سوچنا شاید سب سے مشکل کام ہے، یہی وجہ ہے کہ کم ہی اس کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔۔۔
میں نے بھی آج سے سوچنا شروع کر دیا ہے، اب چاہے آپ ہوں یا کوئی دوسرا، میرے سوچنے پر اب کوئی بھی پابندی نہیں لگا سکتا۔ ایک ایسا وقت ضرور آئے گا جب سبھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ سوچنا ہی تو ہمیں، آپ کو نجات دے گا۔ پھر آپ آخر سوچتے کیوں نہیں۔ سوچنے میں جاتا ہی کیا ہے۔ یہ کوئی بجلی، پانی، گیس، موبائل اور دیگر شہری سہولیات جیسا تو ہے نہیں کہ جہاں اِن کے پاس سے ذرا سا گزرنے پر بھی، ان کا میٹر چلنا شروع ہو جائے۔ جہاں ان تمام بنیادی شہری ضروریات کا حصول آپ کو ایک بڑی قیمت چکا کر ہی حاصل ہوتا ہے۔ وہاں سوچنے جیسی چیز تقریباً مفت ہی ہے۔
سوچتا تو میرا دوست، میرا سنگی ساتھی، میرا یار بھورا بھی تھا۔ اور کچھ زیادہ ہی سوچتا تھا۔ اور وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں اس قسم کی ذہنی عیاشیوں کے لئے نہ تو وقت تھا اور نہ ہی اجازت۔
صدیوں سے غلامی نما مزدوریوں، نوکریوں، چاکریوں، میں جکڑے انسان نما رو بوٹ، جن کا ذہن سالہاسال کی مسلسل بندشوں، پابندیوں اور جکڑن کے بعد اتنا بوجھل، مد ہوش، لاچار، بے کس اور مجبور ہو چکا تھا کہ وہ اب خود پر ہونے والے کسی بھی نوعیت کے استحصال اور ظلم کو محسوس ہی نہیں کر پاتے تھے یا زیادہ سے زیادہ اسے قسمت کا لکھا مان کر اپنے نصیب، اپنی حالت پر صابر و شاکر تھے۔
میرے یار بھورا کی سوچوں میں تھا، یہ بے رحم معاشرہ، وڈیرے کا ظلم، اپنی غریبی، ناداری، کم ہمتی اور طبقاتی نا انصافی، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور۔۔
میرے یار بھورا کے خیالوں میں گتھے تھے، بھوک سے بلکتے، سسکتے ننگ دھڑنگ بچے، پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے سوکھے، بار بار کے نچے جسموں کو چھپانے کی کوشش میں جٹی عورتیں، وڈیرے کی گالیاں، لاتیں، ٹھوکریں سہتے سہتے جوانی میں ہی بوڑھے ہو جانے والے ڈھانچے نما مرد۔
میں اس کو ہر دم، ہر لمحے، ہر پل، ہر سانس گم صم ہی دیکھا کرتا تھا۔ ’’اتنا نہ سوچا کر رے بھورا، چریا ہو گیا ہے ایکدم۔ لگتا ہے تجھے اب حیدرآباد کے چریا اسپتال میں داخل کروانا ہی پڑے گا۔ ‘‘میں اس سے ٹھٹھول کرتا۔ وہ میری طرف اپنی بڑی بڑی کالی سیاہ آنکھوں سے دیکھتا۔۔ اس کی کالی سیاہ آنکھوں کی سیاہی، پاتال کی سیاہی سے ادھار لی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔
مایوسی بلیک ہول سے کہیں زیادہ سیاہ ہوتی ہے ۔۔۔
ہم دونوں ہی اس گاؤں رہتے تھے۔ ایک روایتی گاؤں میں۔ اس کا باپ وڈیرے کا نوکر تھا۔ ایک پشتینی نوکر۔ میرے باپ کی گاؤں میں کریانہ کی دکان تھی۔ جیسے آج بڑے بڑے شاپنگ مالز کا دعوی ہے کہ ہمارے ہاں سوئی سے لے ہوائی جہاز تک سبھی ملتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہماری دکان بھی، گو کہنے میں کریانہ کی دکان بھر ہی تھی، مگر یہاں دال چاول سے لے کر سبزی گوشت تک، سوئی سے لے کر زرعی آلات کے عمومی نوعیت کے سامان تک، بچے کی پیدائش میں درکار چیزوں سے لے کر سفرِ آخرت کیلئے معاون ضروری اشیاء تک، سب کچھ موجود ہوتا تھا۔ اس اکلوتی اور بھرپور چلتی دکان کی بدولت ہی، ہم گاؤں میں نسبتاً خوشحال اور گنے چنے چند آسودہ حال گھرانوں میں جگہ پاتے تھے۔
میری یادوں کی تختی پر پختہ روشنائی سے لکھی روشن تحریر کے مطابق، بھورا سے میری پہلی ملاقات گاؤں کے ہی سرکاری اسکول میں ایک پھٹی پرانی بوری پر ہوئی تھی۔ ہم دونوں ہی کا کچی پہلی کا پہلا دن تھا۔ اور اسکول ماسٹر نے ہم دونوں کو ایک ساتھ ہی سٹا کر بٹھا دیا تھا۔ اتنا سٹا کر کہ اس کے بعد سب چاہ کر بھی ہمیں الگ نہیں کر سکے تھے۔
ازلی رشتے بھی بہرحال کسی دنیاوی عمل سے ہی وجود میں آتے ہیں ۔۔۔
اس دن ہوئی وہ پہلی ملاقات بہت جلد دوستی کے اٹوٹ رشتے میں تبدیل ہو گئی۔ اور جلد ہم گاؤں میں یک جان دو قالب کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ اسکول کے بعد بھی ہمارا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، کبھی کھیتوں میں گنے توڑتے، کبھی نہر پار جھڑ بیریاں ڈھونڈتے، کبھی ٹیوب ویل کی ہودی میں ٹھنڈے یخ پانی میں خود کو ڈبوتے، کبھی اپنے جانی دشمن اسکول ماسٹر رحیم کے گھر پر پتھر مار کر چھپتے، کبھی کنویں کے اندر منہ کر کے آوازیں نکالتے اور ان سب کے بعد کبھی کبھار اپنے اپنے باپوں سے پٹتے، گزرتا تھا۔
’’بابا روٹی بھلے پیٹ بھر نہ دے، مگر پیٹ بھر مار دینے کا بھرپور حق رکھتا ہے۔ ‘‘باپ کا ڈنڈا، کسی چقماق پتھر سا بنا لگتا تھا جو بھورا کے جسم پر برس کراس کے اندر، کہیں بہت اندر دبی چنگاریاں باہر نکالنے میں مشاق ہو گیا تھا۔ پر باپ بھی کیا کرتا، اس کے لاشعور کے نہاں خانوں میں کہیں دبی بدلے کی آگ، اصل حقدار تک تو بوجوہ نہ پہنچ پاتی تھی۔ ہاں بیٹے کو تحفے میں دینے کے بعد تھوڑی سرد ضرور ہو جاتی تھی۔
سارا کھیل ہی اس آگ کا ہے۔ یہاں بھی آگ ہے اور وہاں بھی آگ ۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی بھی مزید پروان چڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کے ہم دونوں نویں جماعت میں آ گئے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آتی جا رہی تھی کہ بھورا اب اکثر و بیشتر باتیں کر تے کرتے کسی انجانی سوچوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ اپنے دماغ کی لا متناہی حد تک پھیلی چراگاہوں میں، اپنی سوچوں کو کسی کھلے ریوڑ کی طرح آزاد چھوڑ دیتا تھا۔ نفرتوں، ذلتوں کی کٹیلی، نوکدار جھاڑیاں کھا کر انتقام کی قوت پیدا کرنے کیلئے۔ اسکا محدود شعور، لا شعور کی لا محدودیت کے آخری کنارے کی تلاش کی سعی لاحاصل میں مصروف تھا۔ وہ کئی با توں پر اس دنیا اور مافیہ کے بندھنوں سے آزاد ہونے پر کمربستہ نظر آتا تھا۔ وہ گویا اس دنیا سے، اس کائنات سے بھی پرے نکل جاتا تھا۔ کسی نئی اور بہتر دنیا کی تلاش میں۔ میں اس کی اس کیفیت سے ڈر جاتا تھا۔ اور اکثر اس کو جھنجھوڑ کر ہوش میں لانے کی کوشش کرتا۔
’’ تجھے نہ داخل کرا دوں چریا وارڈ میں۔ ‘‘ وہ میرے اکثر کیے جانے والے مذاق پر تلملا کر کہتا۔
’’کیا سوچتا رہتا ہے۔ ‘‘ میں ہمیشہ پوچھے جانے والے سوال کو پھر کسی جواب کی امید میں دھراتا۔ پر جواب ہمیشہ کی طرح ندارد ہی ہوتا۔
’’اتنا نہ سوچا کر، صحیح نہیں ہوتا اتناسوچنا۔ ‘‘
’’میں کیا کرو، اب ان سوچوں پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ نجانے کیوں اب میں اپنے آپ کو نارمل محسوس نہیں کرتا۔ ‘‘ اس کی آواز میں بے چارگی ہوتی۔
’’بے حسی بھی کیا اچھی چیز ہے۔ لا علمی میں بھی کیسا مزہ ہے۔ اپنی سوچوں کو دبانے میں کتنا سواد ہے۔ ڈھیٹ بنے رہنے میں کتنا لطف ہے۔ ‘‘ اس نے بقراطی جھاڑی۔ میں تو اسے اس وقت بقراطی ہی سمجھتا تھا۔ میرے فہم سے بلند باتیں تھیں۔
’’پتہ نہیں کیا بات ہے۔ اب وہ ساری باتیں، جنہیں اب تک میں ایک روٹین کی چیز سمجھتا تھا۔ اب جب میں اس پر گہرائی میں جا کر غور کرتا ہوں تو بے چین ہو جاتا ہوں۔ تم شاید براہِ راست تو ان سب سے واقف نہیں ہو، ظاہر ہے ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر سے تمہارا تعلق ہے۔ تمہیں اپنی پیٹ کی آگ بھرنے کیلئے کسی وڈیرے کی لاتیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر بہرحال یہ سب تمہارے سامنے کی ہی تو باتیں ہیں۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کی غربت، افلاس، بھوک، پیاس، لاچارگی، بے بسی، تم سے کچھ اتنی زیادہ چھپی ہوئی بھی نہیں ہے۔ ہم سب کے نصیب میں تو جیسے اماوس کی لمبی سیاہ رات چھا گئی ہے۔ یہ سب میرے لئے ناقابلِ قبول ہے۔ میں اس سیاہ اندھیری رات کو چیر دینا چاہتا ہوں۔ اس کو امیدوں، خوشیوں کے چمکتے سورج سے روشن کر دینا چاہتا ہوں۔ ایک بہتر کل میں بدل دینا چاہتا ہوں۔ میں صرف اپنی زندگی ہی کے بارے نہیں سوچتا، ایسا کرنے سے تو میری سوچ بہت محدود ہو جائی گی۔ بلکہ میں تو سبھی گاؤں والوں کی زندگیوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ اورسوچتا رہوں گا۔ ‘‘ وہ ایک گہری سانس لیتا ہے، پھر میرے طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہتا۔
’’میں چاہتا ہوں تو بھی ان سب با توں کو سمجھ، میرے دکھ کو محسوس کر۔ وڈیرا، ایک بلا ہے۔ ایک ایسی بلا، جس کی خوراک صرف ہاریوں، کسانوں کا خون اور پسینہ اور ان کی عورتوں کی چمڑی اور ہڈیاں ہیں۔ ‘‘
’’ارے میرے یار، میرے سنگھی ساتھی، مجھ سے زیادہ اس گاؤں میں کون ہے، جو تیری با توں کو سمجھتا ہے۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ تو اپنی سوچوں سے اس گاؤں کے نصیب نہیں بدل سکتا۔ تو انہیں وڈیرے کے ظلم و بر بریت سے نہیں نکال سکتا۔ اس کی سفاکیت کے آگے تو کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ ہاری، کسانوں کو ان کا جائز حق بھی نہیں دلا سکتا۔ نہ بھوک سے بلکتے بچوں کو پیٹ بھر کھانا دے سکتا ہے اور نہ لٹی پٹی عورتوں کی عصمتیں ان کو واپس دے سکتا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اس گاؤں کی کتنی ہی نسلیں اس وڈیرے کے آباء و اجداد کے ہاتھوں فنا ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ سب تو صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے اور شاید مستقبل بھی اس سے آلودہ ہو گا۔ ‘‘میں کہتا چلا گیا۔
’’ ہاں اور ایک بات اپنی گرہ سے باندھ لے، آج میرے بھرپور اصرار پر تو نے اپنا آپ میرے سامنے کھول کر رکھ تو دیا ہے، پر آئندہ پھر کبھی یہ سب اپنے منہ سے نہ نکالنا۔ وڈیرے اور اس کے گماشتوں کو تیری ان با توں کی بھنک بھی پڑ گئی تو تیری خیر نہیں۔ ساتھ میں تیرا باپ بھی بے موت مارا جائے گا۔ ‘‘ میں نے اسے ناصحانہ انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر اس نے میری با توں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔
’’کیا؟ میرا باپ بے موت مارا جائے گا۔ ہر روز تھوڑا تھوڑا، گھٹ گھٹ، سسک سسک کر مرنے سے کہیں زیادہ اچھا ہے کہ وہ ایک جھٹکے میں ہی مارا جائے۔ ‘‘مایوسی کی چادر اوڑھے اس کے الفاظ مجھ میں اداسی بھر گئے۔
لفظوں کے جسم میں احساس کی روح چھپی ہوتی ہے ۔۔۔
وقت آگے بڑھا۔ تھوڑا سا اور آگے۔ اور ہم دونوں نے میٹرک پاس کر لیا۔ چند سال پہلے میرے باپ نے میرے بڑے بھائی کو شہر بھجوا دیا تھا، اپنے کام کے سلسلے میں۔ وہ وہاں رہ کر دکان کیلئے تھوک کی خریداریاں کیا کرتا تھا۔ اس نے بھی گاؤں کے ہی اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ پھراس نے شہر میں اپنی موجودگی کو غنیمت جان کر اپنی پڑھائی کے سلسلے کو بھی آگے بڑھایا۔ اور بی کام کر کے ایک اچھی کمپنی میں بھرتی ہو گیا۔ وہاں سیٹ ہونے پر اس نے مجھے بھی اپنے پاس شہر بلوا لیا تاکہ میں بھی اپنی آگے کی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ گاؤں سے نکل کر شہر آنے والے اکثر اس کی روشنیوں میں کھو کر اپنے ماضی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ میرا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ میں بھی گاؤں کے پینڈو سے شہر کا ماڈرن لڑکا بن گیا۔ کیوں کہ میرے میٹرک میں اچھے نمبر آئے تھے، اس لئے ایک اچھے کالج میں میرا داخلہ ہو گیا۔ اور میں اس نئے سیٹ اپ میں کھو گیا۔ اور بھورا کی یادیں جو شروع شروع میں بہت تکلیف دیتی تھیں، آہستہ آہستہ ماند پڑتی گئیں۔
انسان کی بقا کا دارومدار نسیان پر ہے ۔۔۔
وقت کی گھڑی چل رہی تھی۔ بھائی اب ایم بی اے پاس تھا اور میں ایک کوالیفائیڈ انجینئر۔ حالات میں بہت بدلاؤ آ چکے تھے۔ بابا نے بھی اپنی دکان ختم کر دی تھی۔ اب وہ ہمارے ہی ساتھ رہتے تھے۔ گاؤں سے ہمارا رشتہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو چکا تھا۔ پیچھے بچا بھی کیا تھا۔ فقط بزرگوں کی چند بوسیدہ قبریں یا پھر بھورا۔ کبھی کبھار بس کچھ اڑتی اڑتی خبریں ہی ہمارے اندر گاؤں سے جڑی بھولی بسری یادوں کو تازہ کر دیتی تھیں۔ ایسی ہی کئی خبریں مختلف اوقات میں سنائی دیتی رہیں۔ بھورا کا باپ کسی حادثے کا شکار ہو کر مر گیا تھا۔ بھورا اس کے بعد گاؤں چھوڑ کر چلا گیا تھا اور نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ بھورا کے باپ کی موت کے کچھ عرصے بعد وڈیرے کی حویلی پر ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وڈیرہ اور اس کے گھر کے سبھی افراد مارے گئے تھے۔ اب گاؤں صدیوں بعد وڈیروں کی حکمرانی سے آزاد تھا۔ ہاریوں، کسانوں نے وڈیرے کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور اس کے مالک بن بیٹھے تھے۔ ہر جانب سکون تھا، ہر طرف شانتی تھی۔ سبھی کی زندگیاں اب پہلے سے بہت بہتر تھیں۔ ہاں بھورا ڈاکو اور اس کے ساتھیوں نے بھی ضرور سر اٹھایا تھا۔ وڈیرے کو مارنے والا بھی بھورا ڈاکو ہی تھا۔ اس کی کار روائیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ پولیس اس کی تلاش میں تھی، مگر وہ ایک چھلاوہ بنا ہوا تھا۔ یہ اچھی بات تھی کہ اس کا نشانہ طرف وڈیرے اور ساہوکار ہی بنتے تھے۔ غریبوں کا تو ایک لحاظ سے مسیحا تھا۔ وہ اس سے بہت خوش تھے۔ اور اس کو کوئی نیا سلطانہ ڈاکو قرار دے رہے تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مسیحا کبھی نہیں مرتا۔ صرف نام بدل لیتا ہے۔
نئی سیاسی تبدیلیوں کے بعد شہر میں اب ایک نئی سیاسی جماعت برسرِاقتدار آ چکی تھی۔ گو کہ اس جماعت کے سربراہ کی سر گرمیاں ہمیشہ سے ہی مشکوک اور مجرمانہ انداز کی رہی تھیں۔ مگر اقتدار میں آ کر تواسے خوب کھل کر کھیلنے کا موقعہ مل گیا تھا۔ اب پورے شہر میں اس کی حکمرانی جو تھی۔ پورے شہر پر اس کا ہی قانون چلتا تھا۔ روزانہ فائرنگ کے کئی واقعات ہوتے اور اس کے نتیجے میں کئی بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ سڑکوں پر چلنا گویا موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔ سارا شہر یرغمال سا بن چکا تھا۔ سبھی ڈرے ہوئے تھے۔ کون کب مارا جائے، کون کب اغوا ہو جائے، کون کب لٹ جائے، کون کب کسی بھٹکتی ہوئی گولی کا شکار بن جائے، کوئی نہیں جانتا تھا۔
دانے دانے کی طرح، گولی گولی پر بھی اس کے کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے ۔۔۔
اس سیاسی جماعت نے پورے شہر میں جگہ جگہ اپنے دفاتر کھول لئے تھے۔ جو جرائم کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ ہر شخص ان کی چیرہ دستیوں سے خود کو بچانے کی تگ و دو میں لگا تھا۔ اس جماعت کے غنڈہ نما کارکن جب چاہتے شرفاء کو اپنے دفاتر میں بلا کر ذلیل کرتے۔ یا ان کی عزتیں سرِبازار اچھالتے۔ اس شہر کا باسی ہونے کے ناطے میں بھی ان سب کا چشم دید گواہ تھا اور اپنی جانب سے پوری کوشش کرتا تھا کہ ان لوگوں سے جہاں تک ممکن ہو سکے، بچوں۔ مگر ایک دن اپنی تمام تر احتیاطوں کے باوجود میں ان کے چنگل میں پھنس ہی گیا۔
میں اپنے آفس جانے کیلئے معمول کے مطابق گھر سے نکلا۔ میں گاڑی چلانے میں ہمیشہ احتیاط سے کام لیتا ہوں۔ اور نارمل اسپیڈ سے ہی گاڑی چلاتا ہوں۔ آج بھی میں نارمل طریقے سے جا رہا تھا کہ دفعتاً سڑک کی رونگ سائیڈ سے ایک جیپ گولی کی تیزی سے آئی سیدھی میری جانب بڑھی۔ ممکنہ تصادم سے بچنے کیلئے میں نے پوری طاقت سے بریک لگا دیے، مگر پھر بھی وہ جیپ میری گاڑی سے ٹکرا ہی گئی۔
جیپ میں سے موجود لوفر ٹائپ کے چند لڑکے اترے اور سیدھے میری جانب آئے۔ پھر ان میں سے ایک بولا۔
’’سالے، اندھا ہو گیا ہے۔ نظر نہیں آتا۔ ‘‘
میں بھی گاڑی سے اتر گیا۔ اور اپنی گاڑی پر نظر ڈالتے ہوئے غصے سے کہا۔ ’’نظر شاید تم لوگوں کو نہیں آتا۔ ایک تو غلطی خود کی اوپر سے سینہ زوری بھی دکھا رہے ہو۔ ‘‘
’’ اچھا تو ہماری غلطی ہے۔ تیری تو ۔۔۔ ۔ ‘‘
وہ لڑکے میری بات پر مشتعل ہو گئے اور مجھے گھیر کر مارنے لگے۔ میں بھی اپنے دفاع میں ان سے بھڑ گیا۔ گاؤں کا پلا بڑا میں شاید ان پر بھاری بھی پڑ جاتا، مگر پھر نجانے کہاں سے ایک اور جیپ آ گئی۔ اس میں بھی اسی ٹائپ کے لڑکے سوار تھے۔ شاید انہیں کے ساتھی تھے۔ اوپر سے یہ نئے آنے والے اسلحہ بردار بھی تھے۔ انہوں نے پستولیں نکالیں اور ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ اب لڑائی رک چکی تھی اور وہ سب مشتعل لڑکے میرے چاروں جانب گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔
’’گاڑی میں ڈالو اسے۔ دفتر چل کر اس کو مزہ چکھائیں گے۔ ‘‘ان نئے آنے والوں میں سے کوئی بولا۔ پھر انہوں نے مجھے اسلحے کے زور پر جیپ میں بٹھا لیا اور اپنے دفتر لے گئے۔
وہ کون سا ظلم تھا جو انہوں نے مجھ پر وہاں نہ توڑا تھا۔ مجھے ایک ایسے جرم کی بھیانک سزا دی گئی تھی جو میں نے کیا ہی نہیں تھا۔ میں سر سے پاؤں تک زخموں سے لہولہان ہو گیا تھا۔ سارے جسم سے خون نکل رہا تھا۔ کئی ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ پھر انہوں نے اپنا غصہ ٹھنڈا ہونے پر مجھے کسی ویران سڑک پر نیم مردہ حالت میں پھینک کر چلے گئے۔ میں کیسے اسپتال پہنچا مجھے نہیں پتہ۔ کس نے مجھے وہاں پہنچایا کچھ معلوم نہیں۔
ہاں میری آنکھ جب کھلی تو میں اسپتال کے بستر پر تھا۔ سر سے پاؤں تک پٹیوں میں لپٹا ہوا۔ دونوں ٹانگوں پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ بابا اور بھائی بستر کے ایک جانب مغموم سے بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ مجھے ہوش میں آتا دیکھ کر وہ میرے قریب آئے۔ پھر بابا بولے۔
’’کیسا ہے رے تو۔ ‘‘ میں نے جواب دینا چاہا مگر کچھ بول نا سکا۔ شاید جبڑا بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ میں انہیں بس ٹکر ٹکر خالی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔
مجروح جسم تو پلاسٹر سے جڑ سکتا ہے۔ پر مجروح روح کے لئے کوئی پلاسٹر نہیں بنا ۔۔۔
جسم پر ٹوٹی قیامت سے زیادہ روح پر لگے گھاؤ مجھے اذیت پہنچا رہے تھے۔ ذلت اور بے عزتی کا احساس گویا روح کو ہی کچلے دے رہا تھا۔ یہ شہر ہے یا جنگل۔ ایسا تو شاید کسی جنگل میں بھی نہیں ہوتا۔ رہ رہ کر ان ظالموں کے چہرے میری نگاہوں کے سامنے گھومتے رہتے۔ غم اور اس سے بڑھ کر غصہ میری رگوں میں دوڑتا رہتا۔
اسپتال میں داخل ہوئے مجھے آج پورے پندرہ دن ہو چکے تھے۔ بابا کو تو میں نے دوسرے ہی دن اشارے سے بتا دیا تھا کہ آپ کو یہاں میرے پاس چوبیس گھنٹے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں مجھے بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ آپ صرف شام کو ملنے آ جا یا کریں۔
اب میں خود کو کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔ زیادہ تر زخم اب سوکھ چکے تھے۔ میں اب یہاں سے جانا چاہتا تھا۔ مگر ڈاکٹر کا کہنا تھا ایک ہفتہ مزید یہاں رہنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ میں آنکھیں موندے لیٹا اپنے خیالوں میں گم تھا کہ مجھے ایک جانی پہچانی خوشبو محسوس ہوئی۔ میرے دوست کی خوشبو۔ میں نے تڑپ کر آنکھیں کھولیں۔ وہ میرا دوست بھورا ہی تھا۔ گو کہ اب اس کا زیادہ تر چہرہ گھنی بھوری داڑھی مونچھوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ لمبے لمبے گھنگھرال ے پٹّے اور بڑی بڑی خوفناک لال آنکھیں۔ خاکی رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس اور اجرک لپیٹے۔ جسم اس کا پہلے کے مقابلے میں تھوڑا بھاری ہو چکا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اٹھنا چاہا۔
’’میرے یار۔ میرے دوست۔ ‘‘ میرے لب کپکپائے۔
’’ لیٹا رے۔ لیٹا رے۔۔ کیسا ہے تو؟ ‘‘ اس نے مجھے اپنے بڑے بڑے سخت ہاتھوں سے دوبارہ لٹاتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا۔
’’تیرے سامنے ہوں۔ ‘‘
’’ہمم۔ دیکھ ہی رہا ہوں۔ شہر آیا ہوا تھا ایک ضروری کام سے۔ سوچا اس بار تجھ سے ملے بغیر نہیں جانا۔ تیری بہت یاد آ رہی تھی۔ اب صبر نہیں ہو پا رہا تھا۔ تین دن پہلے تیرے گھر گیا تو تیرے بارے میں پتہ چلا۔ اور اُن کے بارے میں بھی جنہوں نے تجھے اس حال پر پہنچایا۔ بہرحال دو دن تک چند ضروری اور ناگزیر کاموں میں مشغول رہا۔ اب ان سے فارغ ہو کر میں سیدھا تجھ سے ملنے یہاں چلا آیا۔ ‘‘
"بس یار چھوڑ اتنی لمبی تمہید کو، تو بتا کیسا ہے ؟ کیا کر رہا ہے ؟ ‘‘ میں اس کو اچانک پا کر گویا اپنی ساری تکلیفوں کو، اپنے سارے زخموں کو، اپنی ساری ٹوٹی ہڈیوں کو جیسے بھول سا گیا۔ اک جوش و جذبہ میرے نس نس میں سرایت کر گیا ہو جیسے۔ ساری اذیتیں، ساری تکلیفیں، ساری چوٹیں، ساری ٹیسیں، جیسے ایک آن میں مٹ گئی ہوں، میرے دوست کی بدولت۔
وقت تو سارا ایک سا ہی ہوتا ہے، اس کو مختلف تو ہمارا سوچنا بناتا ہے ۔۔۔
’’ ایک دم فٹ فاٹ، ایک دم تگڑا۔ مجھے کیا ہونا ہے۔ اور میرا کون کیا بگاڑ سکتا ہے۔ ‘‘اس کی آواز میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔
’’گاؤں کی سنا، میں سنا تھا کہ تیرے بابا کسی حادثے کے نتیجے میں اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ یار جب میں نے یہ سنا تھا تو بہت دکھی ہوا تھا۔ مگر مجھ تک یہ خبر بہت دیر سے پہنچی تھی۔ میں نے تجھ سے رابطہ کرنا چاہا تھا۔ مگر پتہ لگا تھا کہ تو گاؤں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ مجھے ذرا تفصیل سے بتا۔ ‘‘
وہ میرے قریب رکھے ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ اور اجرک کے پلو کو مزید اپنے چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے، مجھے اپنے باپ کے ساتھ پیش آئے حادثے کی اور اس کے نتیجے میں خوداس پر کیا بیتی، ان سب کی تفصیل اگلے ایک گھنٹے تک بتاتا رہا، جس کا لبِ لباب یہ تھا۔
’’میرے باپ کو وڈیرے نے ایک غلطی کی پاداش میں سزا کی غرض سے اپنے کارندوں کے ہاتھوں اتنا پٹوایا کہ اس کا نحیف جسم اس کو برداشت نہ کر سکا اور وہ مر گیا۔ اس کی موت پر پردہ ڈالنے کیلئے وڈیرے نے اس کی لاش کو چلتے تھریشر کے نیچے دے دیا اور مشہور کر دیا کہ وہ اپنی غلطی کی وجہ سےا س کی زد میں آ گیا ہے۔ اس پر ہوئے تشدد کے سارے نشان تھریشر نے چھپا لئے تھے۔ پر مٹھی میں سمائے جانے والے، چھوٹے سے گاؤں میں سبھی کو اصل بات کا علم تھا۔ مگر اس ظالم کا کوئی کیا بگاڑ سکتا تھا۔ میں نے اپنے باپ کی کٹی پھٹی لاش کو جیسے تیسے زمین کے سپرد کیا اور گاؤں سے نکل گیا اور کچے کی طرف چلا گیا۔ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی جمالو ڈاکو تک میری خبر پہنچ چکی تھی۔ اس نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنا بیٹا بنا کر اپنے ڈکیت گروہ میں شامل کر لیا۔ اس کی گروہ میں میرے جیسے اور بھی بہت سے نوجوان ایسے تھے جو وڈیروں اور ساہو کار بنیوں کے ستائے ہوئے تھے۔ ایک تو میں پڑھا لکھا تھا، دوسرے خاص مجھے جمالو نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ لہذا جب ایک پولیس مقابلے میں جب جمالو مارا گیا تو سبھی ڈاکوؤں نے مجھے متفقہ طور پر گروہ کا سردار مان لیا۔ پھر میں نے خود پر اور اپنے جیسے سارے مظلوموں پر کئے جانے والے ایک ایک ظلم کا حساب لینا شروع کیا۔ اس ظالم وڈیرے اور اس کے پورے خاندان کو تو سب سے پہلے لوٹا اور اس کے بعد قتل کر دیا۔ پھر اس کی حویلی کو آگ لگا دی۔ اس دن سارا گروہ بہت خوش تھا، مال جو بہت تگڑا لگا تھا، کروڑوں روپے کے گہنے اور نقدی۔ ہاں زمینوں کے سارے کاغذات بھی ہاتھ لگے تھے۔ جو بعد میں، میں نے سبھی گاؤں والوں میں بانٹ دئے، آخر وہ ان ہی کی زمینیں تھیں، جو گروی کی شکل میں وڈیرے کے چنگل میں پھنسی تھیں۔ اس کی موت سے ہی ہمارے گاؤں میں خوشحالی آئی اور ظلم و بربریت کی لمبی سیاہ رات کا خاتمہ ہوا۔ ان کروڑوں روپوں سے میں نے اپنے گروہ کو خوب ترقی دی۔ ان کو زیادہ جدید ہتھیار لے کر دیئے۔ ان کو مزید ماہر بنایا۔ اُس ظالم وڈیرے کی موت اور اس کے نتائج کو دیکھ کر میں خود انگشت بدنداں رہ گیا کہ صرف ایک شخص کی موت کتنا بڑا انقلاب لا سکتی ہے۔ اب میری زندگی کا مقصد لوگوں کو اس جیسے مزید وڈیروں اور ساہو کار بنیوں سے آزاد کرانا تھا۔ میری بچپن کی سوچوں کو جیسے عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا تھا۔ "
میں اس کی داستان سن کر ششدر رہ گیا۔ یہ سب میری سوچ سے آگے کا تھا۔
’’تو تو نے اپنی سوچوں کو عملی شکل دے ہی دی۔ ‘‘
"ہاں یار دیکھ نا، یہ سوچیں ہی تو ہماری نجات دہندہ ہیں۔ جب تک ہم خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف نہیں اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ظالم اپنے ظلم ہم پر ڈھاتے رہیں گے۔ ہماری بے حسی ہی تو ان کی اصل طاقت ہے۔ ہمارا کسی پر ہوتے ظلم پر، اس بات پر شکر ادا کرنا کہ ہم تو محفوظ ہیں۔ اصل تباہی کی جڑ ہے۔ آج وہ، کل تمہاری باری ہے۔ اپنی طرف آنے والے ممکنہ خطرے کا ادراک کر کے اس کے خلاف ڈٹ جانا ہی اصل بات ہے۔ نہ یہ کہ منہ ہی چھپا لیا جائے۔ ‘‘
انسان اور شتر مرغ میں کوئی اور چیز ملتی رکھتی ہو یا نہیں، خطرے کے وقت زمین میں منہ دبا لینا خوب مماثلت رکھتا ہے ۔۔۔
’’ شکر ہے کہ میں نے ظلم سے نجات پانے کیلئے سوچا اور اپنی سوچ کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ ‘‘
میں اس کی با توں پر مبہوت سا اسے تکا ہی جا رہا تھا۔
اس نے اپنی بغل میں دبا ایک اخبار نکالا اور میرے سامنے کر دیا۔ ایک بڑی سرخی تھی۔
’’ ۔۔۔ پارٹی کے سیاسی دفتر پر مسلح افراد کا حملہ۔ دس ہلاکتیں۔ کئی شدید زخمی۔ مسلح حملہ آور با آسانی فرار۔ مخالف سیاسی پارٹی پر شبہ کا اظہار۔ ‘‘
’’ دو دن اسی میں مصروف رہا۔ ‘‘
میں نے طمانیت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ یہ شہر بھی ایک گاؤں ہی ہے۔ یہاں بھی وہی وڈیرا شاہی موجود ہے۔ فرق بس یہ ہے یہاں انہوں نے سیاسی لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ ایک فاشسٹ پارٹی کے غنڈے ایم این اے اور ایم پی اے کے روپ میں گھوم رہے ہیں۔ لوگ وہاں بھی ظلم کا شکار تھے، یہاں بھی ہیں۔۔ لوگ وہاں بھی نا انصافی کا شکار تھے، یہاں بھی ہیں۔۔ لوگ وہاں بھی گھٹ گھٹ کر سانس لیتے تھے، یہاں بھی لیتے ہیں۔ وہاں بھی لوگ بنیوں کے استحصال کا شکار تھے، یہاں بھی فیکٹری مالکان کے استحصال کا شکار ہیں۔ ان سب سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے۔ ‘‘
اس نے اپنے نیفے سے گن نکال کر میرے ہاتھ میں دے دی۔ اسکا ٹھنڈا لوہا میرے اندر کی جمی برف کو پگھلا گیا۔ میں نے اسے مضبوطی سے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور دوسرے سے بھورا کو تھام لیا۔
" ڈر اے شہری وڈیرے۔ کیوں کہ میں نے لوگوں کو تجھ سے نجات دلانے کیلئے اب سوچنا شروع کر دیا ہے۔ ‘‘
٭٭٭