ضمیمہ
افسانے کی تنقید کے سلسلے میں جب شمس الرحمن فاروقی کا نام لیا جاتا ہے تو انھیں افسانے کی حیثیت متعین کرنے یا اس کی درجہ بندی کرنے کے جرم میں یکسر مسترد کر دیا جاتا ہے۔بعض لوگ افسانے کی تنقید کو ان کی دین کے اس لیے قائل نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اس ضمن میں زیادہ مضامین نہیں تحریر کیے ہیں، حالانکہ کسی بھی ادبی معاملے میں مقدار سے زیادہ معیار کا بہتر ہونا زیادہ ضروری امر ٹھہرتا ہے۔ الم غلم تحریروں کی اشاعت اپنے وقت اور قوت کی بربادی کے ساتھ قاری کا وقت برباد کرنے کے بھی مترادف ہے۔
در اصل تعصب یا ادبی سیاست ہر عہد کے ساتھ وابستہ رہی ہے۔ اس پس منظر میں اکثر کئی بہتر تحریریں پوشیدہ تہہ خانوں کا حصہ بن جاتی ہیں اور بہت سی بے کار اور غیر مفید قسم کی باتیں ادبی منظر نامے پر رواج پا جاتی ہیں جن سے نقصان کے سوا فائدے کی امید نہیں ہوتی۔ اردو ادب کو میں اس لحاظ سے بد قسمت مانتا ہوں کہ ناقدین نے شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی کاوشوں کو سمجھنے میں بہت حد تک جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔خصوصاً ً فکشن تنقید کے حوالے سے تو انھیں خاطر میں لانے تک کی جگہ لوگوں کے یہاں نہیں ہے۔ حالانکہ یہ سمجھنا بعید نہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟خیر، جانبداری تو انسان کی سرشت میں داخل ہے، اس لیے اس کا شکوہ بھی بے جا ہے۔یقیناً شمس الرحمن فاروقی نے افسانے کی تنقید کے باب میں بہت کم لکھا ہے لیکن انھوں نے عملی تنقید کا جو نمونہ پیش کیا ہے، وہ اردو میں بہت کم دیکھنے کو ملے گا۔انھوں نے اس روایت سے انحراف کرنے کی کوشش کی جس نے ہماری افسانوی تنقید کو سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی سرحدوں سے آگے نہیں بڑھنے دیا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے افسانہ نگاروں کے افسانوں کے مطالعے صرف انھیں زاویوں سے ہوتے رہے ہیں۔ یہ پوچھنے یا یہ سمجھنے کی قطعی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ جسے ہم افسانوی ادب یا افسانہ کہتے ہیں یا ہم جس فن پارے کو موضوعاتی سطح پر پرکھ کر دنیا جہان کے معانی برآمد کر رہے ہیں وہ بطور فن پارہ کتنا کامیاب ہے۔ اس میں آرٹ کتنا ہے یا آرٹ کے نام پر کتنی دھاندلی ہے۔لاریب کہ اگر ہم افسانوں کو پرکھنے کا دائرہ صرف موضوعاتی سطح تک محدود کر دیں تو ہم ہر ایرے غیرے افسانے سے معانی کا ایک سیلاب برآمد کر سکتے ہیں۔ مکالمے اور کردار پر ہونے والی سطحی گفتگو بھی کر سکتے ہیں اور اسے ’عظیم‘ اور ’شاہکار‘ ہونے کا درجہ بھی دے سکتے ہیں۔ البتہ ہم اسے ایک تخلیقی فن پارے کے طور پر پرکھیں تو ہمیں اس کے اندر وہ خوبیاں یا خامیاں نظر آئیں گی، جو موضوعاتی سطح پر بات کرنے سے حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ اس کا بہترین نمونہ شمس الرحمن فاروقی نے پیش کیا ہے۔فاروقی نے افسانے کے نظری مباحث کو موضوع بحث بنایا اور اس حوالے سے تقریباً منہ پر تالے لگائے ناقدین کے ایوان میں زلزلہ پیدا کر دیا۔اطلاقی تنقید کی اور افسانہ اور افسانہ نگاروں کے تعلق سے اختیار کیے گئے عام رویوں سے انحراف کرتے ہوئے ان پر سنجیدہ گفتگو کرنے کی کوشش کی۔فاروقی کی فکشن تنقید کے حوالے سے ’افسانے کی حمایت میں ‘ نامی جو کتاب میرے زیر نظر ہے اس میں درجن بھر مضامین ایسے ہیں جن میں انھوں نے اطلاقی یا عملی تنقید کا نمونہ پیش کیا ہے۔اس میں بیشتر نئے افسانہ نگاروں پر کی گئی تنقید ہے جبکہ پریم چند، سجاد حیدر یلدرم اور بلونت سنگھ وغیرہ کے افسانوں پر بھی انھوں نے طویل مضامین قلمبند کیے ہیں۔ ذیل میں ان تمام مضامین کی روشنی میں افسانے کی تنقید سے متعلق فاروقی کی عملی تنقید پر بحث ہو گی۔
’’پریم چند کی تکنیک کا ایک پہلو (بعض افسانوں کی روشنی میں )‘‘ مضمون شمس الرحمن فاروقی نے ۱۹۸۰ء میں تحریر کیا ہے۔ تقریباً ۲۰ صفحات پر مشتمل (باعتبار پہلا ایڈیشن) اس مضمون میں انھوں نے پریم چند کے چار افسانوں ’منتر‘، ’شطرنج کے کھلاڑی‘، ’راہ نجات‘، ’مہاتیرتھ‘ اور ’فلسفی کی محبت‘ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے جن چند پہلوؤں پر بات کی ہے ان میں اسلوب کیا ہے ؟ اسے موضوع سے الگ کر کے دیکھا جا سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو موضوع اہم ہے یا اسلوب؟ اسلوب کی اساس کس چیز پر ہے ؟ موضوع پر، مصنف پر، عہد مصنف پر یا زبان پر؟وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں یہ بحث بھی کی گئی ہے کہ افسانوی متن پر افسانہ نگار کا کتنا کنٹرول یا ہولڈ ہوتا ہے ؟ انھوں نے یہ بحث بھی کرنے کی سعی کی ہے کہ افسانہ نگار اپنے کردار سے کتنے فاصلے پر ہوتا ہے ؟کرداروں کی حقیقی عکاسی کس طرح ہو؟ وغیرہ۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کی بنیاد پر انھوں نے پریم چند کے افسانوں کی عمارت کا جائزہ لیا ہے۔ یقیناً یہ وہ مباحث اور سوالات ہیں جنھیں پڑھنے کے بعد اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ افسانوی تنقید کے وقت یا افسانوں کی تفہیم کے وقت اس طرح کے سوالات سے ہمارے بیشتر ناقدین کو اکثر کوئی سروکار نہیں رہا ہے۔ پریم چند کے افسانوں کے حوالے سے بہت سے کام ہوئے ہیں اور بہت سارے لوگوں نے ان کے افسانوں پر بحث کی ہے لیکن معاملہ پریم چند کے افسانوں میں گاؤں، پریم چند کے افسانوں میں دلت، پریم چند کے افسانوں کی عورت، پریم چند کے افسانوں میں کسان وغیرہ جیسے مسائل پر ہی سمٹ کر رہ گیا ہے۔ بطور فن پارہ ان کے افسانوں کی پرکھ کی کوشش کم ہی کی گئی ہے۔
افسانے کے نظری مباحث پر گفتگو کرنے کے بعد فاروقی نے انھی مباحث کے تناظر میں افسانوں کا مطالعہ کیا ہے۔اس حوالے سے انھوں نے پریم چند کے افسانوں کی بعض خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ در اصل تنقید ذاتی بصیرت اور فہم کا مطالبہ کرتی ہے۔ ایک فن پارے کو فنی سطح پر جانچنے کے لیے اپنے ذہن کو بھی تھکانا ہوتا ہے۔ تن آسانی اکثر غلط نتائج سامنے لاتی ہے۔ فاروقی کی فہم نے پریم چند کے ان افسانوں سے جو نکات برآمد کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔ پریم چند کے افسانے میں جو خامیاں ہیں ان میں پہلی یہ ہے کہ افسانہ پریم چند کے نقطۂ نظر کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ افسانہ ’فلسفی کی محبت‘ اس کی مثال ہے، جس کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے :
’’لالہ گوپی ناتھ کی طبیعت دور شباب ہی سے فلسفے کی جانب مائل تھی۔ ابھی وہ انٹرمیڈیٹ کلاس ہی میں تھے کہ مل اور برکلے ان کے نوک زباں ہو گئے تھے وہ ہر قسم کی دلچسپیوں اور تفریحوں سے الگ رہتے یہاں تک کہ کالج کے کریکٹ میچوں میں بھی ان کا جوش تماشا بیدار نہ ہوتا۔ زندہ دلی، رنگین طبع بذلہ سنج احباب کی صحبت سے کوسوں بھاگتے اور ان سے حسن و محبت کا ذکر کرنا تو گویا شیطان کو لاحول سنانا تھا۔‘‘
اس پیراگراف کی قرأت کے بعد ایک حساس قاری اس بات سے آشنا ہو جاتا ہے کہ پریم چند افسانے کے پہلے ہی اقتباس میں لالہ گوپی ناتھ کی تحقیر کر رہے ہیں اور قاری کو شعوری یا غیر شعوری طور پر وہی رائے قائم کرنے کی طرف بلا رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے بہترین افسانوں میں شمار ہونے والے افسانے ’راہ نجات‘ کا معاملہ بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’سپاہی کو اپنی لال پگڑی پر، عورت کو اپنے گہنوں پر اور وید کو اپنے سامنے بیٹھے مریضوں پر جو ناز ہوتا ہے وہی کسان کو اپنے لہلہاتے ہوئے کھیت کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ جھینگر اپنے ایکھ کے کھیتوں کو دیکھتا ہے تو اس پر نشہ سا چھا جاتا ہے۔‘‘
یہ اس افسانے کا آغاز ہے جس میں بعد میں بدھو گڈریے اور جھینگر کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے۔جس کی ابتدا گڈریے سے ہوتی ہے لیکن زیادتی جھینگر کی طرف سے ہوتی ہے۔ ایسے میں اس افتتاحی اقتباس کو دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پریم چند شروع میں ہی جھینگر کی طرف سے اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس کا کردار قائم کرنے کے لیے ایسی مثالیں نہ لاتے۔ سپاہی کی لال پگڑی ظلم و استحصال اور سامراج کی مثال، عورت کا زیور سے لگاؤ نام و نمود اور ظاہری دولت کی چاہ پر دال ہے اور مریضوں کو دیکھ کر وہی وید ناز یا غرور دکھائے گا جو انسانیت سے دور خود غرضی اور ہوس کا پجاری ہو۔ظاہر ہے ایسے لوگوں سے جھینگر کی مثال دینا اس رویہ کو واضح کر دیتا ہے کہ جھینگر بہت مغرور قسم کا انسان ہے جسے میں (پریم چند) نہیں پسند کرتا ہوں۔
’منتر‘افسانے پر جو تنقید فاروقی نے کی ہے وہ اپنی طرح کی واحد مثال ہے۔ پریم چند کے کرداروں کا یہ پہلو یقیناً قابل دید ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو غیر جانبدار طور پر آگے نہیں بڑھنے دیتے۔فاروقی نے لکھا ہے کہ ’’منتر نامی افسانے کے اقتباس سے ظاہر ہوا ہو گا کہ وہ کردار کی تصویر کشی کو غیر جانبداری کے التباس پر ترجیح دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔‘‘اب وہ اقتباس دیکھیے جس کا تذکرہ فاروقی نے کیا ہے :
’’ڈاکٹر چڈھا گولف کھیلنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ موٹر دروازے پر کھڑی تھی۔ بوڑھے نے دھیرے دھیرے آ کر دروازے پر پڑی ہوئی چک میں سے جھانکا۔ ایسی صاف ستھری زمین پر پانْو رکھتے ہوئے اسے خدشہ لاحق ہو رہا تھا کہ کوئی جھڑک نہ دے۔‘‘
ان تین جملوں پر مشتمل عبارت میں دو کرداروں کی شخصیت قائم ہو رہی ہے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ اتنی سی عبارت میں کرداروں کا تعارف اتنے پر زور انداز میں کرا دیا جائے۔ پریم چند کا کمال ہے کہ انھوں نے اس طرح کا بیانیہ خلق کیا۔ لیکن ذرا اسے دوبارہ پڑھیے اور غور کیجئے، پریم چند کے افسانوں کا پس منظر دیکھیے اور پھر بوڑھے کا کردار دیکھیے، جسے صاف شفاف زمین پر قدم رکھنے میں جھڑک دیے جانے کا خوف ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر پریم چند اپنی ہمدردیاں بوڑھے کے ساتھ وابستہ کر رہے ہیں۔ یہاں ان کا نقطۂ نظر افسانے کوراستہ دکھا رہا ہے۔ وہ کرداروں کو اپنی خواہش کے اعتبار سے بڑھاوا دے رہے ہیں۔ اپنی رائے دینے کے چکر میں وہ یہ بھی کہتے ہیں :
’’دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی تفریح کے لیے دوسروں کی زندگی کی بھی پروا نہیں کرتے ! شاید اس پر اب بھی اسے وشواس نہ ہوتا تھا۔ مہذب دنیا اس قدر بے حس اور سنگ دل ہے، اس کا ایسا تعجب انگیز احساس اسے اب تک نہ ہوا تھا‘‘۔
اس اقتباس کی ضرورت افسانے میں نہیں ہے کیونکہ بوڑھا کوئی بچہ تو ہے نہیں جسے مہذب دنیا کا پتہ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ خود پریم چند آگے کہتے ہی ہیں کہ وہ چاروں طرف سے گھوم کے ڈاکٹر چڈھا کے پاس آیا تھا یعنی اس کی اس مہذب دنیا کے حکیموں اور ڈاکٹروں سے پہلے ہی ملاقات ہو چکی تھی۔ پھر ان با توں کی ضرورت نہیں رہتی لیکن پریم چند کو قاری کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ تم میرے ہی نقطۂ نظر سے سوچو۔ دیکھو تم ڈاکٹر چڈھا کی حمایت میں نہ اتر جانا!یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد شمس الرحمن فاروقی کا یہ نتیجہ نکالنا بالکل درست ہے :
’’’منتر‘ اس وجہ سے ایک ناکام افسانہ ہے کہ کردار کی بے مثال تصویر کشی کے باوجود وہ اپنے اسلوب میں غیر جانب دارانہ رنگ قائم نہ رکھ سکے اور سانپ کا زہر جھاڑنے والے بوڑھے اور ڈاکٹر چڈھا دونوں کرداروں میں غیر معمولی چابک دستی کے باوجود آخری تجزیے میں یہ دونوں کردار محض پریم چند کی کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے۔‘‘[1]
در اصل کسی بھی فن کار کے لیے یہمناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے کردار کی مکمل تصویر افسانے کے ابتدائی لمحوں میں ہی واضح کر دے۔ اس میں تہہ داری ہونی ضروری ہے۔ یقیناً فن کار کی اپنی ذاتی پسند و ناپسند ہوتی ہے تاہم وہ قاری کے سامنے یا اپنے فن پارے میں اگر اسے فوری طور پر ظاہر نہ ہونے دے تو فن ہمہ جہتی پہلو کا حق دار ٹھہرتا ہے اور قاری اس کی تفہیم کے لیے آزاد ہوتا ہے۔ برعکس اس کے اگر فن کار اپنی پسند واضح کر دے، اپنا نقطۂ نظر بیان کر دے تو پھر فن پارے کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے یا پھر قاری اسی دائرے میں قید ہو کر سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ بہر حال قاری کو افسانہ نگار پر بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ اسے جھوٹی باتیں نہیں بتا رہا ہے۔اسی بات کو فاروقی نے لکھا ہے :
’’افسانے کی شرط ہی یہ ہے کہ افسانہ نگار اور قاری کے درمیان ایک غیر تحریری لیکن ناقابل شکست معاہدہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار جو کہے یا بتائے، قاری اس پر اعتماد کرے گا۔‘‘[2]
فاروقی نے پریم چند کے مکالموں کو بھی موضوع بحث بنایا ہے اور اس بات کو سراہا ہے کہ پریم چند نے بہت اچھے مکالمے تحریر کیے ہیں۔ افسانوں میں مکالمے کے تعلق سے ایک عام مفروضہ ہے کہ ’’مکالمے میں وہی زبان لکھنی چاہیے جو در اصل کردار خود استعمال کرتا ہو، یا جو اس کردار کے مزاج اور ذہن سے مطابقت رکھتی ہو۔‘‘یہ بات پریم چند نے بہت حد تک اپنے افسانوں میں ملحوظ رکھی ہے۔لیکن اردو زبان جس طرح تحریر کی جاتی ہے اس میں اودھی، بھوجپوری یا برج جیسی بولیوں کی آوازوں کو ظاہر کرنا نا ممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہے۔ ہمارے کرداروں میں کوئی کھڑی بولی بولے گا تو کوئی اودھی یا بھوجپوری۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ ان بولیوں کو لکھ دیا جائے اور اس کا اصل تلفظ بریکیٹ میں درج کر دیا جائے۔یہ صورت تلفظ کی ادائیگی سے اس کے مفہوم تک رسائی میں کئی مشکلیں پیدا کرے گی۔حالانکہ ہمارے یہاں قاضی عبدالستار کے کرداروں کی مثال بھی موجود ہے جو علاقائی بولیوں میں مکالمے ادا کرتے ہیں۔ فاروقی نے لکھا ہے کہ ’’بہر حال حتی المقدور الفاظ کی اصل شکل بریکٹ میں لکھ کر، یا کردار کے ذہن و مزاج میں ممکن حد تک مطابقت پیدا ہو جائے، ورنہ عام طور پر قاری کو یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ وہ اصل مکالمہ نہیں بلکہ اس کا اردو ترجمہ پڑھ رہا ہے۔‘‘[3] یعنی ترجمہ پڑھنے کا احساس بھی ہمارے افسانہ نگاروں کے اسلوب کی شان ٹھہرتا ہے۔اس حوالے سے پریم چند کے افسانے ’شطرنج کے کھلاڑی‘ اور ’راہ نجات ‘ کے مکالموں کو دیکھیں تو احساس ہو گا کہ دونوں کی زبان بالکل مختلف اور اصلی معلوم ہوتی ہے جن کے بارے میں فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’ان مکالموں کی قوت ان کے نام نہاد اصلی پن میں نہیں، بلکہ اس بات میں ہے کہ وہ ترجمہ(یعنی ذہنی ترجمہ)ہوتے ہوئے بھی پوری طرح زندہ اور لفظ بہ لفظ متحرک ہیں۔‘‘[4]آیئے مکالمے پڑھتے ہیں :
بدھو نے کہا: میں جو تمہاری جگہ ہوتا تو بنا اس کا گھر جلائے نہ مانتا۔
جھینگر نے سنجیدگی سے جواب دیا:چار دن کی زندگانی میں دشمنی اور عناد سے فائدہ ہی کیا؟ میں تو برباد ہوا ہی، اسے برباد کر کے کیا ہو گا؟
بدھو نے کہا: بس یہی تو آدمی کا دھرم ہے۔ لیکن بھائی غصے کے قابو میں آ کر عقل الٹی ہو جاتی ہے۔
یہ مکالمہ ’راہ نجات ‘ کا ہے جس کے بولنے والے جاہل ہیں۔ اب آئیے ’شطرنج کے کھلاڑی‘ کا ایک مکالمہ دیکھیے :
مرزا: آپ کی چال ہو چکی ہے۔ خیریت اسی میں ہے کہ مہرہ اسی گھر میں رکھ دیجیے۔
میر: اس گھر میں کیوں رکھوں ؟ میں نے مہرے کو ہاتھ سے چھوڑا کب تھا؟
مرزا: آپ قیامت تک مہرے کو نہ چھوڑیں گے تو کیا چال ہی نہ ہو گی؟فرزیں پٹتے دیکھا تو دھاندلی کرنے لگے۔
میر: دھاندلی آپ کرتے ہیں۔ ہار جیت تقدیر سے ہوتی ہے۔ دھاندلی کرنے سے کوئی نہیں جیتتا۔
مرزا: یہ بازی آپ کی مات ہو گئی۔
پہلے مکالمے کی بنیاد خیال پر ہے جبکہ دوسرا مکالمہ زبان پر قائم ہے۔ پریم چند کے بیشتر افسانوں کے مکالمے اس تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
ایک آخری بات یہ کہ فن پارہ تخلیق پانے کے بعد ایک مکمل اکائی کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اس کا جائزہ اسی دائرے میں رہ کر لیا جانا مستحسن عمل ہے۔ اسی لیے اگر افسانے میں مصنف یا افسانہ نگار کا نقطۂ نظر یا اس کی پسند نا پسند سامنے آتی ہے تو اس کی دو صورتیں ہوں گی۔ پہلی صورت یہ کہ افسانہ مصنف کے نقطۂ نظر کے اعتبار سے آگے بڑھے گا جیسے کہ ’منتر' اور ’فلسفی کی محبت' میں ہوا۔ دوسری صورت یہ ہو گی کہ نقطۂ نظر افسانے کے فطری بہاؤ میں حارج ہو گا۔اس کی مثال پریم چند کا مشہور افسانہ ’کفن' ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے :
’’ میں ’’کفن‘‘ کو بے تکلف دنیا کے افسانوں کے سامنے رکھ سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں وہ پیراگراف نہ ہو جو یوں شروع ہوتا ہے۔
جس سماج میں دن رات کام کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے۔ وہاں اس قسم کی ذہنیت پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔‘‘[5]
یہ بات پریم چند کے افسانے پر بات کرنے والے کسی شخص نے نہیں کی ہے۔ ایسا نہیں کہ فاروقی کے اس اقتباس یا اس زاویے نظر کو اسی وجہ سے قبول کیا جانا چاہیے کہ یہ بات اب تک سامنے نہیں آئی تھی، یہ تو اپنی اپنی بصیرت پر منحصر ہے کہ ہم تنقید میں کون سا زاویۂ نظر اختیار کرتے ہیں۔ فاروقی کی یہ بات اس وجہ سے قبول کی جانی چاہیے کہ انھوں نے ایک حقیقی نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے جو یقیناً اس افسانے کی کمزوری ہے۔ خود دیکھیے کہ اوپر کا اقتباس ژولیدگی سے عبارت ہے جبکہ بقیہ پورا افسانہ سادہ اسلوب، چھوٹے چھوٹے جملوں اور بآسانی قابل ادا لفظوں پر مبنی ہے۔ ایسے میں اس افسانے میں اس اقتباس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
در اصل یہ مضمون افسانے کی تنقید کے وقت شمس الرحمن فاروقی کے معروضی طریقۂ کار کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنی بات متن افسانہ پر مرکوز رکھتے ہیں۔ وہ ان نظری مباحث کے سہارے افسانوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی بھی تخلیق کے اچھا افسانہ ہونے کی شرط ہیں۔اس مضمون میں انھوں نے جو نکات اٹھائے ہیں مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس پر اور کسی ناقد کی نگاہ گئی ہے حالانکہ یہ نکات پڑھ کر فاروقی کے صحت پر ہونے پر شک بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا یہ مضمون افسانہ تنقید پر ان کی گہری بصیرت کا غماز ہے۔ان کا یہ مضمون روایتی توصیفی جملوں سے پاک ہے۔ افسانوں کا خلاصہ پیش کرنے والی تنقید کا شائبہ تک اس مضمون میں نہیں ملتا اور یہ تنقید کی زبان اور تنقیدی رویے نیز صحت مند تنقید کی دلیل ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون پڑھ کر کوئی اس طرح کا سوال کھڑا کر سکتا ہے کہ کیا فاروقی کی افسانہ تنقید اعتبار حاصل کر سکی ہے یا نہیں ؟
انور سجاد کا شمار جدید عہد کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے جدید لکھنے والوں میں انور سجاد کو موضوع بحث بنا کر ایک طویل مضمون 'انور سجاد انہدام یا تعمیر نو' کے عنوان سے تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے ان کے مجموعے ’’استعارے ‘‘ کے افسانوں پر چند زاویوں سے بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ جدید افسانوں پر تنقید کرتے وقت شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں جدید افسانوں کے جواز کی دلیلیں بھی دینی ہوتی ہیں۔اس کا احساس ان کے اکثر مضامین میں ہوتا ہے۔ اسی لیے جب وہ اطلاقی تنقید کا عمل انجام دیتے ہیں تو تمہید کے طور پر جو باتیں کہتے ہیں وہ بہت طویل ہو جاتی ہیں اور جن افسانوں یا افسانہ نگاروں پر وہ بحث کرنا چاہتے ہیں وہ بہت دیر تک عالم وجود میں آتے ہی نہیں ہیں۔ نظری مباحث کے ساتھ فاروقی کا سروکار کچھ زیادہ رہا ہے اور اس کا اثر عملی تنقید پر مشتمل ان کے تمام مضامین میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انور سجاد پر مضمون لکھتے ہوئے فاروقی نے کہا کہ ’’فن کا المیہ یہ ہے کہ اسے فن سمجھنے پر اصرار کیا جائے لیکن اس کی جتنی تحسین ہو وہ فن کے حوالے سے نہ ہو۔ جدید افسانہ اسی کش مکش سے عبارت ہے کہ وہ اپنی تحسین فن کے حوالے سے چاہتا ہے۔لیکن نقاد اسے غیر فن کی داد دینے پر مصر ہیں۔‘‘[6]یہ بات فاروقی نے اس اقتباس کے بعد کہی ہے جس سے ان کے نظریے کے خمیر تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔فاروقی نے لکھا ہے :
’’ در حقیقت منٹو تک کے زمانے کا اردو افسانہ اس لحاظ سے بد نصیب ہے کہ وہ ذرا سی ذہنی کوشش کے ذریعہ (بلکہ اکثر اس کے بغیر ہی) سماجی تاریخ یا اگر سماجی تاریخی نہیں تو اس کے ایک ادبی Versionکے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔‘‘[7]
اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد جب اس سے پہلے والا مکالمہ پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی جدید افسانے کے لیے جواز کی صورتیں کس طرح پیش کرتے ہیں۔ در اصل جدید افسانے پر اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں کہ جدید افسانہ علامت و تجرید کی بھول بھلیوں میں اس طرح بھٹکا ہے کہ اس کی ترسیل قاری تک نہیں ہو پاتی ہے۔ اس پر یہ بات واقعی اہم ہو جاتی ہے کہ اس کی اہمیت بطور فن تسلیم کی جائے۔ اس کا مطالعہ صرف سماجی، سیاسی یا تاریخی مطالعے کے طور پر نہ کیا جائے۔کیونکہ یہ خوبی ترقی پسند افسانوں کی تھی جس نے اسے بقول فاروقی ’’اکثر فنی اعتبار سے ساقط کر دیا یا اگر تمام تر ساقط نہیں کیا تو ایسے نقادوں کو، جو فن سے زیادہ نقل میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس کی تحسین اس انداز سے کریں کہ وہ خود بہ خود فنی اعتبار سے ساقط ٹھہرے۔‘‘[8]اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ جدید افسانہ پچھلے افسانے سے اس لیے الگ ہے کہ اس کی تعبیریں سماجی تاریخ، یا سماج کے محدود مفہوم میں فرد اور سماجی جبر کی کش مکش، یا شاعرانہ انداز بیان اور نثر میں شعریت کی بنیادوں پر نہیں ہو سکتیں۔‘‘[9]
شمس الرحمن فاروقی کا کوئی بھی مضمون پڑھیے ان کی علمی بصیرت اور ان کی استدلالی قوت نظر کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ انور سجاد پر فاروقی کے علاوہ جو تنقیدیں کی گئیں اس میں وہ صورتیں نمایاں نہیں کی گئیں ہیں جن کے بارے میں فاروقی نے بات کی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون میں ان روایتی تنقیدوں کی بات کی ہے جو انور سجاد کے افسانوں سے متعلق کی گئی ہیں۔ جس میں ان کے افسانوں کے ابہام، روایتی کرداروں اور پلاٹ سے انحراف، ان کے افسانوں کے کرافٹ اور ان کے افسانوں کی نثر کی نظم سے قربت وغیرہ کا تذکرہ ہے۔انھوں نے اپنے اس مضمون میں انور سجاد کے افسانوں کی کچھ خوبیاں اور کچھ کمیوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔موضوعاتی یا فنی سطح پر انور سجاد کے افسانوں کی مکمل حیثیت پر بات کرتے ہوئے فاروقی رقمطراز ہیں :
’’ایک عرصہ ہوا میں نے انور سجاد کو جدید افسانے کا معمار اعظم اسی لیے کہا تھا کہ ان کے افسانے سماجی تاریخ کے طور پر پڑھے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انور سجاد کے افسانوں میں وہ انسان نہیں ملتا جو سماج میں پلتا پڑھتا ہے اور جو سماج سے مفاہمت کے بجائے مزاحمت کرتا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں نہ وہ انسان ملتا ہے جو Document بن سکے اور نہ وہ انسان ملتا ہے جو Allegoryبن سکے اور نہ وہ انسان ملتا ہے جو محض نشان کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ انور سجاد کے افسانے سماجی تاریخ نہیں بنتے، بلکہ اس سے عظیم تر حقیقت اس لیے بنتے ہیں کہ ان کے یہاں انسان یعنی کردار، علامت بن جاتا ہے۔‘‘[10]
انور سجاد کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے فاروقی نے ان کے کرداروں کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ انور سجاد کے بیشتر کردار بے نام ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے ان کے افسانوی مجموعے ’’استعارے ‘‘ کے افسانے ’سازشی۔۱‘ کا تذکرہ کیا ہے جس کے کردار یا اشخاص ایسے ہیں جو خود کو ’ہم‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس میں کردار ایک بوڑھا شخص ہے اور ایک نوجوان ہے۔ جن کے درمیان ہونے والی بات چیت سے افسانے کا خمیر تیار ہوا ہے۔ بوڑھے کا کردار علامتی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے ’سازشی۔۲‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے جو بات لکھی ہے وہ قابل غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’’سازشی نمبر۲‘میں واقعات کی کثرت ہے۔ بوڑھا اور نوجوان زیادہ وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن وضاحت اور خارجی حوالے کی کثرت کی بنا پر یہ افسانہ اتنا کامیاب نہیں ہے۔‘‘[11]
در اصل یہ بات فاروقی نے اس وجہ سے کہی ہے کہ ’’ سازشی نمبر ۲‘‘ پڑھنے کے بعد ہم اس کے سرے سیاسی اور معاشرتی صورت حال سے جوڑنے لگتے ہیں جبکہ سازشی نمبر۔۱ میں صورت حال سیاسی اور معاشی حوالے سے ماوراء ہو کر مابعد الطبیعاتی اور نفسیاتی ہو جاتی ہے۔ انورسجاد کے دونوں افسانے ایک ہی موضوع سے وابستہ ہیں۔ فقط ٹریٹمینٹ کا انداز دونوں میں مختلف ہے اور اسی وجہ سے ایک افسانہ تو کامیاب ٹھہرتا ہے لیکن دوسرا افسانہ فنی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔ سازشی۔۲ میں بھی بوڑھے کا کردار علامتی ہے لیکن جو خارجی حوالے ذکر ہوئے ہیں وہ علامتی نہ ہو کر میکانکی بن گئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ افسانہ ناکام ہو گیا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا خارجی حوالوں کی کثرت افسانے کی ناکامی ثابت کرتی ہے ؟ کیونکہ اگر ایسا ہے تو ترقی پسندوں یا جدیدیت سے قبل اور بعد کے بہت سے اہم افسانوں کی عظمت سے انکار لازم آئے گا۔ کیونکہ ایسے کامیاب افسانوں کی فہرست طویل ہے جن کا تانا بانا خارج سے ہی تیار ہوا ہے گرچہ خبر باطن کی مل رہی ہو۔کیونکہ کوئی بھی فنکار جب کوئی فن پارہ تخلیق کر رہا ہوتا ہے تو وہ در اصل اپنے باطن کے ساتھ جد و جہد کر رہا ہوتا ہے۔ اپنے باطن کو کرید رہا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے باطن میں اٹھ رہی کشمکش میں قاری کو شریک سفر کرنے کے لیے خارج کا سہارا لیتا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر وہ قاری کے ساتھ جڑ ہی نہیں سکتا۔ افسانے میں خارجی حوالوں کی کثرت بذات خود افسانے کی ناکامی کی دلیل نہیں ہوتی ہے بلکہ فن کار کے دوسرے رویے اس کا سبب بنتے ہیں۔ سازشی۔۲ کی ناکامی کا سبب یہ نہیں ہے کہ انھوں نے خارجی حوالوں کی کثرت سے کام لیا ہے۔بلکہ اگر وہ افسانہ ناکام ہے تو اس کی وجہ کچھ اور ہے جہاں تک فاروقی نہیں پہنچ سکے ہیں یا پھر انھوں نے دوسرے طریقے سے اس پر غور نہیں کیا ہے۔
انور سجاد کی شعریت نے بھی افسانے کو افسانہ بننے سے روکا ہے۔ ان کے افسانوں ’’آج‘‘(اس عنوان سے ان کے پانچ چھوٹے چھوٹے افسانے ہیں ) میں بیانیہ کو منہدم کرنے کی کوشش نے انھیں اس طرح کا تاثر دیا ہے جس کے سبب بقول فاروقی انھیں ’’افسانے کا نام بہ تکلف ہی دیا جا سکتا ہے۔‘‘ اس سلسلے میں ایک بات قابل ذکر ہے کہ افسانہ اگر اپنی فطری خوبیوں سے دور ہوا تو اس کا ناکام ہونا یقینی ہے۔ شعریت پیدا کرنا یا شاعری والے رویے زبردستی افسانے کے لیے استعمال کرنا کوئی تخلیقی عمل نہیں ہے۔ تخلیقی عمل یہ ہے کہ آپ افسانے کی فطری ضرورتوں مثلاً بیانیہ اور نثر وغیرہ کو قائم رکھتے ہوئے اچھے استعارے اور علامتیں تخلیق کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو افسانہ کامیاب ہو گا۔ شعر کا سا تاثر پیدا کرنے کا مطلب اگر افسانوی سطح پر دیکھا جائے تو بس یہی ہے کہ افسانے کے اندر ایک تہہ داری ہو، معنی آفرینی ہو، اسرار ہوں جو وقفے وقفے پر کھلیں۔ ایسا نہ ہو کہ افسانہ پہلی ہی سطر میں اپنے مکمل وجود کی گواہی دے دے کہ ہم چل پڑے ہیں اور ہمارا انجام کیا ہونا ہے۔ انور سجاد میں تہہ داری کی جو کیفیتیں ہیں وہ کئی جگہوں پر متاثر کرتی ہیں۔ ان کے افسانے ’’چھٹی کا دن ‘‘ پر بات کرتے ہوئے فاروقی نے اس سلسلے میں روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ’’افسانے کا ابہام در اصل اسرار ہے، ابہام نہیں ہے، کیونکہ روزمرہ کی دنیا میں عیب و ہنر، قوت اور مجبوری اس طرح ملے جلے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کو الگ نہیں کر سکتے۔‘‘[12]
شمس الرحمن فاروقی نے اپنے اس مضمون میں جو تنقیدی طریقۂ کار اپنایا ہے اس سے ہمیں انور سجاد کے افسانوں کے بارے میں کچھ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ مضمون اسی وقت کا ہے جب انھوں نے پریم چند کے افسانوں پر مضمون لکھا تھا، یعنی ۱۹۸۰ء کا۔ لیکن دونوں مضامین میں ایک فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب فاروقی پریم چند کے افسانوں پر نقد کرتے ہیں تو وہ ان کے افسانوں کے اقتباس پر مکالمہ قائم کرتے ہوئے گفتگو آگے بڑھاتے ہیں۔ لیکن جب وہ انور سجاد کے افسانوں پر بحث کرتے ہیں تو صرف افسانوں کے اسماء (سازشی۔۱، ۲ اور چھٹی کا دن کو چھوڑ کر)کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس مضمون میں انور سجاد کے افسانوں پر فاروقی کا جو نقطۂ نظر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے یہاں روایتی بیانیہ اور مکالمے کی ’’نام نہاد' فطری‘ روایت ‘‘ سے بغاوت کی کوشش نظر آتی ہے۔ ان کے افسانوں میں چیزوں کو صرف دیکھا نہیں جاتا بلکہ چھو کرمحسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔ان کے افسانوں میں اسراری کیفیتیں ہیں۔یہ وہ خوبیاں ہیں جو ان کے افسانوں میں بطور خاص دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ افسانوں میں بے جا شعریت یا خارجی حوالوں کا بکثرت استعمال ان کے بعض افسانوں کی ناکامی کا سبب بھی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ خارجی حوالوں کا استعمال افسانے کی کمزوری ہے یا نہیں ؟ مضمون میں فکر کے کئی زاویے ابھرتے ضرور ہیں لیکن فاروقی نے انور سجاد کے افسانوں پر جو تنقید کی ہے وہ انور سجاد کے افسانوں سے متعلق کوئی واضح تصویر قاری کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ نئے افسانے کی خصوصیات و لوازمات کے پیش نظر ان افسانوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔
قمر احسن سے متعلق فاروقی نے ایک طویل مضمون تحریر کیا ہے۔ اس مضمون میں ان کے کچھ افسانوں سے متعلق باتیں ہوئی ہیں لیکن اس کا ایک معتد بہ حصہ نئے افسانے کے آغاز کی تاریخ کے تعین میں کھو گیا ہے۔ بحث نظریاتی تنقید کی موشگافیوں میں بھٹکتی رہتی ہے اور اطلاقی تنقید کا مرحلہ بہت انتظا رکے بعد سامنے آتا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ نئے افسانے کے خدوخال کے تعین سے لے کر اس کی تمام تر ذمہ داریاں نبھانے کا ذمہ تھا، کہ وہی اردو میں جدیدیت اور جدید تحریروں کے روح رواں تھے۔ اس لیے وہ جدید افسانے کی تنقید کرتے وقت خود کو ’متن افسانہ‘ تک محدود نہیں رکھ پاتے بلکہ باتیں کہیں سے شروع کرتے ہیں اور پھر افسانے کے متن پر کوئی چال چل کرواپس آتے ہیں۔ قمر احسن والے مضمون میں ایسا ہی ہوا۔ انھوں نے نئے افسانے کی ابتدا کب سے مانی جائے والے سوال پر کچھ دیر بحث کی ہے، اس ضمن میں پریم چند کا ’کفن‘ اور منٹو کا ’پھندنے ‘ موضوع بحث رہے اور بات سے بات چلی تو کردار نگاری پر آ گئی۔ افسانے میں کردار اور بالخصوص جدید افسانوں کے کرداروں کا مسئلہ بیان ہوا۔ اور پھر قمر احسن کو مضمون میں پیش کیا گیا۔چھ صفحات سے زائد پر مشتمل بحث قمر احسن پر بات کرنے کے لیے بطور تمہید کی گئی۔ نئے افسانے کی تشکیل کن عناصر پر ہے یا وہ کون سے عناصر ہیں جو نیا افسانہ تیار کرتے ہیں وغیرہ جیسی بحثوں میں اس مضمون کا بیشتر حصہ دب کر رہ گیا ہے۔ان کے اس تنقیدی رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح انھوں نے پریم چند کے بارے میں کہا کہ وہ ابتدا میں ہی قاری کا کان پکڑ کر اسے اپنے افکار ماننے پر مجبور کر دیتے ہیں اسی طرح فاروقی بھی کرتے ہیں، کہ جو میں کہہ رہا ہوں اسے سنو! اسی لیے وہ مغرب سے حوالے لاتے ہیں۔ عالمی ادبیات کے مقابلے میں ہمارے افسانہ نگاروں کی تخلیقات کو رکھتے ہیں اور تول جوکھ کر مقصد پر آتے ہیں۔ یعنی اگر مغربی ادبیات کے ترازو میں کہیں بھی ہم ذرا ٹکنے کے لائق ہو گئے ہیں تو پھر ہم کامیاب ہو گئے۔ فاروقی کی علمیت کا منکر کوئی بھی با شعور شخص نہیں ہو سکتا اور مجھ جیسا کم علم طالب علم تو ہرگز نہیں۔ کیونکہ ان کے مضامین کی یہی علمیت اور ان کی بصیرت ہی تو ہمیں ان کی حیثیت تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن افسانے پر تنقید کرتے وقت جب وہ ہر افسانہ نگار کو کافکا یا دوسرے مغربی ادباء سے جوڑنے پر آتے ہیں تو ایک چڑھ سی ہوتی ہے، کہ آخر کیوں ہم بار بار مغربی حوالوں کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ ہمارا منظر نامہ الگ، ہماری تہذیب الگ، ہماری ضروریات الگ، ہمارے ادیب الگ تو پھر کیوں ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کے ڈانڈے مغرب سے ملائے جائیں۔ روشنی حاصل کرنا مستحسن ہے تاہم اس بات پر اصرار کہ اس دیے میں بھی وہی تیل جلے گا، سمجھ سے بالاتر رویہ ہے۔
شمس الرحمن فاروقی پر جدید افسانے کی حمایت بے جا کا الزام لگتا رہا ہے۔ لیکن ان کی عملی تنقید کے نمونے بتاتے ہیں کہ وہ اس بات کے لیے نئے افسانہ نگاروں کو ضرور سراہتے ہیں کہ انھوں نے انحراف کی صورتیں پیدا کرنے کی ہمت کی ہے اور ادب کے بنے بنائے اصولوں کی پیروی کا’ گناہ‘ اپنے سر لینے سے انکار کیا ہے مگر وہ ان کے غلط رویوں پر ان کی تنقید بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں :
’’میں یہ نہیں کہوں گا کہ نئے افسانہ نگار نے ان مسائل کو حل کر لیا ہے۔ بلکہ اغلب تو یہ ہے کہ ابھی اس نے ان مسائل کا پوری طرح احساس بھی نہیں کیا ہے، ان پر غور کرنا تو دور رہا۔ لیکن اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ فن کار اپنی تخلیقی حسیت کی روشنی میں بہت سی منزلیں سر کر لیتا ہے اور بعد میں نقاد ان کا تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں۔ ‘‘[13]
قمر احسن کے افسانوں میں علامتوں کی تخلیق کے بنیادی مسئلے سے لے کر قمر احسن کے واحد متکلم راوی، ان کے افسانوں کا اساطیری اور داستانی اسلوب، ان کی نثر کا اسلوب اور لفظوں کا خوبصورت استعمال نیز داخلی کشمکش کا پر قوت بیانیہ فاروقی کو ضرور متوجہ کرتا ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’آگ، الاؤ اور صحرا‘ ایک ایسے نوجوان کی داخلی داستان ہے جو اپنے آپ کو دریافت کرنا چاہتا ہے لیکن جو یہ محسوس کرتا ہے کہ اس دریافت کے لیے اسے اپنے ذاتی اور تہذیبی دونوں ماضیوں کو جھٹلانا ہو گا۔ لیکن یہ ناول ہمارے عہد کے ہر نوجوان کی داستان نہیں بن سکا ہے۔ یہی اس کی کمزوری بھی ہے اور شاید یہی اس کی قوت بھی۔‘‘[14]شمس الرحمن فاروقی نے اپنی افسانوی تنقید میں بے جا تعریفوں کے پل نہیں باندھے ہیں اور نہ ہی عمومی قسم کی تنقیدی لفاظیاں کیں ہیں جن سے ہمارے ناقدین ہر ایرے غیرے کو عظیم فن کار اور عہد کے ممتاز افسانہ نگار گرداننے پر تلے رہتے ہیں۔ فاروقی کا نقطۂ نظر معروضی ہے اور قمر احسن کے افسانوں کے بارے میں بات کرتے وقت یہ صورت حال بہت حد تک کھل کرسامنے آتی ہے۔
’’مٹی آدم کھاتی ہے : دکھ کی گہرائیاں ‘‘کے عنوان سے ۲۰۰۶ میں فاروقی نے ایک مضمون لکھا۔ یہ مضمون پاکستانی ناول اور افسانہ نگار محمد حمید شاہد کی تخلیقات پر مبنی ہے۔ چار صفحات پر پھیلا ہوا یہ مختصر مضمون محمد حمید شاہد کی افسانوی تخلیقات اور ان کے ناول ’مٹی آدم کھاتی ہے ‘ کے دھندلے سراغ ہمیں فراہم کرتا ہے۔ در اصل یہ ہلکا پھلکا تبصراتی نوعیت کا مضمون ہے۔جس میں محمد حمید شاہد کے ناول اور افسانوں سے متعلق چند ایک معلومات ملتی ہیں لیکن ہمیں اس کے مکمل پلاٹ کا علم نہیں ہوتا ہے، حالانکہ کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں لیکن ایسے اشارے جو فن پارے کی تفہیم کے لیے ناکافی ہیں۔ بحث فلسفیانہ رنگ میں شروع ہوئی اور موت و حیات اور دکھ کے فلسفے پر بحث ہوئی ہے اور جب ماحول سازگار ہوا تو محمد حمید شاہد تشریف لاتے ہیں جن کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں کہ ’’محمد حمید شاہد اپنے افسانوں میں ایک نہایت ذی ہوش اور حساس قصہ گو معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر پیچیدگی کے باوجود۔۔۔ان کے بیانیہ میں یہ وصف ہے کہ ہم قصہ گو سے دور نہیں ہوتے، حالانکہ جدید افسانے میں افسانہ نگار بالکل تنہا اپنی بات کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘‘[15]اور ’’محمد حمید شاہد اس مخمصے سے نکلنا چاہتے ہیں اور شاید اسی لیے وہ اپنے بیانیے میں قصہ گوئی یا کسی واقع شدہ بات کے بارے میں ہمیں مطلع کرنے کا انداز جگہ جگہ اختیار کرتے ہیں۔۔۔۔دوسری بڑی صفت ان کے موضوعات کا تنوع ہے۔۔۔۔۔سروکار سماجی سے زیادہ سیاسی ہیں۔۔۔۔’مٹی آدم کھاتی ہے ‘اس لیے منفرد ہے کہ اس میں مشرقی پاکستان /بنگلہ دیش کی حقیقت سے آنکھ ملانے کی کوشش رومان اور تشدد کو یکجا کر دیتی ہے۔ اسے محمد حمید شاہد کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہئے کہ وہ ایسے موضوع کو بھی اپنے بیانیہ میں بے تکلف لے آتے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر افسانہ نگار گو مگو میں مبتلا ہوں گے کہ فکشن کی سطح پر اس سے کیا معاملہ کیا جائے۔دکھ شاید سب کچھ سکھا دیتا ہے۔‘‘[16]یہ وہ جملے یا خیالات ہیں جن کا اظہار انھوں نے حمید شاہد سے متعلق اپنے مضمون میں کیا ہے۔ در اصل یہ جو کچھ باتیں محمد حمید شاہد سے متعلق یا ان کے فکشن سے متعلق نکل کر سامنے آئی ہیں ان سے فاروقی اور دوسرے ناقدین کے تنقیدی سروکار میں کوئی فرق و امتیاز محسوس نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ فاروقی ہمیشہ سب سے الگ گفتگو کرنے کے قائل ہیں۔ وہ کچھ نیا کہنا چاہتے ہیں لیکن اس مضمون میں ان کا خاص تنقیدی رویہ سامنے نہیں آتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر فاروقی نے کچھ نیا نہیں کہا تو ہم ان سے اس بات کی امید ہی کیوں رکھیں یا یہ مطالبہ ہی کیوں کریں کہ وہ کچھ نیا کہیں ؟ ناقد کی ذاتی پسند و ناپسند بھی بہر حال اس کے تنقیدی عمل میں دخیل ہوتی ہے، وہ چاہے شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طور پر لیکن قرأت متن میں ناقد کے اپنے سروکار اور دلچسپیاں تنقیدی شعور کو جلا بخشتی ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی کو کچھ نیا کہنا پسند ہے۔ کچھ مختلف، جو ان کے ذوق جمال کو تسکین پہنچا سکے۔ اس لیے وہ افسانے میں سب سے پہلے کیا کچھ نیا ہے، کی تلاش کرتے ہیں۔’بلراج کومل کے افسانے ‘نامی مضمون میں یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے۔ فاروقی مضمون کے آغاز میں ہی لکھتے ہیں :
’’’آنکھیں اور پاؤں ‘نام کے اس چھوٹے سے مجموعے میں جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے وہ اس کے افسانوں کا تنوع ہے۔ یہ تنوع موضوع کا بھی ہے، تکنیک کا بھی اور اسلوب کا بھی۔ تنوع کی یہ کثرت اگر ایک طرف رنگارنگی کا احساس پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف افسانہ نگار کی اس کوشش کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ زندگی کو، اس کے واقعات اور مفروضات کو، طرح طرح سے دیکھا جائے۔‘‘[17]
اس اقتباس سے شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی رویے کے مختلف ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں بات بلاواسطہ بلراج کومل کے فن سے ہو رہی ہے اس کے لیے کسی طرح کی ماحول سازی کی نوبت نہیں آئی ہے۔ یہ مضمون ۱۹۸۱ء میں تحریر کیا گیا ہے، جس سے فاروقی کے تنقیدی طریقۂ کار کے تنوع کا بھی احساس ہوتا ہے۔یہ مضمون فکشن تنقید میں ان کے طریقۂ کار کی مثال قائم کرتا ہے۔ آٹھ صفحات پر مشتمل اس مختصر سے مضمون میں فاروقی نے بلراج کومل کے افسانوں کے تمام پہلوؤں پر بات کرنے کی سعی کی ہے۔ اس مضمون میں موضوع گفتگو بلراج کومل اور ان کے افسانے ہی رہے ہیں۔ اس مضمون میں فاروقی کا تنقیدی زاویۂ نظر بخوبی کھل کرسامنے آیا ہے۔ انھوں نے بلراج کومل کے افسانوں کے واحد متکلم راوی سے لے کر افسانوں کی اسراری کیفیات کی سرحدوں کو بآسانی تنقیدی زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بلراج کومل کے افسانوں سے مثالیں لے کر اپنا تنقیدی وژن تیار کیا ہے اور ان کے افسانوں سے متعلق رائے قائم کی ہے۔ ہوا ئی باتیں کرنے سے گریز کیا ہے۔ایک اقتباس سے فاروقی کے تنقیدی رویے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے :
’’کومل کے جن افسانوں میں واحد متکلم راوی کا کردار کچھ اہمیت رکھتا ہے، ان میں بھی اس کی حیثیت مرکزی نہیں بلکہ مشاہد کی ہے ( ’’تیسرا کتا‘‘)۔ لیکن بعض افسانوں میں مشاہد کی شخصیت نمایاں ہونے کے باوجود خود تنقیدی رنگ بھی موجود ہے ( ’’قلم کے ٹکڑے ‘‘، ’’ببول‘‘)۔ یہ سب افسانے ایک رتبے کے نہیں ہیں، لیکن فی الحال صرف اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ ان افسانوں میں بیانیہ کے مختلف طریقے کم و بیش کامیابی کے ساتھ برتے گئے ہیں۔‘‘[18]
فاروقی نے اس مضمون میں بنا کسی لاگ لپیٹ کے بلراج کومل کے افسانوں کا تجزیہ کیا ہے اور اپنا ایک واضح تنقیدی رویہ قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر تنقید کا کام عام قاری کو فن پارے کی باریکیوں سے متعارف کرانا ہے تو اسے وضاحتی اور استدلالی رنگ و آہنگ میں لپٹا ہوا ہونا چاہیے نہ کہ فلسفیانہ بھول بھلیوں کی سیر میں گُم۔ یہ ایک مکمل مضمون تو نہیں البتہ بلراج کومل کے افسانوں کو سمجھنے کی ایسی شاہراہ ہے جس پر چل کر ان کے افسانوں کی کئی گتھیوں کو بآسانی سلجھایا جا سکتا ہے۔فاروقی بلراج کومل کے افسانوں کے تعلق سے ایک مجموعی تاثر دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس مجموعے کے بیشتر افسانے اپنے بظاہر سادہ رنگ میں اس طرح کئی پیچیدہ باتیں کہہ جاتے ہیں اور قاری کو زندگی اور انسان اور خود اپنے بارے میں طرح طرح کے شکوک میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ میں اسے بلراج کومل کی بہت بڑی کامیابی سمجھتا ہوں۔‘‘[19]
یہاں ایک بات یہ عرض کر دوں کہ فاروقی نے عملی اور اطلاقی تنقید کرتے ہوئے اکثر افسانے کے نظری مباحث کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ خاص پہلوؤں پر بحث کی ہے۔ اس سے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ افسانوں کے مطالعے کا نیا طریقہ بتا رہے ہیں۔ پریم چند پر لکھتے ہوئے انھوں نے کردار اور مصنف کے درمیان فاصلے یا کش مکش کو موضوع گفتگو بنایا، انور سجاد پر بات کی تو موضوع یا اسلوب، کیا اہم ہے سوال کو سامنے رکھتے ہوئے افسانوں کا مطالعہ کیا، قمر احسن کے کچھ افسانوں پر بات کرتے ہوئے انھوں نے نئے افسانے کے مسائل کو مد نظر رکھا، حمید شاہد کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے عام تنقیدی رویہ اختیار کیا اور بلراج کومل کے افسانوں پر بات کرتے ہوئے انھوں نے ان کے افسانوں کے راوی کو بحث کا موضوع بنایا۔اس بات کو اگر ہم اس پس منظر میں دیکھیں جہاں اس رویے کی اساس پنہاں ہے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ فاروقی افسانے کے ان نظری مباحث کو پیش کر رہے تھے جس پر اردو میں ابھی تک بہت کم لکھا گیا تھا۔ انھوں نے افسانوں کو پڑھنے کا نیا طریقہ رائج کرنے کی کوشش کی اور افسانوں کا مطالعہ سیاسی، سماجی، اصلاحی یا معاشرتی زاویے سے ہٹ کر کرنے کی صدا بلند کی۔ ’راستہ بتاؤ تو آگے چلو‘ والی مثال، وہ افسانے کی عملی تنقید پر بھی مجبور ہوئے کہ انھیں وہ خطوط بھی متعین کرنے تھے جن کی بنیادوں پر افسانے کا مطالعہ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ شاید اسی لیے ان کے فکشن تنقید والے تمام مضامین میں مطالعے کا زاویہ یا طریقہ یکسر بدلا ہوا ہے۔اس کا احساس ہم ان کے مضمون ’’یلدرم کی بعض تحریروں میں جنسی اظہار‘‘ میں بھی کر سکتے ہیں۔ فاروقی نے اس مضمون میں سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں اور ناولوں کے جس پہلو سے قاری کو روبرو کرایا ہے وہ اپنے آپ میں اچھوتا ہے جس پر شاید کم ہی لوگوں نے توجہ دی ہو گی۔فاروقی کہتے ہیں کہ ’’اگر وہ باقاعدہ پلاٹ اور کردار بنانے پر قادر ہوتے تو اردو افسانے کی تاریخ میں پہلا اہم نام یلدرم کا ہوتا۔‘‘[20]یلدرم نے داستانیں اور افسانے دونوں تحریر کیے مگر فاروقی کے مطابق ’’ان میں کوئی تحریر ایسی نہیں ہے جسے کامیاب کہا جا سکے، داستان نما تحریروں میں داستان کی خرابیاں اور افسانہ نما تحریروں میں وہ تمام کمزوریاں ملتی ہیں جو کسی افسانے کو کمزور بناتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، یہی بات کیا کم اہم ہے کہ انھوں نے دو مختلف طرح کی تحریریں لکھ کر یہ واضح کر دیا کہ داستان اور افسانہ(یعنیFiction)الگ الگ چیزیں ہیں۔‘‘[21]
میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی اسلوب کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنا تبصرہ بے لاگ لپیٹ کرتے ہیں۔ مرعوب ہونے کا رویہ ان کے یہاں نہیں ملتا ہے۔ وہ بزرگوں کی ادبی عنایتوں کی قدر کرتے ہیں، ان کا کھلے دل سے اعتراف بھی کرتے ہیں مگر ان کی کوتاہیوں پر سخت الفاظ بھی ادا کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں ’’فنی حیثیت سے ناکام ہونے کے باوجود عورت اور جنس کے بارے میں جو رویہ ان تحریروں میں ملتا ہے وہ اپنے وقت کے بہت آگے ہے۔‘‘ [22]یہ فاروقی کی باریک نگاہی ہی کی دین ہے کہ وہ یلدرم کی تحریروں کے اس زاویے کو موضوع گفتگو بنا رہے ہیں جسے اکثر لوگوں کے شعور نے گرفت میں لانے سے انکار کر دیا۔فاروقی کی بصیرت نے اس کی گرفت کی اور اسے ان کے ادبی محاسن کی بنیاد گردانا، کیوں کہ جس طرح کی تحریریں یلدرم نے اس زمانے میں تخلیق کیں اگر وہ اس زمانے میں ہوتے تو ان کی تحریروں کا رنگ کچھ اور ہوتا۔ خیر ادب میں اگر مگر کی گنجائش بھی بہت کم ہوتی ہے، کہ ادب جس زندگی کی تخلیق نو کرتا ہے اس میں لیت و لعَلَّ کی گنجائش کم ہی ہوتی ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم سے متعلق اپنے مضمون میں فاروقی نے موضوعاتی سطح پر جس باریک بینی کا مظاہرہ کیا ہے وہ پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے۔ یہ فاروقی کے قوت مطالعہ اور جدید طرز مطالعہ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ فاروقی جانتے ہیں کہ کن تحریروں میں کس طرح کی خصوصیات تلاش کی جا سکتی ہیں۔ کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’یلدرم کی زبان اور منظر نگاری اس قدر مصنوعی نہ ہوتی اور ان کے واقعات میں اس قدر بے ربطی نہ ہوتی جتنی کہ ان تین داستانوں میں ہے، تو انھیں موت اور پیدائش کی تمثیل کہا جا سکتا تھا۔۔۔۔لیکن’ صحبت ناجنس‘کی خوبی یہ ہے کہ زبان کی وضاحت اور فطری آہنگ اور واقعات کے معاصرانہ رنگ کے باعث اس کا نفسیاتی اور عمیق تر پہلو زیادہ تر مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے، کیوں کہ یہ افسانہ در اصل دو Lesbianلڑکیوں کی داخلی سوانح ہے جنھیں مردوں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔جذبۂ جنس کے یہ رموز یلدرم ہی نہیں، بیسویں صدی کے ہمارے بیشتر لکھنے والوں کی دسترس سے دور رہے ہیں۔ لیکن یلدرم کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بہت سی ایسی سچائیوں کا احساس کیا، دھندلا اور خفیف سہی، جن کا تجزیہ ہمارے یہاں اب بھی کبیرہ گناہ سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یلدرم خود کچھ بہت گہرے نہیں ہیں اور ’’صحبت ناجنس‘‘ میں تجزیے سے زیادہ چٹخارے کی آواز سنائی دیتی ہے۔‘‘[23]
فاروقی کے مضمون کے مختلف ٹکڑوں کو پڑھ کر ان کی دقیق نظر کا اندازہ تو ہوہی جاتا ہے۔ ساتھ ہی قاری کے ہاتھ کچھ بصیرتیں بھی آتی ہیں۔ظاہر ہے یہ ایسی تنقید ہے جو تن آسانی کو تیاگنے کا مطالبہ کرتی ہے۔متن کے سمندر میں اوپر اوپر تیرنے سے خالی گھونگھے ہی ہاتھ آئیں گے، موتیوں کی تلاش ہے تو تہوں میں ڈوبنا ابھرنا ہو گا پھر کہیں موتیوں کے ہاتھ لگنے کی آرزو پوری ہو سکتی ہے۔ فاروقی نے کروٹیں بدل کر تقدیر کے بدلنے کا انتظار نہیں کیا ہے بلکہ وہ رزم گہ زیست میں کودے ہیں، متن کے ٹکڑوں ٹکڑوں میں معانی کے پوشیدہ خزانوں کی تلاش میں ذہن کو ہلکان کیا ہے تو انھیں یہ موتی ہاتھ لگے ہیں۔خیر ہماری تنقید تو پیٹ بھر کر ڈکارنے کی عادی ہے !
شمس الرحمن فاروقی کو مطالعے کا شوق بچپن سے ہی ہے اور ان سے ذرا بھی واقفیت رکھنے والے کو اس بات سے انکار نہیں کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ اردو ادب ہو یا غیر ملکی زبانوں کا ادب، سب پر فاروقی کی گہری نظر ہے۔ اس کا احساس ہمیں ان کے مضامین پڑھتے وقت بخوبی ہوتا ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں پر قلمبند کیا گیا مضمون ’باز گوئی اور تازہ گوئی‘ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ بمشکل پانچ صفحات پر مشتمل یہ مضمون سریندر پرکاش کے افسانوں سے متعلق تمام چیزیں تو سامنے نہیں لا پاتا ہے تاہم ان کے افسانوں کے کئی زاویے اس بحث میں کھل کرسامنے آ جاتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے :
’’سریندر پرکاش کے تمام افسانے مل کر ایک نامیاتی کلیت بناتے ہیں۔ سریندر پرکاش ہمارے واحد افسانہ نگار ہیں جن کی افسانوی دنیا کی ہر اینٹ پر، جس کے ہر در و دیوار پر، سریندر پرکاش کا پتہ لکھا ہوا ہے۔اکا دکا کو چھوڑ کر ان کے سب افسانے ایسے ہیں کہ ان کو یکجا پڑھا جائے تو طویل نظم جیسا تاثر پیدا ہو گا۔ ان کے ان کی ان میں فکر، اسلوب اور جذبے کی وحدت ہے اور اس وحدت کا سراغ ان کی علامت سازی میں پنہاں ہے۔ یہ علامت سازی منطق سے ماورا ہے اور اس کا عمل زمانی نہیں بلکہ مکانی ہے۔‘‘[24]
ایک بار پھر عرض کروں کہ فاروقی کے سر نئے افسانے کی تفہیم کا مسئلہ درپیش ہے کیونکہ جدید افسانوں کے قابل تفہیم نہ ہونے کی شکایتیں قاری کی طرف سے ہوتی رہی ہیں۔ اس صورت میں فاروقی ان کی تفہیم کے طریقے بتاتے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی کے یہاں افسانہ نگاروں کی فنی خوبیوں کے آپسی تقابل کا طریقہ پایا جاتا ہے۔ ان کا تنقیدی رویہ اکثر جگہوں پر تقابلی ہو جاتا ہے۔ وہ افسانوں پر بات کرتے ہوئے اکثر تو مغربی افسانہ نگاروں یا فکشن نگاروں کے مقابلے میں نئے افسانہ نگاروں کو کھڑا کرتے ہیں یا پھر نئے افسانہ نگاروں کے فن کا تقابل ترقی پسند افسانہ نگاروں یا جدیدیت سے قبل لکھے گئے افسانوں سے کرتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ تقابل بے وجہ سا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے ایک متن ہے اس کی وقعت ثابت کرنے کے لیے فرانس اور روس یا امریکہ سے مثالیں لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ لیکن کبھی کبھی یہ تقابل موضوع کی تفہیم میں مزید آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں یا ان کی فنی خوبیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے فاروقی نے ان کا موازنہ راجندرسنگھ بیدی کے افسانوں سے کیا ہے۔ چونکہ یہاں تقابل کی کچھ صورتیں بن جاتی ہیں اس لیے فاروقی کچھ اہم نکات برآمد کرنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
’’پچھلی نسل کے بڑے افسانہ نگاروں میں بیدی کو سریندر پرکاش کا پیش رو کہا جا سکتا ہے، اس معنی میں کہ دونوں نہایت ٹھنڈے دماغ کے افسانہ نگار ہیں اور دونوں اپنی برہمی کو طنز اور اسطور میں بدل دینے کی قوت رکھتے ہیں۔ بیدی تو کبھی کبھی جذباتیت کے شکار ہو بھی جاتے ہیں، لیکن سریندر پرکاش پر جذباتیت بہت کم حاوی ہو پاتی ہے۔ پھر بیدی کے یہاں Mysteryاور Terror دونوں کا عنصر سریندر پرکاش سے کم ہے۔‘‘[25]
در اصل شمس الرحمن فاروقی سریندر پرکاش کو نئے افسانہ نگاروں کے لیے مشعل راہ قرار دیتے ہیں، جن کے نقش قدم پر چل کر نئے افسانہ نگار اپنے بگڑے خدوخال سدھار سکتے ہیں، کیونکہ سریندر پرکاش کا فن بہت گٹھا ہوا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے سریندر پرکاش کے افسانے ’’بھولا کی واپسی‘‘ جو بیدی کے افسانے ’’بھولا‘‘ کا جدید ورژن ہے پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اسی طرح اس میں ’’بجوکا‘‘ اور ’’باز گوئی‘‘ پربھی ہلکے اشارے ملتے ہیں۔فاروقی سریندر پرکاش کے اسلوب سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کی علامتیں، ان کے افسانوں میں حقیقت کا پر قوت ظہور، اسطوراتی انداز بیان کے علاوہ ’’خیال کی شدید ندرت، المیاتی احساس اور اسرار کی ہلکی سی تہ‘‘ سریندر پرکاش کی خاص خوبیاں محسوس ہوتی ہیں۔ ان کے نثری اسلوب سے متعلق فاروقی کے نقطۂ نظر کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے :
’’سریندر پرکاش بے مثال خوبصورت نثر لکھتے ہیں۔ ان کے یہاں وہ شعوری تناؤ نہیں جو مثلاً انور سجاد کا خاصہ ہے۔ نہ ان کے یہاں وہ دھوکے باز، بظاہر آسان لیکن بہ باطن بہت پیچیدہ، گفتگو کی روانی ہے جو انتظار حسین کی صفت ہے۔ سریندر پرکاش کے اسلوب میں ایک پراسرار چالاکی ہے۔ان کی نثر میں نظم کی سی نزاکت ہے، اور نظم ہی کی طرح اکثر یہ نہیں کھلتا کہ ان کے لہجے میں طنز کا پلہ بھاری ہے یا حزن کا؟ اور اگر طنز ہے تو وہ کس پر؟ خود اپنے پر، قاری (یعنی سننے والے ) پر، یا ان لوگوں پر جو ان کے افسانوں میں دبے پاؤں کچھ اس طرح گزرتے اور چلتے ہیں گویا ساری دنیا خاموش ہو اور وہ اس خاموشی کو اپنی شخصیت کا جزو سمجھتے ہوں۔‘‘[26]
فاروقی کا ایک مضمون شفیع جاوید کے افسانوں سے متعلق ہے جسے انھوں نے ۲۰۱۱ء میں ’’گئے دنوں کے چراغ: شفیع جاوید کے افسانے ‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔یہ مضمون ان کے ایک افسانوی مجموعے ’’رات، شہر اور میں ‘‘کے افسانوں پر فاروقی کی بصیرت اور تنقیدی ذہن سے تیار کی گئی کہکشاں کے مترادف ہے، جس میں شفیع جاوید اپنے افسانوں کی تخلیقی دنیا میں جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ افسانوی تنقید سے متعلق فاروقی کے مضامین کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کا تنقیدی رویہ یکسانیت کا حامل نہیں ہے وہ ہر مضمون میں ایک نیا رویہ اختیار کرتے ہیں اور متن کی قرأت کا الگ الگ ڈھب ایجاد کرتے ہیں۔ اس مضمون میں انھوں نے شفیع جاوید کے متعدد افسانوں کو متنی حوالوں کے ساتھ موضوع بحث بنایا ہے اور ان کی فنی اور موضوعاتی گرہوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے۔اس مضمون میں فاروقی کا اسلوب وضاحتی اور تفہیماتی ہے۔
افسانے کی تنقید کرتے وقت اگر ناقد خود کو متن افسانہ پر مرکوز کرے اور اسی افسانے کے اقتباسات سے موضوعات و مسائل اخذ کرے یا فنی کمزوریوں یا خوبیوں کو پیش کرے تو وہ مضمون زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے اور خود ناقد کی قوت تفہیم کی پرکھ بھی اسی وقت ممکن ہو سکے گی۔ تاہم اگر ناقد آسمان و زمین کے قلابے ملانے لگے، ادھر ادھر کی ہانکنے لگے، گرچہ وہ باتیں پر مغز و معنی ہوں، تو متن افسانہ اور افسانہ نگار کہیں بہت پیچھے ہو جاتے ہیں اور ناقد کی علمیت تنقیدی مضمون کی نوعیت بدل دیتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے مضامین پڑھتے ہوئے بسا اوقات ایسا احساس ہوتا ہے تاہم شفیع جاوید کے افسانوں سے متعلق بات کرتے ہوئے فاروقی نے جو معروضی طریقۂ کار اپنایا ہے وہ شفیع جاوید کے افسانوں کی تفہیم میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
منشا یاد عہد جدید کے ان چند افسانہ نگاروں میں سے ہیں جن کے فن کو خوب سراہا گیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے ان کے افسانوں پر ایک مضمون ۲۰۰۹ء میں تحریر کیا۔ اس مضمون میں انھوں نے منشا یاد کے افسانوں کا مطالعہ موضوعاتی سطح پر کیا ہے۔ فاروقی در اصل افسانوں میں اسلوب کو اہمیت دیتے ہیں لیکن یہاں انھوں نے اسلوب کی بات ذرا دیر سے شروع کی ہے۔ یہ مضمون ویسے تو بہت مختصر ہے لیکن منشا یاد کے افسانوں سے متعلق فاروقی کے چند نظریات قاری کو بآسانی حاصل ہو جاتے ہیں۔ وہ منشا یاد کے افسانوں کے موضوعات بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’منشا یاد کی افسانہ نگاری کا یہ وصف جس میں کوئی اس کے برابر نہیں۔ وہ ہماری دنیا کے ہر پہلو، ہماری زندگی کے ہر حادثے، ہمارے تخیل کے ہر تاریک یا روشن کونے کو اپنی گرفت میں بآسانی لے آتا ہے۔ موضوع کے اس غیر معمولی تنوع کے آگے اسلوب کے تنوع کا احساس ماند پڑ ج اتا ہے۔‘‘[27]
اس کے بعد پھر فاروقی منشا یاد کے اسلوب سے بحث کرتے ہیں۔ تکنیک کی سطح پر بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’بظاہر تو منشا یاد کے افسانوں میں کسی زمان و مکان کی ایسی کوئی پابندی نہیں کہ افسانہ پڑھتے ہی ہم سمجھ لیں کہ اچھا، یہ فلاں واقعے یا صورت حال یا قومی یا بین الاقوامی مسئلے کے بارے میں ہے۔ منشا یاد کو واقعات یا صورت حال یا مسائل کو ’آسان‘اور ’براہ راست ‘ زبان میں بیان کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘اور پھر اس بات کا ذکر کرتے ہیں جو منشا یاد کے افسانوں کی اصل خاصیت ہے اور جس نے شاید یہ مضمون بھی لکھوایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’منشا یاد نے افسانے کو سوچنے کا ایک اوزار بنا کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ خود (یعنی افسانہ نگار) کچھ کہتا ہے اور ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ اس طرح سوچو، اس بات کو اس طرح دیکھو۔ ابہام کی ہلکی سی تہ، اور کردار کو استعارہ بنا کر پیش کرنے کی صلاحیت کی بنا پر ہر کردار میں ایک مانوس سی اجنبیت پیدا کر کے منشا یاد اپنے افسانوں کو بظاہر نامکمل چھوڑ دیتے ہیں لیکن در اصل ان کا افسانہ شیشے کی تکون جیسا ایک آلہ ہے جس میں جھانک کر ہمیں رنگوں کی تکمیل کا احساس ہوتا ہے۔ایک اور بات جو منشا یاد کی تحریر کا خاصہ ہے اور خاصہ ہی نہیں، ایسا وصف ہے جس میں دور دور تک ان کا شریک نہیں، وہ حواس خمسہ کا بھر پور استعمال ہے۔۔۔۔ محسوسات کا ایک خزانہ منشا یاد کے افسانوں میں بکھرا ہوا ہے اور وہ قاری بھی ان خزانوں کو اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے جسے منشا یاد کے موضوعات یا کرداروں سے بہت زیادہ دلچسپی نہ ہو۔ ‘‘[28]
در اصل یہ وہ تراشیدہ خیال ہے جو انھیں منشا یاد کے افسانوں سے حاصل ہوا ہے۔ یہ مضمون ہمیں منشا یاد کے افسانوں کے بارے میں بہت ساری معلومات تو نہیں فراہم کرتا اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے تحقیقی مقالے کی درکار ہے تاہم فاروقی کا انداز فکر ضرور متاثر کرتا ہے کہ وہ ہمارے سامنے منشا یاد کے افسانوں کا ایک نیا پہلو پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فاروقی تنقید کرتے ہوئے جو طریقۂ کار اپناتے ہیں وہ متاثر کرتا ہے اور معلومات بھی دیتا ہے۔ فاروقی کی تنقید بصیرت افروز ہے۔ ایک اور بات جو فاروقی کی فکشن تنقید کی خاصیت ہے وہ ہے ان کا بے لاگ تبصرہ۔ وہ با توں کو گول مول گھمانے میں یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ مضمون کے آخر میں اپنا فیصلہ ضرور سناتے ہیں جس سے ان کا مکمل نظریہ سامنے آتا ہے۔ جس طرح وہ منشا یاد کے بارے میں اپنے مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں :
’’منشا یاد کے افسانوں کی ہر چیز بھلا دی جائے تو بھی حواس خمسہ پر ان کی غیر معمولی یلغار ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ چھوٹی موٹی چیزوں سے دلچسپی بھی منشا یاد کے لیے جس لیے ممکن ہو سکی ہے کہ وہ ان با توں کو بھی حواس خمسہ کی مدد سے چھو لیتے ہیں جن تک اکثر لوگوں کا تخیل بھی نہیں پہنچتا۔‘‘[29]
’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ نام سے فاروقی نے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ ان کا یہ مضمون در اصل نئے افسانوں کو کیسے پڑھا جائے ؟کا جواب ہے۔جیسا کہ اس مضمون کے آخر میں اس کے تحریر کیے جانے کی تاریخ، ۱۹۶۷ء درج ہے، ذرا غور کریں تو یہ تقریباً وہی عہد ہے جب بہت سارے بڑے جدید افسانہ نگار اردو افسانے کے ورثے میں کئی شہ پاروں کا اضافہ کر چکے تھے لیکن ہمارا قاری ان کی تفہیم سے ہاتھ کھڑے کر چکا تھا۔ فاروقی اور ان کے رسالے ’شب خون‘ نے نئے افسانے کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا، ایسی صورت میں اس کی تفہیم کا درد سر بھی انہی کے سر تھا۔ لیکن فاروقی اکیلی جان کتنے افسانوں کا تجزیہ کرتے اور کتنے سے معانی اخذ کر کے پیش کرتے۔ انھوں نے یہ سوچا کہ نئے افسانے کی تنقید کا قضیہ ہی حل کر دیا جائے، اور اس کوشش میں ان کا یہ مضمون سامنے آیا۔ اس مضمون میں شمس الرحمن فاروقی نے وہ طریقے بتانے کی کوشش کی ہے جن کے ذریعہ نئے افسانوں کی تفہیم ممکن تھی۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح سے اگر ان افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان کو سمجھا جا سکتا ہے ورنہ یہ پرانی روش یا روایتی افسانے تو ہیں نہیں، اس لیے انھیں قدیم افسانے کی روش پر سمجھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے سریندر پرکاش یا نئے افسانہ نگاروں کے فنی و موضوعاتی سروکاروں سے عمدہ بحث کی ہے اور نئے افسانے کی تنقید یا تفہیم کے قضیے کو حل کرنے کا راستہ بھی فراہم کیا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی موتیوں کی تلاش میں بھٹکنے والے غواص ناقد ہیں۔ اسی لیے وہ عام طور پر کہی ہوئی با توں سے پرے جا کر کچھ نئی چیزیں نکالنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کی دلیل وہ مضامین ہیں جن کا میں نے ماقبل میں ذکر کیا ہے۔ ۱۹۹۴ میں ان کا تحریر کردہ مضمون ’’بلونت سنگھ کے افسانے ‘‘ ان کی فکشن تنقید کے رویے کو منکشف کرتا ہے۔ در اصل یہ مضمون پڑھ کر بہت سے لوگوں کو غصہ آئے گا اور آنا بھی چاہیے کہ اس مضمون کی روشنی میں ہمارے عظیم افسانہ نگار منٹو اور بیدی بھی ایک گم نام افسانہ نگار بلونت سنگھ سے بھی بعض معاملات میں پستہ قد نظر آنے لگتے ہیں اور خاص کر صنف نازک کے مسئلے پر تو کرداروں کی تخلیق کے ماہر بیدی صاحب کی فکر بلونت سنگھ کی فکر سے کہیں پیچھے نظر آتی ہے۔تاہم فاروقی نے جس بھر پور انداز میں ان افسانوں کا موازنہ کیا ہے اسے پڑھ کر کوئی بھی ان کے خیالات سے بآسانی منکر نہیں ہو سکتا ہے۔در اصل فاروقی بات سے بات نکالنے اور نیا نیا زاویہ پیش کرنے میں ماہر ہیں، وہ اپنی بات بڑے ہی اعتماد اور سلیقے سے قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اور یہی خوبی ہمیں ان کا گرویدہ بناتی ہے۔ یہ مضمون فاروقی کے طرز استدلال اور افسانوی تنقید کی ایک عمدہ مثال ہے۔ وہ لوگ جو سوال کرتے ہیں کہ کیا فکشن پر فاروقی کی تنقید اعتبار حاصل کر سکی ہے اگر یہ مضمون پڑھیں تو انھیں یہ شکایت بے جا کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہو گی۔
اس مضمون میں بلونت سنگھ بھی ہیں، ان کے افسانے بھی۔ان کا عہد بھی اور ان کے افسانوں کی فنی خوبیاں و کمزوریاں بھی عیاں ہیں۔ ان کا طرز گفتگو بھی سامنے ہے اور ان کی لفظیات اور ان کے افسانوی کرداروں کی نوعیتیں بھی بالکل واضح ہیں۔ یہ ایک مکمل مضمون نہیں جو روایتی طور پر بلونت سنگھ کے افسانوں کا تجزیہ پیش کرنے پر مشتمل ہو اور فاروقی کو ویسے بھی افسانوں کے موضوعاتی تجزیے کم ہی پسند ہیں لیکن اس مضمون میں فاروقی نے بلونت سنگھ کے افسانوں کے دو طرح کے باشندوں کا مطالعہ کیا ہے۔ پہلا باشندہ تو بلونت سنگھ کے افسانوں کا ماچو میں یا اینٹی ہیرو نما ہیرو ہے جس کے بارے میں فاروقی کہتے ہیں کہ ’’اس زمانے میں لفظ’ ماچو‘(Macho)ہندوستان میں رائج نہ تھا(یا کم سے کم میں اس سے واقف نہ تھا) ورنہ بلونت سنگھ کے تقریباً تمام جاٹ سکھ مرکزی کرداروں پر یہ لفظ پوری طرح صادق آتا۔‘‘[30]اور دوسرا ان کے افسانوں کی عورت ہے جو بقول فاروقی ’’ایسے افسانے ہیں جن میں انسان، خاص کر عورت کی صورت حال پر المیاتی ہمدردی کی روشنی نظر آتی ہے۔‘‘[31]اس کے علاوہ جو چیز موضوعاتی سطح پر بحث کا موضوع بنی ہے وہ ہے The other یعنی بلونت سنگھ کے افسانوں کا جانور۔ ان تینوں باشندوں کو فاروقی نے بلونت سنگھ کے افسانوں میں بڑی گہرائی اور باریکی سے دیکھا ہے۔اسی لیے بیچ بیچ میں راجندر سنگھ بیدی کی عورتیں بھی آ گئیں ہیں اور پھر فاروقی کی برہمی ہے اور بیدی کی عورتیں۔اس مضمون کا یہ پہلو پریشان کن بھی ہے اور غور طلب بھی کیوں کہ فاروقی نے جس طرح کا تشریحاتی اور تفہیماتی اسلوب اپنا کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنی بات پیش کی ہے اسے پڑھ کر تو اول وقت میں کوئی بھی شخص ان کی با توں سے منکر نہیں ہو سکے گا۔
منجملہ یہ کہ شمس الرحمن فاروقی نے افسانوں پر عملی تنقید بہت کم کی ہے تاہم ان کے مضامین میں تنوع ہے۔ وہ یکسانیت پسند نہیں ہیں۔ انھوں نے افسانوں کی تفہیم کے سلسلے میں جو طریقہ اپنایا ہے وہ زیادہ تر معروضی ہے۔ وہ افسانوں کے خلاصے پیش کرنے والی تنقید سے یکسر دور ہیں۔ افسانوں پر تنقید کرتے ہوئے ان کے سروکار راوی، کردار، انداز پیشکش اور اسلوب وغیرہ رہے ہیں۔ موضوعاتی سطح پر بات کرنے کا ان کا نظریہ الگ ہے۔ وہ کہی ہوئی با توں کو دہرانے کے قائل نہیں ہیں۔ نئے زاویوں کی تلاش پیہم کی روح ان کے تنقیدی مضامین کی جان ہے۔ ان میں فیصلہ کی قوت ہے اور اپنی فکر پر مکمل اعتماد ہے، جس کی وجہ سے ان کے مضامین پڑھنے سے قاری کو کئی علمی فائدے ہو جاتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کی عملی تنقید میں جہاں بہت ساری خوبیاں ہیں وہیں ایک بات یہ کھٹکتی ہے کہ وہ ہر بار جدید افسانہ نگاروں پر بات کرتے ہوئے یا اردو افسانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کے ڈانڈے مغربی افسانہ نگاروں سے ملانے لگتے ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم ہے اور کون اس سے منکر ہو سکتا ہے کہ افسانہ مغرب سے آیا ہے لیکن وہاں سے آنے کے باوجود اس کی جڑیں ہمارے یہاں پہلے سے موجود تھیں اور اگر ان جڑوں کو تسلیم نہ بھی کیا جائے تو مغرب سے مشرق میں وارد ہونے کے بعد افسانہ ہماری اپنی چیز ہو گیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی بہت مستحسن طریقہ ہے کہ ہر افسانہ نگار کا موازنہ کافکا اور دیگر مغربی ادبا( جن سے اکثر فاروقی مثالیں لاتے ہیں ) سے کیا جائے۔خیر جب آدمی کے مطالعے میں وسعت ہوتی ہے تو ایسی باتیں خود بخود نوک قلم پر رواں ہو جاتی ہیں اور مصنف کو شعوری طور پر احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ کس مسئلے پر بات کر رہا ہے اور کہاں پہنچ گیا ہے لیکن یہ اس کی علمیت کا ہی ثمرہ ہوتا ہے کہ وہ بات کو پھر گھماتا ہے اور یہ کہتا ہوا کہ ہاں میں کہاں تھا؟ اپنے اصل مسئلے پر آ جاتا ہے لیکن تب تک قاری اپنے مطلب کی بات کے انتظار میں اوب چکا ہوتا ہے اور اس کا ذہن تفہیم کے بجائے ناقد سے انتقام لینے کے در پے ہوتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی کے بعض مضامین میں یہ کیفیت در آتی ہے۔ لیکن مجموعی سطح پر فاروقی کی افسانہ تنقید نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں ہے۔ مجھے بہ سرو چشم قبول ہے کہ فاروقی نے فکشن تنقید کے حوالے سے بہت کم لکھا ہے لیکن ہم ایک شخص سے کتنی تحریروں کی خواہش رکھ سکتے ہیں ؟ یہ بھی سچ ہے کہ فاروقی اچھا لکھتے ہیں اور اسی لیے لوگ ان سے ھل من مزید کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ تاہم ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فاروقی ہمہ جہت پہلوؤں کی مالک شخصیت ہیں۔ شاعری سے لے کر فکشن، لغات اور لسانیات کے علاوہ بہت ساری بحثوں سے انھیں سروکار رہا ہے۔ ان کی تنقیدی کتابیں اس بات کا بین ثبوت ہیں۔
یہاں میں نے صرف ان مضامین کا تذکرہ کیا یا انھی کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی اور افسانے کی عملی تنقید پر بحث کرنے کی کوشش کی ہے جو’ افسانے کی حمایت میں ‘شامل ہیں، تاہم شمس الرحمن فاروقی نے حال کے دنوں میں بھی فکشن سے متعلق کئی مضامین تحریر کیے ہیں جن پر منٹو کے افسانوں پر مشتمل ان کے تنقیدی نظریات کو ’ہمارے لیے منٹو صاحب‘ کے نام سے شائع کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب موضوع بحث بنی ہے اور بڑے ادیب منٹو پر فاروقی کے سخت وسست کلمات پر مکالمہ جاری ہے، جو اس وقت میرے بحث کا حصہ نہیں۔
حواشی
۱۔شمس الرحمن فاروقی، افسانے کی حمایت میں، پریم چند کی تکنیک کا ایک پہلو،ص ۱۳۹
۲۔ایضاً، ص۱۳۸
۳۔ایضاً،ص ۱۴۳
۴۔ایضاً، ص۱۴۴
۵۔ایضاً،ص ۱۴۸۔۱۴۹
۶۔ایضاً، انور سجاد انہدام یا تعمیر نو،ص ۱۵۴
۷۔ایضاً
۸۔ایضاً
۹۔ایضاً
۱۰۔ایضاً،ص ۱۵۴۔۱۵۵
۱۱۔ ایضاً،ص ۱۵۶
۱۲۔ایضاً،ص ۱۵۸
۱۳۔ایضاً، قمر احسن :اثبات اور انکار کی کشمکش،ص ۱۶۶۔۱۶۷
۱۴۔ایضاً،ص ۱۷۷
۱۵۔ایضاً، مٹی آدم کھاتی ہے : دکھ کی گہرائیاں،ص ۱۸۲
۱۶۔ایضاً
۱۷۔ایضاً،ص ۱۸۳
۱۸۔ایضاً، بلراج کومل کے افسانے،ص ۱۸۴۔۱۸۵
۱۹۔ ایضاً،ص ۱۹۰
۲۰۔ایضاً، یلدرم کی بعض تحریروں میں جنسی اظہار،ص ۱۹۱
۲۱۔ایضاً،ص ۱۹۲
۲۲۔ ایضاً،ص ۱۹۳
۲۳۔ایضاً،ص ۱۹۶۔۱۹۹
۲۴۔ایضاً، باز گوئی اور تازہ گوئی،ص ۲۰۱
۲۵۔ایضاً،ص ۲۰۴
۲۶۔ایضاً،ص ۲۰۱
۲۷۔ایضاً، حواس خمسہ کا باغ : منشا یاد کی دنیا،ص ۲۱۶
۲۸۔ایضاً،ص ۲۱۷
۲۹۔ایضاً،ص ۲۱۹
۳۰۔ایضاً، بلونت سنگھ کے کچھ افسانے،ص ۲۵۱
۳۱۔ایضاً،ص ۲۵۸
٭٭٭