(’شعر العجم‘ کے حوالے سے)
شاعری کی حقیقت بیان کرتے ہوئے شبلیؔ نے ’شعر العجم‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’شاعری وجدانی اور ذوقی چیز ہے‘‘۔ شاعری کا دوسرانام انھوں نے ’’قوت احساس‘‘ بتایا ہے۔ یہاں انگریزی شاعر ولیم ورڈزورتھ (William Wordsworth) کی بیان کردہ شاعری کی تعریف ذہن میں آتی ہے جس میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ:
“Poetry is the spontaneous overflow of powerful feelings”
آگے چل کر شبلیؔ لکھتے ہیں کہ جب یہی احساس الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتا ہے۔ گویا شبلیؔ کے نزدیک لفظ کی حیثیت ہئیت (Form)کی ہے اور اس کا موضوع (Content) وہ احساس ہے جو شاعری سے عبارت ہے۔ ورزڈورتھ نے چیز کو “Powerful feelings”کہا ہے۔ شبلیؔ اسے ’’قوی جذبہ‘‘ کہتے ہیں اور “Spontaneous”کے لیے وہ ’’بے ساختہ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ شعر کی مکمل تعریف شبلیؔ یوں بیان کرتے ہیں :
’’جب اس پر (انسان پر) کوئی قومی جذبہ طاری ہوتا ہے تو بے ساختہ اس کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں ‘ اسی کا نام شعر ہے۔ ‘‘(۱)
یہاں ’’موزوں الفاظ‘‘ شبلیؔ کا اضافہ ہے ورنہ ورڈزورتھ کی شعر کی تعریف میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ لیکن منطقی پیرایے میں شعر کی تعریف بیان کرتے ہوئے شبلیؔ لکھتے ہیں کہ جو جذبات الفاظ کے ذریعہ سے ادا ہوں وہ شعر ہے، اور چوں کہ یہ الفاظ سامعین کے جذبات پر بھی اثر کرتے ہیں، یعنی سننے والوں پر بھی وہی اثر طاری ہوتا ہے جو صاحبِ جذبہ کے دل پر طاری ہوتا ہے، اس لیے شعر کی تعریف وہ یوں بھی کرتے ہیں کہ ’’جو کلام انسان جذبات کو برانگیختہ کرے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے۔ ‘‘
شبلیؔ شعر کی تعریف بیان کرتے وقت لفظ کے Conceptualیا Denotative معنی مراد نہیں لیتے، یعنی وہ لفظ کی لغوی حیثیت کو نہیں دیکھتے بلکہ اس کے EmotiveاورExpressive معنی مراد لیتے ہیں۔ ہر لفظ اپنا کوئی نہ کوئی مفہوم (Sense) یا Conceptرکھتا ہے جسے Conceptual meaning کہتے ہیں۔ اسی کو Denotative meaningبھی کہتے ہیں کیوں کہ اس سے لفظ کے لغوی معنی مراد لیے جاتے ہیں۔ شبلیؔ نے شعر کی جو تعریف بیان کی ہے اس میں لفظ کے نہ تو انھوں نے اس کے Conceptual معنی میں استعمال کیا ہے اور نہ ہی Dentative معنی میں۔ زبان کا بنیادی کام ابلاغ یا ترسیل معنی اور ادائے مطلب ہے۔ متکلم سے سامع تک زبان پیغام رسانی یا ترسیل (Communication)کا جو فریضہ انجام دیتی ہے یا روز مرہ کے معمولات میں زبان سے افہام و تفہیم کا جو کام لیا جاتا ہے وہ الفاظ کے Conceptualیا Denotativeمعنی کے ذریعہ سے ہی ممکن ہوتا ہے لیکن شاعری کا کام الفاظ کے ذریعہ محض پیغام رسانی یا اطلاع یعنی (Information) بہم پہنچانا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ شبلیؔ نے کہا ہے جذبات کو ’’برانگیختہ‘‘ کرنا ہے، اس لیے شعر میں جو الفاظ استعمال کیے جائیں گے ان کا مقصد Emotive اور Expressiveیعنی جذبے کی ترسیل اور اظہار ہو گا نہ کہ اطلاع رسانی۔ لہٰذا جب شبلیؔ یہ کہتے ہیں کہ ’’جذبات الفاظ کے ذریعے ادا ہوں وہ شعرہے‘‘ تو وہ الفاظ سے یہاں ان کے Expressiveاور Emotiveمعنی ہی مراد لیتے ہیں۔
لفظ و معنی کے تصور سے وابستہ ایک دوسرا اہم پہلو وہ ہے جس میں شبلیؔ نے الفاظ کی صوت نقلی (Onomatopoeic) خصوصیت اور صوتی رمزیت (Sound symbolism) پر زور دیا ہے۔ جہاں وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ محاکات کی تکمیل کن کن چیزوں سے ہوتی ہے، وہاں وہ اظہار کے لہجے اور آواز کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’درد، غم، جوش، جذبہ، غیض، غضب ہر ایک کے اظہار کا لہجہ اور آواز مختلف ہے۔ اس لیے جس جذبہ کی محاکات مقصود ہو، شعر کا وزن بھی اسی کے مناسب ہونا چاہئے تاکہ اس جذبہ کی پوری حالت ادا ہوسکے۔ ‘‘ شبلیؔ آوازوں کو پست، بلند، شیریں، کرخت اور سریلی قسموں میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آوازوں کے اس فرق کو ظاہر کرنے کے لیے الگ الگ الفاظ استعمال کیے جائیں جوان خصوصیت پر دلالت کرتے ہوں۔ اس سلسلے میں شبلیؔ نے انگریزی شاعر رابرٹ سدے (Robert Southey)کی ایک نظم کا حوالہ دیا ہے جس میں سیلاب کا ذکر ہے۔ شبلیؔ لکھتے ہیں کہ ’’ اس نظم میں تمام الفاظ اس قسم کے آئے ہیں کہ پانی کے بہنے، گرنے، پھیلنے، بڑھنے (وغیرہ، وغیرہ ) کے وقت جو آوازیں پیدا ہوتی ہیں، الفاظ کے لہجے سے ان کا اظہار ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص خوش ادائی سے اس نظم کو پڑھے تو سننے والے کو معلوم ہو گا کہ زور شور سے سیلاب آ رہا ہے۔ ‘‘ شبلیؔ نے صورت و معنی کی مطابقت کی یہ ایک بہترین مثال پیش کی ہے۔ اسی کو صوتی رمزیت یا صوتی علامتیت (Sound symbolism) کہتے ہیں۔ جدید اسلوبیات نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ لسانیات کی صوتی سطح پر اسلوبیاتی تجزیے کا تمام تر کام صوتی رمزیت (Sound symbolism) ہی ہر مبنی ہے۔ شبلی غالباً پہلے اُردو نقاد ہیں جنھوں نے صوت و معنی (Sound and Sense) کے رشتے پر شاعری کے حوالے سے توجہ مرکوز ہے۔ (۲)
شبلی ایک صاحبِ اسلوب ہونے کے علاوہ اسلوب شناس بھی تھے۔ انھوں نے صوتی رمزیت کے اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے مرثیے کا ایک بند بھی پیش کیا ہے جس میں اہلِ بیت، حضرت عباس اور ان کے گھوڑے پر پابندی بند کر دیے جانے کا ذکر ہے مرثیے کے اس بند کے ابتدائی چار مصرعے ’’د‘‘ (دال) پر ختم ہوتے ہیں جو ایک بندشی آواز یعنی Stop sound ہے جس کی ادائیگی میں ہوا کا اخراج نوک زبان کے سہارے مسوڑھوں پر رک جاتا ہے۔ اس بندے کے مفہوم کو اگر ہم ذہن میں رکھیں تو بندشی آواز ’’د‘‘ (دال) میں صوت و معنی کی جو ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ بخوبی واضح ہو جائے گی۔ شبلیؔ نے صوت کے اس امتزاج کو پہچان لیا تھا۔ چنانچہ مرثیے کے اس بند کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اصل، نیچرل اور فطری حالت کا بیان ہے۔ وہ بند آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :
دو دن سے بے زباں پہ جو تھا آب و دانہ بند
دریا کو ہنہنا کے لگا دیکھنے سمند
ہر بار کانپتا تھا سمٹتا تھا بند بند
چمکارتے تھے حضرتِ عباسِ ارجمند
تڑپاتا تھا جگر کو جو شور آبشار کا
گردن پھرا کے دیکھتا تھا منہ سوار کا
شبلیؔ نے ’شعر العجم‘ میں حسنِ الفاظ سے بھی تفصیل سے بحث کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اہلِ فن کے دو گروہ بن گئے ہیں، ایک لفظ کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا موضوع اور معنی کو۔ انھوں نے ’کتاب العمدہ‘ کے ایک باب ’’فی اللفظ والمعنی‘‘ کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’لفظ جسم ہے اور مضمون روح ہے، دونوں کا ارتباط ایسا ہے جیسا روح اور جسم کا ارتباط کہ وہ کمزور ہو گا تو یہ بھی کمزور ہو گی، پس اگر معنی میں نقص نہ ہو اور لفظ میں ہو تو شعر میں عیب سمجھا جائے گا۔ ۔ ۔ اسی طرح اگر لفظ اچھے ہوں لیکن مضمون اچھا نہ ہو تب بھی شعر خراب ہو گا اور مضمون کی خرابی الفاظ پر بھی اثر کرے گی۔ اسی طرح مضمون گو اچھا ہو لیکن الفاظ اگر بُرے ہیں تب بھی شعربے کار ہو گا۔ کیوں کہ روح بغیر جسم کے پائی نہیں جا سکتی۔ ‘‘
شبلیؔ کا خیال یہ ہے کہ زیادہ تر اہلِ فن لفظ کو مضمون پر ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ مضمون تو سب ہی پیدا کر سکتے ہیں لیکن شاعری کا کمال یہ ہے کہ مضمون ادا کن الفاظ میں کیا گیا ہے اور بندش کیسی ہے۔ خود شبلیؔ کا عقیدہ یہ ہے کہ شاعری یا انشا پردازی کا دارومدار زیادہ تر الفاظ ہی پر ہے۔ وہ ’گلستانِ سعدی‘ کی مثال دے کر یہ بتاتے ہیں کہ اس میں جو مضامین اور خیالات بیان کیے گیے ہیں وہ اتنے اچھوتے اور نادر نہیں ہیں، لیکن الفاظ کی فصاحت، ترتیب اور تناسب نے ان میں سحر پیدا کر دیا ہے۔ شبلیؔ لکھتے ہیں کہ ’’اگر انھیں مضامین اور خیالات کو معمولی الفاظ میں ادا کیا جائے تو سارا اثر جاتا رہے گا۔ ‘‘ وہ ظہوری کے ’’ساقی نامہ‘‘ کے مقابلے میں ’’سکندر نامہ‘‘ کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں الفاظ کی متانت، شان و شوکت اور بندش کی پختگی پائی جاتی ہے جو ساقی نامہ میں مفقود ہے۔ ’ ساقی نامہ‘ میں نازک خیالی، موشگافی اور مضمون بندی ضرور پائی جاتی ہے، پھر بھی شبلیؔ کے نزدیک ’سکندر نامہ‘ کا ایک شعر پورے ’ساقی نامہ‘ پر بھاری ہے۔ شبلیؔ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شاعر کو صرف الفاظ سے غرض رکھنی چاہیے اور معنی سے بالکل بے پروا ہو جانا چاہیے، بلکہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مضمون خواہ کتنا ہی بلند اور نازک کیوں نہ ہو، لیکن اگر الفاظ مناسب نہیں ہیں تو شعر میں کچھ تاثیر پیدا نہ ہوسکے گی۔ شبلیؔ نے ’شعر العجم‘ میں یہ برملا کہا ہے کہ ’’ جن بڑے شعراء کی نسبت کہا جاتا ہے کہ ان کے کلام میں خامی ہے اس کی زیادہ تر وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاں الفاظ کی متانت، وقار اور بندش کی درستی میں نقص پایا جاتا ہے ‘‘۔
شبلیؔ کے تصورِ لفظ و معنی کو سمجھنے کے بعد ہمیں ان کے تصورِ اسلوب کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ متبادل الفاظ، تراکیب اور فقروں کے درمیان بہتر انتخاب کو وہ بہتر اسلوب تصور کرتے ہیں۔ شبلیؔ نے ’شعرالعجم‘ میں جو بات آج سے بہت پہلے کہی تھی وہی بات عصر حاضر کے ایک معروف نقاد اور ماہر اسلوبیات نلزایرک انسکوسٹ( Nils Eriuk Enkvist)نے ان الفاظ میں کہی ہے:
“Style as the choice between alternative expressions”
(۳)
شبلیؔ متبادل الفاظ و تراکیب کے درمیان انتخاب کی مثال ان دو مصرعوں سے پیش کرتے ہیں :
ع تھا بلبلِ خوش گو کہ چہکتا تھا چمن میں
ع بلبل چہک رہا ہے ریاض رسولؐ میں
شبلیؔ لکھتے ہیں کہ ان میں مضمون بلکہ الفاظ تک مشترک ہیں پھر بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔
شبلیؔ نے میر انیسؔ، مرزا دبیر، مرزا ضمیر اور اردو اور فارسی کے دوسرے شعرا سے ایسی بے شمار مثالیں پیش کی ہیں جن کے دو بندوں یا اشعار میں معنی بالکل مشترک ہیں لیکن الفاظ کے انتخاب یا بقولِ شبلیؔ الفاظ کے ’’ادل بدل اور اُلٹ پلٹ‘‘ نے کلام کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ مرزا دبیرؔ اور میرانیسؔ کے کلام سے دو دو مثالیں ملاحظہ ہوں :
مرزا دبیرؔ
کس نے نہ دی انگوٹھی رکوع وسجود میں
جیسے مکاں سے زلزلے میں صاحبِ مکاں
میرانیسؔ
سائل کو کس نے دی ہے انگوٹھی نماز میں
جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے
شبلیؔ نے ’’ شعر العجم‘‘ میں فصاحت اور بلاغت سے متعلق بھی اپنی بیش قیمت آراء کا اظہار کیا ہے لیکن بادی النظر میں دیکھا جائے تو فصاحت و بلاغت کا مسئلہ دراصل تشکیلِ اسلوب کا مسئلہ ہے اور اس سلسلے کی بیشتر نظری بحثیں اسلوبیات (Stylistics) کے دائرے میں آتی ہیں۔ آج جدید لسانیات اور اسلوبیا ت کی روشنی میں اسلوب کی توضیح و تجزیے کا جو کام جاری ہے اس کی جڑیں بلاشبہ ’شعر العجم‘ میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔