عشق شیریں نے اپنا کام کیا
آ جنون نے اُسے سلام کیا
جیب و دامن کو چاک چاک کیا
تن کو زیب لباسِ خاک کیا
پاؤں وحشت نے اپنے پھیلائے
ہاتھ سودے نے اس کو دکھلائے
چھوڑ کر کوہ دشت میں آیا
چرخ کی طرح گشت میں آیا
ہر مغیلان کو آشنا سمجھا
ہر بگولے کو دلربا سمجھا
شیر و دد ہمدم و شفیق اُس کے
وہی محرم وہی رفیق اُس کے
غول آہو کے ساتھ تھا
گاہ اُٹھتا تھا گاہ گرتا تھا
یاد کر کے اُس کے گیسو کو
چوم لیتا تھا شاخِ آہو کو
چشم کا اُس کے جو گزرتا خیال
دیکھتا غور سے وہ چشم غزال
جب مِژہ کا تصور آتا تھا
خار آنکھوں میں وہ لگاتا تھا
یاد آتی جب اُس صنم کی کمر
دیکھ لیتا پلنگ کو جا کر
جب دل بے قرار گھبراتا
کوہ پر گاہ نہر پر آتا
کتنا دل کو وہ زار بہلاتا
نہ بہلتا ہزار بہلاتا
داغِ دل رشکِ داغِ لالہ تھا
نہ تھا صحرا وہ باغ لالہ تھا
اُس کو اک لحظہ بھی نہ تھا آرام
گر پڑا جس جگہ وہی تھا مقام
بستر خاک تھا اُسے قالین
یار پہلو تصور شیریں
دیدۂ غول تھا چراغ اُس کا
اور مغیلان تھا خانہ باغ اُس کا
داغ پہلو میں لب پہ نالہ تھا
یہ سپر تھی وہ اور بھالہ تھا
ہمدم اور آشنا سے تھا مایوس
ہاتھ تھا اور زانوِ افسوس
ہوتا جب گرسنہ وہ جان حزیں
دوڑتا سمت چشمہ شیریں
دیکھ کر موج شیر کو کہتا
کاش اس میں مرا لہو بہتا
غرض اسی حالت میں فرہاد کی زندگی تمام ہوتی، شام سے صبح اور صبح سے شام ہوتی۔ کبھی چپ رہتا، کبھی اپنے دل سے یوں باتیں کرتا: او خانہ خراب! تو نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ دین و دنیا دونوں سے کھویا، اے آنکھ! تو نے کہاں کی دشمنی نکالی۔ کیوں اس کی صورت پر نظر ڈالی۔ ہائے میں کیوں اس ملک میں آیا۔ اپنے بیگانوں کو چھوڑ کے دشت گردی میں پھنسا۔ وہ شاہزادی، میں فقیر۔ او چرخ تفرقہ پرداز! کیا تجھے مشق ستم کے لیے کوئی اور نہ تھا جو مجھی کو تو نے دام عشق میں پھنسا کر سودائی بنایا اور موت! تو بھی معشوقانہ ناز کرنے لگی۔ او شا پور! تو نے میرے ساتھ بڑی عداوت کی۔ یہاں بُلایا، قیامت کی۔
جب جنگل میں دل گھبراتا۔ آبادی میں آتا، نالہ و فریاد کرتا۔ ہر ایک کا عیش برباد کرتا، شیریں کے محل کے گرد پھرتا اور نہایت درد سے یہ عاشقانہ غزل پڑھتا:
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
گئے ہوش و خرد عشقِ لبِ جاں بخش جاناں میں
قیامت ہے ہماری ناؤ ڈوبی آبِ حیواں میں
اگر میں جا نکلتا ہوں خیالِ قدِ جاناں میں
بگولے سرو کا عالم دکھاتے ہیں بیاباں میں
دکھا کر مانگ کی افشاں تری زلفوں نے دل چھینا
ٹھگوں نے مال لوٹا کیا قیامت ہے چراغاں میں
جھڑی اشکوں کی چھوڑے گی گرا کر خانۂ تن کو
ٹکے گا کس طرح یہ قصر بے بنیاد باراں میں
میں شیدا تجھ سے یکتا کا ہوں بلبل گل پہ مفتون ہے
محبت فرق بتلاتی ہے خود انسان و حیواں میں
نہ ہوں احباب کیوں مایوس مجھ بیمار الفت سے
جو دیکھی فال نکلا سورۂ یٰسین قرآں میں
مقدر اُس کو کہتے ہیں یہ ہے تقدیر کا لکھا
عدو ہو زیب محفل ہم نہ پہنچیں نرم جاناں میں
تڑپتا لوٹتا آئے گا دیوانہ اگر تیرا
نظر آئیں گے جفتے سیکڑوں محشر کے داماں میں
مری آنکھوں میں دم بھر بھی نہ آئی چین لینے کو
سبک سمجھا ہے مجھ کو نیند نے بھی ہجر جاناں میں
نہیں غم قتل ہونے کا خوشی دل کو یہ حاصل ہے
لگائی خون نے مہندی رضاؔ شمشیر براں میں
جب فرہاد کا عشق روز افزوں ہوا، تمام شہر میں اُس کی خبر ہوئی۔ شیریں کو بھی معلوم ہوا۔ وزرا امرا سب ماہر ہوئے۔ آپس میں مشورہ کیا کہ اس حال سے شاہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے ورنہ بُرا ہو گا۔ ہر ملک میں چرچا ہوگا۔ ممکن ہے کہ بادشاہ جب واقف ہو تو کوئی ایسی تدبیر نکالے جس سے بدنامی دفع ہو۔
ایک دن دربار میں موقع پا کر فرہاد کا ذکر چھیڑا، مفصل بیان کیا کہ جہاں پناہ اس بات سے واقف ہیں کہ جب شیریں کو شیر دیر میں پہنچنے کی شکایت ہوئی تو وزیر باتدبیر نے فرہاد نامی کوہ کن کو چین سے بلایا اور نہر کھودنے کے لیے شیریں کے حکم سے وہ آمادہ ہوا اور نہر بھی تیار کی، لیکن آپ سے رقابت پیدا کی۔ شیریں کی محبت میں دیوانگی مول لی۔ نہر کھودنے کے عوض میں گو ملکہ جہاں نے بہت کچھ انعام دینا چاہا۔ اُس نے قبول نہ کیا۔ عشق کے تیر سے ایسا گھائل ہوا۔ اب ہر وقت اُسکے لب پر نالہ و آہ ہے، حالت تباہ ہے۔ دیوانہ وار جنگل میں پھرتا ہے، شیریں کا دم بھرتا ہے۔ کبھی کبھی شہر میں آتا ہے، غل مچاتا ہے۔ شیریں کے محل کے گرد گھومنا اُس کو ضرور ہے، روزانہ کا یہی دستور ہے۔ عرض کرنا ہمارا کام تھا، وہ کر دیا۔ اب جہاں پناہ کی جو رائے عالی ہو وہی خوب ہے۔ ہم سب کو بدل و جان مرغوب ہے۔ رقابت کا نام سن کر خسرو شعلۂ جوالہ کی طرح شرر افشاں ہوا۔ آتش غیرت بھڑکی۔ مزاج برہم ہوا۔ دل میں مصمم اُس کے قتل کا ارادہ کیا۔ پھر یوں گویا ہوا: خدا کی شان وہ اور شیریں امیر اور فقیر کا مقابلہ، اُسے قہر سلطانی کا خوف نہ ہوا۔ میرا رقیب بنا، کچھ نہ ڈرا۔ ؏
قضا آتی ہے جب چیونٹی کی اس کے پر نکلتے ہیں
مزدوری کو آیا تھا عاشقی کا نقشہ جمایا۔ مار کے آگے بھوت بھاگتا ہے۔ جب تلوار سامنے ہوگی عشق کا نشہ ہرن ہو جائے گا۔ مزاج راستی پر آ جائے گا۔
جب خسرو خاموش ہوا تو ایک مصاحب یوں گویا ہوا: اگر جان کی امان ہو تو جو کچھ میری عقل ناقص میں آیا ہے، عرض کروں۔ اجازت ملی۔ بصد ادب گویا ہوا: آپ کا انصاف و داد مشہور عالم ہے۔ کسی کو بے گناہ قتل کرنا آپ کی بدنامی کا باعث ہے۔ لوگ ستمگار کہیں گے۔ نا انصافی کا الزام دیں گے۔ عشق وہ بد بلا ہے جس سے ہر انسان مجبور ہے۔ امیر غریب اس کوچہ میں یکساں ہیں۔ کسی کو دوسرے پر فوق نہیں۔ اپنے ہاتھوں بلا میں پھنسنا مصیبتیں اُٹھانا کس کو اچھا معلوم ہوتا ہے، مگر بلائے آسمانی سے کون بچ سکتا ہے۔
خسرو بر سر رحم ہوا، کہنے لگا: تیری رائے صائب ہے۔ واقعی قتل کرنا نامناسب ہے۔ اُس کو بلا کر سمجھانا چاہیے۔ دو ایک ملک دے کر خوش کر کے اس بلا کو ہٹانا بہتر ہے۔ آخر اہل دربار کو حکم ہوا کہ ہر ایک اُس کا متلاشی ہو۔ جس کو ملے بآسانی سمجھا بجھا کر حاضر دربار کرے۔ ہرگز اُس کو کسی طرح کا رنج نہ دے۔ سب سے اچھا یہ ہے کہ شیریں سے اُس کو الفت ہے، میری طرف سے اس کو پیغام پہنچایا جائے کہ شیریں کے لیے ایک عالیشان محل بنوانے کی ما بدولت کو ضرورت ہے اور تیری صناعی اور مہارت کی تعریف سنی ہے۔ منظور یہ ہے کہ وہ کام بھی تیرے ہی ہاتھ سے سرانجام ہو۔ ایسی عمدہ عمارت بنے کہ شیریں کو آرام ہو۔ کیا عجب ہے راضی ہو کر بخوشی حاضر دربار ہو۔ جو اُس کو لاوے گا، بے حد انعام پاوے گا۔ جب دربار برخاست ہوا، شاپور نے لوگوں کو اُس کا پتا بتایا۔ سب اِدھر اُدھر تلاش میں روانہ ہوئے۔ جنگل جنگل پھرے۔ اُس آوارۂ کوہ محبت کا پتا نہ ملا۔ دل میں گھبرائے، عتاب شاہی سے تھرّائے۔ پھر پہاڑوں پر ڈھونڈھا۔ جب پتا نہ ملا، مجبور ہو کر پھر دشت کی راہ لی۔ ہر ایک نے حالت تباہ کی۔ اسی شش و پنج میں ایک شخص ایک اونچے درخت پر چڑھ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ دور پر ایک جوان بحال تباہ نظر پڑا۔ درخت سے اُتر کر اُدھر روانہ ہوا۔ جب قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک شخص سراسیمہ بحال تباہ نالہ و آہ کر رہا ہے۔ شیریں شیریں کی صدا بلند ہے۔ کبھی ہنستا ہے گاہ روتا ہے۔ عجب حالت ہے۔ عاشقوں کی ایسی صورت ہے۔ کبھی دل سے باتیں کرتا ہے کبھی عاشقانہ یہ غزل پڑھتا ہے۔
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
کیا بہار زندگی پہلو میں جب دلبر نہ ہو
کیوں گل قالین شب غم خار سے بدتر نہ ہو
کس طرح فتراک میں باندھے وہ قاتل بعد قتل
پاؤں پڑنے کے بھی قابل جب ہمارا سر نہ ہو
ہجر کے آلام سے چھوٹوں یہ قسمت میں نہیں
موت بھی آنے کا گر وعدہ کرے باور نہ ہو
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے دل فراق یار میں
منتشر اے وصل یہ گنجینۂ ابتر نہ ہو
دل میں میں نے ہو بہو کھینچا ہے نقشہ یار کا
میری صناعی پہ مانی کس لیے ششدر نہ ہو
جس طرح جوہر الگ ہوتا نہیں تلوار سے
یوں جدا دل سے خیال ابرو دلبر نہ ہو
زلف ہے پستی پہ مائل قد بلندی کی طرف
اب تہ و بالا زمانہ کیوں مرے دلبر نہ ہو
وصل اُس مہرو کا حاصل کس طرح ہو دہر میں
جب موافق اپنا یہ چرخ ستم پرور نہ ہو
تیرتا ہے پھول بن کر بحر غم میں دل مرا
کس طرح ڈوبے وہ کشتی جس میں کچھ لنگر نہ ہو
قلب مومن آئنہ ہے ذات مومن کا رضاؔ
دیکھ کر حیران اسے کیوں عقل اسکندر نہ ہو
جاسوس قریب گیا معلوم ہوا کہ یہی فرہاد ہے۔ شیریں کی الفت میں لب پر فریاد ہے۔ ہر طرح اُس کو اپنی جانب مخاطب کرنا چاہا۔ سلام کیا۔ اِدھر اُدھر کا کلام کیا، مگر وہ مست جام عشق اپنے خیال میں مست شیریں کی یاد میں اس درجہ محو تھا کہ کسی طرح ملتفت نہ ہوا اور اسی طرح مجنونانہ باتیں کرتا رہا۔ جاسوس نہایت متفکر تھا کہ کیا کروں۔ کس طرح اس دیوانہ کو اپنے قابو میں لا کر انسانیت کی باتیں کروں، سوچتے سوچتے یہ خیال آیا کہ اس سے بہانہ کر کے مطلب نکالے۔ بلند آواز سے کہا: او ناشاد فرہاد! شریں نےمجھ کو بھیجا ہے، زبانی پیام کہلایا ہے۔ شیریں کا نام سنتے ہی اُس تلخ گفتار کی وحشت نے اور زور پکڑا، شیریں شیریں کہہ کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔ پھر اس نے شیریں کا نام لیا۔ اُس سودائی کو رام کیا اور کہا: او فرہاد! تو نے ایسی بے مثل نہر بنائی ہے کہ تمام ملک میں تیری استادی کا شہرہ ہے۔ ہر طرف تیری صناعی کا چرچا ہے۔ شیریں تیری مداح ہے۔ خسرو جو اُس کا شوہر ہے، اُس کو شیریں کے لیے ایک نہایت نفیس عمدہ شاہانہ عالیشان محل بنوانا ہے۔ اور شیریں کا اصرار ہے کہ یہ عمارت بھی اُسی مہندس کے ہاتھ سے بنے۔ اس لیے دربار شاہی میں تیری طلبی ہے۔ میرے ساتھ چل۔ اس ویرانے سے نکل او عاشق ناشاد اگر واقعی تجھ کو شیریں کی یاد ہے، تو اُس کے کام میں جان شیریں کو عزیز نہ جان۔ مصیبتیں اُٹھانا، آفتوں میں پھنسنا عاشقوں کا کام ہے۔ فرہاد اپنی بے تابی کی حالت میں یوں اپنا حال کہنے لگا، مسدس:
نہیں معلوم کچھ ہوتی ہے ایذا جان پر کیونکر
تب فرقت سے یہ دل کوفتہ ہے سربسر کیونکر
کلیجہ کس طرح پکتا ہے بھنتا ہے جگر کیونکر
غرض ہم کیا بتائیں اپنی ہوتی ہے گزر کیوں کر
کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جل اُٹھتا ہے جو یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
کبھی نہایت درد سے آہ کر کے تمام صحرا کو ہلاتا تھا، چرند و پرند کو اپنی حالت پر محو حیرت بناتا تھا۔ کبھی دامان و گریبان کی دھجیاں اُڑائیں، نالے کیے، آفتیں اُٹھائیں۔ کھانا پانی حرام تھا، رونے چلانے سے کام تھا۔ کبھی یہ غزل پڑھتا، خود روتا اور ان کو بھی رلاتا تھا۔
غزل رضا لکھنوی فرنگی محلی
پہلو سے جب وہ لے گئے دل کو نکال کے
اُف کر کے رہ گیا میں کلیجہ سنبھال کے
روتے ہیں خون آنکھوں سے اے ناوک افگنو!
خواہاں زخم سینہ سے پیکان نکال کے
اے جذب دل نہ آئے گا جب تک وہ بے طلب
قائل نہ ہوں گے ہم کبھی تیرے کمال کے
جو ہیں فریفتہ ترے حُسن ملیح کے
طالب نہ ہوں گے وہ کسی یوسف جمال کے
کیونکر نہ خرمن دل عشاق پھونک دیں
مظہر یہ برق وش ہیں صفات جلال کے
گردن میں اُس کی موتیوں کے ہار ڈال دوں
دکھلائے ہنس طور اگر تیری چال کے
کس کی تلاش کرتے ہیں پہلو میں آج آپ
مدت ہوئی کہ پھینک دیا دل نکال کے
کیونکر نہ اپنا عشق ہو دنیا میں لاجواب
عاشق رضاؔ ہیں ایک بت بے مثال کے
غرض بڑی دیر کے بعد جاسوس کی جانب ملتفت ہوا۔ اُس نے پہلے شیریں کا نام لیا پھر یوں کلام کیا کہ اگر شیریں کے وصل کی طلب ہے تو میرے ساتھ آ۔ فرہاد وصال جانان کا مژدہ پا کر نہایت خوشی سے اُس کے ساتھ ہوا۔