یہ فلک کج رفتار ہمیشہ بے قراروں کو جگر برشتہ امیدواروں کو زندانِ نا امیدی میں بند رکھتا ہے۔ دل گرفتہ خاطر فگاروں کی ایذا پسند کرتا ہے۔ کبھی دھوکے میں طالبوں کو رخ مطلب بے نقاب دکھاتا ہے۔ تشنہ لبوں کے حلق میں آب شیریں پہنچاتا ہے۔ اکثر اوقات یاس کے پاس رجا ہے ناکامی کے روبرو درِ امید کھلا ہے۔ گو اس تمنا کے پہلو میں سو طرح کا خار یاس دلخراش ہو۔ آخر کار ناخن نا امیدی سے چہرہ رجا کا خراش دل جگر پاش پاش ہو یہ گرگِ باراں دیدہ آسمان بر سرجولان آیا، ساقیِ دوراں درد کشانِ محبت پر تازہ آفت لایا۔ اس کو ایک طور پر قرار نہیں، نیرنگی کا اعتبار نہیں۔ رشک و حسد اس کی خلقت ہے، بھوسے میں چنگاری ڈالنا اس کی قدیم عادت ہے۔ کبھی ربیع کو خریف کرتا ہے، گاہے خریف کا حریف بنتا ہے۔ دورۂ گردون ناہموار سے ایک کو تخت و تاج ایک کے واسطے تختہ تابوت ہے۔ دوسرا نان شبینہ کا محتاج ہے۔ مرصع کار شمشیر کسی کے حمائل ہے، کسی کا خمدار دل ہے۔ کسی کے روبرو نقیبان خوش گلو، جلوس سواری، زرنگار ہودج، مطلا عماری ہے، ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔ کسی کے درپے فوج اندوہ و الم دل پر ہجوم غم ہر قدم ذلت و خواری ہے، سنان نالہ سینہ کے پار ہے۔ کوئی شاہ بحر و بر ہے، کوئی باختہ ہوش داغ بر جگر ہے۔ کوئی اسپ ترکی تازی پر بصد جلوہ سوار ہے۔ کسی کی ترکی تمام ہو گئی۔ برہنہ پا لنگ کرتا تازی مصیبت میں گرفتار ہے۔ کسی کے واسطے گلگشتِ چمن ہے، کوئی مقیم بیت الحزن ہے۔ کسی کی سواری سلیمان کی طرح بر باد ہے، کوئی بسانِ مور ضعیف شکستہ حال ہے برباد ہے۔ کوئی نونہالان چمن کی روش قامت کشیدہ گلشن حسن و جمال کا سرو ہے، شمشاد ہے۔ کوئی خزاں رسیدہ جفائے تیشہ و جور بہ تر دیدہ بسانِ لالہ جگر داغ دار، پر خون سنبل نمط پریشان مو پشت خمیدہ مورد صد بے داد ہے۔ ایک بستر راحت پر عروس مطلب سے ہم کنار ہے، ایک کنج تاریک میں خاک پر لوٹتا ہے۔ حسرت در پہلو میں غم کا خار ہے۔ کہیں محفل طرب رباب چنگ مطربان مہ رو خوش آہنگ بربط دستار ہے۔ کسی غم کدے میں صف ماتم بچھی، چنگل غم سے گلے کو فشار مضراب تردد جگر میں ناخن زن کلیجہ مشک مانند منقار موسیقار ہے۔ کسی کو نمد و قالین پر کسی کروٹ آرام نہیں کسی کو بر سر خار مغیلاں سر پر بوجھ رکھ کر ننگے پاؤں چلنے اور کوہکنی کرنے کے سوا کام کچھ نہیں۔ کسی بندۂ خدا کا شرق سے غرب تک راج ہے۔ کوئی مصیبت سے بت بن گیا جو مرض ہوا لا علاج ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ نہ دولت کو ثبات نہ حکومت اور ثروت کا اعتبار نہ مفلسی کو قیام، نہ محتاجی علی الدوام ہوتی ہے۔ ایک معزول دوسرا مشغول اسی میں صبح و شام ہوتی ہے۔
فلک دیتا ہے جن کو عیش اُن کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
غرض فرہاد شکستہ خاطر شیریں کی یاد میں اپنی جانِ شیریں سے ہاتھ دھوئے اپنے کام پر تلا ہوا مستعد اور آمادہ تھا۔ ہر طرح کی مصیبتیں جھیلتا جوانوں کے فقرے، بوڑھوں کی نصیحت سنتا، لڑکوں کے ہاتھ سے پتھر کھاتا تھا۔ کیا کرتا دلدادہ تھا۔ تیشہ ہاتھ میں بے ستون سے جنگ پر آمادہ تھا۔ نالہ و فریاد زبان پر جاری تھی، فراق میں زندگی دوبھر تھی۔ موت کی خواستگاری تھی۔ جب شور و فغاں و فریاد سے عاجز آتا یہ خمسہ زبان پر لاتا۔ خمسہ:
جو مشہور کچھ حال منصور ہے
وہی قصہ اپنا بھی مشہور ہے
جدائی نہیں موت منظور ہے
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمین سخت ہے آسمان دور ہے
کبھی پہاڑ کو کاٹتا، شیریں کی تصویر بنا کر اُس سے یوں باتیں کرتا تھا او معشوق عاشق کُش! کیا میری محبت کا یہی نتیجہ ہے۔ اے عشق! کیا تیرا یہی وطیرہ ہے کہ میں اپنی یوں جان دوں، بے قرار اشک بار رہوں اور شیریں کو خبر نہ ہو۔ میرے نالوں میں کچھ بھی اثر نہ ہو۔ خمسہ:
شمع ساں رونے سے کیا جائے مرے دل کی جلن
اشک مانند شرر آہ جلاتے ہیں بدن
یہ وہ پانی نہیں جو آگ کا ہووے دشمن
آتش رنج پہ کرتا ہے یہ کار روغن
اشک غم اور بھی ہیں آگ لگاتے جاتے
اے میری دلی محبت! تو ہی مقناطیسی قوت پیدا کر کے اُس ظالم کو یہاں کھینچ لا اور ایک نظر مجھے اُس کی صورت دکھلا۔ کبھی زیادہ اضطراب میں کہتا۔ شعر:
کوئی نہیں جو یار کی لادے خبر مجھے
اے سیل اشک! تو ہی بہا دے اُدھر مجھے
میرے ایسے نصیب کہاں ہیں کہ وہ محبوب آ کر میری خبر لے، میرے حال زار کو دیکھے۔
شیریں راہ طے کر کے یہاں پہنچ چکی تھی۔ اس کی یہ باتیں سن رہی تھی۔ جب اُس کی بے قراری فریاد و زاری حد سے بڑھ گئی تو آواز دی او خانماں برباد فرہاد! تیری سچی محبت مجھ کو کھینچ لائی۔ یہ آواز سنتے ہی فرہاد یوں گویا ہوا:
ایسے میرے کہاں نصیب اے دل!
کہ پکارے مجھے حبیب اے دل!
ہوتے گر ایسے طالع بیدار
تو نہ ہوتا میں ریزۂ کہسار
کہہ رہا تھا وہ یہ بسوز و گداز
اتنے میں اور اُس نے دی آواز
ہکا بکا سا ہو گیا مُضطر
کہ ندائے سروش ہے یہ کدھر
اس نے چاروں طرف جو پھر دیکھا
نور سا اک اُسے نظر آیا
فرہاد اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ مہر سپہر حسن نظر آیا۔ شیریں کی صورت دیکھ کر آفتاب کی چمک آنکھوں سے گر گئی۔ نگاہ مست کی چہری خنجر براں سے تیز دل و جگر پر پھر گئی۔ سہی قد شمشاد بالا نخل قامت ہمسر شاخ طوبی، چلے تو سر و پا بگل طاؤس طناز خجل ہو، بیٹھے تو قیامت کا شور ہو جینا مشکل ہو، سرخیِ لب رنگین غضب، دانتوں کی آب داری عجب، اُس سے عقیق یمنی کا خون ہو، اس سے ہیرے کا منہ سفید ہزار جاں سے مفتون ہو۔ آنکھ سے نرگس شہلا بیمار سینہ فگار محراب ابرو دلبری میں طاق سجدہ گاہ زاہد صد سالہ چتون قزاق فتنہ خوابیدہ کو چونکا کے اپنے عمل سے نکالا۔ مژگان دراز ناوک انداز بے خطا گوشہ نشینوں کی در پے دل دوزی سدا گیسوؤں کا پیچ حلقہ افعی ہلاہل مشک فام ہر تار کی بوباس پر تار تار اسیر سلسلۂ دام زلف دراز کمند جعل ساز، زہر گرہ میں مشتاق کا دل اُلجھے، چوٹی وہ پیچ دار کہ شانۂ دل صد چاک سے نہ سلجھے۔ جعد گرہ گیر سے نافۂ آہوئے ختن کا دل پر خون، پریشانی اُس کی دلجمعی پر مفتون۔ تابندہ پیشانی سحر کامیابی سے نورانی۔ رخسارۂ درخشاں کے سامنے شمع خورشید گل، گل عذار پر نثار جان بلبل۔ کان کی صفت امکان بشر سے باہر۔ صدف بحر خوبی باسباب ظاہر چشم فتاں چشم داشت عاشقان گردش چشم سے خم اوندھے میخانے خراب غمزہ نگاہ مست سے ہوشیار مدہوش بے خور و خواب۔ غنچہ دہن کھلکھلانے سے جب کھلتا پھولوں کا ڈھیر ملتا، بلبلوں کا اُس پر ہجوم ہوتا۔ ظاہر نکتہ موہوم ہوتا۔ چاہ زنخداں کے بدولت عالم نے کنویں جہاں کے قطرہ نصیب نہ ہوا۔ غبغب دست بو الہوس سے غائب رہا، قریب نہ ہوا۔ سینہ بے کینہ کی صفائی سے شاہد کامرانی کی صورت نظر آتی۔ دل و جگر کی حرکت التہابی کھل جاتی۔ پنجہ رنگین سے شاخ مرجان غیرت کہربا ہتھیلی کے آئینہ میں عکس ید بیضا کمر کی کیفیت میں وہم غلط حیران بجز نام بے نشان بقول امیرؔ :
مصور کھینچنے بیٹھا جو نقشہ اُس سہی قد کا
کمر کا یہ پتا رکھا کہ خط کھینچا ندارد کا
مستانہ چال دل و جگر کا خون کرتی ہے، ہوشیاروں کو مجنون کرتی ہے۔ یہ جمال دیکھ کر فرہاد کو غش آیا۔ تجلیِ یار نے نیا عالم دکھایا۔ کیوڑا گلاب وہاں کیا کام کرتا، عاشق مزاج بے ہوش کو اور بے آرام کرتا۔ شیریں نے جعد عنبرین کا لخلخلہ بنایا، اپنے دلدادہ کے نتھنوں سے لگایا۔ عرقِ جبینِ یار نے بیدِ مشک کا اثر کیا، اُس کو ذی ہوش و باخبر کیا۔ فرہاد ہوش میں آیا۔ پروانہ وار اس شمع جمال پر تصدق ہوا، گرد پھرا۔ اگر فرہاد کو تمام جہان کی سلطنت ملتی تو بھی یہ خوشی نہ ہوتی۔ مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا اور نہایت انبساط سے یہ شعر زبان پر لاتا:
وہ رشک ماہ جس دم تک رہے گا میہمان ہو کر
کریں گے کیا مرا دشمن زمین و آسمان ہو کر
پھر یکایک آہ کا نعرہ بلند کر کے یوں شیریں سے ہمکلام ہوا کہ اے مہر سپر زیبائی! مجھے اس وقت اپنے اُن پر اثر نالوں سے شرم آتی ہے جنھوں نے تیرے دل کو میرے حال کا پرسان بنا کر یوں بادیہ پیمائی کی زحمت دی۔ افسوس میری وجہ سے تو نے یہ تکلیف اُٹھائی۔ کبھی اظہار خوشی میں یہ اشعار پڑھتا:
تیرے قدموں کے کوہ کن صدقے
تیرے رخ پر گل چمن صدقے
کیا بجا لائے خدمت مہمان
مہمان جب گدا کا ہو سلطان
کہہ کے یہ چومتا رکاب اس کی
اور گہ دیکھتا نقاب اس کی
کبھی رو رو کے حال کہتا تھا
رنج ماضی و حال کہتا تھا
کبھی اُس پر نثارتا تھا جان
کبھی توسن پہ وارتا تھا جان
کوہ بھی اُس کو دیکھ رونے لگا
سنگ منہ آنسوؤں سے دھونے لگا
کہا شیریں نے خیر ہے فرہاد!
آہ کی اُس نے با دل ناشاد
اور کہا یہ بگریہ و زاری
خواب ہے یا کہ ہے یہ بیداری
بولی فرہاد! اب نہ ہو مایوس
جائے مژدہ ہے یہ نہ کر افسوس
کر چکا ہے تمام تو کہسار
صبر یک چند ہے غرض درکار
صبر مشکل کشائے عالم ہے
صبر حاجت روائے عالم ہے
شجر تلخ صبر گو ہے حزیں
لیک رکھتا ہے بس ثمر شیریں
جو اُٹھاتا ہے اپنی جان پے رنج
بعد ہوتا ہے وہی صاحب گنج
پہلے ہوتا ہے نیشکر پارہ
پیچھے ہوتا ہے وہ شکر پارہ
نیش کے بعد نوش ہے غمگین
پہلے تلخی ہے بعدہ شیریں
صبر کر وعدہ اب قریب آیا
کہ ستون بے ستون کا ٹوٹ گیا
ہو نہ اس کام سے تو اب بے دل
اپنی محنت کو تو نہ کر باطل
کوئی دن کا فراق باقی ہے
اور یہ اشتیاق باقی ہے
جبکہ اس کو تمام کر دے گا
شرط بیشک تو شاہ سے لے گا
عہد کا اپنے شاہ پورا ہے
چھوڑ مت کام جو ادھورا ہے
مضطرب ہو نہ اب تو اے شیدا
رکھ نگاہ اپنی تو بلطف خدا
جس قدر اضطراب ہے تجھ کو
اُس سے افزوں ہے بے کلی مجھ کو
مجھ کو تو جانتا ہے بے پروا
لیک عالم قلوب کا ہے خدا
ہوتا شہ کا جو مجھ کو ڈر نہ کبھی
ہوتی بیشک میں تیرے ساتھ ابھی
کاش ہو جائے بے ستوں خستہ
کاش ہو جائے اس میں اک رستہ
کاش اس بے ستون کو آگ لگے
کاش یہ خاک بن کے اُڑ جائے
کاش اس رنج سے چھٹے فرہاد
کاش شیریں ہو پہلوئے فرہاد
اے فرہاد! جس طرح تو نے الفت کر کے اپنے خانماں کو برباد کیا، گھر بار چھوڑا، عزیز اقربا سے منہ موڑا۔ اسی طرح میں بھی تجھ پر مائل ہوں، تیری آہ کی گھائل ہوں۔ جس دن سے یہ خبر مجھے ملی ہے کہ تو نے بے ستون میں راہ بنانے کا وعدہ کر لیا ہے، اس جانکاہ محنت کو اپنے سر لیا ہے۔ اُس دن سے ہر وقت دست بدعا ہوں کہ جلد یہ کام تمام ہو، بخیر انجام ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ اب وہ زمانہ نزدیک آیا۔ قسمت کی یاوری نے وہ دن دکھایا کہ تو اپنی محنت کا صلہ پاوے، خسرو سے شیریں تیرے ہاتھ آوے۔ میں تنہا سب سے پوشیدہ تیرے پاس آئی ہوں۔ اب مجھے اجازت دے کہ گھر جاؤں، محل میں سب کو صورت دکھاؤں۔ کہیں یہ راز افشا نہ ہو۔ ہر گلی کوچے میں اس کا چرچا نہ ہو۔ دن تمام ہوا، وقت شام ہوا۔ فرہاد رخصت کا نام سن کر بے قرار ہوا اور زیادہ دلفگار ہوا۔ شیریں اُس کو سمجھا بجھا کر روانہ ہوئی۔ اسپ پر سوار ہو کر چلی۔ فرہاد پر تازہ آفت آئی۔ پچھلی مصیبت نے صورت دکھائی۔ رنج و الم زیادہ ہوا، جان دینے پر آمادہ ہوا۔ یہ فراقیہ غزل پڑھتا اور آہ و نالہ کرتا بے قراری سے روتا تھا۔
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
دیکھ کر اُس ماہ کو تن سے جدا دم ہو گیا
وائے قسمت شربت دیدار بھی سم ہو گیا
عمر بھر پھر چرخ اُس کے در پئے غم ہو گیا
ایک ساعت جس کا دل دنیا میں خرم ہو گیا
کیا کہوں سفاکیاں تیغ نگاہِ یار کی
اک نظر دیکھا جسے اُس نے وہ بے دم ہو گیا
دست نقاش ازل کانپا تھا اُس کے رعب سے
کاکل پیچاں کا نقشہ اس لیے خم ہو گیا
کل سے دو دو ہاتھ سینہ میں اُچھلتا ہے جو دل
دیکھ کر اُس مہ کو کیا واللہ اعلم ہو گیا
رات دن جاری ہے آنکھوں سے مری سیل اشک
ہر مہینہ ہجر میں مجھ کو محرم ہو گیا
ہم کو پامال حوادث چرخ نے رکھا مدام
درد دل دونا ہوا گر درد سر کم ہو گیا
کیا سموم فرقتِ جاناں نے دکھلایا اثر
سینہ سوز ہجر سے میرا جہنم ہو گیا
داغ وحشت کو ہمارے اے بت خورشید رو!
دیکھ کر گلشن میں شرمندہ سپر غم ہو گیا
بعد مدت کے اُسے دیکھا مگر غیروں کے ساتھ
رنج و راحت کا رضاؔ سامان باہم ہو گیا