چلو پھر سے اپنے گاوں چلتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
یہاں روشن روشن چہروں میں وہ بات نہیں یہاں بادل ہیں پر گاوں سی برسات نہیں
یہاں ساون میں بھی میرے جیسے جلتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
اک ہرجائی کا ہرجائی پن لوٹ چکا دل ٹوٹنا تھا سو کب کا ٹوٹ چکا
اب دل کی تنہائی سے ڈرتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
کچھ دیواروں سے باتیں کر کے روتے ہیں کچھ ہم سے ایسے اہل دل بھی ہوتے ہیں
جو رو نہیں سکتے ٹھنڈی آئیں بھرتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں
اک گہرے خوف کی چھایا ہے اور پردیسی کچھ ایسا موسم آیا ہے کہ پردیسی
خود اپنے ہی سائے سے اب تو ڈرتے ہیں ان بڑے بڑے شہروں میں ہم جیسے لوگ
اجنبی سے اجنبی سے لگتے ہیں