر آلودہ نظروں سے سجل کو دیکھتے ہوئے انہوں نے زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی چلانا شروع کر دیے۔
ایک کے بعد ایک تھپڑ سجل خود کو سنبھال نا پائی اور زمین پر جا گری۔
ثمرین بھی اس کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئیں اور اسے دونوں ہاتھوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔
بول کہاں منہ کالا کر کے آئی ہو کہاں نکال کر آئی ہو اپنے ماں باپ کی عزت کا جنازہ۔
کون ہے وہ بے غیرت جس کے ساتھ منہ کالا کر کے آئی ہو۔بے غیرت تمہیں ذرا بھی شرم نا آئی یہ سب کرتے ہوئے ہماری عزت کا ذرا بھی خیال نا آیا تمہیں اس وقت۔
بولو بولتی کیوں نہیں کس کا بچہ ہے یہ کون ہے وہ جواب کیوں نہیں دیتی بولو بھی۔
یہ بچہ کسی اور کا نہیں بلکہ میرا ہے۔
اس آواز پر سب نے نظریں گھما کر دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے شخص کی طرف دیکھا۔
سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیوں کہ دروازے پر کوئی اور نہیں بلکہ روحاب تھا۔سب روحاب کو اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہے ہوں۔
روحاب تیز قدم اٹھاتا سجل کے پاس آیا۔
جھک کر دونوں کندھوں سے اسے تھام کر اپنے ساتھ کھڑا کیا اور بولا۔
بس کر دیں چھوٹی ماما اب ایک اور دفعہ بھی آپ سجل پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گیں۔
کیوں کہ اس میں سجل کا کوئی قصور نہیں ہے سجل نے قصور ہے جو کچھ بھی ہوا وہ میری غلطی تھی میں ہی اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔
میں جانتا ہوں کہ میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے مگر اس گناہ کی سزا سجل کو کیوں ملے اسے تو ویسے بھی میرے یہ سب کرنے کی وجہ سے سزا مل ہی رہی ہے۔اگر آپکو ہاتھ اٹھانا ہے تو مجھ پر اٹھائیں جان سے مارنا ہے تو مجھے ماریں مگر اب ایک اور خراش نہیں سجل کو مت آئے۔
دیکھیں اس کی طرف اور بتائیں کہ آپ سب میں سے کسی ایک کو بھی ایسا لگتا ہے کہ سجل کبھی ایسا کر سکتی ہے۔
آپکی تربیت اسکو یہ سب کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیتی جو وہ اتنا بڑا قدم اٹھائے اس نے تو کبھی ایسا سوچا تک۔۔۔۔۔
ٹھاہ۔۔۔
روحاب کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب بڑے پاپا نے ایک زوردار تھپڑ اسکے گال پر رسید کیا۔
اسکی تربیت اسے اس چیز کی اجازت کبھی نہیں دیتی یہ تو مان لیا مگر ہماری تربیت نے تمہیں اس چیز کی اجازت کب سے دے دی۔
وہ قصور وار نہیں ہے یہ بھی مان لیا مگر تم قصور وار کیوں ہو تم نے آخر ایسا کیوں کیا۔
آخر کیا بھر گیا تھا تمہارے دماغ میں تو ساری سدھ بدھ کھو بیٹھے تھے کہاں بیچ آئے تھے اپنی غیرت۔جواب دو مجھے آخر چپ کیوں ہو۔
شرم آ رہی ہے مجھے پولیس کی وردی میں کھڑے اپنے اس بیٹے پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے جس پر صرف مجھے بھی نہیں بلکہ سب کو ناز تھا۔
مگر تم نے تو اپنی وردی کی لاج بھی نا رکھی ذرا شرم نا آئی تمہیں۔
کیا قصور تھا اس معصوم بچی کا جو اس پر زندگی بھر کے لئے اتنا بڑا داغ لگا دیا۔
بڑے پاپا نے سجل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو حیرت اور بے یقینی کا پتلا نہیں بس روحاب کو ہی دیکھ جا رہی تھی کہ آخر کیا سوچ کر اس نے اتنا بڑا الزام خود پر لے لیا۔
بس یہی تو غلطی ہوگئی مجھ سے اور میں اس پر شرمندہ بھی ہوں پاپا۔
روحاب نے سر اور نظریں دونوں جھکا لیں۔مت کہو مجھے پاپا نہیں ہوں میں تمہارا باپ میرا بیٹا تم جیسا ہو ہی نہیں سکتا۔
اور تمہارے شرمندہ ہونے سے کیا ہوگا سب کچھ پہلے جیسا تو نہیں ہو جاۓ گا۔تم نے تو مجھے ثمرین اور رمیز کے سامنے نظریں اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
تم میرے بیٹے تو بلکل نہیں ہو سکتے چلے جاؤ یہاں سے چلے جاؤ میری نظروں سے دور اس سے پہلے کہ مجھے کچھ ہو جاۓ۔
روحاب نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا سردی میں بھی انکا چہرہ پسینے سے نچر رہا تھا۔
روحاب کو انہیں اس حالت میں دیکھ کر دلی افسوس ہوا مگر ابھی وہ مزید کچھ بھی کہہ کر انہیں اور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے سجل کا ہاتھ تھامتا ہوا اسے لئے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
۔****************
آپ نے ایسا کیوں کیا روحاب آپ نے اتنا بڑا الزام اپنے سر کیوں لے لیا۔
جبکہ سراسر قصور میرا ہے ساری غلطی میری ہے۔قصور تو تمہارا بھی نہیں ہے سجل ہاں مگر غلطی ضرور تمہاری ہے جو تم نے زارون کے پاس جا کر کی ہے۔
منع کیا تھا ناں میں نے تمہیں پھر کیوں گئی اس درندے کے پاس۔
اس گھٹیا آدمی کو تو میرا دل کر رہا ہے اسی وقت شوٹ کر دوں۔
اور تم دیکھنا اب میں اس کا کیا حشر کروں گا میں بھی انسپیکٹر روحاب ہوں جب تک اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تڑپا تڑپا کر نا مارا تب تک سکون سے نہیں بیٹھنے والا۔
مگر آپکو کیسے پتا روحاب کے اس سب کے قصور وار وہ ہیں۔
سجل کو ایک دم خیال آیا تو پوچھا۔
مجھے بھی اس حقیقت کا پتا آج ہی چلا اور بتانے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود زارون ہے۔
مگر وہ آپکو کیوں بتائیں گے یہ سب۔
تم کچھ نہیں جانتی سجل۔
میں سب جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں اور میری شادی آپ سے تو کیا کسی سے بھی نہیں ہونے دینا چاہتے۔
سجل نے اسے بتاتا مگر وہ یہ بات پہلے ہی جانتا تھا اس لئے بولا۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دونگا اس لئے اس نے یہ راستہ اختیار کیا۔
مگر وہ مجھے ابھی ٹھیک سے جان نہیں پایا کہ وہ چاہے کچھ بھی کر لے تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا۔
روحاب کی اس بات پر سجل نے چونک کر اسے دیکھا۔پہلے تو تم صرف میری ضد تھی مگر اب میرا جنون ہو۔
وہ تمہیں جتنا بھی مجھ سے دور کرنے کی کوشش کرے گا میں اتنا ہی تمہارے پاس آؤں گا۔
سجل کو یقین نا آیا کہ روحاب کے لئے وہ اسکا جنون بن چکی ہے۔میں پہلے آپکی ضد تھی اور اب جنون مگر شائد محبت نہیں۔
سجل مایوسی سے بولی۔
روحاب اسکی بات پر مسکرا دیا اور بولا۔
ارے پاگل جنون ہی تو محبت کی انتہا ہے اور میرے لئے تو تم محبت سے بھی بڑھ کر ہو۔
اب چاہے کوئی کچھ بھی سوچے یا کچھ بھی سمجھے میں تمہیں اپنا کر ہی رہوں گا۔
روحاب نے سجل کی بڑی بڑی جھیل جیسی بہتی آنکھوں سے آنسو صاف کے اور انہیں چوم لیا۔
لیکن روحاب آپ مجھے اس بچے کے ساتھ اتنی آسانی سے اپنا لیں گے کیا۔
دیکھو سجل اس سب میں اس آنے والی ننھی سی جان جا کیا قصور بھلا جو میں تمہیں اپنانے سے انکار کر دوں اور نا ہی تمہارا کوئی قصور ہے۔
کوئی ہو یا نا ہو مگر میں ہوں تمہارے ساتھ سجل اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے۔
کوئی تمہارے بے قصور ہونے کے بعد بھی اگر تم پر ہاتھ اٹھاۓ اسکا سامنا میں خود ہی کر لوں گا۔
سجل تمہیں یاد ہے وہ رات جب بادل گرجنے کی وجہ سے تم میرے سینے سے آلگی تھی۔
اور کہہ رہی تھی کہ تمہیں بہت ڈر لگ رہا ہے تو میرا دل کیا کہ کہہ دوں کہ جب میں ہوں تمہارے پاس تو تمہیں ڈرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔
مگر اس وقت تمہارا یہ اکڑو خان اپنی اکڑ میں ہی رہا اور کچھ نا بولا۔
اور ہاں تمہارے وہ خوابوں کی تعبیر بتانے والے بابا جی بھی بلکل ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔
وہ جو تمہارے لئے بنا ہے جو تمہیں ہر خطرے اور مشکل سے نکالے گا وہ کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی ہوں۔
تمہارا ہم سفر میرا مطلب ہے کہ ہونے والا ہم سفر۔ایک منٹ یہ سب آپکو کیسے پتا مطلب یہ بابا جی والی بات۔
سجل کو اچھے سے یاد تھا کہ یہ بات اس کے علاوہ صرف ابیہا اور معارج کو ہی معلوم تھی۔
مجھے معارج نے بتایا۔مگر مجھے معاف کرنا سجل میں تمہیں اس درندے سے نہیں بچا سکا۔
اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی تمہیں اس کے پاس نا جانے دیتا۔
لیکن روحاب اب ہوگا کیا سب تو آپکو ہی قصور وار سمجھ رہے ہیں۔
سجل کو اس کی فکر ہوئی۔
تم میری فکر مت کرو سجل صرف چند دنوں کی بات ہے پھر سارا سچ کھل کر سب کے سامنے آجاۓ گا۔
اگر میں ابھی سب کو سچ بتا دیتا تو صرف تماشا لگتا اور سب زارون کے ساتھ تمہارا نکاح پڑھوا دیتے جو مجھے کسی صورت منظور نہیں۔
ایک دفعہ بس تمہیں اپنا بنا لوں اس کے بعد اس زارون کی خیر نہیں اسکا تو میں ایسا حال کروں گا کہ زندگی بھر نہیں بھولے گا۔
فلحال میرے لئے سب سے ضروری کام تمہیں قانونی طور پر اپنا بنانا ہے جو کہ میں جلد ہی کرنے والا ہوں۔
۔********************
اگلے دن بغیر کسی سجاوٹ اور شور شرابے کے خاموشی سے سجل اور روحاب کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔سجل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا نکاح روحاب کے ساتھ ان حالات میں کروایا جاۓ گا۔
روحاب سے اسکی فیلنگز چھپی ہوئی نہیں تھیں اس لئے جب وہ دونوں کمرے میں آئے تو روحاب بولا۔
میں جانتا ہوں سجل کہ تم نے یہ سب اس طرح کبھی نہیں سوچا تھا مگر ایسا بلکل نہیں ہے کہ حالات ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔
ایک دفعہ سب ٹھیک ہو جاۓ پھر دیکھنا کیسے دھوم دھام سے شادی ہوتی ہے۔
میری بھی خواہش ہے کہ تمہیں دلہن کے سرخ جوڑے میں دیکھوں۔
تم دلہن بنی سجی سنوری میرے انتظار میں اس بیڈ پر بیٹھی ہو۔
اور ایسا ہوگا سجل ضرور ہوگا تب ہمارے ساتھ باقی سب بھی ہماری خوشیوں میں برابر شریک ہونگے۔
لیکن آج کی رات ایک خوبصورت سی غزل میری جان کے نام۔
روحاب مسکراتا ہوا غزل گنگنانے لگا۔
وہ جو دیپ آنکھوں میں جل رھے
انہیں عاشقی کا پیغام دو
مجھے اپنے لبوں پہ سنمبھال لو
اپنی ہر دعا کو میرا نام دو
میں چلوں تو ۔ تو میرے ساتھ ھو
مجھے تھامے جو وہ تیرا ہاتھ ھو
میری روح کو خود میں اتار لو
میری ہر نظر سے خمار لو
جو مجھے سمیٹے تیری بانہوں میں
میری بے خودی کو جام دو
میری چاہتوں کا بھرم رکھو
مجھے اپنی آنکھوں میں بند رکھو
بے چین رکھے جو مجھے رات بھر
میری خواہشوں کو وہ شام دو
۔******************
بڑے پاپا روحاب سے سخت ناراض تھے اور اسکا چہرہ تک دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
شہلا بھی اس سے ناراض تھیں مگر پھر بھی ماں تھیں اس لئے اس سے کھانے کا پوچھتیں سارے دن کی روداد سننے لگ جاتیں تو روحاب اسی پر خوش ہو جاتا مگر بڑے پاپا اتنے پر بھی ان سے ناراض ہو جاتے۔ثمرین اور رمیز بھی پہلے کچھ دن سجل سے ناراض رہے۔
مگر پھر یہ سوچتے ہوئے کہ ان کی بیٹی کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ الٹا اس کے ساتھ غلط ہوا ہے اگر ہم اس حال میں اسکا خیال نہیں کریں گے تو کون کرے گا سجل کو گلے سے لگا لیا۔
مجھے معاف کر دو میری بچی میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا۔تم تو میری پھول سی بچی ہو جیسے میں نے آج تک جھڑکا نا تھا مگر اس غلط فہمی کا شکار ہو کر میں نے تم پر ہاتھ اٹھا ڈالا۔
مگر اب نہیں اب تو میں تمہارا دل و جان سے خیال رکھوں گی۔
سجل نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کے اور بولی۔
مجھے بلکل برا نہیں لگا اور نا ہی مجھے اسکا کوئی دکھ ہے کہ آپ نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا آپ نے جو بھی کیا بلکل ٹھیک کیا۔
آپ ماں ہے کیا آپ کا مجھ پر اتنا بھی حق نہیں کہ آپ مجھے ڈانٹ سکیں مار سکیں۔
اس وقت اگر آپ مجھے جان سے بھی مار دیتیں تو کچھ غلط نا تھا۔
اور میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے ضرور معاف کر دیں گیں۔
معاف تو تمہیں تب کرتے بیٹا جب تمہارا کوئی قصور ہوتا تمہاری کوئی غلطی ہوتی مگر قصور تو سارا روحاب کا ہے خیر اب اس بات کو زیادہ نا ہی چھیڑا جاۓ تو ہی اچھا ہے کیوں کہ اب وہ اس گھر کا داماد ہے۔
اب کی بار رمیز صاحب سجل سے بولے۔
پاپا آپ نے مجھے معاف تو کر دیا ناں مجھ سے ناراض تو نہیں آپ۔
اچھے بچوں سے بھی بھلا کوئی ناراض ہوتا ہے۔رمیز صاحب یہ کہتے ہوئے مسکرا دیے تو سجل بھی مسکرا دی۔
۔*******************
موحد معارج اور انعم سجل کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو کچھ ہوا اسکا انہیں بھی بہت دکھ تھا۔
سجل بے قصور تھی تو اس لئے وہ تینوں بھی اس سے کوئی غلط رویہ نہیں رکھنا چاہتے تھے۔
مگر روحاب سے وہ تینوں کھینچے کھینچے سے تھے۔سجل آج تو میرے پاس تم سے کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے ورنہ میں نے تو سوچ رکھا تھا کہ جب تم میری بھابھی بن جاؤ گی تو میں تمہیں تنگ کرنا اور بھی ڈبل کر دوں گا تب تم جا کر روحاب بھائی سے شکایت لگایا کرو گی کہ یہ دیکھیں روحاب آپکا بھائی ہر وقت مجھے تنگ کرتا رہتا ہے۔
اور پھر میں تمہاری نکل اتار کر تمہیں چھیڑا کروں گا۔
موحد نے کہا۔
اور میں نے سوچ رکھا تھا کہ جب تم روحاب بھائی کے ساتھ شوپنگ پر جایا کرو گی تو میں بھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی اور تم مروت کے مارے مجھے منع بھی نہیں کر سکو گی اور نا بھائی کو کرنے دو گی اور تمہاری کی گئی شوپنگ میں سے اپنی پسند کی چیزوں پر حملہ کر کے انہیں بھی اپنے قبضے میں لے لوں گی۔
اب کی بار معارج بولی۔میں نے بھی تو کچھ سوچا ہوگا اب مجھ سے بھی تو پوچھ لیں۔
انعم نے ان تینوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔میں نے سوچا تھا کہ رات گئے تک آپکے کمرے میں بیٹھ کر بکس پڑھا کروں گی۔
جبکہ روحاب بھائی انتظار میں ہی ہونگے کہ کب میں اٹھوں اور کب وہ اپنی بیٹھیں۔
شرارتی موحد شوپنگ کی شوقین معارج اور پڑھاکو انعم نے اپنے اپنے مطلب کی ہی سوچ بتائی۔
انعم کی بات پر معارج اور موحد ہنس پرے اور بولے۔ویسے ہم دونوں سے زبردست سوچ تو تمہاری ہے۔
یعنی روحاب بھائی کو تب جب وہ اپنی بیگم کے پاس جانے کو بے چین ہوں انہیں انتظار کروانا۔
ویسے تم لوگ ایسا اب بھی تو کر سکتے ہو اپنی اپنی سوچوں پر اب بھی تو عمل کر سکتے ہو۔
سجل ان تینوں سے بولی۔
آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپی مگر جو کچھ بھی ہوا اس کی وجہ سے سب ان سے ناراض ہیں اور شائد ہم تینوں بھی۔
اور ماما کہہ رہی تھیں کہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اتنا بڑا دل کر کے انھیں معاف بھی کر دیا۔
ورنہ سب سے غلط تو آپ کے ساتھ ہی ہوا ہے۔میں انہیں معاف کیوں نا کرتی انعم اب تو وہ میرے شوہر ہیں جو کچھ بھی ہوا ان سے انجانے میں ہوا ورنہ جانتے تو تم سب بھی ہو کہ وہ کیسے ہیں۔
سجل نے ان سب سے کہا مگر حقیقت وہ سب کہاں جانتے تھے کہ اگر روحاب نے کچھ کیا ہوتا تو سجل اس سے ناراض ہوتی ناں مگر جب روحاب نے کچھ کیا ہی نہیں تو وہ دکھاوے کی ناراضگی بھی اس سے کیوں رکھتی۔
۔*******************
بس کل کا دن باقی ہے سجل پھر دیکھنا تمہارا گناہ گار کیسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔
روحاب نے سجل کے گرد بازو حائل کئے اور اس کے کندھے پر تھوری ٹکا دی۔
سجل کچھ نا بولی بس
"ہوں"
کہہ کر چپ ہی رہی۔
اس دن کے بعد سے ہوگی تمہاری اور میری یعنی ہماری زندگی کی ہیپی سٹارٹنگ۔
روحاب نے اسکی گال کو چھوا تو وہ جبراً مسکرا دی۔کیوں کہ اس وقت جو وہ سوچ رہی تھی اگر روحاب کو معلوم ہو جاتا تو وہ یقیناً اس سے سخت ناراض ہو جاتا۔
ثانیہ دروازے پر کھڑی ان کی تمام باتیں سنتی کچھ سوچ رہی تھی۔
میری زندگی میں زہر گھولنے والے زارون کے علاوہ تم دونوں بھی ہو اور تم دونوں اپنی زندگی کی ہیپی سٹارٹنگ کرو ایسا میرے جیتے جی تو ممکن نہیں۔
تیار ہو جاؤ تم دونوں آج سے اپنی ایک کے بعد ایک خوشی کو دکھ میں بدلتا دیکھنے کے لئے۔
اگر میں خوش نہیں تو تم لوگ بھی نہیں اگر کوئی خوشی میرے لئے نہیں تو اسے میں تم دونوں تک بھی نہیں پہنچنے دوں گی۔
اگر تم لوگوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا ہے تو میں بھی تم لوگوں کا حال برا کر کے ہی چھوڑوں گی۔تم لوگوں کو ایسے مطمئن تو میں کبھی نہیں دیکھ سکتی۔
تم لوگوں کی پرسکون زندگی میں زہر نا گھول دیا تو میرا نام بھی ثانیہ نہیں۔
ثانیہ ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ لئے وہاں سے ہٹ گئی۔
۔*****************