" ارے میرن تم کب آئے ؟ کیسے ہو؟۔۔ ۔ ارے جاؤ میرن کے لیے کوئی لسی پانی لاؤ" اللہ وسایا نے میرن کو پیار سے گلے لگایا۔ " میرن تم تو کتنے بدل گئے ہو! داڑھی کب چھوڑی؟ تمھارے اماں ابا کیسے ہیں ؟"
" اماں ابا کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا"
"کیوں ؟ تم ہندوستان سے نہیں آ رہے ؟"
"نہیں ! میں ہندوستان سے نہیں آ رہا۔ "
" تو پھر دو تین سال تو کہاں رہا؟"
" میں نے یہ سارا وقت اپنے مرشد کے دربار میں گزارا، جس نے مجھے کلمہ پڑھایا"
" ماشا ء اللہ! یہ تو بہت اچھا ہوا۔ تم دو تین سال گھر سے دور رہے۔ یہاں کے لوگ تو تیرے بارے میں قسم قسم کی باتیں کر رہے تھے۔ کچھ کہتے تھے کہ میرن ہندوؤں کے لڑاکا گروہ میں شامل ہو گیا ہے، جو چھپ کر مسلمانوں پر حملہ کرتا ہے۔ اور کچھ کہتے تھے کہ وہ ایک لڑکی کو بھگا کر لے گیا ہے۔ "
"نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تو ڈر کی وجہ سے نہیں آ رہا تھا۔ اگر میرے گھر والوں کو پتہ چل جاتا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں تو وہ۔۔ ۔ "
کھانا کھانے کے بعد اس نے اللہ وسایا سے کہا۔ "اچھا چاچا میں اب اپنے گھر چلتا ہوں "
" اپنے گھر؟؟؟"
" ہاں اپنے گھر، میرا یہاں جدی پشتی گھر ہے۔ میں وہاں رہنا چاہتا ہوں۔ "
" مگر اب وہاں ہم رہتے ہیں "
" آپ ہمارے گھر میں رہتے ہیں ؟"
"ہاں "
" آپ لوگ اپنے گھر میں نہیں رہتے ؟"
" ہمارے اپنے گھر میں میرا بڑا بھائی رہتا ہے۔ تم تو جانتے ہو ہمارا پرانا گھر چھوٹا تھا۔۔ ۔ میں اور میرے بچے اب تمھارے گھر میں رہتے ہیں۔ "
"چاچا آپ کو میرا گھر خالی کرنا ہو گا۔ اب وہاں میں رہوں گا۔ میں یہاں شادی کروں گا اور یہاں رہوں گا۔ میرا مستقبل پاکستان کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ "
" اچھا تم یہاں بیٹھو۔ ہمیں تمھارا گھر خالی کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ "
" ٹھیک ہے۔ میں یہاں انتظار کرتا ہوں "
میرن نے وضو کیا، نماز پڑھی اور اس کے بعد گاؤں کی گلیوں اور کھیتوں میں گھومنے پھرنے چلا گیا۔
خدا مجھے بھوکوں نہیں مارے گا۔ میں خوش قسمت ہوں۔ مجھ سے اپنا آبائی گاؤں نہیں چھوٹا۔ میں اپنے بچپن کی سہانی یادوں کے ٹھنڈے سایوں میں زندہ رہوں گا۔ میں یہاں شادی کروں گا۔ مجھے ماضی کے بارے میں نہیں سوچناچاہیے۔ میں زمین ٹھیکے پردے دوں گا۔ اور سارا وقت اللہ کی یاد میں گزاروں گا۔ ہم بچپن میں اس شرینہہ کے نیچے جھولا جھولتے تھے۔
میرن عصر تک اللہ وسایا کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آیا آخر تنگ آ کر وہ خود اس کے دروازے پر گیا۔ " میرا گھر آپ لوگوں نے ابھی تک خالی نہیں کیا؟"
" کونسا گھر؟"اللہ وسایا کے بیٹے نے غصے سے پوچھا۔
" یہ گھر جس میں تم رہ رہے ہو"
" تمھیں غلطی ہوئی ہے۔ یہ گھر ہمارا اپنا ہے۔ "
" بھائی یہ میرا جدی پشتی گھر ہے "
" جدی پشتی گھر تھا۔ مگر اب یہ گھر ہم نے خرید لیا ہے "
" کس سے خریدا ہے ؟"
" تیرے والد لکھن سے۔ ہم نے یہ گھر خریدا ہے۔ ہم نے اسے پیسے دیے ہیں "
"لیکن کچھ دیر پہلے چاچا اللہ وسایا کہہ رہا تھا کہ۔۔ ۔ "
"کچھ دیر پہلے کی بات چھوڑو۔۔ ۔ یہ گھر ہمارا ہے۔۔ ۔ "
میرن کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔
جب وہ شام کی نماز پڑھنے مسجد جا رہا تھا تو اسے اپنی گھوڑی مندو کے دروازے کے سامنے بندھی ہوئی نظر آئی۔ مندو گھوڑی کو پانی پلا رہا تھا۔ اس نے میرن کو گرمجوشی سے گلے لگا یا۔
" مندو ماما یہ گھوڑی ہماری ہے نا؟"
" یہ گھوڑی تمھارے بابا نے مجھے تحفے میں دی ہے۔ بہت اچھا انسان تھا تیرا بابا۔ جب آس پاس کے بپھرے دیہاتیوں نے انھیں گھیر لیا تو میں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر انھیں یہاں سے نکالا۔ تمھاری ماں، باپ، چھوٹے بھائی اور بہن کو، جب میں حفاظت سے بھکر پہنچا چکا تو لکھن نے گھوڑی میرے حوالے کر دی۔ " مندو یہ گھوڑی تم رکھ لو۔ ہم اس گھوڑی کو ہندوستان لے جا نے سے رہے۔ "
رات کو گاؤں والے " چونک" میں جمع ہوئے۔ بڑے بوڑھے اس زمانے کی باتیں کرتے رہے جب گاؤں میں ہندو مسلمان پیار محبت سے رہتے تھے۔
"بچپن میں، میں تو اکثر روٹی لکھن کے گھر کھاتا اور رات کو اکثر وہاں سو جاتا تھا" ایک نے کہا۔
" یار کیا زمانہ تھا !کیا لوگ تھے ! آجکل تو محض کچرا رہ گیا ہے " دوسرا بولا۔
" اس وقت اتفاق تھا، آجکل اتفاق نہیں ہے۔ اس لئے برکت چلی گئی ہے۔ " تیسرے نے رائے دی۔
دس گیارہ بجے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور میرن " چونک" میں ایک ماچے پر لیٹ گیا۔ اسے دیر تک نیند نہ آئی۔
صبح وہ اپنا آموں کا باغ دیکھنے گیا جو گاؤں سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ باغ میں کوئی دو سو کے قریب آم کے درخت تھے۔ باغ کے درمیان میں واقع مکان کی چھت پر ایک لڑکا پتنگ اڑا رہا تھا۔ لڑکا، میرن کو دیکھ کر جلدی سے نیچے اترا اور تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا بید ٹیکتے اس کے پاس آیا۔ اس نے میرن کو چارپائی پر بٹھایا۔
" چاچا فرازو کیا حال ہے ؟"
" خیریت ہے بیٹا۔ مگر میں نے تمھیں پہچانا نہیں "
" چاچا میں میرن ہوں "
"میرن، لکھن کے بیٹے ؟ تم کہاں ؟ تم لوگ تو ہندوستان چلے گئے تھے۔ "
" لیکن میں نہیں گیا تھا"
چائے پینے کے بعد جب میرن نے باغ کی ملکیت کا ذکر کیا تو فرازو نے کہا کہ اس نے یہ باغ خریدا ہے۔ اور ثبوت کے طور پر اسے اسٹام دکھایا جس پر لکھن کے نام کے نیچے انگوٹھا لگا ہوا تھا۔
گاؤں سے کوئی ڈیڑھ میل دور ایک چھوٹی کچی مسجد تھی لوگ اسے "جنوں والی مسجد"کہتے تھے۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ رات کو مسلمان جن اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے دور دور سے آتے تھے۔ کئی دیہاتیوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے جنوں کو اس مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
میرن نے اس مسجد میں ڈیرہ ڈالا۔ مسجد کا کچا کوٹھا باہرسے آدھاریت میں دھنسا ہوا تھا۔ اس نے مسجد کے صحن اور کوٹھے سے ریت کو ہٹایا۔ کوٹھے کی چھت سے مکڑی کے جالوں کی مسہری کو اتارا، کچے فرش پر جھاڑو پھیرا۔ ذرا فاصلے پر واقع کنویں سے پانی لایا۔ تین مٹکوں اور پانچ کوزوں کو پانی سے بھر کر قطار میں رکھ دیا۔
سردی کا موسم تھا۔ کئی دنوں سے موسم بوجھل تھا۔ وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی۔ دسویں دن موسم صاف ہو گیا۔ میرن دھوپ سینکنے مسجد سے نکل کر ریت کے ٹیلے پر آ گیا۔ سفید ریت برف کے برادے کی طرح چمکیلی اور ٹھنڈی تھی۔ ٹھنڈا آسمان نیلم کی کان لگ رہا تھا۔ درخت بارش سے دھل کر چمک رہے تھے اور پرندے موسم کے صاف ہونے پر جشن منا رہے تھے۔ گاؤں سے آنے والی ملی جلی مدھم آوازیں ہوا کے دوش پراس تک پہنچ رہی تھیں۔ اسے ریت پر کوئی چیز چمکتی ہوئی نظر آئی۔ محض جذبہ تجسس کی تشفی کے لیے وہ چمکتی ہوئی چیز کے پاس آیا اور اسے اٹھایا۔ یہ اس کی بوڑھی ماں کا چاندی کا جھمکا تھا۔ اس نے جگہ کو ذرا کریدا تو اس کی ماں کی پھٹی جوتی نکل آئی۔ ذرا اور کھودنے پر اس کی ماں کے کپڑے اور پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آنے لگا۔ اس نے جلدی سے ان پر ریت ڈال دی اور مسجد میں بیٹھ کر اندھیرا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ عشاء کے وقت اس نے ٹیلے کو لکڑی کے ٹکڑے سے کھودا۔ اس کی ماں کیساتھ اس کے باپ، بہن اور بھائی کے ڈھانچے بھی دفن تھے۔ اس نے دوبارہ ان پر ریت ڈالی اور اسی وقت کراڑی کوٹ سے نکل کھڑا ہوا۔
ایک ہفتے تک گاؤں میں میرن کے چلے جانے کا کسی کو بھی پتہ نہ چلا۔ جب انہیں پتہ چلا تو ایک نے کہا۔ " یار مجھے تو اس پر پہلے دن سے شک تھا۔ وہ مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچا رہا تھا۔ وہ اصل میں ہندوستان کے لئے جاسوسی کرنے آیا تھا۔ "
دوسرے نے کہا۔ " وہ جو بھی تھا، اچھا ہوا ہمارے سر سے ٹل گیا۔ "
وقت کی ریت گھڑی چلتی رہی۔ ریت حال کے ٹیلوں سے اڑ کر ماضی کے ٹیلوں پر گرتی رہی۔ چھ سال بعد میرن واپس آیا اور " جنوں والی مسجد" میں ڈیرہ ڈالا۔ اب اس کا حلیہ بدل گیا تھا۔ اس کی داڑھی، مونچھیں اور سر کے بال اپنی اپنی حدیں پھلانگ کر ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو چکے تھے۔ اس کے گال پچکے ہوئے تھے اور اس کے گلے میں کئی قسم کے منکوں والے ہار اور تسبحیاں چھنک رہی تھیں۔ وہ اپنے گلے میں ماں کا چاندی کا جھمکا بھی ڈالے ہوئے تھا، جو اسے ریت کے ٹیلے سے ملا تھا۔ اس کی آمد کے پانچ دن بعد گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ جنوں والی مسجد میں ایک پہنچا ہوا بزرگ آیا ہوا ہے۔ اس سے دم کروانے کے لئے مرد، عورتیں، بچے وہاں پہنچ گئے۔ عورتوں میں سے کسی کو بھی شک نہ ہوا کہ وہ میرن ہے۔ مگر کچھ مرد اس کی شناخت کے بارے میں کھسرپھسر کرنے لگے۔ آخر ملک ڈتا نے آگے بڑھ کر اس سے سوال کیا" اے اجنبی تو میرن ہے نا؟"
" ہم فقیروں کے نام نہیں ہوتے " میرن نے جواب دیا۔
" تم کہاں سے آئے ہو۔ تمھارا گھر کہاں ؟"
"بھائی فقیروں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا"
"تم سیٹھ لکھن کے بیٹے میرن ہو؟"مندو دھاڑا۔
میرن نے کوئی جواب نہ دیا۔
" تم جاسوس ہو!" اللہ وسایا گرجا۔
" ہاں میں جاسوس ہوں۔ ہاں میں جاسوس ہوں "میرن جوش سے چلایا۔
" تم ہندوستان کے جاسوس ہو"
"نہیں، نہیں !میں اللہ کا جاسوس ہوں۔ اپنے مرشد کا جاسوس ہوں۔ میں میرن ہوں۔ اپنے پیر و مرشد کے کہنے پر یہاں آیا ہوں "وہ جلال میں آ کر کھڑا ہو گیا۔
" تم اپنا گھر اور جائداد لینے آئے ہو؟" اللہ وسایا کے منہ سے جھاگ اڑ رہ تھا۔
میرن نے کوئی جواب نہیں دیا۔
" تم یہاں کس لئے آئے ہو ؟ چپ کیوں ہو؟"۔ مندو نے کہا۔
"میں۔۔ ۔ میں۔۔ ۔ یہاں۔۔ ۔ مرنے کے لئے آیا ہوں۔ مجھے چین سے مرنے دو گے ؟" میرن پاگلوں کی طرح دھاڑا اور لال بھبھوکا آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ دیہاتیوں میں کسی نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ وہاں سے کھسک گئے۔
گاؤں واپس آ کر لوگ دیر تک صلاح مشورہ کرتے رہے کہ میرن کیساتھ کیا کیا جائے۔
"اس سے پہلے کہ وہ کوئی فساد کرے۔ اسے فوراً قتل کر کے ریت میں دفنا دینا چاہیئے۔ "
" شہر جا کر پولیس کو اطلاع دینی چاہیے کہ ہمارے گاؤں میں ہندوستان کا جاسوس آیا ہوا ہے۔ "
"لیکن یہ کام تو صبح ہو گا۔ اگر اس نے اب، اسی وقت کوئی گل کھلا دیا تو؟"
"میرے خیال میں ہمیں، ابھی اسی وقت اسے گاؤں سے نکال دینا چاہیے۔ "
جب لوگ ڈنڈے سوٹے اٹھائے، مسجد پہنچے تو میرن دیئے کی روشنی میں نفل پڑھ رہا تھا۔ نفل اتنے لمبے ہو گئے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہے تھے۔ لوگ انتظار کرتے کرتے تھک گئے۔ آخر ان میں آدھے ریت کے ٹیلے پر سو گئے۔ کچھ دیر بعد باقی آدھوں نے دو آدمیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ میرن پر نظر رکھیں اور وہ بھی سو گئے۔
صبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے پہرے داروں نے بھی نیند کے سامنے ہتھیار ڈال دئے۔ ریت کے بستروں میں سونے والوں کی آنکھ اس وقت کھلی جب گاؤں سے آنے والی عورتیں اور بچے ان کے سرپرآ گئے تھے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور دوبارہ اپنے ڈنڈے سوٹے سنبھال لئے۔
"اسے کچھ نہ کہو۔ پچھلی رات مجھے خواب میں اماں ملی ہے، اس نے مجھ سے کہا ’تمھارے گاؤں میں جو مہمان آیا ہے، وہ رحمت ہے۔ اسے اپنے حال پر چھوڑ دو‘۔ " ایک بڑھیا گڑ گڑائی۔
"ماسی لگتا ہے تو سٹھیا گئی ہے۔۔ ۔ آؤ اسے ختم کر یں اور اس کی لاش کسی سوکھے کنویں میں پھینک کر اوپر سے ریت ڈال دیتے ہیں۔ "ایک جوان نے ڈنڈا گھمایا۔
" اسے ختم کر دو، ورنہ یہ روزانہ ہمارے لئے دردِسربنا رہے گا۔ "اللہ وسایا کے بیٹے نے چمکتی کلھاڑی سے ریت پر وار کیا۔
سورج کا سرخ کنارہ افق سے نکل رہا تھا۔ درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ دور سے آٹے کی مشین کی تُک تُک کی آواز آ رہی تھی۔ میرن مصلے پر گٹھڑی بنا پڑا تھا۔
"چل اٹھ! مکر نہ کر، تیرا وقت آن پہنچا ہے۔ "ایک جوان نے جب اسے ہلایا تو وہ مرا ہوا تھا۔ رنگ برنگے منکوں کے ڈھیر میں دبی ایک سوکھی کالی لاش۔ لوگ لاش کو مسجد میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
میرن کے مرنے کے چار پانچ مہینے بعد اس کا پیرو مرشد " گھنگروؤں والا فقیر" کراڑی کوٹ آیا۔ گرمی کا موسم تھا۔ بے رحم دھوپ میں تھل جل رہا تھا۔ اس نے گاؤں کی چونک میں قیام کیا۔ گاؤں کے سارے مرد، عورتیں، بچے وہاں اکٹھے ہو گئے۔ کوئی چوپڑی روٹی لا رہا ہے تو کوئی دودھ اور کوئی مرونڈے اور ابلے انڈے۔ گھنگروؤں والا فقیر، لوگوں کی طرف سرخ غصیلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ لوگ مجرموں کی طرح سہمے کھڑے تھے۔ آخر ایک سفید ریش نے ہمت کر کے کوزہ اٹھایا اور کہا۔ "پیر سائیں ہاتھ دھوئے اور بسم اللہ کیجیئے "
"ہمارے ہاتھ تم دھلواؤ گے ؟" فقیر نے اسے آتش فشانی آنکھوں سے گھورا۔
"حضور اگراس گناہ گار کو اجازت دیں۔۔ ۔ "
"ہم اجازت نہیں دیتے۔۔ ۔ ہمارے ہاتھ صرف میرن دھلوائے گا۔ "
لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
" میرن کو بلاؤ۔ ہمارے ہاتھ صرف وہ دھلوائے گا، میرن کو بلاؤ"فقیر گرجا مگر کسی سے کوئی جواب نہیں بن رہا تھا۔
"بولتے کیوں نہیں ؟ جاؤ میرن کو بلاؤ۔ "
" سرکار میرن تو فوت ہو گیا ہے " ایک بوڑھا ممیا یا۔
"فوت ہو گیا ہے ؟ کیسے فوت ہوا؟"
" پتہ نہیں سرکار۔۔ ۔ ایک دن گاؤں والے اس کے پاس دم کروانے گئے تو وہ مسجد میں مصلے پر مرا پڑا تھا"
" اسے تم نے مارا ہے۔ تم لوگوں نے اسے مرنے پر مجبور کیا ہو گا۔ تم سب گناہ گار ہو" فقیر اپنی جگہ سے اٹھا۔ وہ غصے سے کانپ رہا تھا۔ اسے اٹھتا دیکھ کر اس کے گرد بنا ہوا لوگوں کا حلقہ ایک دم ٹوٹ گیا۔
" اس کی قبر کہاں ہے ؟ مجھے اس کی قبر پر لے جاؤ!"
" مرشد پاک!ہم اس کی قبر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے "
فقیر اپنے جوتے پہنے اور عصا اٹھائے بغیر روانہ ہو گیا۔ وہ گرم ریت پر ایسے چل رہا تھا جیسے ریشم کے غالیچے پر چل رہا ہو۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ ایک آدمی نے اسے جوتے پیش کئے مگر اس نے جوتوں کو پھینک دیا۔
" ہمیں معاف کر دو پیر سائیں۔ ہم سے غلطی ہو گئی ہے " اللہ وسایا نے ہاتھ جوڑے۔
" ہم پر رحم کرو۔ مرشد پاک !ہم کمزور لوگ ہیں۔ "مندو گڑ گڑایا۔
کچھ فاصلے تک عورتیں اور بچے بھی چلنے والوں کیساتھ چپکے رہے اور پھر تھک کر واپس گاؤں آ گئے۔ مگر مرد چار پانچ میل تک فقیر کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور معافی مانگتے رہے۔ آخر وہ بھی پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال ہو کر درختوں کے نیچے ایک ایک کر کے بیٹھتے گے۔ فقیر تنہا، مستانہ وار چلتا رہا اور تھل کے سینے سے نکلنے والی چلچلاتی، لہراتی تپش میں غائب ہو گیا۔
" آج ضرور طوفان آئے گا، ہم نے گھنگروؤں والے فقیر کو ناراض کیا ہے "
" مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں آج زلزلہ نہ آئے۔ "
" اگر زلزلہ نہ آیا تو آج ژالہ باری ہو گی اور تمام فصلیں تباہ ہو جائیں گی"
گاؤں والے باتیں کر رہے تھے۔
اس دن عصر کے وقت تیز آندھی چلی اور طوفانی بارش ہوئی۔ ہر طرف اندھیرا ہو گیا اور ڈر سے لوگوں نے مسجد میں پناہ لی۔ وہ کئی دنوں تک ڈرے سہمے رہے۔
وقت گزرتا گیا۔ لوگ میرن اور گھنگروؤں والے فقیر کو بھول گئے۔ جیٹھ کا مہینہ ختم ہونے والا تھا۔ کراڑی کوٹ کے لوگ کھلیان میں گندم گہانے میں لگے ہوئے تھے۔ دھند لے تپتے افق سے ایک میلی کالی شکل ریت کے ٹیلوں کو پھلانگتی چلی آ رہی تھی۔ دیہاتیوں کی نظریں اس پر ٹک کر رہ گئیں۔ تھل کی ریت سے تپش کے مرغولے نکل رہے تھے۔ جیسے کوئی بڑے دیو ہیکل تندور کے جلتے پیٹ پر پانی کی چھینٹیں مار رہا ہو۔ جب گاؤں والوں نے دیکھا کہ میلی شکل گھنگروؤں والا فقیر ہے تو کام کرتے ہاتھ جہاں تھے وہاں رک گئے۔ فقیر ہاتھ میں چھوٹی میلی گٹھڑی اٹھائے ایسے چل رہا تھا جیسے کوئی سپیرا سانپ پکڑنے نکلا ہو۔ اس کا سر اور پاؤں ننگے تھے اور وہ انھیں کپڑوں میں تھا جو اس نے گاؤں میں اپنی آخری آمد پر پہنے تھے۔ اس کے گال دھنسے ہوئے تھے۔ وہ انتہائی کمزور اور لاغر دکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ اور پہلے سے زیادہ بڑی اور پھیلی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا مگر پھر بھی تیز قدموں سے چل رہا تھا۔ لوگ اس سے ملنے کے لئے اس کی طرف دوڑے۔ ہر کوئی اس سے ہاتھ ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کوئی اس کے پاؤں پڑ رہا تھا اور کوئی ہاتھ جوڑے اس کا استقبال کر رہا تھا۔ مگر فقیر نے کسی کو کوئی توجہ نہ دی۔ وہ مسلسل چلتا رہا حتیٰ کہ وہ گاؤں پہنچ گیا۔ لوگ اس کے لئے روٹی، مکھن اور دودھ لائے مگر اس نے کچھ نہ کھایا۔
" میرن کا کونسا گھر ہے ؟"فقیر غرایا۔
" میرن کا یہاں کوئی گھر نہیں ہے مرشد"اللہ وسایا نے جواب دیا۔
" لکھن کا کونسا گھر ہے ؟"
"یہ ہے سرکار۔ سامنے والا"
فقیر، لکھن کے گھر کے سامنے شرینہہ کے نیچے پہنچ گیا۔
" یہاں جھولتا تھا، یہی جگہ ہے ! اس درخت میں جھولا ڈال کر وہ بچپن میں جھولتا تھا۔ اے درخت تو کتنا خوش نصیب ہے۔ میرن جیسا ولی تیرے سائے میں پلا ہے۔ تو بہشتی درخت ہے !"فقیر نے درخت کو گلے لگا لیا اور اسے بے تحاشا چومنے لگا۔
کچھ دیر بعد اس نے انگلیوں سے درخت کے نیچے زمین کو کریدنا شروع کیا۔ کچھ دیہاتیوں نے زمین کریدنے میں اس کی مدد کرنا چاہی مگر اس نے انہیں سختی سے منع کر دیا۔ اس کی لمبی، کالی انگلیاں ریت کو ایسی کھود رہیں تھی جیسے چوزوں والی مرغی دانوں کے لئے زمین کریدتی ہے۔ چھوٹا سا گڑھا کھودنے کے بعد اس نے گٹھڑی کھولی۔ اس سے ایک پرانا چکنا چولا نکالا، اسے آنکھوں سے اور پھر ہونٹوں سے لگایا، ادب سے گڑھے میں رکھا اور اس پر آہستہ سے ریت ڈالنے لگا۔
" دوست مجھے معاف کرنا! میں تیرے جسدِخاکی کو نہ ڈھونڈ سکا۔ کئی مہینے پیدل چلنے کے بعد مجھے تیرا یہ چولا ملا ہے۔ میں تیرے چولے کو دفنا رہا ہوں۔ اسے تیرے گاؤں کی مٹی میں دفنا رہا ہوں۔ تمھیں اس گاؤں کی مٹی سے پیار تھا نا ! تو ہمیشہ اپنے گاؤں کو یاد کرتا رہتا تھا نا! اس درخت کو یاد کرتا تھا۔ میں تیرے لیے کچھ نہ کر سکا۔ میں تیرے پسینے کی خوشبو میں رچے ہوئے چولے کو تمھاری پسندیدہ جگہ پر دفنا رہا ہوں۔ "
وہ دیر تک قمیص کی " قبر"کے سرہانے بیٹھا روتا رہا۔ جب شام ہوئی تو اس نے جیب سے مٹی کا دیا اور تیل کی شیشی نکالی۔ دئے میں تیل ڈالا، ادھ جلی بتی کو درست کیا اور جلا دیا۔
" دوست خدا کرے تیری قبر میں اتنے دیئے جل اٹھیں جتنے اس تھل میں ریت کے ذرے ہیں۔"
اس نے قبر سے ایک چٹکی ریت لے کر اپنی چادر کے کونے میں باندھ لی۔ " الوداع دوست! میں جا رہا ہوں۔ اب ہم اس وقت ملیں گے جب ساری دنیا تھل بن جائے گی۔ جب سب انسان ننگے پاؤں تپتے تھل میں کھڑے ہوں گے۔ ہم اس وقت ملیں گے جب زمین کی کوئی قدر نہیں ہو گی۔ جب یہ ہمارے گلے میں طوق بن جائے گی۔ خدا حافظ میں جا رہا ہوں !"
کراڑی کوٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گاؤں کے کئی آدمیوں نے شام کے بعد " جنوں والی مسجد "میں چراغوں کی روشنی میں میرن کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ کچھ دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی رات کے وقت آسمان سے سفید روشنیوں کی آبشاریں اترتی ہیں۔ ہر طرف عطر کی خوشبو بسی ہوتی ہے۔ اور سفید پوش بزرگوں کی لمبی لمبی صفیں ریت کے ٹیلوں پر میرن کا جنازہ پڑھ رہی ہوتی ہیں۔
٭٭٭