آدھی رات کا وقت تھا۔ اُس کا دماغ سلگ رہا تھا۔
" مجھے یہ جوا کھیل لینا چاہئیے۔ ایک بچہ مجھے اِس گھر سے باندھ سکتا ہے "۔
وہ اپنی کھاٹ سے اُٹھی۔ کُتے نے اپنی جگہ سے سر اُٹھایا اور دوبارہ سو گیا۔ اُسے ٹھنڈے پسینے چھوٹ رہے تھے، اسے اپنے قدم سیسے کے بنے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
" بہن میراں کی شادی پر اسے باپ کے گھر بھیج دینا۔ کہیں اُس پر اِس بانجھ کا سایہ نہ پڑ جائے "
اس کے جوتے چرمرا رہے تھے۔ اُس نے جوتے اُتار دیئے اور ننگے پاؤں چلنے لگی۔ اُس نے دروازہ کھولا، جب گھر کی دہلیز پار کی تو اسے ایسے لگا ہوا جیسے اندھے کنویں میں اتر رہی ہو۔
" ہم تو بس ایک ننھی مسکراہٹ دیکھنے کو زندہ ہیں "۔
اُس کے کانوں میں بھیڑیئے چیخ رہے تھے۔ وہ اپنے گھر کے دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ اُسے ایسے محسوس ہوا جیسے عزت و ناموس کے بھاری پردوں کو کھونٹی پر ٹانک کر چھوڑ آئی ہو۔
" لیکن جو میں کہہ رہا ہوں اُسمیں تیرا بھلا ہے۔ میں تجھے بچہ دے سکتا ہوں۔ میں تیرا رشتہ تیرے گھر سے جوڑ سکتا ہوں "
سب معاہدوں کی سیاہی دھل گئی تھی۔ وہ سرخ آندھیوں کے خلاف چلتی رہی مگر آندھیوں کے پار اس کا بچہ مسکرا رہا تھا، اُسے بلا رہا تھا۔ اس کے لڑکھڑاتے قدم لانوں اور آک کے پودوں میں اُلجھ رہے تھے۔ آک کے بریدہ پتے دودھ رو رہے تھے۔
" تو میرے بیٹے پر تعویذ کرتی ہے۔ تو اس گھر کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ تیرا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہے۔ اس لیے توتُو اپنے پیٹ میں بچہ نہیں ٹھہرنے دیتی۔ "
جب آسمان میں اندھیرے اور اجالے برسر پیکار تھے تو دھرتی پر مٹی کے پتلے گرم پسینوں میں گھلے جا رہے تھے۔
" تیرا بچہ ہو گا، گھر میں تیری عزت ہو گی۔ میں تمھیں چاہتا ہوں اور بچہ تو چاہت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ "
رات ڈھل چکی تھی۔ ستارے ٹمٹما کر تھک گئے تھے۔ کالے ڈوروں سے سفید ڈورے آہستہ آہستہ نکل رہے تھے۔ اعتماد کے کچے دھاگے ٹوٹ گئے تھے۔ اس کے الجھے بالوں میں گھاس کے تنکے اٹکے ہوئے تھے اور آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں۔ اُسے اپنے آپ سے گھن آ رہی تھی۔ اس کے پیٹ میں انگارے بھنے جا رہے تھے۔
" بہن دعا کر میری بہو کے لیے ! اگر پوتا ہوا تو تمھیں ململ کا دوپٹہ دوں گی"۔
وہ نیم غنودگی کی حالت میں گھر کی طرف جا رہی تھی۔ درختوں کے سر نیند میں ڈھلکے ہوئے تھے۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے تھک کر زمین پر گر رہے تھے۔ صبح صادق ہو چکی تھی۔
" لوگ فصل کے غلے کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ نہیں پوچھتے کہ اس فصل کا بیچ چوری کا تھا یا فصل چوری کے پانی سے سینچی گئی تھی۔ "
اندھیرا اپنا تاریک چہرہ چھپانے کے لیے مغرب کی طرف دوڑا جا رہا تھا۔ مرغ اذان دینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اُس نے گھر میں قدم رکھا تو اُس کا احساس جرم اور تیز ہو گیا۔ ایک دن اُس کے مہندی رنگے قدم اس گھر کی دہلیز کو چھو رہے تھے۔ اور آج۔۔ ۔
وہ بان کی چارپائی پر لوٹ رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ کتُوں کے بھونکنے کی آوازیں اس کے کانوں میں پگھلا ہوا تانبا انڈیل رہی تھیں۔ صبح کا روشن ستارہ اُس کی بے خواب آنکھوں میں چُبھ رہا تھا۔ روشنیوں نے مشرق سے یلغار کر دی تھی۔ مسجد سے مؤذن کی آواز گونجی۔ اسے اپنا جسم مردہ جانور کی طرح لگ رہا تھا۔ اس کی ناک میں مرے ہوئے جانور کی سڑاند پھنسی ہوئی تھی۔ اُسے اپنے پیٹ میں لوہا اُبلتا محسوس ہو رہا تھا۔
صبح ہوئی، دنیا جاگی۔ لوگ نماز کی تیاری کرنے لگے۔ اس کی ساس وضو کرنے لگی۔ اُسے ایسے لگ رہا تھا جیسے گھر کی دیواریں گر گئی ہوں اور اُس کے کپڑے جھکڑ اُڑا کر لے گیا ہو۔ وہ تنکا بن کر آندھیوں میں اُڑتی رہی اور درختوں، کھمبوں، دیواروں سے ٹکراتی رہی۔ پھراس کی آنکھ لگ گئی۔
وہ رنگ برنگے بچوں کی لہلہاتی فصل میں سے گزرتی ہے۔ تازہ سجرے بچے سر اٹھا اٹھا کر اسے تکتے ہیں۔ اس سے دودھ مانگتے ہیں۔ وہ درانتی سے میٹھے پکے بچوں کی فصل کاٹتی ہے۔ بچوں سے بھری گٹھڑی اُٹھائے وہ گھر آتی ہے۔ اپنی ساس کے قدموں میں بیٹھ کر ماہر بزاز کی طرح گٹھڑی کھول دیتی ہے۔ " اپنی پسند کا بچہ چُن کر رکھ لو"
" باقی بچوں کا کیا ہو گا؟"
" انھیں زمین میں گاڑ آئیں گے "
" زندہ ؟"
" ہاں "
" یہ روئیں گے تو نہیں ؟"
" نہیں ! یہ اور طرح کے بچے ہیں۔ یہ کھمبیوں کی طرح زمین سے نکلتے ہیں۔ ہم انہیں مٹی میں گاڑ آئیں گے۔ اِن سے بچوں کی نئی فصل نکلے گی۔ پھر اور لوگ بچوں کی فصل کاٹیں گے۔ بچے اُگانا کوئی مشکل تھوڑا ہے !"
بوڑھی ساس اُسے زور سے چومتی ہے۔ اُسے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مردہ گائے نے اپنی بدبو دار زبان سے چاٹ کر اُس کے ماتھے اور گالوں پر خون اور پیپ کا لیپ کر دیا ہو۔
پھر اُسے گھومتے ہوئے چاک پر پھینک دیا جاتا ہے اور مردہ گائے خرانٹ کمھار کی طرح اکڑ کر بیٹھی، اُسے زبان سے گھڑ رہی ہے۔ اُس سے مختلف شکلیں بناتی ہے: گھڑا، جھجری، مردہ گائے، بلی، کُتیا، چُڑیل۔ آخر میں مردہ گائے اُسے اپنی لمبی لیسدار جیبھ میں لپیٹ کر نگل جاتی ہے۔ وہ کئی سالوں تک مردہ گائے کے گوبر سے بھرے معدے میں گردن تک دھنسی رہتی ہے۔ گوبر کی بُو سے اُس کا دم گھٹتا ہے۔ وہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے اور بھک سے گائے کے نتھنوں سے نکل آتی ہے۔ وہ ایک لیسدارجھلی میں بند ہے۔ گٹھڑی میں بند ہے بچے ناگ بن کر اس کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ جھلی سمیت بھاگتی ہے۔ بچے گدھ بن کر اُس کا پیچھا کرتے ہیں، اُسے آ لیتے ہیں اور دبوچ کر نوچنے لگتے ہیں۔ کچھ فاصلے پر بھوکے گیدڑ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، درختوں پر بیٹھی چیلوں کے خونین پنجوں کے نیچے اُس کے جسم کی بوٹیاں لٹک رہی ہیں۔ ان سے پیلا خون رس رہا ہے۔ گاؤں کے ہر درخت پر اُس کا گوشت لٹک رہا ہے اور اُس پر نیلی موٹی مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔
اُس کی ساس نے وضو کیا اور قبلہ روہو کر کھڑی ہو گئی۔
" مجھے بھی نماز پڑھنی چاہیے، خدا سے معافی مانگنی چاہیے۔ اگر خدا نے میری نماز کو ٹھکرا دیا تو۔۔ ۔ مجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔۔ ۔ لیکن ایک کوزہ پانی پاکیزگی کے لیے کافی ہو گا ؟"
وہ وضو کر کے قبلہ رو کھڑی ہو گئی۔ اسے مغرب سے ڈر لگ رہا تھا۔
نماز کے الفاظ کی زنجیر اُس کی زبان سے نہیں کھینچی جا رہی تھی۔ اُس نے رکوع میں جانا چاہا مگر اُسے اپنا قفس عنصری، انسانی ڈھانچوں میں چنا ہوامحسوس ہو رہا تھا۔ پھر اس نے پورا زور لگا کر رکوع میں جانے کی کوشش کی، پرانے انسانی ڈھانچے اُس پر گر پڑے۔ ہزاروں ہڈیوں کے کڑکڑانے کی آواز آئی۔ ہر طرف مٹی دھول اُڑنے لگی۔
"اس کی لاش اندر ہے، جلدی کرو! اسے نکالو !" لوگ چلا رہے تھے۔
"مٹی اور ہڈیوں کے اتنے بڑے ڈھیر کو کون ہٹائے گا؟"اس کی ساس تسبیح کے منکے گرا رہی تھی۔
٭٭٭