اس کے پاوں وہی منجمد ہو گئے ۔۔اس میں ہمت نہیں تھی کے وہ واپس پلٹے لیکن وہ پلٹنا چاہتی تھی اس سے پوچھنا چاہتی تھی۔۔۔۔
وہ پلٹی اور سارم کے جانب ایک سوالیہ انداز میں دیکھا؟
تکلیف کیوں؟ کس وجہ سے ؟ کس حق سے ؟ جیسے ہی زویا نے یہ سب سوال سارم آگے پیش کیے ۔۔ وہ کچھ نہ کہہ پایا ۔۔اور ہمیشہ کی طرح ان سوالوں کے جواب نہ دینے کا اچھا طریقہ ۔۔۔خاموشی سے وہاں سے روانہ ہوگیا ۔۔۔۔۔
لیکن اس کی ۔۔۔خاموشی بھی بہت کچھ بیان کر گئی تھی ۔۔وہ کیوں نہیں روکا اس نے کیوں کچھ نہیں بتایا ۔۔۔لیکن شائد زویا اس کی خاموشی سمجھ گئی تھی ۔۔۔
"محبت کی راہ میں کبھی کبھی ایسے بھی موڑ آتے جہاں پر محبوب کو اظہار کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔۔وہ اپنے عاشق کو ازماتا! ہے"
*********
( تکلیف کس وجہ سے؟ کس کے لیے اور کس حق سے؟) سارم کو بار بار زویا کے کیے گے سوال یاد آ رہے تھے۔! ٹھیک تو ۔۔۔کہ رہی تھی زویا؛ کس حق سے میں اسے کہ رہا تھا ۔۔۔کیوں اس پر غصہ ہو رہا۔۔تھا!
کیوں مجھے تکلیف ہوئی زین کا زویا کو دیکھنے پر۔۔۔کیوں؟ یا اللہ یہ جو بھی ہے ۔۔۔۔۔اسے ۔۔روک دے۔۔۔
میں نہیں چاہتا کچھ ایسا ہو۔۔۔۔اور زویا کچھ۔۔۔ایسا سوچے!
کیونکہ میں اس کے قابل نہیں ہوں۔۔۔
" ہم تو تجھ پر ۔۔۔مٹ بیٹھے تھے صنم
وہ الگ بات ہے ۔۔۔ہم سے اقرار نہ ہو سکا"
*********
زویا بیٹا روکو! ثمرین نے پیچھے سے زویا کو روکا جو یونیوڑسٹی کے لیے روانہ ہو رہی تھی ۔۔۔
یونی جارہی ہو ثمرین نے سوال کیا
جی
زویا نے ادب سے سر ہلایا
ایسا کرو تم سارم کے ساتھ چلی جاو ۔۔شہریار کا تو تمھیں پتا ہے ہر کام میں ۔۔۔سست ۔۔اسلیے آج تو ویسے بھی ۔۔تم نے جانا ہے تو سارم کے ساتھ چلی جاو ۔۔۔ویسے بھی تم لوگوں نے ایک جگہ ہی جانا ہے ثمرین نے زویا کو دیکھتے ہوے کہا
نہیں ۔۔نہیں ۔۔خالہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔زویا نے جھجکتے ۔۔ہوے کہا
کیوں ۔۔ضرورت نہیں ۔۔اور اس میں حرج ہی کیا ہے وہ تمھارا کزن ہے جیسے ہی ثمرین نے بولا سارم وہاں ہال میں داخل ہوا
اچھا امی میں اب چلتا ہوں ۔۔اپنا دیھان رکھیے گا سارم بلیک ٹی شرٹ اور پینٹ لباس میں ملبوس داخل ہوا اور ہمیشہ کی طرح ٹی شرٹ آستینں کہنیوں تک کی ہوئیں ۔۔۔ نگاہیں نیچے ۔۔۔اور وہی ۔۔پرسنلیٹی جس پر ہر یونی کی لڑکی فدا ہو جاتی ۔
لو سارم بھی آگیا ثمرین نے سارم کی طرف مسکرا کر دیکھا ۔۔
سارم نے بے چینی سے نگائیں اوپر کیں ۔۔۔
اور زویا کی جانب دیکھا
جو بلیو شلوار قمیض میں ملبوس تھی ۔۔
بیٹا ایسا کرو تم زویا کو بھی اپنے ساتھ لے جاو وہ کہاں اکیلی جاتی رہے گی ۔۔۔۔اور ویسے بھی تم لوگوں نے ایک جگہ جانا ہے ۔۔۔ زویا اور سارم نے اکھٹے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔۔جو شائد ۔۔۔دونوں ۔۔۔کا ۔۔دل نہیں کر رہا تھا کونکہ کل رات والے واقع سے زویا ۔۔تھوڑا ناراض تھی لیکن ۔۔وہ خالہ کی وجہ سے کچھ نہ کہہ پائی ۔۔۔
جی امی ۔۔۔
سارم نے ۔۔بھی ۔۔ایک فرمابردار بیٹے کی حثیت سے اپنی امی کے حکم کی تعمیل کی ۔۔۔
وہ دونوں ۔۔اکٹھے ۔۔گراج کی جانب بڑھے
***************
کار میں بلکل خاموشی تھی ۔۔۔یوں معلوم ہو رہا تھا ۔۔کہ کار میں ۔۔کوئی بھی موجود نہ ہو ۔۔۔وہ دونوں ۔۔۔۔ظاہری ۔۔خاموش تھے لیکن ان ۔۔کے دلوں میں ۔۔اکٹھے ایک جیسے ۔۔سوالات پیدا ہو رہے تھے ۔۔۔
کھڑوس ہے پورا یہ کیا کچھ بولے گا زویا نے ۔۔۔۔دل میں ۔۔سوچا
یہ آج کچھ نہیں ۔۔بولے گی سارم نے بھی سوچا ۔۔۔
بولتی کیسے ۔۔کل کم ہو گئی ۔۔تھی جو آج بولتی ۔۔معافی تو مانگنی نہیں ۔۔ہوتی ۔۔آپ نے
زویا۔۔۔۔ب کار ونڈو میں ۔۔باہر کا منظر دیکھنے لگی ۔۔۔
معافی ۔۔۔ ہاں ۔۔غلطی تو میری ہے لیکن اگر معافی مانگ لی تو ۔۔
سارم نے ایک ۔۔سرسری نگاہ سے زویا کو دیکھا ۔۔۔۔
تو کیا مسڑ کھڑوس ۔۔رہنے دے ۔۔آپ سے نہیں ۔بولا جاے گا
زویا نے ۔۔نے بھی سرسری نگاہ سے سارم کو دیکھا
پھر آخر کار ۔۔کسی ایک نے ۔۔چپی کے تالے توڑے ۔۔۔اور ۔۔دل ۔ میں ۔۔ہونے والی۔۔گفتگو ۔۔ کو وہی ختم کیا ۔۔۔
" جب دل کی لگی ہو
تو دل میں باتیں ہوتی ہیں
پھر زبان سے تکرار نہیں دل سے اقرار ہوتا ہے "
وہ زویا میں ۔۔کہہ رہا تھا کے
سارم نے آج پہلی مرتبہ پہل کرتے ہوے زویا سے مخاطب ہوا ۔۔۔
کیا ؟ زویا نے بےچینی سے پوچھا
وہ میں کہہ رہا تھا کے یونیوڑسٹی میں کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے ۔۔کے میں ۔۔تمھارا کزن ہوں ۔۔
جیسے ہی ۔۔سارم نے کہا ۔۔زویا نے چونک ۔۔کہ ۔۔سارم کی طرف دیکھا
پر کیوں ۔۔اور اس میں ۔۔حرج ہی کیا ہے
زویا نے ۔۔سوال کیا ۔۔
ویسے ۔۔ہی ۔۔۔پلیز ۔۔اس کی وضاحت مت پوچھنا ۔۔
سارم نے سارئ بات ہی ختم کر دی
زویا نے ایک لمبی آہ بری
او اچھا سمجھ گئی میں ۔۔آپ کیون نہیں ۔۔بتانا ۔۔چاہتے اسلیے کے آپ کی یہ سو کولڈ پرسینلٹی خراب نہ ہو اور ساری یونی کی لڑکیاں جو آپ کے محبت کے قصے ہر روز بنتی ہیں۔۔۔۔ کہی ان کے ۔۔خواب نہ ٹوٹ جائیں اور وہ ہمیشہ ۔۔آپ کے خواب دیکھتے رہے ۔۔۔
زویا نے ۔۔ساری وضاحت دی ۔۔۔
لیکن ۔۔اس نے کچھ نہیں ۔۔کہا ۔۔کوئی وضاحت نہ دی
اپنی حمائت ۔۔میں ۔۔اس نے ایک لفظ ہی ۔۔نہیں ۔۔کہا
وہ ہمیشہ سے ایسا تھا ۔۔۔
اپنی دفاع ۔۔میں کچھ نہیں ۔۔بولتا تھا
اور خاموشی ۔۔کا راستہ اپنالیتا تھا اور آج بھی اس نے ایسے ہی کیا
سارم نے ۔۔یونی سے کچھ دور فاصلہ پر گاڑی روکی ۔۔۔
زویا نے غصے سوال کیا
اب کیا ہوا گاڑی کیوں روک دی؟
میں بتا تو چکا ہوں تمھیں ۔۔
سارم نے مختصر سا جواب دیا
کیا مطلب ؟ یونی تھوڑی سے آگے ہے زویا سمجھ نہ پائی ۔
مطلب یہ کے میں نہیں ۔۔چاہتا کوئی ۔۔بھی ۔۔تمھیں ۔۔میرے ساتھ دیکھے ۔۔
اور کسی کو ہمارے رشتے کے بارے میں پتا چلے ۔۔۔
جیسے سارم نے کہا ۔۔
زویا ۔۔کچھ کہے بنا ۔۔غصے سے ۔۔گاڑی سے اترئی ۔۔۔اور ۔سڑک کے کنارے ۔۔روانہ ہونے لگی
زویا ۔۔روا تھی ۔۔کہ اچانک ۔۔اس کا سر چکرانے ۔۔لگا ۔۔
اسے یوں لگا جیسے کسی ۔۔۔چیز نے اسے بھاری پتھر مارا ہو ۔
جیسے سارم نے زویا کو لڑکھڑاتے ۔۔۔ہوے دیکھا ۔۔وہ جلدی ۔۔سے ۔۔
گاڑی سے باہر آیا ۔۔۔
اور زویا کو سہارا ۔۔دیا
لگتا ہے ۔۔تم نے ناشتہ نہیں ۔۔کیا
سارم نے ۔۔زویا کو ۔۔پکڑتے ہوے کہا ۔۔۔
کیا ۔۔ہو یا ۔۔نہ کیا ۔۔ہو ۔آپ کو کیا ۔۔۔
اور ۔ویسے بھی ۔۔کراچی کے ۔۔لوگ ۔۔اتنے غصے والے ہیں ۔۔اس قدر غصہ ۔۔دکھاتے ۔۔ہیں ۔۔کہ ۔۔بندہ
۔بے ہوش ہونے ۔کی کفیت میں ۔۔آجاتا ہے
زویا ۔۔غصے سے کہتی ہوئی ۔۔
روانہ ہو گئی
وہ بے سختہ اس کی بات پر مسکرایا ۔۔۔
وہ مسکراتا تھا ۔۔
اس کی ہر بات ۔۔پر ۔۔مسکراتا تھا ۔بس فرق اتنا تھا ۔۔
وہ اس کے جانے کے ۔بعد
اور دل میں ۔۔مسکراتا تھا ۔۔۔۔
" وہ ۔۔۔۔کر پائے گا نہیں ۔۔اقرار یہ بات تو ۔ تہہ ہے ۔۔۔
ہو ۔۔جاے گا اک دن پیار ۔۔یہ بات تو تہہ ہے ۔۔"
آپ ۔۔
آپ کھڑی ہو جائیں ۔۔سارم نے لیکچر کے دوران ۔۔زویا کی طرف اشارہ کیا
ایک مرتبہ پھر ساری کلاس کی نگاہیں زویا کی طرف متوجہ ہوگئ ۔۔۔
سب کی دل کی دھڑکنیں ۔۔ تیز ۔۔ہوگئ ۔۔۔
لیکن ۔۔آج وہ کلاس میں دہشت ناک خوف تاری نہیں تھا ۔۔
جیسا پہلے دن تھا ۔۔
زویا ۔۔گھبرائی ۔۔اور کھڑی ہوگئ ۔۔کیونکہ ۔۔اسے ۔سمجھ ہی نہیں آئی تھی ۔۔کہ آج اسے کیوں اور کس وجہ سے کھڑا کیا گیا تھا ۔۔اور آج تو اس نے کوئی ۔۔ایسی ۔۔حرکت نہیں کی تھی جس کی وجہ سے ۔۔سارم کو غصہ آتا
ج ج ج جی سر ۔۔
زویا کی زبان ۔۔۔لڑکھڑاتے ہوئی بولی ۔۔
یا اللہ یہ کس مٹی کا انسان ہے ۔۔مطلب ۔۔یہ وہی انسان ہے جو گھر میں اپنی امی کے ساتھ مسکرا کر بولتا ہے ۔۔یونی میں دوسرے سٹاف کے ساتھ اس کا رویہ اتنا اچھا ہے پھر اسے کلاس میں ہی کیا ہو جاتا ہے ۔۔ایسے ۔۔خون بھری نگاہوں سے ہر ایک کی طرف دیکھتے ہیں ۔۔جیسے ۔۔ہم نے غلطی کی ہو اس یونی میں آکر
زویا نے ۔۔دل میں سوچا
آپ ٹھیک تو ہیں
سارم نے زویا کی طویل خاموشی کو توڑتے ہوے کہا ۔۔
ج ج سر میں ۔ٹھیک ہوں ۔۔۔زویا ۔۔نے
ڈرتے ہوے کہا
اگر آپ ٹھیک ہیں ۔۔تو میں جو پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دیں ۔۔
سارم نے غصے سے کہا ۔۔
سوری سر میں نے سنا نہیں ۔۔
زویا نے ۔۔معافی مانگی ۔۔۔
او
اچھا ایسا کریں آپ اپنے کانوں کو اچھی طرح صاف کروا لیں ۔۔تاکہ آپ کو ہر بات سنی تو جاے
سارم نے ۔۔غصے سے زویا کی طرف دیکھتے ہوے کہا
اتنا کھڑوس کوئی بندہ کیسے ہو سکتا ہے ۔۔اس کو مجھ سے ہی ۔کیوں دشمنی ہے اللہ ۔۔آنے دو ہفتے کو گھر گن گن کے حساب لوں گی ۔۔۔
زویا نے ۔۔۔۔اپنے دل ۔۔میں ۔۔انتقام لینے ۔۔کی بات ٹھانی
جی ۔۔
سارم نے زویا سے ۔۔کیمسٹری کے لیکچر سے متعلق ۔۔ہر طرح کے سوال کیے ۔۔اس نے زویا ۔کو ہر جگہ سے ہر سوال کے پواینٹ سے پھسانے کی پوری کوشش کی ۔۔لیکن ۔وہ زویا مجیب تھی ۔۔جو ہر طرح کی کھیل تفریحات کرنے کے باوجود وہ سکول ٹائم سے لے کر کالج تک ۔۔اس نے اپنی پڑھائی کے معاملے میں ایک دن لاپروائی ۔۔نہیں ۔۔کی ۔۔وہ شروع سے لائق تھی ۔۔تو پھر آج وہ کیسے ۔۔سارم حسن کے سامنے پزل ہو جاتی
پوری ۔۔کلاس ۔۔زویا کی ۔۔طرف ۔۔دیکھ کر حیران تھی ۔۔کہ کیسے اس نے ہر مشکل سے مشکل سوال کے جواب دیے ۔۔۔۔
آخر ۔۔پھر ۔۔
سارم نے ۔۔۔۔اسے ۔۔بیٹھ جانے کا اشارہ کیا
وہ ۔۔پھر سے مسکرایا ۔۔تھا ۔۔لیکن ۔۔اس کے سامنے ۔۔نہیں ۔۔مسکرایا ۔۔
**********
روکیں زویا نے پیچھے سے آواز دی ۔۔سارم پلٹا ۔۔
اور بڑے ۔۔سیریس مزاج میں ۔۔
جی ۔کہیں ۔۔
وہ ۔۔وہ سر میں نے آپ سے پوچھنا ۔۔تھا
زویا یہ کہتے ہوے سارم کے ۔۔قریب بڑھی ۔۔
اور بڑے رازدانہ انداز میں ۔۔آہستہ سے کہا
واہ واہ مسٹر سارم حسن آپ میرا ٹیسٹ لے رہے تھے ۔۔
کے میری ۔۔کزن لائق ہے یا نہیں ۔۔اس کی فکر آپ مت کریں ۔۔جس کا اتنا لائق کزن ہو۔۔۔
تو اس کی کزن کیسے نالائق ہو سکتی ہے ۔
زویا نے مسکرا کر طنزا کیا ۔۔۔
آہستہ بولو ! ۔زویا ۔۔کوئی ۔۔سن لے گا ۔۔
سارم نے زویا کو تلقین کی ۔
تو کیا ۔۔سن لے ویسے بھی سب کو پتا چلنا چاہیے نہ ۔۔اور اس میں حرج ہی کیا ہے آپ کی بھی ۔۔یونیوڑسٹی میں تعریف ہو گی ۔۔کہ سر سارم کی اتنی لائق کزن ۔۔۔
زویا نے ۔۔اپنی تعریف کرتے ہوے کہا ۔۔۔
بس ۔۔بس ۔۔زویا ۔۔اتنا ہواوں میں مت اوڑھو ۔۔
جس سوالات کے تم نے جواب دیے تھے نا ۔۔وہ ہر کوئی دے سکتا ہے ۔۔اور تمھیں کیا لگتا ہے ۔۔کلاس میں اور کوئی سٹوڈنٹس لائق نہیں ۔۔اس یونی میں ۔۔ہر وہ سٹوڈنٹس آتے ہیں جو اپنے کالج کے ٹاپر ہوتے ہیں ۔۔
سارم نے ۔۔زویا ۔۔کی طرف دیکھتے ہوے طنزا کہا وہ کبھی بھی اس کے سمنے اس کی تعریف نہیں کرتا ۔تھا
ہاں تو میں نے کب کہا ہے کہ میں ہی پوری کلاس سے لائق ہوں ۔۔۔آپ تو سو چتے ہی ہمیشہ الٹا ہیں ویسے ۔۔سارم کیا ہے ۔۔تم بتانے دو مجھے پوری یونی کو کہ ۔۔
ہنڈسم سر سارم زویا مجیب کا کزن ہے اسلیے جو بھی ۔۔۔لڑکیاں ان کے ساتھ ۔۔اپنے ۔۔محبت کے قصے جوڑتی ۔۔ہیں ۔۔وہ ختم کر دیں ۔۔کیونکہ ۔۔سارم صرف ۔۔۔۔۔
جیسے زویا نے کہا ۔۔وہ رک گئی ۔۔۔اس سے ۔۔۔آگے وہ بولا ہی نہیں گیا جو وہ بولنا چاہتی ہے ۔
زویا وہا ں جلدی سے روانہ ہوگئ
پاگل ۔۔۔سارم نے مسکراتے ہوے کہا اور وہاں سے روانہ ہوگیا
**************
وہ لائبرری سے باہر نکلا ۔۔تھا ۔۔۔
زویا ۔۔بھی ۔۔وہاں ۔۔سے گزر رہی ۔۔تھی ۔۔جیسے ہی اس نے سارم کو دیکھا ۔۔۔
اس کے پاوں وہی ۔۔رک گئے ۔۔۔اس نے ۔۔آگے ۔۔آنا ۔۔چاہا ۔لیکن اس کی ۔آنکھوں نے اسے روک لیا ۔۔۔
وہ اسے دیکھنا ۔۔چاہتی تھی ۔۔۔ہمیشہ ۔۔اسے ۔۔دیکھنا ۔۔چاہتی ۔تھی ۔۔وہ اسے اپنی ۔آنکھوں سے ۔۔اوجھل نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔
سارم کسی سٹاف ممبر کے ساتھ ۔۔۔۔کھڑا گفتگو کرنے کے دوران مسکرا رہا تھا
یہ مسکراتے ہوے کتنا ۔۔پیارا لگتا ہے ۔۔
اس ۔۔کی ۔۔نشیلی ۔۔آنکھیں ۔۔۔جس پر ہر یونی کی لڑکی ۔۔فدا ہوجاتی ۔۔۔
زویا ۔۔وہاں بلکل ساکت کھڑی سارم کو مسلسل دیکھ رہی تھی ۔۔۔
کہ ساتھ کھڑی لڑکیوں کے ایک گروپ کی لڑکی نے کہا ۔
ہاے علیزہ ۔۔یہ سر سارم کتنے ہینڈسم ہیں ۔۔۔دیکھو ۔۔کتنے پیارے لگ رہے ہیں ۔۔مسکراتے ہوے ۔۔۔ان گروپ میں ۔۔دوسری لڑکی نے کہا ۔۔۔
اور ان کی آنکھوں کو تو دیکھو ۔۔کیسے ۔۔نشیلی ۔۔ہیں ۔۔۔
" ہاے اس کا اک دیدار عالم کے لیے ترس جاتی یہ آنکھیں
شراب ہو یا نشہ ہو کہ آنکھوں سے اترتا نہیں ۔۔"
مجھے لگتا ہے ۔۔ان کی ۔کوئی ۔۔گرل فرینڈ نہیں ہو گی ۔۔اسی لڑکی نے کہا ۔۔۔
نہ ہو ۔۔۔میں ۔۔نے تو سوچ لیا ہے
جیسے ہی اس پہلی لڑکی نے کہا ۔۔
زویا جو مسلسل ۔۔ان کی باتیں ۔۔سن رہی تھی ۔۔غصے سے ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔
کیوں تم نے کیا سوچا ہے زویا نے اسی لڑکی سے پوچھا ۔۔۔
کیا سوچنا ہے ۔۔اتنے ہینڈسم ہیں ۔۔ان سے اپنی محبت کا اظہار کروں گی ۔۔۔
او میری بہن ۔۔بس ۔۔کرو اتنے ۔۔اونچے خواب نہ دیکھو ۔۔جو پورے نہ ہوں ۔۔۔
زویا نے غصے سے کہا ۔۔۔
کیوں ۔۔تمھیں ۔۔کیوں ۔۔اتنا غصہ آرہا ہے ۔۔۔اس لڑکی نے طنزا کیا ۔۔۔
مجھے تو غصہ نہیں آرہا میں نے تو حقیقت ۔۔بتائی ہے اسلیے اچھا ہے ۔۔تم سب لوگ اسے تسلیم بھی کر لو اور جو خواب بن رہی ہو نہ ۔۔ابھی ختم کردو زویا نے اس قدر غصے سے کہا کے اس کا دل کر رہا تھا ۔۔کے وہ ان لڑکیوں کی جان لیں لے
کیا واقعی یہ جو ۔۔دل کی لگئ ہے اپنے انجام منزل تک پہنچ جاے گی
یا صرف ایک طرفہ پیار رہے گا یا محبت کے نام تک پہنچ جاے گی
اس میں علم نہیں ہے کہ وہ محبوب ہے بھی یا نہیں
ہم ان کے لیے پاگل ہیں وہ ہم سے پیار کرتے ہیں بھی یا نہیں
یہ کیسا کھیل رچا دیا ہے دلوں میں مولا ۔جس کا نہ آغاز ہے اور انجام کا پتا نہیں
نا اظہار محبت ہے اور نا اقرار کرنے کی ہمت
نہ نظریں ملتی ہیں ۔۔پھر دل میں عشق کی آگ لگ گی کیسے؟ پتا نہیں
ہم ان کو رک کر دیکھتے ہیں چاہے وہ دیکھے نہ دیکھے اس بات کا ہمیں پتا نہیں
بس یہ جو ہے وہ ان کو بھی ہو جاے گا
آگے کی کیا کفیت ہو گی اس کا پتا نہیں۔
****************
ہیلو ۔۔ہیلو ۔۔۔۔زویا سڑک پر کھڑے ۔تانیہ کا فون سن رہی ۔۔تھی ٹریفک زیادہ ۔۔ہونے کے باعث ۔۔ اسے تانیہ کی آواز ۔۔۔اچھے سے سنائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔
ہاں تانیہ اب بولو
زویا نے ایک طرف رک کر کہا ۔۔
زویا ۔۔میں ۔۔۔آج ۔۔کراچی آرہی ہوں ۔۔۔تم ۔۔آگے مجھے سٹیشن پر پیک کرنے آنا
تانیہ نے زویا کو کہا ۔۔
کیا ؟ کراچی آج ؟ تم نے بتایا نہیں ۔۔۔
زویا چونکی
کیوں ۔۔تمھیں ۔۔اچھا ۔۔نہیں ۔۔لگا ۔۔۔پتا تھا تم ۔۔بدل جاو گی ۔۔چلو کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔ہم گزار لیں گے ایسےہی ۔۔
تانیہ نے ۔۔افسردہ ۔۔سا چہرہ بناتے ہوے کہا ۔۔
او پاگل میرے کہنے کا مطلب یہ ۔۔تھا کہ تم ایک دن پہلے نہیں ۔۔بتا سکتی تھی ۔۔۔بندہ پہلے ۔تیاری کر لیتا ہے
زویا نے وضاحت دی
ارے ۔۔واہ ۔۔۔میڈم ۔۔اپنا ۔۔فون چیک کرو ۔۔اور دیکھو ۔۔میں نے ۔۔صبح کی کتنی کالز کی ہیں ۔۔
سارم کے خوابوں سے نکلو ۔۔تو تمھیں ۔۔اور کیسی کا خیال آے نا
تانیہ نے طنزا ۔۔کیا
تم ہر بات ۔۔میں سارم ۔۔کو ہی ۔۔کیوں لے کر آتی ۔۔ہوں ۔۔
اور ایک ۔۔بات ۔۔۔اگر تمھیں ۔۔اتنا ۔۔ہی ہو رہا ہے ۔۔نہ ۔۔تو ۔۔خود آجاو ۔یا پھر اپنے سلمان خان کو ۔۔کہہ دو ۔۔وہ تمھیں لینے آجاے گا
زویا نے ہستے ہوے ۔۔طنزا کیا
ہاں جیسا ۔۔تمھارا ۔۔سارم تمھیں ۔۔دوڑتے ۔۔ہوے سٹیشن ۔۔سے ۔۔لینے آیا ۔۔تھا ۔نا ۔۔
جو مجھے سلمان ۔۔خان لینے آتا ۔۔۔
تم بتاو ۔۔مجھے لینے آرہی ہو یا نہیں ۔۔تانیہ نے غصے سے کہا
ہاہاہاہاہاہا ۔۔اچھا ۔۔اچھا ۔۔غصہ مت ہو آرہی ہوں ۔۔
زویا نے یہ کہتے ہوے ۔۔فون ۔۔بند کیا ۔۔اور اس نے ۔
شہریار ۔۔کو کال ملائی ۔۔لیکن ۔۔ہمیشہ ۔۔کی طرح اس کا فون بند تھا ۔۔
یہ ۔موٹا بھی نہ کسی کام کا نہیں پتا نہیں ۔مجھے سٹیشن پر کیسے لینے آگیا تھا ۔۔
اب خود ہی جانا پڑے گا زویا بیٹا ۔کھڑوس کو تو ۔۔ہرگز نہیں کہوں گی اگر کہہ بھی دیا ۔۔تو وہ کونسا مانے ۔۔۔ گا ۔ زویا نے دل میں سوچا اور
سڑک پر رکشا روکنے لگی ۔۔
یہ لڑکی بھی نہ مراوے گی ایک دن ۔۔کہاں جارہی ہے اکیلے ۔۔اگر اس سے پوچھوں تو ۔۔الٹا سنا دیتی ہے ۔۔۔
سارم گاڑی چلاتے ہوے ۔۔زویا کو دیکھا جو سڑک پر رکشا روکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
تم ۔۔یہاں کیا کر رہی ہو گھر کیوں نہیں گئی ۔۔ابھی تک؟
سارم نے گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوے کہا ۔۔
وہ میں ۔۔
اپنی دوست تانیہ کو سٹیشن پر لینے جارہی ہوں کیوں؟ کیا ہوا
زویا نے آگے سے جواب دیا
کسی کو بتایا ہے ۔۔شہریار کو ساتھ لے جاتی
سارم نے زویا کی طرف دیکھتے ہوے کہا
شہریار کا فون بند آرہا ہے ۔۔اسلیے ۔۔تو اکیلا جانا پڑ رہا ہے
زویا نے وضاحت دی
اگر شہریار کا فون بند تھا تو مجھے کال نہیں کر سکتی تھی ۔۔تمھیں پتا بھی ہے کراچی کے حالات کا اگر کچھ ہو جاتا تو
سارم نے ہربڑاتے ہوے کہا
تو؟ کیا؟
زویا مسکرائی
تو یہ ۔کے پھر تمھاری ۔۔خالہ کی اکلوتی بھانجی ۔۔گم ہو جاتی
سارم نے موضوع ہی تبدیل کر دیا ۔۔۔
نہیں ہوتی گم ۔۔اور ویسے ۔۔بھی آپ کو اس سے کیا غرض مجھے کچھ بھی ہو ۔۔
زویا نے سارم کو دیکھتے ہوے کہا
اچھا آو بیٹھو میں تمیھں ۔۔لے جاتا ہوں
سارم نے ۔۔زویا کو کہا ۔۔
وہ کبھی بھی زویا کے سامنے اقرار نہیں کرتا تھا
اسلیے اس نے بات ہی ختم کر دی
ہاے مسٹر سارم حسن رہنے دئیں؟
زویا نے ۔۔مسکراتے ہوے طنزا کیا
کیوں؟
سارم حیران ہوا
اسلیے کے ایسے ۔۔سب یونی کو پتاچل جاے گا اتنے ہینڈسم سر کی ۔۔اتنی خوبصورت کزن
زویا نے قہقا لگاتے ہوے کہا ۔۔۔
اب ۔۔چھٹی ۔۔ہو چکی ۔۔ہے ۔۔اور ایسا ۔۔مت سوچا کرو
وہ ۔۔کبھی زویا کے سامنے نہیں ۔۔ہستا تھا ۔۔اس کی باتوں پر کبھی ۔۔نہیں مسکرایا ۔۔کیوں نہیں ۔۔مسکرایا ۔۔شائد وہ صرف اسے ہی معلوم تھا