میرا باپ کس رنگ اور کس قد کاٹھ کا تھا، میں نہیں جانتا۔ میں نے شاید کبھی اپنے باپ کو نہیں دیکھا تھا اگر دیکھا تھا تو یاد نہیں۔ وہ کہیں باہر رہتا تھا۔ اس کے خط آتے، کبھی کبھی پیسے آتے اور نانی کا پھٹا ہوا کھڈی کا دوپٹہ دعا کے لئے اٹھ جاتا۔ پھر میں سکول جانے لگا، ابا کے خط اور پیسے آنا کم ہو گئے۔ امی، نانی اور ماما کبھی آہستہ اور کبھی اونچی آواز میں باتیں کرتے، کبھی کبھی بابا کو گالیاں دیتے۔ جب میں تیسری جماعت میں گیا تو بابا کے خط اور پیسے آنا بالکل بند ہو گئے۔ امی اور نانی بابا کو بد دعائیں دیتیں اور ماما کھلم کھلا گالیاں دیتا۔
میں تیسری جماعت تک ماما کو اپنا بابا سمجھتا تھا۔ ماما نے شادی نہیں کی تھی اور وہ آخری دم تک مجھے اپنا بیٹا سمجھتا تھا۔ ماما اور میں بازار سودالینے اکٹھے جاتے، جنگل سے لکڑیاں لینے اکٹھے جاتے، مسجد اکٹھے جاتے۔ جب ہم گلی سے گزرتے تو درابن کے بچے اور لڑکے ماما پر ہنستے، کیوں کہ وہ کبڑا تھا اور جھک کر چلتا تھا۔
ایک دفعہ کچھ لڑکے جھکڑ کی طرح آئے، اس کے کُب پر ایک ایک مکا رسید کیا اور ہوا ہو گئے۔ ماما نے ان کے پیچھے بھاگنا چاہا مگر وہ نہیں بھاگ سکتا تھا۔ اسلئے اس نے گالیاں دینے پر اکتفا کی۔ کبھی کبھار لڑکے اس کے ساتھ انوکھی شرارتیں کرتے۔ ایک دفعہ ہم شیر شاہ کے تھڑے پر نسوار بنانے جا رہے تھے۔ کچھ لڑکے تیزی سے آئے، ماما کے کُب پر ٹوٹا ہوا گھڑا اور اس کے سر پر ایک بوسیدہ چھابہ رکھا اور فرار ہو گئے۔ چار پانچ قدم چلنے کے بعد بھی ٹوٹا گھڑا اس کے کب پر سے نہ گرا۔ آخر میں نے گھڑے کو دھکا دیا اور وہ نیچے گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
میرا ماما مجھ سے بے حد پیار کرتا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ گھماتا۔ جب میں تھک جاتا تو مجھے اپنی جھکی ہوئی کمر پر بٹھاتا۔ میں اپنے چاچا کی کمر پر آسانی سے نہیں بیٹھ سکتا تھا اور نیچے کھسکتا چلا جاتا۔ مجھے ہر وقت یہ خدشہ رہتا تھا کہ ابھی گرا اور ابھی گرا۔ ایک دن چاچا کو میں نے صاف صاف بتا دیا "میں اس وقت تک تمھاری کمر پر نہیں بیٹھوں گا جب تک تو اپنی پیٹھ پر ماما کی طرح کُب نہیں لگوا لیتا۔ " مگر میرے پیارے ماما کی جھکی کمر اور اس کے نیچے کُب ایک مثالی نشست تھی۔
مجھے ماما سے بہت پیار تھا۔ مجھے اس کی ٹیڑھی چھڑی سے پیار تھا، مجھے اس کے موٹے بے ڈھنگے جوتوں سے پیار تھا، مجھے اس کے کُب سے پیار تھا۔ ایک دن وہ مجھے اپنی کمر پر اٹھائے مسجد کی طرف جا رہا تھا: "ماما، چاچا کا کب کیوں نہیں ہے ؟"
"کب ہمیشہ ماما کا ہوتا ہے۔ چاچا کا نہیں۔ " وہ ہنسا۔
"غلط!میں سب سمجھتا ہوں، کب صرف اچھے آدمی کا ہوتا ہے۔ چاچا اچھا آدمی نہیں ہے۔ اس لئے اس کا کب نہیں ہے۔۔ ۔ ماما کب کا کیا فائدہ ہوتا ہے ؟"
" یہ تم جیسے پیارے پیارے بچوں کو اٹھانے کے لئے ہے۔ "
"اگر بچوں کو اٹھانے کے لئے ہوتا ہے تو پھر شیدو کے ماما کا کب کیوں نہیں ہے ؟"
ماما لا جواب ہو گیا۔
"اچھا ماما یہ بتاؤ، میرا کُب کب اگے گا؟"
"اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے ! چلو چھوڑو!۔۔ ۔ آج تم بھی میرے ساتھ نماز پڑھو گے، اب تم بڑے ہو گئے ہو۔ "
اس دن میں نے ماما کے ساتھ نماز پڑھی۔ ماما نماز میں جسطرح اٹھتا بیٹھتا، میں بھی ویسے کرتا رہا۔ جب ہم سجدے میں پڑے تھے تومیں نے چپکے سے سر اوپر اٹھایا۔ میری نظر مسجد کی مُنڈیر پر بیٹھے کبوتروں پر جا ٹکی۔ وہ مجھے بکری جتنے لگ رہے تھے۔ پھر میری نظر مسجد کے کچے میناروں پر پڑی وہ مجھے جھولتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ میرے اوپر گر جائیں گے۔ پھر میری نظر مسجد میں لگی نسواری کھجوروں پر پڑی۔ میرے جی میں آیا کہ پرندہ بن کر اڑوں اور کھجوریں توڑ کر نیچے آ جاؤں۔ اس دن دعا میں ماما نے پتا نہیں کیا مانگا مگر میں نے خدا سے کب مانگا۔
ماما ہر روز عصر کی نماز کے بعد شیر شاہ کے تھڑے پر جاتا، وہ پتھر کی اوکھلی میں نسوار بناتا، اس کی نسوار کے اجزاسب لوگوں سے مختلف تھے: ایک کالی مرچ، ایک سبز الائچی، کھارکاچھوٹاساٹکڑا، تھوڑے سے سونف، تین چار دانے دھنیا، ایک لونگ، ایک چٹکی راکھ، چونا حسب ذائقہ اور اچھی نسل کے تمباکو کے پتے۔ ان تمام چیزوں کو وہ محنت اور شوق سے پیستا اور ان میں تھوڑا سا پانی ڈال کر پھر رگڑتا۔ نسوار تیار ہونے پر ایک چٹکی منہ میں رکھتا۔ باقی کی نسوار کو چاندی کی ڈبیا میں ڈال کر انگوٹھے سے دباتا۔ ڈبیا کے درمیان میں چھوٹا گول شیشہ اور کناروں پر رنگ برنگے نگ جڑے ہوئے تھے۔ وہ سیٹی بجاتے ہوئے اپنے چہرے کو ڈبیا میں جڑے ہوئے شیشے میں دیکھتا، مونچھوں اور داڑھی پر ہاتھ پھیرتا۔
گھر پہنچ کر وہ آدھی نسوار نانی کو دیتا جو آگے تھوڑی سی نسوارامی کو دے دیتی، جس سے باجی ایک دو چٹکی چرا لیتی۔
ایک دن ماما سے آنکھ بچا کر میں نے مٹھی بھر چونا نسوار میں ملا دیا، اس دن پہلی چٹکی نے ماما کے منہ میں زخم کر دئیے۔ نانی اور امی کے منہ ایک ہفتے تک نسوار استعمال کرنے کے قابل نہ ہوئے۔ اور باجی کا منہ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ وہ دو ہفتوں تک سالن نہیں کھا سکتی تھی اور روٹی گڑ کے ساتھ کھاتی۔
کبھی کبھار ماما مجھے نسوار کی اوکھلی کے پاس بٹھا تا اور خود نیم تاریک، بڑے بوڑھے کوٹھے کے اندر غائب ہو جاتا۔ جب وہ واپس آتا تو اس کی آنکھیں لال ہوتیں اور وہ کھانس رہا ہوتا۔ اس دن وہ مجھے اپنی پشت پر نہ بٹھاتا۔ راستے میں مجھ سے باتیں بھی نہ کرتا، شرارت کرنے والے لڑکوں سے نہ الجھتا اور گھر پہنچ کر نانی کے سامنے بھی نہ آتا۔
میں پانچویں جماعت میں داخل ہو گیا تھا۔ اب میں گلی سے گزرتا تو مجھے ایسا لگتا کہ لڑکے مجھ پر ہنس رہے ہیں مگر مجھے اس بات کا کچھ زیادہ احساس نہیں ہوتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ میرا کب اگر ہا تھا اور مجھے سیدھا ہونے میں تکلیف ہونے لگی تھی۔ پھر ایک دن ماما فوت ہو گیا، اس کی جگہ میں نے لے لی۔ اب تمام لڑکے مجھ پر ہنستے تھے۔ کبھی کبھار کوئی لڑکا میرے کب پر تھپڑ یا مکا مار دیتا تھا۔
میں بڑا ہوتا گیا، مجھ پر ہنسنے والے لڑکے بھی بڑے ہوتے گئے۔ ان میں اکثر نے شادی کر لی، کچھ کے بچے ہو گئے۔ ان میں سے کچھ بعد میں میرے دوست بن گئے اور کچھ دوسرے شہروں میں مزدوری کرنے چلے گئے۔ جب وہ چھٹیاں گزارنے درابن آتے، تو مجھ سے بڑی عزت سے ملتے، میرے ساتھ بیٹھتے، باتیں کرتے۔ کبھی کبھار ان میں سے کوئی ایک آدھ میرے لئے کوئی تحفہ بھی لے آتا، لیکن مجھ سے شرارت کرنے والوں میں کمی نہ آئی۔ اب وہ لوگ جو میری عزت کرتے تھے، ان کے بچے میرے اوپر ہنستے تھے، ان میں سے کچھ کو تو میں جانتا بھی نہیں تھا لیکن مجھے ہر بچہ جانتا تھا۔ گلی میں میرے گزر جانے کے بعد لڑکے دیر تک میرے بارے میں بولتے رہتے، ہر لڑکا اپنی کار کردگی کی رپورٹ پیش کرتا۔ مجھے ستانے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈے جاتے۔ جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی، میرا جسم سوکھتا گیا مگر میرا کب بڑھتا گیا۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا جیسے کسی نے میری کمر پر گول پتھر رکھ کے اوپر سے چمڑی منڈھ دی ہو۔ مجھے چلنے میں دقت ہوتی تھی۔ عیدین، میلہ شاہ عالم، چودہ اگست اور شادی بیاہ کے موقعوں پر بچوں کو ڈھولوں، جھولوں اور کھلونوں سے کہیں زیادہ میں تفریح مہیا کرتا۔ ایسے موقعوں پر مجھ سے بڑے پیمانے پر مذاق ہوتا۔ میں چھڑی لے کر ان کے پیچھے ہاتھی کے لنگڑے بچے کی طرح بھاگتا۔ جواب میں مجھ پر لکڑی کے ٹکڑوں، پتھروں اور ٹھیکریوں کی بوچھاڑ ہوتی۔ یہ جنگ اکثر یک طرفہ ہوتی۔ مجھے میدان چھوڑنا پڑتا مگر بعض اوقات کوئی راہ گیر میری مدد کو آن پہنچتا اور مجھے مفت میں لڑکوں کی فوج پر فتح مل جاتی۔ جو لڑکوں کو بہت بری لگتی اور وہ دو تین دن کے اندر اندر مجھ سے بدلہ لے کر دم لیتے۔
سارے شہر میں صرف ایک درزی میرے کپڑے سی سکتا ہے اور یہ وہی درزی ہے جو میرے ماما کے کپڑے سیتا تھا۔ شہر میں صرف ایک موچی میرے جوتے بنا سکتا ہے اور یہ وہی موچی ہے جو میرے ماما کے جوتے بناتا تھا۔
کچھ سال بعد مجھے ستانے والے لڑکوں کی دوسری کھیپ بھی بڑی ہو گئی۔ ان میں کچھ کی شادیاں ہو گئیں، کچھ کی نوکریاں لگ گئیں، کچھ حافظ بن گے اور انھوں نے داڑھیاں رکھ لیں۔ کچھ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔ اب یہ جوان مجھے سلام کرتے، چیزیں اٹھانے میں میری مدد کرتے۔ کبھی کبھار مجھے کھانے پینے کی کوئی چیز دے دیتے۔ کچھ تو میرا ہاتھ پکڑا کر اپنے ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگتے۔ مگر مجھ سے مذاق کرنے والوں کی تعداد میں کمی نہ آئی۔
اب میں مکمل طور پر بوڑھا ہو گیا ہوں، میرا چہرہ، ہاتھ اور ٹانگیں سوکھتی جا رہی ہیں مگر میرا کُب بڑھتا جاتا ہے، جیسے آندھی میں ریت کا ٹیلہ بڑھتا ہے۔ جس طرح ریت کا ٹیلہ نخلستان پر قبضہ کرنے کے لئے دوڑتا ہے، اس طرح میرا کب میرے وجود پر آہستہ آہستہ فتح پارہا ہے۔ میرے لئے کب کا بوجھ اٹھانا مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں۔ میں اس کا عادی ہو چکا ہوں۔ مجھے اس سے پیار سا ہو گیا ہے۔ کُب میری شناخت بن گیا۔ اس دنیا میں کسی کا کب بھی تو نکلنا تھا، کسی کو اندھا بھی تو ہونا تھا، کسی کو بہرہ بھی تو ہونا تھا۔ جسمانی عیب ہم میں سے کسی کے حصے میں تو آنے تھے۔ کسی کے لئے دنیا اندھیری ہونی تھی، کسی کے لئے تمام آوازیں بے معنی ہونی تھیں اور کب کو بھی کسی نے تو اٹھانا تھا۔
اچھا ہوا کہ میں انسانوں کے کچھ کام تو آیا۔ نسلِ انسانی کا ایک جسمانی عیب تو اٹھایا، بچوں کی تین نسلوں کو شرارت اور مذاق کا سامان تو مہیا کیا۔ میں خوشی خوشی اپنی جھکی کمر پر کب کو اٹھائے بوڑھے کچھوے کی طرح گلیوں کی بھول بھلیوں میں رینگتا چلا جاتا ہوں، بچوں کو اپنے اوپر ہنسنے دیتا ہوں اور انھیں زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کا موقع دیتا ہوں۔
اب میرا بھانجا میری انگلی پکڑ کر میرے ساتھ چلتا ہے۔ اس کی عمر نو دس سال ہے۔ ہم اکٹھے بازار جاتے ہیں۔ شیر شاہ کے تھڑے پر نسوار بنانے اکٹھے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ میری نسوار میں ایک مٹھی چونا جھونک دیتا ہے اور پہلی چٹکی سے میرے منہ میں زخم آ جاتے ہیں۔ ہم مسجد اکٹھے جاتے ہیں۔ جب میں نماز پڑھتا ہوں تو وہ میرے بار بار منع کرنے کے باوجود بھی میرے جوتے اپنی جھولی میں رکھ کر میرا انتظار کرتا ہے۔ جب ہم گلی میں گزرتے ہیں تو لڑکے ہم پر ہنستے ہیں۔ ہماری طرف اشارے کرتے ہیں، قہقہے لگا تے ہیں۔ میں سوچتا ہوں یہ لڑکے مجھ پر ہنس رہے ہیں یا میرے چھوٹے بھانجے پر؟ وہ مجھ پر ہنس رہے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر۔۔ ۔۔
٭٭٭