میری آنکھ عموماً اس کی تیز اور لگاتار دی جانے والی آوازوں سے کھل جاتی تھی۔
’’کچرے والا بھئی۔۔ کچرے والا۔‘‘
رات گئے تک لکھنے لکھانے کے کاموں میں مشغولیت اکثر و بیشتر دو ڈھائی بجا دیتی تھی۔ ایسے میں صبح صبح کچی نیند سے اٹھنا ذرا مسئلہ ہی لگتا تھا۔ مگر اٹھنا تو بہرحال پڑتا ہی تھا۔ کچرا دینا جو ضروری تھا۔ میری بیوی اور بچے اپنی نفاستِ طبع کے باعث کچرے کے ڈس بن اٹھاتے ہوئے کتراتے تھے۔ بیوی تو علم بغاوت بلند کرتے ہوئے یہاں تک کہہ چکی تھی کہ مجھ سے نہیں ہوتا یہ کام سویرے سویرے۔ اگر میں یہ کروں گی تو پھر سارا دن مجھے اس کی بدبو کے سوا کچھ اورسونگھنا محال ہو جائے گا۔ پھر نہ کہنا کہ سالن جل گیا یا مصالحہ صحیح طریقے سے بھنا نہیں۔ صبح سویرے در پیش اس مسئلے کا حل میں نے یہ نکالا کہ کچرے سے بھرے ڈس بن رات کو ہی گھر سے باہر رکھنا شروع کر دیئے۔ لیکن چند دنوں میں ہی کچرے میں موجود قابلِ استعمال اشیاء کیلئے ہونے والی آوارہ کتوں کی باہمی لڑائیوں اور شریر بلیوں کی چڑھائیوں نے ہمارے سمیت پوری گلی کی ہی نیندیں اڑا دیں۔ سامنے رہنے والے بیگ صاحب تو با قاعدہ تنتناتے ہوئے آن ٹپکے اور شکایتی انداز میں گویا ہوئے، ’’جناب آپ کا یہ کچرے کے ڈس بن رات کو گھر سے باہر رکھنا کچھ مناسب نہیں۔ کیا آپ کو پوری رات چلی پانی پت کی اس لڑائی کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ میرے پوتے تو ان آوازوں سے چیخیں مار مار کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ پھر پوری رات خود بھی جاگتے ہیں اور ہمیں بھی جگاتے ہیں۔‘‘
اب میرے پاس فقط معذرت خواہانہ انداز میں اپنی غلطی کی معافی مانگنے اور کچرا اندر رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
کچرے والا لڑکا، اپنے بوڑھے معذور باپ کے ساتھ ایک گدھا گاڑی میں آیا کرتا تھا۔ وہ آوازیں لگاتا، گھروں کی گھنٹیاں بجاتا اور کنڈیاں کھڑکاتا آگے آگے چلتا۔ اس دوران پیچھے پیچھے اس کا باپ گدھا گاڑی دھیمی رفتار سے آگے بڑھاتا رہتا۔
چودہ پندرہ سال کے اس کچرے والے افغانی لڑکے کی بلند آواز یں گلی میں داخل ہوتے ہی سنائی دینے لگتی تھیں اور میں کسمسا کر اٹھنے کی کوشش میں جٹ جاتا تھا۔ آخرکار اس کی بجائی گھنٹی پر اٹھ بیٹھتا اور ڈس بن اٹھا تا ہوا گیٹ کھولتا اور انہیں باہر رکھ دیتا، پھر ان کے خالی ہونے کے انتظار میں کھڑا ہو جاتا اور چپ چاپ اسے اور اس کے تیزی سے چلتے ہاتھ پیروں کو دیکھتا رہتا۔ اس کی حالتِ زار پرکڑھتا رہتا۔ مجھے اس پر بہت ترس بھی آتا تھا، یہی وجہ تھی کہ میں اکثر اسے رات کا بچا کھانا اور پرانے کپڑے وغیرہ اسے دیتا رہتا تھا۔ سامنے والے بیگ صاحب یہ دیکھتے تو کہتے۔
’’آپ کا یہ کھانا وغیرہ انہیں دینا ایک ایکدم بیکار ہے۔ یہ لوگ صاف ستھرے کھانے کے عادی نہیں۔ میں نے اس لڑکے کو خود کچرے میں سے بریانی کی بوٹیاں نکال کر کھاتے دیکھا ہے۔ اور آپ جو اسے ہر ہفتے اپنے پرانے کپڑے دے دیتے ہیں، کبھی آپ نے اسے پہنے دیکھا ہے۔ یقیناً یہ بیچ دیتے ہوں گے۔ میں نے خود صدر میں پرانے کپڑے بکتے دیکھے ہیں۔‘‘
میں بیگ صاحب کی بات پر ہمیشہ مسکرا کر رہ جاتا۔
اندرونِ سندھ سے آئے مہمانوں کی واپسی کے بعد سے میں محسوس کر رہا تھا رات کو اکثر میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا تھا۔ لگتا کہ جیسے کسی کیڑے نے کاٹا ہے، مچھر کی موجودگی کا امکان بھی، گلوب جلانے کی وجہ سے رد کرنا پڑا۔ پھراس مسئلے کا حل میں نے یہ نکالا کہ رات کو ایمرجنسی لائٹ لے کر بستر پر ساکت لیٹا رہا۔ بیس پچیس منٹوں کے بعد پیٹ پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا۔ آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر میں نے پیٹ کو چھوا اور اُس انجان چیز کو چٹکیوں کی گرفت میں لیتے ہوئے ایمرجنسی لائٹ جلا دی۔ یہ ایک کھٹمل تھا۔ ’’ یہ کہاں سے آ گیا۔‘‘میں نے اپنا سر ہی پیٹ لیا جلدی سے اپنی بیوی نائلہ کو اٹھا یا۔ وہ بھی اسے دیکھ کر ششدر رہ گئی۔
’’جب ہی تو میں کہوں، رات اتنی بے آرامی میں کیوں کٹ رہی تھی۔ مانیں یا نہ مانیں۔ یہ ضرور آپ کے ان رشتے داروں کی ہی کرامت ہے۔ وہ ہی انہیں اپنے سامان کے ساتھ لائے ہوں گے۔‘‘
اس کی بات مناسب تھی، چنانچہ میں نے اثبات میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’بات تو یہی لگتی ہے پر اب اس کا جلد حل نہ نکالا گیا تو یہ اپنی تعداد میں اضافہ کر کے سارے گھر میں پھیل جائیں گے۔ کم بخت کھٹ۔۔ ۔‘‘
میرے منہ سے لفظ کھٹمل نکلنے سے پہلے ہی میری بیوی نے میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، ’’ان کا نام نہیں لینا چاہیے، ورنہ یہ مزید ہو جاتے ہیں۔‘‘
’’تم بھی کیا ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کی بات کرتی ہو، ویسے یہ راز علم حیوانیات والوں کونہ بتا دینا۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے۔
نائلہ نے کچھ ایسے انداز میں میری طرف دیکھا، جیسے وہ میری لاعلمی کا ماتم کر رہی ہو، ’’ٹھیک ہے، اب اس ضمن میں، میں کیا کہہ سکتی ہوں ویسے یہ ٹوٹکہ لوگوں کا آزمودہ ہے اور ضروری تو نہیں کہ جو باتیں، سائنس کی کتابوں میں نہ لکھیں ہوں، وہ سب توہم پرستیاں ہی ہوں، ہو سکتا ہے کہ سائنس والے اپنے جہل کی بدولت ہی ان سب باتوں سے انجان ہوں اب تک۔ خیر میں صبح احسان بھائی کو فون کرتی ہوں، آپ کو تو شاید علم نہیں ہو گا، مگر چند ماہ پہلے ان کے گھر میں بھی یہی موذی اپنے درشن کروانے آ دھمکا تھا۔ وہ لوگ کافی پریشان رہے، کئی مشہور برانڈز کی کیڑے مار دوائیں اور اسپرے استعمال کئے، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، پھر احسان بھائی کے کسی زمیں دار دوست نے انہیں کوئی دوائی بھجوائی تھی، اس کے تیزاثرسے ہی یہ بلا ٹلی۔ شاید وہ دوا اب بھی ان کے پاس موجود ہو۔ میں معلوم کرتی ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے بول دو انہیں اس بارے میں، خیر ابھی تو سو ؤ۔‘‘میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
کہنے کو تو میں سونے لیٹ گیا، مگر پوری رات ہی بے چینی کے عالم میں گذری۔ ڈراؤنے ڈراؤنے خواب نظر آتے رہے، جس میں ڈائنوسار کی جسامت کے کھٹمل میرے اوپر حملہ آور ہوتے رہے۔
صبح کچرے والے کی گھنٹی پر میری آنکھ ذرا مشکل سے کھلی۔ جلدی جلدی بستر چھوڑا اور ڈس بن اٹھا کر کچرا دینے چل پڑا۔ وہ جب ڈس بن اٹھانے میرے پاس آیا تو میں نے اسے بہت بجھا بجھا اور نڈھال سا پایا۔ اس کی روایتی پھرتی بھی مفقود تھی۔
’’خیر ہے، کیا طبیعت خراب ہے؟‘‘میں نے استفسار کیا۔
’’ہاں صاحب، کل رات سے نزلہ زکام کھانسی ہو رہا ہے، شاید ابھی بخار بھی ہے۔‘‘اس نے ڈس بن گدھا گاڑی میں خالی کرتے ہوئے کہا۔
’’تو کوئی گولی وغیرہ کھائی یا ڈاکٹر وغیرہ کو دکھایا۔‘‘
’’کیا صاحب، یہ تو ذرا سا مسئلہ ہے۔ ویسے بھی دوا کی اپنی اوقات کہاں۔ لوٹ پوٹ کرخود ہی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ فکر مت کرو۔‘‘ اس نے لا پروائی سے کہا اور ڈس بن میرے پاس رکھتے ہوئے، اگلے مکان کی جانب بڑھ گیا۔ کہنے کو تواس نے کہہ دیا کہ فکر نہ کرو، مگر میں فکر مند تھا، کیونکہ مجھے اس کی خراب حالت دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ شدید نوعیت کے وائرل اٹیک کا شکار ہے، جس کا مطلب اسے کئی دن آرام کرنا چاہئے اور باقاعدگی سے دوا دارو بھی کرنا چاہئے۔
’’پھراس کی غیر حاضری میں اتنے دنوں تک گھر کے کچرے کا کیا ہو گا۔‘‘ ایک خود غرضانہ سوچ اندر سی ابھری۔ ’’چلو ہمیں کیا، وہ نہیں تو کوئی اور ہو گا اس کی جگہ، اس کا کوئی بھائی بند۔‘‘اپنے خیال کے کٹھور پن سے میں خود کانپ گیا۔ میں ڈس بن ہاتھ میں لئے کچھ دیر تک اسے کھانستا دیکھتا رہا، پھر اندر آ گیا۔
ناشتے وغیرہ کے بعد ایک مسودے کو نظرِ ثانی کیلئے لے کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ نائلہ آ گئی۔
’’میں احسان بھائی کو فون کر دیا ہے۔ ان کے پاس ابھی بھی وہ دوا بچی ہے۔ کہہ رہے تھے کہ کسی کے ہاتھ آج ہی بھجوا دیں گے۔ ساتھ انہوں نے اس کے استعمال کا طریقہ بھی سمجھا دیا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے یہ بہت اثر دار دوا ہے۔ مگر ساتھ ہی شدید زہریلی بھی۔ بہت احتیاط سے استعمال کی جائے۔ ڈالتے ہوئے منہ پر لازمی کپڑا وغیرہ باندھ لیں۔ اور بعد میں اچھی طرح ہاتھ ضرور دھوئیں۔ ان شاء اللہ، ایک ہی بار ڈالنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، جیسے ہی آئے مجھے بتا دینا میں ڈال دوں گا۔‘‘ میں نے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
دوا شام آئی تک آ گئی۔ کھانسی کے شربت کی خالی بوتل میں وہ دوا موجود تھی۔ احسان بھائی نے نائلہ کو دوا ڈالنے کا مکمل طریقہ سمجھا دیا تھا۔ لہذا میں اس سے پوچھتا گیا اور ڈالتا گیا۔ اس سے فراغت پا کر میں نے ہاتھ وغیرہ اچھی طرح دھوئے اور شیشی کو ایک پلاسٹک شاپر میں ڈال کر ڈسٹ بن کے حوالے کر دیا۔ چند گھنٹوں کے انتظار کے بعد کمرہ، ایک پرسکون نیند لینے کیلئے ایکدم تیار تھا۔
کھٹملوں سے نجات ملی تو اس کے بعد کئی راتیں بہت سکون سے گذر گئیں۔ یہاں تک کہ میں صبح کچرا دینے بھی نہیں اٹھ سکا۔ اور یہ ذمے داری عارضی پر نائلہ نے اٹھا لی۔ اور جلد ہی مجھے اس بارے میں متنبہ بھی کر دیا۔
لاشعور سے شعور میں آنے کا سبب کچرے والے کی آواز ہی تھی۔ میں غنود گی کے عالم میں اٹھا اور ڈس بن لے کر باہر رکھ دیئے۔ کچرا سمیٹنے والا پرانا لڑکا موجود نہیں تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور یہ کام کر رہا تھا۔ شاید اس کا کوئی چھوٹا بھائی وغیرہ تھا۔ میں نے گاڑی پر بیٹھے اس کے باپ کی طرف دیکھا اس کا چہرہ روندھا ہوا تھا۔ اسی وقت بیگ صاحب بھی اپنی ڈس بن لے کر باہر نکل آئے۔
’’السلام وعلیکم بیگ صاحب۔۔ صبح بخیر۔۔ ۔ سب خیریت ہے نا؟‘‘
’’میں تو ٹھیک ہوں، لیکن کیا آپ کو پتہ چلا، وہ جو لڑکا پہلے کچرا سمیٹنے آتا تھا، تین دن پہلے مر گیا ہے۔‘‘
’’کیسے بھئی، اچانک وہ تو بھلا چنگا تھا۔ آخری بار جب اسے دیکھا تو اسے بس نزلہ زکام ہی تھا۔‘‘
’’ہاں جی نزلہ زکام ہی تھا۔ وہ میں آپ کو کہتا نہیں تھا کہ یہ لوگ کچرے میں سے بھی چیزیں اٹھا کر کھا جاتے ہیں۔ بس کچرے چھانٹتے ہوئے اسے کھانسی کے شربت کی آدھی بھری شیشی مل گئی اور اس نے وہ پی ڈالی۔ بس جناب چند گھنٹوں میں ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ نجانے کس نے وہ بوتل۔۔ ۔۔‘‘ بیگ صاحب کی بات جاری تھی۔ مگر میرے حواسوں نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔
٭٭٭