’’نگارِ پاکستان‘‘ کا نام ذہن میں آتے ہیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصویر سامنے آ جاتی ہے، اور کیوں نہ ہو، ’’نگارِ پاکستان‘‘ سے ان کی تیس سالہ وابستگی نے دنوں کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بنا دیا ہے۔ فرمان صاحب کے بغیر نہ تو ’’نگارِ پاکستان‘‘ کا تصور ممکن ہے اور نہ ’’نگار پاکستان‘‘ کے بغیر فرمان صاحب کا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے نیازؔ فتح پوری اور ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے بارے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی تحریک، ایک ہی مکتبۂ فکر اور ایک ہی رجحان کے دو نام ہیں، جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ؎۱ نیاز و نگار کے بارے میں شائع ہونے والے’’نگارِپاکستان‘‘ پر صادق آتا ہے۔
’’نگارِ پاکستان‘‘ دراصل اس ’’نگار‘‘ کا تسلسل ہے جو نیازؔ فتح پوری کی ادارت میں فروری۱۹۲۲ء میں آگرہ سے نکلتا رہا۔ اسی سال یہ لکھنؤ منتقل ہوا اور ۱۹۶۲ء تک یعنی نیاز صاحب کے پاکستان ہجرت کرنے تک یہ لکھنؤ سے شائع ہوتا رہا۔ ۱۹۶۲ء سے یہ کراچی سے نکلنا شروع ہوا اور آج تک نکل رہا ہے۔ ۱۹۶۶ء تک اس کے مدیر/مدیر اعلیٰ نیازؔ فتح پوری مقرر ہوئے اور آج تک وہی اس کے مدیر ہیں۔ اردو زبان و ادب کی اتنی طویل مدّت تک اور ایسی بے مثل خدمت اردو کے شاید ہی کسی رسالے نے انجام دی ہو۔ نیازؔ فتح پوری اردو کے ایک بلند پایہ اور بے مثل ادیب تھے۔ اگر وہ اردو میں کاوش نہ کرتے تب بھی محض ’’نگار‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے اردو ادب و صحافت کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہتا۔
نیازؔ فتح پوری ایک سخت گیر مدیر تھے۔ انہوں نے اپنے رسالے کا ایک خاص معیار تا دم آخر قائم رکھا۔ ان کی کسوٹی پر پورا اترنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ہر کس و ناکس ’’نگار‘‘ میں چھنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ ’’نگار‘‘ میں چھنا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی اور جو چیز چھپ جاتی اسے استناد کا درجہ حاصل ہو جاتا تھا اور ہر طرف اس کی دھوم مچ جاتی تھی۔ خلیل الرحمن اعظمی کے آتشؔ پر مقالے کو اس وجہ سے بھی غیر معمولی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ وہ سب سے پہلے ’’نگار‘‘ میں چھپا جسے پڑھ کر فراقؔ گورکھپوری نے انہیں تہنیتی خط لکھا اور رشید احمد صدیقی نے انہیں ’’ آتش پرست‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ یہ صرف ایک مثال ہے اسی طرح نہ جانے کتنے اربابِ قلم نے ’’نگار‘‘ کی بدولت معتبر نقّاد اور مستند ادیب و شاعر کا مرتبہ حاصل کیا۔ ’’نگار‘‘ کے سلسلے میں ایک خاص بات یہ تھی کہ یہ صرف ادب اور ادبی مسائل تک ہی محدود نہ تھا، بلکہ اس میں چھپنے والی تخلیقات مختلف علوم کا احاطہ کرتی تھیں مثلاً ادب، شاعری، افسانے اور ڈرامے کے علاوہ اس میں فنونِ لطیفہ، تاریخ، سیاحت، جغرافیہ، سیاسیت و ہئیت اور طب پر بھی مضامین شائع ہوتے تھے۔ ’’نگار‘‘ کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ اس کے خاص نمبر یا سالنامے بڑی پابندی کے ساتھ ہر سال نکلا کرتے تھے اور یہ سلسلہ نیاز صاحب نے۱۹۲۸ء میں مومنؔ نمبر کے اجراء سے شروع کیا تھا جو ان کے دم آخر یں تک قائم رہا( اور آج بھی قائم ہے)’’نگار‘‘ کے بعض خاص نمبر انہوں نے خود تحریر کیے مثلاً پاکستان نمبر(۱۹۴۸ء) فرماں روایانِ اسلام نمبر(۱۹۵۴ء) علوم اسلامی و علمائے اسلام نمبر(۱۹۵۵ء)، معلومات نمبر۱۹۵۸ء) غالبؔ نمبر(۱۹۶۱ء) خود ان کے تحریر کردہ ہیں۔ ان کے علاوہ جن موضوعات پر خاص نمبر شائع ہوئے ان میں اردو شاعری، ہندی شاعری، اصحابِ کہف، خود نوشت، جدید شاعری، قرآن، انتقاد، افسانہ، مستقبل کی تلاش، اصنافِ سخن، انشائے لطیف وغیرہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ مومنؔ، بہادر شاہ ظفرؔ، مصحفیؔ، نظیرؔا کبرآبادی، ریاضؔ خیرآبادی، حسرتؔ موہانی، داغؔ دہلوی، غالبؔ، جگرؔ مرادآبادی، اور اقبالؔ جیسے شعرا پر بھی ’’نگار‘‘ کے خصوصی نمبر شائع ہوئے۔ ان میں سے بیشتر کی آج بھی وہی اہمیت ہے جو پہلے تھی ؎۳ ’’نگار‘‘ کی ۱۹۲۲ء تا ۱۹۶۲ء کی فائلوں کے سرسری جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اس دور کے تمام مشاہیر ادب کی نگار شات اس میں چھپتی رہی ہیں۔ اس دور کا شاید ہی کوئی بڑا ادیب و شاعر ہو جس کی تخلیق ’’نگار‘‘ کے صفحات کی زینت نہ بنی ہو۔ ’’نگار‘‘ کے اس پس منظر کے بعد اب ہم ’’نگار پاکستان‘‘ کی طرف آتے ہیں۔
جولائی ۱۹۶۲ء میں نیازؔ فتح پوری کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد سے ’’نگار‘‘ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اب اس کی پہچان ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے نام سے قائم ہوتی ہے اور ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری بطور اعزازی اس سے منسلک ہوتے ہیں۔ اردو رسائل کے سلسلے میں بالعموم ہی دیکھا گیا ہے کہ رسالے کی عمر اس کے مدیر کی عمر کی عشرِ عشیر بھی نہیں ہوتی۔ بسا اوقات اپنے مدیر کی رحلت کے ساتھ ہی وہ رسالہ بھی دم توڑ دیتا ہے، لیکن ’’نگار پاکستان‘‘ کی یہ خوش نصیبی رہی ہے کہ نیازؔ فتح پوری کے انتقال (۱۹۶۶ء) کے۲۷ سال بعد بھی یہ رسالہ زندہ و تابندہ ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اسے نیازؔ فتح پوری کے بعد فرمانؔ فتح پوری جیسا لائق مدیر ملا۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ’’نگار پاکستان‘‘ کی ترتیب کا کام نومبر۱۹۶۲ء میں سنبھالا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نیازؔ فتح پوری لکھنؤ سے ہجرت کر کے کراچی آ چکے تھے۔ ان کے ساتھ’’نگار‘‘ بھی کراچی منتقل ہو گیا تھا۔ یہ ان کی زندگی کی شام تھی۔ جس آب و تاب اور گھن گرج کے ساتھ ’’نگار‘‘ لکھنؤ سے نکلا کرتا تھا، اسی طرح اب کراچی سے اس کا نکلنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ وہ خود اگر چہ اس کے مدیر اعلیٰ رہے لیکن اس کی ترتیب کی ذمّہ داری نیاز صاحب نے فرمان صاحب کو سونپ دی۔ رسالے پران کا نام بھی نائب مدیر کی حیثیت سے چھپنے لگا۔ ۱۹۶۲ تا۱۹۶۶ء فرمان صاحب’’نگارپاکستان‘‘ کو نیازؔ صاحب کی سرپرستی اور نگرانی میں ایڈٹ کرتے رہے لیکن ۲۴؍ مئی۱۹۶۶ء کو جب نیازؔ صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس رسالے کی تمام تر ذمہ ّ داری فرمانؔ صاحب کے کاندھوں پر آ پڑی اور وہی اس کے مدیر بھی بنے۔ نیازؔ فتح پوری کا نام اب بانی کی حیثیت سے چھپنے لگا۔ یہ روایت آج بھی قائم ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو نیازؔ فتح پوری سے بے حد محبت و عقیدت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ’’نگار پاکستان‘‘ آج تک بند نہیں ہوا۔ وہ نیازؔ صاحب کے معتقد ہوتے ہوئے بھی ان کے مقلد کبھی نہیں رہے۔ انہوں نے ’’نگار پاکستان‘‘ کی ارادت سنبھالتے ہی اپنی راہ الگ نکالی۔ دھیرے دھیرے رسالے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے نئے جہات والبعاد سے روشناس کرایا۔ اب جب کہ فرمان صاحب کی ادارت میں اس رسالے کو نکلتے ہوئے۳۰ سال کا عرصہ بیت چکا ہے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کا محاکمہ کیا جائے۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کی ادارت سنبھالی، اسی وقت سے ان کی تصنیفی زندگی کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ ۱۹۶۲ء میں جب وہ اس سے منسلک ہوئے تو اس سال ان کی دو کتابیں ’’تدریس اردو‘‘ اور اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا‘‘ منظر عام پر آئیں۔ بعد کے دور میں ’’نگار پاکستان‘‘ نے ان کی تصنیفی زندگی کی راہ متعین کرنے اور ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ میں بڑا مثبت کردار ادا کیا۔
’’نگارِ پاکستان‘‘ کی ترتیب کی ذمہ داری نبھانے کے دوسرے سال فرمانؔ صاحب نے اس کا نیازؔ فتح پوری نمبر(۱۹۶۳) دو جلدوں میں شائع کیا۔ جن لوگوں نے یہ نمبر دیکھا ہے وہ فرمان صاحب کی محنت و کاوش، دیدہ اور نیاز صاحب سے ان کی محنت عقیدت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ خاص نمبر نیازؔ فتح پوری کی حیات و شخصیت اور فکر و فن سے لے کر ان کی علمی و ادبی خدمات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں ان کی شاعری، افسانہ نگاری، مکتوب نگاری، مقالہ نگاری، تنقید، ناولٹ، نفسیات غرض کہ ہر پہلو کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں نیازؔ صاحب کی تحریروں کا ایک جامع اشاریہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ نیازؔ فتح پوری پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ نمبر آج بھی معلومات کا بے پناہ ذخیرہ ہے اور مستند حوالے کے طور پر کام میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب فرمان صاحب نے’’نگارِپاکستان‘‘ کا نیاز فتح پوری نمبر نکالنے کا ارادہ ظاہر کیا تونیاز صاحب نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور انہیں ایسا کرنے سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن فرمان صاحب کی مستقل مزاجی دیکھ کر اور ان کے بار بار اصرار کرنے پر وہ بالآخر مان گئے۔ فرمان صاحب نے نہایت کم مدت میں ’’نیاز فتح پوری نمبر‘‘ دو جلدوں (مارچ اپریل۱۹۶۳ء اور مئی جون۱۹۶۳ء کے شمارے) میں ترتیب دیا۔ اور اس دور کے بہترین لکھنے والوں کی نگارشات شامل اشاعت کیں۔
اگلے سال یعنی۱۹۶۴ء میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ’’نگار پاکستان‘‘ کا ایک اور خاص نمبر ’’تذکروں کا تذکرہ نمبر‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ یہ نمبر اردو شعراء کے تذکروں سے فرمان صاحب کی بے پناہ دلچسپی کا غماز ہے۔ اس خصوصی نمبر کی اشاعت کے بعد بھی تذکرہ یویسی کے فن سے ان کی دلچسپی قائم رہی، چنانچہ وہ اس موضوع پر مستقل غور خوض کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے اسے اپنے ڈی۔ لٹ کے مقالے کا موضوع بنا لیا۔ یہ تحقیقی مقالہ ’’اردو شعراء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ کے عنوان سے ۱۹۷۲ء میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ فرمان صاحب کے اس تحقیقی کام کو اہل علم نے اس موضوع پرا ب تک سب سے’’دقیع اور جامع ‘‘کا قرار دیا۔ یہ اس امر کا بین ثبوت ہے ’’نگار پاکستان‘‘ کی ارادت ان کی تصنیفی زندگی میں کس طرح ممد و معاون رہی ہے۔
ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری ادارت میں شائع ہونے والے ’’نگار پاکستان‘‘ کے دو افسانہ اور افسانہ نمبر‘‘ (جنوری فروری۱۹۸۱ء) کا ذکر بھی بیجا نہ ہو گا جس کا پہلا اڈیشن چندہ ماہ میں ہیں ’’نایاب ‘‘ہو گیا۔ اس نمبر کی افادیت اور مقبولیت کے پیش نظر اسے فرمان صاحب نے ’’اردو افسانہ اور افسانہ نگار‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ اسی زمانے میں یہ کتاب بھارت میں بھی شائع ہوئی۔ اس کادوسرا بھارتی اڈیشن مکتبہ لمٹیڈ، نئی دہلی کے زیر اہتمام زیر طبع ہے۔ اس خاص نمبر(کتاب) کی ترتیب میں فرمان صاحب کو بڑی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔ اردو فسانے کی اسّی سالہ تاریخ کی روشنی میں انہوں نے۲۵ نمائندہ افسانہ نگاروں کا انتخاب کیا۔ بڑی تلاش و تحقیق کے بعد ان کا پہلا افسانہ ڈھونڈا اور بتایا کہ یہ کس رسالے میں اور کب شائع ہوا۔ افسانے کے شروع میں ہر افسانہ نگار کا سوانحی خاکہ بھی پیش کیا نیز ان کی ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا بھر پور جائزہ لیا۔ کتاب کے شروع میں ایک مفصل باب اردو افسانے کی سمت و رفتار پر قلم بند کیا جس میں انہوں نے اردو افسانے کے چار ادوار قائم کیے، دورِ اول(۱۹۰۰ء اور دورِ چہار(۱۹۶۰ء)، دورِ دوم(۱۹۳۰ ء تا۱۹۴۷ء)، دورِ سوم(۱۹۴۷ء تا۱۹۶۰ء) دورِ چہارم(۱۹۶۰ء تا۱۹۸۰ء)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’یہ ایک بڑا کا ہے جو تنقید بصیرت بھی چاہتا ہے‘‘۔
’’نگارِ پاکستان‘‘ کا ایک اور خاص نمبر’’ قمر زمانی نمبر‘‘ ہے جو ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ادارت میں جنوری فروری۱۹۷۹ء میں شائع ہوا۔ یہ نمبر کتابی شکل میں ’’ قمر زمانی بیگم‘‘ کے نام سے اردو اکیڈمی سندھ کراچی سے اسی سال شائع ہوا۔ یہ نیاز فتح پوری کی ایک انوکھی داستانِ معاشقہ ہے اور بقول ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری ’’تاریخ ادب میں اپنی نوعیت کا پہلا رومان‘‘ اسے اگر فرمان صاحب کا تحقیقی کارنامہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ کیونکہ اس کتا ب میں انہوں نے بڑی تلاش و تحقیق کے بعد قمر زمانی بیگم کے حالات جمع کیے ہیں اور ان کی ادبی زندگی کا آغاز وپس منظر بیان کیا ہے اور وہ تمام خطوط سلسلہ وار ترتیب دیے ہیں جو قمر زمانی بیگم مدیر ’’نقاد‘‘ شاہ دلگیر کو اس صدی کی دوسری دہائی کے اور آخیر میں ایک عرصے تک لکھتی رہی تھیں۔ قمر زمانی بیگم اور شاہ دلگیر کے درمیان یہی خط و کتابت ایک عشقیہ داستان بن گئی۔ یہ داستان فرمانؔ صاحب نے اس کتاب میں بڑے دلچسپ اور انوکھے انداز میں بیان کی ہے۔ ساٹھ سال تک جو ایک رازِ سر بستہ تھا اورجس نے اردو کے بڑے بڑے ادیبوں کو چکر میں ڈال دیا تھا، ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اس کا پردہ فاش کیا اور قمر زمانی بیگم کی اس طرح نقاب کشائی کی کہ لوگ ورطۂ حیرت میں پڑ گئے۔ انہوں نے اس امر کا انکشاف کیا کہ قمر زمانی بیگم کے روپ میں یہ نیازؔ فتح پوری تھے جو شاہ دلگیر سے خط و کتابت کیا کرتے تھے اور شاہ دلگیر یہ سمجھتے رہتے تھے کہ کوئی خاتون (جن کا نام قمر زمانی ہے) ان سے مراسلت کر رہی ہیں، کہا جاتا ہے کہ شاہ دلگیر کو قمر زمانی کے عورت ہونے کا یقین ’’ایمانِ بالغیب‘‘ کی حد تک تھا بلکہ وہ قمر زمانی کے وجود کا اس طرح یقین رکھتے تھے جس طرح خود اپنے وجود کا۔ کتاب کی شانِ نزول کے بارے میں فرمان صاحب لکھتے ہیں :
’’قمر زمانی کے روپ میں نیاز فتح پوری کے یہی مکتوبات اور ان کے جواب میں دلگیر کے ہی خطوط اس وقت میرے سامنے ہیں اور قمر زمانی بیگم و شاہ دلگیر کی عشقیہ داستان کا مواد فراہم کرتے ہیں۔ یہ خطوط ادبی لحاظ سے حد درجہ دلچسپ ہیں اور بیشتر نیاز کی تخلیق ہونے کے سبب اردو ادب و صحافت کی تاریخ میں ایک نایاب اور انمول خزانے کچھ حیثیت رکھتے ہیں ‘‘ ۴؎
نیازؔ فتح پوری کو ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی مدبرانہ صلاحیتوں کا تین سال (۱۹۶۲ ء تا۱۹۶۵ء) کے اندر بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ ان کے کام سے خوش تھے، انہیں بے حد عزیز رکھتے تھے اور دل سے دعائیں دیتے تھے۔ اس وقت مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے’’نگارِ پاکستان‘‘ کے پہلے صفحے پر نیازؔ فتح پوری کا نام چھپتا تھا۔ اسی صفحے پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا نام نائب مدیر کی حیثیت سے چھپتا تھا۔ اسی صفحے پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا نام نائب مدیر کی حیثیت سے چھپتا تھا۔ لیکن ہر ماہ ’’ملاحظات‘‘ کے نام سے اداریہ نیازؔ فتح پوری لکھتے تھے۔ (بہ استثنائے چند) مارچ۱۹۶۵ء کے ’’نگارِ پاکستان‘‘ میں انہوں نے ’’ملاحظات‘‘ کے تحت ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بارے میں یہ عبارت رقم کی:
’’عزیزی فرمان فتح پوری نے جن کا نام نگار کے پہلے صفحے پر ہر ماہ آپ کی نگاہ سے گزرتا ہو گا اب ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر لی ہے اور مجھے بڑی خوشی اس بات کی ہے کہ اپنی تعلیم کاسلسلہ انہوں نے بالکل میری ہدایت کے مطابق قائم رکھا…میرے یہاں (کراچی) آنے کے بعد انہوں نے نگار کی بھی بڑی خدمات انجام دیں، چنانچہ نیاز نمبر کے دونوں حصوں کی ترتیب محض انہیں کی سعی و کوشش کا نتیجہ ہے اور سالنامہ تذکرہ نمبر تو خیر پورا انہیں کا مرتب کیا ہوا ہے۔ فرمان صاحب میرے ہم وطن ہیں، میرے عزیز ہیں، مجھ سے چھوٹے ہیں۔ اس لیے میری طرف سے اظہارِ تشکر کا تو کوئی موقع نہیں، دعا کا ضرور ہے، سواس کا تعلق بھی دل سے ہے، زبان سے نہیں ‘‘۔ ۵؎
ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری کی ادارت کے دوران کوئی بھی سال ایسا نہیں گزرا جب کہ ’’نگارِ پاکستان‘‘کا کوئی خاص نمبر نہ نکلا ہو۔ یہ بھی دراصل نیاز و نگار کی ہی ایک روایت کا تسلسل ہے۔ ’’نگار‘‘ کے خصوصی نمبروں یا سالناموں کا سلسلہ ۱۹۲۸ء میں مومنؔ نمبر کے اجراء سے شروع ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے۔ خاص نمبروں کے موضوعات اور ان کی جامعیت سے فرمان صاحب کی ادب سے ہمہ گیر دلچسپی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ زمانے کے سردو گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے اتنی دلجمعی، مستقل مزاجی اور(commitment) کے ساتھ کسی رسالے کو ( وہ بھی ادبی) تیس سال تک پابندی سے ایڈٹ کرتے رہنا اور ہرسال اہتمام کے ساتھ اس کے خاص نمبر بھی نکالتے رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ فرمان صاحب کی ادارت میں گذشتہ تیس سال کے دوران شائع ہونے والے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے خاص نمبروں ۶؎ پر ایک نظر ڈالنا بے جا نہ ہو گا:
۱- نیاز فتح پوری نمبر۱؎ مارچ اپریل ۱۹۶۳ء
۲- نیاز فتح پوری ۲؎ مئی جون۱۹۶۳ء
۳- تذکروں کا تذکرہ نمبر مئی جون۱۹۶۴ء
۴- جدید تر شاعری نمبر جولائی اگست۱۹۶۵ء
۵- اصناف ادب نمبر دسمبر۱۹۶۶ء
۶- اصناف شاعری نمبر نومبر دسمبر۱۹۶۷ء
۷- مسائل ادب نمبر اکتوبر نومبر۱۹۶۸ء
۸- غالبؔ صدی نمبر جنوری فروری۱۹۶۷ء
۹- سرسید نمبر ۱؎ جنوری فروری۱۹۷۲ء
۱۰- میر انیس نمبر ستمبر اکتوبر۱۹۷۱ء
۱۱- سرسید نمبر ۲؎ جنوری فروری۱۹۷۲ء
۱۲- مولانا حسرت موہانی نمبر ۱؎ نومبر دسمبر۱۹۶۹ء
۱۳- مولانا حسرت موہانی نمبر ۲؎ اگست ستمبر۱۹۷۴ء
۱۴- ڈاکٹر محمود حسین نمبر جون جولائی۱۹۷۵ء
۱۵- قائد اعظمؒ نمبر اکتوبر نومبر۱۹۷۸ء
۱۶- علامہ اقبال نمبر جون جولائی۱۹۷۷ء
۱۷- مولانا محمد علی جوہر نمبر جنوری فروری۱۹۸۰ء
۲۰- افسانہ اور افسانہ نگار نمبر جنوری فروری۱۹۸۱ء
۲۱- فنِ تاریخ گوئی نمبر جنوری فروری۱۹۸۲ء
۲۲- خطباتِ محمود نمبر نومبر دسمبر۱۹۸۲ء
۲۳- جشنِ طلائی نمبر جنوری فروری۱۹۸۲ء
۲۴- نیاز صدی نمبر جنوری فروری۱۹۸۴ء
۲۵- فنِ عروض نمبر اپریل۱۹۸۵ء
۲۶- مکتوباتِ نیاز نمبر نومبر۱۹۸۵ء
۲۷- تنقید غزل نمبر نومبر۱۹۸۶ء
۲۸- غالبؔ بنگاہِ نیاز نمبر نومبر۱۹۸۷ء
۲۹- اردو شاعری کا فنی ارتقا نمبر دسمبر۱۹۸۸ء
۳۰- اردو نثر کا فنی ارتقا نمبر دسمبر۱۹۸۹ء
۳۱- اقبال بنگاہِ نیاز نمبر دسمبر۱۹۹۰ء
۳۲- نقدِ شعر نمبر دسمبر۹۹۱ء
۳۳- عورت فنونِ لطیفہ نمبر دسمبر۱۹۹۲ء
ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری کی ادارت و سرپرستی میں ’’نگارِ پاکستان‘‘لحظہ بہ لحظہ ترقی کا جانب گامزن ہے۔ اس کام میں انہیں امراؤ طارق جیسے معاون ملے ہیں جو ہر ہر قدم پر ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اگر چہ فتح پوری کے انتقال کو ۲۷ سال گزر چکے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے ’’نگار‘‘ کا نیازؔ سے رشتہ ٹوٹا نہیں ہے۔ ’’نگارِ پاکستان‘‘ نیازؔ فتح پوری کے ہی ’’نگار‘‘ کا تسلسل ہے۔ یہ آج بھی ماہانہ شائع ہوتا ہے۔ ہرسال اب بھی اس کے خاص نمبر شائع ہوتے ہیں۔ آج بھی اس کے اداریے ’’ملاحظات‘‘ کے عنوان سے تحریر کیے جاتے ہیں۔ اس کے ہر شمارے پر بانی حیثیت سے علامہ نیازؔ فتح پوری کا نام درج ہوتا ہے اور پیشانی پر جاری شدہ۱۹۲۲ء لکھا ہوتا ہے۔ ’’نگارِ پاکستان‘‘ میں پہلے ہر طرح کے ادبی موضوعات پر مضامین شامل ہوتے تھے، لیکن گذشتہ چند ربرسوں کے شماروں سے پتہ چلتا ہے کہ فرمان صاحب نے ایک جدّت یہ پیدا کی ہے کہ اس کا ’’ہر شمارہ خصوصی شمارہ‘‘ بنا دیا ہے۔ اس کے تحت وہ کسی ایک موضوع پر بھر پور مواد پیش کرتے ہیں۔ اکثر کلاسیکی ادب کے نمونے اور ادبی نوادرات شائع کرتے ہیں، لیکن اس میں مستند اربابِ قلم کی نگارشات اور عصری تحریروں کو بھی جگہ دی جاتی ہے۔ بھارت میں شائع ہونے والے ادبی نمونے بالخصوص پیش کیے کہ ان تک رسائی پاکستان کے شائقین ادب کو بہت کم ہو پاتی ہے۔ یہ امتیاز شاید ہی اردو کے کسی اور رسالے کو حاصل ہو کہ اس کا ’’ہر شمارہ خصوصی شمارہ‘‘ قرار دیا جائے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے بعض ’’ہر شمارہ خصوصی شمارہ‘‘ کے مندر جات یہ ہیں :
۱- اردو ناول میں طنزو مزاح مارچ۱۹۸۸ء
۲- بہادر شاہ ظفرؔ اپریل۱۹۸۸ء
۳- کلیم الدین احمد کی خود نوشت مارچ۱۹۹۰ء
۴- ’’میری بہترین نظم‘‘ و مرتبہ محمد حسن عسکری اکتوبر۱۹۹۰ء
۵- اویس احمد ادیب کی تصنیف ولیؔ دکنی فروری۱۹۹۱ء
۶- غالبؔ کی فارسی غزل جنوری۱۹۹۱ء
۷- خیام کی رباعیات کا اولین ترجمہ جولائی۱۹۹۱ء
۸- جامعہ اردو ’’ادیب‘‘ کا جشن زرّیں نمبر اگست۱۹۹۱ء
۹- کتابیاتِ تحقیق نمبر ستمبر۱۹۹۱ء
۱۰- مشاطۂ سخن از صفدر مرزا پوری اپریل۱۹۹۲ء
۱۱- مولوی عبدالحق نمبر اگست۱۹۹۲ء
۱۲- ’’باغ و بہار‘‘ مرتبہ رشید حسن خاں اکتوبر۱۹۹۲ء
۱۳- بی امّاں اور بیگم حسرت موہانی نومبر۱۹۹۲ء
یہ ناممکن ہے کہ ’’نگارِ پاکستان‘‘ کا ذکر آئے اور ڈاکٹر فرمانؔ صاحب کے تحریر کردہ اداریوں جو وہ ’’ملاحظات‘‘ کے نام سے ہر ماہ لکھتے ہیں، کا ذکر نہ آئے۔ ’’ملاحظات‘‘ کے عنوان سے’’نگار/نگارِ پاکستان‘‘ کا اداریہ چالیس سے زیادہ عرصے تک لکھا۔ پاکستان آنے کے بعد بھی ’’ملاحظات‘‘ وہی لکھتے رہے۔ اور یہ سلسلہ ان کے انتقال سے چند ماہ قبل تک جاری رہا۔ انتقال سے چند ماہ قبل کے پرچوں اور درمیان کے بعض پرچوں ( مثلاً نیاز فتح پوری نمبر کے دونوں شماروں ) کے ملاحظات ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے تحریر کیے۔ نیازؔ فتح پوری کے ملاحظات اپنے اندر ایک مدیرانہ شان رکھتے تھے۔ اور ان کی دیگر تحریروں کی طرح ملاحظات بھی لوگ دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری، نیازؔ صاحب کے ملاحظات کے بار ے میں لکھتے ہیں :
’’نگارِ پاکستان‘‘ کا اداریہ ’’ملاحظات‘‘ وہ عموماً پر چہ پریس جاتے جاتے لکھتے تھے۔ ملاحظات کا موضوع شروع سے’’سیاست‘‘ رہا ہے۔ وہ پورے مہینے مختلف زبانوں کے اخبارو رسائل غور و خوض سے پڑھتے رہتے تھے اور عالمی یا ملکی سیاست کی کروٹوں کا پورا جائزہ لینے کے بعد ان پرا ظہار خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ’’نگار‘‘ کے علمی و ادبی مقالات پڑھنے والوں کا ایک خاص حلقہ بن گیا تھا وہاں ان کے ’’ملاحظات‘‘ کے شیدائی بھی سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔ اور بعض تو صرف اسی اداریے کے لیے ’’نگار‘‘ پڑھتے تھے‘‘ ۲؎
جیسا کہ پہلے کہا چکا ہے کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، نیاز کے معتقد ضرور ہیں لیکن نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ملاحظات کے سلسلے میں بھی اپنی راہ الگ نکالی۔ اور کسی ایک موضوع یا مسئلے پر ملاحظات لکھنے کے بجائے وہ مختلف النوع موضوعات پر ملاحظات قلم بند کرنے لگے۔ ان کے بیشتر ملاحظات کا موضوع خود نیاز فتح پوری رہے ہیں۔ مثلاً مئی۱۹۶۶ء کے ’’نگارِ پاکستان‘‘ میں وہ ’’ملاحظات‘‘ کے تحت نیاز صاحب کی علالت پھر صحت یابی اور پھر علالت کا یا تفصیل ذکر کرتے ہیں جس سے ان کی زندگی کے آخری ایام پر روشنی پڑتی ہے۔ نیازؔ صاحب جانبر نہ ہوسکے اور۲۴ ؍ مئی۱۹۶۶ء کو ان کا انتقال ہو گیا جون۱۹۶۶ء کا ’’نگارِ پاکستان‘‘ کلیتہً ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی ادارت میں شائع ہوا۔ اس شمارے میں انہوں نے ’’حق مغفرت کر لے عجب آزاد مرد تھا‘‘ کے تحت ملاحظات قلم بند کیا جس میں نیاز صاحب کے انتقال سے اردو دنیا میں جو خلا پیدا ہو گیا تھا اسے بڑے موثر انداز میں بیان کیا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے نیاز صاحب سے ان کی محبت اور عقیدت ٹپکتی ہے۔ اسے ہم بجا طور پر ایک بہترین تعزیتی تحریر اور نثر کا ایک عمدہ نمونہ کہہ سکتے ہیں۔
ملاحظہ ہو:
۲۴؍مئی، منگل، ۴ بجے صبح، نیاز صاحب (جنہیں دنیا نیاز فتح پوری کے نام سے جانتی ہے) ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے…یوں سمجھ لیجئے کہ اردو کا وہ آفتاب، جس کی کرنوں سے علم و فکر کے ایک دو نہیں، صدہا پہلو روشن تھے، ڈوب گیا آزادی فکر اور بے لاگ اظہارِ خیال کی قندیلیں بجھ گئیں۔ اب ایوان اردو میں دور تک اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ سرسید، مولانا حالیؔ، محمد حسین آزادؔ، نذیر احمد اور شبلیؔ کے تجرد علمی اور فکر و فن کیا یاد تازہ رکھنے والا اب کوئی باقی نہ رہا۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ اور مولوی عبدالحق پہلے ہی رخصت ہو چکے تھے۔ نیازؔ فتح پوری کے نام سے اس ایوان کی ایک شمع دلیلِ سحر بنی ہوئی تھی سو وہ بھی خاموش ہو گئی…نیاز صاحبِ اپنی ذات سے ایک ادارہ، ایک مکتب فکر اور ایک تحریک تھے۔ ہر چند کہ وہ طبعاً عزلت پسند گوشہ گیر تھے، کم آمیز و کم سخن تھے، لیکن غالبؔ کے اس شعر کے ترجمان تھے ؎
ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
وہ گذشتہ پینسٹھ سال سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور ایسی انفرادیت کے ساتھ کہ ان کی کسی تحریر کو صرف مکرر کہنا مشکل ہے۔ صحافت، ادبی تنقید، انشائیہ، مکتوب نگاری، تاریخ اسلام، جمالیات، افسانہ، ناولٹ، تحقیق، علوم عقلیہ، مذہبیات، نفسیات، معلوماتِ عامہ سب پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے اور اپنے مخصوص اسلوب نگارش و طرز کی بدولت ایسا نقش چھوڑ گئے ہیں کہ اردو میں جب بھی یہ موضوعات ومسائل علمی و فنی انداز سے زیر بحث آئیں گے، علامہ مرحوم کا نام ضرور لیا جائے گا۔ ان کی یہی ہمہ جہتی ہمہ گیری انہیں بیسویں صدی کے دوسرے ادیبوں سے ممتاز کرتی ہے‘‘۔ ۸؎
جولائی، اگست اور ستمبر۱۹۶۶ء کے ملاحظات ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری نے ’’نیاز صاحب مرحوم اور کراچی‘‘ کے عنوان سے لکھے جن میں ان کی کراچی آمد، قیام اور دیگر کوائف تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ نیازؔ صاحب کی پہلی برسی(۱۹۶۷ء) کے موقع پر ’’نگارِ پاکستان‘‘ کا ایک شمارہ فرمان صاحب نے ان کے نام وقف کیا اور ملاحظات میں نیاز صاحب مرحوم کے تعلق سے دل کو چھو لینے والی باتیں لکھیں۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری کے ملاحظات مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ چنانچہ سیروسیاھت بھی ان کے ملاحظات کا موضوع رہا ہے۔ فرمان صاحب نے۱۹۸۰ء میں بھارت کی سیر کی تھی۔ اور یہاں ایک ماہ چند روز قیام کیا تھا۔ اس سفر کے حالات اور تاثرات انہوں نے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے۱۹۸۱ء کے شماروں میں ملاحظات کے تحت ’’بھارت میں ایک مہینے تین دن‘‘ کے عنوان سے بالاقساط شائع کیے جن میں بھارت کے اہل علم و ادب سے ملاقاتوں، یہاں کی علمی و ادبی سرگرمیوں نیز شب و روز کی دیگر مصروفیتوں کا ذکر انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اس سفر کے بعد انہیں ستمبر۱۹۸۱ء میں جموں و کشمیر کے سفر کا موقع ملا۔ چنانچہ واپسی پر انہوں نے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے دسمبر۱۹۸۱ء کے ملاحظات میں جموں و کشمیر کا سفر نامہ ’’خطہ بے نظیر و نظر گیر‘‘ جموں و کشمیر ‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا۔ اور اپنے تاثرات بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیے۔ ان کی یہ دونوں تحریروں اردو کے بہترین سفرناموں میں جگہ پا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جب سے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کا ہر شمارہ خصوصی شمارہ قرار دیا ہے اس وقت سے وہ ملاحظات کے تحت رسالے میں شامل ادب پارے کے مصنف یا مرتب کا مختصر لیکن نہایت جامع تعارف پیش کرتے ہیں۔ اس کے تمام علمی و ادبی کارناموں اور اس کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو وہ ایک یادو پیراگراف میں نہایت حسنِ سلیقہ کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔ نیز شامل اشاعت تخلیق کی اہمیت و افادیت کو بھی بخوبی واضح کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے ملاحظات میں شخصی کوائف نگاری، مرقع نگاری اور تذکرہ نگاری کے بڑے اچھے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ’’نگارِ پاکستان‘‘ کی ایک اشاعت میں انہوں نے کلیم الدین احمد کی خود نوشت’’ اپنی تلاش میں ‘‘ کو خصوصی موضوع بتایا، چنانچہ ملاحظات میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’کلیم الدین احمد ادو ادب کے ان بڑے ناقدروں میں ہیں جو ہزار اختلاف کے باوجود، اردو زبان و ادب کی تاریخی میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی دو ابتدائی کتابوں ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ اور اردو تنقید پرا یک نظر‘‘ نے اردو ادب کے بحر منجمد میں وہی تلاطم و طوفان پیدا کیا جو کسی وقت مولانا حالیؔ نے ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘ کے ذریعہ پیدا کیا تھا۔ کلیم الدین احمد نے قدیم و جدید دونوں قسم کے ادب پر قلم اٹھایا ہے اور ہر جگہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے۔ تنقید کے ساتھ انہوں نے قدیم تذکروں اور دواوین کی ترتیب و تدوین، لغت نویسی اور خود نوشت کے عنوان سے بھی اردو کو بہت کچھ دیا ہے‘‘۔ ۹؎
ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری کے ملاحظات نہ صرف مرقع نگاری کے بڑے اچھے نمونے پیش کرتے ہیں بلکہ انتقادی پہلو بھی ان میں نمایاں ہوتا ہے، اس لیے تنقیدی نقطۂ نظر سے بھی ان کی بے حد اہمیت ہے۔ فرمان صاحب نے بعض ملاحظات میں ’’وفیا‘‘ کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے جس میں وہ مرحوم کی نہ صرف خوبیاں بیان کرتے ہیں بلکہ اس سے اپنے ذاتی مراسم اور تعلقات کا بھی ذکر کرتے ہیں اور اس کے اٹھ جانے سے انہیں جو دلی صدمہ پہنچا ہے اس کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ ایسی ہی ان کی ایک تحریر انجمؔ اعظمی مرحوم کے سلسلے میں ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’انجمؔ اعظمی ایک اچھے استاد، نقاد اور شاعر تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ ایک بہت اچھے آدمی تھے۔ خوش اخلاق، با وضع، اور حد درجہ خود دار ان کی ذہانت، وسعت مطالعہ اور طرزِ گفتگو کے سب ہی قائل تھے اور گھائل تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ کہ وہ موضوعِ زیر بحث پر نہایت مدلل اور دو ٹوک گفتگو کرتے تھے اور ایسی خود اعتمادی اور دل آویزی کے ساتھ کہ اپنی بات، اپنے مخاطب سے بہر حال منوا لیتے تھے۔
نیاز یاد گاری خطبوں کے موقع پر، ہر سال ابتدائی تقریر وہی کیا کرتے تھے اور حق یہ ہے کہ اپنے دلکش انداز تخاطب سے سامعین کا دل موہ لیتے تھے۔ افسوس کہ ’’نیاز گاری لکچر کااسٹیج‘‘ انجم اعظمی کی آواز سے محروم ہے۔ مجھے ان کی یاد آج بُری طرح ستارہی ہے، کہاں ڈھونڈنے جاؤں، کہاں سے انہیں لاؤں اورجلسے کی پہلی تقریر ان سے کیسے کراؤں۔ وائے محرومی وائے مجبوری !‘‘ ۱۰؎
ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری کی صحافتی زندگی کا محور ’’نگارِ پاکستان‘‘ ہے۔ جوتسلسل ہے نیاز فتح پوری کے ’’نگار‘‘ (بعدہٗ ’’نگارِ پاکستان‘‘ ) کا۔ بلکہ ’’نگارِ پاکستان‘‘ انہیں کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے آج تک زندہ ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ’’نگارِ پاکستان‘‘ محض ایک رسالے کا نام نہیں، بلکہ اب یہ ایک ادارہ بن چکا ہے جسے ایک انجمن کہہ لیجے یا ’’حلقۂ نیاز و نگار‘‘ کا نام دیجیے۔ اس ادارے، انجمن یا حلقے کی جانب سے نیازؔ فتح پوری کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے۱۹۸۴ء سے سالانہ نیاز یاد گاری پر خطبے اور نیاز ایوارڈ کی بنا ڈالی گئی۔ اسی سال نیاز فتح پوری کا صد سالہ جشن ولادت ’’نیاز صدی‘‘ کے نام سے منایا گیا۔ اس سے ایک سال قبل یعنی۱۹۸۳ء میں ’’نگارِ پاکستان‘‘ کا جشنِ طلائی منایا گیاتھا۔ ان تمام سرگرمیوں کی روئدادیں، رپورٹیں اور تصویریں ’’نگارِ پاکستان‘‘ میں نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کی گئیں۔ ۹۹۸۳ء میں جشن طلائی کے موقع پر نگارِ پاکستان کا ’’جشن طلائی نمبر‘‘ شائع کیا گیا۔ اسی طرح ۱۹۸۴ء میں نیاز صدی تقریبات کے موقع پر اس کے ’’نیاز صدی نمبر‘‘ اجرا عمل میں آیا۔ نیاز یادگاری خطبات کا جو سلسلہ دس سال قبل شروع کیا گیا تھا وہ آج بھی جاری ہے۔ اور اس کے جلسے ہر سال کراچی میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس میں بھارت اورپاکستان کے سرکردہ ادیبوں اور دانشوروں کو نیاز فتح پوری پر لکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل رپورٹ ہر سال’’نگارِ پاکستان‘‘ کے صفحات کی زینت بنتی ہے۔ نیاز فتح پوری سے متعلق تمام یاد گاری خطبوں، علمی مذاکروں، ادبی اجلاسوں اور سرگرمیوں کے روحِ رواں ڈاکٹر فرمانؔ فتح پوری ہوتے ہیں۔ انہیں ان کاموں میں حلقۂ نیاز و نگار سے بڑی معاونت ملتی ہے اور حلقۂ نیاز و نگار کا ’’نگارِ پاکستان‘ کے بغیر تصور ناممکن ہے۔
اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ’’نگارِ پاکستان‘‘ کی جڑیں اگر ماضی میں نیازؔ فتح پوری سے ملتی ہیں تو حال میں اس کا رشتہ فرمان فتح پوری سے استوار ہے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کو یہ ہم ماضی سے الگ کر سکتے ہیں نہ حال سے جدا ماضی کے ’’نگار‘‘ کا تصور جس طرح نیاز فتح پوری کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اسی طرح حال کے ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے بارے میں فرمانؔ فتح پوری کے بغیر سوچنا امر محال ہے۔ ایک طرف ماضی ہے تو دوسری طرف حال، ایک طرف نیاز ہیں تو دوسری فرمانؔ۔ میں ’’نگارِپاکستان‘‘ کو قدیم و جدید، ماضی و حال اور نیاز و فرمان کے درمیان کی ایک کڑی تصور کرتا ہوں۔ اسی لیے میں ’’نیاز و نگار‘‘ کی ثنویت کا نہیں، بلکہ، نیاز و فرمان و نگار، کی تثلیث کا قائل ہوں !
٭٭
حواشی
۱- فرمانؔ فتح پوری، ملاحظات، ’’نگارِ پاکستان‘‘(کراچی) نیاز فتح پوری نمبر ( حصہ اول)، مارچ اپریل۱۹۶۳ء، ص۹-۱۰۔
۲- ’’نگار ‘‘ فروری ۱۹۲۲ء سے آگرہ ہی سے نکلنا شروع ہوا، لیکن ابو الخیر کشفی نے اپنے ایک مضمون میں نہ جانے یہ کیوں لکھ دیا کہ ’’نگار کا پہلا شمارہ فروری۱۹۲۲ء میں بھوپال سے شائع ہوا، اگر چہ اس کا تجارتی شعبہ آگرہ میں تھا‘‘(دیکھیے ابوالخیر کشفی کا مضمون ’’نگار اور اس کی روایات‘‘ مشمولۂ نگارِ پاکستان(کراچی) نیاز فتح پوری نمبر (حصہ دوم) مئی جون۱۹۶۳ء ص۵۴ ’’نگار‘‘ آگرہ ہی سے جاری ہوا۔ اس کے فروری ۱۹۲۲ء تادسمبر۱۹۲۲ء کے شمارے آگرہ ہی سے نکلے۔ جنوری۱۹۲۳ء میں یہ بھوپال منتقل ہو گیا۔ اس ضمن میں خود نیازؔ فتح پوری کی تحریر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون ’’والد مرحوم، مَیں اور ’’نگار‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’غالباً نومبر۱۹۲۱ء کی بات ہے کہ لطیف الدین احمد (ل۔ احمد) کے مکان پر چند مخصوص احباب (ڈاکٹر ضیاء عباس ہاشمی، مخمورؔ اکبرآبادی، مالک حبیب احمد خاں، مقدس اکبرآبادی، شاہ دلگیر اکبرآبادی وغیرہ اور خود لطیف صاحب) کا اجتماع ہے اور ایک رسالہ جاری کرنے کی تجویز پر گفتگو ہوتی ہے( اس وقت ’’نقاد ‘‘ بند ہو چکا تھا) اور اس کا اجراء طے پا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسوال سامنے آتے ہیں۔ ایک نام کا، دوسرا سرمایہ کا۔ چوں کہ یہ بات پہلے ہی طے ہو چکی تھی کہ میں اسے مرتب کروں گا اس لیے اڈیٹر کی زندگی کا کوئی سوال سامنے نہ تھا۔ رہا نام اس کے متعلق جب میری رائے طلب کی گئی تو میں نے ’’نگار‘‘ تجویز کیا…
اس کے بعد سرمایہ کا سوال سامنے آیا تو یہ طے پایا کہ فی الحال کم از کم بیس اصحاب بیس بیس روپے نگار فنڈ میں جمع کر دیں اور پہلا پرچہ آگرہ سے شائع ہو۔ اس کے بعد میں بھوپال آگیا اور پہلا پر چہ فروری۲۲ء مرتب کر کے آگرہ بھیج دیا اور مخمور و لطیف نے آگرہ پریس میں چھپوا کر شائع کیا… اور دسمبر۲۲ء تک نگار آگرہ ہی سے نکلتارہا‘‘(دیکھیے نیازؔ فتح پوری، ’’والد مرحوم، مَیں اور نگار‘‘ مشمولۂ ’’نگار پاکستان‘‘ (کراچی) نیاز فتح پوری نمبر(حصہ اول) مارچ اپریل ۱۹۶۳ء، ص۳۹-۴۰)
۳- مظفر علی سید نے ادبی موضوعات پر ’’نگار‘‘ کے جملہ خاص نمبروں کی کتابی شکل میں اشاعت پر زور دیا ہے۔ دیکھیے ان کا مضمون ’’نقدِ نیاز و نگار ‘‘مشمولۂ ارتقاء‘‘(کراچی) ارتقاء مطبوعات، اپریل ۱۹۹۰ء ص۱۰۳۔
۴- فرمانؔ فتح پوری (مرتب ’’قمر زمانی بیگم‘‘(کراچی)اردو اکیڈمی ۱۹۷۹) ص۲۲۔
۵- نیازؔ فتح پوری، ملاحظات ’’نگارِ پاکستان‘‘(کراچی)، مارچ۱۹۶۵ء ص، ۷-۸
۶- بہ حوالہ ’’نگار پاکستان‘‘ (کراچی) جنوری۱۹۹۳ء ص، ۷۵-۷۸۔
۷- فرمانؔ فتح پوری، ملاحظات(حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا) ’’نگارِ پاکستان‘‘(کراچی) جون۱۹۶۶ء ص۶
۸- ایضاً، ص۳
۹- فرمانؔ فتح پوری، ملاحظات، ’’نگارِ پاکستان‘‘(کراچی)، مارچ ۱۹۹۰ء ص۲
۱۰- فرمانؔ فتح پوری، ملاحظات ’’نگار پاکستان‘‘(کراچی) جنوری ۱۹۹۱ء، ص ۶