سجل چھت پر بیٹھی دھوپ سینکنے کے ساتھ ساتھ مالٹے بھی کھا رہی تھی۔
دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ آنکھیں موندے وہ مالٹوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
آہا کیا ہی مالٹے ہیں مزا آگیا۔
سجل نے پلیٹ سے ایک اور پیس اٹھانا چاہا مگر ہاتھ میں کچھ نا آیا۔
اس نے آنکھیں کھول کر پلیٹ دیکھی تو پلیٹ میں ایک بھی مالٹا نا تھا۔
نظریں گھوما کر اپنے آس پاس دیکھا تو موحد رومان اور معارج مزے سے اس کے چھیلے گئے مالٹے کھا رہے تھے۔
چور کہیں کے خود کے ہاتھ نہیں ہیں کیا جو مجھ سے چھین کر کھا رہے ہو تم لوگ۔
سجل نے معارج سے مالٹا چھیننے کی کوشش کی تو اس نے ہاتھ پیچھے کھسکا لیا۔
دوسروں کی پلیٹ سے مالٹے اٹھا کر کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے کیوں رومان ٹھیک کہا نا میں نے۔
موحد کی بات پر رومان نے بھی سر ہلا دیا۔لو کھاؤ مرو تم لوگ۔سجل نے مالٹوں کی ٹوکری ان کی طرف کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ ساتھ والی چھت پر دیکھنے لگی جہاں پھپھو اور زارون بھائی بھی بیٹھے مالٹے ہی کھا رہے تھے۔
جبکہ ثانیہ ان سے قدرے دور بیٹھی نیل پالش لئے اپنے ناخنوں کو سنوار رہی تھی۔
پھپھو میرے لئے بھی مالٹے رکھیے میں آرہی ہوں۔سجل دیوار پر چڑھ گئی۔
ارے تم دیوار پھلانگ کر آؤ گی تو گر جاؤ گی زارون اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا۔
نہیں گرتی زارون بھائی کیوں کہ میں یہیں سے آتی ہوں اور ویسے بھی اتنی سی دیوار سے گر بھی جاؤں گی تو کچھ نہیں ہوگا مجھے۔
پھر بھی تم ہاتھ دو اپنا مجھے ایسے چھلانگ مت لگانا۔
زارون نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اس کا ہاتھ مانگا۔
سجل نے ثانیہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر صاف لکھا تھا
"تمہیں اپنی چھت پر سکوں نہیں ہے کیا"
سجل نے زارون کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانے کی بجاۓ واپس اپنی چھت پر چھلانگ لگا دی۔
کیا ہوا اب واپس کیوں جا رہی ہو۔
زارون بھائی مجھے یاد آیا کہ ماما نے مجھے کچھ کام کہا تھا نا کیا تو ڈانٹ پڑے گی اس لئے بعد میں آتی ہوں۔سجل سیڑھیاں اترتی نیچے آگئی۔
۔***************************
زارون تم مجھے کب لے کر جا رہے ہو انگلینڈ اب میں یہاں ایک دن بھی مزید نہیں رہ سکتی۔
کریں نا تیاری چلتے ہیں۔
ثانیہ نے ایسے کہا جیسے انگلینڈ دو قدم کے ہی تو فاصلے پر ہے۔
وہ روز زارون سے یہی سوال پوچھتی۔
جبکہ زارون اس کے فضول سوالوں کی وجہ سے تنگ آچکا تھا۔
دیکھو ثانیہ روز روز ایک ہی بات کہہ کر میرا دماغ خراب مت کیا کرو میرا ابھی کوئی ارادہ نہیں جانے کا اور نا ہی فلحال اس بارے میں بات کرنے کا کوئی موڈ ہے اس لئے پلیز تم چپ ہی رہو تو اچھا ہے۔
کیوں کروں میں چپ روز یہی کہتے ہو تم آخر کس دن موڈ ہوگا تمہارا یہ بتانے کا کہ ہم کب انگلینڈ جا رہے ہیں۔
تمہیں لے کر ہی جاؤں گا یہاں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا تھوڑا صبر رکھ لو تم اب۔
تھوڑے سے صبر کا مطلب صرف تھوڑا ہی اس سے زیادہ میں نہیں کرنے والی۔ثانیہ اسے سنا کر منہ پھیر کر لیٹ گئی۔
۔********************************
یہ دیکھو زارون نے میرے لئے شوپنگ کی ہے یہ سوٹ پورے تیس ہزار کا ہے اور یہ رنگ دیکھو مجھے تو بہت پسند آئی اور زارون نے مجھے فوراً دلوا دی۔
پوچھو گی نہیں کتنے کی ہے ثانیہ نے سجل کہا۔آج سب کا ڈنر رفیق اور رمیز صاحب کی طرف تھا ابیہا اور سفیان کی فیملی بھی آئی ہوئی تھی۔
ہاں بتائیں ناں کتنے کی ہے۔
سجل کو بھی جاننے کا تجسس ہوا۔
پورے پچپن ہزار کی اور یہ دیکھو بالوں کی کٹنگ کروا کر کیا کلر کروایا ہے۔
کٹنگ پھر کلر فیشل مینیکیور پیڈیکیور ان سب میں تو میرے انیس ہزار لگ گئے اور اب اگلے ہفتے دوبارہ جانا ہے۔
میں جس چیز پر بھی ہاتھ رکھ دوں زارون فوراً لے دیتا ہے مجھے سچ میں بہت پیار کرتا ہے مجھے میری ہر بات مانتا ہے۔
ایک دن میں ایک لاکھ لگانا اس کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ثانیہ کچھ زیادہ ہی بولے جا رہی تھی۔
اچھا تو پھر تو زارون بھائی کو آپکو انگلینڈ بھی جلد ہی لے جانا چاہیے تھا۔
موحد نے اس کی بڑھا چڑھا کر سنانے والی باتوں کو بریک لگانے کے لئے جان بوجھ کر یہ بات کہی۔
اور واقعی میں ثانیہ کی چلتی زبان کو ایک دم بریک لگی۔
سب کو معلوم تھا کہ ثانیہ زارون کا اچھا سر کھاتی ہو گی کہ کب لے کے جاؤ۔
کہہ رہا تھا کچھ ٹائم یہاں رہنا چاہتا ہے ایک مہینے بعد چلیں گے۔
ثانیہ نے صاف جھوٹ بولا کیوں کہ معلوم تو اسے بھی ابھی تک نا تھا کہ جانا آخر کب ہے۔
موحد نے اس کے جھوٹ پر سر ہلا دیا۔
اور ویسے بھی ابھی تو ہم ہنی مون کے لئے ترکی جا رہے ہیں۔یہ بھی ثانیہ نے جھوٹ بھولا۔
تم لوگ بھی کہیں جا رہے ہو ہنی مون کے لئے یا گھر کے لان میں بیٹھ کر ہی ہنی مون مناؤ گے۔
ثانیہ نے ابیہا اور سفیان سے پوچھا۔
ہم ہنی مون کے لئے نہیں جا رہے ثانیہ بلکہ ہمارا ارادہ انشاءلله تائی امی کے ساتھ اگلے مہینے عمرہ پر جانے کا ہے۔
ابیہا نے اسے بتایا تو سب کی توجہ اس کی طرف ہو گئی۔سچ میں آپی یہ تو بہت اچھی بات ہے۔
سب کی ملی جلی آوازیں آنے لگیں۔
جبکہ ثانیہ یہ سوچ کر کہ کسی کو بھی اس کی باتوں میں کوئی دلچسبی نہیں سب اسی کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں وہاں سے اٹھ گئی۔
۔*************************
چلو بچو اب آبھی جاؤ کھانا لگ گیا ہے۔
بڑی ماما نے ان سب کو آواز دی۔
سب باتوں میں لگے ہوئے تھے اس لئے بڑی ماما کی آواز پر بھی نا اٹھے۔
سجل نے ان سب کو زبردستی اٹھایا کیوں کہ اسے بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔
سجل ابیہا کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی جبکہ زارون نے ثانیہ کے ساتھ بیٹھنے کی بجاۓ سجل کے ساتھ والی کرسی سنبھال لی۔
سجل مجھے وہ قورمے والا باؤل پکڑانا۔
زارون نے سجل سے کہا کیوں کہ باؤل سجل کے نزدیک تھا۔
سجل نے باؤل میز پر رکھنا چاہا مگر زارون نے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا اور ساتھ ہی ساتھ سجل کے ہاتھ کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
سجل نے تیزی سے ہاتھ واپس کھینچا جس کی وجہ سے باؤل سے کچھ سالن میز پر گر گیا۔
روحاب زارون کی یہ حرکت نوٹ کر چکا تھا صرف آج ہی نہیں بلکہ کئیں بار مگر اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ ایسا کر کیوں رہا ہے۔
۔***************************
سنیے جی یہ پارسل آیا ہے کسی کا چیک کر لیں میں ذرا زرمین کے ہاں جا رہی ہوں۔
شہلا بیگم نے پارسل رفیق صاحب کو پکڑایا جو کہ اخبار پڑھنے میں مصروف تھے اور پھر خود زرمین کی طرف چلی گئیں۔
رفیق صاحب پارسل کو الٹا سیدھا کر کے دیکھنے لگے مگر اس کے باہر کچھ نا لکھا تھا۔
وہ اسے کھولنے لگے جب سجل ان کے پاس آئی اور پارسل ان کے ہاتھ سے لے کر بولی۔
شکر ہے ماریا نے نوٹس پارسل کروا کر بھیج ہی دیے۔بڑے ابا یہ میرے نوٹس ہیں آپکو تو پتا ہے ناں کہ میرا بیگ بس اسٹینڈ پر گر گیا تھا اس لئے منگوائے ہیں اپنی دوست سے۔
چلو اچھا کیا جاؤ شاباش دل لگا کر پڑھو۔
بڑے ابا یہ کہتے ہوئے پھر سے اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔
سجل اسے لئے لان میں آگئی اور کرسی پر بیٹھ کر پارسل کھولنے لگی۔
مگر یہ کیا اس کے اندر نوٹس نہیں بلکہ چند تصویریں تھیں۔
جو کہ روحاب کی تھیں اور وہ بھی کسی لڑکی کے ساتھ۔
ان تصویروں میں وہ لڑکی روحاب کے ساتھ چپک کر کھڑی تھی۔
اس لڑکی نے کپڑے ایسے پہن رکھے تھے جو دیکھنے لائق نہیں تھے۔
جبکہ روحاب نے شرٹ نہیں پہنی ہوئی تھی وہ دونوں کسی بیچ پر تھے۔
سجل ان تصویروں کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھل گئیں۔
ارے دکھاؤ سجل یہ تم کس کی تصویریں دیکھ رہی ہو۔
ثانیہ شائد ابھی آئی تھی۔
کچھ نہیں آپی میری تصویریں ہیں میری یونیورسٹی فیلو کے ساتھ انھیں ہی دیکھ رہی تھی۔
سجل نے جھوٹ بولا۔
ہاں تو دکھاؤ تو سہی جس کے ساتھ بھی ہے۔
ثانیہ نے سجل کے ہاتھ پیچھے کرنے کے باوجود بھی تصویریں اس کے ہاتھ سے لے لیں۔
اس سے پہلے کہ وہ تصویریں دیکھتی ثمرین بیگم ان کے پاس چلی آئیں۔
ارے آگئی تم ثانیہ چلو اب جلدی چلیں بازار ورنہ واپسی پر لیٹ ہو جائیں گے۔
ہاں چلیں میں آپکو ہی لینے آئی تھی۔
یہ پکڑو بعد میں دیکھوں گی انہیں ثانیہ سجل کو تصویریں واپس پکڑاتی ثمرین بیگم کے ساتھ باہر نکل گئی۔
سجل نے سکون کی سانس اندر اتارتے ہوئے شکر ادا کیا۔
کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اگر ثانیہ نے یہ تصویریں دیکھ لیں تو وہ روحاب کو سب کے سامنے ذلیل کر کے رکھ دے گی۔
اور دو چار الزام تو خود سے ہی لگا ڈالے گی۔
سجل یہ تصویریں روحاب کو دکھانے کے لئے اب بے صبری سے اس کا انتظار کرنے لگی۔
سجل کو یقین تھا کہ روحاب کبھی بھی کسی لڑکی کے ساتھ ایسی تصویریں نہیں بنوا سکتا۔
مگر نجانے کیوں اسے اتنا یقین تھا شائد یہ بابا جی کی باتوں کا اثر تھا۔
۔**************************
ثانیہ زارون کے موبائل پر ثمرین کا فون سن رہی تھی۔جب فون بند ہوا تو ثانیہ نے موبائل سائیڈ پر رکھنا چاہا مگر پھر رکھتے رکھتے کچھ سوچ کر رک گئی۔زارون اپنے موبائل کے ساتھ ہی لگا ہوا تھا۔
جب ثمرین کا فون آگیا زارون کو شائد لاک لگانا یاد نہیں رہا تھا اس نے ایسے ہی موبائل ثانیہ کو پکڑا دیا اور کمرے سے نکل گیا۔
ثانیہ یہ سوچتے ہوئے کہ ہر وقت موبائل کو لاک لگاۓ رکھتا ہے آج دیکھ ہی لوں کہ آخر اس میں ایسا ہے کیا۔۔۔
ثانیہ نے سب سے پہلے فون کالز چیک کیں اور اس کے بعد میسجز مگر وہاں زارون کے دوستوں اور فیملی کے علاوہ کسی کی کالز اور میسج نہیں تھے زیادہ تر میسجز موحد کے تھے۔
اس کے بعد اس نے گیلری کھولی اور تصویریں دیکھنے لگی زیادہ تر تصویریں سجل کی تھیں۔
چند تصویریں دیکھنے کے بعد وہ ایک تصویر پر رک گئی۔
یہ تصویر ثانیہ اور سجل کی تھی ثانیہ کی تصویر پر سرخ رنگ کا بڑا سا کروس کا نشان لگایا گیا تھا جبکہ سجل کی تصویر پر بڑا سا سرخ رنگ کا دل بنا ہوا تھا۔ثانیہ اتنی کم عقل نہیں تھی کہ محبت اور نفرت کے ان نشانوں کو سمجھ نا سکتی۔
اس سے پہلے کہ وہ باقی کی تصویریں دیکھتی زارون نے موبائل اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
کس کی اجازت سے تم میرے موبائل کی تلاشی لے رہی ہو کیا ڈھونڈنا چاہ رہی تھی اس میں سے۔
زارون کو اس کی اس حرکت پر بے تحاشہ غصہ آیا۔
جو ڈھونڈنا چاہ رہی تھی وہ تو مجھے مل گیا۔
کیا مطلب کیا مل گیا تمہیں۔زارون کو سمجھ نا آئی۔تمہاری محبوبہ کی تصویریں۔
تمہیں شرم تو نہیں آتی میری ہی بہن کے ساتھ چکر چلاتے ہوئے اسے تو میں دیکھ لوں گی مگر تم بتاؤ کہ تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے جو تم اس کے زیادہ سے زیادہ قریب رہنے کی کوشش کرتے ہو کیوں اسے چھونے کے بہانے ڈھونڈتے ہو اور آخر کیوں تم نے صرف اسی کی تصویریں اپنے موبائل میں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں بولتے نہیں آخر کیوں۔۔۔۔
"کیوں کہ میں سجل سے محبت کرتا ہوں"
سن لیا تم نے محبت کرتا ہوں میں اس سے کیوں کہ وہ اس قابل ہے اور نفرت کرتا ہوں تم سے کیوں کہ تم اس کے قابل ہو سمجھ میں آیا تمہارے۔
زارون ثانیہ کے اس طرح بدتمیزی سے چلانے پر ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔
جبکہ ثانیہ نے کسی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس پر حملہ کیا اسے کالر سے پکڑ کر اپنی طرف اس طرح سے کیا کہ اس کی شرٹ کے دونوں بٹن کھل گئے۔
اور کالر کے پھرنے پر زارون کو اپنی گردن پر جلن سی ہونے لگی۔
اگر تمہیں سجل سے محبت تھی تو اس سے شادی کرنے کی بجاۓ مجھ سے شادی کیوں کی مجھے دھوکے میں کیوں رکھا۔
پہلی بات تو یہ کہ مجھے سجل سے محبت تھی نہیں بلکہ ہے اور ہمیشہ رہے گی مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ محبت کا یہ جذبہ میرے دل میں پیدا ہی تب ہوا جب دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں اور دوسری بات تمہیں دھوکا دینا ہی تو میرا مقصد تھا مائے ڈیر وائف۔
تم جس گمان میں ہو ناں کہ میں تم سے بے تحاشہ محبت کرتا ہوں یا تم جیسا اس دنیا میں کوئی نہیں تو آج سن ہی لو مجھ سے کہ تم جیسی لالچی لڑکی سے کوئی محبت کر ہی نہیں سکتا اور ہاں واقعی میں تم جیسا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔
تم جیسی گھٹیا مکار اور لالچی لڑکی واقعی میں دنیا میں کہیں بھی نہیں۔
تم کہنا کیا چاہتے ہو آخر۔
ثانیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کا منہ نوچ ڈالے۔
یاد ہے تمہیں وہ دن آج سے پانچ سال پہلے جب میں نے تمہیں پرپوز کیا تھا اور تم نے بدلے میں کیسے مجھے ذلیل کر کے رکھ دیا تھا کس بے دردی سے مجھے ٹھکرایا تھا وہ وقت آج بھی مجھے یاد ہے۔
اور تمہارا کہا گیا ایک ایک لفظ ہر وقت میرے دماغ میں گردش کرتا رہتا ہے۔
یہی کہا تھا ناں تم نے کہ آخر ہے ہی کیا تمہارے پاس کماتے ہو نہیں تم ایک بس خالی اچھی شکل ہی ہے تمہارے پاس اور اگر میں اس شکل پر ہی مر گئی تو بعد میں روٹی کپڑے کو ہی ترستی رہوں گی۔
کیوں کہ میرے جو خواب ہیں وہ تم کسی بھی صورت پورے نہیں کر سکتے۔
یہ عام سے کھانے کپڑے جو تم لوگوں کے لئے تو خاص ہیں مگر میری نظر میں کچھ بھی نہیں ہیں۔
اور تم مجھے یہی دلا کر ساری زندگی احسان کرتے رہو گے۔
تم سے اچھا تو وہ روحاب ہے جو کہ انسپکٹر کے عہدے کے لئے چن لیا گیا ہے اور اب دیکھنا کیسے ترقی کرتا ہے۔
اگر میں شادی کروں گی تو اس سے ہی کیا ہوا جو وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا تم دیکھنا بہت ہی جلد کرنے لگ جاۓ گا۔
کیوں کہ میں جس چیز کو اپنی طرف لانا چاہوں اور وہ نا آئے ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔
جس دن کچھ بن جاؤ گے ناں اس دن آنا میرے پاس ہونہہ جیب میں ایک آنا نہیں اور آیا ہے پرپوز کرنے۔کیا تمسخر اڑایا تھا تم نے میرا آج تک وہ باتیں میرے دل میں کسی شعلے کی طرح بھڑک رہی ہیں ان کی تپش نے جلا کر رکھ کر دیا ہے میرے دل کو۔
مگر میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ تم نے تو مجھے اپنائے بغیر ٹھکرایا ہے ناں میں تمہیں اپنا کر ٹھکراؤں گا۔
تمہیں وہ سب آسائشیں دوں گا جن کے تم نے خواب دیکھے اور پھر جب تم ان پر غرور کرنے لگ جاؤ تو ایک ساتھ سب چھین لوں گا۔
جس طرح تم نے مجھے رد کیا تمھیں بھی ویسے ہی رد کروں گا ایسی مار ماروں گا کہ اٹھنے کے قابل نہیں رہو گی۔
تم جانتی ہو ناں کہ میں نے آج تک اپنے مطلق ایک بات بھی برداشت نہیں کی جب تک اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دے دیا میرے دل کو ٹھنڈ نہیں پڑی۔
تم ایک لالچی مکار اور بے حس لڑکی ہو میرے دل میں تمہارے لئے عزت اور محبت رتی بھر بھی نہیں رہی۔زارون بول نہیں رہا تھا بلکہ زہر اگل رہا تھا۔
اتنا بڑا دھوکہ دیا تم نے مجھے اتنا بڑا کھیل رچایا میرے ساتھ تمہیں تو میں چھوڑوں گی نہیں گھٹیا انسان۔
ثانیہ پاگلوں کی طرح اس کا کالر پکڑے چلانے لگی اور پھر سائیڈ ٹیبل پر پڑا لینپ اٹھا کر اس پر وار کرنے لگی۔
مگر زارون نے مسکراتے ہوئے لینپ اس کے ہاتھ سے لیا اور بولا۔
اب ملا ناں مجھے سکون۔
بڑے خواب دیکھے تھے میرے ساتھ انگلینڈ جانے کے تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا انگلینڈ میں کوئی ذاتی گھر نہیں ہے بس ایک فلیٹ ہے جس میں میں رہتا ہوں۔
ویسے مجھے خوب معلوم تھا جب میں انگلینڈ چلا جاؤں گا تو تمہارے ارادے بدل جائیں گے تم بچھتاؤ گی مجھے ٹھکرا کر اور تمہیں تو معلوم ہی نہیں کہ میں تمہیں پرپوز کرنے کے بعد بتانے ہی والا تھا کہ اسی مہینے میں انگلینڈ جا رہا ہوں۔
مگر نہیں تم نے تو میری کوئی بات سنی ہی نہیں اس کے بعد۔
مجھے معلوم تھا کہ وہاں سے واپس آنے پر تمہیں دوبارہ پرپوز کروں گا تو تم انکار نہیں کرو گی بلکہ جھٹ سے ہاں کر دو گی اور میری سوچ بلکل ٹھیک تھی۔
تم نے تو عیش پرستی کی خاطر روحاب کو بھی ٹھکرا دیا۔
اور اس کے رشتے سے انکار کر کے میری دولت کی چاک و چوبند دیکھ کر میری طرف آگئی۔
ویسے کتنی کو ہوس ہے تمہیں پیسے کی مجھے تو شرم آتی ہے تمہیں اپنی بیوی کہتے ہھے مگر ہاں ایک بات تم میری کان کھول کر سن لو میرا نام زارون ہے اور زارون جب تک اپنی کی گئی بے عزتی کا بدلہ لے نا لے چین سے نہیں بیٹھتا۔
تمہاری عیش کے دن اب ختم ثانیہ بی بی کیوں کہ بہت جلد میں تمہیں طلاق دینے والا ہوں۔
کیوں کہ تم اس قابل ہی نہیں کہ میری کہلا سکو۔
پہلے تو میں نے سوچا تھا تمہیں طلاق دے دوں گا اور یہاں سے چلا جاؤں گا مگر اب جبکہ سجل ہی سجل میرے دل و دماغ پر سوار ہے تو ایسا ہو سکتا ہے کیا کہ تمہیں چھوڑنے کے بعد اسے اپنا نا بناؤں۔
تم ثانیہ بی بی اپنائے نہیں ٹھکرائے جانے کے قابل ہو۔زارون نے اسے اس کی اوقات یاد دلائی۔
ہاں ہاں تو دے دو مجھے طلاق مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہارے ساتھ رہنے کا اور تم کیا مجھے طلاق دو گے میں ہی تم سے خلح لے لوں گی۔
اور یہ جو تم اس بھول میں ہو ناں کہ مجھے طلاق دے کے سجل سے شادی کر لو گے یہ تو تم سوچنا بھی مت کیوں کہ تم جیسے گھٹیا انسان جس نے مجھے طلاق دی اس کے ساتھ میرے ماں باپ اپنی دوسری بیٹی کا رشتہ تو بھول کر بھی کرنے سے رہے۔
اور دوسری بات سجل کی شادی روحاب کے ساتھ طے کی جانے والی ہے اور اس بات سے تم شائد بے خبر ہو۔۔۔
ثانیہ نے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ لئے اسے ایسے بتایا جیسے اس کے تمام پلان پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہو۔
بے خبر نہیں بلکہ با خبر کہو کیوں کہ تم سے پہلے یہ بات میں ماما سے جان چکا ہوں کہ تمہارے گھر میں روحاب کا رشتہ سجل کے لئے مانگنے کی کھچڑی کتنے دنوں سے پک رہی ہے۔
مگر ڈیر وائف ایسا کبھی نہیں ہوگا سجل کی شادی مجھ سے ہی ہوگی یہ دیکھ لینا تم۔
اب جبکہ تم سب کچھ جان چکی ہو اور اس گھر میں صرف چند دن کی مہمان ہو تو ایسا کرو یہ پکڑو میرا موبائل اور باقی کی تصویریں بھی آرام سے بیٹھ کر دیکھو۔
زارون نے اسے موبائل تھمایا تو ثانیہ نے غصے سے اسے دیوار کے ساتھ دے مارا۔
زارون کو اس سے اسی قسم کی حرکت کی توقع تھی اس لئے مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔**************************