یہ بستر کتنا سخت ہے !یہ بچے کتنا شور کرتے ہیں !یہ زندگی کتنی مشکل ہے !اسے جھیلنا ایک سزا ہے۔ اس زندگی سے تو موت اچھی ہے، لیکن میرے خود کشی کرنے کے بعد میرے چار بچے کیا کریں گے ؟بیٹے کسی ہوٹل میں برتن مانجھیں گے یا اڈوں پر جوتے پالش کریں گے اور بیٹی۔۔ ۔ آج کا دن جیسے تیسے گزر گیا، ان کی یتیمی کا ایک دن کم ہو گیا ہے۔ رابعہ کی بیو گی کا ایک دن کم ہو گیا۔ میں تو بس ان کے لیے جی رہا ہوں۔
میرا جسم کیسے ٹوٹ رہا ہے ! لگتا ہے کئی ہزاریوں سے میں دنیا کے اس عقوبت خانے میں رہ رہا ہوں۔ ٹیوشن پڑھانا کتنا ذلت آمیز کام ہے ! ایک گیٹ کی گھنٹی بجاؤ، انتظار کرو، پھر دوسرے گیٹ کی گھنٹی بجاؤ، انتظار کرو۔ غریب کی زندگی میں ذلت اور انتظار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو بد تمیز نوکر مجھے ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے میں کوئی بھکاری ہوں۔ ظہر سے عشاء تک میں امیروں کے دروازوں پر بھیک مانگتا پھرتا ہوں۔
یہ کمرہ کتنا کشادہ اور خوبصورت ہے، صوفے کتنے آرام دہ ہیں ! تعلیم کا یہی تو فائدہ ہے، کچھ لمحوں کیلئے تو آرام مل جاتا ہے۔ نرم قالینوں پر چلنا نصیب ہو جاتا ہے۔ عاصمہ کتنی خوبصورت ہے۔ میری بیوی کو ایسے ہونا چاہیے تھا۔ اس کا چہرہ کتنا پرسکون ہے۔ یہ کتنی میٹھی باتیں کرتی ہے۔ اس کے ہاتھ کتنے دلکش ہیں۔ تین چار سال بعد پتہ نہیں یہ ہاتھ کس خوش نصیب کے ہاتھوں میں ہوں گے۔۔ ۔ مجھے ایسی باتیں نہیں سوچنی چاہیں۔ وہ میری شاگرد ہے۔ قسمت کی بات ہے، اگر میں افسر لگ گیا ہوتا تو عاصمہ جیسی بیوی مجھے مل سکتی تھی مگر میرے ترقی کے سارے خواب ملیا میٹ ہو گئے ہیں۔۔ ۔ عاصمہ کی امی ٹرے میں کیا لا رہی ہے ؟جوس ہو گا یا فروٹ چارٹ۔۔ ۔ آ ہا کتنی مزیدار فروٹ چارٹ ہے !
آدمی کو یا تو شان سے جینا چاہیے یا نہیں جینا چاہیے۔ میں کتنا نادیدہ ہو گیا ہوں۔ پلیٹوں، پیالوں اور گلاسوں کی چھنکار پر چونک جاتا ہوں۔ تف ہے ایسی زندگی پر!دوسروں کے ٹکڑوں پر زندہ رہنا۔۔ ۔ ہو سکتا ہے یہ فروٹ چارٹ انہوں نے اپنے بچے کھچے پھلوں سے بنائی ہو۔ کل سے میں ان کے گھر کی بنی ہوئی کوئی چیز نہیں کھاؤں گا۔ دوسرا یہ کہ یہ لوگ مجھے سٹائلش برتنوں میں چیزیں نہیں دیتے۔ نفیس برتن انہوں نے اعلیٰ قسم کے مہمانوں کیلئے سنبھال کر رکھے ہیں۔ میں نے سیٹھ مجید کے بیٹوں کو ٹیوشن پڑھانے سے اس لئے انکار کر دیا تھا کیونکہ ایک تو وہ مجھے برآمدے میں پرانی اُکھڑی ہوئی کرسی پر بٹھاتے تھے۔ اور دوسرامجھے ہر روز سرخ رنگ کا میٹھا شربت پلاتے۔ کبھی کبھی تو اس شربت میں بال بھی تیر رہے ہوتے اور، اور گلاس سے جو گندی بو آتی تھی اس سے تو میرے چودہ طبق روشن ہو جاتے تھے۔ شاید یہ گلاس نوکروں کیلئے تھا۔ یہ ذلت میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
ہارون، آپ لوگوں نے یہ پردے کہاں سے خریدے ہیں ؟ بہت پیارے ہیں۔۔ ۔ تمہیں نہیں پتہ؟۔۔ ۔ مجھے ہارون سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایسے سوالوں سے غربت ظاہر ہوتی ہے۔۔ ۔ یہ چائے کتنی مزیدار ہے۔ اسے چکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے میں ساری زندگی نقلی چائے پیتا آیا ہوں، جیسے میں نقلی زندگی گزار رہا ہوں۔ اصل زندگی تو صرف امیر لوگ گزارتے ہیں۔ ان کے کپڑے، کھانے، کھلونے، دوائیاں، گاڑیاں اصلی ہوتی ہیں، ان کی ہر چیز اصلی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کتے بھی اصلی ہوتے ہیں۔ آج گھر پہنچ کر خود کشی کروں گا۔ بہت ہو چکا، بہت جی لیا ہے۔ زندگی تیرا بہت بہت شکریہ ! اتنی روکھی سوکھی سانسیں نچھاور کرنے کا شکریہ ! ٹکڑوں کی زندگی نہیں چاہیے مجھے ! اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب میں کوئی ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ زندگی عاصمہ اور ہارون جیسے لوگوں کو مبارک ہو، جن کے پاس زندگی گزارنے کے ہزار بہانے ہیں۔ میرے مرنے کے ایک دو سال بعد رابعہ دوسری شادی کر لے گی۔ وہ ابھی جوان ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ شادی کے بعد وہ ایک نئی ڈگر پر چلے گی، اپنے نئے خاوند کے گن گائے گی اور مجھے برا بھلا کہے گی لیکن میرے مرنے کے بعد میرے بچے کیا کریں گے۔ ان کی کمزور پتلی ٹانگیں اس عفریت دنیا کا مقابلہ کیسے کر پائیں گی ؟ان کی ننھی انگلیوں سے اڑیل زندگی کے دھاگے کیسے سلجھیں گے ؟۔۔ ۔ کیا میں خوبصورت چیزوں کو صرف دیکھنے کیلئے پیدا ہوا ہوں ؟ کیا اس دنیا کی تمام خوبصورت چیزیں مجھے جلانے کے لئے بنائی گئیں ہیں ؟غریب آدمی کا نصیب کتنا عبرتناک ہے !دو کالے کیلے، ایک کلو پیاز درجہ سوم، دو سڑے سیب۔۔ ۔ میں سبزی منڈی کے کئی چکر لگاتا ہوں۔ پہلے چکر میں ان چیزوں کو تاڑتا ہوں جو میری لیول کی ہوتی ہیں۔ دوسرے چکر میں سب دکانداروں سے قیمتیں پوچھتا ہوں، آخری چکر میں سب سے سستے اور غلیظ دکاندار سے سبزی یا پھل خریدتا ہوں۔ میری زندگی میں وہ دن نہ آ سکا جس دن بغیر قیمت پوچھے چیزیں خریدتا۔ خریداری کے دوران تین چار آدمی مجھ سے بد تمیزی سے پیش آتے ہیں جبکہ ہر روز تین چار آدمیوں سے منہ ماری کرنا میرا شیوہ بن گیا ہے۔
امیر لوگوں کی انگلیوں سے پیسے شاہانہ بے پروائی سے نکلتے ہیں، جیسے کلیاں چٹخ رہی ہوں۔ جیسے بلبلیں پھدک رہی ہوں۔ دکاندار کو دینے سے پہلے میری سوکھی انگلیاں بار بار پیسوں کوایسی گنتی ہیں، جیسے بھوکی چھپکلی کچھ نہ ملنے پر جلے پتنگوں کے پروں میں منہ مار تی ہے۔ غریب اپنے پیسوں سے جدا نہیں ہونا چاہتے۔ پیسے دکاندار کو دینے کے بعد وہ دیر تک اپنے پیسوں کو تکتے رہتے ہیں جیسے دکاندار انھیں پیسے واپس لوٹا دے گا۔
اب میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں، تھوڑا بہت پڑھ لکھ بھی گئے ہیں۔ چھوٹے موٹے روز گار کے بھی مالک ہیں۔ اب انہیں میری ضرورت نہیں ہے۔ اب تو خود کشی میرا حق بنتا ہے۔ میں زندگی کا بوجھ مزید نہیں سہارسکتا۔۔ ۔ لیکن ان کی اب شادیاں ہونے والی ہیں۔ شادیوں میں وہ میری کمی محسوس کریں گے۔ مجھے کچھ مہینے اور انتظار کر لینا چاہیے۔ اور ہاں ولیمے کا خرچہ مجھے اپنی تجہیز و تکفین پر ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
اب میرے تمام بچوں کی شادیاں ہو گئی ہیں۔ اب انہیں میری ضرورت نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے گھونسلوں میں پہنچ گئے ہیں۔ اب میری خود کشی سے کوئی یتیم نہیں ہو گا۔ میرے بچے اپنے اپنے خاندانوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے ہیں۔ اب میں آزاد ہوں !اب میں غربت سے بدلہ لوں گا۔ میں خود کو کسی رومینٹک دن ختم کر دوں گا۔ میں خود کو ایسی جگہ ختم کروں گا، جہاں سے میرے بیٹوں کو میری لاش گھر لانے میں تکلیف نہ ہو۔ کچھ لوگ دریا میں خود کشی کر کے اچھا نہیں کرتے۔ گھر والے ان کی لاش کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے پاگل ہو جاتے ہیں اور جو خود کو آگ لگاتے ہیں وہ صاحب ذوق نہیں ہوتے اور جو خود کو گاڑی کے نیچے پھینک دیتے ہیں وہ دوسروں کی زندگی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ میں خود کو گھر کے آس پاس ختم کروں گا۔ میں ساری زندگی احساس کمتری اور ذہنی دباؤ کو برداشت کرتا آیا ہوں۔ اب مزید ان کو برداشت نہیں کروں گا۔ امیر لوگ مزید میری غربت کا مذاق نہیں اُڑا سکیں گے۔ میں خود کو ختم کر کے ان پر ہنسوں گا۔ خود کشی کر کے میں زندگی سے بغاوت کروں گا۔
جوانی میں میں ذہنی دباؤ اور غربت کو برداشت کر سکتا تھا مگر اب بوڑھا ہو گیا ہوں، اب برداشت نہیں ہوتا۔۔ ۔ جوانی میں میرا معدہ مضبوط تھا، ثقیل اور دیر ہضم چیزوں کو ہضم کر سکتا تھا۔ اب میرا معدہ بوڑھا ہو گیا ہے، یہ سوکھی روٹی، دال، بڑا گوشت، پراٹھا ہضم نہیں کر سکتا۔ اس عمر میں مجھے نرم، ہلکی پھلکی غذا چاہیے تھی۔ دودھ، شہد، کیلے، پھلوں کے رس، چکن کی یخنی۔ اگر میں یہ چیزیں کھانا شروع کر دوں تو میری پنشن پانچ دن میں پھُر ہو جائے گی۔ میں خزاں گزیدہ، پیلا پتا ہوں جو زندگی کے درخت سے جونک کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ مجھے خود کو زندگی کے پیڑ سے گرا دینا چاہیے، پتھر پتھر مار مار کر!اس خزاں رسیدہ پتے کو پیڑ سے لٹک کر خود کشی کر لینی چاہیے۔ یہ زندگی کبھی بھی مجھے اپنی نہیں لگی۔ میں کبھی بھی زندگی کے پہلے صفحے پر زندہ نہیں رہا ہوں۔ میں ہمیشہ زندگی کے آخری پنوں پر ایڑیاں رگڑتا رہا ہوں۔ دیگچی میں پتھر اُبالتا رہا ہوں۔ مگر اب میں موت کو خود پر فتح نہیں پانے دوں گا، بلکہ اپنی زندگی کو خود ختم کر کے موت پر فتح پاؤں گا۔ موت پر ہنسوں گا !
میری خود کشی سے رابعہ کچھ اداس ہو گی۔ لیکن اس کے سوا کوئی بھی میری موت پر خفا نہیں ہو گا۔ ہفتہ، مہینہ رونے دھونے کے بعد وہ بھی خود کو adjustکر لے گی۔ اسے ایک بیٹا اٹھا کر لے جائے گا۔ میری پنشن بھی اسے ملتی رہے گی، اس کا گزارہ چلتا رہے گا۔ میرے بر عکس اُس کی خواہشات سادہ اور مختصر ہیں اور وہ میری طرح حساس بھی تو نہیں ہے۔ وہ جیسے تیسے زندگی کے بقیہ تین چار سال گزار لے گی۔ ہاں میرا کتا بگا میرے مرنے پراداس ہو گا۔ میں دو تین دن کے اندر اندر خود کو ختم کر دوں گا۔ لوگ مزید میرے تن کے چیتھڑوں، میرے لنڈے والے بوٹوں اور چہرے کی جھریوں کا مذاق نہیں اُڑا سکیں گے۔ یہ جھریاں بھی تو بس ایسے نکل آئی ہیں، ان جھریوں کے پیچھے کوئی سہانی یادیں بھی تو نہیں ہیں۔ میں شیکسپئیر کے بتائے ہوئے ’’سات مرحلوں ‘‘ میں سے آخری مرحلے میں داخل ہونے والا ہوں۔ میں ہرقسم کے کرداروں کو بھونڈے طریقے سے ادا کر چکا ہوں۔ آخر میں میں pentaloonنہیں بنوں گا! مجھے pentaloonبننے سے ڈر لگتا ہے۔
آج بہت گرمی ہے۔ بگا تمہیں بھی گرمی لگتی ہے ؟ تمہیں پتہ ہے کتوں کو زیادہ گرمی لگتی ہے ؟بگا تم بھی بوڑھے ہو گئے ہو۔ تم سے بھی اب نہیں چلا جاتا لیکن کیا کریں زمین تو چلنے سے رہی۔ ان ماچس کی تیلیوں کو، ان کمزور ٹانگوں کو ہی چلنا ہو گا۔ بگا کیا بوڑھے کتوں کو بھی چلنے میں تکلیف ہوتی ہے ؟ بوڑھے کتوں کے گھٹنے بھی درد کرتے ہیں، بوڑھے آدمیوں کے گھٹنوں کی طرح؟ کیا انہیں بھی چلنے کے لئے چھڑی یا بید کی ضرورت پڑتی ہے ؟ بگا میرے دوست تم نے کبھی ان چیزوں کے بارے میں سوچا ہے ؟چلو گھر چلتے ہیں، میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اور تیرے پیٹ میں تو بلیاں دوڑ رہی ہوں گی۔ بلکہ بلے، موٹے کالے بلے دوڑ رہے ہوں گے۔ ہاہاہا۔۔ ۔ ہنسو نا یار۔ میں نے بہت اچھا مذاق کیا ہے۔ کتے بیچارے تو ہنسنے کی طاقت سے محروم ہیں۔ چلو دیر ہو رہی ہے، گھر چلتے ہیں اور اپنے بوڑھے ڈھیلے معدوں کو بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ کھانے سے بھرتے ہیں۔ یہ گاڑیاں کتنا شور کرتی ہیں !ان کے دھوئیں سے میری آنکھیں جلتی ہیں۔ تم تھک گئے ہو، بگا ؟ میں بھی تھک گیا ہوں لیکن ہم دونوں بوڑھے ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کر سکتے۔ نہ تو تم گدھے ہو کہ میں تمھارے اوپر سوار ہو کر گھر چلا جاؤں اور نہ تم بلونگڑے ہو کہ میں تمہیں اپنی جیب میں ڈال کر چلوں۔ شاعر لوگ کتنے دروغ گو ہیں ! وہ کہتے ہیں زندگی چار دن کی ہے لیکن میری زندگی تو پلاسٹک بینڈ کی طرح کھچتی چلی جاتی ہے، لمبی، کمزور اور خطرناک ہوتی جاتی ہے۔ پتہ نہیں کب تڑاخ سے ٹوٹتی ہے !
کیا ہوا تمھیں ؟بخار ہے۔ کوئی گولی وولی لی ہے ؟اوئے تیرا جسم تو چنے بھن رہا ہے ! ڈاکٹر کو بلاؤں ؟ بگا تم رابعہ کے پاس بیٹھو، میں ڈاکٹر کو لاتا ہوں۔
پورے دو مہینے ہو گئے ہیں رابعہ کی بیماری کو۔ ایسے حالات میں میں خود کشی کیسے کر سکتا ہوں ؟ اسے میری ضرورت ہے۔ اگر اس مشکل گھڑی میں میں اس کے کام نہ آیا تو یہ خود غرضی کی انتہا ہو گی۔ رابعہ کے ہاتھ کتنے کمزور ہو گئے ہیں !اس کے چہرے پر جھریوں کی پوری فصل اگ آئی ہے۔ موت ان جھریوں کے نشیب و فراز میں گھات لگا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ چالیس سال پہلے یہی ہاتھ کتنے بھرے بھرے اور خوبصورت تھے۔ کیا میںا نہی ہاتھوں میں گجرے پہنایا کرتا تھا؟کیا یہ وہی ہاتھ ہیں جن پر مہندی اتنی سجتی تھی ؟کیا یہ وہی ہتھیلیاں ہیں جن میں میں اپنی تقدیر کی لکیریں دیکھا کرتا تھا ؟انہی ہاتھوں کو پکڑ کر میں گھنٹوں رابعہ کی آنکھوں میں جھانکا کرتا تھا!اس کی گہری ٹھنڈی آنکھوں میں تیرا کرتا تھا۔ یہ کتنی جلد بوڑھی ہو گئی ہیں۔ یہ آنکھیں میری وجہ سے بوڑھی ہوئی ہیں۔ میں رابعہ کے حسن کو برقرار رکھنے کیلئے کچھ نہ کر سکا۔ اگر میں نے اسے اچھی خوراک، ذہنی سکون، اچھا ہار سنگھار دیا ہوتا تو اس کے چہرے پر جھریاں اتنی جلدی نہ اُگتیں۔ اس کے چہرے پر کتنی جھریاں ہیں جیسے کسی نے زمین پر ہل چلائے ہوں۔ ان جھریوں کی وجہ سے میں رابعہ کے چہرے کی طرف دیکھ نہیں سکتا۔ اس کا چہرہ جھریوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔
غربت اور بے احتیاطی کی وجہ سے اس کی آنکھیں گڑھوں میں دھنس گئی ہیں جیسے شفاف جڑواں جھیلیں سوکھ کر دو گدلے جوہڑوں میں بدل گئی ہوں۔ ہڈیوں کی پنجر، ایسے بے حس و حرکت پڑی ہے جیسے لکڑی کا بوسیدہ تابوت۔ اس کے پاؤں کتنے نرم ہیں جیسے چھوٹے بچے کے ہوں۔۔ ۔ کیا کر رہا ہوں ؟تیرے پاؤں کو چوم رہا ہوں، تم سو جاؤ۔ آرام سے۔ میں بیٹھا ہوں نا۔۔ ۔ جوانی میں کیسے ہرنی کی طرح دوڑتی پھرتی تھی ! شادی سے پہلے جب میں مامے کے گھر جاتا تھا تو یہ تتلی کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر اڑتی پھرتی۔ اس سے ایک جگہ نہیں بیٹھا جاتا تھا۔ اسے اگر کمرے میں کوئی کام نہیں بھی ہوتا تب بھی وہ کمرے میں آتی۔ برتنوں کو آپس میں ٹکراتی، اپنے موجود ہونے کا احساس دلاتی۔ اگر اسے ایک پلیٹ یا کپ بھی دھونا ہوتا تو وہ اسے ایسے دھوتی کہ اپنے کپڑے گیلے کر لیتی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سفید ہاتھ ہر وقت گیلے رہتے۔ کبھی کبھی میں زبردستی اس کے ہاتھ سے پکڑ لیتا، اس کے گیلے ٹھنڈے ہاتھوں میں محبت کے کتنے آتش فشاں سوئے ہوئے تھے !بچوں کی طرح اسے پانی سے کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ پانی سے کیے جانے والے کام اسے اچھے لگتے تھے۔ برتن دھونا، کپڑے دھونا، چھڑکاؤ کرنا، دھوئیں اور دھول والے کام اسے اچھے نہیں لگتے تھے۔ وہ ہر وقت ننگے پاؤں پھرتی تھی۔ مامی اسے اوڈنی کہا کرتی تھی۔
اچھا ہوا مر گئی ہے، رابعہ کی کمزور ہڈیاں زندگی کا بوجھ مزید نہیں سہار سکتی تھیں۔ اچھا ہوا، زمین کی گود میں سو گئی ہے۔ رابعہ کی قبر پر کتبہ لگانا چاہئے۔ دو دن میں پھولوں کی پتیاں خشک ہو کر تمباکو بن گئی ہیں۔ یہ تازہ پھول بھی مرجھا جائیں گے۔ قبروں پر سینکڑوں تازہ اور مرجھائے پھول پڑے ہیں۔ کاش پھولوں کے پر ہوتے، وہ تتلیاں بن کر اُڑ جاتے اور ہمارے ہاتھ نہ آتے۔۔ ۔ اچھا ہوا بڑھیا سے جان چھوٹ گئی ہے۔ اب میں خود کشی کرنے کیلئے آزاد ہوں۔۔ ۔ یہ قبرستان تو پارک کی طرح ہے، ہر طرف سجاوٹی پودے اور پھول لگے ہوئے ہیں !دل چاہتا ہے یہاں گھر بنا لوں۔ قبروں پر جلتے ہوئے دئیے کتنے رومینٹک لگتے ہیں۔ ایک دن میری قبر پر بھی دئیے جل رہے ہوں گے۔ کیا میری قبر پر جلنے والے دئیے اتنے خوبصورت لگیں گے ؟کاش میں اپنی قبر پر جلتے ہوئے چراغوں کی جھومتی لوؤں کو دیکھ سکتا، اگربتیوں سے اٹھنے والے نیلے دھوئیں کے خوشبودار دھاگوں کو دیکھ سکتا۔ شاید میری روح انہیں دیکھ سکے۔۔ ۔ جب لوگ قبرستان سے چلے جاتے ہیں تو روحیں ان دیؤں کی روشنی میں مل بیٹھتی ہوں گی، ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتی ہوں گی۔
قبرستان روحوں کا ہوائی اڈا ہوتا ہے، یہاں پہنچ کر روحیں اپنی اپنی منزل کو سدھارتی ہیں۔ یہ مٹی کی قبر کتنی خوبصورت ہے جیسے کشتی دریا کے کنارے سے گلے مل رہی ہو، جیسے وہ اپنی منزل پر پہنچ گئی ہو۔ میں بھی اپنی قبر کچی بنواؤں گا۔ میں اپنی ڈائری میں وصیت لکھ چھوڑوں گا کہ مجھے مٹی کی قبر میں دفنانا۔ میں مٹی کی کشتی میں بیٹھ کر روحوں کی نگری میں جاؤں گا۔ یہ سنگ مر مر کی قبریں، جیسے چاندنی میں نہائی جھیل پر بجرے تیر رہے ہوں۔ بریگیڈئیر صفدر حلیم۔۔ ۔ سیٹھ عارف ندیم۔۔ ۔ پیسے کی دوڑ نے انسانوں کو قبرستان میں بھی نہیں چھوڑا۔ کل تک جو آدمی محل میں رہائش پزیر تھا، آج وہ سنگ مر مر کی قبر میں رہ رہا ہے۔ کل جو شخص سرخ، بھُربھُری اینٹوں کے ڈھانچے میں سڑ رہ تھا، آج وہ مٹی گارے کی قبر میں قید ہے۔ غربت اور امارت کے بکھیڑے قبرستان تک بھی آ دھمکے ہیں۔ کیا روحیں بھی امیر اور غریب ہوتی ہیں ؟
بیٹا میں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔ آج کل کے جدید دور میں کھانا بنانا تومسئلہ ہی نہیں ہے اور اکثر میں کھانا قریب والے ہوٹل سے لے لیتا ہوں۔۔ ۔ نہیں، نہیں۔۔ ۔ میں نے کہا نا میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا، میں اکیلا خوش رہتا ہوں۔۔ ۔ میرے ساتھ ؟ میرے ساتھ بگا ہے نا۔ یہ میرا خیال رکھتا ہے۔ یہ مجھے راستہ نہیں بھولنے دیتا۔ خدا تمہیں خوش رکھے !آؤ بگا چلیں۔
ایک Scarecowکو پھولوں کی کیاری پر پہرہ نہیں دینا چاہیے۔ جوان میاں بیوی کا کمرہ پھولوں کی کیاری کی طرح ہوتا ہے۔ یہ تو ایسے پاگل ہیں، میں انہیں اپنی بے وقت اور بے سری کھانسی نہیں سنانا چاہتا۔ میری وجہ سے ان کا سارا معمول تباہ ہو جائے گا۔
کاش میرا بچپن لوٹ آتا، میں ان بچوں کیساتھ ہنستا، مسکراتا، چہرے پر حیرانی کی شکنیں لئے سکول جاتا۔ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا۔ ہر روز نئی نئی چیزیں دریافت کرتا لیکن وقت کی سوئیوں کو پیچھے کی طرف کون گھما سکتا ؟میں تو بس دروازے کے سامنے پڑی کرسی میں بیٹھ کر سکول جاتے، ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے بچوں کو صرف دیکھ سکتا ہوں۔ ان بچوں کے چہرے شبنم میں نہائے ہوئے پھولوں کی طرح اجلے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں کتنی روشنی ہے۔ میری بجھتی آنکھوں کے سامنے کتنے اندھیرے ہیں۔ اے تسلسل انسانی کی صبح کے تارو! ذرا اپنی روشن آنکھوں سے میرے بجھتے چراغوں میں روشنی کی چند بوندیں ٹپکاتے چلو۔ دیکھو! میں بوڑھا کھنڈر ہوں، میرے اندر باؤلے کتے، خارش زدہ بلیاں اور بیمار چھپکلیاں رہتی ہیں۔ جب ہوا چلتی ہے تو میرا کھوکھلا پن بجتا ہے، جیسے بھوتوں کا آرکسٹرابج رہا ہو۔ میرے اندر سے ڈراؤنی آوازیں آتی ہیں۔ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ذرا اس کھنڈر کے سوراخوں میں کپاس ٹھونستے جاؤ۔ اپنے حصے کے چند جگنو، چند تتلیاں اس ویرانے میں چھوڑتے جاؤ۔ میں تو ٹھیک طرح سے چل بھی نہیں سکتا۔ اپنی نازک ہتھیلیوں میں میری مردہ انگلی لے لو، مجھے چلنا سکھاؤ، مجھے دنیا کی خوشیاں دکھاؤ۔ مجھے اس جزیرے پر لے چلو جہاں خوشیاں ہی خوشیاں بستی ہوں۔ مجھے وہاں لے چلو جہاں تتلیوں کے نازک پروں میں رنگ بھرے جاتے ہیں، جہاں جگنوؤں کی ننھی دموں میں روشنیاں انڈیلی جاتی ہیں، جہاں کلیوں کے کلیجوں میں چٹخنے کی صدائیں لپیٹی جاتی ہیں۔
گولیاں۔۔ ۔ نشہ آور گولیاں کہاں گئیں ؟پانی کا گلاس۔۔ ۔ مل گیا۔ نہیں یہ پلاسٹک کا گلاس نہیں چلے گا۔۔ ۔ شیشے کا فینسی گلاس کہاں گیا ؟مل گیا۔۔ ۔ لیکن یہ ذرا چکنا ہے۔ پہلے اسے وِم سے دھولوں۔ گولیاں پانی سے نہیں لینی چاہئیں۔ کسی خوش ذائقہ شربت سے لینی چاہیں۔۔ ۔ ہاں یہ انار کا شربت ٹھیک رہے گا۔ خوبصورت لگ رہا ہے شیشے کے گلاس میں، جیسے شام کی ساری شفق گلاس میں اتر آئی ہو۔ جیسے کسی نازنین نے اپنی ہونٹوں کی لالی اس میں گھول دی ہو۔
گولیاں۔۔ ۔ گولیاں مل گئیں، سب تیاری مکمل ہو گئی ہے۔ کالی کلوٹی زندگی خدا حافظ! مگر پہلے ڈائری میں تو کچھ لکھ تو لوں: میں نے خود کشی کی ہے۔ میں اپنی موت کیلئے خود ذمہ دار ہوں۔ میری الماری میں سونے کی ایک انگوٹھی پڑی ہے۔ میرے بنک اکاؤنٹ میں پانچ ہزار روپے پڑے ہیں۔ سب کو سلام۔ مجھے معاف کرنا۔ اگر معاف نہیں کر سکتے تو خود کو قتل کرنے کے جرم میں میری لاش کو سولی چڑھا دینا۔ ہاں کئی دفعہ سولی چڑھانا۔ خدا حافظ!۔۔ ۔ اور ہاں مجھے مٹی کی قبر میں دفنانا اور قبر پر مٹی کا دیا جلانا نہ بھولنا، ہر جمعرات کو۔۔ ۔ اور اگربتیاں بھی۔
پہلے شربت کا گھونٹ لے لوں، اس سے گلا تر ہو جائے گا۔ مرنے سے پہلے کوئی اچھا سا پرفیوم لگا لوں۔ ہونہہ یہ پرفیوم بڑا inspiringہے۔ میری روح جب نکلے گی تو اک بانکی خوشبو اس کا استقبال کرے گی۔ مرتے وقت مجھے قتل کی بو نہیں آنی چاہیے۔ میری روح خوشبو کے مرغولے میں بیٹھ کر نکلے گی۔ میری روح ایسے محسوس کرے گی جیسے کسی قیدی بلبل کو چمن میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہو۔ میں نے اپنی روح کو بہت ستایا ہے، بہت ذلیل کیا ہے۔ سامنے طاق میں مٹی کے دئیے جلانا تو بھول گیا۔ ایک منٹ، روح کو شان سے الوداع کہنا چاہیے۔۔ ۔ لو دئیے جل گئے۔ اب میرے ذہن کے پردے پر آخری تصویر، میٹھی روشنی کی ہو گی۔۔ ۔ بگا تم ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ تم نے کھانا تو کھا لیا ہے نا؟اچھا خدا حافظ دوست! تم نے خوب دوستی نبھائی۔ تم میری بات تو سمجھ رہے ہو نا؟ تم اداس لگ رہے ہو، کیا بات ہے ؟ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ ادھر بیٹھو، اِدھر مت آؤ۔ میں نے تمہیں بلایا تو نہیں۔ بگا خدا حافظ !گولیاں ایک ایک کر کے لینی چاہئیں یا ساری اکٹھی لینی چاہئیں ؟ پہلے انہیں گن تولوں۔ ایک دوتین۔۔ ۔ پانچ۔۔ ۔ گیارہ۔۔ ۔ بیس۔۔ ۔ چالیس۔ ایک گولی تو آدھی ہے، اسے گننا چاہیے یا نہیں ؟ایک یہاں چھپی بیٹھی ہے۔۔ ۔ اکتالیس گولیاں اس بوسیدہ بوڑھے کو ختم کرنے کیلئے کافی ہیں۔۔ ۔ بگا تمہیں کیا ہوا ہے، تم آرام سے کیوں نہیں بیٹھ سکتے ؟تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ تم فکر نہ کرو۔ مجھے موت کی بو آ رہی ہے۔ موت کا فرشتہ شاید پڑوس میں داخل ہو چکا ہے۔ بس ایک دو منٹ کی تو بات ہے۔۔ ۔ بگا تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم میری گود میں کیوں گھس آئے ؟ یہ تمھاری آنکھوں میں۔۔ ۔
میرے مرنے کے بعد بگا کا کیا ہو گا؟ اسے کھانا مل جائے گا، رہنے کے لئے کوئی پل یا حلوائی کا چولھا بھی مل جائے گا مگر میری طرح کا دوست نہیں مل سکے گا۔ اس سے باتیں کون کرے گا؟ اسے سیر پر کون لے کر جائے گا ؟یہ بھی میری طرح بوڑھا ہے، اسے بھی سہارے کی ضرورت ہے۔ اس کا خیال رکھنا میرا فرض ہے۔ مجھے اس کے لیے کچھ دن اور جی لینا چاہیے۔ صرف چند انچ زندگی بچی ہے۔ گولیاں۔۔ ۔ انہیں بکس میں چھپا لیتا ہوں اور شربت۔۔ ۔ آدھا گلاس میں پی لیتا ہوں اور آدھا بگا کو دے دیتا ہوں۔ اچھا تم۔۔ ۔ تم پرفیوم لگانا چاہتے ہو؟ تمہیں پرفیوم کہاں لگا دوں ؟ تمہارے تو کپڑے نہیں ہیں۔۔ یار تمھارے بال تمھارے کپڑے ہیں۔ ہاہاہا اب مزہ آیا۔ تم اس پرفیوم کو مجھ سے زیادہ Enjoyکر سکتے ہو کیونکہ کتوں کی حسِ شامّہ بہت تیز ہوتی ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید