باب سوم: حصہ پنجم
اشتراکیت کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء
اشتراکیت انگریزی اصطلاحSocialism کا اردو مترادف ہے۔ اس سے بطوراصطلاح ایک ایسی ’’معاشرتی تنظیم اور حکومت کا ایک نظریہ یا طریقہ‘‘ مراد لیاجاتا ہے’’جس میں ذرائع پیداوار اور تقسیم لوگوں کی اشتمالی ملکیت ہوتے ہیں اور انتظامی باگ ڈور ریاست کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔‘‘(1)
اشتراکیت کی اصطلاح اردو میں عربی زبان سے مستعار لی گئی ہے۔ جس کا لغوی مطلب بھی لگ بھگ وہی ہے جو انگریزی میں سوشلزم کی اصطلاح کا ہے۔ اشتراکیت کے معانی عربی میں پیداوار کے ذرائع اجتماعی یا سرکاری ملکیت میں رکھنے کے ہیں اور یہ بھی اس کے معانی میں شامل ہے کہ ہر شخص سے اس کی صلاحیت کے مطابق کا م لیاجائے اور اس کا معاوضہ اس کی محنت کے مطابق ادا کیاجائے۔(2)
اشتراکیت کا سب سے بڑا محرک کارل مارکس کو تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس کے افکار کے’’ مطابق اشتراکیت اس’درمیانی صورت حال کا نام ہے‘ جس کا سرمایہ داری نظام کے بعدآنا اٹل ہے اور اس کے بعد ہی مکمل غیرطبقاتی معاشرہ ایک حقیقت بن سکتا ہے۔‘‘(3)
اشتراکیت کی اس تعریف سے پڑھنے والے کا ذہن جدلیاتی عمل کی طرف چلاجاتا ہے جو اشتراکی فلسفے کی بنیاد ہے۔بعض نقاد افلاطون کے مکالماتی اسلوب میں جدلیاتی عمل کی ابتدائی شکل ڈھونڈتے ہیں۔ جدلیات یاDialectics کا ذکر آگے آئے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ اشتراکیت یا سوشلزم میں موجود تصور، زمانۂ قدیم میں افلاطون ہی نے اپنی ’’کتابِ قوانین‘‘ میں کچھ یوں پیش کیاتھا:
’’…اس پرانی کہاوت پر کہ دوستوں کی سب چیزیں مشترک ہوتی ہیں، وسیع پیمانے پر کبھی عمل ہوا ہے یا نہیں، معلوم نہیں۔ ایسی کمیونزم کہیں موجود ہے یا نہیں یاآئندہ کبھی رائج ہوگی یا نہیں جس میں عورتیں، بچے اور املاک مشترک ہوں اور نجی یا ذاتی اشیاء کا تصور ہی زندگی سے خارج ہوجائے۔‘‘(4)
افلاطون کا پیش کردہ یہ پراناتصور قدیم برطانیہ کی دہقانی اشتراکیت اور جرمنی کے انقلابی مفکر تھامس موئنزز کے علاوہ مزدک کی تحریک میں بھی تلاش کیاجاتا ہے۔ پروفیسرکارل ڈیل کے مطابق ’’سوشلزم یا اشتراکیت صرف ذاتی محنت کی کمائی کو جائز سمجھتا ہے۔ البتہ جائیداد سے حاصل کردہ آمدنی کا قائل نہیں۔‘‘(5)
اب دیکھتے ہیں کہ جدلیات پرغوروفکر کرنے والوں کی توجہ مکالمات افلاطون کی طرف کیوں مبذول ہوئی۔ دراصل جدلیات کے معانی میں پوشیدہ طورپر نہیں واضح طورپر ہی شامل ہے کہ جدلیات’’منطقی بحث و استدلال کا فن اور معمول‘‘ کو کہتے ہیں جیسے’’ عموماً سوالاًجواباً کلام میں ہوتا ہے جسے کسی نظریے یا رائے کی صداقت کی تحقیق کے سلسلے میں بروئے کارلایاجاتاہے۔‘‘(6)
جدلیات کوعلم الکلام بھی گرداناجاتا ہے اور اسے منطق کی ایک شاخ کے طورپر پہچاناجاتا ہے۔ اصطلاحاً’جدلیات‘ جدلی مادیت پسندوں کا ’’اختیارکردہ تحقیق کا وہ طریقہ کار‘‘ ہے جو ہیگل سے منسوب چلاآرہا ہے۔ اس طریقۂ کار کا ’’انحصار دو متضاد لیکن متعامل قوتوں، دعویٰ و ضدِّ دعویٰ کی آمیزش اور اعلیٰ تر مرحلے پر ان کی مسلسل تطبیق(تالیف) پرہوتا ہے۔‘‘(7)
سقراط کی انصاف اور نیکی کے صحیح ادراک کی سوال و جواب کے ذریعے کوشش ہیگل، فختے اور کانٹ کی جدلیاتی تفہیم تک آپہنچی تو فختے نے جدلیاتی مکالمے، مباحثے یا مجادلے کے تین مرحلے یا مشترکہ اصول تجویزکیے تاکہ محض مفروضے کی بنیادپر گفتگو نہ کی جائے جس سے بعدازاں تضادات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ مرحلے یا اصول کچھ یوں تھے:
۱۔ پہلے ایک قضیّے کو ثابت کیا جائے۔
۲۔ بالکل مختلف قضیّے کے بارے میں بھی ثبوت فراہم کیے جائیں۔
۳۔ ان دو مختلف قضیوں کے تضاد کو کسی اور زاویے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ
پتالگایاجائے کہ ان دونوں میں تضاد اس بنا پر ہے کہ استدلال اور علم بھی اپنی اپنی حدود میں رہتے ہیں۔
ہیگل نے جدلیات کے مراحل کو ہمہ گیر، اختصاصی اور انفرادی میںتقسیم کیا۔ ہمہ گیری کا تعلق سادہ لوحی کی بنیاد پر غیرحقیقی ایقان ہے۔ اختصاصی کا تعلق اپنی شناخت اور اپنے سے الگ کسی اور کی پہچان ہے اور پھر انفرادیت جس کا مطلب خودآگہی اور ذاتی بالیدگی ہے۔(8)
ان افکار پرکانٹ کے اس نظریے کی چھاپ نمایاں ہے جس کے تحت وہ تجربے سے ماورا ء اشیاء اور ادراکاتِ ذہنی کے اطلاق کی کوشش کو لاحاصل قراردیتا ہے۔ جدلیاتی مادیت فطرت اور سماج کو ایک اور طرح سے ادراکاتِ ذہنی کے اطلاق سے سمجھنے کی کوشش ہے۔
’’جدلیت سے مراد یہ ہے کہ فطرت کے حوادث برابرمتحرک ہوتے ہیں۔وہ برابربدلتے رہتے ہیں اور فطرت کی متضاد طاقتوں کے باہمی جدل سے فطرت کا ارتقاء ہوتا ہے۔‘‘(9)
کارل مارکس نے ہیگل کے ان مرحلوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا اطلاق انسانی تاریخ پرکیا۔ سب سے پہلے اس نے سماج کی پیداواری طاقتوں کی نشاندہی کی:
۱۔ وہ آلات ِپیدوار جو مادی چیزوں کے بنانے اور پیداکرنے کے لیے استعمال میں آتے
ہیں۔
۲۔ وہ لوگ جو ان آلات کو استعمال کرتے ہیں۔
۳۔ ان لوگوں کا تجربہ اور کام کا ہنر جو پیداوار کے سلسلے میں بروئے کارآتا ہے۔(10)
ان پیداواری طاقتوں کے ذریعے تاریخ کاارتقاء ہوتا ہے تو بتدریج مندرجہ ذیل نظام وجودمیں آتے جاتے ہیں:
۱۔ قدیم اشتراکی نظام
۲۔ غلامی کا نظام
۳۔ جاگیرداری نظام
۴۔ سرمایہ دارانہ نظام
۵۔ اشتراکی نظام
یعنی جب انسان ابتدائی اشتمالی نظام سے باہرآکر معاشرتی جبر کے تحت اس نظام کا کل پرزہ بن جاتا ہے تو تاریخ کی ابتداء ہوتی ہے۔ وہ اس مرحلے پر تاریخ کا ایک کردار ضرور ہوتے ہیں لیکن اسے اپنی مرضی سے بدل نہیں سکتے۔ حالات کا جبرانھیں ایساکرنے ہی نہیں دیتا۔ جب اشتراکیت کا نظام آخرکار قائم ہوتا ہے تو پھرخودآگہی کا مرحلہ آتا ہے جس کی نشاندہی ہیگل نے کی تھی۔ جس کے بعد انسان اپنی مرضی سے تاریخ کا رخ موڑ سکتا ہے۔
’’ہیگل نے حقیقت کے ادراک کے لیے وجدان کی بجائے منطق کا سہارالیاتھا اور زندگی کے ارتقاء کو جدلیت پرمبنی قراردیاتھا۔ اس جدلیت میں ہیگل نے زندگی کے دو متضاد زاویوں یعنی اصل (Thesis)اور تضاد(Anti-Thesis) کے ادغام کو غیرمعمولی تصور کیااور اسے نئی تعمیرکا پیش خیمہ قراردیا۔‘‘(11) جدلیت ہیگل کے ہاں تیسرے مرحلے میں داخل ہوکر مکمل ہوتی ہے۔ جسے وہ دعویٰ اور ضدِّ دعویٰ کی وحدت کہتا ہے۔
اب مارکس اور ہیگل کے خیالات کو ملاکر پڑھیں تو مارکس کے ہم خیال فریڈرک اینگلز کے اس نکتے کا پس منظر سمجھ میں آجاتا ہے جس کے مطابق ’’جب بہت سے افراد کے ارادے عملی کشمکش کی صورت اختیارکرتے ہیں تو فیصلہ کن نتیجہ عمل میں آتا ہے۔‘‘(12) جسے دعویٰ اورضدِّ دعویٰ کی وحدت کہناچاہیے۔
لینن کا قول بھی اینگلز ہی سے ایک حد تک مطابقت رکھتا ہے کہ ’’ارتقاء متضاد کیفیتوں کے مابین جدوجہد کا نام ہے۔‘‘(13) ہم آہنگی پیداکرنے کا نہیں۔ سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان طبقاتی طورپر جن متضاد کیفیتوں کے باعث طبقاتی کشمکش فطری طورپر جاری رہتی ہے اس کے سبب سچی ترقی پسندی وہی ہے جس میں سرمایہ داروں کے ساتھ مزدوروں کی مفاہمت کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔بلکہ ستم زدہ طبقوں کے درمیان اتفاق پیداکرکے شعوری طورپر انقلاب کا راستہ ہموار کیا جائے اور پوری قوت کے ساتھ رجعت پسند طبقے کی حکومت کاتختہ الٹ کرسیاسی طاقت اپنے ہاتھ میں لے لی جائے۔ مارکس نے کہا تھا کہ ’’ہرپرانے معاشرے سے نیا معاشرہ پیداکرنے کا کام قوت ہی کے ذریعے انجام پاتا ہے۔‘‘(14)
اس اعتبار سے غلط یا صحیح طورپر یہ خیال پیدا ہو ا کہ سوشلزم کا آغاز عدمیت یعنی(Nihilism) سے ہوناچاہیے۔ اس نظریے کے حامی یہ سمجھتے تھے کہ موجودہ سماج کے معاشی اور سیاسی نظام کو مکمل طورپر تباہ و برباد نہ کیاجائے تو نیانظام اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ بربادی تعمیروترقی کے خیال سے کی جائے لیکن انیسویں صدی کے آخر میں کچھ اشتراکی بربادی کو بہرحال لازمی سمجھتے تھے۔ اس نظریے کے تحت قتل، آتش زنی اوربلوے کو بھی جائز سمجھاگیا لیکن منفی اور انتشار انگیز ہونے کے سبب یہ تصور بعدازاں اشتراکیت سے خارج ہوگیا۔(15) اگرچہ اس طرز فکر نے مشہورروسی ناول نگار ترگنیف کو متاثرکیااور اس نے اپنے ناول ’’باپ اور بیٹا‘‘ میں عدمیت(Nihilism) کی اصطلاح پہلی بار استعمال بھی کی اور اس ناول کا مرکزی خیال بھی اسی تصور پر استوار کیا۔ اشتراکیت ایک طرف تو یورپ کی مادہ پرستی اور سرمایہ دارانہ ملوکیت کا ردِّ عمل تھا اور دوسری طرف حقیقت پسندی کی توسیع بھی تھا۔ اشتراکی حقیقت نگاری ، جس کا آغازروس میں ہوا، کامقصد یہ تھا کہ فن و ادب کے ذریعے مارکسی نظریات کا پرچار کیاجائے تاکہ ایک اشتراکی معاشرہ قائم ہوسکے۔ اس کے اظہار کا ذریعہ کوئی بھی ہو لیکن وہ اس معاملے میں ریاست کے احکامات کی پیروی کرے۔ سٹالن نے ایسے فنکاروں کے لیے’انسانی روحوں کے صناع‘ کی ترکیب وضع کی تھی لیکن ایسے افکار میکائیل شولوخوف (Mikhail Sholokov) اور الیگزینڈرفیڈیفAlexander) (Fadeyevجیسے دوسرے درجے کے شعراء ہی پیدا کرسکے۔
اشتراکی حقیقت پسندی کو فطرت پسندی یا بورژوائی حقیقت پسندی کا ردِّ عمل بھی کہاگیا۔ اس خیال کی مخالفت اس بناپر کی گئی کہ کسی نظریے کے تحت شاعری یا ناول نگاری دراصل لکھنے والے کی آزادیٔ اظہار کو سلب کرنا ہے۔(16)
یہ اعتراض اردو میں ترقی پسند ادب پر بھی ہواتھا کہ ترقی پسند شعرا پہلے سے طے شدہ موضوعات پر لکھتے ہیں اور طے شدہ موضوعات پراچھا ادب تخلیق کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگرچہ یہ بات بھی قابلِ بحث ہے کیونکہ طے شدہ موضوعات پر ادبِ عالیہ کا اچھا خاصا ذخیرہ ہرزبان کے ادب میں پایاجاتا ہے تاہم لینن کے خیالات پر ایک نظرڈال لینی چاہیے جواگرچہ ادب کو پرکھنے کے لیے جدلیاتی مادیت سے مدد لیاکرتاتھا لیکن’’ اس کا مذاقِ ادب صرف حقیقت پسندی تک ہی محدود نہ تھا۔ وہ رومان کو بھی پسندکرتاتھالیکن ایسے رومان کو جوانسان کے بہترمستقبل اورانسان کی آزادی کی خواہش کا اظہارکرتا ہے۔‘‘(17) بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ انقلابی تخیل کو بھی انسانی فطرت کے مطابق سمجھ کر اس بات کا اوروں کو بھی قائل کیاکرتاتھا کہ انسانوں اور خاص طورپر لکھنے والوں کو تخیل پرست بھی ہوناچاہیے۔
حقیقت نگاری میں بھی وہ حقیقت کو بگاڑکر پیش کرنے پر ناراض ہوتاتھا۔اسے ایسے لکھنے والے پسند تھے جو ’’مظلوم عوام سے ہمدردی رکھتے ہوں۔ وہ پرتکلف اور مبالغہ آمیز ادب کا دشمن تھا…وہ جانتاتھا کہ ادب صداقت پرمبنی ہو، حقیقت پسندانہ ہو۔ عام لوگوں کی زندگی سے متعلق ہو اور اسے محاربی بنائے۔‘‘(18)
ترگنیف کی اشتراکی حقیقت نگاری کے علاوہ برزن، بیلنسکی، چرنیشوسکی، ڈوبرویسو، نیکراسو، روپنسکی، طالسطائی اور گورکی لینن کے زیرمطالعہ رہے ہیں۔ وہ پشکن کا اپنی گفتگو اور تحریروں میں حوالہ دیا کرتاتھا۔ وہ ناولوں اور شاعری کی تحسین کرناجانتاتھا اور ان اہلِ قلم کے فن پاروں کی ادبی قدروقیمت اور معیاروں کو پرکھ کر اپنی رائے قائم کیاکرتاتھا۔ طالسطائی اس کے نزدیک روسی انقلاب کا سب سے بڑا ترجمان ہے۔ اگرچہ وہ بالشویک انقلاب سے ایک حد تک الگ ہی رہا اور اس کے ناولوں میں انقلاب کی روح بین السطور تلاش کرناپڑتی ہے۔ چیخوف نے بھی اسی دورمیں اپنا مقام پیداکیاجب روسی معاشرے میں انقلاب کی چاپ سنائی دینے لگی تھی۔ اس کے لہجے میں طنز کی کاٹ بھی ہے اور امیدکی روشنی بھی۔ وہ علامتوں کے پردے میں حقیقتوں کو چھپاتا بھی ہے اور آشکار بھی کرتا ہے۔ اس کی حقیقت پسندی بالآخر اس کے مزاج میں مایوسی اور اضمحلال پیداکرتی ہے۔ آندریف میں بھی تحرک اور فعالیت کی کمی ہے مگر ارادیت موجود ہے۔
اشتراکی تحریک کی سب سے مؤثرنمائندگی میکسم گورکی نے کی ہے۔ اس کے ناول کے ہیرو پسے ہوئے طبقات کے عام اور بے نام سے کردار ہیں جن میں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا حوصلہ پیدا ہوچکاہے۔ مایا کوفسکی نے جنگ و جدل سے گریزکاسبق دیا اور معاشرتی ارتقاء کے لیے پیار، محبت اور امن کو ضروری سمجھا۔ سٹالن کا زمانہ ادب کو نئی راہ دکھانے میں ریاستی کردار کا زمانہ ہے۔ اس سلسلے میں ادب اور زیادہ سنگین ہوگیا۔ طالسطائی اور چیخوف کی سماجی حقیقت نگاری کو نئے پہلوئوں سے سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ لیونوف، گلیڈکوف اور پلنیاک کے ہاں طبقاتی اور سماجی کشمکش میں زیادہ شدت دکھائی دی۔ پاسترناک کی شاعری میں انقلاب رومانوی اور غنائی ہوگیا۔ شولوخوف کا ناول ’’ڈان بہتارہا۔‘‘ انسانی ذہن کے حوالے سے صرف خارجی حالات کا عکس ہی نہیں بلکہ لینن کے خیالات کے مطابق خارجی حالات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کا بھی مظہر ہے۔ غرضیکہ لینن اور مارکس کے نزدیک ان ادباء نے خارجی حقائق کو بے سوچے سمجھے محض اتفاق ہی سے نہیں اپنایاتھا۔ وہ اپنے اس معاشرے سے مربوط تھے جس میں وہ اپنی زندگی بسرکررہے تھے۔ لینن نے خود ادب اور سماج کی ترقی کے درمیان اٹوٹ اور ناگزیرتعلق کا اعتراف ان ادیبوں کے فن پاروں میں سے مثالیں دے دے کرکیااور انھیں اشتراکی معاشرے کے قیام کی جدوجہد کا دلیرسپاہی قراردیا۔(19)
اہم اشتراکی حقیقت نگار
لیونکولائیوچ طالسطائی(1828-1910) کا تعلق طبقۂ امراء سے تھا۔ وہ دوستوفسکی کے ساتھ روس کے دو سب سے بڑے ناول نگاروں میں سے ہے۔ عالمی ادب میں بھی وہ صفِ اول کے ناول نگاروں میں شامل ہے۔ اس نے اعلیٰ تعلیم پائی اور اپنی زندگی کا آغازفوجی عہدے سے کیا۔ اس نے اپنے عہد کے اشرافیائی طرزِزندگی سے بھرپورلطف اٹھایااور اس معاشرت کے آداب واطور کا تجزیہ خلاقانہ بے باکی سے کیا۔ وہ فکری اور عملی دونوں طرح سے زندگی کے ساتھ پیوست اورمربوط رہااور اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات کے اظہار میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ اس کا اسلوب براہِ راست اور دو ٹوک تھا۔ حقیقت کی تلاش اس کی تحریروں کا نمایاں وصف ہے۔ حق کی تلاش میں اس کی عمر میدانِ کارزار، سرکاردربار، سیروسیاحت اور جاگیرداری میں گزری اور بالآخر اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں پناہ ڈھونڈی اور حق کی تلاش میں وہ اصل حقیقت کو پانے میں کامیاب ہوا۔ ’مرا عقیدہ‘ نامی تصنیف جو زندگی کے اخلاقی معانی آشکار کرتی ہے، اس کے عقیدے پر کلیسا کے اعتراضات کا سبب بنی اور روسی کلیسااور رومن چرچ دونوں نے اسے مذہب سے خارج قراردے دیا۔
عمرکے آخری حصے میں وہ ماسکو اور اپنی جاگیر یاسنایاپولیانہ، ضلع تولا کے درمیان گھومتارہا۔ وہ اپنے عقیدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی ساری جائیداد غریب کسانوں میں بانٹناچاہتاتھا۔ اس بات پر اس کی اپنی بیوی کے ساتھ ٹھن گئی اور طالسطائی موت کی تلاش میں گھر سے دور ریلوے سٹیشن جاپہنچااور وہیں فوت ہوگیا۔ اسے واپس لاکر اس کی جاگیرمیں دفن کیاگیا۔
طالسطائی کی تصنیفات میں ناول ایناکرے نینا، حیاتِ ثانیہ، وس کری سسے یے، جنگ اور امن، سوانح حیات(تین حصے)، افسانوی مجموعے، قازق لوگ، سبستاپول کی کہانیاں، تین موتیں، گھریلومسرت، حاجی مراد، اعتراضات، ایوان ایلچ کی موت، آقا اور بندہ، لوک کتھا، اندھیرے کی قوت، کروٹزرسوناتا، آرٹ کیا ہے؟، تعلیم کا پھل اور ڈائری، زندہ مردہ، آج پہلے سے زیادہ دلچسپی سے پڑھے جانے لگے ہیں۔(20) وہ معاشرے کے ستائے ہوئے مظلوم طبقے کو خیر کی علامت قراردیتا ہے اور انسان کے اندرپوشیدہ نیکی کے جذبات کومہمیز کرکے شر کا سامناصرف قوت سے نہیں خیر کی طاقت سے بھی کرنے کا داعی ہے۔
میکسم گورکی (1868-1936)(Maxim Gorky) کا اصل نام الیکسی میکسی مووچ پشکوف(Alexei Maximovich Pyeshkov) ہے۔ طالسطائی کے برعکس گورکی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا باپ ایک بڑھئی تھا اور ماںرنگریز کی بیٹی تھی۔ وہ ماسکو کے قریب واقع ایک قصبے نووگورد میں پیداہوا۔ اس کی ابتدائی عمر انتہائی عسرت اور تنگ دستی میں کٹی کیونکہ وہ بچپن ہی میں یتیم ہوگیاتھااور اس کی پرورش اس کے رنگریز نانانے کی تھی۔ وہ اسی سبب سے قازان یونیورسٹی میں داخلہ نہ لے پایا۔ اس عہد کے اعتبار سے غیرقانونی انقلابی اور باغیانہ حلقوں سے اس کا تعارف ہوا جو مارکسی نظریے کی ترویج کے لیے کام کررہے تھے۔ اسی تعلق کے سبب 1883 ء میں اسے پابندِسلاسل کردیاگیا۔ بعدمیں بھی پولیس اس کی نگرانی کرتی رہی۔ وہ ایک عام مزدور کی زندگی بسرکرتارہااور روس کے مختلف شہروں میں گھومتاپھرتارہا۔ کرالینکو نام کے ایک عوامی شاعر نے اس کے اندر دبی ہوئی ادبی صلاحیت کو اجاگرکیااور وہ اپنے مشاہدات کو اپنے طویل افسانے مکارچدرا(Makar Chidra) میں تخلیقی طورپر کامیابی سے سمونے کے قابل ہوگیا۔ اس کی تحریر کے سادہ اسلوب، بیان کی روانی، جذبے کی صداقت، طنز کی تلخی اور مشاہدے کی گہرائی اس کی ادب کے میدان میں مقبولیت اور شہرت کا سبب بنی۔
و ہ لینن کے دوستوں میں شامل تھا۔ پلے خانوف سے بھی اس کی رسم و راہ تھی۔ اس نے انقلاب کی آمد کی پیش گوئی ’شہبازکانغمہ‘ اور ’طوفان کا نقیب‘ جیسی نثری نظموں میں کردی تھی۔ 1905 ء میں لینن سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی تھی اور وہ تمام عمرلینن کا معتمد اور پرخلوص ساتھی رہا۔ وہ سٹالن کے بھی بہت قریب تھا۔ 1901 ء میں اسے ماسکو شہر سے نکال دیاگیاتھا۔ 1902 ء میں اسے اکادمی کا رکن منتخب کیاگیا لیکن زارنے اس کی رکنیت منسوخ کردی۔ اس کے ڈرامے ’می شانے‘ اور’’پاتال میں‘ آج بھی کھیلے جاتے ہیں۔ 1906 ء میں وہ جان بچاکر خفیہ طورپر امریکہ چلاگیا۔ 1913ء میں اسے زارنے معافی دے دی اور وہ روس واپس آگیا۔1921 ء میں اس پر تپِ دق کا حملہ ہوااور اس وجہ سے اس نے تین سال جرمنی اور چیکوسلواکیہ میں گزارے۔
اس کی تحریریں اشتراکی حقیقت پسندی کے اصولوں کا مثالی نمونہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے ناول ’ماں‘کو جو اس نے1906 ء میں لکھاتھا ، آج بھی روسی ادب کا شاہکار تسلیم کیاجاتا ہے۔(21)
لینن نے ’ماں‘ کے بارے میں کہاتھا کہ’’ کئی مزدور انقلابی تحریک میں اصل بات کو سمجھے بغیر محض جوش کی وجہ سے کام کررہے ہیں۔ ’ماں‘ پڑھ کر انھیں بہت فائدہ ہوگا۔ ہمیں ایسی کتاب کی ضرورت ہے۔‘‘(22) اشتراکیت کے لیے گورکی کی ادبی خدمات کا اعتراف لینن ان الفاظ میں کرتا ہے ’’تمہاری ادیبانہ خوبیوں نے روس(اورصرف روس ہی نہیں) کی مزدور تحریک کو بہت فائدہ پہنچایا ہے اور تم آئندہ بھی اسے بہت فائدہ پہنچائوگے۔ کوئی واقعہ بھی تمہیں مخالف کیفیت میں جذب نہیں ہونے دے گا۔‘‘(23) گورکی کے فن پاروں میں اسے Bawdy Face اورTwenty Six Men and a Girlبہت اچھے لگتے تھے۔لینن اور گورکی کے درمیان خطوط کا تبادلہ بھی ہوتارہا کیونکہ لینن کا خیال تھا کہ گورکی اس کے جذبات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسے لگتاتھا کہ لینن، گورکی کو اپنے خیالات اور عقائد کا قائل کرناچاہتاہے۔ وہ دراصل بطورادیب گورکی کے قلم کی طاقت اور تاثیرسے واقف تھا اور گورکی نے بھی جو کچھ لکھا وہ لینن کے دل اور ذہن کے تاروں کو چھیڑنے کے لیے لکھا۔(24)
فیودر میخائیلووچ دوستوفسکی(Fedor Mikhailovich Dostoevsky)
(1821-1881)ماسکو کے ایک طبیب کی اولادتھا اس لیے اس کی زندگی کے ابتدائی سال ایک خیراتی مطب کے ماحول میں بسرہوئے۔ اس کا باپ سخت مزاج تھا۔ ایک دن اس کے باپ کو شایداس کی سخت گیری کے ردِّعمل میں اس کی جاگیر کے کسانوں نے قتل کردیا۔ ان دنوں وہ صنعتی فنون سکھانے والے ایک ادارے میں زیرِتعلیم تھا جو فوج کے زیرِانتظام تھا۔ جیب خرچ کی تنگی سے وہ پہلے ہی پریشان تھا تاہم وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے فارغ التحصیل ہوکرڈرافٹسمین بن گیا لیکن ادب کے راستے میں رکاوٹ سمجھ کر اس نے نوکری چھوڑ دی اور ہمہ وقتی ادیب کے طورپر مصروفِ عمل ہوگیا۔ وہ دورانِ تعلیم ہی تاریخ، فلسفے، مذہب اور ادب کی طرف راغب ہوچکاتھا۔ وہ تنہائی پسند تھا جس سے اس کی مطالعے کی اور فکر کی عادات پختہ ہوتی چلی گئیں۔ بیلنسکی (Belinsky)کی ترقی پسندانہ تحریروں اور ذاتی سرپرستی نے اسے شاہانہ اطوار کے مقابلے میں جمہوری اقدار کا حامی بنادیا۔ اس دور کے روس میں ایسے خیالات کا حامل گردن زدنی تھا چنانچہ ان افکار کا پرچار کرنے والے حلقوں سے تعلق کی بنا پر1849 ء میں اسے گرفتارکرکے اس کی پھانسی کا حکم صادر ہوا لیکن حیران کن طور پراسے تختۂ دار سے پھانسی سے پہلے ہی اتارلیاگیا اور اس کی سزا قیدبامشقّت اور سائبیریا کی طرف جلاوطنی میں بدل دی گئی۔ وہ چارسال وہاں قیدرہا۔ اس کے بعد اس نے پانچ سال ایک سپاہی کے طورپر خدمات انجام دیں تب کہیں اسے پیترس برگ واپس آنے کی اجازت ملی۔
1849ء میں اس کی گرفتاری اس امر کی غماز تھی کہ اس کا شمار اہم لکھنے والوں میں ہونے لگا تھااور اس کے تراجم اور طنزیہ مضامین نے اپنے قارئین کاحلقہ پیدا کرلیاتھا۔ اس کا ناولٹ ’’بیچارے لوگ‘‘1849 ء میں شائع ہوچکاتھا۔ اگلے دو سال کی اذیت کوشی اور بے کسی نے اس کی حقیقت نگاری میں ذاتی تجربات سے اور بھی زیادہ سوز، گداز اور تاثیرپیداکردی۔ اس کی تحریروں، اس کے افکار اور اس کی زندگی پراس کے والد کے قتل، جاگیرداروں کے دورِاستحصال، قیدوبند، وطن بدری، مرگی کی بیماری، جوئے کی لت اور ان تمام مسائل کے سبب یورپ کے سفر، قرضوں اور جائیدادوں کی قرقیوں کے اثرات بہت واضح اور گہرے ہیں۔
دوستوفسکی کی زندگی ہرلحاظ سے بھرپور، بامقصدمگرمتنازعہ رہی۔ اس کے خیالات میں بھی تبدیلیاں آتی رہیں ۔ اس کی انقلاب پسندی بعدازاں ردِّانقلاب کے رویے تک ہی نہیں عیسائیت کے پرچار کی حد تک جاپہنچی۔ اس نے غریبی بھی دیکھی اور امارت بھی۔ اس نے مختصر مضامین بھی سپردقلم کیے اور ضخیم ناول بھی لکھے۔ اس کا ضخیم ترین ناول،’برادرانِ کراموزوف‘ تھا۔ دیگر اہم ناولوں میںذلّتوں کے مارے لوگ،جواری،چچاکا خواب، جرم و سزا، ایڈیٹ (Idiot)، نوعمر اور بھوت پریت شامل ہیں۔ اسے اپنا روزنامچہ اور ڈائری لکھنے کی بھی عادت تھی۔ وہ فلسفیانہ اور ذاتی سطح پر ہرلحاظ سے ایک مثالی اشتراکی حقیقت نگار تھا۔(25)
ولادیمیرمایاکوفسکی(Vladimir Mayakovsky) (1893-1930)نے چودہ برس کی عمرمیں شاعری شروع کردی تھی۔ وہ1917 ء میں روسی انقلاب سے پہلے ایک سال قید رہ چکاتھا۔قیدوبند کے تجربے سے گزرنے پر وہ بطورشاعر زیادہ مشہورہوگیا۔ اشتراکی انقلاب کے لیے ولولہ انگیز نعروں اور بالشویکیوں کی ہدایات اور طے شدہ حکمت عملی، اندرونی شورشوں کی ہائو ہو، لینن کی زندگی کے اتارچڑھائو اور بالآخر موت کو اس نے اپنی شاعری میں اس طرح گوندھا جیسے وہ سب کچھ اس کے لہو میں تیرتا ہو۔ اس کی شاعری اشتراکی افکار کی ترجمان ہی نہیں بلکہ خوداشتراکی ہوگئی تھی۔ وہ اشتراکیت اور روس کی محبت میں اتنا دیوانہ تھا کہ انقلاب کے ابتدائی سالوں میں روسی انقلاب کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات، یہاں تک کہ مصنوعات کی تعریفیں کرتے ہوئے زمین و آسمان کے قلابے ملاتاتھا۔
اس نے مروّجہ شعری پیمانوں سے انحراف کیا۔ لفظوں کے زیروبم اور قافیوں کے منفرداستعمال سے اس نے شاعری کو نیا آہنگ عطا کیا۔ وہ روسی انقلاب کی فتوحات سے کسی بھی اور تحریک سے زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ وہ اپنی بلندآہنگ شاعری کو بھرے مجمعے میں سناتااور اپنی شعرخوانی سے سماں باندھ دیتا۔ روس میں برسرِعام جلسوں میں شعرسنانے کا رواج مایاکوفسکی کی دین ہے۔اس کی شاعری میں طنز کی کارفرمائی بھی ملتی ہے جس کی کاٹ بہت تیز ہوتی تھی۔ اس نے امریکی صدرولسن کا بھی مضحکہ اڑایاتھا۔ جس کی وجہ سے امریکہ کی سرمایہ دارانہ معیشت اور زرپرستی تھی۔
وہ مزاجاً خودسر، اکھڑمزاج، بے باک اور باغی تھا۔ وہ اپنی زندگی کسی قاعدے قرینے کے تحت بسرنہیںکرتاتھا۔ اس نے ایک فطرت پسندشاعر کی جوانی میں خودکشی پراسے ملامت کی لیکن پانچ سال بعد خودبھی جوانی ہی میں خودکشی کربیٹھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس نے محبت میں ناکامی، انقلاب کے نتائج سے دل برداشتہ ہوکر یا خوداحتسابی کے جذبے سے مغلوب ہوکر خودکشی کی تھی۔
اس کی مشہور نظموں میں پتلون میں بادل، کھٹمل، بحرِاوقیانوس، 15کروڑ، لینن اور حمام شامل ہیں۔(26)
اقبال اوراشتراکیت
اقبال اپنے مضمون"The Muslim Community: A Sociological Study"میں امّتِ مسلمہ کی حالتِ زارکا نقشہ پیش کرتے ہوئے ترقی پذیرممالک کی معیشت کوزیربحث لایاتھا۔ یہ الگ بات کہ اس مضمون میں اشتراکی مفکر مزدک کا حوالہ تو ملتا ہے، ہیگل(جس کے ردّ میں کارل مارکس نے’’جدلیاتی مادیت‘‘ کا فلسفہ تشکیل دیا) اور کارل مارکس کا ذکرکہیں نہیں ملتا۔
اسی طرح اقبال نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے"The Develpment of Metaphysics in Persia"میں بھی صرف مزدک کا ذکر کیا ہے، ہیگل اور کارل مارکس کا نہیں۔ اقبال نے پہلی بار ہیگل کا ذکراکبرالٰہ آبادی کے نام لکھے گئے ایک خط مُحررہ 17دسمبر1914ء میں کیا۔ جس میں اکبرالٰہ آبادی کے درج ذیل شعر کی تعریف کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: ’’آپ نے ہیگل کے سمندرکو ایک قطرہ میں بندکردیا، یا یوں کہیے کہ ہیگل کا سمندر اس قطرے کی تفسیر ہے۔‘‘وہ شعر یہ ہے ؎
جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں
عقیدے، عقل، عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں
(27)
بعدازاں اقبال کے ہاں ہیگل کے جدلیاتی نظریہ کا ذکر اُن کے ایک مضمون:"Touch of Hegelianism in Lisanul Asr Akbar" مطبوعہ:"New Era" لکھنؤ، بابت: 18 اگست1917 ء میں ملتا ہے۔ جب کہ کارل مارکس کا پہلا حوالہ’’پیامِ مشرق‘‘ کے حاشیے پردیکھنے کو ملا۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’کارل مارکس، جرمنی کامشہور ماہر اقتصادیات، جس نے سرمایہ داری کے خلاف قلمی جہادکیا۔ اس کی مشہورکتاب موسوم بہ’سرمایہ‘ کو مذہب اشتراکیت کی بائبل تصورکرناچاہیے۔‘‘
کارل مارکس نے اپنی کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ میں اشتراکیت کے تصورکو کچھ اس طرح سائنٹیفک بنیادیں فراہم کیں کہ فی زمانہ اشتراکیت کا تصور کارل مارکس سے متعلق ہوکررہ گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں کارل مارکس کی تہلکہ مچادینے والی کتاب’’داس کیپیٹل‘‘ علامہ اقبال کے ذاتی کتب خانہ، مخزونہ: اسلامیہ کالج، سول لائنز،لاہور وبقایاجات، مخزونیہ: اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ،لاہور میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسی طرح لینن کی کوئی کتاب یا اینگلز کی کوئی کتاب یا کتابچہ علامہ اقبال کی ذاتی لائبریری کا حصہ نہیں بنا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ روس کا اشتراکی انقلاب علامہ اقبال کے سامنے کی بات تھی اور وہ انقلاب ابھی اُس طرح بارآورنہیں ہواتھا جیسا کہ بعدمیں دیکھنے کو ملا۔ شایدیہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اشتراکیت سے اُس طرح متاثر کبھی نہیں رہے، جس طرح ہمارے ہاں کے ترقی پسندمصنفین متاثرہوئے۔ نیزاس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ علامہ اقبال ، یورپ ستمبر1905 ء میں گئے اور 1908 ء میں واپسی ہوئی۔ 1934 ء میں اقبال سنگھ، مُلک راج آنند اور احمدعلی وغیرہم بطور طالب علم برطانیہ پہنچے اور یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے 1934-35 میں انجمن ترقی پسندمصنفین کے بارے میں اشتراکی فلسفہ کے مطابق غوروفکر کیااور یہ علامہ اقبال کی زندگی کا آخری دور ہے جو انھوں نے متعدد امراض کا شکارہوکر لاہورمیں گزارا۔ ڈاکٹر ظ۔انصاری اقبال پر آخری دور میں کارل مارکس کے اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی کتاب ’’اقبال شناسی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ اقبال ڈاکٹرایم۔ ڈی تاثیرکی وساطت سے اشتراکی موادکامطالعہ کرناچاہتے تھے، مگر مطلوبہ کُتب اُن تک نہیں پہنچ سکیں۔‘‘(28)
اسی لیے بقول اخترحسین رائے پوری، اقبال ملوکیت اور سرمایہ داری کا دشمن ضرور ہے لیکن اس حد تک جتنا کہ متوسط طبقے کا ایک آدمی ہوسکتا ہے۔(29) شاید اسی لیے اخترحسین رائے پوری کے خیال کے مطابق علامہ اقبال،میسولینی جیسے ڈکٹیٹر کو ہی اسلامی پاکستان کے استحکام کا ضامن سمجھتے ہیں، کارل مارکس کے تصورِ اشتراکیت کو نہیں۔(30)
مجنوں گورکھپوری نے جب علامہ اقبال کو موضوع بنایاتو اسی اُلجھن میں رہے کہ اقبال کو قدامت پرست کہاجائے یا ترقی پسند۔ اُن کے خیال کے مطابق اقبال کی شاعری کئی تنازعات کی حامل ہے لیکن مجنوں اس بات کا اعتراف ضرور کرتے ہیں کہ علامہ اقبال انقلاب اور ترقی کے داعی تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ یہ عالمِ موجودات حرکت و انقلاب کے لیے مجبور ہے۔ نیز مجنوں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اقبال ہی ہندوستان کا وہ پہلا شاعر ہے جس نے یہ شعور عطا کیا کہ خدا اور قضاوقدر کے مقابلے میں انسان کی بھی اہمیت ہے۔(31) ان لوگوں کے مقابلے میں ترقی پسند نقادعلی سردارجعفری علامہ اقبال کو ایک بڑے پیام کا شاعرتو تصورکرتے ہیں لیکن اُن کے خیال میں اقبال اپنے عہد کے اُلجھاووں سے آزادنہ ہوسکا۔ اس لیے وہ شاعر بڑے ہیں اور فلسفی چھوٹے۔ (32)بعدازاں علی سردارجعفری نے 1977 ء میں اپنی اس رائے سے رجوع کرلیاجو انھوں نے اپنی کتاب ’’ترقی پسندادب‘‘ مطبوعہ: 1951 ء میں پیش کیاتھا۔ انھوں نے اب اقبال کو پوری عالمِ انسانیت کی بیداری کا شاعر کہا لیکن چند فکری تضادات کے ساتھ۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تضادات تو عظیم ناول نگارطالسطائی کے ہاں بھی ملتے ہیں۔ علی سردارجعفری کے خیال میں برصغیر میں اقبال کی فکرنے تین قسم کے ذہنوں کی تربیت کی ہے یعنی ایک تو ہوا انقلابی ذہن مثلاً فیض احمدفیض اور مخدوم محی الدین وغیرہ جبکہ دوسر ا بیدار مغز نیشنلسٹ ذہن ہے جن میں ڈاکٹرذاکرحسین، خواجہ غلام السیّدین اور شیخ محمدعبداللہ کے نام سرفہرست ہیں جبکہ تیسرا مسلم فرقہ پرست ذہن ہے جس نے اقبال کی شاعری کا غلط استعمال کرکے اپنے لیے جواز تلاش کیا۔ علی سردارجعفری کی رائے میں مہاتما گاندھی، رابندرناتھ ٹیگور اور اقبال میں ایک قدرِمشترک تھی اور وہ تھی ساری بنی نوع انسان کا درد۔ علی سردارجعفری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقبال نے ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور اشتراکیت کو بھی اپنے فلسفۂ خودی کے ایک حصے میں ڈھال کردیکھا۔(33)
اقبال نظم’’میسولینی‘‘ میں کہتے ہیں ؎
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ملت کا شباب
(کلّیاتِ اقبال۔ص۔480 )
اور اقبال نے یہ لینن کی زبان سے کہلوایا ہے ؎
تو قادروعادل ہے، مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دُنیا ہے تری منتظرِ روزِمکافات!
(کلّیاتِ اقبال۔ص۔436 )
بالِ جبریل میں شامل دو نظمیں: نپولین کے مزارپر اورمیسولینی پڑھ کر ہی نہیں، اقبال کے افکار کا تجزیہ کرکے مختلف ناقدین نے اندازہ لگایا کہ 1922 ء تا1935 ء اشتراکیت سے کہیں زیادہ فسطائیت کا فلسفہ اقبال کو متاثرکررہاتھا۔
علی سردارجعفری کہتے ہیں کہ اقبال کے ہاں’’انقلاب اے انقلاب‘‘ کے نعرے میں خودی کی بیداری کے اثرات کا اظہارملتا ہے اور اقبال ’’اشتراکیت کے معاشی نظام میں مذہبی اور روحانیت کی آمیزش کے قائل تھے۔‘‘(34) علی سردارجعفری کے خیال میں:
’’اقبال کے پاس اخلاقی اور سیاسی نظام کا کوئی سیکولر تصور نہیں تھا۔‘‘(35)
علی سردارجعفری کے مطابق اقبال کے ہاں اشتراکی انقلاب کا خیرمقدم تو ملتا ہے لیکن اشتراکی مادیت کی تنقید اورمادیت میں روحانیت کی آمیزش کے ساتھ، جسے اقبال نے اسلام کا جدیدمعاشی نظام تصورکیا۔(36)
اقبال کے ناقدین یہ سمجھتے ہیں کہ فلسفۂ اشتراکیت سے کامل آگہی نہ ہونے کے سبب وہ اسلام کے اُس انقلابی تصوّر سے بھی دور رہے جسے حضرت ابوذرغفاریؓ نے پیش کیاتھا اور اُسی تصور کے سبب اُنھیں حضرت عثمانؓ کے عہدمیں شہربدرکردیاگیا۔ یہاں تک کہ اُسی عالم میں اُن کا انتقال ہوگیااور اُن کی لاش پررونے والی صرف اُن کی بیوی تھی جہاںنہ نمازِ جنازہ پڑھائی جاسکتی تھی، نہ تدفین ہوسکتی تھی تاوقتیکہ ایک قافلہ اُدھر سے گزرا اور اُن کی تدفین عمل میں لائی گئی۔
اگراقبال، حضرت ابوذرغفاریؓ کے مساوات کے تصور کو کارل مارکس کے فلسفے سے ملاکر دیکھتے تو جیسا کہ انھوں نے چاہاتھا کہ دین بھی ہاتھ سے نہ جائے اور ’’انقلاب اے انقلاب‘‘ کا نعرہ بھی بلند کرلیاجائے تو اُن کو کچھ مشکل پیش نہ آتی۔
اقبال کی اسی ناکامی کی وجہ سے اخترحسین رائے پوری نے اقبال کو فاشسٹ قراردیا۔ ایسا کیوں ہوا اس کی ایک وجہ اور بھی تھی۔علامہ اقبال نے اٹلی کے فاشسٹ سیاسی لیڈر میسولینی سے نہ صرف عقیدت مندانہ ملاقات کی بلکہ اُسے ایک انقلابی لیڈر تصور کرتے ہوئے اُس سے متعلق ایک نظم میسولینی بھی لکھی ؎
ندرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی
ندرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارا لعلِ ناب
اوراس نظم کا آخری شعر ہے ؎
فیض یہ کس کی نظر کا ہے، کرامت کس کی ہے؟
گو کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب
(کلّیاتِ اقبال۔ص۔481 )
میسولینی کی نظرکو کرامت اور شعاعِ انقلاب قراردینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ترقی پسند نقادوں کی نظرمیں اقبال فاشسٹ قرارپائے۔ اقبال کی میسولینی سے ایک مختصر ملاقات جس کا ذکر کرتے ہوئے مولانا غلام رسول مہر نے حمزہ فاروقی کو بتایاتھا کہ:
’’…ملاقات بہت طویل نہ تھی۔ ترجمانی کے فرائض ڈاکٹرسقارپا نے انجام دیے تھے۔گفتگو زیادہ تر اقبال کی تصانیف کے بارے میں ہوئی تھی۔‘‘(37)
یوں رائی کا پہاڑ بنالیاگیا اور اس میں اخترحسین رائے پوری کا کردارسب سے زیادہ ہے۔ انھوں نے اقبال اور میسولینی کے فکری اشتراک کو ظاہرکرنے کے لیے کہا کہ اقبال اور میسولینی دونوں قومیت کے قائل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اقبال کے نزدیک قوم کا مفہوم مذہبی ہے اور میسولینی کے نزدیک نسلی۔ اقبال اور میسولینی جمہوریت کے مخالف ہیں۔ یہ چیز میسولینی نے عملی طورپر ثابت کی اور اقبال نے نظریاتی سطح پر ’’پیامِ مشرق‘‘ میں یہ شعر کہہ کر ؎
گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پُختہ کار ے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانِ نمی آید
(کلّیاتِ اقبال فارسی۔ص۔305 )
اقبال نے اس شعر میں عوام یا جمہور سے متعلق بہت سخت زبان استعمال کی۔ وہ کہتے ہیں کہ دو سو گدھوں کے دماغ کو بھی اکٹھاکریں تو ایک انسان کا دماغ نہیں بنایاجاسکتا۔ اسی طرح ’’جاویدنامہ‘‘میں اقبال نے اشتراکیت و ملوکیت دونوں کی مخالفت کی ہے لہٰذا اخترحسین رائے پوری کے خیال کے مطابق وہ فاشزم کی حمایت کررہے ہیں جبکہ مشہور ترقی پسند نقاد نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال سرمایہ داری اور شہنشاہانہ سامراج کے دشمن تو ہیں لیکن انھوں نے ان طاقتوں کے ساتھ بھی اتحادِ عمل نہ کیا جو سرمایہ داری اور شہنشاہانہ سامراج کو مٹادیناچاہتے تھے۔(38)
یوسف حسین خاں نے احتشام حسین سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال تو ہیگل کے ’’صدف‘‘ کو گہر سے خالی کہتے ہیں لیکن اس حوالے سے یوسف حسین خاں کی تصنیف ’’روحِ اقبال‘‘ میں شامل اس رائے کو یوں رد کیاجاسکتا ہے کہ اقبال کے ہاں فکری سطح پر کافی اُلجھنیں پائی جاتی ہیں۔(39) یوں احتشام حسین کا خیال درست ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کو زندگی کے ہر لمحہ بدلنے کا احساس تھا اور جو بھی اس بات کا حامی ہوتا ہے وہ مطلق قدروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اقبال بھی منزل کا تعین کرنے میں ناکام رہے۔(40)
اقبال نے تسخیرِفطرت کے پہلو پر تو زور دیا لیکن فرد کی اندرونی کشمکش کے حل پرنہ اتنا زوردیا نہ اُس حل کی کوئی کنُجی دی۔ شاید اُس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُن کے سامنے اسلام کی شکل میں ایک بنابنایا نظام موجود تھا۔ اقبال کا انسان عظیم الشان قوتوں کا مالک ہے، اُس کا باطن طاقت کا خزانہ ہے، خدا اُسے اپنے جوہر نمایاں کرنے کا موقع دیتا ہے۔ لہٰذا اقبال کی شاعری میں خدااورانسان کا تعلق آقااور غلام کا نہیں بلکہ رفیقانہ ہے اور اقبال کا مردِ مومن انسان کی ترقی یافتہ شکل۔ شاید اسی لیے اقبال نے’مردِ مومن‘ پراتنازوردیا۔(41)
اقبال سے متعلق اس نوع کی بحثیں چھیڑی ہوئی تھیں جب عزیزاحمد نے اقبال کو اپناموضوع بنایا۔ انھوں نے بتایا کہ اقبال کا’’مردِ مومن‘‘ سوویت روس کے انسانِ جدید سے بہت قریب ہے، وہ خیرکاسخت پابند ہے اور مردِ مومن میں فقرپایاجاتا ہے لہٰذا دورِ جدید کا سوشلسٹ انسان اس سے کچھ مختلف نہیں ہوتا۔(42) عزیزاحمد نے اقبال کے شاہین کو میسولینی کی فکر کی علامت قراردینے پربھی اعتراض کیا۔ عزیزاحمد کے خیال میں:
’’وہ بُلند پروازی اور خیرکی طاقت کا رمز ہے، جبرکا نہیں۔ طاقت اس لیے ضروری ہے کہ اُس سے انسان مظلوم نہیں بن سکتا۔‘‘(43)
عزیزاحمد نے یہ بھی کہا کہ اقبال نے دوسرے مذاہب کے حقوق پامال کرنے کی کہیں بھی ہدایت نہیں کی۔ صرف اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بے انتہا طاقت جمع کرنے کی تلقین ضرور کی ہے۔
عزیزاحمد کے خیال میں اقبال کے لیے میسولینی کی شخصیت اور فکرمیں اقبال کی کشش کا باعث ’’ذوقِ حرکت‘‘اور’’ذوقِ انقلاب‘‘ تھے اس لیے کہ زندگی میں معجزات حرکت اور انقلاب سے ہی رُونماہوتے ہیں۔(44) واضح رہے کہ ’’پس چہ بایدکرد‘‘ میں اقبال فاشسٹ شہنشاہیت کو یورپ کے عام سرمایہ دارانہ نظام کی ہی طرح کی کوئی قسم تصورکرتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا ہے اقبال کے دور میں پرول تاری آمریت کا تصور نیانیاتھا اور اقبال کو یہ خدشہ تھا کہ انقلابِ روس کا حشر بھی انقلابِ فرانس کی طرح کا نہ ہو اس لیے انھوں نے کھل کر اشتراکی نظام کی حمایت نہیں کی۔ البتہ اقبال، سرمایہ دارانہ فلسفے کو حقارت کی نظر سے ضرور دیکھتے ہیں۔ اسی لیے روس کے انقلاب میں اقبال کوزندگی کی ایک نئی تڑپ محسوس ہوتی ہے تو وہ اُمتِ مسلمہ کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمیٔ رفتار
(کلّیاتِ اقبال۔ص۔148 )
عزیزاحمد نے اقبال کی شاعری میں شامل ترقی پسند عناصر بیان کرتے ہوئے اقبال کی ’’روحانی اشتراکیت پسندی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ عزیزاحمد کے خیال میں اقبال کی اشتراکی روحانیت ا ور کارل مارکس کی مادہ پرست اشتمالیت میں معمولی سا فرق ہے۔ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اقبال مذہب کو سماجی اورمعاشی حالات کی پیداوار نہیں سمجھتے بلکہ اقبال کے خیال میں سرمایہ دار، مذہبی پیشوائوں اور مُلّائوں کو رشوت دے کر اپنے اغراض کے لیے استعمال کرتا ہے۔ نیز اقبال کے خیال میں اگر مذہب میں سے حرکت کا تصور نکال لیا جائے تو مذہب بے روح ہوجاتا ہے۔
عزیزاحمد نے بالآخر اسلام اور اشتراکیت کی قربت اقبال میں سے ڈھونڈ لی۔ عزیزاحمد کے خیال میں اقبال کی نظم’’خضرِ راہ‘‘ اُن کی انقلابی شاعری کی ابتداء ہے اور اسی نظم میں اسلام اور اشتراکیت کا امتزاج ملتا ہے۔ عزیزاحمد کے خیال میں اقبال نے حضرت خضر کی زبانی جن حقائق کو بیان کیا ہے اُن میں اسلام کا اجتہادی تصورموجود ہے۔ حضرت خضرؑ کے بیان میں کارل مارکس کے نظریات کی چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عزیزاحمد کا یہ بھی خیال ہے کہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں بھی اقبال نے سرمایہ دارانہ نظام کی خونخواری کے بیان میں اشتراکی اسلام پر کاربند ہوجانے کا مشورہ دیا۔(45)
عزیزاحمد کی اسی بات کو آلِ احمدسرور نے مزید آگے بڑھایاہے۔ اُن کے خیال میں اقبال ’’اسلامی سوشلسٹ‘‘ ہیں۔ اقبال کا یہ پہلو انھوں نے اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں سے تلاش کیا۔ آلِ احمدسرور کہتے ہیں کہ اقبال نے شیطان کو خواہ مخواہ اتنی اہمیت نہیں دی۔ اُن کے خیال میں اقبال نے شیطان کی زبانی سوشلسٹ اسلام کا تصور پیش کیا ہے اس حوالے سے آلِ احمدسرور نے اقبال کا ایک خط خواجہ غلام السیّدین کے نام ڈھونڈنکالا۔ جس میں 17اکتوبر1926ء کو اقبال لکھتے ہیں:
’’تاریخ انسانی کی مادی تعبیر سراسر غلط ہے۔ میں روحانیت کا قائل ہوں مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا۔ باقی رہا سوشلزم ۔ اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے، جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔‘‘(46)
اقبال نے دراصل اشتراکیت کو بیک جنبشِ قلم رد نہیں کیا بلکہ ملحدانہ اشتراکیت کومسترد کیا ہے۔ محمدعلی جناح کے نام خط میں وہ لکھتے ہیں کہ:
" If Hinduism accepts Social Democracy, it must necessarily cease to be a Hinduism for Islam, the acceptance of Social Democracy in some suitable form is not a revolution but a return to the original purity of
Islam." (47)
سوادِعامہ کے بارے میں یہ خوش گمانی رکھتے تھے کہ ’’روسی فطرتاً لامذہب نہیں ہیں۔‘‘ انھوں نے ان سے یہ توقع قائم کی تھی کہ روس کے مزاج کی موجودہ منفی حالت غیرمعینہ عرصہ تک نہیں رہے گی۔ انھیں یقینی طورپر اپنے نظام کے لیے کسی مثبت بنیادکی تلاش کرناہوگی۔ اگر بالشوزم میں خدا کی ہستی کا اقرارشامل کردیا جائے تو بالشوزم اسلام کے بہت ہی قریب آجاتا ہے۔ اس لیے میں متعجب نہ ہوں گا اگر کسی زمانہ میں اسلام روس پر چھا جائے یا روس اسلام پر…‘‘(48)
اوپر خواجہ غلام السیّدین کے نام جس خط کا ذکرآیا ہے اس کے مطابق اقبال نے اپنے آپ کو روحانیت کا قائل بتایا ہے۔ اقبال کے خیال میں انسانی ضمیر کو بے حس بنانے میں کمیونزم کا دخل ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے انسان اس قابل نہیں رہتا کہ وہ اپنی وجدانی قوت اور روحانی طاقت کے سرچشمے تک رسائی پاسکے۔ کمیونزم کی بنیاد میںتعصب اور نفرت شامل ہیں اور یہ رجحانات روحانیت کی نفی کرتے ہیں۔ اقبال اس خدشے کے پیش نظر ان رویوں کو زندگی کے اعلیٰ مراتب کے لیے انسانی جدوجہد کے لیے نقصان دہ قراردیتے ہیں۔ اس سے یوں لگنے لگتا ہے جیسے انسان اصل زندگی سے بیزار ہوچکا ہے اور اب اس کی نظر ایسے حقائق پر ہے جو صرف حواس کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔
اقبال چاہے ذات پات کی تمیزاور نوعِ انسانی کی ترقی کے باب پر گفتگو کرتے ہوئے براہمنوں کی حکومت سے کشتریوں کی حکومت اور پھر ویشوں کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے ملک التجار کے سیاسیات عالم پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بالآخر مزدور طبقے کی حکومت کی امیدیں لگائیں۔(49) پھر بھی وہ اپنے اوپر اشتراکی کا الزام برداشت نہیں کرتے کیونکہ اس سے اسلام کے عقائد پرزدپڑتی ہے۔
اخبارزمیندار مورخہ23 جون1923 ئ، میںشمس الدین حسن کے پروفیسرغلام حسین کے متعلق مضمون میں اقبال کے بالشویک خیالات کا حامی ہونے کی آڑ میں پروفیسرغلام حسین کی گرفتاری پر سوال اٹھایاگیا تھا۔ اس جواب میں اقبال نے ایڈیٹرزمیندار کو جو خط لکھا اس میں واضح طورپر کہا کہ ’’چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہء اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردیدمیرا فرض ہے… روسی بالشوزم یورپ کی ناعاقبت اندیش اور خودغرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردّ ِ عمل ہے لیکن…اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے۔(50)
آلِ احمدسرور کے خیال میں اقبال غلامی کو پسندنہیں کرتے اور معاشرے میں مساوات کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ بغیرمساوات کے آزادی بے معنی ہوجاتی ہے۔ وہ انسانوں میں امتیازروا رکھنے کے قائل نہیں اور مزدوروں کی حکومت چاہتے ہیں لیکن مزدور کو یہ حق نہیں دیتے کہ حکومت قائم کرنے کے معاملے میں مزدور ظالم بن کر خونریزی کا بازارگرم کرے۔ یہیں سے اقبال کے ہاں اشتراکیت اور فسطائیت کی کشمکش شروع ہوتی ہے اور فسطائیت کے مقابلے میں اقبال اشتراکی نظام کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔(51)
آلِ احمدسرور یہ بھی نہیں مانتے کہ اقبال کا مذہبی جذبہ اُن کے شاعرانہ پیغام کو محدود کرتا ہے اور اُس کی شاخیں فسطائیت اور جمہور دشمنی سے پیوستہ ہیں۔ سرور کے خیال میں اقبال نے بڑی شدّومد کے ساتھ سرمایہ داروں اور سرمایہ دارانہ نظام کی مذمت کی ہے۔(52)
آلِ احمدسرور نے اقبال کے حوالے سے اخترحسین رائے پوری کے اُٹھائے گئے بیشتراعتراضات کو رد کردیا۔ وہ یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ:
۱۔ اقبال فسطائیت کے حامی ہیں۔
۲۔ اقبال ملوکیت و سرمایہ داری کے معمولی سے دُشمن ہیں۔
۳۔ اقبال عوام یا جمہور کو حقیر جانتے ہیں۔
۴۔ اقبال جمہوری یا محنت پیشہ لوگوں کی حکومت کو پسندنہیں کرتے۔
آلِ احمدسرور کے خیال میں ہمیں صرف اقبال کی نظم’’میسولینی‘‘ مشمولہ ’’بالِ جبریل‘‘ ہی کو نہیں دیکھناچاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اقبال ’’ضربِ کلیم‘‘ میں کیا کہتے ہیں ؎
پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی
کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج
(کلّیاتِ اقبال۔ص۔662 )
آلِ احمدسرور یہ تو مانتے ہیں کہ اقبال نے کہیں کہیں اشتراکی نظام پر اعتراض کیا ہے کیونکہ جب اقبال سے یہ پوچھا گیا کہ آپ فاشزم اور کمیونزم کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں تو انھوں نے جواب میں کہا تھا:
’’میرے لیے فاشزم اور کمیونزم یا زمانۂ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدے کی رُو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے۔‘‘(53)
آلِ احمدسرور یہ بھی کہتے ہیں کہ لوگ نظم میسولینی تو پڑھتے ہیں لیکن لینن:خدا کے حضور میں ، نہیں پڑھتے۔ اقبال جمہوریت کے خلاف نہیں۔ البتہ انھوں نے مزدوروں کی حکومت کے قیام میں ہونے والی خونریزی دیکھی تھی اور یہی سبب تھا کہ مزدوروں کی حکومت کے ابتدائی دور کے بارے میں اُن کی رائے اچھی نہ تھی اور اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ1936 ء میں جب اقبال نے ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ لکھی تو وہ اشتراکیت کی طرف بہت کچھ مائل ہوچکے تھے۔(54)
اقبال کی نظم’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ (1936) سے قبل 1922 ء تا1935 ء اقبال نے پیامِ مشرق ،زبورِ عجم اورجاویدنامہ میں کارل مارکس کے افکاراوراشتراکیت پر اظہارِ خیال تو کیاتھا لیکن انھیں کون سا نظامِ معیشت پسندتھا اس کے بارے میں اُن کی کوئی دو ٹوک رائے نہیںالبتہ مزدوروں سے ہمدردی ضرور دکھائی دیتی ہے لیکن اشتراکیت کی لامذہبیت اُن کے لیے قابل قبول نہیں۔ نہ وہ مزدور حکومت کی آمریت کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال کے اِن ترقی پسند اور غیرترقی پسند ناقدین کے بعدجدیددور کے ایک ترقی پسند ناقد ڈاکٹرمحمدعلی صدیقی کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اقبال کی ترقی پسندی کی جڑیں نہ تو مغربی سامراج کے خلاف نفرت میں تلاش کرنی چاہئیں اور نہ ہی مغربی معیشت پر تعمیرشدہ سیاسی ڈھانچے سے بیزاری میں ڈھونڈنی چاہئیں۔‘‘(55)
محمدعلی صدیقی کے نزدیک ’’اقبال کی طرف سے بورژوا جمہوریت کی مخالفت دراصل لبرل جمہوریتوں کی طرف سے فاشزم کی مُخالفت پر ایک قسم کا لطیف طنزہے۔‘‘(56)
پروفیسرفتح محمدملک نے اقبال کو’’مجموعۂ اضداد‘‘ کہنے کی بجائے ’’دانائے راز‘‘ کہا ہے۔فتح محمدملک کہتے ہیں کہ جس بنیاد پر ترقی پسند ناقدین اقبال کی انسانیت اور آفاقیت کو شک میں ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں،اُن کو اس استدلال پرغورکرناچاہیے جس کے ساتھ اقبال اسلام کو اشتراکیت پر فوقیت دیتے ہیں۔(57)
یوں غور کیاجائے تو پتا چلتا ہے کہ ترقی پسند ناقدین نے1936 ء میں پوری شدّومد کے ساتھ آغاز ہونے والی انجمن ترقی پسندمصنفین کی ساری شدّت پسندی کو بروئے کار لاتے ہوئے اقبال کی1922 ء تا1935 ء کی شاعری کے تناظرمیں اشتراکیت سے متعلق اقبال کے غیرواضح خیالات پر خوب لے دے کی۔ یہاں تک کہ انھیں فسطائیت کا علمبردار بھی کہہ دیا جبکہ اقبال اپنی عمرکے آخری برس میں اشتراکیت کے فلسفے سے متاثردکھائی دیے اور غیرترقی پسند ناقدین نے محض نظریاتی اختلاف کی بنیادپر اقبال کے پیام کو آفاقی قرار دیتے ہوئے ترقی پسندناقدین کے جائز اعتراضات کو بھی ردکردیا۔
اس سارے پس منظر کودیکھتے ہوئے ڈاکٹرایم ڈی۔تاثیرکا اقبال سے متعلق مضمون ’’اقبال کا سیاسی نظام‘‘حددرجہ متوازن دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے خیال میں اقبال اپنے دور میں مروج ہرسیاسی نظام کی خامیوں کو چھان پھٹک کرتے رہتے تھے اُور ان کی سمجھ میں اُس وقت تک یہ بات آئی تھی کہ اشتراکی اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا معبودِ حقیقی، فقط پیٹ ہے۔ لہٰذا اقبال نے اِن دونوں نظاموں کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ ’’زمین نہ زمیندار کی ہے نہ کسان کی ہے۔ زمین صرف اللہ کی ہے…یہ وہ تیسرا راستہ ہے جسے اسلامی سوشلزم کہاجاتا ہے۔‘‘(58)
اقبال اشتراکیت(سوشلزم) کو ایک ایسی آندھی سمجھتے تھے جو فضاسے آلودہ ہوائوں کو نکال باہرکرتی ہے۔ روس کے اشتراکی انقلاب کے بعد یہ رویہ ہندوستانی معاشرے کا حصہ بن گیا۔
جب امیراور غریب طبقات میں اختلافات پیداہوئے تو اس طرح مزدور اور صنعت کار کی بجائے مزارع اور جاگیردار کے مابین تنازع پیداہوا۔
اُس دور کا بھارت بنیادی طورپر ایک زرعی ملک تھا۔ بے حس جاگیردار اور سُودخور ساہوکار سرِعام دکھائی دیتے تھے۔ اس امر کے حوالے سے اقبال ایک ایسے انقلاب کے خواہاں تھے جوکمیونزم اور سوشلزم کے مطابق نہ ہو بلکہ سینٹ سائمن کے قول کے مطابق ہو۔ جس میں معاشرے کے باحیثیت لوگوں سے وسائل لے کر اصل حقداروں تک پہنچانے پرزوردیاگیاہے۔
یہ ایک ایسی ترکیب ہے جو تمام بن کمائے سرمائے کو ختم کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے وسط کے ہندوستان میں اشتراکی نظریات کا اثر نوجوانوں اور انڈین نیشنل موومنٹ کے بائیں بازو کے گروہوں کے ذریعے پھیلااور اس سے فکری اور تجزیاتی سطح پر نئے افق وا ہوئے۔
اس تحریک کے نمایاں نظریات کا عکس اقبال کی شاعری میں بھی ظاہرہوا اور کچھ حد تک اقبال کے غیرتبدیل شدہ مذہبی تصورات پربھی پڑا۔ یوں اقبال نے اشتراکیت اور مزدوروں کے مسائل میں دلچسپی لی۔
اس نظریہ کی نمایاں خصوصیات اُس دور کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں قومی آزادی کی تحریک کا ظہورتھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال روس کے عظیم اشتراکی انقلاب کو خوش آمدید کہنے والوں میں پہلے شخص تھے۔اقبال کے الفاظ میں روس کا انقلاب پرانے نظام کی تباہی کا عملی مظاہرہ تھا ؎
دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
(کلّیاتِ اقبال۔ص۔649 )
اقبال کے اس شعر کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے پرانے دور کے طرزِ معاشرت کا آخری وقت آگیا ہے۔ بلاشبہ اقبال نے اس دور میں اس پر بھی غوروفکر کیا کہ سوشلزم کا کچھ دوسرے نظریات جیسا کہ اشتمالیت اورسماجی نظریات سے قریبی تعلق ہے۔
اشتمالیت ،فرانسیسی نظریات پر مبنی ہے۔ جو فرانس میں 19 ویں صدی کے اواخر میں ظہورپذیرہوا۔ اُسے ریاست اور حکومتی تنظیم کے لیے شہری آبادی اور معیشت کے شعبوں کو چلانے، اُن کے نظم و ضبط اور انصرام کی خاطراستعمال کیاگیا۔ یہ کوئی مقالٰہ یا عقائد کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی منصوبہ بندی ہے۔ جب کہ اشتراکیت (سوشلزم) انسانی فطرت اور مساوات کے بارے میں ایک عقیدہ ہے۔ اشتراکیت اور اشتمالیت میں فرق واضح کرنے کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اشتمالیت، اشتراکیت کے مقابلے میں محدود ،رسمی اور طویل العمر ہے۔
ایک غیرمعروف قول سے کمیونزم اور سوشلزم کا فرق بہترانداز میں واضح ہوتا ہے۔ وہ یوں کہ سوشلزم کے مطابق آپ کے پاس دو گائیں ہیں۔ جن میں سے ایک آپ اپنے ہمسائے کو دے دیتے ہیں۔ جبکہ کمیونزم میں آپ کے پاس دو گائیں ہیں، جنھیں حکومت لے لیتی ہے اور اُس کی جگہ آپ کو کچھ مقدارمیں دُودھ دے دیتی ہے۔
اشتراکیت سے متعلق محدودمعلومات کے سبب اقبال یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ کارل مارکس نے اپنے ’’اشتمالی منشور‘‘ کے لیے اپنی تحریروں میں اشتمالیت کو اشتراکیت (سوشلزم) کی قدیم شکل قراردیا ہے۔
کارل مارکس نے انقلابی کمیونزم اور یوٹوپیئن(جنّتِ ارضی) سوشلزم میں فرق کی واضح نشان دہی کی۔ اگرچہ اشتراکیت(سوشلزم) اور کمیونزم میں کوئی واضح حدبندی مقررکرنایا لکیرکھینچنا بہت مشکل ہے لیکن اینگلز نے اشتمالی منشور میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اُن سے بہتر تشریح ہوتی ہے۔
18ویں صدی کے اواخر کے ہندوستان میں اشتراکی جمہوریت(سوشل ڈیموکریسی)، مارکسیت(مارکسزم) کے تقریباً مساوی آگئی۔ مارکسزم نے بہ حیثیت اشتراکی جمہوریت کے اشتراکیت کے مقابل اپنی نظریاتی شکل اختیارکرلی۔1920 ء تاحال اشتراکی جمہوریت کی اصطلاح کا اشتراکیت (سوشلزم) اور سماجی آزادانہ روایات کے ساتھ بہت قریبی تعلق قائم ہوگیا۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اقبال ’’مُلحد اشتراکیت‘‘ کو مُسترد کرتے ہیں نہ کہ بذاتِ خود اشتراکیت کو۔ لگتا ہے کہ اقبال کو اشتراکیت سے اصل شکایت صرف اس کی دہریت کی وجہ سے تھی اور ایک مقام پر تو وہ اشتراکیت کی دہریت کو بھی کلیسا کی مخالفت میںقبول کرنے کے قریب آجاتے ہیں ؎
یہ وحی دہریتِ روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات
(کلّیات ِاقبال۔ص۔653 )
اقبال کے خیال میں اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریت کو کسی موزوں شکل میں قبول کرناکوئی انقلابی بات نہیں بلکہ اسلام کے اصل خالص پن کی طرف واپسی ہے۔ اشتراکی نظریہ کے ماخذ دو نمایاں توجیہات کے ساتھ منسوب ہیں۔ پہلی کثیر عرصۂ کار احاطہ کرتی ہے، جو ابتدائی دورِ جدید سے وابستہ ہے جب کہ دوسری توجیہہ فرانسیسی انقلاب کے بعد والے دورپر زوردیتی ہے۔
اشتراکیت(سوشلزم) کو بہت سی اقدار اوردانشورانہ روایات ورثہ میں ملی ہیں اس کے بہت سے مکاتیب ہیں۔ جن میں سے سب سے مشہور مکایتب مارکسزم، اصلاحی ریاستی سوشلزم، اخلاقی سوشلزم،کثیرگروہی سوشلزم اور مارکسی سوشلزم ہیں۔ اقبال اپنی نظم’’اشتراکیت‘‘ میں کہتے ہیں کہ روس کی گرمیٔ رفتار بے سود نہیں اور اسی کے نتیجے میں ؎
جو حرفِ قُلِ العفْو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
(کلّیات ِ اقبال۔ص۔648 )
روسی اقوام کے رویہ سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ رُوس کی تیز رفتار ترقی بہتری کے حصول کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور موجودہ دور میں ’’کہو کہ کافی ہے‘‘ جیسے الفاظ میں مضمر سچائی کی عملی مثال سامنے آنے والی ہے۔
اقبال کو یقین تھا کہ عہدِجدیدکاشعور ملوکیت اور اشتراکیت میں بنیادی تبدیلیاں پیداکردے گا اور خود روسی قوم اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کرکے ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبورہوجائے گی جس کے اصولِ اساسی یا خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔
وہ ملوکیت کے حوالے سے اشتراکیت کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ جاویدنامہ میں جمال الدین افغانی کی زبان سے کارل مارکس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ اشتراکیت کی بنیاد پرسوال اٹھاتے ہیں کہ اشتراکیت محض مساوات شکم پر زور دیتی ہے۔ جبکہ اقبال کے خیال میں مساوات صرف اخوت کے بل پر قائم ہوسکتی ہے۔(59)
حواشی و حوالہ جات
-1 قومی انگریزی- اردو لغت،مرتّبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،
طبع پنجم؛2002 ء ،ص۔1885 ۔
-2 اردو لغت (تاریخی اصول پر) جلد اوّل، ترقی اردو بورڈ،1966 ء ،ص۔514 ۔
-3 قومی انگریزی- اردولغت مذکور:ص۔1885 ۔
-4 سبطِ حسن: موسیٰ سے مارکس تک: مکتبۂ دانیال؛ کراچی؛طبع اول؛1988 ء ،ص۔96 ۔
-5 قمررئیس و عاشورکاظمی: ترقی پسندادب، مکتبہ عالیہ،لاہور،طبع اول، 1994 ء ،
ص۔367 ۔
-6 قومی انگریزی۔ اردولغت مذکور:ص۔568 ۔
-7 ایضاً:ص۔568 ۔
-8 ( ڈاکٹر)سہیل احمدخان - محمدسلیم الرحمن(مؤلّفین)؛منتخب ادبی اصطلاحات؛
شعبۂ اردو، جی سی یونیورسٹی، لاہور؛ طبع اول،2005 ئ،ص۔66-65 ۔
-9 (سید)سجادظہیر:مارکسی فلسفہ؛پیپلز پبلشنگ ہائوس؛لاہور؛طبع چہارم؛1970 ئ؛
ص۔21۔
-10 ایضاً:ص49-50
-11 (ڈاکٹر)انورسدید:اردو ادب کی تحریکیں؛انجمن ترقی اردو پاکستان؛ کراچی؛
طبع اول؛1985 ئ؛ص۔136
12- Frederick Engels: Selected Works; Moscow; 1969;
P-31.
-13 (سید)سجادظہیر:کتاب مذکور؛ص۔30
-14 ایضاً:ص۔78
-15 جامع اردوانسائیکلوپیڈیا،جلد8-(فنونِ لطیفہ):قومی کونسل برائے ترقی اردو زبان،
نئی دہلی،طبع اول،2003 ئ،ص۔309
16- Cuddon, J.A: The Penguin Dictionary of Lietrary
Terms and Literary Theory, Penguin Books,
London; 1999; P-837.
-17 ظہیرکاشمیری:ادب کے مادی نظریے ،کلاسیک، لاہور،طبع دوم،1975 ،ص۔94
-18 ایضاً:ص۔89
-19 (ڈاکٹر)انورسدید:کتاب مذکور،ص۔139-140
-20 جامع ارد و انسائیکلوپیڈیا،جلد1-(ادبیات):ص۔165
-21 ایضاً:ص۔458
-22 ظہیرکاشمیری: کتاب مذکور،ص۔95-96
-23 ایضاً:ص۔96
-24 ایضاً:ص۔100-101
-25 جامع ارد و انسائیکلوپیڈیامذکور:ص،242
-26 ایضاً:ص۔488
-27 اقبال:کلیات ِمکاتیبِ اقبال(جلداوّل)؛ مرتبہ سید مظفرحسین برنی، اردو اکادمی ،
دہلی؛1992 ،ص۔320-323
-28 محمدبلال سہیل:’’ڈاکٹرظ۔انصاری‘‘مقالہ برائے ایم۔اے اردو، پنجاب یونیورسٹی
اور یئنٹل کالج، لاہور،سیشن 1989-90 ، ص۔181 ۔
-29 اخترحسین رائے پوری:ادب اور انقلاب،ادارہ اشاعت ِاردو،طبع اول ؛
حیدرآباددکن؛1943 ،ص۔80
-30 ایضاً:ص۔87
-31 مجنوں گورکھپوری:اقبال؛ اجمالی تبصرہ،سنگم پبلشنگ ہائوس،الٰہ آباد؛ طبع اول؛
س۔ن،ص۔37-43
-32 بہ حوالہ’’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘‘از خلیل الرحمن اعظمی، ایجوکیشنل بک ہائوس،
علی گڑھ؛طبع اول1979 ،ص۔282
-33 علی سردارجعفری:اقبال شناسی،پیپلزپبلشنگ ہائوس، لاہور،طبع اول؛1977 ئ،
ص۔13 ،22 ،23 ،26 ،27 ،29 ،30 ،31 ،32 ، 34 ،43
-34 ایضاً:ص۔44
-35 ایضاً:ص۔48
-36 ایضاً:ص۔76
-37 محمدحمزہ فاروقی:سفرنامۂ اقبال،مکتبہ اسلوب؛کراچی، طبع اول،1989 ئ،ص۔158
-38 احتشام حسین:’’روایت اور بغاوت‘‘ میں شامل مضمون’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘
یہ مضمون پہلے پہل بہ زبان انگریزی "All India Weekly" بمبئی میں شائع
ہواتھا۔اسے ’’روایت اور بغاوت‘‘ کے صفحہ100 پرملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔
-39 ایضاً:ص۔92
-40 ایضاً:ص۔265
-41 عزیزاحمد:ترقی پسندادب؛ کاروانِ ادب، ملتان، طبع اول؛1986 ئ،ص۔60
-42 ایضاً:ص۔61
-43 ایضاً:ص۔63
-44 ایضاً:ص۔74
-45 عزیزاحمد:’’اقبال نئی تشکیل،گلوب پبلشرز،لاہورطبع اول،1968 ؛
ص۔137-139
-46 آلِ احمدسرور: ’تنقید کیا ہے‘،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،نئی دہلی ،طبع اول؛1952 ئ،
ص۔107(اس خط کا ذکر رئیس احمد جعفری کی مرتبہ ’’اقبال اور سیاست ِملی‘‘
کے صفحہ96 پربھی موجود ہے۔)
47- Iqbal: Letters of Iqbal to Jinnah, Muhammad
Ashraf, Lahore; 1963: P-19
-48 رئیس احمدجعفری(مرتب):اقبال اور سیاستِ ملی،اقبال اکادمی پاکستان؛لاہور،
طبع دوم1981 ،ص۔247
-49 فقیرسیدوحیدالدین:روزگارِ فقیر(جلددوم)،لائن آرٹ پریس، کراچی،
طبع دوم،1965 ؛ ص۔98-99
-50 محمدرفیق افضل(مرتب):گفتارِاقبال،ادارہ تحقیقات پاکستان،لاہور،
طبع سوم1986 ،ص۔6-7
-51 آل احمدسرور:اقبال اور ابلیس، مرتبہ فقیراحمدفیصل،لاہوراکیڈمی، لاہور؛
طبع اول،س۔ن،ص۔268-269
-52 ایضاً:ص۔278
-53 آل ِاحمدسرور:’’اقبال اوراُس کے نکتہ چیں‘‘، مشمولہ عرفانِ اقبال مرتبہ زہرامعین،
تخلیق مرکز،لاہور، طبع اول؛1977 ،ص۔89
-54 ایضاً:ص۔92
-55 ڈاکٹرمحمدعلی صدیقی:’’ترقی پسندی کی ایک جہت؛اقبال ‘‘مشمولہ’’فکرِاقبال کے
منور گوشے مرتبہ ڈاکٹرسلیم اختر،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہورطبع اول،س۔ن،ص۔56
-56 ایضاً:ص۔59
-57 فتح محمدملک:اقبال؛فکروعمل،بزم اقبال،لاہور،طبع اول،1985 ،ص۔25
-58 ڈاکٹرایم۔ڈی تاثیر:اقبال کا فکروفن، مرتبہ افضل حق قریشی،یونیورسل بُکس،لاہور،
طبع اول،1988 ،ص۔100-102
-59 ڈاکٹرمعین الدین عقیل :’’دنیائے اسلام میں اشتراکیت اوراقبال کامسئلہ‘‘،
مشمولہ، اقبال؛1984 ، مرتّبہ؛ ڈاکٹروحیدعشرت، اقبال اکادمی، لاہور،
طبع اول، 1956 ،ص۔527-528