پلاٹ کے بارے میں روایتی تصور یہ ہے کہ یہ افسانے کا وہ بنیادی عنصر ہے، جس کے بغیر افسانہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور پلاٹ اچھی اور موزوں کیفیت کا حامل ہو تو مکان انتہائی خوبصورت انداز میں تعمیر کیا جا سکتا ہے جبکہ پلاٹ میں نقص ہو تو مکان میں بھی نقص نظر آئے گا۔ بعینہ اسی طرح افسانے میں اس کا پلاٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔افسانے میں پلاٹ کی اہمیت ناول سے بھی کہیں زیادہ ہے اس لیے پلاٹ کا جاندار ہونا بہت ضروری ہے۔
شمس الرحمن فاروقی اور ان کی افسانوی تنقید کا جب تذکرہ ہوتا ہے تو یہ کہہ کر بات رفع دفع کر دی جاتی ہے کہ وہ تو ایہام اور تجرید کے قائل ہیں۔ ان کو تو وہی افسانے اچھے لگتے ہیں جو ابہام رکھتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ’افسانے کی حمایت میں ‘ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی افسانے میں اس ابہام کے قائل ہیں جس میں ’کیوں ہوا؟‘ کا جواب پوشیدہ ہو اور قاری اپنے طور پر آزاد ہو کہ اپنی ذہنی بساط کے اعتبار سے افسانے کی تفہیم کی تگ و دو کرے۔ انھوں نے اس بات کی کبھی حمایت نہیں کی کہ ’کیا ہوا؟‘ کو ہی ابہام کے پردے میں ڈال دیا جائے اور اسی لیے انھوں نے افسانے کے لیے پلاٹ کی ضرورت پر بھرپور اظہار خیال کیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کی زیر بحث کتاب میں ایک مضمون ’پلاٹ کا قصہ ‘کے نام سے بھی شامل ہے۔ اس میں فاروقی نے پلاٹ کیا ہے ؟یا پلاٹ کیا کام کرتا ہے ؟ کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ موضوع پر گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے انھوں نے ارسطو کے ذریعہ بیان کی گئی پلاٹ کی تعریف کو بنیاد بنایا ہے۔ارسطو کے ذریعے کی گئی پلاٹ کی تعریف سے پلاٹ کا جو تصور سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ واقعات کی وہ ترتیب جو آغاز، وسط اور انجام کے عناصر ثلاثہ پر مشتمل ہو اور واقعات میں علت و معلول کا رشتہ ہو، وہ پلاٹ کہلائے گا۔ اس تعریف سے ’غیر پلاٹ‘ کا مفہوم بھی سامنے آتا ہے کہ جن واقعات میں علت و معلول کا رشتہ نہیں پایا جائے گا وہ پلاٹ کے دائرے سے خارج ہوں گے۔ یاد رہے کہ اب تک پلاٹ سے متعلق جتنے بھی مباحث یا مفروضے قائم کیے گئے ہیں ان کی بنیاد ارسطو کے ذریعہ بیان کیے گئے یہی نکات ہیں جن کا بیان اس نے رزمیہ کے ضمن میں کیا تھا۔
کہانی میں دلچسپی کا عنصر بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کا وجود اسی دلچسپی پر ہی قائم ہے۔ ظاہر سی بات ہے اگر کہانی دلچسپ نہ ہو گی تو اسے پڑھنے کے لیے قاری خود کو مجبور نہیں کرے گا۔اور دلچسپی کہیں نہ کہیں پلاٹ کی علت و معلول والی تھیوری پر عمل کرنے سے ہی پیدا ہوتی ہے۔اگر علت و معلول کا رشتہ واقعات میں نہیں بنتا ہے تو دلچسپی کے فقدان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عہد جدید میں جب افسانے تحریر کیے گئے تو ان کے اندر سے پلاٹ کی گمشدگی کا نظریہ بھی برآمد ہوا۔یہ کوشش یقیناً قابل تعریف تھی، لیکن ہم جانتے ہیں کہ روایتوں پر چلنے کی دھن نے ہمیں پلاٹ لیس (Plotless)کہانیاں یا افسانے تخلیق کرنے سے روک دیا۔ حالانکہ ایک لحاظ سے افسانے کے لیے پلاٹ بہت اچھی چیز نہیں ہے۔ ہماری زندگی کسی سیدھی سادی لکیر یا ایک ہی ڈھرے پر چلنے کی عادی نہیں ہے۔شیرووڈ اینڈرسن( Sherwood Anderson)نے اپنے ایک مضمون Form, Not Plotمیں کہا تھا کہ ’’ہماری بے تکلف روزانہ زندگی میں کوئی ہموار پلاٹ نہیں ہوتا، ایسے میں پلاٹ پر مبنی افسانے صرف مصنوعی ہو سکتے ہیں ‘‘۔[56]اسی طرح بونارو اوورسٹریٹ ( Bonaro W. Overstreet)کہتا ہے کہ انسان کے نفسیاتی عوامل ایک سیدھی لکیر میں ترتیب نہیں دیئے جا سکتے، اس لیے حقیقی افسانے Plotlessہی ہو سکتے ہیں۔ بعض دیگر مغربی نقادوں نے پلاٹ جیسی کسی چیز کے ہونے کا بھی انکار کیا ہے اور کچھ نے اس کی اہمیت پر سوال کھڑے کیے ہیں۔مشہور ناول نگار ارسلا کے۔ لیگوئن (Ursula k. Leguin)کے مطابق پلاٹ ایک مزیدار چیز تو ہے لیکن ’کہانی‘ سے زیادہ نہیں۔اسی طرح امریکی فکشن نگار اسٹیفن کنگ (Stephan King) کا کہنا ہے کہ اصل مال تو کہانی ہے، پلاٹ تو فریبی اور نا معتبر ہے۔ اردو کے افسانہ نگاروں میں مثلاً انتظار حسین بھی پلاٹ کی بہت زیادہ حمایت نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک افسانہ اب چوتھے کھونٹ میں داخل ہو چکا ہے جہاں سسپنس، پلاٹ اور دوسرے بنے بنائے آداب و ضابطے ملیامیٹ ہو چکے ہیں۔ خیر یہ تو بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے کہ پلاٹ کو کہانی سے مسترد کر دیا جائے لیکن آج بھی کہانیاں پلاٹ کے اسی نہج پر بنی جا رہی ہیں۔ ہمیں یہ تکلیف تو ہے کہ افسانے میں دوسری اصناف کے مقابلے کم تجربے ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کا دائرہ محدود ہے وغیرہ وغیرہ مگر ہم ان دائروں کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہے کہ افسانے میں تجربے کی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس میں تجربے کی گنجائش بہت زیادہ ہے تاہم ضرورت یہ ہے کہ روایتی حد بندیوں کے باہر قدم رکھا جائے۔اگر روایتوں سے انحراف کی ہمت نہیں ہے تو پھر خود کو بنے بنائے اصولوں کا عادی بنانا مجبوری ہے۔مغرب میں کئی سطحوں پر خوب تجربے ہوئے ہیں، جن میں پلاٹ بھی شامل ہے۔ اردو میں بھی ایسے کئی کامیاب تجربے ہوئے ہیں۔لیکن پلاٹ سازی کی سطح پر ابھی بھی ہم روایتی ہی رہے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ افسانے میں پلاٹ کی کیا حیثیت ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے پلاٹ سے متعلق جو بحث کی ہے وہ اپنے نوعیت کی ایک الگ بحث ہے کیونکہ انھوں نے پلاٹ پر بات کرنے کے لیے جو بنیادی سوال قائم کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’پلاٹ کیا کرتا ہے ؟‘یہ اس لیے اہم ہے کہ اگر یہ سوال کیا جائے کہ پلاٹ کیا ہے ؟ تو اس کے جوابات کئی طرح سے دیے جانے کا امکان ہے جن کی صحت اور بطلان پر بحث ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ پلاٹ کیا کرتا ہے تو وہ سارے جوابات سامنے آ سکتے ہیں جو اس ضمن میں مطلوب ہو سکتے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی نے اس حوالے سے جو باتیں کی ہیں ان سے پلاٹ کے بارے میں یہ معلومات سامنے آتی ہیں کہ پلاٹ کے لیے علت و معلول کی شرط ہی ضروری نہیں ہے۔ یعنی ایسے بھی پلاٹ ہو سکتے ہیں جن میں علت و معلول کا رشتہ رکھنے والے واقعات نہ ہوں۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگر ایسی اطلاعات بہم پہونچائی جائیں جن سے قیاس آرائی ممکن ہو تو افسانہ قائم ہو سکتا ہے گرچہ علت و معلول کا رشتہ قائم نہ ہو۔ اسی طرح بہت بار ایسا بھی ممکن ہے کہ علت و معلول کا رشتہ تو ہو لیکن افسانہ نہ قائم ہو۔ انھوں نے اس کی مثالیں بھی دی ہیں۔شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ ’اگر یہ سوال ہو کہ ’’پلاٹ کیا کرتا ہے ؟‘‘ تو جواب یہی ملے گا کہ ’’واقعات کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ دلچسپی پیدا ہو۔‘‘[57]
اب تک جو بحث ہوئی اس سے پلاٹ کے تعلق سے کچھ باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے پلاٹ سے متعلق جو باتیں کی ہیں اس میں انھوں نے اپنی مثالیں خود تخلیق کی ہیں اور پلاٹ کی تھیوری کو ان پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اگر کسی افسانے پر اس تھیوری کا انطباق ہوتا تو مسئلے کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوتی۔اس بات سے وارث علوی مرحوم بھی بہت زیادہ رنجیدہ رہے اور انھوں نے فاروقی کی خودساختہ مثالوں پر پلاٹ کی تھیوری کی تطبیق کو نشانۂ طنز بناتے ہوئے کہا کہ ’’وارث ایک کتاب پڑھ رہا تھا، اچانک اس کے پیٹ میں درد اٹھا، اسے خون کی قے ہوئی اور وہ مرگیا۔وارث نے سیب نہیں کھایا تھا۔کتاب کا نام ’افسانے کی حمایت میں ‘تھا۔‘‘[58]حالانکہ وارث علوی اتنا چِڑھنے کے باوجود افسانے کے کسی ایک نمونے پر بھی پلاٹ کو منطبق کیے بغیر یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ ’’یہ بد عادت یعنی من گھڑت افسانوں یا نہایت ہی مختصر نثری پریگراف کے تجزیے پر نظریوں کی تعمیر تمام لسانی نقادوں میں پائی جاتی ہے ‘‘۔[59] در اصل انھوں نے اپنی اس کتاب میں اگر کوئی قابل تفہیم مسئلہ ہے تو اسے آگے بڑھانے اور سمجھنے کے نئے زاویے دینے کی بجائے اپنی لفظی برچھیوں اور دلچسپ جملوں سے فاروقی کو محض زخمی کرنے کا ہی ارادہ سامنے رکھا ہے۔ جس بات پر وہ فاروقی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں موصوف کو بھی اسی پر اصرار ہے، ورنہ آخر وجہ کیا تھی کہ پلاٹ کی گفتگو کو فوراً ہی تجریدیت کے مسئلے سے الجھا کر کنارہ کش ہو گئے۔ حالانکہ پلاٹ کی تفہیم کے تعلق سے ایک مثال تقریباً ہر ادیب پیش کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’راجہ مر گیا اور اس کے بعد رانی بھی وفات پا گئی ‘یہ کہانی ہے۔جبکہ ’راجہ مرگیا اور وفور غم سے رانی بھی فوت ہو گئی‘ یہ پلاٹ ہے۔ یہ مثال مشہور ناقد ای۔ایم فاسٹرE.M. Forster))کی ہے۔ فاروقی نے ای ایم فاسٹر کے حوالے سے کہا کہ وہ پلاٹ پر کردار کو فوقیت دیتا ہے۔ حالانکہ فاسٹر نے محض کہانی اور پلاٹ کے فرق کو واضح کرنے کے لیے یہ مثال خلق کی تھی اور بقول وارث علوی یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ’پلاٹ کہانی سے زیادہ سو فسطائی چیز ہے ‘۔
در اصل بات یہ ہے کہ جب افسانے کی عملی تنقید کا مرحلہ آتا ہے اور ان نظریات کے اطلاق کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو بات کہانی، اسلوب بیان، کردار اور اس کے اندر موجزن معانی کے اخراج تک ہی محدود رہ جاتی ہے۔ یا یہ کہہ کر پلاٹ کے حوالے سے گفتگو کر لی جاتی ہے کہ اس کا پلاٹ بہت گٹھا ہوا، چست یا ڈھیلا ڈھالا ہے، وغیرہ۔ پلاٹ کے تعلق سے بات اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ کیونکہ اس کی عملی تطبیق کی کوئی صورت نکل ہی نہیں سکتی۔ ایک ہی کہانی میں ایک قاری کی فہم اسے کسی وادی میں لے جاتی ہے اور دوسرے قاری کی سوچ اسے کسی اور جزیرے میں۔ دونوں صورتوں میں دونوں کے لیے نقطۂ آغاز، وسط، انجام، عروج، نقطۂ عروج اور اس طرح کے دیگر عناصر کہانی کے الگ الگ حصوں میں ہوتے ہیں۔ خیر!ابھی آیئے دیکھتے ہیں کہ دیگر ناقدین نے پلاٹ کے تعلق سے کیا باتیں کہی ہیں۔مشہور ناقد ناصر عباس نیر نے ایک جگہ لکھا ہے :
’ ’ہیئت پسندوں نے پلاٹ کو Manner of their representation قرار دیا ہے۔‘‘[60]
اسی کتاب میں انھوں نے پلاٹ کے حوالے سے ای ایم فاسٹرکا قول بھی نقل کیا ہے :
"The plot is also a narrative of events, the emphasis falling on causality"
یعنی پلاٹ واقعات کو زمانی تسلسل کے ساتھ ساتھ علت کے رشتے میں پرونے سے عبارت ہے۔‘‘[61]
وقار عظیم نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’افسانہ اور پلاٹ کو نقادوں نے لازم و ملزوم قرار دیا ہے۔ افسانہ حیات انسانی کے مختلف پہلوؤں، ان کے تاثرات، ان تاثرات کی بلندی و پستی، ان کی تبدیلی، حرکت و جمود اور اس طرح کی بہت سی چیزوں کا ایک ادبی اور فنی عکس ہے۔جو واقعہ، تجربہ، خیال یا حِس کو ایک فنی ترتیب دیتا ہے۔‘‘[62]
مجنوں گورکھپوری نے لکھا ہے :
’’کسی افسانے میں چند واقعات ہوتے ہیں جن پر افسانہ کی بنیاد ہوتی ہے۔ انھیں واقعات کی ترتیب کو ماجرا یا پلاٹ کہتے ہیں ‘‘۔[63]
سلیم اختر کہتے ہیں :
’’ نفسیاتی لحاظ سے پلاٹ اس بنا پر اہم ہے کہ واقعات کے تسلسل کی وجہ سے قاری پر کسی واقعہ کا زیادہ گہرا اثر نہیں ہوتا۔‘‘[64]
ان تمام تعریفوں میں واقعات کے ترتیب بیان اور علت و معلول کے رشتے کو زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ یعنی ہم کہانی کس طرح سے بیان کر رہے ہیں وہی نوع بیان اس کا پلاٹ ہو گا۔ پلاٹ بذات خود کچھ نہیں ہے اور کہانی بھی تنہا کچھ نہیں۔ کہانی پلاٹ پا کر اپنی روپ ریکھا تیار کرتی ہے اور پلاٹ کہانی کو اپنے آپ میں ضم کرنے کے بعد اپنی ایک شکل پاتا ہے۔اسی لیے ’کہانی‘ (Story) اور’ پلاٹ‘(Plot) میں تفریق کی بحث بھی قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ارسطو نے سب سے پہلے ’واقعہ‘(Incident)(جو کہانی کی بنیاد ہے ) اور ’پلاٹ‘ کے فرق سے متعلق باتیں کی تھیں اور انہی خیالوں کو بنیاد بنا کر مشہور ناول نگار اور ناقد ای۔ایم فاسٹر نے ۱۹۲۷ء میں شائع ہونے والے اپنے مضمون Aspects of the Novel میں اس کی مزید توضیح پیش کرنے کی کوشش کی، جس کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے۔
فکشن کی تنقید میں پلاٹ سے متعلق جو اجزا یا عناصر بتائے جاتے ہیں ان میں آغاز، وسط اور انجام کے علاوہ اظہار، تصادم، عروج، نقطۂ عروج، الجھاؤ، سلجھاؤ، تحیر زانی اور بصیرت وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ تجسس، تصادم، تہہ داری اور تحلیل وغیرہ کا فارمولا بہت فرسودہ ہو چکا ہے حالانکہ اب تک رد نہیں ہوا ہے۔ کیونکہ ان تمام لفظوں کے مفاہیم پر غور کریں تو کوئی بھی اچھا افسانہ ان تمام چیزوں سے خالی نہیں ہو گا۔اگر کہانی ہے تو اس کی ابتدا ہو گی، اس کی ابتدا ہے تو اس کی انتہا بھی ہو گی۔کیونکہ یہ لازمی مفروضہ ہے کہ ہر چیز کا اپنا ایک دائرہ ہے، ایک حد ہے، جہاں پہنچ کر وہ ختم ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں اس کا وسط ہونا بھی ثابت ہو جاتا ہے۔بقیہ جو بھی چیزیں ہیں وہ افسانے میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ہیں کہ بہر صورت افسانے کو اگر قاری دستیاب نہیں تو پھر اس کے وجود کا کیا مطلب ہے ؟! اسی لیے پلاٹ کی تشکیل میں تخلیق کار کا امتحان یوں ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو کس طرح برتتا ہے۔ یعنی وہ کیا کوئی مبہم سا انجام افسانے کے شروع میں ہی رکھ دیتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ اس کی گرہ کشائی کرتا جاتا ہے یا پھر وہ کہانی کو بالکل سپاٹ انداز میں شروع کرتا ہے اور اسے اس کے فطری بہاؤ میں کلائمکس تک پہنچاتا ہے۔ در اصل واقعات کی ترتیب کی نوعیت ہی پلاٹ کے اقسام بھی متعین کرتی ہے جس کے بارے میں ناقدین نے کہا کہ پلاٹ کی جو قسمیں کی جا سکتی ہیں ان میں سادہ پلاٹ، پیچیدہ پلاٹ، غیر منظم پلاٹ، ضمنی پلاٹ وغیرہ شامل ہیں۔حالانکہ میرے نزدیک پلاٹ کی باقاعدہ کوئی تقسیم ممکن نہیں کیوں کہ پلاٹ کا دائرۂ کار کہانی کا موضوع ہے اور موضوعات کے عین مطابق پلاٹ اپنا رنگ وضع کرتا ہے۔ البتہ کردار، واقعات اور ماحول کہانی کے وہ تین حصے ہیں جن پر پلاٹ منحصر ہوتا ہے۔ انہی کا نقش قدم پلاٹ کا سرمایہ ہوتا ہے اور انہی کے سہارے پلاٹ کی زندگی رواں رہتی ہے۔ افسانے کا بنیادی مواد جسے ہم Story line بھی کہہ سکتے ہیں، بھی پلاٹ کے ذریعہ مختلف افسانوی شکلیں اختیار کر سکتا ہے۔فسادات کے موضوعات پر لکھے گئے افسانے دیکھیے۔ موضوعات ایک ہیں لیکن پلاٹ کی ساخت نے افسانے کو الگ الگ نوعیت کا بنا دیا ہے۔
اصلی بات یہ ہے کہ پلاٹ کہانی کے ارتقا یا اس میں پیش آنے والے واقعات و مسائل کا ارتقا یا ان کی تنظیم و ترتیب سے عبارت ہے۔ یعنی پلاٹ کی ساخت میں کہانی کے عناصر (واقعہ، کردار، ماحول) کو منظم کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ اہمیت بھی رکھتا ہے اور فن پارے کے لیے ضروری بھی ہو جاتا ہے کہ ان کی ترتیب و تشکیل اور تنظیم بہتر ڈھنگ سے ہو۔ اسی لیے ارسطو سے لے کر اب تک لوگ پلاٹ کی ہیئت و ساخت پر گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ایک دوسرے زاویے سے غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ افسانے میں پلاٹ ایک ایسا عنصر ہے جو افسانے سے متعلق کئی مباحث کے در وا کرتا ہے۔ ارسطو نے آغاز، وسط اور انجام کے علاوہ تین وحدتوں (زمان، مکان، عمل) کے وجود کو پلاٹ کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ لہٰذا محض پلاٹ کی سطح پر اگر دیکھیں تو افسانے میں وحدت زمان و مکان اور عمل کی بحث بھی شروع کی جا سکتی ہے۔ افسانے میں وحدت زمان و مکان کی بابت ہم آگے بات کریں گے۔ البتہ ابھی ایک مثال کے ذریعے پلاٹ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ترنم ریاض کے افسانہ ’یہ تنگ زمین‘ کو پلاٹ کی ایک عمدہ مثال کہا جا سکتا ہے۔(ایسا نہیں ہے کہ اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی بلکہ فوری طور ذہن میں یہ افسانہ آ گیا اس لیے اسے درج کیا گیا ہے۔) اس افسانے کا مرکزی کردار ایک لڑکا ہے جس کے گرد کہانی بنی گئی ہے۔ اس بیانیہ کا راوی بھی ایک اہم کردار ہے جو کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ایک کردار کے طور پر بھی افسانے میں اپنا وجود رکھتا ہے۔ افسانہ شروع ہوتا ہے کہ بچہ کھلونوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتا ہے۔ یہ بچہ راوی کا نہیں ہے۔ راوی جو اپنا پہلا بچہ کھو چکی ہے، اسے غم بھلانے کے لیے اپنی بہن کا بچہ نصیب ہو جاتا ہے جسے وہ پہلوٹھی کا بچہ سمجھتی ہے۔ کہانی فلیش بیک میں چلتی ہے۔ کبھی حال سے ماضی کی طرف تو کبھی ماضی سے حال کی طرف آتی ہے۔ کہانی بچے کی عمر کے بہاؤ کے ساتھ بہتی جاتی ہے۔ اس دوران بچے کی دلچسپیوں کا تذکرہ ہوتا ہے کہ اسے فطرت اور قدرتی نظاروں سے جنون کی حد تک محبت ہے۔ اسے تو کمرے میں کھیلنا بھی اپنے آپ کو قید کرنے جیسے لگتا ہے۔ مگر پھر حالات بدلتے ہیں۔ وہ لڑکا اپنی حقیقی ماں کے پاس چلا جاتا ہے کیونکہ ان کا ٹرانسفر کہیں اور ہو جاتا ہے ایسے میں دونوں کو دوریوں کا قلق ہوتا ہے۔ پھر کبھی فون تو کبھی ہفتوں مہینوں میں ملاقات کی صورت نکلتی ہے اور کبھی برس بھی بیت جاتے ہیں۔ ایک بار جب وہ ایک برس بعد آتا ہے تو پھر سے گھر کے ماحول میں زندگی بھر جاتی ہے۔ یہ سب کہانی بیان ہوتے ہوئے قاری پوری طرح اس کی گرفت میں ہے۔ ابھی تک اسے انجام واقعہ کا علم ہونا تو دور کی بات اس کا شعور بھی نہیں ہوتا۔پھر کہانی اپنے نقطۂ عروج پر پہنچتی ہے کہ ایک دن وہ صبح اٹھتی ہے اور گولیوں کی آواز سن کر جب آوازوں کی طرف جاتی ہے تو وہاں کا منظر دیکھ اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں۔وہ لڑکا لکڑی کا ایک ٹکڑا لیے اسے بندوق کی طرح تانے ہوئے منہ سے آواز نکال رہا تھا۔ راوی سوچتی ہے کہ شاید اس کے پاس کھلونے نہیں ہیں اور جب سے وہ آیا ہے اس نے اس کے لیے کوئی کھلونا بھی نہیں خرید ا۔راوی کا یہ خیال فطری ہے کیونکہ بچپن میں کھیلنے کے لیے ایسی بہت سی چیزیں بچے اسی وقت اٹھاتے ہیں جب ان کے پاس کوئی دوسرا وسیلہ نہیں ہوتا ہے۔ شام کو ہی وہ بہت سارے کھلونے لاتی ہے اور اس کے سونے کے بعد اس کے بستر کے چاروں طرف رکھ دیتی ہے کہ انھیں دیکھ کر وہ صبح خوشی سے اچھل پڑے گا۔ کہانی کا انجام کیا ہو گا؟ اس بارے میں ابھی قاری اٹکلیں ہی لگا رہا ہوتا ہے کہ راوی کہتی ہے ’’وہ سارے کھلونے ایک ڈھیر کی شکل میں رکھے ہوئے ہیں۔۔۔اب یہی اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔وہ میٹھی بولیاں، وہ رقص، وہ موسیقی۔۔۔وہ بھول گیا تھا اور یہ سب یاد دلانے کے لیے میں اسے کہیں نہیں لے جا سکتی تھی۔‘‘[65]
کہانی میں واقعات کی ترتیب جس منضبط ڈھنگ سے ہوئی ہے، وہ افسانے کے واحد تاثر کو قاری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہونے دیتی۔بچہ کھلونوں میں دلچسپی نہیں لے رہا، اس ایک واقعے کے گرد کہانی بنی گئی اور آخر میں آ کر کہانی ایک ایسی جگہ ختم ہوئی جہاں سے نئی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔ افسانہ نگار نے قاری کو تمام طرح سے آزاد رکھا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اس سے مفاہیم برآمد کر سکتا ہے۔لیکن افسانہ نگار نے جو نتیجہ نکالا ہے اس سے قاری کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ’ہاں، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا‘ حالانکہ قاری کے ذہن میں افسانہ نگار کے یہ کہنے سے قبل کہ ’یہ سب یاد دلانے کے لیے میں اسے کہیں نہیں لے جا سکتی تھی‘ کچھ دوسرے قیاسات رہے ہوں گے۔ لیکن جب افسانہ نگار یہ جملہ لکھتی ہیں تو قاری اس کی تائید میں تالیاں ٹھوکنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔سکندر احمد نے ایک بڑے پلاٹ کی خوبی بھی یہی بتائی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے :
’’پلاٹ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اختتام پر قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’ایسا ہی ہونا چاہیے تھا‘‘ مگر اختتام کے پہلے اس کے ذہن میں دور دور تک یہ نہیں آتا کہ ’ایسا ہو گا‘۔ ایک کامیاب افسانے کی پہچان ہے کہ قاری کو لگے کہ گویا یہ ہی بات ہمارے بھی دل میں تھی، مگر اس طرح نہ تھی۔‘‘[66]
پلاٹ سے متعلق بات کرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ افسانے میں ذیلی پلاٹ بھی ہوتے ہیں جو مرکزی پلاٹ سے الگ ایک دنیا رکھتے ہیں جو افسانہ نگار یا کردار کی ’داخلی‘ دنیا کو پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک افسانے میں ایک سے زیادہ پلاٹ لائن بھی ہو سکتی ہیں۔حالانکہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ہر افسانہ واقعات کے سلسلے سے تشکیل پاتا ہے اور اس ترتیب میں ایسی کئی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔سکندر احمد نے اپنے مضمون ’افسانے کے قواعد‘ میں شفیع جاوید کے افسانے ’وہ میں ‘اور قرۃ العین حیدر کے ’سیتا ہرن‘ کو ذیلی پلاٹ کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ افسانے کا کینوس کہیں نہ کہیں محدود ہوتا ہے۔ اور اسی لیے عمومی طور پر افسانے کا پلاٹ صرف ایک واقعہ اور اس کے چند کرداروں پر مشتمل ہوتا ہے اور خصوصی طور پر ایک سنگل ایفکٹ اور اس کے سنگل موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔اسی لیے عموماً افسانے میں ایک ہی پلاٹ لائن کام کرتی ہے۔ جبکہ افسانے میں متعدد پلاٹ لائن بھی ہو سکتی ہیں۔ سکندر احمد نے شوکت حیات کے افسانے ’’گنبد کے کبوتر‘‘ کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ظاہری پلاٹ تو ایک اپارٹمنٹ کے باشندوں پر مبنی ایک کہانی ہے مگر مخفی پلاٹ میں فرقہ وارانہ ذہنیت پر مبنی ایک دوسری کہانی بھی ہے۔ جبکہ اگر ہم کسی بھی افسانے کے متن کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو اس طرح کے کئی نتائج سامنے آ سکتے ہیں جن سے یہ ثابت ہو کہ اس افسانے میں یہ بھی ایک پلاٹ لائن ہے۔در اصل افسانہ ایک تخلیقی فن پارہ ہے اور اس کے متن میں معانی کا جہان آباد ہوتا ہے۔ فن کار کے فکر و شعور کی کئی کئی وادیاں افسانوی متن کی زیریں لہروں میں آباد ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں پلاٹ کی کئی سطحیں افسانوی متن میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ یہ تخلیق کار کی صلاحیتوں پر ہے کہ وہ افسانوی پلاٹ کی تعمیر کس طرح کرتا ہے یا اسے کس طرح سے بیانیہ کے سپرد کرتا ہے۔
٭٭٭