بہت سے شعراء نے زیبی کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کیا جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
رئیس امروہوی:
زیب النساء زیبی کو قدرت نے فیاضی کے ساتھ فہم و ادراک اور مشاہدات کی قوت سے شناسا کیا ہے۔ (٥)
عصمت چغتائی:
زیب النساء زیبی اور ان کی ذہانت و تخلیقی کارکردگی پر نا صرف پاکستان بلکہ دنیائے اھب ہمیشہ فخر کرتا رہے گا۔ زیبی نے اپنی تحریروں کو سچائیوں سے ہم آہنگ کرنے کی جہت کی ہے۔ (٦)
پروفیسر سحر انصاری:
زیب النساء زیبی ایک روحِ مضطرب کا نام ہے۔ ان کا یہ اضطراب انہیں نت نئی سمتوں میں سفر کرنے پر اکساتا رہتا ہے۔ ہہی سبب ہے کہ شاعری کے علاوہ تنقید، تبصرے، تحقیق، افسانہ نگاری، کالم نویسی، ناول نگاری کے میدان میں وہ تیزی سے آگے بڑھی ہیں۔ کئی ندرت پسند شعراء کی طرح انہیں بھی شاعری میں نئی جہات کی تلاش رہتی ہے۔
وہ زندگی کے بیشتر رنگوں سے متاثر ہوئی ہیں۔ وہ موضوعات جو ذات، کائنات، معاشرے اور انسانی تضادات کے حوالے سے شاعری کا جزو بنتے رہتے ہیں۔ زیبی کی شاعری میں ان کا پر تو نظر آتا ہے۔ زیبی کی تروینیاں اپنے اندر موضوعات کا تنوع رکھتی ہیں۔ انہوں نے تروینی کو عنوان دے کر اس کی تفہیم میں آسانی پیدا کی ہے۔ (٧)
ذکی عثمانی:
زیب النساء زیبی کو قدرت نے بہت فیاضی سے تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ان میں تخلیقی سوتے کچھ ایسے زور و شور سے جاری ہیں کہ اگر قلم ہاتھ میں آ جائے تو رکنے کا نام نہیں لیتا اور اس بے تحاشہ مشق نے ان کی صلاحیتوں میں اور اضافہ کر دیا ہے۔
زیبی نے "تروینی" میں بھی خوب کمال دکھایا ہے۔ ان کی بیشتر تروینیوں کے مصرعے دل میں چبھ جانے کی خاصیت سے بھرپور ہیں۔ ان کی تروینیاں "ترشول" کی طرح ہیں جن میں تین نوکیلے پھل ہوتے ہیں۔ اگر اتنی خوبصورتی سے تروینی لکھی جائے تو یہ صنف اردو شاعری کا مستقبل بن سکتی ہے۔ (٨)
پروفیسر شفیق الرحمٰن الٰہ ابادی:
زیبی کی تروینیوں میں الفاظ کی فسوں کاری کے بجائے حسن، سادگی اور وارداتِ قلبی کی حقیقی ترجمانی نظر آتی ہے۔ جزبے کی صداقت اور اسلوبِ اظہار نے ان کی تروینیوں میں تاثیر پیدا کر دی ہے۔ (٩)