"مجھے ایک اچھا سا پرفیوم دکھانا" شریف، دکان دار سے کہتا ہے۔
" سر یہ سب اچھے پرفیوم ہیں " دکاندار جواب دیتا ہے۔
" انہیں دیکھ لیا "
" اچھا تو پھر ذرا ان پر فیومز کو چیک کرو۔ ذرا مہنگے ہیں "
" کوئی بات نہیں۔۔ ۔ مجھے پسند آ جائیں۔۔ ۔ پیسوں کی کوئی بات نہیں۔ نہیں، کوئی اور نہیں ہیں ؟"
" ہیں۔۔ ۔ میں اندر سے لاتا ہوں۔ تمھیں ذرا انتظار کرنا پڑے گا "
" ان میں بھی میری پسند کا کوئی نہیں ہے "۔
" عجیب بات ہے، یہ شہر کی سب سے بڑی کاسمیٹکس کی دکان ہے۔ وزیر اور سیکریٹری لوگ پرفیومز یہاں سے خریدتے ہیں "
" یارسچ بتاؤں ؟ میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ رات کو میں نے ایک خواب دیکھا۔ ایک محل میں میری ملاقات ایک خوبصورت شہزادی سے ہوتی ہے۔ میں اُسے موتیوں کا ہار دیتا ہوں۔ وہ مجھے تازہ سرخ انار پیش کرتی ہے۔ شہزادی مجھ سے کہتی ہے۔ " اسے سونگھو" میں سونگھتا ہوں۔ اُس سےا تنی گندی بو آتی ہے کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُس وقت سے اب تک میری ناک میں وہی سڑا ند پھنسی ہوئی ہے۔ میں جو چیز کھاتا ہوں، پیتا ہوں، میری ناک میں اُسی انار کی سڑی بو لوٹ آتی ہے۔ صبح اُٹھتے ہی میں آپ کی دکان پر آیا تاکہ کوئی اچھا سا پرفیوم لے کر کپڑوں پر لگاؤں۔ آپ نے جتنے پرفیومز بھی دیکھائے ہیں، اُن سب سے اسی سڑے انار والی بُو آ رہی ہے۔ بھائی ناراض نہ ہونا۔ اب تم بتاؤ میں کیا کروں ؟"
" تم بہت سارے تازہ پھول لو اور انھیں اپنے سونے کے کمرے میں رکھ دو۔ پھولوں کی صرف خوشبو ہی نہیں ہوتی بلکہ اُن کے خوبصورت رنگ بھی ہوتے ہیں۔ جب تم رنگ برنگے پھولوں کو دیکھو گے تو تمھارے ذہن میں خوشبو کی خوبصورت تصویر بنے گی اور تم اس مکروہ بدبو کو بھول جاؤ گے۔ "
شریف فلورسٹ کے پاس جاتا ہے۔ ہر طرف کھلے کھلے، خوش رنگ پھولوں کو دیکھ کر اُس کا جی چاہتا ہے کہ پھولوں کے اس بستر پر لیٹنا شروع کر دے۔ رنگ برنگی نازک پتیوں کو دانتوں سے چبا ڈالے اور اُن کی خوشبو کھانا شروع کر دے۔
وہ بہت سارے پھول خریدتا ہے۔ اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ کو پھولوں سے بھر کر گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنے سونے کے کمرے میں ہر طرف پھول بکھیر دیتا ہے۔
"اچھا ہوا ! گھر والے شادی پر گئے ہوئے ہیں ورنہ وہ کیا سمجھتے۔ اب میں گندی بو کو بھول جاؤں گا۔ "
وہ گہری سانسیں لینا شروع کرتا ہے مگر اُسے کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ اُلٹا اُسے ایسے لگتا ہے جیسے اُس نے اپنے کمرے کو گلے سڑے اناروں سے بھر دیا ہو۔ غصے میں آ کر وہ تمام پھولوں کو ڈسٹ بِن میں پھینک دیتا ہے۔
شریف دوبارہ بازار آتا ہے۔ ایک بڑے سٹور سے مختلف پھلوں کے آٹھ دس قسم کے غیر ملکی جوس ٹن خریدتا ہے۔ دوبارہ کار میں بیٹھتا ہے اور درختوں میں چھُپی ایک ویران، پر سکون شاہراہ پر آ کر گاڑی کھڑی کرتا ہے۔ سب سے پہلے مالٹے کے رس کو چکھتا ہے۔ پھر سیب اور کیلے کے رس کو چکھتا ہے۔ ایک ایک کر کے وہ تمام جوسوں کو آزماتا ہے مگر اپنی ناک میں پھنسی عفونت کی وجہ سے ایک گھونٹ بھی حلق کے نیچے نہیں اتار سکتا۔ وہ جوس کے تمام ٹنّوں کو قطار میں کھڑا کرتا ہے اور اُن پر گاڑی گزار کر چلا جاتا ہے۔
بازار میں اُسے ایک آدمی انگاروں پر سیخ کباب بناتے نظر آتا ہے۔ شریف گاڑی کو غلط جگہ پارک کرتا ہے اور کبابوں والے کے پاس جاتا ہے۔
" جناب کباب چاہئیں ؟"
" ایک منٹ،ا گر مجھے ان کی بوپسندآئی تو ضرور خریدوں گا۔ "
" گوشت بالکل تازہ ہے اور ہمارا مصالحہ بھی اچھا ہے۔ "کبابی انگاروں پر تیز تیز پنکھا جھلنے لگتا ہے۔ خوشبودار دھوئیں کا ایک مرغولہ شریف کی ناک سے ٹکراتا ہے۔
" ارے تم کباب اناروں کے ٹکڑوں سے بناتے ہو؟"
" نہیں صاحب ہم تو ان میں تھوڑا ساتازہ انار دانہ ڈالتے ہیں "
اس بوسے شریف کاسرایساچکرا جاتا ہے کہ کچھ دیر تک وہ اپنی گاڑی کو بھی نہیں ڈھونڈ پاتا۔
گھر جاتے ہوئے اُسے " ناک کان گلے " کے ڈاکٹر کا بورڈ نظر آتا ہے۔ بورڈ پر بنی ہوئی نارنجی ناک کو دیکھ کر اُسے لگتا ہے جیسے "سڑی بو" کے علاوہ ناک کی کوئی اور بیماری ہو بھی نہیں سکتی۔
وہ ڈاکٹر کیReceptionist سے ملتا ہے۔ " مجھے فوراً ڈاکٹر سے ملنا ہے۔ "
" مگر آپ سے پہلے کئی مریض بیٹھے ہیں "
"مجھے ایمرجنسی ہے "
" کیا تکلیف ہے آپ کو؟"
" میری ناک میں تکلیف ہے۔ میں ڈبل فیس دینے کے لیے تیار ہوں "
وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔
" جی۔۔ ۔ جی جی۔۔ ۔ ہاں ٹھیک ہے۔۔ ۔ میں آپکی بات سمجھ گیا۔ آپ یہاں سیدھے لیٹ جائیں۔ آنکھیں بند کریں۔ "ڈاکٹر اُس کی ناک میں سپرے کرتا ہے۔ " کچھ افاقہ ہوا؟"
" نہیں !سڑی بو جوں کی توں موجود ہے !"
" اچھا تم مارکیٹ سے یہ سپرے لے لو، ذرا مہنگا ہے۔ "ڈاکٹر کاغذ پر لکھتا ہے۔ مریض سامنے والے سُپر سٹور سے سپرے خریدتا ہے اور اُدھر کھڑے کھڑے ناک میں تین چار بار سپرے کرتا ہے مگر اُسے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔
" السلام علیکم، ڈاکٹر صاحب "
"و علیکم السلام !"
" سر میں۔۔ ۔ وہ۔۔ ۔ ناک میں سپرے کیا مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ "
" آپ کا مسئلہ نفسیاتی ہے۔ آپ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرو"
" ٹھیک، ٹھیک۔۔ ۔ ایسا ہوتا ہے۔۔ ۔ ہوں ہوں ہوں۔ میرے پاس اس کا علاج ہے۔ آپ وقت پر پہنچے۔ یہ چیز دوائی سے ٹھیک نہیں ہوتی۔ مشورے، مشق اور باقاعدہ رپورٹنگ سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ یہ بو اصل میں وجود نہیں رکھتی لیکن آپکے ذہن پر اُس بو کی چھاپ رہ گئی ہے۔ آپ نہ تو اپنی ناک بیچاری میں قسم قسم کے سپرے چھڑکو اور نہ ہی اسے برا بھلا کہو " ماہرنفسیات ہنستا ہے۔ " اچھا یہ بتاؤ آپ نے خواب میں جو انار دیکھا تھا اُس کا رنگ کیسا تھا؟"
" سرخ "
" ٹھیک ہے، سمجھ گیا۔ آپ سرخ رنگ کے بارے میں نہ سوچا کریں۔ جب آپ سرخ رنگ کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپکے ذہن میں انار آ جاتا ہے اور جب انار آتا ہے تو آپ کو سڑی بو آنے لگتی ہے۔ آپ ایسے سمجھیں جیسے سرخ رنگ سرے سے دنیا میں موجود ہی نہیں ہے۔ آپ اسی رنگ کو اپنے ذہن سے، اپنے ذخیرہ الفاظ سے نکال دیں۔ اور ہاں آپ سرخ رنگ کی کوئی چیز استعمال نہ کریں، آپکے کمرے کے پردے، فرنیچر، بیڈ شیٹ، برتن، کوئی چیز بھی سرخ نہیں ہونی چاہیے۔ دو دن بعد ملیں گے۔ خدا حافظ!"
یہ ماہرنفسیات تو مجھے بے وقوف لگتا ہے۔ اگر میں سرخ رنگ کو ذہن سے نکال سکتا تو پھر کیا مشکل تھی۔ مجھے اپنا علاج خود کرنا چاہیے۔ مجھے نیند کر لینی چاہیے۔ نیند کر لینے کے بعد میں اس گندی بو کو بھول جاؤں گا مگر نیند کیسے آئی آئے گی؟۔۔ ۔ خوب آور گولیاں لینی چاہئیں۔
شریف کو نیند آ جاتی ہے۔ وہ خواب میں دیکھتا ہے، شہزادی بہت سارے اُونٹوں پر گندے انار لادے اُس کے پیچھے بھاگتی ہے۔ شہزادی اور اس کے اونٹ اسے گندے اناروں سے مارتے ہیں۔ ڈاکٹر اناروں کے بدبو دار رس سے بھرے بڑے بڑے انجکشن لے کر اس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ جب وہ ان کے ہاتھ نہیں آتا تو وہ مشین گنوں میں انجکشن رکھ کر اسے مارتے ہیں اور کبابوں والا مشکیزے میں انار کے کبابوں کا سرخ دھواں بند کر کے آتا ہے اور مشکیزے کا منہ اس کی ناک کے سامنے کھول دیتا ہے۔ اس کی آنکھ کھل جاتی ہے
" اوئے ابھی تو صرف اڑھائی بجے ہیں، اس کا مطلب ہے میں صرف آدھا گھنٹہ سویا ہوں۔ ہائے میرا سر پھٹ رہا ہے۔ میں دو دنوں سے نہیں سویا۔ اس وقت کہاں جاؤں ؟ کس سے باتیں کروں، کہاں وقت گزاروں ؟ ہائے میرے منہ سے کتنی گندی بو آ رہی ہے۔ مجھے برش کرنا چاہیے۔۔ ۔ اوئے لگتا ہے یہ پیسٹ سڑے اناروں سے بنی ہے۔ یہ سب اس ناک کا قصور ہے۔ ناک کے سوراخوں کو بند کر دیتا ہوں۔۔ ۔ کپاس کہاں گئی؟ کپاس کو چھوڑو۔ ٹشو پیپر سے بند کر لیتا ہوں۔ بند ہو گے سوراخ۔۔ ۔ اچھا ہوا۔۔ ۔ مگر سڑے انار کی بدبو تو اب بھی آ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے، بو صرف ناک سے نہیں آتی بلکہ کانوں، آنکھوں اور منہ سے بھی سونگھی جا سکتی ہے۔ میری ناک مکمل بند ہے مگر انار کی سڑی بو اب بھی مجھے آ رہی ہے۔ جیسے میرے وجود میں سڑے اناروں کی بد بو کی پائپ لائن بچھی ہو۔
صبح سے بہت وقت باقی ہے۔ ذرا ٹی وی دیکھ لیتا ہوں۔ اوئے سکرین سے کتنی تیز روشنی نکل رہی ہے۔ میری آنکھوں سے پانی بہنے لگا ہے۔۔ ۔ ٹی وی نہیں دیکھ سکتا۔ چائے بنا لیتا ہوں مگر چائے سے بھی وہی بو آئے گی۔ چائے کو چھوڑو۔ ذرا پانی پی لیتا ہوں۔ اف پانی سے بھی وہی بد بو آ رہی ہے۔ میرے اللہ میں کہاں جاؤں ؟ کیا کروں ؟ لگتا ہے یہ بو میری جان لے کر ہی رہے گی۔
"ڈاکٹر صاحب ہمارے مریض ٹھیک تو ہو جائے گا نا؟" شریف کا بھائی پوچھتا ہے۔
" ہاں وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا اور ہاں، جب یہ ہوش میں آئے تو اس سے بو کا ذکر نہیں کرنا۔ "
"اسے ہوش کب آئے گا؟"
"دس بارہ گھنٹے بعد۔ یہ جتنا آرام کرے گا اس کے لئے بہتر ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد اسے انار کا جوس یا کوئی بھی سرخ رنگ کا جوس نہ دینا۔ جب اسے ہوش آئے تو اس سے ادھر ادھر کی باتیں کریں۔ ہنسی مذاق کریں، مزاحیہ فلمیں دکھائیں، اسے پکنک پر لے جائیں۔ "
میں جاگ رہا ہوں یا سورہا ہوں ؟ اگر جاگ رہا ہوں تو پھر میں آنکھیں کیوں نہیں کھول سکتا ؟میں ہاتھ کیوں نہیں ہلا سکتا؟ میں گھر میں ہوں یا کہیں اور؟ میرے آس پاس آوازیں تو جانی پہچانی سی لگ رہی ہیں۔ یہ آواز تو شمائلہ کی ہے، اپنی امی سے پتہ نہیں کس بات پر جھگڑ رہی ہے۔ سکول جانے سے پہلے وہ ہر روز اس طرح چڑ چڑ باتیں کرتی ہے۔ یہ لڑکیاں بھی نا۔۔ ۔
" بھابی آپ چائے بہت اچھی بناتی ہیں !"
" تھنکس!ٹوسٹ لیں نا"
"لے رہا ہوں "
’’مکھن ذرا اور لگا دوں ؟‘‘
" نو تھینکس۔ "
" کل ہم پکنک پر جا رہے ہیں "
" کہاں ؟"
" یہ آپ کے لئے surprise ہے۔ "
" پکنک کے لئے خاص کیا بنا رہی ہو؟"
" بہت کچھ۔۔ ۔ اچھا آپ ٹی وی دیکھنا چاہیں گے ؟کچھ دیر پہلے بہت اچھی کامیڈی چل رہی تھی"
" ہاں ہاں۔ ٹی وی آن کر دیں .... اور آواز ذرا کم رکھنا"
"انکل میں آپ کے لئے پھول لائی ہوں "
"او تھینک یو مائی لٹل لیڈی! مجھے پیار کرو۔۔ ۔ تم ابھی تک سکول نہیں گئی؟"
"نہیں۔ انکل آج سنڈے ہے۔ "
"تمھارے ابو کہاں ہیں ؟"
"وہ باہر لان میں ہیں۔ انکل آپ آج مجھے کہانی سنائیں گے نا؟"
"کونسی کہانی ؟ میرے پاس تو کہانیوں کی بوریاں بھری پڑی ہیں۔ "
" وہی شہزادی والی"
"کونسی شہزادی ؟"
" محل والی شہزادی، جو شہزادے کو انار دیتی ہے۔ تین دن پہلے آپ نے یہ کہانی درمیان میں چھوڑ دی تھی"
محل۔۔ ۔ شہزادی۔۔ ۔ انار۔۔ ۔ شریف کو ایسے لگا جیسے کسی نے اسے ناک سے پکڑ کر سڑے اناروں کے رس کے تالاب میں دھکا دے دیا ہو۔
٭٭٭