سزاوار حمد وہ معشوق حقیقی ہے جس کے جمالِ جہاں آرا پر تمام عالم شیدا ہے اور نعت کے قابل وہ برگزیدہ نبی ہے جس کی محبوبیت پر ہر جن و انس فدا ہے اور منقبتِ بے شمار کے مستحق وہی حضراتِ اصحاب کبار ہیں جن کے اوصاف میں ہزارہا حدیث و آثار ہیں۔
اما بعد، خاکسار عبد الغنی صبرؔ لکھنوی تلمیذ استاد بے ہمتا صاحب ذہن رسا جناب مولانا حافظ محمد برکت اللہ صاحب رضا لکھنوی فرنگی محلی عم فیضہ الجلی و الخفی عرض پیرا ہے کہ شیریں فرہاد کا قصہ نظم میں موجود تھا۔ میں نے بعض احباب کے اصرار سے اُس کو سلیس اردو میں نثر کیا اور اس کے طبع کی اجازت ہمیشہ کے لیے مطبع فخر المطابع لکھنؤ کو دی ہے۔ کوئی صاحب بغیر اجازت قصدِ طبع نہ فرمائیں، نفع کے خیال میں نقصان نہ اٹھائیں۔
ہرمز بن نوشیروان عادل کے واقعات
مؤرخانِ باخیر و حاکیانِ ذی ہنر سمندِ قلم کو میدانِ قرطاس پر یوں جولان کرتے ہیں کہ نوشیروانِ عادل جس کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہے جب اس جہان فانی سے سرائے جاودانی کی طرف روانہ ہوا تو اس کا بیٹا ہرمز تاج و تخت کا مالک ہوا اور عدل و انصاف میں مشہور عالم ہوا۔ فوج کو آراستہ کیا، شاہان عالم پر اپنا رعب بٹھایا۔ باپ کے مثل نامی اور صاحب داد ہوا۔ خدا نے مال کے ساتھ اولاد بھی عطا کی تھی۔ ایک بیٹا خسرو پرویز نام رکھتا تھا جو علم و ادب میں طاق شہرۂ آفاق تھا۔ اس کی دلاوری سے رستم و نریمان کانپتے تھے، مخالفین مقابلے سے بھاگتے تھے۔ حسینان عالم میں فرد تھا۔ اچھی صورت پر مرتا، معشوقوں کی صحبت کا طالب رہتا۔ سیر و شکار کا شوق تھا، نہایت ذوق تھا۔ اُس کے ہم عمر شرفا، ادیب، اہل فن خدمت گزاری میں حاضر باش تھے۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے دل گھبرایا، شکار کا خیال آیا۔ مصاحبوں سے مشورہ کیا۔ باپ سے اجازت حاصل کرکے جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ ساتھ میں لشکر شاہانہ ہوا۔ تمام دن سیر کرتا ادھر اُدھر پھرا۔ دل بہلایا۔ چرند پرند ہزاروں نخچیر ہوئے۔ اسی اثنا میں دن تمام ہوا، وقت شام ہوا۔ گھومتے گھومتے اُسی صحرا کے متصل ایک باغ پُربہار نظر آیا۔ وہیں قیام کیا۔ گل و ریحان کو دیکھ کر دل خنداں ہوا، رقص و سرود کا سامان ہوا، شراب کباب میں رات بسر کی۔ اسی راحت سے سحر کی۔ انیس جلیس مسرور تھے، نشہ میں چور تھے۔ نہ تن کا ہوش تھا، نہ جسم کی خبر، جو تھا مدہوش تھا۔ چاروں طرف باغ میں پھرے، خوب مزے کیے تمام باغ کے میوے تاراج کیے۔ باغ کو جنگل بنا دیا۔ ساتھیوں نے پھل توڑے، گھوڑوں نے سبزہ کی بربادی کی۔ باغ کے مالک نے ہرمز سے فریاد کی۔ اس عادل نے اُس کو مالا مال کیا، خوب خوشحال کیا۔ بیٹے سے ناراض ہو کر قید کیا۔
ہرمز کے عدل کی ایک تازہ حکایت ہے کہ شاپور نامی مصوری کے فن میں طاق شہرۂ آفاق چین کا رہنے والا قسمت کی گردش سے تباہ حال ہو کر روزگار کی طلب میں دربدر خاک بسر ہو کر ہرمز کے ملک میں آیا۔ غریب کا کون پرسان حال ہوتا ہے۔ بے چارہ ایک کرایہ کا مکان لے کر بسر اوقات کرنے لگا۔ جہاں تک مال اسباب تھا سب بیچ بیچ کر کھاتا رہا۔ جب کچھ بھی نہ رہا، فاقہ کی نوبت آئی، قسمت نے تازہ آفت ڈھائی۔ دو تین فاقے متواتر گذرے لیکن دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلاتے غیرت آئی۔ گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ رہا۔ محلہ والوں میں چرچا ہوا، ہر شخص اُس کا جویا ہوا۔ ہر طرح کوشش کی دروازہ نہ کھلا اور زائد فکر ہوئی کہ خدا جانے زندہ ہے یا مر گیا۔ رفتہ رفتہ شاہ کو خبر ہوئی۔ بادشاہ خود اُس کے حال کا جویا ہوا، در دولت سے اٹھ کر اُس کے مکان پر آیا۔ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا۔ دیکھا توبہ بحال تباہ لب پر آہ پڑا سسکتا ہے، ہر ایک کا حیرت سے منہ تکتا ہے۔ اطبائے حاذق تجربہ کار بلوائے گئے۔ سب نے تشخیص کر کے کہا کہ اس کو فاقوں نے توڑا ہے اور کوئی مرض نہیں۔ اس کو طعام لذیذ کھلایا جاوے۔ بادشاہ نے دسترخوان خاص طلب کیا۔ اُس کو اپنے سامنے کھانا کھلایا۔ جب اُس کے حواس درست ہوئے، استفسار حال کیا کہ تو کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے، کس لیے یہاں آیا ہے۔ وہ گویا ہوا کہ غلام چین کا رہنے والا، مصوری میں کامل ہے۔ افلاس نے جب زیادہ گھیرا روزگار کی تلاش میں یہاں آیا۔ کوئی پرسان حال نہ ہوا۔ اس حالت کو پہنچا۔ اب قسمت راہ پر آئی کہ آپ محسن ہوئے۔ اُس عادل زمانہ نے فرمایا کہ تو مجھ تک کیوں نہ آیا۔ پھر خلعت فاخرہ عطا کیا اور اپنے مصاحبین خاص میں رکھ کر عزت دی۔ رنج کے بعد راحت ملی۔