میں زویا مجیب اس بات کا اقرار کرتی ہوں کے مجھے سارم حسن سے اندھی محبت ہوئی ہے
لوگ کہتے ہیں کے محبت اندھی ہوتی ہے یہ بن دیکھے ہی ہو جاتی ہےاور عاشق کی رات کی نیندیں تک اڑا دیتی ہے ۔۔۔۔لفظ محبت جس نام سے پہلے مجھے نفرت تھی ۔۔۔میں یہی سوچتی تھی کے ایسے کیسے کسی کو دیکھ کر محبت ہوجاتی ہے ۔۔۔یہ صرف ٹائم ویسٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔لیکن میں غلط تھی واقعی محبت ہو جاتی ہے بن دکھے بھی ہوجاتی ہے ۔کچھ کہے بھی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے
اور مجھے ایک ایسے شخص سے اندھی محبت ہوئی ہے جیسے آج تک میں نےنہیں دیکھا جس کا تصور صرف میرے خوابوں کی دنیا میں موجود ہے جس کی تصویر خود میں نے اپنے خیالوں میں بنی ہے ۔۔۔۔۔میرے پاس اس کی شناخت کے لیے کچھ موجود نہیں ۔سواے اس کے نام کے سارم حسن کے ۔۔۔جیسا اس کا نام رعب والا وہ اصل میں بھی ایسا ہوگا ۔۔۔جو بھی ہو ۔۔۔بس آخر میں یہی کہوں گی ۔۔۔۔۔۔
کے واقعی محبت اندھی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
رات کے ساڑھے بارہ بجھ چکے تھے زویا نے ایک نظر گھڑی کی جانب دھڑائی ۔۔اور ۔۔ڈائری بند کر کے میز پر ایک جانب رکھ دی ۔۔اور سونے کے لیے بستر کے جانب بڑھی ۔۔۔
وہ مسلسل سونے کی کو شش کر رہی تھی لیکن اسے نیند نہیں آرہی تھی ایسا لگ رہا تھا کے جیسے اس کی خوایش پوری ہو گئی ۔۔اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کے وہ کل کراچی جا رہی ہے کل وہ اسے خود اپنی ان آنکھوں سے دیکھے گی کل وہ میرے سامنے ہوگا ۔۔۔۔کیا وہ واقعی اتنا ہنڈسم ہے جیسے اسے اس کی کزنز بتاتی تھی ۔۔۔بس جو بھی تھا ۔۔۔وہ جیسا بھی دیکھنے میں ہو ۔۔چاہے ہنڈسم ہو یا نہ ۔۔۔وہ پھر بھی میرے لیے خاص تھا ۔۔میں ۔پھر بھی ۔۔اسے چاہوں گی
زویا مجیب (مجیب احمد ۔اور حسرت بیگم) کی اکلوتی بیٹی تھی ۔۔۔۔۔اب زویا مجیب اگے کی پڑھائی کے لیے اپنی خالہ کے ہاں کراچی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔
زویا کی اکلوتی خالہ (ثمرین) جس کے صرف دو بیٹے تھے ۔۔ بڑا سارم حسن اور چھوٹا شہریار حسن ۔تھا ۔۔
اپنی خالہ کے اصرار کرنے پر وہ کراچی جا رہی تھی ۔۔۔اسے اس بات کی بھی خوشی تھی کے وہ اتنے عرصے کے بعد اپنی خالہ سے ملی تھی ۔۔
زویا اپنی کالج کی پڑھائی مکمل کر کے اگےجیسے اس کی خواہش تھی اسں نے بی ایس کیمسٹری کرنے کے کیے کراچی کی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیاتھا۔۔
کراچی میں اس کی خالہ موجود تھی اس لیے اس نے ہوسٹل میں رہنے سے منا کیا تھا ۔۔۔
صبح کے چڑھتے ہوے آفتاب نے ۔۔۔اپنی کرنوں سے ہر چیز کو اپنے لپیٹے میں لے لیا تھا ۔۔۔۔
زویا ؟؟ زویا ؟؟؟ یہ لڑکی بھی نہ مجال ہے ایک آواز سے اٹھ جاے ۔۔کتنی دفعہ کہا ہے کے رات کو اتنی دیر تک نہ جاگا کرو ۔۔۔لیکن ہے کے بات مان جاے اپنی منمانی کرتی ہے ۔۔۔۔حسرت بیگم غصے سے بڑبڑاتی ہوئی زویا کے کمرے کی جانب بڑی ۔۔۔
زویا اٹھتی ہو کے تمھارے ابا کو بلاوں حد ہوتی ہے لاپروائی کی ۔۔کتنی دفعہ کہا ہے کے رات کو جلدی سو جایا کرو ۔۔۔
حسرت بیگم اس کے کمرے میں بکیھری چیزوں کو اٹھا رہی تھی لیکن زویا سننے کے باوجود ۔۔لیٹی رہی ۔۔۔۔
یہ زویا کے ابو زرا بات سنیے گا ۔۔۔۔
جیسے ہی حسرت بیگم نے یہ جملہ بولا ۔۔۔۔
زویا ہربڑا کے اٹھ بیٹھی ۔۔۔۔۔
امی آپ بھی نا ۔۔۔۔ایموشنل بلیک میل کرتی ہیں ۔ابو کے نام سے ۔۔۔کیا ہے تھوڑا سا سونے ۔۔۔ہی دیا کرے ۔۔۔۔
زویا نے آنکھوں کو ملتے ہوے کہا
واہ ۔۔بیٹا واہ ۔۔۔۔۔ٹائم دیکھا ہے کیا ہوا ہے ؟
زرا گھڑی کی طرف تو دیکھو !!
ایک گھنٹا رہ گیا ہے ٹرین کے آنے میں ۔۔۔اور تم ہو کے ااٹھ ہی نہں رہی ۔۔۔۔کچھ پتا بھی ہے آج کراچی جانا ہے تم ۔۔نے
حسربیگم نے غصے زویا کی طرف دیکھتے ہو کہا ۔
پتا ہے مجھے ۔۔زویا یہ کہتے ہوے مسکرائی ۔
ایک منٹ تم ایسے نہیں اٹھو گی لگتا ۔ہے اب جوتا ہی پکڑنا پڑے گا ۔۔
حسرت بیگم نے یہ کہتے ہوے اپنے پاوں کی جانب بڑھنے ہی لگی تھی کے زویا جلدی سے بیڈ سے اتری اچھا اچھا جانے ہی لگی ہوں ۔۔امی آپ کایہ تشدد نیں بولوں گی میں بلا آخری دن بھی ایسے کوئی کرتا ہے ۔۔جب چلی جاوں گی نہ پھر آپ ہی مجھے سب سے زیادہ یاد کرے گی
ہاں ہاں دیکھ لے گے ۔۔۔میں تمھاراسامان رکھنے لگی ہوں تب تک تیار ہو جاو ۔۔۔
حسرت بیگم نے مسکرا کر کہا
کیونکہ چاہے زویا کے سامنے جتنا بھی سخت رہتی تھی لیکن پیار بھی اس سے بڑھ کے کرتی تھی ۔۔۔
اور زویا بھی یہ بات اچھے سے جانتی تھی ۔۔۔
۔
**********************
زویا کپٹرے پہن کر سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بال کنگھی کر رہی تھی اس کے فون کی گھنٹی بجی اس نے فون کی جانب دیکھا اور ہیر برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کے فون سننے کے لیے بیٹھ گئی ۔۔۔
جی زویا میڑم تیار ہو گئی ۔۔فون پر کوئی مسکرا کر بولا ۔۔
جی تانیہ میڈم ۔۔۔ہوگئ تیار آپ بتاییں کس لیے کال کی ۔۔ زویا اپنی دوست کی بات سنتے مسکرائی اور اسے کہا
اچھا جی کیسا زمانہ اگیا ہے لوگ شہر بدلنے کے ساتھ اپنے عزیزوں کو بھی بول جاتے ہیں ۔۔ابھی کراچی گئی نیں ۔اور پہلے ہی اپنا اصل چہرا دیکھا دیا
یہ سارم سے ملنے کی خوشی کا نتجہ تو نہیں ۔۔کے ان سے ملنے کی چاہت میں اپنوں کو پرایا کر بیٹھے
تانیہ نے ایک چیھرنے کے انداز میں کہا
بلکل بھی نہیں ۔۔۔اس بچارے کو تو پتا ہی نہیں ۔۔کہ کوئی ان کو بن دیکھے ہی ان پر مر بیٹھا ہے ۔۔اور ہاں ۔۔ سارم اپنی جگہ اور تم اپنی جگہ ۔۔اور بدتمیز میں سب کو بلا سکتی ہوں لیکن تجھے نہیں
زویا نے تانیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا ۔
اچھا زویا ۔میری بات سنو
تانیہ نے ایک سوالیہ انداز میں کہا
ہاں کہو زویا نے جواب دیا
وہ تمھیں اگے سٹیشن سے لینے آے گا نا
تانیہ نے زویا سے سوال کیا ۔۔۔
کون؟ زویا نے حیرانی سے پوچھا
ارے پاگل سارم اور کون ۔۔۔
پتا نہیں یار میں نے اس کے بارے مہیں امی سے پوچھا نہیں ۔۔ زویا نے مایوسی سے کہا
واقعی پاگل کی پاگل رہنا ۔۔۔اگر وہ تمیھں پیک کرنے آیا تو سہی تیار ہو کر جانا ۔۔اسے بھی تو پتا چلے کے میری کزن اتنی خوبصورت ہے
تانیہ نے ایک بار پھر زویا کو سارم کے نام سے چڑایا
۔۔۔یار وہ کیسے آسکتا ہے نہ اس نے مجھے آج تک دیکھا ہے اور نہ میں نے ۔۔وہ اتنے سالوں میں کبھی ہمارے گھر نہیں آیا حتی کے خالہ جان پھر بھی اپنے چھوٹے بیٹے شہریار کے ساتھ آجایا کرتی تھیں لیکن وہ مسٹر ایک بار نہیں آے
زویا نے ساری وضاحت دی
کچھ بھی ہو سکتا ہے زویا کیا پتا وہ اپنی امی کے ساتھ تمیھں لینے آجاے جو بھی ہو صیح سے تیار ہو کر جانا سمجھ گئی نا میری بات
تانیہ نے زویا کو سمجھاتے ہوے کہا
اچھا میری ماں
زویا نے ہستے ہوئے کہا
اور ہاں تیار ہو کر اپنی تصویر ضرور بیجھنا تاکہ دیکھوں تو سہی کیسی لگ رہی ہو
تانیہ نے کہا
اچھا اچھا بیھج دوں گی فون بند کرو اور مجھے تیار ہونے دو
زویا نے یہ کہتے ہوے فون بند کیا
(ہاے اگر واقعی سارم مجھے لینے آیا ) زویا نے دل میں سوچا ۔۔۔ زویا بیٹا تیار ہو گی ہو
مجیب صاحب نےآواز دی
جی ابا
یہ کہتے ہوے وہ فورا کمرے سے باہر نکلی ۔۔
اچھا بیٹا تم ناشتہ کرلو ۔۔ٹیکسی والا کبھی بھی آتا ہو گا
مجیب صاھبنے زویا کو کہا
جی ابا زویا نے سر ہلایا
اور ہاں تمھاری خالہ کی کال ائی تھی وہ کہہ رہی تھی کے ان کا کوئی بیٹا تمیھں اگے سے لینے آے گا ۔
جی ابو اس نے پھر ادب سے جواب دیا ۔۔۔
**************
اس نے اپنا سارا سامان کلی کو پکڑایا اور باہر کی خانب آنے لگی اس کا دل زور زورسےدھڑک رہا تھا کیا واقعی وہ مجھے لینے آے گا ۔۔۔
کیا واقعی وہ اسے دیکھ سکے گی ۔۔وہ انہی سوچوں میں گم تھی
کے کسی نوجوان لڑکے نے ان کا راستا روکا۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم اس نوجوان نے زویا سے سلام لی
و علیکم اسلام تم؟ زویا نے حیرانی سے جواب دیا جی میں کیوں میرے لینے آنے پر آپ کو خوشی نہیں ہوئی ۔اس نوجوان نے آنکھوں سے لگایا کالا چشما اتارا ۔۔۔۔بلکل بھی نہیں میں تو یہ دیکھ کر حیران ہوں ۔کے تم ایسے ہو جاو گے ؟ زویا نے مزاق میں طنزا کیا ۔کیا مطلب؟ شہریار نے حیرانگی سے زویا کی طرف دیکھا مطلب یہ کے تم اتنے موٹے تھے پتلے کیسے ہو گئے ڈایٹنگ تو شروع نہیں کردی زویا نے زور سے قہقا لگایا او پلیز زویا آہستہ بولو اور یہ موٹا کس کو بولا ہے وہ بچپن کی بات تھی اب بڑا ہو گیا ہوں میں شہریار نے چڑتے ہوے کہا کیوں؟ برا لگا ہے اوے ہوےموٹا اب بڑا ہو گیا ہے مجھے سے صرف 3 مہینے ہی بڑے ہو تم اوکے زویا نے ہنس کر جواب دیا جو بھی ہو بڑا تو ہوں نا اس لیے تھوڑی عزت کرلیا کرو شہریار نے زویا کی طرف دیکھتے ہوے کہا ہاے بچارا برا منا گیا اچھا کہاں نا مزاق کر رہی تھی اتنے سالوں بعد ملے ہیں میرا اتنا بھی حق نہں بنتا کے تمھیں تھوڑا سا تنگ کروں ۔تم ہی تو میرے بیسٹ کزن ہو زویا نے شہریا ر کی طرف مسکراتے ہوے دیکھا اور اس کے ہمراہ سیٹشن سے باہر نکلی۔۔اب مکھن نہ لگاو پتا ہے مجھے اور آو گھر میں سب تمھارا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں شہریار نے سامان گاڑی میں رکھتے ہوے کہا جیسے ہی شہریار نے کہا زویا کے قدم ایک دم رک گئے بے صبری سے انتظار؟ کون کون کررہا ہے میرا بے صبری سے انتظار اس نے اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوے شہریار کی طرف چونکتے ہوے دیکھا۔۔۔محترمہ اور کون آپ کی خالہ جان ویسے اور کس کی توقع کررہے تھیں آپ ؟ شہریار نے گاڑی کی ڈھگی بند کرتے ہوے کہا وہ کار کے دروازے کی جانب بڑھی سارم بھائی سے جیسے ہی شہریار نے کہا اس کے ہاتھ وہی رک گئے اور مڑ کے شہریار کی طرف دیکھا بلکل بھی نہیں تمھارے اس کھڑوس بھائی سے مجھے کوئی توقع نہیں ہے ویسے بھی توقعات ان سے لگائی جاتی ہیں جن سے کوئی واسطہ ہو جن کے دل میں دوسروں کے لیے پیار ہو اور ویسے بھی آج تک تمھارا بھائی ہمارے گھر تک نہیں آیا زویا نے شہریار کو دلاسا دیتے ہوے کہا ۔۔۔پتا ہے زویا وہ ایسے ہیں لیکن ان کی تمیز کیا کروں وہ تم سے بڑے ہیں شہریار نے ہنستے ہوے طنزا کہا صرف پانج سال زویا نے اپنا دلائل پیش کیا اور کہتے ہوے گاڑی میں بیٹھ گئی
******************
اسلام وعلیکم خالہ جان زویا نے یہ کہتے ہوے ثمرین کو گلے لگایا وعلیکم اسلام میری جان ثمرین نے زویا کی پیشانی کو چوما کیسا رہا سفر؟ اس نے راستے میں تمھیں تنگ تو نہیں کیا ثمرین نے شہریار کی طرف دیکھتے ہوے کہا بلکل بھی نہیں خالہ اب تو یہ بڑا شریف ہو گیا ہے کچھ نہیں کہا اس نے مجھے ۔زویا نے ہنستے ہوے شہریار کی طرف دیکھا ماما آپ کو تو ہمیشہ میری ہی غلطی نظر آتی ہے آپ کی اس نازک بھناجی کی معصوم شکل کے پیچھے چھپا شیطان نظر نہیں آتا جو شائد صرف مجھے ہئ نظر آتا ہے جیسے ہی شہریار نے کہا سب ہنس دیے ۔۔چھوڑو اس کی باتوں کو یہ تو ایسے ہی کہتا رہے گا آو اندر آو وہ سب نشت گاہ کی جانب بڑھ گئے
ثمرین نے چائے کا کپ زویا کی جانب بڑھایا اور اس کے سامنے صوفہ پر بیٹھ گئی اور بتاو زویا امی ابو کیسے ہیں جی بلکل ٹھیک بلکہ امی نے تو مجھے تلقین کی تھی کے اپنی خالہ کو تنگ مت کرنا ویسے خالہ ان کی باتوں سے لگتا ہے کے وہ آپ سے بہت پیار کرتی ہیں زویا نے چائے پیتے ہوے کہا ہاہاہا وہ شروع سے ایسی تھی ہے تو بہت غصے والی لیکن دل کی بلکل صاف ہے ۔۔
ثمرین نے ہنستے ہوے کہا جی زویا یہ کہتے ہو ادھر ادھر دیکھنے لگی ایسا لگ رہا تھا کے وہ کیسی کو ڈھونڈ رہی ہو کسی کا انتظار کر رہی ہو اس کی آنکھوں میں کسی سے ملنے کی چاہ تھی ۔۔۔۔وہ اس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔لیکن وہ کہا تھا ۔اب تک وہ اسے دیکھ کیوں نہیں پائی ۔۔۔۔زویا نے دل میں سوچا
اب تو آنکھیں بھی تھک گئی ہیں تیرے انتظار میں
کب آو گے ۔۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔ہم یہی سوچتے ۔۔۔رہے
****************
کیا ہوا ہے بیٹا گھر پسند نہیں آیا اس کی خالہ نے اضظرابی میں پوچھا ۔؟ نہیں نہیں خالہ ایسی کوئی بات نہیں گھر تو بہت پیارا ہے ۔۔وہ میں کہی رہی تھی ۔۔وہ زرا رکی ۔۔۔
اس میں حوصلہ نہیں تھا کے وہ کیسے پوچھے ۔۔
سارم نظر نہں آرہا کہاں ہے وہ ؟اس نے دل پر پتھر رکھ کے پوچھ ہی لیا
او ہاں سارم۔۔۔۔ بیٹا وہ کہاں یہاں ہوتا ہے ثمرین نے افسردگی سے کہا
جیسے ہی زویا نے سنا وہ پوری طرح چونک گئی کیوں خالہ کہاں ہوتے ہیں وہ؟ اس نے فورا سوال کیا وہ یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے نا اسلیے بہت کم یہاں آتا ہے صرف ہفتے کی رات کو آتا ہے اور سوموار کی صبح کو چلا جاتا ہے وہی ہوسٹل میں ہی رہتا ہے ۔۔۔۔
ثمرین نے برتن ٹیبل سے اٹھاے اور کچن کے جانب بڑی۔۔۔۔۔ زویا بھی ان کے پیچھے کچن میں گئی ۔کیا وہ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں؟ زویا نے پوری طرح چونک کر پوچھا ۔۔۔۔
ہاں یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے ثمرین سنک کی جانب برتن دھونے کے لیے بڑی ۔۔
کونسی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں ؟ زویا نے پھر سوال کیا اسی یونیورسٹی میں جس یونیرسٹی میں تم نے ایڈمیشن لیا ہے
جیسے ہی زویا نے یہ الفاظ سنے اس کے الفاظ رک گئے اس کے سارے سوالات ختم ہو گئے وہ خوشی سے چہچہا اٹھی اس کی آنکھوں میں ایک انتظار کی لہر اٹھی پھر اس کے دل میں امید اٹھی اسے دیکھنے کے لیے
۔۔کیا؟ واقعی جو خالہ نے کہا ہے سچ ہے ۔۔۔وہ میرے اتنے نزدیک ہو سکتے ہیں
کیا واقعی جب محبت ہوتی ہے تو آگے کے سارے دروازے کھلتے جاتے ہیں لیکن ۔۔ان پر سفر کرنا مشکل ہوتا ہے ۔۔
لیکن اگر سارم حسن جیسا ہمسفر ہو تو سفر کی ہر مشکلات برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں زویا نے دل میں سوچا ۔۔۔۔۔
وہ یہ بات تانیہ کو بتانے ہی لگی تھی کے پہلے ہی تانیہ کی کال آگئی
واہ چڑیل کو یاد کیا اور چڑیل حاضر ۔۔۔۔وہ دل میں مسکرائی ایک منٹ خالہ زویا خالہ سے معذرت کر کے اپنے کمرے کی جانب روانہ ہو گئی
جیسے ہی زویا نے فون اٹھایا
تانیہ تانیہ ۔۔میری جان ۔۔۔میری دوست میں آج بہت خوش ہوں ۔۔۔میں بتا نہیں سکتی ۔۔۔۔کتنی آج میں خوش ہوں ۔۔۔۔
زویا نے خوشی سے اچھلتے ہوے کہا ۔۔۔۔
کیوں کیا ہوا ہے ؟ سارم سلمان خان سے بھی زیادہ ہنڈسم نکلا ۔۔یاں ۔۔اس نے تمھیں ۔۔۔۔۔دیکھ لیا
تانیہ نے گھبراہٹ میں پوچھا
ارے نہیں سارم کو تو نہیں دیکھا میں نے
زویا نے شائستگی سے جواب دیا
لو کر لو بات ۔۔۔سارم تم نے دیکھا نہیں ۔تو پھر کیسی خوشی ہے اور کس بات کی ۔۔۔
یا الہ دین کا کوئی خزانہ مل گیا ہے ۔۔
تانیہ نے ہنستے ہوے کہا
ہمیشہ الٹی بات کرنا ۔۔۔۔اور ایک بات ۔۔سارم اپنی جگہ ہے اور تمھارا سلمان خان اپنی جگہ ۔۔میں نے کتنی دفعہ کہا ہے کے سارم کو سلمان خان سے compareنہ کیا کرو
اچھا اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتی لیکن اتنا بتادیتی ۔۔۔۔میں نے اپنے سلمان خان کو دیکھا ہوا ہے ۔۔۔
تمھاری طرح اندھی محبت میں گرفتار نہیں ہوں
کیا پتا ۔۔وہ ۔۔۔کوئی ۔۔۔۔۔بد ترین شکل کا نکلے ۔۔۔۔۔پھر
تانیہ نے طنزا کیا
اپنی بکواس بند رکھو ۔۔۔۔اگر تم نے میری بات نہیں سننی ۔تو فون بند کرو
زویا نے غصے سے کہا
اچھا اچھ سوری یار اب نہیں کرتی مزاق
زویا کا سارم تانیہ کے سلمان سے بھی پیارا اب خوش ۔
تانیہ نے ۔۔تسلی دیتے ہو کہا ۔۔۔
زویا بے ساختہ مسکرا دی
اچھا تمھیں پتا ہے ؟
زویا نے بے چینی سے کہا
کیا پتا ہے زویا اگے تو بولو
تانیہ نے بےتابی سے پوچھا
تمھیں ۔پتا ہے تانیہ جس یونیورسٹی میں ہم نے ایڈمیشن لیا ہے وہی سارم حسن پڑھاتا ہے
زویا نے بےتابی سے بتایا
کیا؟ تانیہ چونکی
ہاں تانیہ زویا مسکرائی
یار زویا ۔۔ہمارے ہونے والے جیجاجی ہمارے استاد لگے تانیہ نے طنزا کیا
جی لیکن استاد سے پہلے میرے وہ کزن ہیں ۔۔۔سمجھی تم؟
زویا نے تانیہ کو جواب دیا ۔۔۔
چلو ۔۔دیکھتے ۔۔اب کیا ہوتا ہے ؟ تانیہ نے ایک لمبی آہ بر کر کہا
کیوں تمھیں خوشی نہیں ہوئی
زویا نے حیرانی سے سوال کیا
نہین نہیں یار ۔۔ایسی کوئی بات ۔نہیں ۔۔۔میں ۔۔تو یہں سوچ رہی ہوں میرا کیا بنے گا
تانیہ نے بلکل سیریس مزاج میں کہا ۔۔۔۔
کیوں کیا ہوا ہے ؟
زویا پریشان ہوئی
ارے لوگ تو ۔اندھی محبت کر گئے ہمیں اکیلا چھوڑ گئے
تم کہاں اکیلی ہو ؟ زویا نے سوال کیا
ہاے اکیلی ہو جاو گئ نا تمھارے جانے کے بعد ۔۔۔میں نہیں چاہتی کوئی تمھیں مجھ سے الگ کر رہے پتا نہیں یہ سارم حسن کہا سے آگیا ۔۔۔
تانیہ نے منہ بنا کر کہا
پاگل ۔۔۔میں تو تمھارے ساتھ ہمیشہ رہوں گی
سارم حسن سے پہلے ۔زویا ۔۔تانیہ کی دوست ہے
زویا نے ہنستے ہو کہا
ہاے ۔۔یہ ٹھیک کہا ۔۔میری جان
تانیہ نے ہنستے ہوے کہا
تانیہ تم بعض نہیں آو گی تمھیں پتا ہے نا مجھے ۔۔اس میری جان لفظ سے نفرت ہے
زویا نے چرتے کہا
اچھا تو جب سارم میری جان بولے گا اسے بھی یہی کہو گی
اس کے کہنے پر وہ دونوں اکٹھے ہنس دی
دوستی رشتہ ہے اک احساس کا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستی پہلی بارش کی بوند میں ہیں
دوستی دوستوں کی وفاوں میں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔