انتساب
لفظ اور خالق لفظ
کے نام
پیش لفظ
اردو میں افسانے کی حیثیت ایک مقبول اور متمول صنف ادب کی ہے۔ ہماری جدید ادبی حسیت کی تخمیر و تشکیل میں دیگر اصناف ادب کے ساتھ اس صنف نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ بظاہر چھوٹی اور محدود کینوس کی صنف معلوم ہونے کے باوجود اس میں تخلیقی اظہار کے متنوع پیرایوں کے لامحدود امکانات کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس محدود کینوس میں اتنی سکت اور وسعت پائی جاتی ہے کہ ہر پل رنگ بدلنے اور ہمہ وقت تغیر پذیر رہنے والی انسانی زندگی کی تمام تر بے کرانی اور اس بے کرانی میں جلوہ افروز مختلف رنگوں کی دنیاؤں کو اپنے اندر سمیٹ سکتا ہے۔
افسانہ نگاری کارِ طفلاں نہیں، فلسفہ طرازی ہے۔ اس میں زندگی کا فلسفہ، فن کے قالب میں ڈھل کر دو آتشہ ہو جاتا ہے۔وہ منظر دیدنی ہوتا ہے جب رنگ صہبا شیشے سے چھلکا پڑ رہا ہو اور ایک دنیا اسے دیکھ کر دم بخود ہوئی جا رہی ہو۔ تحیر کا وصف فن کا اعجاز ہوتا ہے اور ہم جب یہ کہتے ہیں کہ؎
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
تو ہم فن کی تعظیم و تکریم اور اس کی تقدیس کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں۔اس اعتراف کی اپنی اہمیت ہے لیکن اس سے فن کی تفہیم و تنقید کا حق ادا نہیں ہوتا۔ تفہیم و تنقید کا حق ادا کرنے کا اہل ہونے کے لیے بھی آدمی کو خون جگر صرف کرنا پڑتا ہے۔ اس کی استعداد اور توفیق عام نہیں۔ اور پھر اس عمل کی اپنی بھی تو ایک تخلیقی جہت ہوا کرتی ہے۔
اردو میں وقار عظیم کی کتاب’ فن افسانہ نگاری‘ سے شمس الرحمن فاروقی کی ’افسانے کی حمایت میں ‘ تک افسانہ تنقید کی ایک صحتمند روایت پائی جاتی ہے۔ اس روایت میں ممتاز شیریں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے صنف افسانہ سے متعلق نظری مباحث چھیڑنے میں پہل کی۔افسانے میں بیانیہ کے عمل دخل پر بھی سب سے پہلے ممتاز شیریں ہی نے لکھا۔ ممتاز شیریں کے بعد شمس الرحمن فاروقی نے بیانیات Narratology میں ہونے والی علمی پیش رفت کا احاطہ کچھ ایسے اعتماد اور استناد کے ساتھ کیا کہ داستان اور افسانہ دونوں کے طرز وجود اور ان کی شعریات کی بازیافت کا فریضہ انجام دے گئے۔
رضی شہاب پہلی مرتبہ جب ملے تو اندازہ ہوا کہ یہ خون جگر صرف کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ ’افسانے کی حمایت میں ‘ ان کی آزمائش کا قرینہ قرار پائی تو انھوں نے عملاً ثابت کر دیا کہ ہمارا اندازہ غلط نہیں تھا۔ہم نے پہلے ہی دن سے ان کو کہانی کا اسیر پایا۔ ہمارے لیے یہ امر باعث مسرت و اطمینان ہے کہ ان کا یہ کام زیور طباعت سے آراستہ ہو رہا ہے اور اپنے علمی سفر کے آغاز ہی میں اس نوگرفتار افسانہ نے یہ جان لیا کہ فلسفہ طرازی و نظریہ بازی اپنی جگہ، فن پارے کی فنی قدر اس کی دیگر اقدار پر مقدم ہوا کرتی ہے۔
کتاب کی اشاعت پر ہم رضی شہاب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دنیائے علم و ادب اسے بہ نظر تحسین دیکھے گی۔
معین الدین جینابڑے
پروفیسر(اردو)
نئی دہلی مرکز برائے السنۂ ہند
مورخہ ۳؍ ستمبر ۲۰۱۶ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی