قیوم نے دوسری شادی کر لی ہے۔ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے گراں قیمت، فینسی کپڑے لاتا ہے اور پرانی بیوی کے لئے بے رنگ، لنڈے والے کپڑے لاتا ہے۔ نئی بیوی کے لئے قیمتی پوڈر، غیرملکی کریمیں اور اصلی خوشبوئیں لاتا ہے۔
اس کی پرانی بیوی کا رنگ کالا ہو گیا ہے۔ اس کی چمڑی سوکھ گئی ہے۔ کڑاکے دارسردی میں وہ جوتوں اور جرابوں کے بغیر کام کرتی ہے، ٹھنڈے پانی سے برتن دھوتی ہے، جھاڑو لگاتی ہے۔ اس کی ایڑیاں اور ہاتھ پھٹے ہوئے ہیں۔ ان سے خون رستا ہے۔ قیوم اس کے لیے استعمال شدہ کالی گریس کی بالٹی لاتا ہے جسے وہ اپنی ایڑیوں اور ہاتھوں پر لگا تی ہے۔
اس کی نئی بیوی پڑھی لکھی اور اونچے خاندان سے ہے۔ قیوم کپڑے بدل کر اور خوشبو لگا کر اپنی نئی بیوی کے کمرے میں آتا ہے، اسمیں ائیر فریشنر چھوڑتا ہے۔ تازہ پھولوں کے گلدستے سجاتا ہے۔ انارکا رس، انڈے، ٹشو پیپرز جیسی پتلی پڑیاں، بھنے ہوئے بٹیر اور اعلیٰ خوشبودار چائے میزپر لگاتا ہے۔ میاں بیوی فینسی چشمے لگاکر ناشتہ کرتے ہیں۔ وہ بیوی سے نرم شیریں لہجے میں باتیں کرتا ہے اور اپنے ہونٹوں سے مسکراہٹ نہیں بجھنے دیتا ہے۔ مگر جلد اسے اپنی آواز اونچی اور بھدی محسوس ہوتی ہے۔ اسے ایسے لگتا ہے جیسے اس کی آواز پھٹے پرانے اخباروں سے گزر کر، لوہے کے بڑے بڑے پائپوں سے ہوتی ہوئی، ڈھیلے کواڑوں والے دیو قامت، دروازوں سے داخل ہو کر سرکس والے لمبے لاؤڈ سپیکر سے گزر کر آ رہی ہو۔ وہ پانی بن کے بہہ جاتا ہے۔ کرسی سے گر کر، میز کے نیچے سے گزر کر، قالین کے نیچے سے ہوتے ہوئے، گٹر میں ٹپ ٹپ گر جاتا ہے۔ وہ چھچھوندر بن کر غلیظ، بدبو دار نالیوں میں تیرتا ہے۔ سردی میں ٹھٹھرا گیلا چھچھوندر، راستہ سونگتا، ہسپتال پہنتا ہے۔ سرجنوں سے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی آواز کو نرم بنواتا ہے۔ speech therapistسے بولنے کے گر سیکھتا ہے اور صدیوں بعد اپنی نئی بیوی کے پاس لوٹتا ہے اور خوش الحان بلبل کی طرح میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے۔
قیوم اپنے نئے بچوں کو سجے ہوئے کمرے میں رکھتا ہے، جو اس نے ان کے لیے خاص طور پر بنوایا ہے۔ صبح سویرے انہیں جگانے کے لیے ان کے کانوں میں مدھر گانے گاتا ہے۔ پرندوں کی سریلی بولیاں بولتا ہے۔ ان کے گالوں پر رنگ برنگے پھولوں کی ملائم پتیاں نچھاور کرتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں پر ہرنی کے چمڑے کے نرم دستانے پہنتا ہے، اپنے بچوں کو اٹھا کر پر آسائش، کشادہ باتھ روم میں لے جا کر قسما قسم شیمپوؤں، صابنوں اور مصالحوں سے نہلاتا ہے۔ شاوروں سے نکلنے والی بوندوں کو کچھ اس حساب سے گراتا ہے کہ وہ انھیں چبھتی ہوئی محسوس نہیں ہوتیں۔ نہلانے کے بعد وہ انہیں ڈیزائنر کپڑے پہناتا ہے۔ ناشتے میں انہیں انتہائی خستہ بسکٹ، سپنجی کیک، کیلے، نیم پختہ انڈے، شہد اور Flavoured دودھ پلاتا ہے۔ اپنے حلق میں چھوٹی سریلی سیٹی پھنسا کر مدھر آواز میں ان سے باتیں کرتا ہے۔ انہیں شہزادوں، پریوں، تتلیوں اور پھولوں کی نظمیں سناتا ہے۔ جب وہ اپنی آواز کو سردیوں کی شاموں کی طرح اداس بنا کر بچوں کو سکول کے گیٹ پر خدا حافظ کہتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے خدا حافظ کے ساتھ ہی اس کی روح اس کے جسم سے نکل جائے گی۔
وہ حلق میں ٹوٹے ہوئے گھڑے کی گردن لگا کر، منہ پر کالک مل کر، میلے پھٹے کپڑے پہن کر اپنے پرانے بچوں کے بھورے کے پاس جاتا ہے۔ ٹہنیوں سے بنے کھڑکے کو لات مار کر کھولتا ہے، بپھرے ریچھ کی طرح گرجتا ہے۔ اس کی آواز سن کر پرانے بچے ایکدم اٹھ کر قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر باری باری باپ کے قدموں میں گرتے ہیں۔ اپنی اپنی قمیص اتارتے ہیں۔ باپ ان کے جسموں پر تیل اور نیل کا لیپ کرتا ہے، اور انہیں چابک سے پیٹتا ہے۔ مار کھانے کے بعد وہ راکھ کے ڈھیر پر لوٹتے ہیں، راکھ نہاتے ہیں اور پھر کالے، لیس دار گڑ اور دیمک زدہ پتی کے برادے سے بنائے گئے قہوہ سے بھرے بڑے سیاہ چائے جوش کے گردسوکھی گھاس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ جوار کی پانچ انچ موٹی روٹی چائے کے ساتھ کھاتے ہیں۔ دعوت شیراز اڑانے کے بعد ایک پرانا بچہ لکڑیاں لانے کے لیے اپنے بوڑھے اور تقریباً اندھے گدھے کاسازکستا ہے۔ دوسرا گائے بکریاں چگانے جاتا ہے اور جو بکری کمزوری اور بڑھاپے کی وجہ سے نہیں چل سکتی اسے کندھے پر اٹھا کر چرا گاہ تک لے جاتا ہے۔ تیسرا کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ کسان بچہ اپنی قمیص اتار کر اس میں کدال، کسی، تیشہ اور اپنے جوتے باندھتا ہے اور اوزاروں کی گٹھڑی اٹھائے کھیتوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ جب پرانے بچے گھر سے نکلتے ہیں تو قیوم ان پر پتھر اور گوبر پھینکتا ہے، انہیں دہشت ناک آواز میں غلیظ گالیاں دیتا ہے۔
نئے، پرانے بچوں کو رخصت کرنے کے بعد وہ ریشمی جالیاں، رنگ برنگے پھندے اور چاندی کانفیس پنجرہ لئے باغوں اور پارکوں میں تتلیاں اور خوبصورت پرندے پکڑنے اور پھول چننے جاتا ہے۔ وہ ایک بجے کے قریب گھر لوٹتا ہے، نئے بچوں کے کمرے کو مہکتے پھولوں سے سجاتا ہے، وہاں خوش رنگ تتلیاں اور خوش گلو پرندے چھوڑ دیتا ہے۔
نئے بچوں کی لگژری کار کی سہانی آواز آ رہی ہے۔ قیوم اپنے ہاتھوں پر نظر ڈالتا ہے، اس کے ناخنوں میں معمولی سی میل پھنسی ہوئی ہے۔ وہ دوڑ کر باتھ روم میں جاتا ہے، ناخن کاٹتا ہے۔ ان پر برش مارتا ہے۔ ہاتھوں کو پانچ قسم کے صابنوں سے دھوتا ہے۔ کار گھر کے دروازے پر پہنچ گئی ہے۔ وہ ہاتھوں پر ریشم کے گلابی دستانے چڑھاتا ہے۔ دستانوں پر پوڈر چھڑکتا ہے، پوڈر پر فیوم لگا کر دوڑتا ہوا جاتا ہے، روشن چہروں والے، گول مٹول بچوں کے پاؤں کو زمین پر لگنے سے پہلے اٹھا لیتا ہے۔ وہ انہیں خوشبودار پانی سے نہلاتا ہے، معطر ٹشوز میں لپیٹ کر نازک کرسیوں پر بٹھاتا ہے۔ ان کے چہروں پر پُر مہک پتیوں کی ہلکی بارش کرتا ہے۔ نئے بچے اپنے مونہوں سے آسائش و سکوں کی مہین آوازیں نکالتے ہیں، گول گول آنکھوں کو سکون سے گھماتے ہیں۔ قیوم انہیں چمکتی، تھرتھراتی غذا کھلاتا ہے۔ بچے ریشم کے جھولوں میں جھولتے ہیں۔ ان کے سروں پر خوش رنگ تتلیاں اور پرندے منڈلاتے ہیں۔ کچھ تتلیاں تو ان کے گالوں کو پھول سمجھ کر ان پر بیٹھ جاتی ہیں۔ قیوم اور اس کی نئی بیوی خسروانہ شان سے اپنے لاڈلے بچوں کو جھولتا ہوا دیکھتے ہیں اور وہ ترنگ میں آ کر طوطوں کی طرح بولنے لگتے ہیں۔
پرانے بچے شام کو گھر لوٹتے ہیں۔ وہ سرسوں اور باتھوں کے پتوں کے ساتھ نان جویں کھاتے ہیں۔ رات کو مویشیوں والے کوٹھے میں سوتے ہیں، مویشی ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ مویشیوں کے سینگوں اور سموں سے بچنے کے لئے ایک پرانا بچہ اپنے بوڑھے خسی گدھے پر بیٹھ جاتا ہے اور اسے وہاں نیند آ جاتی ہے۔ دوسرا چھت سے بندھے چھینکے میں سو جاتا ہے اور تیسرا راکھ کے ڈھیر میں غار کھود کر شب بھراسمیں محوِا ستراحت رہتا ہے۔
نئی بیوی سے بولتے وقت قیوم کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں بے وقوفوں کی طرح کچھ زیادہ کھلی ہوئی ہیں، اسے اپنے کان لمبے ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ راکھ کی ڈھیری سے دھوئیں کا ایک لمبا پتلا دھاگہ بلند ہوتا ہے۔ اس کی سانسوں میں جلے ہوئے ٹائر کی بو بس جاتی ہے اوراسے اپنے حلق میں کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی بیوی کی آواز نہیں سن پاتا ہے۔ جلتے ہوئے ٹائر کے دھوئیں سے اس کا دم گھٹتا ہے۔ راکھ اور کالک میں لتھڑے ہاتھ، قریب المرگ مرغی کے پنجوں کی طرح حرکت کرتے ہیں اور کچھ بوتلوں اور ڈبوں سے ٹکراتے ہیں۔ اسے اپنا آپ ایک بڑے آئنے میں نظر آتا ہے۔ وہ اپنی شکل سے ڈر جاتا ہے۔ وہ سارا دن ڈاکٹروں اورحسن کے ماہروں کے کلینکوں کے چکر کاٹتا ہے۔ وہ جب شام کو گھر آتا ہے تو اس کی آنکھیں متوازن اور پرکشش ہوتی ہیں۔
قیوم کے پرانے بچے اس سے بھی اونچے اور بڑے ہو گئے ہیں مگر ان کا دماغ بچوں جیسا ہے۔ آج کل وہ ان غلیظ، بدبو دار اور لمبے تڑنگے بچوں کو اپنے نرم اور چمکدار ہاتھوں سے نہیں پیٹتا۔ پرانے بچوں کو مارنے کے لئے وہ ایک مشین لایا ہے۔ وہ باری باری ایک ایک بچے کواس فرج نما مشین میں ڈالتا ہے۔ مشین بچوں کو خوب مارتی ہے۔ وہ مشین کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے جس پر کئیOptions بنے ہوئے ہیں: پرانے جوتوں سے چھترول، سبزلچکدار شاخوں سے مالش، لوہے کی سلاخوں سے پٹائی، کان کھینچنا، بال نوچنا، کان اور ناک میں سوئیاں گزارنا، گرم لوہے سے داغنا، ہاکیوں سے پٹائی، اونچی کرخت آواز سنا کر کان کے پردے پھاڑنا۔
پرانے بچے نیند سے اٹھنے کے بعد خود بخود مارنے والی مشین کے سامنے ایسے قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے لوگ باتھ روم کے دروازے پر اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ انتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک بچے کو باپ کے پاس جا کر اس سے کہنا پڑتا ہے "اب تو آ جاؤ، ہمیں جلدی سے سزادے کر فارغ کر دو تاکہ ہم اپنے اپنے کاموں پر جا سکیں۔ "آجکل انہوں نے قہوہ پینا اور جوار کی روٹی کھانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مار کھانے کے بعد وہ بوری سے بنے کپڑے جھاڑتے ہیں۔ خوشی سے ہوا میں دو لتیاں چلاتے ہیں، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر گیدڑوں کی طرح ہو ہو کرتے ہوئے جنگل کی طرف جاتے ہیں اور مویشیوں کے ساتھ گھاس چرتے ہیں۔
شام کو گھر پہنچ کروہ گائے بکریوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا باپ جب مویشیوں کے گلے میں رسیاں ڈالنے آتا ہے تو وہ پرانے بچوں کے گلوں میں بھی رسیاں ڈال دیتا ہے۔ یہ بچے ڈھور ڈنگروں کی طرح کھر لیوں سے بھوسہ کھاتے ہیں اور جگالی کرتے ہیں۔ ان کے جسموں پر لمبے لمبے بال اور ان کے سروں پر سینگ اگ رہے ہیں۔ اس لیے ان کے سروں پر خارش ہوتی ہے جسے بجھانے کے لیے وہ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ انہیں لڑتا دیکھ کر مویشی خود کو بچانے کے لئے ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ مویشیوں کو ٹکریں مار مار کر باڑے سے باہر نکال دیتے ہیں۔
قیوم کی پرانی بیوی کے ہاتھ پاؤں زیادہ پھٹ گئے ہیں اور ان سے خون کی جگہ نیلی پیپ اور کالا سوما رستا ہے، جیسے کنڈم مشینری کے پرزوں سے سڑا ہوا تیل ٹپکتا ہے۔ اس کے سر میں جوؤں لیکھوں کی جگہ کن کجھورے، کاک روچ اور ہزار پا رہتے ہیں۔ آج کل وہ اس سے گھر کا کام نہیں کرواتے۔ وہ مویشیوں کے باڑے کے قریب بھورے میں رہتی ہے۔ کبھی کبھار قیوم اپنے نئے بچوں کا دل بہلانے کے لئے اسے لوہے کے پنجرے میں بند کر کے گھر لے آتا ہے۔ بچے اس کے پنجرے پر گندے سیب اور سڑے انار پھینکتے ہیں۔ وہ غصے میں آ کر اپنے بال نوچتی ہے، چیختی ہے اور سلاخوں کو دانتوں سے کاٹتی ہے۔ اس سے نئی بیوی اور نئے بچے خوش ہو تے ہیں۔ بچے تالیاں بجاتے ہیں۔ ان کی تالیوں سے ہلکی آواز آتی ہے جیسے کبوتر تالیاں بجا رہے ہوں۔ قیوم یہ دیکھ کر بے حد پریشان ہو جاتا ہے اور فوراً ان کے نازک ہاتھوں کو پکڑ لیتا ہے۔ " تالیاں مت بجاؤ! ہاتھ زخمی ہو جائیں گے۔ خوشی کا اظہار صرف منہ سے کرو۔ اچھا آج اتنا کافی ہے، بدبو زیادہ ہے اور جراثیم کا بھی خطرہ ہے۔ چلو چلو!ْ"
قیوم، اس کی نئی بیوی اور نئے بچے ارتقا کی منزلیں طے کر تے، انسانی وجود سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اب وہ حسین ترین پرندے بن گئے ہیں اور ایک شاداب باغ میں رہتے ہیں۔ ان کی آوازیں انسانوں کی آواز کی طرح بھاری اور بھدی نہیں ہیں۔ جب وہ بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے دلآویز، آسمانی ساز بج رہے ہوں۔ انھوں نے روٹی کھانا چھوڑ دیا ہے۔ وہ شہد، پھل، ملائی اور پھولوں کی پتیاں سونے کی نفیس کٹوریوں سے اٹھا کر کھاتے ہیں۔ رات وہ، ہیرے جڑے سونے کے پنجروں میں گزارتے ہیں جنہیں روشن کرنے کے لئے ہزار ہا جگنو تعینات ہیں۔
آج کل ان کا گھر مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ لوگ دور دور سے گاڑیوں، جہازوں، گھوڑوں اور گدھوں پر سوار ہو کر آتے ہیں۔ انہیں رشک سے دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں۔
" اس مقام پر پہنچنا آسان نہیں ہے !"
" اس مقام پر پہنچنے کے لئے گیان کی کٹھن منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں۔ "
" سکون، موسیقی، نزاکت، رنگینی اور خوبصورتی کی اس حد کو چھونا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ "
" عروج کی یہ منزل قربانیاں مانگتی ہے اور یہ قربانیاں صرف قیوم جیسا مضبوط، با عزم اور مقابلے کی طاقت رکھنے والا مرد اور اس کے نئے بچے اور نئی بیوی ہی دے سکتے ہیں۔ "
یاتری جب پرانے بچوں اور پرانی بیوی کے پنجرے کے قریب آتے ہیں تو وہ ناک پر کپڑا رکھ لیتے ہیں اور آپس میں کھسرپھسر کرتے ہیں، " جو لوگ پر عزم نہیں ہوتے، جو محنت سے جی چراتے ہیں وہ مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہ دھرتی کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں اور آسمانوں کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ "
٭٭٭