باب سوم: حصّہ اوّل
جدیدیت کیا ہے؟ پس منظر اور ارتقاء
جدیدیت کا ذکرآئے تو اس طرح کے الفاظ ذہن میں گونجنے لگتے ہیں جن میں سے اکثرکامادہ ایک ہے۔ ان الفاظ میں جدّت، ندرت، جدید، حالیہ، تجدّد، تجدید شامل ہیں۔ ان تمام الفاظ کے مفاہیم اور معانی جدیدیت کی تعریف کا حصہ ہیں یعنی جدید زمانے کی خصوصیات کے حامل افکار، معائیر، اصول، خیالات اور ان کے مطابق عمل جدیدیت یا جدّت پسندی کہلائے گا۔ (1)جدیدیت کے مترادفات اور مشتقّات کے متضاد لفظ قدامت ہے چنانچہ جدّت پسندی، قدامت پسندی کی ضد ٹھہرے گی۔ یوں تقلید، قدامت پسندی اور ماضی پرستی سے گریز جدیدیت کی تعریف میں شامل ہے۔
زیادہ تفصیل میں جائیں تو جدیدیت عقلی، علمی اور منطقی طورپر دنیا کو رجائیت اور ایقان کے ساتھ خوش انجامی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھنے اور اس کے لیے تگ و دو کا نام ہے۔ جدیدیت میں اس امر کو ایک مطلق آفاقی اصول گردانا جاتا ہے کہ انسان کے لیے عقل اور منطق کے ذریعے ہی حقائق کا ادراک اور معاشرے کی ترقی ممکن ہے۔
جدیدیت کا ایک اور مطلب یہ بھی ہے کہ انسان مشین ہے۔ ہم بطورانسان خالص طبیعی دنیا میں رہتے ہیں اور دنیا میں وہی کچھ ہے جس کا فہم، ادراک یا احساس ہمیں اپنی حسیات کے ذریعے ہوتا ہے۔ اسی لیے جدید ادب میں جدیدحسیات کا ذکراذکارہوتا رہتاہے۔
جدّت پسندوں کے نزدیک تاریخ اور وقت آگے کی جانب سفر کرتے رہتے ہیں اور تاریخ ثقافتی اور نظریاتی زاویے سے واقعات کا بیان ہے۔ ایک پہلو سے جدیدیت فکری سطح پر مادی حقیقت کے سحر سے نکل کر تجریدی سچ کی تلاش کا عمل بھی ہے لیکن اس طرح کہ سچ تک پہنچا تو علمی ذرائع سے جاتا ہے لیکن اس کا اظہار تجریدی طورپر کیاجاسکتا ہے۔
نئی روشنی کے خیرمقدم یا روشن خیالی کے حوالے سے جدیدیت، ثقافت کو اعلیٰ اور ادنیٰ ثقافتوں میں تقسیم کرتی ہے اور صرف اعلیٰ ثقافتوں کو ہی مطالعے یا تجزیے کے لائق گردانتی ہے۔ ایک جدید معاشرے میں جدیدانسان اپنے ارادے اور منزل کے تعین میں آزاد ہوتا ہے۔ جدید ثقافت کی ہمہ گیریت، کثرتِ پیداوار بمقابلہ صارفیت اور منڈی کا پھیلائو کسی بھی جدید معیشت کا مطمحٔ نظر ہوتا ہے۔اس رخ سے مادیت پسندی بھی جدیدیت پسندی میں داخل ہوتی ہے۔جدیدحسیت اور معاشی نظریات اپنی علامتیں، اشارے، کنائے، رمزیں اور تلازمات اپنے ساتھ لاتی ہے جو جدیدیت کی تحریک کے پیروکاروں کی تحریروں میں اپنے معانی کی جولانیاںدکھانے لگتے ہیں۔ نئے لکھنے والے یا دوسرے فنکار محض ادیب یا فن کار نہیں ہوتے کہ ثقافتی رجحانات اور تاثرات کو مجرد طورپر محفوظ کرتے جائیں بلکہ وہ انھیں تخلیقی سطح پر برت کر تجریدی اور علامتی اظہار کے منفرد پیکر تراشتے ہیں۔ اس رجحان میں سرمایہ دارانہ نظام کا ابطال بھی مادیت پسندی کے باجود شامل ہوجاتا ہے کیونکہ سرمایہ داری سرمایہ داروں کا طبقہ پیدا کرتی ہے جبکہ جدیدیت ارادے اور نیت کی پختگی کے ساتھ درمیانے طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ اسی خاص حدودوقیود کے واضح احساس کے ساتھ معیشت، معاشرت اور ثقافت کو ایک اکائی کے طورپر منعکس کرتے ہیں۔ ان جدت پسندوں میں سے ہر کوئی تو نہیں مگر کوئی کوئی اچھے برے کے درمیان تفریق کے قابل ہوتا ہے۔
متن کی تشریح و تفسیرکوبھی جدیدادب میں اہمیت حاصل ہے۔ ادبِ عالیہ کے متن کے بین السّطور اس کے حتمی معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ لفظ کتاب سے ہے اور کتاب کتب خانے کی وجہ سے ادب کا منبع ہے۔ طبع شدہ علم کی ترویج و اشاعت کتب خانوں کی مرہونِ منت ہے۔
جدیدیت کے بہت سے نکات، افکار اور معائیرمیں نوجدیدیت اور پسِ جدیدیت کے علمبردار وں نے بہت سی ترامیم اور اضافے کیے ہیں لیکن اکثردانشورانھیں ایک تحریک کے دو رخ سمجھتے ہیں تاہم یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ علم کی ترویج اب محض چھپے ہوئے لفظ کی محتاج نہیں رہی۔ جیسے انٹرنیٹ پر بلامعاوضہ دستیاب وکی پیڈیا کے مطابق جدیدیت کی اصطلاح یکے بعد دیگرے ابھرنے والی ان تمام ثقافتی تحریکوں کا احاطہ کرتی ہے جو مغربی معاشرے میں انیسویں صدی کے آخری عشروں اور بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں معاشرتی تبدیلیوں اور اتارچڑھائو کی عکاس ہیں۔ ان میں فنِ تعمیر، موسیقی، ادب اورفنونِ لطیفہ میں ظاہرہونے والی تبدیلیاں شامل ہیں۔(2)
تاریخی اعتبار سے جدیدیت کی اصطلاح کا استعمال عیسائیت کے زاویے سے شروع ہواتھا اور یہ تحریک مذہبی حوالے سے تقلید پسندی، کٹڑپن، روایت پرستی، ضعیف الاعتقادی اور دقیانوسیت کا ردّ ِ عمل تھی۔ اس صورتِ حال کوزیادہ کلی اور معروضی طورپر یوں بیان کیاجاسکتا ہے:
"Embracing change and present, modernism encompasses the works of thinkers who rebelled against nineteenth century academic and historicist traditions, believing the traditional forms of art, architecture, literature, religion, faith, social organization and daily life were becoming outdated; they confronted the new economic, social and political conditions of an emerging fully industrialized world."(3)
جدیدیت، الٰہیات اور مذہب کے حوالے سے اسلامی تاریخ میں معتزلہ عالموں کے ظہور اور اسلامی تعلیمات کی تعلیمی توجہیات کے رجحان سے مطابقت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس تحریک کے تحت بھی کیتھولک عقائد کو جدید علوم اور افکار میں برپا ہونے والے انقلاب اور یورپ کی نشاۃ ِثانیہ سے آنے والی تبدیلیوں کی روشنی میں پرکھاجاتا ہے۔ تاہم ہماری توجہ جدیدیت کے ادبی پہلو اور اس کے ادب پر اثرات کی نشاندہی پر ہے۔ اس کی جامع تعریف کچھ یوں ہے:
"It is a trend of thought that affirms the power of human beings to create, improve and reshape their environment with the aid of scientific knowledge, technololgy or practical experimentation." (4)
یہی وجہ ہے کہ جدیدیت نے تجارت سے لے کر فکری سطح تک ان معاملاتِ دنیا کا ہر زاویے سے ازسرِ نو جائزہ لیا ہے جو ترقی کا راستہ روکتے ہیں اور ایسے رجحانات اور عوامل کے مقابلے میں ارتقا کی خصوصیت کے حامل متبادل عوامل اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
جدیدیت کے باقاعدہ آغاز سے ذرا پہلے انیسویں صدی کے نصف اول میں بپاہونے والی جنگوں اور انقلابات نے ان رجحانات کو جنم دیا جسے بعد ازاں رومانویت کی اصطلاح سے پہچاناگیا۔ اس تحریک کے نمایاں نکات انفرادی تجربے کے موضوعات، تخلیقی مواقع، فطرت کی فوقیت، اظہار کے انقلابی یا غیرمقلدانہ اسالیب اور فرد کی آزادی تھے۔ 1848 ء کے رومانوی انقلاب کی ناکامی نے اثباتیت (Positivism) کے نظریے کو فروغ دیااور ان مختلف نظریات کے امتزاج نے اس خیال سے تقویت پائی کہ حقیقت موضوعی اظہار پر غالب رہتی ہے۔ یہی مشترکہ مفروضے، حوالے، مسیحی اخلاقیات اور کلاسیکی طبقات کے نظریے کاامتزاج ،فلسفے میں عقلی، مادی اور اثباتی تحریکوں کی نشوونما کا موجب بنے جو نظام اور استدلال پر زور دیتے تھے۔ ثقافتی تنقید نگار اِن افکار کے مجموعے کو حقیقت پسندی (Realism) سیتعبیرکرتے ہیں۔ عقلیت پسندی(Rationalism) نے فلسفے میں اپنے مخالفوں کو بھی ردِّعمل پر مجبور کیا۔جیسے ہیگل کے تاریخ کے جدلیاتی تجزیے کے مقابلے میں فریڈرک نطشے اور کرکے گار اٹھ کھڑے ہوئے جن کے فلسفے پر وجودیت (Existantialism) کی عمارت استوار ہوئی۔
1870ء کے بعد ترقی کے پہیے کو تیزترکرنے کی کوششوں کواس لیے تنقید کا نشانہ بناگیاکہ ترقی ایسے افراد پیدا کرے گی جو معاشرتی آداب سے انجان ہوتے جائیں گے اوروہ اپنے جیسے انسانوں سے دور ہوتے جائیں گے۔ فن کار اور معاشرے کے اخلاق میں نہ صرف یہ کہ تفریق پائی جاتی ہے بلکہ معاشرہ خود ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ اس سے اثباتیت کے فلسفے پر زد پڑی اور شوپنہار کے فلسفے پر قنوطیت کی چھاپ لگادی گئی۔ کیونکہ اس نے انسانی انا کی تکذیب کی تھی حالانکہ اسے کسی حدتک بعد کے آنے والے مفکروں نے قبول کیاتھا اور کچھ کچھ مسترد کیاتھا۔
ڈارون کے نظریۂ ارتقاء (Evolution) اور روحانیت(Spiritualism) کے اختلافات اور کارل مارکس کی طرف سے سرمایہ داری نظام کے اپنے تضادات سے پیداہونے والے معاشی مسائل کی نشاندہی بھی مل کر جدیدیت کے ارتقاء کا ایک اہم موڑ کہلاتی ہیں۔فن میں زیادہ اور ادب میں کم کم تاثریت پسندی (Impressionism) کے اثرات بھی اسی زمانے میں دیکھے گئے۔ ادب کے لیے اس اصطلاح کو مبہم بھی سمجھاگیا تاہم جس طرح تاثرپسندمصور اشیاء اور مناظر کو بعینہٖ منعکس نہیں کرتے تھے اور کیفیات کی تصویرکشی سے تاثر پیدا کرنا چاہتے تھے اسی طرح ادب میں بھی براہِ راست اظہار سے گریزکرتے ہوئے علامت کے سہارے تاثر کو الفاظ کے ذریعے قاری تک پہنچانے کو تاثریت پسندادب کہاگیا۔ ادبی تنقید میں بھی گہرے تجزیاتی مطالعے کی بجائے نقاد اگر ادبی فن پارے کے بارے میں محض اپنا تاثر بیان کرتا تو اسے تاثراتی تنقیدکہاجاتا۔ علامت پسندی(Symbolism) اس خیال کی آبیاری کرتی تھی کہ زبان اپنی فطرت میں علامتی ہوتی ہے اور اسی سے حب الوطنی کا اظہارہوتا ہے اورخاص طورپر شاعری کو محض آواز اور اس کی بنت سے پیدا ہونے والے تاثر پر مرتکز رہناچاہیے۔ ایسی علامت پسندی کو حقیقت پسندی کا ردِ عمل بھی قراردیاجاتا ہے۔(5)
اس زمانے کے سماجی، سیاسی اور معاشی عوامل کی مدد سے معاشرے میں صنعتوں کے فروغ سے حیران کن تبدیلی آرہی تھی۔ فنون، انجینئرنگ اور صنعتی مواد کی روزافزوں پیداوار سے عمارتوں، سڑکوں، ریلوں اور ریل کی پٹڑیوں سے شہری زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔ پندرھویں اور سولھویں صدی کی احیائے علوم کی تحریک کے نتیجے میں متشکل ہونے والی نشاۃ ِثانیہ کہیں دور رہ گئی تھی اور بے تار برقی پیغامات کی ترسیل سے دوریاں سمٹ گئی تھیں اور وقت کا تصور بدل رہاتھا۔ یہ صنعتی شہری ثقافت اپنے مسائل بھی لے کرآئی تھی۔
جدیدیت کے فلسفے کی پرداخت کے اس مرحلے پر ولیم ایورڈیل(William Everdell) نے زوردیاتھا کہ جدیدیت کی تحریک رچرڈ ڈیڈ یکائنڈ (Richard Dedekind) کی1872ء کی اعدادی تقسیم اور بولٹزمان(Boltzmann) کے 1874ء کی شماریاتی حرکیت (Statistical Thermodynamics)سے شروع ہوئی تھی لیکن کلیمنٹ گرین برگ (Clement Greenberg)نے کہا:
"What can be safely called modernism, emerged in the middle of the last century and rather locally, in France, with Boudelaire in literature and Manet in painting, and perhaps with Flaubert in prose fiction."(6)
وہیں پر پہلے پہل جدیدیت(Modernism) کو"avant-grade" کہاگیا اور اس کے بعد یہی اصطلاح اس تحریک کے لیے استعمال ہونے لگی جس نے اپنے آپ کو روایت پرستی اور معاشرے کو علیٰ حالہٖ (Status-Co) برقرار رکھنے کے خلاف جدوجہد کو اپنا شعار بنایا۔
انیسویں صدی کے آخری عشرے تک جدیدیت نئے عوامل اور طریقوں کی روشنی میں پرانے علوم اور خیالات پر نظرثانی کی بجائے انھیں یکسر مسترد کرنے کا وطیرہ اپنا چکی تھی۔ اس کی دلیل یہ دی گئی کہ حقیقت کی نوعیت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور انسان کے راستے میں حائل رکاوٹیں دورہوتی جارہی ہیں تو ادب اور فن کو اس زمانے کے ساتھ بدلناچاہیے جس میں صنعت و حرفت اور نظریۂ اضافیت کا ہر طرف چرچا ہے۔ اس پس منظر میں سگمنڈفرائڈ (Sigmund Freud) اور ارنسٹ میچ(Ernst Mach) کے فکرانگیز نظریے نے جدیدیت کو ایک نئی راہ دکھائی۔ ان کے خیال میں ذہن کا اپنا الگ وجود یا ساخت ہوتی ہے۔ موضوعی تجربے کا انحصارذہنی ڈھانچے کے مختلف حصوں کے اشتراکِ عمل پر ہوتا ہے۔ موضوعی حقیقت فرائڈ کی نظر میں انسان کے طبعی میلان اور بنیادی جبلتوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہی سے انسان کو ظاہری اور خارجی دنیا کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ میچ نے اسی حوالے سے اثباتیت (Positivism) کا معروف نظریہ مرتب کیا جس کے مطابق فطری طورپر اشیاء کے باہمی تعلق کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ انھیں بس ذہنی مشق کے ذریعے جاناجاسکتا ہے۔ اس طرزِ فکر نے ماضی سے مغائرت کو فروغ دیا کیونکہ اس سے پہلے یہ سمجھاجاتا تھا کہ خارجی اور مطلق حقیقت کسی فرد کو متاثرکرنے اور خود اپنا آپ اس پر واضح کرنے کے قابل ہوتی ہے۔
فرائڈ نے ایسی موضوعاتی حالتوں کا ذکرکیاتھا جس میں لاشعور ملوث ہوتا ہے۔ وہ لاشعور جس میں بنیادی اضطراری حرکتیں اور انھیں متوازن رکھنے کے لیے خود عائد کردہ بندشیں کارفرمارہتی ہیں۔ کارل ژونگ (Carl Jung) نے اسی خیال کو اجتماعی لاشعور کے فطرتی جوہر کے ساتھ آمیز کیاتھا۔ اجتماعی لاشعور، تمثیلوں اور علامتوں سے بھرپور ہوتا ہے اور وہ انھیں مسلسل قبول کرتا رہتا ہے یا ان سے نبردآزمارہتا ہے۔کارل ژونگ کے نظریے سے کہاجاسکتا ہے کہ سماجی حدودوقیود اور رسوم و رواج کے خلاف لوگوں کا باغیانہ رویّہ انسان کی ناسمجھی یا جہالت کے باعث پیدانہیں ہوتا بلکہ یہ رجحان انسان کی خصلت ہے۔ اس خیال کا کچھ واسطہ ڈارون(Darwin) کے نظریۂ ارتقاء بلکہ انسان کو حیوان قرار دینے سے بھی ہے جو پہلے ہی سے متعارف ہوچکاتھا۔
رومانیت سے ماخوذ ان خیالات کی آویزش اور نامعلوم کے بارے میں جاننے کی خواہش کی ابتدائی لہر ادباء اور شعراء کی تحریروں میں منعکس ہوئی تو شروع شروع میں انھوں نے اپنی تخلیقات کو پہلے سے رائج رجحانات کی توسیع سمجھا۔ بعدازاں جب انھیں اپنے ہی کلام اور تصویروں میں جدّت کا احساس ہوا تو بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں انھوں نے مختلف اصناف اور فنی اسالیب کی مختلف طریقے سے توضیح کی کوشش شروع کی۔
پہلی جنگِ عظیم برپاہونے سے پہلے ہی سماجی ڈھانچے میں توڑپھوڑکاآغاز ہوچکاتھا۔ انقلاب کی علمبردار سیاسی جماعتوں کااجتماعی رویہ اور پرانی اقدار کی شکست و ریخت اظہار کے ہرذریعے اوراسلوب میں راہ پاچکی تھی اور اس رجحان نے پرانے رواجوں کو مسترد کردیا تھا یا انھیں تبدیل کرکے قابلِ قبول بنالیاتھا۔ اسی رو میں آئن سٹائن(Einstein) نے 1913 ء میں اپنے عمومی نظریۂ اضافیت پر مقالہ پیش کیا اور نیلزبوہر(Neils Bohr) کے Quantized Atom ، ایڈمنڈھسرل(Edmund Hussrel) کے خیالات(Ideas) اور ایذراپائونڈ (Ezra Pound) کی علامت نگاری سے دنیائے علم و ادب متعارف ہوئی۔
اس پیش رفت نے جدیدیت کو نئے معانی، مفاہیم اور جہات سے آشنا کیا۔ ادب میں جدیدیت نے تخریب اور بگاڑ کو اپنالیااور ادب میں سیدھی سادھی حقیقت نگاری کو یا تو مسترد کردیا یا اس سے آگے بڑھ گئی۔ انیسویں صدی کے تخلیق کاروں کے برعکس جو ارتقاء پر یقین رکھتے تھے، چارلس ڈکنز (Charles Dickens)اور لیوطالسطائی(Leo Tolstoy) جیسے ادیب نہ ہی اتنے انقلاب پسند اور نہ ہی اتنے لاابالی تھے جتنا ان کے بعد آنے والی نسل کے ادیب تھے۔ ان کا شمار معاشرے کے ذمہ دار اور معزز افراد میں ہوتا تھا۔ اگرچہ وہ بعض اوقات معاشرے کے بعض ناپسندیدہ پہلوئوں پر تنقید بھی کیاکرتے تھے تاہم انھوں نے ماحول کو اپنی تحریروں سے مالا مال بھی کیا۔ جدیدیت ان کے عہدمیں بھی ترقی کی پرچارک رہی اور روایتی اسالیب، اصناف اور سماجی ڈھانچے کو ترقی کے راستے کی رکاوٹیں گردانتی رہی۔ اس لیے ایسے ادیبوں کو بہرحال انقلابی ہی شمارکیاجاتا رہا جو افکار وخیالات کو اپنی تحریروں سے تبدیل کرنے کی بجائے پرانے سماجی ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے پریقین رکھتے تھے۔
مستقبلیات(Futurism) کی تحریک یا نظریہ بھی اس کے منشور میں شامل نکات کے مطابق لوگوں کو اکسانے اور اپنا پیروکار بنانے کے لیے تھا تاکہ وہ بھی انتشاراور شکست و ریخت کے عمل میں شامل ہوجائیں۔ برگساں(Bergson) اور نطشے(Nietzshe) کے افکارسے متاثر مستقبلیات کی تحریک بھی جدت پسندوں کی خلل انگیزی اور توڑپھوڑ کا عقلی اور فکری جواز تلاش کرتی تھی۔ داداازم(Dadaism) میں ماورائے حقیقت پسندی (Surrealism) کی تحریکیں یا رجحانات بھی جدیدیت ہی کا شاخسانہ تھیں۔
منطقی طورپر بہت سے جدّت پسند اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ روایت سے انحراف کرکے ہی ادب اور فن اظہارکے نئے راستے تراشنے کے قابل ہوسکتا ہے لیکن جدیدیت کے ناقدین جدیدیت یا نو جدیدیت کو پاگل پن سے تعبیرکرتے ہیں اور اسے روح سے خالی اور میکانکی کہتے ہیں۔ روایت شکنی جدیدیت کی تحریک کا سب سے متنازعہ پہلو ہے۔
جدیدیت کے پیروکار اظہار رائے کی آزادی ، تجربیت اور انقلابیت پر زور دیتے ہیں۔ ادب میں اس کا مطلب ناولوں میں قابلِ فہم کردارنگاری اور داستان نویسی سے احتراز ہے۔ شاعری میں بھی براہ ِراست اور دو ٹوک اظہار کی بجائے مشکل اور ابلاغ کے ناقابل اسلوبِ بیان جدیدیت کی ہی دین ہے۔روس کی اشتراکی حکومت نے جدیدیت کو اس لیے مسترد کیا کہ اس کی نوعیت اشرافیائی ہے اگرچہ اس سے پہلے وہ مستقبلیات اور تغیریت کے رجحان کی توثیق کرچکی تھی۔ نازی حکومت نے جدیدیت کونرگسیت کے مترادف اور مہمل قراردیاتھا بلکہ وہ تو اسے یہودانہ اور نیگروسمجھتی تھی۔
دراصل جدیدیت کو عام طورپر صارفانہ اور سرمایہ دارانہ معاشروں میں پنپنے کا موقع زیادہ ملا حالانکہ اس نے صارفیت کو درخورِاعتنا کبھی نہیں جاناتھا۔ ردِّجدیدیت کی تحریکیں انھیں وجوہات کی بناپر کلیّت(Holism) پرزوردیتی ہیں۔ اس نظریے سے مراد ہے کہ وجود کی شناخت اور تشخص اس کے کل اور اجزاء سے ماوراء بھی ہے۔ اس خیال کا علاقہ روحانیت سے ہے جسے جدیدیت کے مرض کے علاج کے طورپر متعارف کروایاگیا ہے۔ ایسی تحریکیں جدیدیت میں سے تخفیفی عنصرتلاش کرتی ہیں جس کے باعث جدیدیت کوئی منضبط نتائج اور اثرات پیداکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ بہت سے جدت پسند بھی اسی نتیجے پر پہنچے اور بالآخر تصوف کی طرف مائل ہوگئے۔ انھوں نے اس رجحان کی تکذیب کی کہ تخلیقی اظہار کو تکنیکی حقائق کی تصدیق کرنی چاہیے۔ ایسے جدت پسندجو جدیدیت سے کنارہ کرتے ہیں، انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے انفرادی تخلیقیت کے قائل ہوجاتے ہیں۔(7)
جدیدیت اور تغیر
جدیدیت کی تعریفیں اوپرآچکی ہیں۔ ان تعریفوں کے مطابق جدیدیت کے بہت سے پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو تغیربھی ہے۔ تغیر کے مترادفات تبدیلی، فرق، اختلاف، دگرگونی، چاندکاگھٹنابڑھنا، ریزگاری، خردہ، آہنگ، تنوع، تبدیلیٔ آب و ہوا، دن رات اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔رائے بدلنا، ارادہ بدلنا، تدبیربدلنا بھی تغیر ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ بے ثباتی، متلون مزاجی، ناپائیداری، بے قراری اس کی منفی یا مثبت کیفیات ہیں۔(8) تغیّراس قدر فطری امر ہے کہ یہ کائنات کے ذرے ذرے میں اور وقت کے آنات کے حوالے سے جاری و ساری ہے۔ تغیر سے کسی کو مفر نہیں چاہے وہ انسان ہو، شجر ہو، حجرہو،چرندہو، پرندہو۔
جدیدیت کا نام تبدیلی ہے۔ ذہنوں کی تبدیلی، مظاہرکی تبدیلی، معمولات کی تبدیلی، روح کی تبدیلی، ایسی تبدیلی جو معاشرے میں ترقی کا سبب بنے۔ ایک تغیر فطری ہے، جبکہ جدیدیت جس تغیرکی بات کرتی ہے اس کے لیے تگ و دو کرنابھی ضروری ہے۔ جدیدیت بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ وقت اور تاریخ میں کبھی ٹھہرائو نہیں آتا۔ اسی طرح انسانی فکر بھی ایک جگہ رکتی نہیں بلکہ متغیراورمتحرک رہتی ہے۔ معائیر اور افکارمیں ترامیم اور اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ ایجادات اور انکشافات بھی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ تعمیراتی مواد سمیت تعمیراتی اسالیب، لباس، اوزار ایک سے نہیں رہتے۔ مادی اور غیرمادی ثقافتوں میں تبدیلیاں رونماہوتی رہتی ہیں اور ان ہمہ نوع اور ہمہ جہت تغیرات کو جدیدیت کی رو سے ادیبوں کی تحریروں میں راہ ملنی چاہیے۔ تغیر کی ضد ثبات ہے، پائیداری ہے۔ غیرمتبدل ہے، راسخ ہے، استوارہے۔ ثبات جدیدیوں کے نزدیک ترقی کے راستے کی رکاوٹ ہے۔
ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی بنا، جو جدیدیت ہی کے ایک پہلو کی تشریح کرتا ہے، اپنی روح میں تغیر ہی پر استوار ہے۔
ادب ہو،شاعری ہو یا ناول نگاری، انشائیہ ہو یا افسانہ نویسی انسانی احساسات اور جذبات ہی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انسان ہی کے ہردم متغیر جذبات کبھی خوشی کبھی غم، کبھی رجائیت کبھی یاس، کبھی سکون کبھی بے قراری، کبھی محبت کبھی نفرت کی عکاسی ہر شاعر اور افسانہ و ناول نویس کا مطمحٔ نظرہوتا ہے۔ انسانی مزاج تغیرآشنا ہی نہیں تغیرپسند ہے۔ اس لیے کیا عجب کہ جدیدیت تغیرکی علمبردار ہے چاہے وہ تبدیلی توڑپھوڑ، شکست وریخت اورمعاشرے میں انتشار کی صورت میں ہی کیوں نہ ظاہرہو تاہم اس کا مقصد بالآخرمعاشرے کی بہتری ہوناچاہیے۔
جدیدیت اور روایت
روایت کے لغوی معنی، رسم، رواج، سنّت، عقائداور وہ تاریخی شعور ہے جو اسلاف سے اخلاف تک نسل در نسل غیرمحسوس طورپر منتقل ہوتارہتا ہے۔ نظریات اور حقائق کے انتقال کا تسلسل روایت کی خاصیت ہے۔(9)
روایت پرستی ایک رجحان ہے جس کے پیروکار روایت کا اتباع کرتے ہیں اور انھیں اہم سمجھتے ہیں۔ ان اصول وقواعد پر ،جوماضی میں طے ہوئے ہوں چاہے وہ مذہبی ہوں یا سماجی، چپکے رہنے اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی کی مزاحمت بھی روایت پرستی کے زمرے میں آئے گی۔
روایت پرستی روایت کی نقّالی، تقلیداور تسلسل ہے، جبکہ جدیدیت روایت کے تسلسل کا انقطاع ہے۔ یہ انقطاع فرضی بھی ہوسکتا ہے تاکہ جدیدیت اور روایت کا فرق سمجھاجاسکے۔ ورنہ جیسے بہتے پانی میں لٹھ مارکر اسے الگ الگ نہیں کیاجاسکتا اس طرح روایت اور جدّت بھی جداجدانہیں کی جاسکتی۔ادب کے ماضی سے لکھنے والوں کو روایت کے بہت سے پہلوئوں میں سے لسانی روایتیں،فکری روایتیں اور ہئیتی روایتیں ڈھلی ڈھلائی ملتی ہیں۔ کلاسیکیت شاید اسی کا نام ہے۔ ادباء اور شعراء کلاسیکیت اور روایت کی تقلید کرتے ہوئے بھی رواں عہد میں ان میں ترمیم اور اضافے کرتے رہتے ہیں اوران کا کہا ہوا آئندہ نسلوں کے لیے روایت کے طوپر محفوظ ہوکر انھیں منتقل ہوتارہتا ہے۔
ادیب کو زبان کے پیرائے، اصطلاحات، انتقاد کے تصورات، اصناف، ہئیتیں، صنائع، بدائع ، تلازمے، کنائے،علامتیں، اقدار، ثقافتی مظاہر، فکری زاویے ورثے میں ملتے ہیں اور وہ اس کے مزاج کاحصہ ہوتے ہیں۔ استواریت، استقلال، آزمودگی روایت کی خاصیتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ادیب بار بار اِن سے رجوع کرتا ہے۔ جدیدیت بھی روایت کے بغیربے معنی ہوتی ہے۔ روایت کی تبدیلی سے جدت طرازی کا آغازہوتا ہے۔ روایت میں مابعدالطبیعات بھی شامل ہوتی ہے جبکہ جدیدیت نشاۃ ِثانیہ اور تشکیلِ نو کے دور سے نکل کر جدیدعلوم کے زمانے میں داخل ہوئی تھی۔ روایت کا سحراپنی جگہ مگر جدیدیت بھی انسان ہی کی فلاح کے لیے ہے۔ جدیدیت نئے پن کا، تجربے کاخیرمقدم کرتی ہے۔ آواں گارد یا جدیدیت کی وجہ سے دانشوروں کا ایک طبقہ ہرمعاشرے میں ظہورپذیرہوا جس نے پرانے دقیانوسی خیالات، گھسے پٹے رسوم و رواج کو مستردکیا لیکن زیادہ جدت پسندشاعروں ا ور ناول نگاروں نے روایت اور کلاسیکیت کے رچائو سے اپنے اسالیب، علامتوں، استعاروں اور تلازموں میں تازگی اور نیاپن پیداکیا۔ روایت کو نئے زمانے سے منسلک کیے بغیر برتنا شاید کسی فطری تخلیق کار کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ایشلے ڈیوکس (Ashely Dukes) کہتا ہے کہ :
’’روایت کامیاب تجربے کے نتیجے کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘(10)
یعنی ادیب روایت کی پیروی کرتے ہوئے روایت سازی میں بھی مصروف ہوتا ہے جس کے لیے اسے ریاضت کرناپڑتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ Tradition and Individual Talentمیں یہی بیان کرتا ہے کہ(روایت)’’ترکے میں حاصل نہیں کی جاسکتی اور اگر وہ تمھیں درکار ہوتو اسے پانے کے لیے تمھیں ان تھک محنت کرناہوگی۔‘‘(11)
جدیدیت میں تعمیریت، دادائیت، انحطاط، وجودیت، اظہاریت ،آزادنظم، مستقبل شناسی، رمزیت، انسان دوستی، شعور کی رو، علامت نگاری، تاثریت، تجریدیت اور جدیدحسیت سب کچھ شامل ہے لیکن یہ تمام رجحانات اور تحریکیں ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کے ذریعے کسی بھی زبان اور اس کے ادب کی روایت کا حصہ بن چکی ہیں۔ کیونکہ ہرلکھنے والا ورثے میں ملے اس سرمائے سے خوشہ چینی بھی کرتا ہے اور اسے کسی نہ کسی طرح بدلتا بھی ہے اور اس پر اثراندازبھی ہوتا ہے۔(12)
روایت کے بارے میں ایک نکتۂ نظر محمدحسن عسکری کا بھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ’’روایت کے معنی سمجھے بغیر ادب چل نہیں سکتا اور مغرب روایت کے معنی سمجھنے میں بالکل ناکام رہا ہے…روایتی ادب اور روایتی قول صرف روایتی معاشرے میں پیداہوسکتے ہیں اور روایتی معاشرہ وہ ہے جو مابعدالطبیعات پر قائم ہو…مابعدالطبیعات صرف ایک ہی ہوسکتی ہے۔ یہی اصل اور بنیادی روایت ہے۔ اس کا کسی نسل یا ملک سے تعلق نہیں۔ البتہ اظہارکے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔‘‘(13)
حسن عسکری کی ابتداجدت نگاری سے ہوئی تھی لیکن آخر آخر وہ روایت پرست ہوگئے تھے۔ عبوری معاشرے میں بھی جدت فروغ پاسکتی ہے۔ اس لیے کہ جدیدیت نے جن معاشروں میں جنم لیااور پروان چڑھی وہ بھی کبھی روایتی معاشرے ہی تھے۔’’ضروری نہیں کہ جدیدیت زمانی اعتبار سے قربت سے ناپی جائے۔ جدّت زمانی یا مکانی نہیں بلکہ ایک نکتۂ نظر کا نام ہے۔‘‘(14) جیسے میر، نظیر اور غالب کو بھی جدیدشعراء میں شامل کیاجاتا ہے۔ روایت کے ادراک کے بغیر کسی ناقد کے لیے کسی نظم یا ناول کی تفہیم ممکن نہیں ہوتی۔ اس کے بغیر کسی فن پارے کے متن کے معانی ہی سمجھ نہیں آتے۔’’روایت کسی ادبی کام کی مکمل ساخت کو سمجھنے کے کام آسکتی ہے۔‘‘(15) اس ضمن میں تاریخیت کے رجحان کو بھی کام میں لایاجاسکتا ہے جس کا تعلق ماضی کے حوالے سے روایت سے نکل آتا ہے۔ تاریخیت کا مطلب ان روایات، تصورات اور معمولات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے جوکسی تہذیب اور معاشرے کے تسلسل کا باعث ہوتے ہیں۔
جدیدیت اور عصریت
تاریخیت کا تعلق عصریت سے بھی ہے اور روایت سے بھی۔ دراصل تینوں عوامل یا رجحانات ایک دوسرے سے کسی قدرمختلف بھی ہیں اور ایک دوسرے پر جزوی طورپر منطبق بھی ہوتے ہیں۔ عصرکے معنی زمانے کے ہیں۔ زمانے کا تعلق وقت، عہد، دور سے ہوتا ہے۔ یہ عہد پرانابھی ہوسکتا ہے ،نیا یا حالیہ بھی اور آنے والابھی۔ یہ تینوں زمانے، جنہیں ہم ماضی، حال اورمستقبل سے پہچانتے ہیں مل کر ایک اکائی بنتے ہیں۔ ادبِ عالیہ میں ان تینوں صورتوں کا احساس اور ادراک پایاجاتا ہے۔ کیونکہ ادبِ عالیہ کا کوئی بھی فن پارہ اپنے عصرکاہوتا ہے اور ہرعصرکابھی یعنی جوشاہکارِ ادب رفعتِ تخیل کے سبب زمانے یا عصریت کے احساس سے ماورا ہوجاتا ہے اسے زندۂ جاوید کہاجاسکتا ہے چاہے اس کے اشارے، علامتیں، احساسات، خیالات اور رجحانات اپنے ہی زمانے کا عکس ہوں۔ تاریخ سے عصریت یوں مختلف ہے کہ تاریخ، واقعات کا محرر بیان ہوتی ہے جبکہ ادب میں تاریخ بالواسطہ طورپر در آتی ہے جیسے تلمیح کے طورپر۔ عصریت واقعاتی اظہارنہیں ہوتی بلکہ کسی واقعے کا تاثراتی اور تخلیقی بیان ہوتی ہے جو ادب کی کسی صنف کے فنی تقاضے بھی پورا کرتا ہو، عصریت سے مراد کسی مخصوص عہد کے معاشرتی، تہذیبی، علمی اور فکری سطح پر رونماہونے والے واقعات، مقبول خیالات، انکشافات کی آگہی ہے جس کے بغیر ادب کی تخلیق ناممکن ہوتی ہے۔ ادب اور ادیب اپنے عصر سے جداہو ہی نہیں سکتا۔ ایمی دی گارماں کا کہنا ہے کہ فن کار اپنی ذات کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی اپنے زمانے کے بارے میں لکھتا ہے۔ٹی۔ ایس۔ایلیٹ نے یہی بات الٹی طرح کہی ہے کہ’’ادیب بعض اوقات زمانے کے بارے میں لکھتے ہوئے ذات کے بارے میں بھی لکھ جاتا ہے۔‘‘(16)
ادیب عصریت کے حوالے سے ماضی پرست بھی ہوسکتے ہیں اور جدید بھی یعنی اپنے زمانے کے بھی۔ جدیدیت کا تعلق بھی ارتقاء سے ہے اور زمانہ بھی مسلسل آگے کی طرف سفر کررہا ہے جس طرح ہرلمحہ گزشتہ لمحے کے مقابلے میں نیاہوتا ہے۔ عصریت میں نئے پرانے کی بحث بھی بہت پرانی ہے اور زمانی یا عصری تقسیم کو مشکل سمجھتے ہوئے بھی اس پر مباحث جاری رہتے ہیں۔ ہر زمانے کی اپنی جدیدیت ہوتی ہے اور اپنی قدامت بھی۔ اور اس میں اس زمانے کی روح تلاش کی جاسکتی ہے۔روحِ عصر یا کسی زمانے کا مزاج ہر نوع کے تاریخی فلسفوں کا محور رہا ہے۔’’جب ہم کسی تاریخی دور کے سیاسی، عمرانی، اقتصادی، علمی اور فنی عوامل و مؤثرات کا ذکرجلی رجحان یا اجتماعی رخ کی روشنی میں کریں گے تو یہ رجحان یا رخ اس تاریخی دور کی روح ہے۔‘‘ (17) اور یہی اندازِنظرعصریت کہلائے گا۔
علی عباس جلالپوری نے مختلف ادوار کے غالب رجحانات کے حوالے سے ان کی روح کی نشاندہی کی ہے۔ان کے خیال میں زمانہ انتسابِ ارواح، مسلکِ زرخیزی اور مسالکِ زرخیری کی اصلاح، عقل وخرد کی جبلت کی فوقیت کے کلاسیکی نظریۂ حیات، عالمی برادری کے رومی تصور، فلسفے اور مذہب کی آویزش یعنی علمِ کلام سے آگے بڑھ کر آزادیٔ فکرونظر جدید علوم کے ارتقاء کے نتیجے میں صنعتی انقلاب اور اس کے بعد کے عہدمیں حقیقت پسندی کے زاویۂ نگاہ کی تشکیل تک آپہنچی ہے۔ اس طرح آج کی عصریت میں جدیدیت کے سارے عناصر، سارے رخ اور رجحانات شامل ہیں۔(18)
ادب میں عصریت کی اہمیت کی طرف کارل ژونگ نے بھی توجہ دلائی۔اس کی متعارف کردہ اصطلاح Sychronicity کے ایک معنی لسانیات کے حوالے سے ہم عصریت کی تلاش ہے۔اس طرزِ فکر سے زمانے، وقت اور عصرمیں مطابقت پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے عصری یگانگت بھی کہہ سکتے ہیں۔Sychronicity کا اردو ترجمہ ہم عصریت بھی کیاجاتا ہے۔
برگساں کا واقعیتِ زماں کا نظریہ بھی عصریت ہی سے متعلق ہے۔ اس نے گھڑی کے حساب سے وقت کی پیمائش کے مقابلے میں زمانی دورانیے یعنی گزارے ہوئے وقت کا تصورپیش کیا۔ اس نے ارتقاء کو میکانی نہیں تخلیقی عمل قراردیااور عصریت اور زمانے کے تصور میں تحرک اور تغیرتلاش کیا۔ حیات کی ندرت اور یکتائی اس کے خیال میں زمانے کے دورانیے یا عصریت کے ادراک ہی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔
ڈاکٹرسلیم اختر نے اپنی کتاب تنقیدی دبستان میں فرانسیسی نقاد ایڈمنڈشیرر کے خیالات نقل کیے ہیں۔شیرر کے بقول ’’کسی مصنف کی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس امرکا تعین بھی کرنا کہ اس نے اپنے عہدکے حالات سے متاثرہوکر اپنی صلاحیتوں کا رخ کس طرف موڑا…مصنف کے کردار اور شخصیت کی تفہیم اور اس کے عصر کا تجزیہ۔ ان دونوں سے ہی اس کی تخلیقات کو درست طورپرسمجھاجاسکتا ہے۔‘‘(19)
ان بیانات کی روشنی میں کسی ادیب اور شاعر کی تخلیقات کی صحیح معنوں میں تشریح کے ضمن میں عصریت کے عنصر کی اہمیت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
اسی طرح ایک اور فرانسیسی نقاد طین(Taine) نے بھی تنقید کے فارمولے کے طورپر تین عناصرکو اہمیت دی تھی۔ یہ عناصر(1) نسل(Race) (2) ماحول(Milieu) اور(3) لمحۂ تخلیق (Moment)ہیں اور ان تینوں عناصر کا واضح طورپر تعلق عصریت سے بنتا ہے:
’’اس نظریہ کی رو سے ادیب اپنے عہدکی پیداوار ہے۔ وہ کسی خاص نسل سے وابستہ ہے اور ایک مخصوص نوعیت کے سماج میں جنم لیتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی خاص مقام اور تاریخی لمحہ کے مخصوص اثرات مل جل کر اس کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہوئے ادبی شعور اور تخلیقی استعداد کو کسی مخصوص سانچے میں ڈھال کر خاص طرح کا پیرایۂ اظہار عطاکرتے ہیں۔‘‘(20)
جدیدیت اور اجتہاد
اجتہاد کا لفظ ہمارے ہاں عام طورپر دینی اصطلاح کے طورپراستعمال ہوتا آیا ہے لیکن اس کا ایک معنی جدّت بھی ہے۔ اس طرح اس کی نسبت جدیدیت سے بھی ہے۔جدّت اور اُپج میں اجتہاد اور اختراع کا مفہوم شامل ہونے کے معانی یہ ہوئے کہ تقلید سے گریز اور قدامت پسندی سے اجتناب کو بھی اجتہاد کہہ سکتے ہیں اور جدیدیت بھی قدامت پرستی اور تقلید کی ضد ہے۔(21)
اختراع ہر طرح کی نئی ایجاد کو کہتے ہیں چاہے وہ فکری ہو، لسانی ہویا تجرباتی۔ فنون اور صنعت و حرفت میں عام پیش رفت نت نئی ایجادات اور اختراعات سے ممکن ہوتی ہے جن سے ہم جدید دور میں داخل ہوئے۔ یوں اجتہاد جدیدیت کے مترادف معلوم ہونے لگتا ہے۔اجتہاد کے لغوی معنی جدوجہد، کوشش اور تگ و دو کے ہیں اور جدیدیت میں بھی معاشرے کی ترقی کے لیے پوری تندہی کے ساتھ اپنی عقل اور علم کو استعمال میں لانے کی تلقین موجود ہے۔یہ جدوجہد کسی فرسودہ رواج کی تبدیلی کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور معاشرے کو یکسر تبدیل کرکے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی انقلاب لانے کے لیے بھی۔
اجتہاد کے معانی قیاس کے بھی ہیں لیکن ایسا قیاس جو رائے کی حد تک پہنچ چکاہو اور رائے بھی وہ جو غوروفکر اور تحقیق کے بعدقائم ہو۔(22) غوروفکر اور تحقیق کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس میں عقلی، منطقی ، علمی اور عملی ہرطرح کی تحقیق اور تجزیہ شامل ہوگیااور یہ سارا طریقہ اورعمل جدیدیت کی جان ہے۔ اجتہاد میں کسی مسئلے کی توضیح اور کسی نظریے کی تشریح تحقیق کے نتائج کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ چنانچہ جدیدیت کے ایک لازمی عنصر یا جزو کے طورپر تجربیت اجتہاد میں بھی کام آتی ہے۔
اجتہاد کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب دینی معاملے میں کسی مسلّمہ ماخذ سے راہنمائی نہ ملے یعنی جمود کی کیفیت سے واسطہ پڑے۔وہ مسئلہ ایسا ہوسکتا ہے جسے حل کیے بغیرمعاشی، معاشرتی اور اخلاقی طورپر پیش رفت میں اڑچن پیش آرہی ہو۔ ایسے میں مسئلے کے حل کے لیے جدّت طرازی لازمی ہو جاتی ہے یعنی اجتہاد اگر خالصتاً دینی اصطلاح بھی ہو تو مذہب میں تحرّک اور تغیر اجتہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے:
’’حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت معاذ ؓ بن جبل کو یمن کا والی مقرر کیا تو فرمایا: ’تمہارے فیصلوں کی بنیاد کس چیز پر ہوگی؟‘ انھوں نے عرض کیا: ’کتاب اللہ پر‘۔ارشاد ہوا:’اگر کتاب اللہ کسی مسئلے پر خاموش ہو تو پھر؟‘ انھوں نے عرض کیا:’سنتِ رسول اللہؐ پر۔‘ فرمایا:‘’اگر سنتِ رسول اللہؐ میں بھی مسئلہ زیرِ بحث کی طرف کوئی اشارہ نہ ملے تو بنائے فیصلہ کیاہوگی؟‘ معاذ ؓ ؓنے کہا:’میری اپنی رائے یعنی اجتہاد۔‘(23) یعنی اجتہادبھی ایک علمی، تحقیقی اور تجزیاتی سرگرمی ہے۔ اس کے لیے اجتہادی میں غوروفکراور استدلال کی صلاحیت ضروری ہے۔ اسالیبِ بیان، معانی اور لغت پر عبور بھی اجتہاد کے لیے لازمی شرط ہے۔حقیقت اور مجاز کا تعین،مجمل اور تفصیل کا ادراک اور علّت ومعلوم کی سمجھ بوجھ اجتہادی کو جدیدیت کے پیروکاروں کے برابر ہی نہیں لاتی ان پر فضیلت بھی دیتی ہے۔
جدیدیت کا ایک اورپہلو رائے کی آزادی بھی ہے اوراجتہاد دراصل اظہارِرائے کی آزادی کے بغیرممکن ہی نہیں ہوتا۔ بعض عالم قول بالرّائے اور اجتہاد میں تفریق کرتے ہیں کہ اجتہاد علماء کے باہمی مشوروں سے رائے قائم کرنے کانام ہے۔ جبکہ قول بالرائے ذاتی رائے کہلائے گی۔
یہاں پراصول اور فروع کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مجتہد یا اجتہادی اصول کے ذیل میں کسی مذہب یافقہ کاپابندہوتا ہے لیکن فروع میں آزاد ہوتا ہے۔ یوں اجتہاد کے اصطلاحی معنوں میں اظہار رائے کی آزادی ضروری ہے اگرچہ اجتہاد عام معنوں میں اظہار رائے کی آزادی کے بغیر اجتہاد نہیں ہوتا بلکہ اجتہاد تو دوسروں کی رائے کی آزادی کا احترام کرتا ہے اور اختلافِ رائے کا حق دیتا ہے۔اجتہاد بہرحال روایت کو بعینہٖ قائم رکھنے اور مذہبی اخلاقیات کو اسی صورت میں باقی رکھنے کے خلاف اسلامی تعلیمات کی رو سے واحد اوزار، آلہ یا طریقہ ہے جس سے اسلام کے اصولوں پر نئے علوم اور تازہ خیالات کی روشنی میں جزوی یا مکمل تبدیلی ممکن ہے۔
اہم جدّت نگار
ولیم شیکسپیئر (1564-1616)(William Shakespeare) کو صرف انگریزی زبان ہی نہیں، ہر عہد،ہرملک اور ہرزبان کے ادب میں عظیم ترین شاعراور ڈرامہ نگار تسلیم کیاجاتا ہے۔
شیکسپیئربرطانیہ کے شہر Stratford-upon-Avon میں پیداہوا۔ اس کا تعلق تاجرخاندان سے تھا۔ تعلیم سے فارغ ہوکر جس کی تفصیلات دستیاب نہیں، وہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگیا۔1582 ء تک اس نے اداکاری میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی اور شاید یہی شوق اسے لندن لے آیا۔ یہاں آکر وہ ایک ڈرامہ کمپنی سے منسلک ہوا جس کے لیے اس نے ڈرامے لکھے بھی اور کبھی کبھار کوئی کردار اداکرتارہا۔ 1599 ء میں اس نے گلوب تھیٹر میں باقاعدہ شراکت داری اختیار کرلی جو اس کے تاجرانہ پس منظر کے سبب نفع بخش ثابت ہوئی اور1613 ء میں وہ آسودگی کے ساتھ گزربسر کے لیے کافی دولت کما کر واپس اپنے شہر اپنے تین بچوں اور بیوی کے پاس لوٹ آیا۔
ابتدا میں شیکسپیئرکے ڈرامے شگفتہ اور نیم مزاحیہ تھے۔ ان میں تاریخی عنصر نمایاں تھا۔ ان میں The Comedy of Errors،تین قسطوں پرمبنیHenry the VII ، Richard III،King Jhon اور The Taming of the Shrew جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ بعدازاں شیکسپیئر نے غنائی ڈراموں کا آغاز کیا جن میں مزاح سے بھی کام لیاگیا تھا۔ اس رو میںRichard III ، The Merchant of Venice ،
A Midsummer Nigths Dream، Romeo and Juliet ،دو قسطوںمیں Henry IV ، Henry V، Julius Ceasar ،Twelfth Night جیسے اہم ڈرامے تخلیق ہوئے۔ ان کے علاوہ شیکسپیئرکے شاہکار ڈرامے Hamlet ، King Lear ، Macbeth ، Antony and Cleopatra ، Othello اس کی ڈرامہ نگاری کے تیسرے دور میں لکھے گئے اور کھیلے گئے۔ آخری اور چوتھے دور کے ڈراموں میں Pericles ، The Tempest ، Henry VIII اور The Winter's Tale شامل ہیں۔
ڈراموں کے علاوہ شیکسپیئرنے سانیٹ Sonnet کی ہیئت میں 150 سے زائدنظمیں بھی لکھیں۔
شیکسپیئرکے ڈرامے زورِبیان، لفظیات کے شکوہ اور لہجے کے طنطنے کے سبب دیکھنے والوں اور پڑھنے والوں کو متاثرکرتے تھے۔ اسے کرداروں کی مناسبت، واقعات کی پیچیدگیوں، جذبات کے اتارچڑھائو، انبساط، گدازاور نوحہ گری کو موزوں ترین الفاظ، استعارات، تلازمات اور اشارات میں پیش کرنے میں کمال حاصل تھا۔ اس کے ڈرامے انسانی نفسیات اور سماجی حقیقتوں کے اتنے قریب تھے کہ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے تھے۔ ذہانت، تخلیقیت اور مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی سے اس نے بظاہر عام سی کیفیات اور معمولات کو تخلیقی رفعتوں سے آشنا کردیا۔ المیے کا جدیدروپ اور مسائل کی نئی تفہیم اس کے آخری ڈراموں میں زیادہ قوت کے ساتھ منعکس ہوئی ہے۔
شیکسپیئرخودکوئی مفکریانظریہ ساز نہ تھا لیکن ناقدین اور شارحین نے کولرج، لیمب، ھیزلٹ اور آرنلڈ وغیرہ سے شیکسپیئرکے ڈراموں کے پلاٹ، کہانیوں کی بنت، غنائیت، منظرکشی، تاریخیت، مزاح اور رسوم کی پیش کش کو کھنگال کراس میںسے شیکسپیئرکے نفسیاتی نظریے، دینی رجحانات، بادشاہت اور بادشاہوں کے بارے میں اس کے رویے کا سراغ لگایا ہے۔
جدیدیت سے پہلے یا جدیدیت کے بعد اس سے پھوٹنے والی کوئی تحریک ایسی نہیں جس پر شیکسپیئرنے اپنا اثرمرتب نہ کیاہو، خاص طورپر رومانیت کی تحریک پر۔ وہ قدیم ہوتے ہوئے بھی اتنا جدید ہے کہ بیسویں صدی تو خاص طورپر شیکسپیئرکی صدی قراردی جاتی ہے۔(24)
ولیم جیمز(1842-1910) (William James) امریکہ کا مشہورفلسفی اور ماہرنفسیات تھا۔ ’اصولِ نفسیات ‘کے عنوان سے اس کی کتاب نفسیات کی بنیادی کتابوں میں شمارہوتی ہے۔ وہ یہ مضمون ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتابھی رہاتھا۔ وہ انتہائی بااخلاق اور مہذب انسان گردانا جاتا ہے۔ اس کے افکار اور اسلوب میں ارادیت(Voluntarism) عملیت (Pragmatism)اورانقلابی تجربیت (Radical Empiricism) کے رجحانات ملتے ہیں۔ ’شعور کی رو‘کی اصطلاح ولیم جیمز ہی کی وضع کی ہوئی ہے۔ وہ شعورکو متحرک، فعال، ہردم رواں اور انتخاب میں آزاد خیال کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہم کائنات کے بے جوڑ تسلسل سے اپنی دنیاتراشتے ہیں، ارادہ اور دلچسپی کو ابتدائی حیثیت حاصل ہے۔ علم ایک ذریعہ ہے۔ سچائی دراصل ہمارے خیالات کی راہ میں ایک مصلحت کا کام دیتی ہے۔ افکار سے ہمارے مقاصد حاصل نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے راستہ ہموار ہوتا ہے اور یہ ان کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ایک خیال (Idea) یا فکرکا کام صرف یہ بتلانا ہے کہ ایک عملی مقصد کے کیا اثرات ہوں گے۔ ان سے ہمیں کس قسم کے Sensations کی امیدکرنی چاہیے اور کس قسم کے ردّعمل کے لیے تیاررہناچاہیے۔‘‘(25) اس فلسفے کو عملیت کی اصطلاح سے سمجھاگیا۔
سگمنڈفرائڈ (1852-1932)(Sigmund Freud) آسٹروی ماہرعصبیات تھا۔اسے تحلیلِ نفسی کا بانی سمجھاجاتاہے جس کی بنیاد اس خیال پر تھی کہ انسانی ارتقاء کو جنسی خواہش کے بدلتے ہوئے عوامل کے ذریعے ہی سمجھاجاسکتاہے۔ لاشعور اس کے خیال میں خواہشات کو دباتا ہے۔ خاص طور سے ایسی خواہشات جو جارحانہ اور جنسی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ لاشعور دبی ہوئی نفسانی خواہشوں سے متصادم ہوتا ہے تو اس کااظہار خوابوں اور Freudian Slips کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ لاشعوری کشمکش اعصابی اور نفسیاتی خلل کا سبب بنتی ہے۔ فرائڈ سمجھتا تھا کہ نفسیاتی خلل کاعلاج تحلیلِ نفسی کے ذریعے دبی ہوئی یادوں، خیالات اور خواہشوں کا شعوری احساس دلاکر کیاجاسکتا ہے۔
فرائڈابتدا میں عمل تنویم کے ذریعے نفسیاتی مریضوں کا علاج کرتاتھا لیکن بعد میں اس نے آزادانہ اختلاط اورخوابوں کے تجزیے کے ذریعے علاج شروع کر دیا ۔اس طریقۂ علاج کو وہTalking Cureکا نام دیتاتھا۔ یہ تمام پہلو اس کی تحلیلِ نفسی میں تھراپی کے طورپر استعمال کیے جانے لگے تھے۔
ادب میں نفسیاتی حقیقت نگاری اورپیچیدہ کرداروں کی تہ دار پیش کش فرائڈ کے خیالات سے متاثرہوکر ممکن ہوئی۔ شناخت، انااور انائے مطلق، موت و حیات کی جبلت اور مذہبی نفسیات کے رجحانات ،جدیدادب اور فلسفے میں اسی کے حوالے سے داخل ہوئے۔ اضطراب، بے قراری، غصہ، جھنجھلاہٹ، دماغی خلل، فن کی تخلیق میں اسی کے طفیل معاون قرارپائے۔(26)
کارل ژونگ (1875-1916)(Carl Jung) کا نام بھی فرائڈ کے ساتھ لیاجاتا ہے۔ دونوں نے ایک ساتھ کام بھی کیا لیکن ژونگ کا نام نفسیات اور انسانی ذہن پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مصنفوں میں لیاجاتا ہے۔ وہ نفسیات کا مطالعہ نشریات، فلکیات، کیمیا، خوابوں، فنونِ لطیفہ، اساطیر، مذہب اور فلاسفی کی روشنی میں کرتا ہے۔وہ تضادات کے اتصال جیسے مردانگی اور نسوانیت، فکراورجذبہ، روحانیت اور عقلیت سے نتائج نکالنے پر یقین رکھتا ہے۔ اگرچہ خوابوں کا تجزیہ اس سے پہلے بھی ہوتارہتاتھا لیکن خوابوں کے مطالعے کو اس نے نئی وسعتوں اور بلندیوں سے آشنا کیا۔ وہ نفسیاتی معالج تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے تقابلِ مذاہب وافکار سے لے کر ادب اور فنونِ لطیفہ کی تنقید تک کئی دوسرے علوم میں بھی دلچسپی لی۔ اس نے آر کی ٹائپ (Archetype) ، اجتماعی شعور(Collective Conscious) ، پیچیدہ جذباتی تجربات(The Complex) اور عصریت (Synchronicity) جیسے تصورات کو پہلی بار جدیدیت سے متعارف کروایاتھا۔(27)
جیمزجائس(1882-1941)(James Jyoce) کا تعلق بھی ژیٹس کی طرح آئرلینڈ سے تھا۔ اس نے ناول کی تکنیک اور زبان کے استعمال میں جدّت پیدا کی جو بے ربطی، پریشان خیالی اور عدم تسلسل سے عبارت ہے۔ خیالات کے بے لگام بہائو یا شعوری کیفیتوں کے آزادانہ اظہار کے اس اسلوب کو بھی جدیدیت کی دین کہاجاتا ہے۔ اس کا ناول Ulysses اس رجحان کا نمائندہ ہی نہیں شاہکار تسلیم کیاجاتاہے۔جیمزجائس شاعری میں نام پیدا کرنے میں ناکامی پرناول کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ اس کے پہلے مجموعے ڈبلائنرز(Dubliners) کی کہانیوں کی بنت میں جوڑدکھائی نہیں دیتا اگرچہ وہ نئے انداز کی کہانیاں تھیں، اس کے دوسرے ناول، ایک فن کار کا پورٹریٹ بطور نوجوان(A Portrait of the Artist as a Young Man) میں اس نوجوان فنکار کی داستان میں حقیقت پسندی سے کام لیاگیا ہے۔ جس ناول نے اسے جدیدناول نگاروں کی صف اوّل میں لاکھڑاکیا۔وہ Ulysses تھا جو اس نے1914 ء اور 1921ء کے دوران میں لکھا۔ اس کا ناشرمشکل سے ملااور اس ناول پرفحاشی کا الزام بھی لگایاگیا۔ بالآخر یہ ناول1922 ء میں پیرس سے چھپا۔ امریکہ میں 1923 ء تک اس پر پابندی لگی رہی۔ اس ناول کی کہانی کا تانا بانا بہت الجھا ہوا ہے۔ اسے شعور کے روکے رجحان کی مثال اسی لیے کہاجاتا ہے کہ اس کا پلاٹ ایک نہیں کئی سطحوں پرآگے بڑھتا ہے۔کرداروں کے ساتھ زبان بھی بدلتی ہے جس میں لسانی قواعد اور صرف و نحو کا کوئی خیال نہیں رکھاگیا ہے۔ محاورے اور فقروں کے استعمال میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیاگیا اس لیے اسے پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ کردار ایسے ہیں کہ جیسے وہ اختلالِ نفس کا شکارہوں۔ اسی لیے ناول کے کردار اپنی نفسی کیفیتوں میںاـظہار کے اندازبدلتے جاتے ہیں۔مختلف کردار بھی مختلف انداز میں بات کرتے ہیں۔ (28) اس طرح کے ناول کے ایک ناقد جیرالڈگولڈ کے مطابق’’انتشار ِخیال کے لحاظ سے ایک ٹیلی فون ڈائریکٹری یولیسز سے زیادہ اہمیت کی مالک ہے۔‘‘ اس نے اس ڈائریکٹری کو اس اعتبار سے فن پارہ اور یولیسز کو ردی کی ٹوکری قراردیا۔(29) لیکن اس کے باوجود بہت سے نقادوں نے اس کے اسلوبِ نگارش کومعنی آفریںسمجھااور اس کی مختلف علامتوں، تمثیلوں اور لفظیات اپنے اپنے مطالب اور معانی نکالے۔ اس ناول کو اس لحاظ سے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کہ جائس نے اس میں مذاہب، اساطیر، جغرافیائی عناصر،زبانوں اور دوسری بے شمار اشیاء اور مظاہرکے بارے میں اپنے زندگی بھر کے علم، تجربے اورمشاہدے کو اس ناول میں سمیٹ لیا ہے۔(30)
ایذراپائونڈ (1885-1972)(Ezra Pound) اڈاھو، امریکہ میں پیداہوا۔ اس نے ہملٹن کالج سے پی ایچ بی اور پنسلوانیا یونیورسٹی سے ایم اے تک تعلیم پائی۔ کچھ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہا۔ وہ بارہ سال لندن اور چار سال پیرس میں مقیم رہا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ A Lume Spento 1908 ء میں وینس اٹلی سے شائع ہوا۔ بعد ازاں اس نے کوئی بیس سال اٹلی میں گزارے۔اس نے تنقید پر نو کتابیں لکھیں۔ اس کے پندرہ شعری مجموعوں میں ایک Collected Poemsہے۔ پورے یورپ اورامریکہ میں جدیدیت کے فروغ کے لیے کسی اور ادیب نے اس جتنا ہمہ جہت اور متنوع تخلیقی اور نظری کام نہیں کیا۔ ولیم بٹلر ژیٹس، جیمز جائس، ارنسٹ ھیمنگوے، رابرٹ فراسٹ، ڈی ۔ایچ لارنس اور ٹی ۔ ایس ایلیٹ جیسے نامور شاعروں، افسانہ نگاروں، ڈرامہ نویسوں اورنقادوں کو ایذراپائونڈ نے جدید طرزِ احساس پرمبنی ادب تخلیق کرنے پر آمادہ کیااور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ فاشزم کی حمایت میں نشری تقریروں کی پاداش میں وہ گرفتار ہوااور 1958 ء تک نظربندرہا۔
1912ء میں پائونڈ شکاگو کے جریدے "Poetry" کا لندن میں نمائندہ بن گیا۔ علامت نگاری کی تحریک کے سرخیل کے طورپر اس نے علامت نگاروں کا پہلا منشور تحریرکیا جس میں اس نے شاعری میں سیدھی سادھی لفظیات اور زبان کے چھدرے (Sparse) استعمال پرزور دیا۔ اس نے علامتی شاعری کا پہلا مجموعہ Des Imagistes بھی1914 ء میں مرتب کیا۔
جدیدادب کے صورت گرکے طورپر ایذراپائونڈ نے اپنے دوست ژیٹس کو زیادہ مترنم نئی شعری بندشیں اختیارکرنے کی ترغیب دی۔ 1914 ء میں پائونڈاور جیمز جائس کے درمیان ہم آہنگی کا آغازبھی ہوا جوابھی ژیٹس کی طرح معروف نہ تھا۔
لندن کے مجلے"The Egoist" کے غیراعلانیہ مدیر اور Little Review نیویارک کے مدیر کے طورپر اس نے جائس کے دوناولوں A Portrait of the Artist as a Young ManاورUlysses کی طباعت و اشاعت میں مدد کی، جس سے جائس ادبی حلقوں اور قارئین سے متعارف ہوا اور اس کی مالی معاونت بھی ممکن ہوئی۔ اسی سال اس نے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کو بطورِ شاعر اور نقاد ادبی زندگی کے اسی طرح کے آغاز میں مدد دی۔
1909ء میں اس کی شاعری کی دو کتابیںچھپیں جن میںExultations نمایاں ہے۔ 1909-10 کے دوران لندن میں دیے جانے والے خطبات پر مبنی کتاب
1910 Spirit of Romanceء میں شائع ہوئی۔
امریکہ میں اپنی ادبی حیثیت مستحکم کرنے میں ناکامی کے بعد وہ ایک بارپھر یورپ لوٹ آیا۔1911 ء میں ایک اشتراکی ہفت روزہ ـ’’Age ‘‘کے ایڈیٹر Orage نے اسے اپنے ادارۂ تحریر میں شامل کرلیااور اس طرح اس کی گزربسرکابندوبست ہوگیا۔ وہ اس مجلے کے لیے اگلے نوسال تک لکھتارہا۔ انگریزی شاعری میں رابرٹ فراسٹ اور ڈی ایچ لارنس پرابتدائی تنقید اسی نے لکھی اور ان کے فنی محاسن کی توصیف کی۔
اس کی نظموں کے اگلے دو مجموعے Ripostes اورLustra بالترتیب1912 ء اور1916 ء میں منظرعام پرآئے۔1918 ء میں اس کی تنقیدی کتابPavannes and Divisionsنیجدیدیت کو نئے مفاہیم عطاکیے۔ اس نے ابتدائی چینی شاعری کے تراجم"Cathay" کے عنوان سے1915 ء میں کیے۔ اس کے بعد جاپانی زبان کے گلی محلے میں محدود کرداروں کے ساتھ کھیلے جانے والے مختصر ڈراموں کی دو جلدوں کو اس نے 1916 ء اور1917 ء میں انگریزی کے قالب میں ڈھالا۔
پہلی جنگ عظیم کی ہلاکت خیزیوں سے پریشان حال اور مایوس ایذراپائونڈ نئے امکانات کی تلاش میں برطانیہ سے پیرس منتقل ہوگیا۔ پیرس ہجرت سے قبل اس کی دو سب سے اہم نظموں میں سے ایک Homage to Sextus Propertius 1919 ء میں تخلیق ہوئی جو اس کے مجموعے Quia Pauper Amavi میں شامل ہے۔ دوسری نظمHugh Selwyn Mauberley 1920 ء کی ہے۔ Mauberley برطانوی ثقافت کے ایک پہلو کی مکمل لفظی تصویرکشی ہے جس سے اس ادبی منظرنامے کی ہوبہو تصویراپنی جزئیات سمیت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ یہ نظم بیسویں صدی کی اہم ترین نظموں میں شمارکی جاتی ہے۔ 1917 ء کی Propertius برطانوی سلطنت پرشعری تبصرہ ہے۔
لندن میں بارہ سالہ قیام کے بعد ایذراپائونڈ اپنے آپ کو نظری طورپر ایک مکمل اور تخلیقی اعتبار سے بھرپور شاعر کے روپ میں ڈھال چکاتھا۔’’اس کا انداز آخری عہد کے وکٹورین جیساہوگیاتھا جس کے لیے محبت ’طنبور کے تاروں‘،’مسلے ہوئے ہونٹوں‘ اور ’نابینا کی غیرواضح کہانیوں‘ جیسی کوئی کیفیت تھی۔ چھ سات سال تک وہ بالغوں کے لیے نئی طرز کی شاعری کرتارہاتھا جو غیرمحسوس طورپر عام بول چال کے اسلوب میں ڈھل رہی تھی۔دانش کی شیشے کی طرح شفاف مگر خشک تر تخلیقی رو میں پائونڈ کی شاعری میںکفایت لفظی، ایجاز و اختصار اور بیان کی شستگی کے اوصاف نمایاں رہے۔ اس نے تجربے کے لمحات پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے حقیقی بصری تمثالوں اور حسیاتی تفصیلات کو مکمل فنی گرفت کے ساتھ برتا۔‘‘ (31) اس کی نظمیں پر مغز اختصار کی حامل ہوگئی تھیں جس کی خواہش میں وہ پرانے ادب کے مطالعے میں ہمہ وقت غرق رہاکرتاتھا۔ اس نے اینگلوسیکسن شاعری ،یونانی اور لاطینی کلاسیکی ادب، دانتے اور انیسویں صدی کے فرانسیسی شاہکار جیسے تھیو فائل گاتیر کی Emaux et Camees،اور گستاف فلابیر کا ناولMadam Bovary گھول کرپی لیاتھا۔ ’’اپنے دوست ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی طرح پائونڈ ایسی جدیدیت کا خواہش مند تھا جو زندگی کے گزشتہ اعلیٰ معیاروں کا احیاکرے۔‘‘ (32) جدیدیت برائے جدیدیت نے، جس کی آزمائش ماضی کے حوالے سے نہ ہوئی ہو، اس کے شعری مزاج میں تکفیر کے رجحانات پیداکردیے تھے اور اس کے اظہار کی کوشش اس طرح کی غیررسمیت میں دیکھی جاسکتی ہے ؎
چائے پیو اور سیزر پر لعنت بھیجو
سب سے آخری فتح کی بات کرو
1911ء میں اپنی اینگلوسیکسن نظمSeafarer میںاس کا اعتماد اور تھا۔ یہی خوداعتمادی اس کی آزاد نظم 1912-The Return ء میں بھی تھی ؎
دیکھو! وہ لوٹ آئے ، آہ! دیکھو!
ان کی متذبذب جنبشیں اور سست پائوں
لفظوں کے قدرتی آہنگ سے مملو، مختصرنظموں کو لفظیاتی کاملیت کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر اس کی برسوں کی ریاضت کاثمرتھا۔ اپنی آواز کو بلندکیے بغیر پائونڈ اب انسانی جذبات، احساسات، معاملات اور کیفیات کو پوری فنکاری کے ساتھ منعکس کرنے پرقادرتھا۔ لفظوں کی ترتیب وتغیر اور ان سے پھوٹنے والی رمزیں اورتمثالیں اسے نوجوانی کے تجربات سے مستعار لینے کی حاجت نہیں رہی تھی۔ وہ مشق کے دور سے گزرچکاتھا اور اب ایک پختہ کار اور قادرالکلام شاعرتھا۔وہ استعارے اور علامتیں اب اس کی خلاقانہ ذہانت اور وہبی صلاحیت کا حاصل تھیں۔Lustra کی نظمیں کاملیت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچتی ہیں ؎
نہ ہی اس میں مضمرزندگی اس وقت کی شفاف خنکی
سے کچھ بہتر کی خواہش کرسکتی ہے
ایک ساتھ جاگنے کے وقت
لیکن وہ نظم جس میں پائونڈ کی جدیدحسیّت اپنے عروج پر ہے، اٹھارہ حصوں پرمشتمل طویل نظم Hugh Selwyn Mauberleyہے۔ یہ نظم فن کار اور معاشرے کے تعلق کے گہرے مشاہدے اور تجربے سے لے کر صنعت و حرفت کی پیداواری صلاحیت کی چیرہ دستیوں اور جنگ عظیم اول کی تباہ کاریوں کا احاطہ کرتی ہے۔ دیکھیں ماضی کی طبّاع بازگشت اس نظم میں کس طرح درآئی ہے ؎
جب ہمارے دو اجسام والرکے ساتھ دفن ہوں گے تو
انھیں تغیرکے ہاتھوںایک اندازِ تغافل سے
مسمار ہونے تک جداجدا کیاجاتارہے گا
ایک حسن کے سوا۔
مگر ماضی کی بازگشت میں ایسے ایجازواختصار کے ساتھ ؎
نرم خواور ان پڑھ محبوبہ کے ساتھ
اس نے اپنی صلاحیتوں کا امتحان لیا
اور مٹی اذیت سے دوچارہوئی(33)
1921ء سے 1924 ء کے درمیان ، اپنے پیرس میں قیام کے دوران میںپائونڈ نے ارنسٹ ہیمنگوئے کے ساتھ ایک نغماتی ڈرامہ Le Testament لکھنے میں تعاون کیا۔ ایلیٹ کواس کی طویل نظم The Waste Land کی تخلیق میں اس نے مفیدفنی مشورے دیے اور نیویارک کے رسالے The Dial کے نمائندے کے طورپر فرائض انجام دیے۔
1927ء میں پیرس سے مایوس ہوکر پائونڈاٹلی میں قیام پذیرہوا ،جہاں اس نے اگلے بیس سال گزارے۔1927-28 ء میں اس نے اپنا رسالہ Exile نکالا اور1930 ء میں اپنی طویل نظمThe Cantos جو اس نے1915 ء میں شروع کی تھی، مختلف حصوں میں The Draft of xxx Cantosکے عنوان سے شائع کی۔ نظم کے اگلے حصے 1934 ء تک چھپتے رہے اور اسی سال اس کی بہترین نثری تحریروں کا مجموعہ Make it New منظرعام پرآیا۔ تاریخ و ثقافت پر اس کی نثری تحریر کا مجموعہ1938 ء میںGuide to Kulchure کے عنوان سے چھپا۔
1930ء کی عظیم کسادبازاری نے اسے تاریخ اور خاص طوپرمعاشی تاریخ کی طرف راغب کیا۔ وہ معیشت میں اس وقت سے دلچسپی لینے لگا تھا جب 1918 ء میں اس کی ملاقات سی۔ ایچ ڈگلس (C.H. Douglas)سے ہوئی تھی۔ ڈگلس کے معاشی نظریات کے مطابق ناکافی قوتِ خرید کے باعث دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ،معاشی کسادبازاری کی بنیادی وجہ ہے۔ ایذراپائونڈ کا خیال تھا کہ حکومت اور عوام کی جانب سے بنکاری اور سرمائے کی غلط تفہیم اور عالمی بنکاروں کے ہاتھوں سرمائے کا ناجائز ارتکاز اور استعمال طویل جنگوں پرمنتج ہوا ہے۔ وہ معاشی مسائل اور مالیاتی اصطلاحات کے بارے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس نے ABC OF Economics ، Social Creditاور What is Money for ? جیسی کتابیں لکھ ڈالیں۔ وہ سیاست میں بھی ملوث ہوگیا اور اس نے اٹلی کے مردِآہن بینیتومیسولینیBenito Missolini کی تعریف میں ایک کتاب لکھ دی۔ اس رجحان کی شدت نے اس کے Canto کی تخلیق پربھی اثرڈالا۔ جنگِ عظیم دوم قریب آئی تو وہ امریکہ لوٹ آیا کہ شاید وہ اٹلی اور امریکہ کے درمیان امن کے قیام میں مدد دے سکے مگر ایک بار پھر مایوس ہوکراسے پھر اٹلی آناپڑا اور اس نے ریڈیوروم پر جیمز جائس سے لے کر سرمائے اور امریکی حکومت پر یہودی بنکاروں کے کنٹرول کے موضوعات پر سینکڑوں ریڈیائی تقریریں کرڈالیں۔ ان تقریروں میں وہ امریکیوں کے جنگی جنون کو کھلے عام مطعون کرتاتھا۔ 1945 ء میں اسے امریکی فوج نے گرفتار کرلیا اور چھ ماہ تک ایک کیمپ میں قید رکھا جس میں جنگی مجرموں کو رکھاگیاتھا۔ یہ کیمپ پیسا کے قریب تھا۔ ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اس دوران میں پائونڈ نے کنفیوشس کے افکار کو انگریزی میں منتقل کردیا، اسی دوران میںاس نے Prison Cantosلکھے جو اس کی مسلسل زیرتخلیق طویل نظم کا سب سے زیادہ دلگداز اور المناک حصہ ہے۔
امریکہ واپسی پراس کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلایاگیا لیکن پاگل اور ذہنی طورپر مقدمہ کے ناقابل سمجھ کر اسے1958 ء تک دماغی امراض کے ہسپتال میں رکھاگیا۔ 1958 ء میں اسے بالآخر بری کردیاگیااور اس کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے۔
وہ اٹلی پھرواپس آیااور 1960 ء کے بعد اس نے لکھنا لکھانا ترک کردیا۔ اس کے Cantos نامکمل رہ گئے جو اس وقت تک آٹھ سو صفحات تک پھیل چکے تھے۔ ان کینٹوز میں ہئیت کی کوئی پابندی نہیں ملتی۔ اسے یونانی دیومالا،قدیم چینی تہذیب ، بازنطینی اور مصری اساطیر اور نشاۃ ِثانیہ کے بعد کے اطالیہ کا ایک ذاتی مراقبہ یا سفرکہاجاتا ہے۔ جان آدم، تھامس جیفرسن اور کئی دوسرے معاشی مفکرین کے افکار اور بنکاری اورمالیاتی مسائل کے عمیق مطالعے سے بھی Cantos میں تنوع اور وسعتِ خیال پیدا ہوئی۔ اپنی تمام فنی کمزوریوں اور استقام کے باوجود Cantos اس صدی کی بہترین نظموں میں سے ایک تسلیم کی جاتی ہے۔
پائونڈ کا انتقال وینس میں ہوا۔ اس نے جدیدیت کے نظریے کی ترویج و اشاعت کے لیے عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ساٹھ سے زائد کتب تصنیف کی ہیں اور ستر سے زائد کتب کی تدوین و اشاعت اسی کی مساعی کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ اس نے پندرہ سو سے بھی زائد مضامین سپردِ قلم کیے تھے۔ اس کی زندگی بھرکی قلمی کاوشوں اور عملی سرگرمیوں کے طفیل اسے جدیدیت کا باواآدم کہاجائے تو غلط نہ ہوگا۔(34)
فیڈریکو گارسیالورکا (1898-1936)(Federico Garcia Lorca) سپین کا مشہورشاعر اور ڈرامہ نگار ہے۔ اس کی پیدائش غرناطہ کی ہے۔ وہ فاشزم کے کٹڑ مخالفوں میں شامل تھا اور خانہ جنگی کے دوران میںانھی کے ہاتھوں غرناطہ میں1936 ء میں مارا گیا حالانکہ وہ سیاست میں عملی طورپرحصہ لینے سے اجتناب کرتاتھا۔ وہ تو بس اظہار کی آزادی، انسان دوستی، عالمی امن کا علمبردارتھا۔ اس نے اپنے ڈراموں، نظموں ،تقریروں اور موسیقی کے ذریعے ہسپانوی کلاسیکی روایت، دیومالا اور عوامی جنگوں کو جدید فنی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور اس کے بہترین نمونے حقیقت نگاری، تجریدیت اور رمزیت کا دل نشیں امتزاج ہیں۔
اس کی مقبولیت کا آغاز اس کے ڈراموں’ماریا پنیدا، پرلم پینوکابلیسا سے باغ میں معاشقہ، موچی کی حیرت انگیز بیوی اور کنواری بڑھیا بے بی روزتیا، سے ہوا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ ’شاعرکی کتاب‘ اوردوسرا مجموعہ’خانہ بدوشوں کے گیت‘تھا۔ اس کا تیسرا شعری مجموعہ’شاعرنیویارک میں‘ امریکی معاشرے کی میکانکیت، مادیت اور غیرتخلیقی مزاج کے خلاف احتجاج ہے۔ سیاح تھیٹرکمپنی لابراکاکی ملازمت کے دوران میںاس نے ڈراموں کی ہدایت کاری کے علاوہ تین مشہور ڈرامے‘کسان المیے،خونی شادی،پارسا اوربرنارڈالباکاخاندان بھی لکھے اور ان کے ذریعے عوامی تھیٹر کے ایک نئے رجحان کوتحریک دی۔ ’بلی کلب کی کٹھ پتلیاں‘ کٹھ پتلی تھیٹر کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ زندگی کے آخر ی دنوں میں اس کا آخری شعری مجموعہ ’بل فائٹر کی موت پر نوحہ‘ شائع ہوا۔ لورکا بطور شاعر، ڈارمہ نگار، مصور اور موسیقار متنوع اور گوناگوں صلاحیتوں کا حامل غیرمعمولی فنکارتھا۔
اس کے تمام فن پارے اپنی ثقافتی روایات، معاشرتی مسائل اور لوک دانش سے تحریک پاتے ہیں۔ وہ فوق الحقیقت کی تکنیک کو بھی کامیابی سے استعمال کرسکتا تھا اور دیومالائی پراسراریت کو بھی۔ شعریت اور غنائیت کو تمثیل میں آمیزکرکے اس نے مؤثر ڈرامے تخلیق کیے۔ نفسیاتی اور سماجی حقیقت نگاری اس کے ہاں جذبے اور جبلّت کے اخلاقی تصورات کے ساتھ تصادم کی تصویرکشی کرتی ہے۔ زمین اس کے نزدیک زندگی اور تحرک کا سرچشمہ بھی ہے اور موت کی امانت دار بھی۔ اس نے کلاسیکی اور جدید رجحانات کو ہم آہنگ کرکے یورپ کی دوسری زبانوں اور ہسپانوی زبان کے ادب میں تفاوت کم کرنے کی کوشش کی۔ (35)
ہینری برگساں(1859-1941)(Henri Bergson) نے تحرک، تغیراور ارتقاجیسی اقدارکے اثبات میں غیرمتحرک اقدار کومسترد کیا اور اپنے ان خیالات کا اظہارکیا جو بعدازاں’’تدریجی عملیہ‘‘کا فلسفہ کہلائے۔ وہ ایک صاحب طرز نثرنگار بھی تھا اور علمی حلقوں کے علاوہ غیرفلسفی عام شخص کے لیے بھی قابل فہم انداز میں لکھناجانتاتھا۔
باپ کی طرف سے برگساں پولستانی یہودی خاندان سے تعلق رکھتاتھا جنہیں The Sons of Berek یاBerek Son کہاجاتاجو برگساں میں بدل گیا۔ اس کا باپ باصلاحیت موسیقار تھا۔ اس کی ماں کا تعلق ایک انگریزیہودی خاندان سے تھا لیکن برگساں کی پرورش خالصتاً فرانسیسی انداز میں ہوئی۔ اس نے عمرکا زیادہ ترحصہ پیرس میں گزارا۔اس کی تعلیم پیرس کے لائسی کنڈرسیٹ(Lycee Condorcet) میں ہوئی جہاں اس نے ثابت کیا کہ وہ فطری اور بشری علوم میں ایک سی خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے۔ وہ1878 ء سے1881 ء تک پیرس کےEcole Normale Superieure میں پڑھتارہا۔ یونیورسٹی اساتذہ کی تربیت کے ذمہ دار اس ادارے کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ وہ یونانی اور لاطینی کلاسیک میں یکساں سہولت محسوس کرنے لگا۔ یہیں اس نے اپنے فلسفیانہ کام کا آغاز کیا۔اس علاقے میں قیام کے دوران میں اسے وہ خیالات وجدانی سطح پر سوجھے جو بعدازاں فلسفے پر اس کی اولین کتابوں کی بنیادبنے۔اپنے اس دور کے بارے میں برگساں نے ممتاز امریکی نتائجیت پسند ولیم جیمز (William James)کو لکھا کہ اس سے پہلے وہ میکانکی نظریات سے وابستہ رہا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ وابستگی ہربرٹ سپنسر(Herbert Spencer) کے مطالعے کا نتیجہ تھی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سائنس میں وقت کو استقرار نہیں۔ یعنی سائنس کی بنیاد ہی استقرار کے خاتمے پرہے۔ اس انکشاف کے بعد اس نے بہ مراحل اپنے تمام پچھلے تصورات ترک کردیے۔ اس تبدیلی کا پہلا نتیجہ ایک مقالےAn Essay on the Immediate Data of Conciousness, Time and Free Willکی صورت میں نکلا۔ 1889 ء میں چھپنے والے اس مقالے پراسی سال اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔ برگساں نے اپنے اس کام میں کوشش کی کہ سائنس میں مستعمل تصور اور گھڑی سے ناپے جانے والے وقت کے مقابلے میںزمانی اور دورانیے یعنی گزارے گئے وقت کا تصور پیش کرے۔ اس نے انسان کی اپنی داخلی ذات سے آگہی کا تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ نفسی حقائق باقی تمام حقائق سے کیفیتی طورپر مختلف ہیں۔ اس نے نفسیات دانوں پرالزام لگایا کہ وہ نفسی حقائق کو شمارکرنے اور انھیں قدری سطح پربیان کرنے کے عمل میں ان کا ابطال کردیتے ہیں۔ اس نے خاص طورپر فیکنر (Fechner) کے قانون پرتنقیدکی جس میں مہیج یعنی انگیخت کی شدت اور اس کے پیداکردہ احساس کے درمیان قابل پیمائش تعلق موجود ہونے کا دعویٰ کیاجاتا ہے۔ جب ایک بار اس کے ذہن سے دورانیے اور توضیح اور کیفیتی اور قدری کے متعلق ابہام دور ہوئے تو اس نے دعویٰ کیا کہ سائنسی جبریت کے نام پرانسانی آزادی پرلگائے گئے اعتراضات کوبے بنیاد تصورکیاجاسکتا ہے۔
برگساں نے پیرس لوٹ کرLycee Henri IV میں پڑھاناشروع کیا۔1891 ء میں اس نے مشہور ناول نگار مارسل پرائوسٹ (Marcel Proust) کی کزن سے شادی کرلی۔ اسی عرصے میں وہ جسم اور ذہن کے درمیان موجود تعلق کا مطالعہ کرتارہا۔ تب اس تعلق پر نفسی فعلیاتی متوازیت (Psychophysiological Parallelism) کا نظریہ زوروں پرتھا۔ اس کی رو سے ہر نفسی امر کی مطابقت میں ایک فعلیاتی امرموجود ہوناچاہیے۔ یوں ذہن اور جسم کے تعلق پر جبریت طاری کردی گئی تھی۔ برگساں کو یقین تھا کہ اس نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں جبریت کا استرداد کردیا ہے لیکن اسے یہ بھی علم تھا کہ اس نے جسم اور روح کے باہمی تعلق پراپناکوئی نظریہ نہیں دیا۔ اس مسئلے پر اس کی تحقیق کے نتائج1896 ء میں "Matter and Memory" کے عنوان سے چھپے۔ اس کی کتابوں میں سے یہ مشکل اور مکمل ترین کتاب ہے۔اس کتاب میں جو طریقہ اپنایاگیا وہ فلسفیانہ طرزِ تخلیق کی ایک مثال ہے۔ اس کتاب میں برگساں نے عمومی قیاس کو آگے بڑھانے سے گریز کیا اور نہ ہی قیاسی نظام کی وضاحت میں پڑا۔ اس نے کتاب کا آغاز بعض مسائل کے تجزیے سے کیا۔ سب سے پہلے اس نے ان قابلِ مشاہدہ حقائق کا تعین کیاجو اس وقت تک موجود سائنسی مہارت کے لیے ممکن تھے۔ اس نے پانچ سال تک یادداشت پردستیاب تمام ادب پڑھ ڈالااور زبان کے استعمال کی صلاحیت کھوبیٹھنے یعنی ایفیسیا (Aphasia)کی حالت کا خصوصیت سے مطالعہ کیا۔ نفسی فعلی متوازیت کے نظریے کی رو سے دماغ میں آنے والے کسی خلل کو نفسی قوت کی فعلی بنیادوں کو بھی متاثرکرناچاہیے تھا۔ برگساں کا استدلال تھا کہ ایفیسیا کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ متاثرہ شخص دوسروں کی بات سمجھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اسے کیا کہنا ہے، اس کے اعضائے گویا ئی بھی مفلوج نہیں ہوتے مگر اس کے باوجودوہ بول نہیں سکتا۔ دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ یادداشت نہیں کھو گئی بلکہ جسم کی میکانیت متاثرہوئی ہے جس کی مدد سے یادداشت کااظہارہوسکتا ہے۔ برگساں نے اپنے اس مشاہدے سے نتیجہ اخذکیا کہ ہماری یادداشت اور، اسی لیے، ہمارا ذہن یاروح جسم پرمنحصرنہیں ہے بلکہ اپنا الگ وجود رکھتی ہے۔ اس مضمون کا پیشہ ورانہ جریدوں میں ناقدانہ جائزہ لیاگیا۔ یہ مضمون اس منزل کی طرف پہلا قدم تھا جہاں پہنچ کر برگساں اپنے زمانے کے مقبول ترین اور موثر ترین اساتذہ اور مصنفوں میں سے ایک قرارپایا۔ 1897 ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کی حیثیت سے Ecole Normale Superieure لوٹا جہاں انیس برس کی عمرمیں وہ بطور طالب علم داخل ہواتھا۔پھر1900 ء میں اسےCollege of France میں تعینات کیاگیا جو پورے فرانس میں مؤقّرترین علمی ادارہ شمارکیاجاتاتھا۔ یہاں بھی وہ اعلیٰ ترین معیارات پرکامیاب استاد ثابت ہوا۔ اس کے بعد پہلی جنگ عظیم چھڑنے تک برگساں ازم کا دور دورہ رہا۔ ولیم جیمز اس کی تصانیف کا مطالعہ ذوق و شوق سے کرتاتھا۔ اپنے زمانے کے یہ دومستند عالم گہرے دوست بن گئے۔ ہر کہیں برگساں کے فلسفے کی شرح اور اس کی تصانیف پرتبصرے نظرآنے لگے ۔بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ فلسفے میں ایک نئے دور کا آغازہوا ہے جس نے ادب، موسیقی، مصوری، سیاست اور مذہب جیسی متنوع سرگرمیوں کوبھی اہمیت دی ہے۔1907 ء میں برگساں کی مشہورترین کتابCreative Evolution منظرِ عام پرآئی۔ اسے بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں میں چھپنے والے عظیم ترین کاموں کی فہرست میں رکھاجاتا ہے۔ کتاب نے اس امر پر مہرتصدیق ثبت کردی کہ برگساں عمل کے تسلسل کا فلسفی ہے۔کتاب سے یہ بھی سامنے آیا کہ اس کے افکار پر حیاتیات کا عمیق اثر ہے۔ برگساں نے تصور حیات پرغوروفکر کے عمل میں ارتقا کو مسلمہ سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرلیا۔ تاہم اس نے اس نظریے کی فلسفیانہ تعبیر پرتنقیدکرتے ہوئے ثابت کیا کہ دورانیے کی اہمیت کونظرانداز کرنے کے باعث حیات کی ندرت اوریکتائی سے صرفِ نظرہوجاتا ہے۔ اس نے تجویز پیش کی کہ پورے ارتقائی عمل کو قوتِ حیات کے استقرار کی صورت میں دیکھناچاہیے۔ یہ قوتِ حیات نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ نت نئی شکلوں میں اپنی نمودکے لیے کوشاں ہے۔ مختصر یہ کہ ارتقا میکانی نہیں بلکہ تخلیقی عمل ہے۔ برگساں نے خیال پیش کیا کہ تشکیل کا یہ عمل متوازی خطوط میں وقوع پذیر ہوتا ہے جن میں سے ایک خط جبلت اور دوسرا ذہانت کے ارتقا کاخط ہے۔ جبلت کے تحت حشرات اور دیگرجاندارزندہ ہیں جبکہ ذہانت کے ارتقا کا نتیجہ انسان ہے۔ تاہم یہ دونوں ایک ہی قوت ِحیات کا شاہکار ہیں جو دنیا میں ہرجگہ کارفرما ہے۔ کتاب کے آخری باب کا عنوان ’’فکر اورمیکانیاتی التباس کی سینمائی میکانیت‘‘ ہے۔ اس باب میں فلسفیانہ افکار کی پوری تاریخ کاجائزہ لیتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فلسفہ ہمیشہ فطرت اور اس میں ظہورِ نو (Becoming) کی تحسین میںناکام رہا۔ اسی لیے غیرمتحرک اور ایک دوسر ے سے غیرمتعلق اصولوں کا اطلاق کرتے ہوئے فطرت کی حقیقت جاننے کی کوشش میں اس کا ابطال کیاگیا۔ برگساں نے مذکورہ بالا بڑی تصانیف کے ساتھ ساتھ کچھ چھوٹے رسالے اورمضامین بھی قلمبندکیے۔1900 ء میں ایسی ہی تحریک "Laugter: An Essay on the Meaning of Comic" اور1903 ء میں"An Introduction to Metaphysics" چھپی۔اسے برگساں کے فلسفہ کا بہترین تعارف ماناجاتا ہے۔ وہ اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے کہ جاننے کے دو مختلف طریقے ہیں۔ پہلاطریقہ تجزیے اور تصوریت کا ہے۔ اس طریقے میں چیزوں کو ٹھوس اور ایک دوسرے سے عدم تسلسل میں موجود دیکھنے کا رجحان پایاجاتا ہے۔ یہ طریقہ سائنس میں اپنی معراج کو پہنچتا ہے۔ دوسرا طریقہ وجدان پر بھروسہ کرتا ہے۔ یہ طریقہ فوری اور چیزوں کو اپناکر اس کے قلب تک پہنچنے پرمشتمل ہے۔ برگساں کا خیال ہے کہ پہلا طریقہ عملی دنیا میں مفید ہے اور انسان اسے مادی دنیا کا عامل اور فاعل ہونے کے حوالے سے استعمال کرتا ہے لیکن یہ طریقہ دورانیے اور اس کے دوامی بہائو کو چھوڑجاتا ہے کیونکہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ صرف وجدان کی گرفت میں لایاجاسکتا ہے۔ چنانچہ یہ طریقہ اشیا کی اصل تک پہنچنے میں استعمال نہیں ہوپاتا۔ برگساں کے سارے کام کو ایسی کوشش خیال کیاجاسکتا ہے جو اس نے اشیا کی دروں ترین حقیقت میں کارفرما دورانیے پراپنی وجدانی گرفت کی تشریح اور اطلاق میں کی۔
1914ء میں برگساں کالج ڈی فرانس میںاپنے تمام ترفرائض سے دستبردارہوگیا لیکن 1921 ء تک باقاعدہ سبکدوش نہ ہوا۔ اسے ہروہ اعزازدیاگیا جو فرانس پیش کرسکتاتھا۔ 1915 ء کے بعدسے اسے فرانس اکیڈمی کے ’’چالیس لافانیوں‘‘ کی فہرست میں شامل کرلیاگیا۔ 1927 ء میں اسے نوبل انعام برائے ادب دیا گیا۔ "Creative Evolution" کی اشاعت کے پچیس سال کے بعد اس کی اگلی بڑی کتاب 1932 ء میں "The Sources of Mortality and Religion"کے عنوان سے سامنے آئی۔ اس نے اپنی پہلی تصانیف میں دعویٰ کیاتھا کہ بنیادی فہم دراصل سکون اور تحرک کی ذمہ دار اور ایک دوسرے کے مخالف عمل کرنے والی قوتوں کی کارفرمائی ہے۔ چنانچہ وہ انسان کی اخلاقی، سماجی اور مذہبی زندگی میں ایک طرف بندمعاشرے اوردوسری طرف کھلے معاشرے کو کارفرماپاتا ہے۔ بندمعاشرے کا اظہار وضع شدہ قوانین اور رسوم و رواج پرعمل پیرائی کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کھلے معاشرے کی نمائندگی ان سورمائوں اور صوفیوں کے حوصلے اور ترنگ سے ہوتی ہے جو اپنے سماج اور اپنے لوگوں میں مقدس مانے جانے والے قوانین کو توڑ کران سے اوپراٹھ جاتے ہیں۔ یوں بھی کہاجاسکتا ہے کہ اخلاقیات کے دو منابع ہیں۔ ایک منبع کی جڑیں ذہانت میں ہیں جو سائنس اور اس کے ساکن میکانیاتی آئیڈیل کی طرف لے جاتی ہے جبکہ دوسری وجدان پرمبنی ہے جس کا اظہار نہ صرف فن اور فلسفے کی آزاد اخلاقیت میں ہوتا ہے بلکہ صوفیوں کی سری اورمتصوفانہ وارداتیں بھی اسی کے احاطے میں آتی ہیں۔ اپنی اس تحریر میں برگساں خداکے اس تصور کے نزدیک پہنچ گیا جو مذہب کے قدامت پسند تصورات میں ملتا ہے۔1937 ء میں لکھوائی جانے والی اپنی وصیت میں اس نے اس امر کا اعتراف بھی کیا کہ اپنے غوروفکر کے باعث میں کیتھولک ازم کے قریب سے قریب ترچلاگیا اور میں اسے جیوڈازم (Judasim) کی تکمیل خیال کرتاہوں۔لیکن اس کے باوجود برگساں نے مذہب کی تبدیلی کا کوئی ارادہ نہ کیا۔ وہ اپنی وصیت کی وضاحت میں لکھتا ہے کہ اگر میں نے دنیابھرمیں یہودیت کے خلاف لہر اٹھتے نہ دیکھی ہوتی تو شاید مذہب بدل لیتا لیکن مجھے ان لوگوں میں سے نہیں ہوناتھا جنہیں کل تعذیب و عقوبت کا نشانہ بنایاجاناتھا۔ اس نے بسترِمرگ پرپڑے یہودی کہلوانا ہی پسند کیا۔(36)
اگرچہ برگساں فلسفے کے کسی مکتبِ فکر کا بانی نہیں لیکن اس کے اثرات قابل ذکر ہیں۔ اس نے فرانس، امریکہ اوربرطانیہ کے فلسفیوں پرگہرے اثرت مرتب کیے۔ اس کے اثرات ولیم جیمز، جارج سنتیانا الفریڈنارتھ وائٹ ہیڈ(Alfred North Whitehead)
اور یہاں تک کہ اقبال کے ہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
رابندرناتھ ٹیگور(1861-1941)(Rabindranath Tagore) کے چاہنے والے اسے گرودیو اور روی ٹھاکر کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ ٹیگور نے بنگالی ادب میں کلاسیکی سنسکرت ادب پرقائم روایتی طرزِ نگارش کی جگہ بول چال کی زبان کو رواج دیا۔ ہندوستانی معاشرت کے بعض نفیس پہلوئوں کو مغرب میں متعارف کروانے والوں میں سے ٹیگور غالباًاہم ترین ادیب ہے۔
ٹیگور کا باپ دیوندرناتھ ٹیگور (Dabendranath Tagore) برہموسماج کے دو بڑے دھڑوں میں سے ایک کا رہنماتھا۔ ٹیگور اپنی اصل میں ٹھاکر کابگاڑ ہے جو مالک کے معنوں میں برتا جاتا ہے۔ ٹیگور برہمن تھا اور اس کے ہاں علم اور دانشوری کی ایک لمبی روایت موجود تھی۔ اگرچہ اہلِ مغرب ٹیگور کو باقاعدہ فلسفی سے زیادہ بطور شاعرجانتے ہیں لیکن روایتی ہندوستانی سماج میں یہ تفریق موجود نہیں تھی۔ ٹیگور کی فکرمذہب اور فلسفے کے امتزاج سے وجود میں آئی۔ ٹیگور نے اپنے خیالات کے اظہارمیں جو تکنیک اپنائی اسے عروسی تصوف(Bridal Mysticism) کہاجاسکتا ہے۔ تصوف کی اس خاص طرز میں صوفی خودکو دلہن کے طورپر دیکھتے ہوئے اپنا ذہن اور جسم اپنے الوہی دولہاکے سامنے پیش کردیتا ہے۔اگرچہ اس کے اپنشدی تصورات و خیالات اس کی تمام تصانیف میں سرایت کیے ہوئے ہیں لیکن ’’سادھنا‘‘ میں زیادہ واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانیوں کے ایک خاصے بڑے طبقے نے اسے ہمیشہ رشی ،کوی اور صوفی قراردیا ہے۔
ٹیگور کے گردنظرآنے والے تقدس کے ہالے کی ایک اور وجہ ہندوستان کا قومی مزاج بھی ہے کہ یہاں عظیم مفکروں کو تقدیس کا لبادہ پہنادیتے ہیں۔ ٹیگور کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
برہمن زاد ہونے کے ناطے اسے بچپن سے ہی اپنشدوں کی تعلیم دی گئی۔ اپنے روحانی سفر میں وہ عمر بھر اِن سے رہنمائی حاصل کرتارہا۔ ٹیگور کے ہاں خداکاجوتصورملتا ہے وہ ویدوں سے اپنشدوں تک پہنچا۔ ویدوں کا خدا اسلام اورعیسائیت کے خداسے یوں مختلف ہے کہ یہ ہرچیز میں سرایت کیے ہوئے ہے اورہرطرح کے تشخص اور بیانیے سے ارفع تر ہے۔ مشہورترین ہندودیوتائوں سمیت ہرچیز دراصل اس ازلی حقیقت یعنی برہمن کا عارضی اور ارضی اظہار ہے۔ ٹیگور نے وجود،شعوراورمکتی کی ہندوتثلیث کی اصطلاح میں برہماکے ساتھ انسان کے تعلق کوبیان کیااور اسے ہندومت کا مقصدقراردیا۔ اپنشدوں کے بنیادی فلسفے میں بھی اسی اصول کی روح موجود ہے۔ اپنشدوں کے متعلق ٹیگور نے اپنے ذاتی خیالات ’’سادھنا‘‘ میں بیان کیے ہیں۔’’سادھنا‘‘ ہندی میں طرزِحیات اورطرزِ عمل کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔’’سادھنا‘‘ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیگور پراپنشدوں کے اثرات کتنے گہرے ہیں۔
اگرچہ ٹیگور کے ادبی سرمائے میں شاعری کو غلبہ حاصل ہے لیکن اس نے ناول،افسانے، سفرنامے، ڈرامے اور مضامین بھی لکھے۔ اس کے لکھے ہوئے گیتوں کی تعداددوہزار سے زیادہ ہے۔ ان گیتوں کو بنگالی ادب میں وہ مقام حاصل ہے کہ اس صنف کا نام ہی رابندرسنگیت پڑگیا۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہندوستانی مغربی بنگال اور اکثریتی مسلمان آبادی کے ملک بنگلہ دیش میں انھیں ثقافتی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ زیادہ تر رابندرسنگیت ارفع ترین محبت اور تصوف کا پیرایہء اظہارہیں۔ بنگالی اخلاقیات کے مزاج پر ٹیگور کا اثراتناگہرا ہے کہ لسانیاتِ عالم میں اس کی قدرے کم تردرجے کی ایک مثال انگریزی خوانوں پرشیکسپیئر کے اثرات ہیں۔
رابندرناتھ ٹیگور کادادا ادوارکاناتھ اپنی عربی اور فارسی دانی کے لیے مشہورتھا۔ ان کے خاندان میں سنسکرت اور قدیم ہندوکتابوں کے گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات اور فارسی ادب کے فہم کی روایت پشتوںسے چلی آرہی تھی۔ چنانچہ عجب نہیں کہ اس کی تحریروں میں برصغیرکے مختلف علاقوں کے تمدنوں کی جھلک نظرآتی ہے۔
ٹیگور نے نظم اور نثر دونوں کو مختلف پیغاموں کے ابلاغ کے لیے برتا۔ اس کی نثر میں سماجی سوالات، سیاسی خیالات اور تعلیمی تصورات کے ساتھ ساتھ عالمگیر انسانی بھائی چارے کی جھلک ملتی ہے جبکہ ٹیگور کی شاعری میں مذہبیت اور روحانیت کے ساتھ فطرت اور حیات کے سرورکااعتراف اوراس سے جنم لینے والی شادمانی نظرآتی ہے۔ اس کے ہاں نظرآنے والے سرور اور سرمستی کی جڑیں بیشتراوقات خارج میں نہیں ہوتیں۔ اس کی عالمگیریت اورحب وطن بھی دراصل اسی کیفیت کے دو مدارج ہیں۔
ادبی تاریخ میں ٹیگور کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتا ہے کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں نے اس کے لکھے دو گیتوں کو اپنے قومی ترانے قراردیا۔ اسے1913 ء کا نوبل انعام گیتانجلی (Gitanjali) کے انگریزی ترجمے پرملا۔ یہ ترجمہ خود ٹیگور نے کیاتھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس نے یہ ترجمہ ژیٹس(Yeats) کی حوصلہ افزائی پرکیاتھا۔
ٹیگور نے ہندوستان میں قوم پرستی کی تحریکوں کی ابتدا پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ بعدازاں وہ ان کے بدلتے رخ کودیکھ کرایک طرف ہوگیا۔1919 ء میںپنجاب کے جلیانوالہ قتل عام میں 350نہتے شہریوں کے مارے جانے پر سب سے پہلے ٹیگور نے برطانوی تاج کا عطاکردہ ’’سر‘‘کا خطاب واپس کیاتھا۔
ٹیگور کے نمایاں ترین کارناموں میں سے ایک وشوابھارتی(Visva-Bharati) یونیورسٹی کا قیام بھی ہے۔یہ یونیورسٹی ان تمام ودیالوں یعنی سکولوں پر محیط تھی جو اس نے اپنے تعلیمی تصورات کے مطابق تعلیم دینے کے لیے قائم کیے تھے۔ ٹیگور کابچپن نہایت غیردلچسپ سکولوں میں گزراتھا۔ اسے ان کے بے لچک نظم و ضبط اور حبس زدہ ماحول سے شدید وحشت ہوتی تھی۔ وہ ہندوستان میں برطانیہ کے طفیل آنے والے نظام کو مصنوعی قراردیتاتھا۔ وہ سمجھتاتھا کہ یہ نظامِ تعلیم میکانی کتاب خوانی کا اسیرہے اور اس میں فطرت کے ساتھ متعامل اورہمکلام ہونے کی گنجائش موجود نہیں۔ وہ سمجھتاتھا کہ نوخیزہندوستانی اذہان کی قوتِ احساس اس نظامِ تعلیم کے تحت فقط موت سے دوچارہوسکتی ہے۔ اگرچہ اپنے سرپرستوں کی خواہشات کے احترام میں اس نے کچھ باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی لیکن اس کی فکر کے تعین میں کسی بھی درس گاہ سے زیادہ اہم کردار خاندانی کتب خانے نے اداکیا۔ مروجہ نظامِ تعلیم سے اختلاف کے باعث ٹیگور نے مغربی بنگال میں شانتی نکیتن (Santiniketan)کے مقام پر برہمچاری آشرم قائم کیا۔ قدیم ویدی زمانے کے ہندوستان میں اچاری یعنی گرو کی رہنمائی میں علم کے متلاشی کوبرہمچاری کانام دیاجاتا تھا۔ ٹیگور نے پوری کوشش کی کہ اس کا قائم کردہ ادارہ جدیدزمانے میں بھی ویدی نظامِ تعلیم کا نمونہ بن جائے۔ اس کام میں ٹیگور کواپنے باپ کی معاونت بھی حاصل تھی جس نے وسیع زرعی رقبے پرمشتمل اپنی جاگیر کاایک حصہ اس ادارے کے لیے وقف کردیاتھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیگور کاقائم کردہ ادارہ تیس شعبوں پرمشتمل یونیورسٹی بن گیا۔ہندوستان کی آزادی کے بعدحکومت نے اس ادارے کا انتظام سنبھال لیا۔ اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں 1922 ء کا آسکرانعام یافتہ فلم ساز ستیہ جیت رے(Satyajit Ray) ،1998 کااقتصادیات کا نوبل انعام یافتہ امرتیاسین (Amartya Sen) اور سابقہ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی جیسی شخصیات شامل ہیں۔
ٹیگور نے اپنے دور کی عالمی تحریکوں سے اثرات قبول کیے اور مختلف اقوام اور ممالک کے مابین جنگوں پراظہارِافسوس بھی کیا۔ لیکن وہ جس امن کا خواہاں تھا اس کی ماہیت سیاسی نہیں تھی۔ وہ انسان کے عالمگیر تشخص پرمبنی امن کا پرچارک تھا۔ ٹیگور نے اپنی یونیورسٹی کے لیے فنڈزاکٹھاکرنے کی غرض سے کئی ممالک کے دورے کیے۔ یوںاسے مختلف اقوام کے خصائص اور مزاجوں کی تفہیم میں مددملی۔ عالمی ادب کی ایک صنف مشرق و مغرب کا تقابلی مطالعہ بھی ہے۔ ٹیگور نہ صرف اس صنف کانمایاں نثار ہے بلکہ شاید اس کا بانی بھی ہے۔اس نے اپنے مضامین میں رڈیارڈکپلنگ جیسے نسل پرست ادیبوں کی نہایت موثر مخالفت کی۔
اسّی کی دہائی میں اس کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔1890 ء میں چھپنے والا مجموعہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کابھرپوراظہارتھا۔ ٹیگور کی معروف ترین نظمیں اس مجموعے میں شامل تھیں۔ بیشتربنگالیوں کو کئی ایک نظموں کی ہیئت غیرروایتی لگی۔ اس کتاب میں سماجی اور سیاسی اقدارپرچوٹیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔1891 ء میں ٹیگور اپنی آبائی جاگیرکاانتظام سنبھالنے مشرقی بنگال کے اس علاقے میں چلاگیاجو آج بنگلہ دیش میں ہے۔ یوں زندگی کے دس برس شہزادپور میں گزرگئے۔اس دوران میںٹیگور نے بارہادریائے پدما میں تیرتے کشتیوں پربنے گھروں میں قیام کیا۔ یوں اسے غریب دیہاتیوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کی تحریروں میں غریب بنگالیوں کی غربت اور پسماندگی کی انتہائی جاندار تصویرکشی اور ان کے ساتھ دلگداز ہمدردی اسی براہ راست مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ چھوٹی بڑی محرومیوں میں رنگی ان دیہاتیوں کی زندگی کو ٹیگور نے نہایت پراثرطورپربیان کیا۔ ان کہانیوں میں مقدر، ستم ظریفی اور تلخی کا ایک امتزاج زیریں سطح پرہلکورے لیتانظرآتاہے۔ ستیہ جیت رے جیسے فلمساز وہدایتکار نے بڑی کاوش سے ان احساسات کو پردۂ سیمیں پرپیش کیا۔ ٹیگور کوبنگال کے فطری نظاروں سے عشق تھا۔ اس کی شاعری میں دریائے پدما کے مناظرباربارابھرکرسامنے آتے ہیں۔ ان سالوں میں اس کے کئی ایک مجموعے سامنے آئے جن میں سے سونارتاری(Sonar Tari) زیادہ اہم ہے جو1894 ء میں چھپا۔ڈراموں کا ایک مجموعہ چترنگدا 1892 (Chitrangada) ء میں چھپا۔ ٹیگور کی شاعری اوربالخصوص اس کے دو ہزار سے زیادہ گیتوں کا ترجمہ قریب قریب ناممکن ہے۔ اس کے گیت بنگالیوں کے تمام طبقوں میں مقبول ہیں۔
1912ء کے بعدسے ٹیگور نے یورپ، امریکہ اور مشرقی ایشیا میں طویل قیام کیا۔ وہ مختلف موضوعات پر لیکچردیتا رہااور اپنی شاعری سناتارہا۔ اس کے ناول، نظموں اور افسانوں کے مقابلے میں کم ترہیں لیکن نظراندازنہیں کیے جاسکتے۔ اس کے ناولوں میں سے’’گورا‘‘(Gora) کو خصوصاً اچھی شہرت ملی۔ بیس کی دہائی کے اواخرمیں ٹیگور کی عمرلگ بھگ ستر برس کی تھی کہ اس نے مصوری شروع کی۔ اسے جدید ہندوستان کے صف اول کے مصوروں میں رکھاجاتاہے۔
نظموں کا مجموعہ گیتا نجلی رابندرناتھ ٹیگور کی معروف ترین شاعری پر مشتمل ہے۔ نثری نظم کی ہئیت میں لکھے گئے اس ترجمے کا تعارف ولیم بٹلرژیٹس(William Butler Yeats) نے لکھا۔ ٹیگور نے ان نظموں میں عہدِ وسطیٰ میں کی جانے والی بھگتی شاعری کو بطور نمونہ استعمال کیا تھا۔ان گیتوں کے لیے موسیقی بھی خود ٹیگور نے ترتیب دی۔مجموعے کی کچھ نظموںمیں روحانی تڑپ اور ارضی خواہشات کے درمیان ہونے والی اندرونی کشمکش کو بیان کیاگیا ہے لیکن زیادہ تر نظمیں محبت کے گرد گھومتی ہیں۔ مجموعے میں شامل تمام نظموں پردھیمے سر حاوی ہیں۔ اگرچہ اس مجموعے نے نوبل انعام دلوانے میں مرکزی کردار اداکیالیکن ماہرین اس امرپرمتفق نہیں کہ یہ ٹیگور کاعمدہ ترین اورنمائندہ کام ہے۔
رابندرناتھ ٹیگور کی نظموں کا مجموعہ’’ مناسی‘‘ پہلی بار1890 ء میں چھپاتھا۔ اس مجموعے کے انگریزی نام کا مطلب ’’ذہن کی تخلیق‘‘ تھا۔ کتاب منظرعام پرآئی تو ٹیگور انتیس برس کا تھا۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ شاعراپنے فن کی پختگی تک پہنچ چکاہے لیکن بیشتر نظموں کا مرکزی خیال نوعمری کی رومانویت پرمشتمل ہے۔ فطرت کی بات ہویامحبت کی ہرجگہ محویت کارفرماہوتی ہے۔ ہمیں منہ زور اورخام جذبوں کے پیکر مہذب پیرایۂ اظہار کے پہلو بہ پہلو کھڑے ملتے ہیں۔اسی طرح ہم روح اور جسم کو بھی بالمقابل کھڑا پاتے ہیں۔ کئی نظمیں ارضی خواہشات کی مذمت میں ہیں اور کچھ میں بنگالی معاشرے کی تنگ نظری پرتنقیدملتی ہے۔ ٹیگور کے جن ابتدائی مجموعوں نے ایذراپائونڈ(Ezra Pound) اورڈبلیو۔ بی۔ژیٹس کومتاثرکیا،ان میں یہ مجموعہ بھی شامل ہے۔
بنگالی ادب کی ہزارسالہ تاریخ میں ٹیگور کی بلندقامت شخصیت نہایت ممتازنظرآتی ہے۔ اس کے گیت آج بھی کروڑوں بنگالیوں کے لبوں پررہتے ہیں۔ لیکن ٹیگور نے یورپ اورامریکہ میں جوہیجان پیداکیاتھا بڑی حدتک ختم ہوچکا ہے۔ گیتانجلی کا انگریزی ترجمہ مارچ1913 ء میں لندن سے چھپاتھااورنومبر میں انعام کا اعلان ہونے تک اس کی دس اشاعتیں نکل چکی تھیں۔ اس وقت کی مقبولیت کے حساب سے کہا جاسکتا ہے کہ اب مغرب میں ٹیگور کو کچھ زیادہ نہیں پڑھاجاتا۔ گراہم گرین(Graham Greene) نے تو1937 ء میں ہی کہہ دیاتھاکہ جہاں تک رابندرناتھ ٹیگور کا تعلق ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ سوائے مسٹرژیٹس کے کوئی شخص اس کی نظموں کو کچھ زیادہ وقعت دیتا ہے۔
بنگالی ادب میں ٹیگور کے مقام اور باقی دنیا میں اس کی مقبولیت کے زوال کا تقابل یقینا دلچسپ ہے لیکن اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ بنگالی خواں طبقہ اسے فکری سطح پراپنا ہم عصرپاتا ہے اور اس کے کلام کو ہمہ جہت گردانتا ہے جب کہ مغرب میں اسے بھولابسرا روحانیت پسند سمجھاجاتا ہے جس کا کلام اورخیال دونوں پٹے ہوئے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ ژیٹس(Yeats) اور ایذراپائونڈ سمیت ٹیگور کے اولین مداحوں نے مغرب کے ہاتھوں بیچنے کے لیے اس کے گرد تصوف کا ایک ہالہ لپیٹ دیا۔1941 ء میں ٹیگور کی وفات کے بعد اسے میسرآنے والے مداحو ں میں ایک اینااخماطوف(Anna Akhmatov) بھی شامل ہے جس نے ساٹھ کی دہائی کے وسط میں اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ روسی زبان میں کیا۔ اخماطوف نے بھی قراردیا کہ رابندرناتھ ٹیگور شاعری کا وہ دھارا ہے جو اپنی قوت کا زیادہ تر حصہ ہندومت اور گنگا سے حاصل کرتا ہے۔
اخماطوف کا خیال درست ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود ٹیگور مشرقی ہندوستان کے ہندوئوں میں بھی اتنا مقبول ہے جتنا بنگلہ دیش کے بنگالی مسلمانوں میں۔ بنگلہ دیش کے مسلمان بھی محسوس کرتے ہیں کہ ٹیگور ان کے خیالات کی نمائندگی کرتا ہے۔بنگلہ دیش کا قومی ترانہ ’’امارسوناربنگلہ‘‘(میراسنہرابنگال) ٹیگور کی شاعری ہے۔ آج کی مسلم، ہندو اور مغربی تہذیبوں کی فضا میں رہنے والے کو یہ بات قدرے عجیب لگے گی کہ خود ٹیگور نے اپنی خاندانی روایات کو ہندو، مسلم اوربرطانوی تمدنوں کا امتزاج قراردیاتھا۔
اس کی مصوری تجرید اور فطرت کی نمائندگی کا خوبصورت امتزاج ہے جسے بڑی دیر سے سراہاگیا۔ اس کے مضامینِ ادب، تمدن،سماجی تبدیلی، مذہبی عقائد، بین الاقوامی تعلقات اور فلسفیانہ تحلیل و تجزیے کا احاطہ کرتے ہیں۔
ٹیگور کے نزدیک لوگوں کو زندہ رہنے اور آزادی سے غوروفکرکی سہولت دینا سب سے بڑا انسانی شرف تھا۔ قدامت پسند ہندوئوں کے برعکس اسے مذہب کے نام پرہونے والی فرقہ واریت سے سخت نفرت تھی۔ بعض اوقات اسے گمان گزرتا کہ قومیت پرستی بھی انسان کو گروہوں میں تقسیم کردیتی ہے۔اسے بعض اوقات گاندھی کی قوم پرستی پربھی شک گزرتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیگور ہندوستانی سیاست سے لاتعلق رہا۔ اس نے1905 کے تقسیمِ بنگال اور1919 ء کے جلیانوالہ قتلِ عام کی مذمت کے لیے ہرممکن طریقہ استعمال کیا۔
رڈیارڈکپلنگ (1865-1936)(Rudyard Kipling) کا باپ جان لاک ووڈکپلنگ ایک عالم، فاضل شخص تھا۔ اسے فنونِ لطیفہ سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ اس نے اپنے بیٹے کے مزاج پرگہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ لاہور عجائب گھر کا کیوریٹربنا۔ کپلنگ نے اس پس منظر میں اپنے باپ کو اپنے مشہورترین ناول"Kim" کے پہلے باب میں بیان کیا ہے۔ کپلنگ کی ماں ایلس مکڈونلڈکی تین بہنوں نے ایڈورڈبرن جونز Edward Burne Jones) ( ایڈورڈپوئنٹر(Edward Poynter) اور الفریڈبالڈون(Alfred Baldwin) سے شادیاں کیں۔ موخرالذکر کا بیٹاسٹینلے بالڈون(Stanley Baldwin) برطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ ان رشتوں نے کپلنگ کی زندگی پراہم اثرات مرتب کیے۔
کپلنگ ممبئی(ہندوستان)میں پیداہوا۔ اس کا بچپن کچھ خوشگوارنہیں تھا۔ وہ چھ برس کا تھا کہ اس کے والدین اسے انگلینڈلے گئے۔ وہ پانچ برس تک والدین سے دور سائوتھ سی کے ایک گھرانے میں پرورش پاتا رہا۔ اس گھرکے متعلق اس نے اپنے جذبات1888 ء میں چھپنے والی اپنی کہانی "Baa Baa, Black Sheep"میں بیان کیے۔ بعدازاں اسے یونائیٹڈ سروسزکالج میں بھجوادیاگیا۔ یہ سستی اور نئی اقامتی درس گاہ آبادی سے کافی دور تھی۔ اس ادارے میں ہونے والے تجربے کپلنگ پر زندگی بھر مسلط رہے۔ 1899 ء میں چھپنے والی "Stalky & Co" میں اس درس گاہ کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ خودروجھاڑجھنکار سے پٹی ایک ایسی جنت نظرآتی ہے جس میں مارکٹائی اور دھونس دھاندلی کے ماحول میں بھی انگلینڈ کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورااترنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مہم جوئی کا رنگ لیے اس سلسلۂ داستان کوکپلنگ کا عظیم تخیلاتی کارنامہ قراردیاجاسکتا ہے۔ بعض پڑھنے والوں کو اس تحریرمیں سفاکی نظرآتی ہے۔ یہ احساس عین فطری ہے اورمصنف کے تجربے کا حصہ ہے۔ ایک حساس اور پُرزوتخیل کے حامل شخص کو ضوابط کے کڑے شکنجے سے گزرناپڑے تو ہونے والی شکست و ریخت عین قابلِ فہم ہے۔
1882 ء میں کپلنگ ہندوستان واپس لوٹ آیا اور کئی سال تک صحافت سے وابستہ رہا۔ اس کے والدین بجائے خود کچھ ایسے اہم عہدوں پرنہ تھے لیکن ان کے مراسم مقامی اور حکمران ہردوطبقوں کے ساتھ تھے۔ نتیجتاًکپلنگ کومعاشرے کے طبقہ بالا کے طرزِ حیات کے مطالعے کا موقع ملا۔ اس نے ہندوستان کے عام لوگوں کے رہن سہن کا مشاہدہ بڑے غور سے کیا۔ اسے لڑکپن سے ہی دیسی باشندوں کے طرزِ حیات میں دلچسپی تھی۔ جلدہی اس کا قلم رواں ہوگیا۔ وہ کئی ایک اخبارات کے ساتھ بھی وابستہ رہا۔ قلمی خاکے اور ہلکی پھلکی شاعری سے اس کی پہچان بنتی گئی۔ اس کی شاعری کا پہلا مجموعہ1886 ء میں "Departmental Ditties" کے عنوان سے چھپا جب کہ کہانیوں کامجموعہ "Plain Tales from the Hills" ، 1888 ء میںسامنے آیا۔ 1889 ء تک اس کی کہانیوں کے چھ مجموعے سامنے آچکے تھے جن میں سے"Three Soldiers"،"The Phantom Rickshaw" اور "Wee Willie Winkie"کو خاص شہرت ملی۔ دوسرے مجموعے میں"The Man Who Would be King"شامل تھی جب کہ"Baa Baa, Black Sheep" تیسرے مجموعے میں شامل تھی۔ وہ 1889 ء میں انگلینڈ واپس چلاگیا۔ جہاں اس کی شہرت پہلے سے پہنچ چکی تھی۔ ایک سال کے اندراندر اسے اپنے وقت کے بہترین نثرنگاروں میں شمارکیاجانے لگا۔ 1892 ء میں اس کی کہانیوں کا مجموعہ "Barrak Room Ballads" سامنے آیا تو اس کی شہرت مزید چمکی۔ لارڈ بائرن کے بعد کسی نے اتنی تیزی سے شہرت حاصل نہ کی تھی۔ 1892 ء میں ملک الشعرا لارڈٹینی سن (Lord Tenyson) کا انتقال ہو ا تو عوام نے فوراًکپلنگ کو اس منصب پر فائزکردیا۔ اسی سال کپلنگ نے امریکی پبلشرومصنف والکاٹ بیلسٹیئرWolcott) (Balestierکی بہن کیرولین سے شادی کر لی۔1982 ء میں والکاٹ نے کپلنگ کا "The Naulakha" چھاپا۔ اس نوبیاہتا جوڑے نے فوراً امریکہ کی راہ لی اور ورمونٹ (Vermont) میں واقع کیرولین کی جائیدادپرآباد ہوا۔ ان کے ہمسائیوں کو اس نوجوان جوڑے کے طرزِمعاشرت پرشدیداعتراض تھا۔ امریکی طرزِ حیات میں ڈھلنے میں ناکامی کے بعد کپلنگ انگلینڈواپس لوٹ آیا۔ اس کے بعدکپلنگ امریکیوں کو ہمیشہ خارجی (Foreigners) خیال کرتارہا۔ اس نے فرانسیسیوں کے ساتھ ساتھ امریکیوں کو بھی ان لوگوں کی فہرست میں شامل کردیا جن کے متعلق وہ کہا کرتاتھا کہ رودبارِانگلستان کے پار صرف کم نسب لوگ پائے جاتے ہیں۔
امریکہ میں قیام کے دوران1890 ء میں اس کا ناول "The Light That Failed" چھپا۔ یہ کہانی ایک مصور کی ہے جسے اندھا ہوجانے کے بعد اپنی معشوقہ کا توہین آمیز رویہ سہنا پڑتا ہے۔1897 ء میں "Captains Courageous" نامی ناول سامنے آیا۔ مہم جوئی پر مبنی یہ ناول لفاظی سے بھرپور ہے اور اسی لیے اسے بہت سے نقاد کمزورناول قراردیتے ہیں۔ 1901ء میں بچوں کے لیے لکھی گئی کتاب "Kim" چھپی جسے کلاسک خیال کیاجاتا ہے۔ 1897ء میں "The Jungle Book" سامنے آئی۔ کہانیوں کے اس مجموعے میں بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کے ساتھ کہانیاں جوڑی گئیں۔ مذکورہ بالاتحریروں نے ایک بات تو واضح کردی کہ اگرچہ کپلنگ کوکہانی کے بیان پر عبور حاصل ہے لیکن وہ متوازن اور گتھاہوا ناول نہیں لکھ سکتا۔
1902ء میں کپلنگ نے برواش، سسکس میں ایک گھرخریدااور پھرمرنے تک اسی میں رہا۔ بعدکی بیشتر تحریروں کا پس منظرسسکس ہے۔ اس حوالے سے 1906 ء میں چھپنے والا ناول "Puck of Pook's Hill"اور1910 ء میں چھپنے والی تحریر"Rewards and Fairies"خصوصاًقابلِ ذکر ہیں۔ اگرچہ ان دونوں کا اصل مقصدانگریزی تاریخ کی ڈرامائی پیشکش ہے لیکن ان میں کپلنگ کی عمیق ترین وجدان کی جھلک ملتی ہے۔1907 ء میں اسے ادب کا نوبل انعام ملا۔
کپلنگ نے جنوبی افریقہ میں بھی خاصا وقت گزارا۔ ہیروں کے مشہور بیوپاری اور جنوبی افریقہ کے سیاستدان سیسل رہوڈز(Cecil Rhodes) نے اسے گھر دے رکھاتھا۔ رہوڈز سے دوستی نے کپلنگ میں سامراجی رجحانات کو ہوادی جو سال بہ سال مضبوط ہوتے گئے۔ کپلنگ پوری ایمانداری سے سمجھتاتھا کہ ہرانگریز بلکہ ہرسفیدفام کافریضہ ہے کہ وہ نوآبادیات کے پس ماندہ خطوں میں یورپی ثقافت متعارف کروائے۔ وہ نوآبادیات کے باشندوں کو پس ماندہ اور کم ترخیال کرتاتھا۔ اس کی طرزِفکر معاصرروشن خیالی کے ساتھ متصادم تھی چنانچہ عمرگزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تنہائی میں اضافہ ہوتاچلا گیا۔ اس کا انتقال جارج پنجم کی وفات سے دور روز پہلے ہوا۔ بیشترلوگ سمجھتے تھے کہ بطورانگریزجارج پنجم بھی اپنے عہد کی نمائندگی میں کپلنگ سے بہتراور کامیاب تھا۔
کپلنگ کی کہانیاں اور نظمیں انیسویں صدی کے اواخراور بیسویں صدی کے آغاز میں انتہائی مقبول تھیں۔ لیکن جنگِ عظیم اول کے بعد کے سنجیدہ لکھاری کی حیثیت سے اس کی شہرت دھندلانے لگی۔اسے زیادہ تر سامراج پرستانہ رویے کا حامل شخص کہاجاتاتھا۔ اگرچہ ٹی ایس ایلیٹ(T.S.Eliot) جیسے نامور نقادوں نے بھی بطور شاعر اسے ہوا دینے کی کوشش کی لیکن اسے بلندمرتبہ شاعرکبھی خیال نہ کیاگیااگرچہ اس کی شاعری خاصی توانا ہے۔ وہ عام فوجیوں اور ملاحوں کے ذخیرۂ الفاظ میں لکھتا ہے اور اسی وجہ سے ایک خاص طبقے میں مقبول رہا لیکن بنیادی طورپر وہ فکرکاشاعر نہیں ۔ اس کے ہاں زورِ تخیل اورشدتِ فکر کی بجائے گونج دار لہجے میں بیان کی گئی کہانیاں ملتی ہیں۔ لیکن کپلنگ کی نثر کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں۔ اس کے ہاں کہانی کاری کا فن مسلسل مائل بہ ترقی نظرآتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان کے قیام کے دوران میںچھپنے والی کہانیوں سے لے کر بالترتیب1891 ،1893 ،1898 ،1904 ، 1909 ، 1926اور1932 میں سامنے آنے والی تحریروں"Life's Handicap" ،"Many Inventions"،"The Day's Work" ،"Traffics and Discoveries" ،
"Actions and Reactions" ، "Debits and Credits" اور "Limits and Renewals"تک اس کا فن مائل بہ پختگی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کہانی کاری میں مرکزی خیال کی کھوج کا عنصر طاقتور ہوتا چلاجاتا ہے۔ان کہانیوں میں"The Phantom Rickshaw" کا سامافوق الفطرت ماحول ایک بارپھرنظرآتا ہے۔ 1924 ء میں چھپنے والی"The Wish House" میں یہ تکنیک بڑی لطافت سے برتی گئی ہے۔1915 ء میں چھپنے والی"Mary Postgate" میں بھی 1880 ء کی ایک کہانی "The Man Was" کی سی معصوم اور بے ضرروطن پرستی جھلک ملتی ہے۔ آخری سالوں میں عدم مقبولیت کی ایک وجہ اس کے طرزِ تحریر میں آنے والی کچھ تبدیلیاں بھی ہیں۔ اس دور میں اس کی تحریریں موضوع سے براہِ راست خطاب نہیں کرتیں، گنجلک ہوجاتی ہیں۔ اس دور کی کہانیوں کے مرکزی خیال بھی غیرواضح اور مضمحل سے ہیں لیکن ان تکنیکی خامیوں سے قطع نظر سیاسی تعصب بھی بطورِ ادیب اس کی مقبولیت پر اثراندازہوا۔
بلاخوفِ تردیدکہاجاسکتا ہے کہ کپلنگ نے زیادہ تربچوں کے لیے اور نہایت کامیاب تحریریں لکھیں۔ 1902 ء میں چھپنے والی کتاب"Just so Stories" کم عمربچوں کے لیے جب کہ "The Jungle Book" ،"Puck of Pooks's Hills" اور "Rewards and Fairies"کا حلقۂ قارئین زیادہ وسیع ہے۔ اس کے متفرق کاموں میں سے 1899 ء میں چھپنے والی "From Sea to Sea" زیادہ اہم خیال کی جاتی ہے۔ یہ کتاب سیاحت کے دوران میںلکھے گئے خاکوں پرمشتمل ہے۔
کپلنگ نے تیس کی دہائی کے اوائل تک لکھنے کا کام جاری رکھا اگرچہ عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ رفتار کم ہوتی چلی گئی۔ اس کی پہلے کی سی کامیابی اور مقبولیت بھی نہ رہی۔ وہ 1936 ء کے اوائل میں برین ہیمرج سے مرگیا۔ موت کے بعد سے اس کی مقبولیت زوال پذیرہے۔ آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آیا اسے عظیم لکھاریوں کی صف میں رکھاجاسکتا ہے یا نہیں۔ یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کا انہدام ہوا اور بیسویں صدی کے وسط میں کمیونزم کے اثرات پھیلے تو کپلنگ کا کام زمانے کا ساتھ نہ دے سکا۔ لیکن سامراجیت پر تنقید اورکپلنگ پرتنقید کو الگ الگ رکھنا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ سامراجیت کی مذمت میں کپلنگ کی مذمت کرجاتے ہیں۔ ان کے لیے کپلنگ کو سامراجیت سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کی وفات کے فوراًبعد کے زمانے کاجائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ یورپ سے زیادہ امریکی ادیبوں نے اسے اپنا ورثہ بنایا۔ سائنس فکشن ادیب جان ڈبلیو کمپبل (John W. Campbell) اسے اپنا آئیڈیل خیال کرتاتھا۔ اس کی اپنی زندگی میں کپلنگ کوبنیادی طورپر شاعرماناجاتاتھا جبکہ آج اسے بنیادی طورپربچوں کا ادیب خیال کیاجاتا ہے۔1939 ء میں کپلنگ کی بیوی نے انتقال کیا تو سسکس میں واقع اس کے گھر کو نیشنل ٹرسٹ نے حاصل کرلیااور اب یہ عجائب گھر کی حیثیت سے قائم ہے۔
"If"رڈیارڈکپلنگ کی معروف نظم ہے۔1895 ء میں لکھی گئی یہ نظم پہلی بار1910 ء میں کپلنگ کی مختصر کہانیوں کے ایک مجموعے "Rewards and Fairies" میں چھپی۔ نقادوں کا خیال ہے کہ کپلنگ نے یہ نظم ڈاکٹرلینڈرسٹرجیمسن(Dr. Leander Starr Jameson) کی شخصیت سے متاثرہوکر لکھی۔ اس شخص نے 1895 ء میں جنوبی افریقہ میں بوئروں کے خلاف ایک تباہ کن برطانوی حملے کی قیادت کی تھی۔ جنگ بوئر چھڑنے میں ایسے حملوں نے بنیادی کرداراداکیا۔ تاہم برطانوی پریس نے جیمسن کو ہیرواور برطانوی شکست کو فتح کی شکل دی۔ کسی بھی دوسری نظم کے مقابلے میں یہ نظم مختلف مجموعوں میں کہیں زیادہ شامل رہی۔ بی بی سی کے ایک پول کے مطابق برطانیہ میں یہ نظم کسی بھی دوسری نظم کے مقابلے میں زیادہ مقبول رہی۔
کپلنگ کی نظم "The White Man's Burden" 1899 ء میں چھپی۔ لیکن اب یہ نام بطورِ اصطلاح دنیاکے متعلق ایک ایسے نقطۂ نظر کے لیے برتاجاتا ہے جسے استعماریت کو جواز دینے کے لیے استعمال کیاجاتارہا۔اس اندازِ فکر کے مطابق تمام غیریورپین تمدن اور ثقافتیں طفولیت اور شرپرمبنی ہیں۔ اہل یورپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ ان پرغالب آئیں اور یہ غلبہ اس وقت تک برقراررکھیں جب تک وہ تمدن بلوغت حاصل کرنے کے بعد دنیامیں اپنی شناخت نہیں بنالیتے۔ یہ نظم سب سے پہلے ایک امریکی رسالے "McClure" میں چھپی۔ یہ نظم سپین۔ امریکہ جنگ کے بعد امریکیوں میں پیدا ہونے والی علیحدگی پسندی ختم کرنے کے لیے لکھی گئی۔ خیال کیاجاتاتھا کہ امریکہ نے فلپائن میں سپین کی جگہ نہ لی تو جاپان جیسی کوئی طاقت وہاں قابض ہوسکتی ہے۔ کپلنگ نے نظم لکھ کر فلپائن میں امریکی مداخلت کا اخلاقی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ آج یہ اصطلاح اہلِ یورپ کی نسلی برتری کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم تاریخی تناظرمیں اس اصطلاح کو نوآبادیات کے جواز میں پیش کی گئی وجوہات میں سے ایک کے لیے برتاجاتا ہے۔ استعماری قوتوں نے اپنی ایشیائی اور افریقی نوآبادیاتی مہموں کے مذکورہ بالا جواز کی غرض سے نوآبادیات کے ماضی کو دبایا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان کے ساتھ بھی یہی کچھ کیاگیا۔(38)
اقبال اور جدیدیت
کسی بھی لغت میںModern کا لفظ جدیددور کا شخص، نئی روشنی کا شخص، جدیدعہد کی خصوصیات کا حامل شخص، کے معانی دیتا ہے۔ماہرین لسانیات Modernist کے اردو متبادل کے طورپر متجدد یا جدت پسند کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دیکھاجائے تو اقبال ہرلحاظ سے نئی روشنی کے شخص تھے اور ان کی شخصیت جدیدعہد کی ساری خصوصیات کی حامل تھی۔ وہ قدامت پسند نہ تھے، تقلید اور ماضی پرستی سے انھیں کوئی علاقہ نہ تھا۔ وہ ہر امرکو، واقعے کو اور فکرکو عقل، علم اور منطق کی کسوٹی پرپرکھتے تھے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے وہ تحرک، تغیراور تبدیلی کو ضروری گردانتے تھے اور پورے ایمان اور ایقان کے ساتھ ہر لحظہ جدوجہد اور تگ و دو کے قائل تھے۔ وہ ارتقائ، نمود، وجود، تدبراور حکمت کا صرف ذکر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ ایک باعمل شاعرتھے۔
سب سے پہلے تو انھوں نے اپنے وجود کے اثبات کے لیے، اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے غوروفکر کرناشروع کیاجس کی ابتداء اس سے ہوئی کہ ع اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔(کلیاتِ اقبال،ص۔93 ) اپنے ذوق، آراء اور انداز سے اقبال بہرنوع دورِحاضر کے انسان تھے۔ اس طرزِ فکر کی عکاس اقبال کی ابتدائی نظموں میں سے ایک ’’زہداور رندی‘‘ ہے جسے اقبال کا ذاتی خاکہ کہناچاہیے۔اقبال نے اس نظم میں اپنا تقابل ایک مولوی صاحب سے کیا ہے جو اتفاق سے ان کے پڑوس میں رہتے تھے۔ اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ راگ کو بھی عبادات میں داخل سمجھتا ہے۔ حسن فروشوں سے اسے عار نہیں ہے، ہندوکوکافر نہیں کہتا جس پرمولوی صاحب اسے کہتے ہیں کہ شاید یہ کسی اور اسلام کا بانی ہے۔ (کلّیاتِ اقبال،ص91-92-93 )،اس نظم میں اقبال مولوی صاحب کی زبانی اپنی گوشمالی بھی کررہا ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ جب اقبال خود اپنے آپ کو ع
ہے عجب مجموعۂ اضداد اے اقبالؔ تو
(کلّیاتِ اقبال،ص148 - )
کہاکرتا اور خود ہی اپنا تجزیہ کرتا رہتا جو بذاتہٖ ایک جدید رویہ ہے۔ع
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبالؔ! اپنے نکتہ چینوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص130 - )
نثرمیں بھی اقبال نے ایک اور جگہ کہہ رکھا ہے کہ’’عقلِ انسانی فطرت کی جانب سے خود انتقادی کی ایک کوشش ہے(39) اپنی نکتہ چینی کی ادا میں ہی اقبال اپنی خردافروزی کا جواز تلاش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو بھی کہہ بیٹھتا ہے ؎
مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا
نقش ہوں اپنے مصوّر سے گلہ رکھتا ہوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص133 - )
’عاشق ہرجائی‘کے عنوان سے ایک اور نظم بھی اقبال کا اپنا خاکہ ہے جس میں اقبال نے اپنے آپ کو مجموعۂ اضداد کہا ہے۔آپ اپنی تلاش کا یہ عمل ہی اقبال سے یہ کہلواتا ہے ؎
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ! اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص136- )
ان افکار اور اشعار میں پڑھنے والے جدیددور کی ایک تحریک وجودیت کے آثارتلاش کرسکتے ہیں۔اقبال کے استاد سر تھامس آرنلڈ نے کہاتھا کہ’’ہندوستان میں حرکتِ تجدّد نے اپنا ممتازترین ظہور سرمحمداقبال کی شاعری میں پایا ہے۔‘‘(40) انھی آرنلڈ اور نکلسن جیسے اساتذہ کا فیض تھا کہ اقبال پورے اعتماد کے ساتھ کہہ پایا کہ ؎
حلقۂ صبح و شام سے نکلا اس پرانے نظام سے نکلا
(کلّیاتِ اقبال،ص203- )
سرگزشتِ آدم میں اقبال نے شعور کو حضرت آدمؑ اور اولادِ آدم کی میراث کے طورپر پیش کیا ہے۔ اس نظم میں اقبال کے یہ مصرعے اُن کی جدیدعلوم و فنون سے آگہی کی خبردیتے ہیں ؎
پیا شعور کا جب آبِ آتشیں میں نے
o
کیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے
o
کیا اسیر شعاعوں کو برقِ مضطر کی
o
کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر
o
سکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے
(کلّیاتِ اقبال،ص۔108-109 )
نظم بعنوان عبدالقادر کے نام، میں تو اقبال اور تو اور قیس کو بھی آرزوئے نو سے شناسا کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہیں۔(کلیاتِ اقبال،ص158- )انھی عبدالقادر نے پروفیسر تھامس آرنلڈ کے بارے میں بانگِ درا کے دیباچے میں یہ کلمات کہے تھے کہ’’ وہ علمی جستجو اور تلاش کے طریقِ جدید سے خواب واقف ہیں۔ انھوں نے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے طرزِ عمل سے حصہ دیںاور وہ اس ارادے میں بہت کچھ کامیاب ہوئے۔‘‘(41)
اقبال کو ابتداء ہی میں تصوف کا درس گھر سے ملااور مشرقی علوم میں دسترس مولانا میرحسن نے پیداکردی تھی۔ بعدازاں انگریز اساتذہ نے انھیں جدید علوم و فنون کی راہ سمجھائی۔ اقبال نے بیک وقت ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل اور ورڈزورتھ سے استفادے کا اعتراف کیا ہے۔’’ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمولینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈزورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا۔‘‘(42)
پروفیسرآرنلڈ نے اقبال کے دل میں علم کی جستجو کی جو شمع روشن کی تھی، اقبال نے اپنی نظم ’’نالٰۂ فراق‘‘ میں اس کا ذکربڑے ادب سے کیا ہے۔ ع
تھی تری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم
o
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
(کلّیاتِ اقبال،ص105- )
اور انھی کی ایما پر اقبال یورپ کے تعلیمی سفرپرروانہ ہوئے تھے ؎
چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے
شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو
(کلّیاتِ اقبال،ص122- )
یہی وجہ تھی کہ اقبال کی پہلی نظم ’کوہ ہمالہ سے خطاب‘میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں(کلیاتِ اقبال،ص40 -)۔ اقبال نے انگریز شعراء سے براہِ راست متاثرہوکر بھی بہت سی نظمیں کہی ہیں جن میں سے نامعلوم شعرا سے ماخوذ نظمیں مکڑا اور مکھی، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعااور ماں کا خواب شامل ہیں۔کچھ نظموں میں شعراء کے نام بھی درج ہیں۔ جیسے ایک پہاڑاورگلہری؍ایمرسن، ہمدردی؍ولیم کوپر، آفتاب؍گایتری، عشق اورموت؍ٹینی سن، پیامِ صبح؍لانگ فیلو اور رخصت اے بزمِ جہاں؍ایمرسن۔
اقبال نے غالب پرایک نظم میںگوئٹے سے غالب کا یوں تقابل بھی کیا ہے ع
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص56- )
بانگِ درا میں اقبال نے شمع اور آفتابِ صبح میں ہی نہیں بلکہ محض شعاعِ آفتاب کے حوالے سے جاگنے اور جگانے کا پیام دیا ؎
تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے؟
سونے والوں میں کسی کو ذوقِ بیداری بھی ہے؟
(کلّیاتِ اقبال،ص267- )
اور پھر شاید اپنے آپ کو شعاعِ آفتاب کا مست خیال کرتے ہوئے اسی نظم میںاپنے بارے میں کہا ہے کہ ع
مہرِ عالمتاب کا پیغامِ بیداری ہوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص267- )
اور یہی پیغامِ بیداری، سرسید کی لوحِ تربت میں یوں سنائی دیتا ہے کہ ع
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
(کلیاتِ اقبال،ص85- )
اس ضمن میں اقبال کی مشہورنظم ’’شاعر‘‘ کو بھی ذہن میں رکھیے۔اسی لیے تو نکلسن نے بالآخر یہ کہا کہ’’اقبال کی شاعری نے نوجوان مسلمانوں میں بیداری پیدا کردی ہے اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس مسیحاکاانتظار تھا وہ آگیا ہے۔‘‘(43)
یہ جدید ذہن کا خاصہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت سے خبردار رہناچاہتا ہے۔علومِ شرق و غرب پڑھ لینے کے باوجود وہ اپنے آپ کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ ع
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزمِ کہن بدل گئی
(کلّیاتِ اقبال،ص139- )
اسے پتا ہے کہ انسان اپنی فطرت میں راز جو ہے چاہے خدا نے راز اس کی نگاہ سے چھپالیا ہو۔ اس کی حیرت اور تجسس اسے بتاتا ہے کہ ؎
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں
(کلّیاتِ اقبال،ص100- )
اقبال کا حیرت کے بارے میں اپنا بیان ہے کہ’’ افلاطون کے نزدیک حیرت اس لیے قابلِ قدر ہے کہ اس سے فطرت کے بارے میں ہمارے تجسس کو تحریک ہوتی ہے۔ بیدل کے لیے حیرت اپنے ذہنی نتائج و اثرات سے قطعِ نظر قابلِ قدر ہے۔‘‘(44) اس لیے وہ ہر دم ذوقِ آگہی کے لیے بے تاب رہتا ہے ؎
لے کے آیا ہے جہاں میں عادتِ بے تاب تو
تیری بے تابی کے صدقے ،ہے عجب بے تاب تو
(کلّیاتِ اقبال،ص148- )
اپنے آپ کو’ شعاعِ آفتاب ‘میں’’ اے سراپا اضطراب! ‘‘کہتے ہوئے وہ خود ہی سوال بھی کرتا ہے کہ ع
تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب؟
(کلّیاتِ اقبال،ص266- )
یہ سارا اضطراب یہ بے چینی، آگہی کے لیے ہے اور آگہی کی بھی اپنی نظم شمع میںاقبال یوں تعریف کرتا ہے ؎
بستانِ بلبل و گل و بو ہے یہ آگہی
وصلِ کشا کشِ من و تو ہے یہ آگہی
( کلّیاتِ اقبال،ص76- )
کشاکشِ من و تو کی اس آگہی سے زندہ انسان اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں برآمد کرلیتا ہے جو سراسر نیا ہوتا ہے۔ ؎
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ، ویرانہ کر
(کلیاتِ اقبال،ص218- )
جدیدشاعر کے طورپر اقبال تبدیلی کا، تغیر کا، تسلسل کا، ترقی کا اورحرکت کا شاعرہے۔ اقبال نے کائنات ہی کو حرکی تصور کرلیا تھا اور حرکت ہی کو اصل قرار دیا۔ چلنا چلنا مدام چلنا، ہی نہیں بلکہ ؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ، ایک تغیر کو ہے زمانے میں
( کلّیاتِ اقبال،ص173- )
کے ساتھ ساتھ اقبال اپنے بارے میں بھی کہتا ہے کہ ع
ملا مزاج ، تغیر پسند کچھ ایسا
( کلّیاتِ اقبال،ص108- )
یہ تغیر پسندمزاج ہی ہے جس نے اقبال کی شاعری کو انقلاب کی شاعری بنادیا ؎
خواجہ از خونِ رگِ مزدور ساز و لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاںِ کشتِ دہقانانِ خواب
انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب!
شیخِ شہر از رشتۂ تسبیح صد مومن بدام
کافرانِ سادہ دل را برہمن را زُنّار تاب
انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب!
مہر و سلطان نرد و باز و کعبینِ شان و غل
جان محکوماں زتن بردند و محکوماں خراب
انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب!
واعظ اندر مسجد و فرزند او در مدرسہ
آں بہ پیری کود کے ایں پیر در عہدِ شباب
انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب!
کس نداند ، جلوۂ آب از سراب
انقلاب ، اے انقلاب ، اے انقلاب!
( کلّیاتِ اقبال، فارسی، ص۔ 401 )
کارل مارکس کی آواز میں اقبال جتلاتا ہے کہ اب دنیا کو پرانے افکار کی نمائش گوارا نہیںاور انقلاب میں اقبال کا مشاہدہ یہ ہے کہ ؎
دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
( کلّیاتِ اقبال،ص649- )
ترکی کے دانشور عبدالقادر کراحان نے اقبال کو’’آزادی، وطن پرستی اور فضیلت کے لیے کوشاں‘‘ پایا ہے۔(45) تعلیمِمغربی کو بھی اقبال نے دراصل جرأت آفریں پایاتھا اور اسی سے اقبال نے نظم آفتابِ صبح، میں اپنے لیے دعاکی تھی کہ ع
سر میں جز ہمدردیٔ انساں کوئی سودا نہ ہو
(کلیاتِ اقبال،ص81- )
وہ تو کسی ایسے آقا کا بندہ بننے کے لیے بھی تیارنہیں جسے خدا کے بندوں سے پیار نہ ہو۔ اقبال کا خیال ہے کہ’’کردار اور صحت مندتخیل میسرآجائے تو اس گناہ اور دکھ بھری دنیا کی ایسی تعمیرِ نو ممکن ہے کہ یہ ایک حقیقی جنت بن جائے۔‘‘(46) دنیا کو حقیقی جنت بنانے کے خواب اور اس کی تعبیر کے حصول کے لیے کوششِ ناکام میں زندگی کی تلاش اورتگا پوئے دمادم میں زندگی کی دلیل ڈھونڈنے سے اقبال کی شاعری عبارت ہے ؎
یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے کیا ہے یہ؟
رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے کیا ہے یہ؟
( کلّیاتِ اقبال،ص267- )
اس رقص کو، آوارگی کو یا جستجو کو اقبال پیکارِزندگی کہتاہے۔ اس کا مقصد کمال پانا گردانتا ہے اور اقبال اس کشمکش اور کشا کش میں حددرجہ رجائیت سے کام لیتا ہے ؎
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
( کلّیاتِ اقبال،ص222- )
o
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
( کلّیاتِ اقبال،ص221- )
’’اقبال اس بات کا قائل ہے کہ’’زندگی میں کامیابی کا انحصار عزم پر ہے نہ کہ عقل پرلیکن پہلے عقل و خرد کا استعمال ضروری ہے۔‘‘(47)
خرد کی گتّھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا ! مجھے صاحب جنوں کر
( کلّیاتِ اقبال،ص412- )
اقبال کو یہ جنوں بھی حرکت اور عمل کی خاطردرکار ہے۔ اقبال کے خیال میں انسان اپنے ہرارادے اور عمل کے ذریعے اس مرتبے پرپہنچ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تقدیر اس سے پوچھ کر طے کرے۔ایک متحرک اور زندہ طاقت کے طورپر انسان اپنے اعمال میںاور حرکات میں آزاد ہے ؎
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جائے
( کلّیاتِ اقبال،ص674- )
ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالمِ مجبور ہے تو عالمِ آزاد
( کلّیاتِ اقبال،ص85- )
نہ مختارم توان گفتن ، نہ مجبور
کہ خاکِ زندہ ام در انقلابم
o
دگرگوں جہاں ان کے زورِ عمل سے
بڑے معرکے زندہ قوموں نے مارے
( کلّیاتِ اقبال،ص746- )
شعلہ ہا کشترِ ارمن دمید
روزِ مجبوری ، بہ مختاری رسید
( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص607- )
اقبال نے ایک اور جگہ تلقین کی تھی کہ’’پیکرِ قوت مہدی کا انتظارچھوڑدو۔ جائو اور مہدی کی تخلیق کرو۔‘‘(48)
اقبال اس بات کے قائل نہیں کہ ع
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
بلکہ وہ مسلمان کو مردِ قوی دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔(49)
کمزوری اور غلامی کو وہ انسان کے لیے اتنا ضرر رساں سمجھتے ہیں کہ غلام ذہنیت کے شخص کو سرزنش کرتے ہیں ؎
سُن، اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار!
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
( کلّیاتِ اقبال،ص407- )
کلیاتِ اقبال میں عزیزاحمد کے حوالے سے مرقوم ہے کہ’’اقبال کا کلام پڑھنے کے بعد ایک سیدھی سی بات جو عامی کی سمجھ میںبھی آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور ان سے کام لے۔ اسلامی تعلیمات کی حرکی روح کو سمجھے اور اس پر عمل کرے تو وہ حقیقت میں خداکاجانشین بن سکتا ہے اور اپنی تقدیر کا آپ مالک بن سکتا ہے۔‘‘(50) اقبال نے خودکہا ہے کہ جہان کی زندگی جنبش میں ہے، قرار میں اجل پوشیدہ ہے اور جسے سکون کہتے ہیں کہیں نہیں ہے۔ (کلیاتِ اقبال،ص145- )
اقبال کے حرکی تصور ِحیات میں آرزواور تمنا کی اصطلاح بہت معنی خیز ہے۔ آرزوئیں اورتمنائیں تخلیقی عمل کو متحرک رکھتی ہیں ؎
از تمنائے بہ جام آمد حیات
گرم خیز و تیز گام آمد حیات
( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص51- )
ان سے شعر میں سوزوگداز ہی پیدا نہیں ہوتا، لذتِ جستجو بھی پیداہوتی ہے ؎
فطرتِ شاعر سراپا جستجو است
خالقِ پروردگار از آرزو است
( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص517- )
آرزو ہی میں فروغِ جاوداں کا راز پوشیدہ ہے کہ اس سے حرکت پیدا ہوتی ہے۔ وجدان کی سب سے بڑی خصوصیت ہی آرزو اور تمنا ہے۔ اس کے ذریعے فن کار نئی قدریں، نئے معیار بلکہ نت نئی آرزوئیں تخلیق کرتا چلاجاتا ہے۔ ان اقدار میں جمالیاتی اقدار بھی شامل ہیں ۔ ؎
ہر لحظہ نیا شوق ، نئی برقِ تجلی
اللہ کرے ، مرحلۂ شوق نہ ہو طے
( کلّیاتِ اقبال،ص639- )
یہاں تک کہ جمال کے تصور کو بھی اقبال نے تحرک عطا کردیا ہے۔ جمالیات اورحسن کو جب حرکت سے وابستہ کیا جائے تو حسن کی عینیت بدل جاتی ہے اور اس سے حسن کا تصور اعلیٰ سے اعلیٰ ترہوتاجاتا ہے۔
’’پیامِ مشرق‘‘ کی ایک نظم ’حوروشاعر‘گوئٹے کی ایک نظم کا جواب ہے جس کا موضوع بھی یہی ہے۔ گوئٹے اس نظم میں حور کے سامنے اپنے جمالیاتی احساس کی پرتیں یوں کھولتا ہے کہ وہ حسن جو اسے مقصودومطلوب ہے ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے اور وہ اس حوالے سے ہمہ وقت خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے۔ حرکت اور ارتقاء کا تعلق بہت واضح اور گہرا ہے۔ حرکت ارتقا پذیری کا نام ہے۔ اس ارتقاء کے سبب جمال کا معیار بھی بلندسے بلند ترہوتاجاتا ہے۔ حالی نے بھی اس طرح کا شعر کہہ رکھا ہے ؎
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جاکر نظر کہاں
اقبال نے اپنی نظم میں اسے اس طرح بیان کیا ہے ؎
چو نظر قرار گیرد بہ نگارِ خوب روئے
تپد آں زماں دلِ من پئے خوب تر نگارے
زِ شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابے
سرِ منزلے نہ دارم کہ بہ میرم از قرارے
طلبم نہایتِ آں کہِ نہایتے نہ دارد
بہ نگاہِ نا شکیبے بہ دلِ امید وارے
( کلّیاتِ اقبال فارسی،ص298- )
اقبال حرکت کے قائل صرف جمالیاتی حوالے سے نہیں اور نہ ہی ان کی آرزوں کی کوئی نہایت ہے بلکہ ان کے حرکی تصور کی غایت تسخیرکائنات کی آرزو تک وسیع ہے۔ اقبال کا تفکر اور تدبر پوری کائنات کا احاطہ کرتا ہے اور انسان کے ہاتھوں اس کائنات کی تسخیر ہی اقبال کا اصل مقصد ہے۔ اقبال کے خیال میں حیات اسی خاطر ہے کہ کائنات کی غیرمنظم قوتوں کو نظم و ضبط میں لاکر انھیں اپنے تصرف میں لائے ؎
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
( کلّیاتِ اقبال،ص364- )
اور فکرِانسان کی دسترس دیکھیے کہ آج طبیعی علوم اور ریاضیات کے ذریعے تیرہ کائناتیں دریافت ہوچکی ہیں جن کے ابعاد بھی چار سے بارہ تک ہیں۔ اقبال ہی کاکہنا ہے کہ ؎
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمام صدائے کن فیکوں
( کلّیاتِ اقبال،ص364- )
یہ ایک شاعر کی رفعتِ تخیل ہے کہ وہ ستاروں سے آگے کئی اور جہانوں کی خبردیتا ہے۔ وہ اسی زمین کے روزوشب سے الجھ کر نہ رہ جانے کی تلقین کرتا ہے اور نئے زمان و مکان کی تلاش پرقائل کرتا ہے ؎
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
( کلّیاتِ اقبال،ص350- )
علامہ اقبال نے اسے یوں بھی کہا ہے کہ’’اس کی(یعنی کائنات کی)ترکیب بھی اس طرح ہوئی کہ اس میں مزید وسعت کی گنجائش ہے۔ قرآنِ حکیم کی سورہ فاطرکی آیت۔01 میں ارشاد ہے: یَزِیْدُ فِی الخَلْقِ مَایَشائُ (وہ پیدائش میں جو چاہے زیادہ کردیتا ہے)‘‘(51)
اس بناپراقبال اضافہ کرتے ہیں کہ’’یہ کوئی جامدکائنات نہیں،نہ ایک ایسا مصنوع جس کی تکمیل ختم ہوچکی اور جوبے حرکت اور ناقابل تغیروتبدیل ہے۔ برعکس اس کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باطن میں ایک نئی آفرینش کا خواب پوشیدہ ہے۔ دراصل کائنات کا یہ پراسراراہتزاز اور تحریک علیٰ ہذالقیاس زمانے کی یہ خاموش روانی جس کا احساس ہم انسانوں کو دن اور رات کی گردش میں ہوتا ہے،قرآن پاک کے نزدیک ایک بڑی آیت ہے اللہ کی۔‘‘ (52)
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود
( کلّیاتِ اقبال،ص454- )
ابنِ عربی نے کہاتھا کہ روحانی واردات سے وہ جہاں پہنچا ہے وہیں ابنِ سینا حسی تجربے کے ذریعے سے پہنچنا چاہتا ہے۔ اقبال نے بھی یہی کہا کہ ع
محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی
( کلّیاتِ اقبال،ص276- )
یعنی روحانیت اور دنیاوی علوم کی بنیاد تجربیت ہی ہے فرق صرف تجربے کی نوعیت کا ہے۔ ؎
علم کا مقصود ہے پاکیٔ عقل و خرد
علم ہے جویائے راہ ، فقر ہے دانائے راہ
( کلّیاتِ اقبال،ص401- )
اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ عہدِ جدید کے انسان کا منتہا انسان کی بقا ہے۔ اقبال بھی ’مجلہ علی گڑھ کے نام‘ اپنی نظم میں یہی نکتہ سکھارہے ہیں ع
غم کدۂ نمود میں شرطِ دوام اور ہے۔( کلّیاتِ اقبال،ص140- )
یہ شرفِ دوام اپنے عصر سے آگہی ہے۔ یعنی انسان کو اپنے گردوپیش کی خبر رکھنی چاہیے۔ یہ جدیدیت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے اور اس کا ذکر پہلے تفصیل سے ہوچکا ہے۔ عصری حوالے سے گردوپیش کا مفہوم وسیع تر ہے۔ اقبال کے ہاں عصری شعور اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ انھیں عالمگیر سطح پر محرکات اور عوامل سے شناسائی اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے رجحانات پرایک عجیب طرح کی گرفت حاصل تھی۔ وہ مسلمانوں کوان کی عظمتِ رفتہ کا احساس دلاکر ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دیناچاہتے تھے تاکہ ان کا حال اور مستقبل بہترہو ؎
آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا
آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
( کلّیاتِ اقبال،ص292- )
o
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
( کلّیاتِ اقبال،ص296- )
o
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ، ساز بدلے گئے
( کلّیاتِ اقبال،ص451- )
آخری شعر جس نظم کا ہے اس کا عنوان ’’ساقی نامہ ‘‘ہے۔ یہ نظم ابتدا سے آخرتک اقبال کے گہرے عصری شعور کی آئینہ دار ہے۔یہ بھی طے ہے کہ معاشرے کا عملِ اقتصاداور سیاسی نظام اس عہد کے شعرا اور دوسرے لکھنے والوں پر اس طرح اثرانداز ہوتا ہے جس طرح حساس ذہنوں پرہوناچاہیے اوران کی تخلیقی قوت اپنے مخاطب کو دانش اور بینش کے ساتھ ساتھ اس کا تجزیہ اور تنقیدبھی سکھاتی ہے۔ اقبال کی شاعری تو سراپا تاریخ ہے اور تاریخی شعور کی پیداوار ہے تاہم اقبال نے ابتدا ہی سے اپنے زمانے سے پہلے اور اپنے زمانے کے مغربی اور مشرقی افکار سے رجوع کرلیاتھا اور اس کا پہلا ثبوت انھوں نے علم الاقتصاد، کی تصنیف سے دے دیاتھا۔ اقبال نے تحریک احیائے علوم، تحریکِ اصلاح، انقلابِ فرانس اور صنعتی انقلاب کی وجہ سے مشرق و مغرب میں معاشرت، معیشت، سیاست اور رویے میں نمودارہونے والے افکار اور نظریات سے آگاہی حاصل کرلی تھی اور ان کے مسلمان معاشرے پر اثرات کے بارے میں غوروفکر کرناشروع کردیاتھا۔ انھوں نے اپنی تخلیقات اورمضامین میں زندگی کی ارتقائی نہج کا خیال رکھتے ہوئے اپنا اندازِ نظرمرتب کرلیاتھا کہ جو کچھ اب ہورہا ہے آئندہ کیسا ہو جائے گا۔ اقبال کی ماضی سے آگہی اور حال پر نظر مستقبل آفریں تھی ؎
ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہدِ کہن رکھتا ہوں میں
اہلِ محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں
( کلّیاتِ اقبال،ص224- )
یہ بھی ایک عصری تقاضا ہے کہ ادب کا شخصی وجود اس کی قوم کے اجتماعی وجود اور ملک کی جغرافیائی وحدت سے مربوط ہوتا ہے۔اس قوم کا اپنا ہی ایک ماضی ہوتا ہے۔ تاریخ ہوتی ہے جو اس ادب کو انفرادیت بخشتی ہے۔ ہرادب کے حافظے پراس بارِ امانت کا احساس، اس قوم کی شناخت اور اس کے دوام کے لیے ضروری ہے۔ اپنے خطبات میں ایک جگہ انھوں نے کہا ہے کہ:
"The Spirit of man in its forward movement is restrained by forces which seem to be working in opposite directions. This is only another way of saying that life moves with the weight of its own past on its back and that in view of social change, the value and function of the forces of conservation can not be lost sight of. It is with this organic insight into the essential teaching of the Quran that modern rationalism ought to apporach our existing institutions. No people can afford to reject their past entirely; for it is their past that made their personal identity." (53)
ابنِ خلدون نے ایک عجیب بات تاریخی اور عصری حوالے سے کہی تھی کہ’’ گزرا ہوا زمانہ آنے والے زمانے سے اس قدر مشابہ ہے کہ ایک جگہ کا پانی دوسری جگہ کے پانی سے بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (54)یہ قول اس قول سے کہ’’تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔‘‘ لطیف مگر گمبھیر اختلاف کا پتادیتا ہے کہ یہاں معاملہ صرف دہرانے کا نہیں ہے۔اس معاملے کو اگر ادب اور شاعری کے حوالے سے دیکھیں تویہ قول اقبال کی شاعری پر صادق آتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ ’’تاریخ سے بیگانہ رہ کرکسی قسم کی شاعری کا امکان نہیں لیکن شاعری کا فریضہ اس کے سوا نہیں کہ تاریخ کو بدل کر رکھ دے اور اسی لیے انقلاب کی کھری شاعری کشف و عرفان کی شاعری ہوتی ہے۔‘‘ (55)
یونان کے ڈرامہ نگاروں سکائی لس، سوفوکلیز، یوربیڈز، فرانس کے فرانکویس اوگیر، مولیر، ناروے کے ابسن، برطانیہ کے شیکسپیئر اور برنارڈ شا اور جرمنی کے لسینگ کی طرح اقبال کی شاعری اور نثری تحریریں عصری آگہی کی زندہ مثال ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہیے کہ اقبال نے ان سب کو پڑھ رکھاتھا یہاں تک کہ لسینگ کوبھی جس کا ذکر اقبال نے یوں کیا ہے کہ’’ادبی تنقید لازماً تخلیقی ادب کی متعاقب نہیں ہوتی۔ جرمن ادب کے ابتدائی دور ہی میں ہمیں لسینگ جیسا نقاد ملتا ہے۔‘‘ (56)
اقبال عصری آگہی، تاریخی شعور اور زمان و مکاں کی باتوں سے بھی آگے بڑھ کر فن کے ذریعے سے وقت کا مشاہدہ کرتا ہے اور وقت کو بھی ایک کائناتی مظہر کے طورپرتسخیر کرنے کی بات کرتا ہے۔ وقت کے بہائو کی تندی اور تاریخ کے جبر سے سلامت نکلنے کے لیے اقبال نے عشق کا سہارا لیا ہے ؎
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل ،کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
( کلّیاتِ اقبال،ص420- )
اقبال نے عصریت پر اس قدر فکر کر رکھی تھی کہ ایک بار جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اندھیرااور روشنی اکٹھے ہوسکتے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا تھاکہ ’’ ہاں۔ وقت میں۔‘‘(57)
اقبال نے29 نومبر1929 ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین کے سپاسنامے کے جواب میں جو کچھ کہا وہ جدیدیت کے بارے میں اقبال کے افکار کا نچوڑ ہے۔’’ ایک تو انگریزی زبان و ادب کے مصنفین کو ایسے مضامین تخلیق کرنے کا موقع ملا جن سے موجودہ نسل کی ذہنیت کی تشکیل وتوضیح ہورہی ہے۔ دوسرے انگلستان سے ہمیں افکار کی عادت ملی ہے۔ اس فکرِ ثقیل کی مشرق کو ضرورت ہے۔ تیسرے جمہوریت ہے جو اگرچہ مشتبہ قدروقیمت رکھتی ہے لیکن گواراہے اس لیے کہ جمہوریت کا مطلب ’’صاف، علیٰ رئوس الاشہاد ‘‘اور آزادیٔ بحث و تمحیص ‘‘ہے۔(58)
اقبال کے ہاں عصریت کا تصور صرف عصرِ رواں تک محدود نہیں تھا اور اس کا ذکر اوپرآچکا ہے تاہم اس کا مزیدواضح اظہار اقبال نے اپنی زبان سے سپاسنامے کے اس جواب میں دیا ہے جس میں انھوں نے’ انکشافِ ماضی ‘پرزور دیتے ہوئے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا ہے کہ وہ ماضی پرست نہیں ہیں بلکہ مستقبل کے معتقد ہیں۔ وہ زمانۂ حال کو سمجھنے کے لیے ماضی کی ضرورت کے قائل ہیں کیونکہ مسلمانوں کے لیے اپنے ماضی کو سمجھنا سرچشمۂ تہذیب وشائستگی کو سمجھنا ہے لیکن ہم لوگ جدیدتہذیب و شائستگی کے اصولوں کو سمجھنے کے لیے دوسری اقوام کی طرف دیکھتے ہیں۔علومِ جدیدہ استقرائی اصولوں پر چلتے ہیں اور استقرائی اصول دراصل قرآن سے سیکھاجاسکتا ہے اور دنیائے جدیدہ قرآن شریف ہی کے ظاہر کیے ہوئے مطمحٔ حیات سے ترقی کرکے یہاں تک پہنچی ہے۔(59)
اقبال ’’دنیائے جدیدہ‘ کی ارتقائی تاریخ قرآن کے افکار و تعلیمات کی روشنی میں لکھنے کے آرزو مند رہے۔ انھیں یقین تھا کہ’’ جدید تہذیب کی صحیح اندرونی تصویر بے شمار حالتوں میں اسلامی تہذیب کی مزید ترقی کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘(60) اس سے پہلے وہ تشکیلِ جدیدالٰہیات اسلامیہ کے عنوان سے سات خطبات لکھ بھی چکے تھے اور انھیں سنا بھی چکے تھے۔
جدیدیت کا ایک پہلو جمود، جہالت اور تقلید سے دامن بچانابھی ہے۔ وہ’’دنیائے اسلام میں مذہبی اور معاشرتی اصلاح کی ایک ہنگامہ خیز حرکت و جنبش پیدا‘‘کرنے کے خواہاں تھے۔ لیکن وہ پریشان بھی تھے کہ’’عالمِ اسلام میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات کے درمیان جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اغلب ہے کہ قدامت پرست اسلام بغیرجدوجہد کے سرِتسلیم خم نہیں کرے گا۔‘‘(61)
قدامت پرستی، تنگ نظری، ضعیف الاعتقادی اورکرامات کے بارے میں مبالغہ آرائی، تعویذگنڈوں اور جامدنظریات کے خلاف اقبال شروع ہی سے آواز اٹھاتے رہے تھے ؎
رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوزِ مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
خراب کو شکِ سلطان و خانقاہِ فقیر
فغاں کہ تخت و مصلّٰی کمالِ رازقی
کرے گی داورِ محشر کو شرمسار اِک روز
کتابِ صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
( کلّیاتِ اقبال،ص393- )
اقبال کو معلوم تھا کہ ملّا، واعظ، شیخ اور صوفی کے افکار اسلامی تعلیمات کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں اور ان کی عبادات دکھاوے کی ہیں۔ انھوں نے معاشرے میں تخلیقی قوتوں کی بیخ کنی کی ہے اور لوگوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری کردیا ہے۔ فرقہ واریت اور فروعی اختلافات کو ہوا دے کر وہ مسلمانوں کے خیالات کو پراگندہ کررہے ہیں۔ ؎
نہ فلسفی سے، نہ ملا سے، کچھ غرض مجھ کو
یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد
( کلّیاتِ اقبال،ص396- )
حلقۂ صوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز
ترے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ ہے بلند بام ابھی
خلقِ خدا کا گھات میں ، رندو فقیہ و میر و پیر
( کلّیاتِ اقبال،ص436- )
ہربند سے آزادافراد پرمشتمل قوم میں شوخیٔ اندیشہ کی خطرناکی کے احساس کے ساتھ وہ فکرِ مدرسہ وخانقاہ کو آزاددیکھناچاہتے تھے کیونکہ ان کی نظر میں مذہبِ ملّا،جمود،تقلید اور تکذیب کا مذہب تھا۔ پیروں کے گھر بجلی کے چراغوں سے روشن ہیں اور دہقان کومٹی کا دیا بھی میسر نہیں اس لیے وہ کعبے کے متولی کی بجائے کعبے کے برہمنوں کی طرح نذرانے وصول کرتے ہیں جیسے مہاجن سود کماتے ہیں۔ ؎
نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن
( کلّیاتِ اقبال،ص496- )
اقبال خود اپنے آپ کو سبق دیتا ہے کہ ع
تیرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ
( کلّیاتِ اقبال،ص398- )
کیونکہ ع
آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
( کلّیاتِ اقبال،ص400- )
یہ نہیں کہ اقبال کا رجحان ان خانقاہوں اور مدرسوں کی طرف نہ تھا بلکہ اقبال نے ان سے فیض رسانی کی کوشش بھی کی لیکن نتیجہ ؎
ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ
( کلّیاتِ اقبال،ص443- )
اقبال کو ابتدا میں ان ملائوں سے کچھ امیدیں بھی تھیں کہ شاید وہ ملت کے رہنمائی کے لیے اپنے زورِ خطابت کو کام میں لاسکتے ہیں لیکن اسے اپنے تجربے اور مشاہدے نے بتایا کہ ؎
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
(کلّیاتِ اقبال،ص403- )
اس شعر میں واعظ کی بے عملی پراقبال نے چوٹ کی ہے اور اس کی مقلّدانہ روش، بدعتوں اور فروعی معاملات میں دلچسپی پرطنز کی ہے۔ ایک اور جگہ بھی اقبال نے ملا کی خاکہ نگاری اس طرح کی ہے ؎
نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزیٔ اقوام و مِلل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد ،نہ کلیسا، نہ کنشت
(کلّیاتِ اقبال،ص445- )
اقبال بار بار مدرسوں اور ان کے جامدنظامِ تعلیم پرسوال اٹھاتے ہیں ؎
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟
(کلّیاتِ اقبال،ص393- )
اور مذہبِ ملا محض جمادات و نباتات کو قراردیتے ہیں۔(کلیات اقبال،ص۔407 )اور خراج اور صدقے کو ایک دوسرے کا مترادف کہتے ہیں اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں ؎
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطان سب گدا
(کلّیاتِ اقبال،ص444- )
اقبال کے خیال میں تمدن، تصوف، شریعت اور کلام بتانِ عجم کے پجاری ہوچکے ہیں۔یہ امّت روایات میں کھو کررہ گئی ہے اور حقیقت خرابات میں ملائوں کے طفیل کھوچکی ہے۔ ایسابھی نہیں کہ کلامِ خطیب دل کو لبھاتا نہیں لیکن خطیب لذتِ شوق سے بے بہرہ ہے۔ اس کا بیان منطق سے سلجھابھی ہے لیکن لغت کے بکھیڑوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہی صوفی کبھی خدمتِ حق میں مرد ہوا کرتا تھا۔ اس میں انسانیت تھی، محبت بھی تھی اور وہ جمعیت میں فرد تھا لیکن وہ بھی ؎
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
(کلّیاتِ اقبال،ص451- )
یعنی اقبال مانتا ہے کہ کبھی صوفی بھی فکرونظر اور اسرارِ حیات و کائنات کا خوگر تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی افراط و تفریط اورجمود و جہالت کی مثال بن گیا ہے ع
رہا صوفی گئی روشن ضمیری
(کلّیاتِ اقبال،ص408- )
جو بڑے درد سے کہا کرتے تھے کہ ’’چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا اور فتوے بازی اس کی دلیل ہے کہ اس قوم میں اللہ والے ختم ہوچکے ہیں۔‘‘(62) ایک ضعیف شخص جب نماز کی طوالت سے تنگ آیا اوراس کا سبب پوچھا تو اقبال کا کہنا تھا کہ ’’یہ ہندی مسلمان کے بے کار اور بے نصب العین ہونے کی دلیل ہے…اس ملک کے بے کار ملا اور نکمے مسلمان اگرمذہبی بحث و پیکار اور لمبے لمبے درودووظائف میں اپنا وقت صرف نہ کریں تو کیا کریں۔‘‘(63)
تصوف کے بارے میں اقبال کا گمان یہ تھا کہ’’تصوف ہمیشہ انحطاط کی نشانی ہوتا ہے۔ یونانی تصوف، ایرانی تصوف، ہندوستانی تصوف سب انحطاطِ قومی کے نشان ہیں۔ اسلامی تصوف بھی اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے…تصوف نے سائنسی روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ڈاکٹرکے پاس نہیں جاتے، تعویذ تلاش کرتے ہیں۔ گوش و چشم بند کرنا اور صرف چشم ِباطن پر زور دینا جمود اورانحطاط ہے۔ قدرت کی تسخیر ان کے لیے جدوجہدکرنے کی جگہ سہل طریقوں کی تلاش ہے۔‘‘(64)
اقبال اور اجتہاد
اس باب کے نظری حصے میںاجتہاد کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کی وضاحت ہوچکی ہے اور اس بارے میں بھی کہ تقلید اور اجتہاد ایک دوسرے کے متضاد ہیں اقبال نے خود اپنے آپ کونظری اعتبار سے فقہی معاملات میں غیرمقلد کہا۔(65) عدم تقلید ایک اعتبارسے جدت پسندی ہوئی اور اجتہاد توجدت پسندی کاعملی اظہار ہے۔ اجتہاد کے بارے میں اقبال کا نکتۂ نظر یہ تھا کہ ’’موجودہ تمدن کو کسی طرح اسلام کے قریب تر لایاجائے۔‘‘(66) اگراجتہاد کے معانی سعی کرنااور تحقیق کرنا ہو تو بھی یہ ایک جدیدذہنی رویے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اقبال کا رویہ عہدِرواں کے مسائل کے بارے میں ایک جدید دورکے شخص کا تھا اور اسی لیے مولانا سعیداحمداکبرآبادی نے کہا کہ’’ہم اقبال کو عہدِجدید کا زبردست مفکرِاسلامی، مجددِ ملت اور اسلامی انقلاب کا سب سے بڑا داعی کہتے ہیں۔‘‘(67)
مولانا سعیداحمداکبرآبادی نے اقبال کو مجدّدِملت یونہی نہیں کہہ دیاتھا۔ یہ مقام اقبال نے اپنی دقّت نظری اور اسلام کے گہرے مطالعے کے بعد اسلامی افکار کی نئے سرے سے مطالعے،تفہیم، تشریح، تفسیراور تعبیر میں اپنی معروضیت اور خلوصِ نیت کے سبب حاصل کیاہے۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اقبال کو مجدّد الف ثانی شیخ احمدسرہندی ؒ سے بہت عقیدت تھی۔ انھوں نے اولادِنرینہ کے لیے ان کے مزار پر جاکر دعا مانگی تھی اور اپنے فرزند جاوید کے بچپن میں اسے ساتھ لے کر بطورِ شکرانہ ان کے مزارپر حاضری بھی دی تھی۔(68) اقبال نے خود مجدد کی تعریف صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام ایک خط میں یوں کی ہے کہ ’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نکتۂ نگاہ سے زمانۂ حال کے حواس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا۔‘‘(69)
اقبال نے اپنے انگریزی خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ Reconstruction of) (Religious Thought in Islamمیں یہی فریضہ انجام دیا ہے۔ خاص طورپر ان سات خطبات میں سے چھٹے خطبے کا تو موضوع اور مرکزی خیال ہی اسلامی فقہ میں اجتہاد ہے۔اقبال نے ان سارے خطبات میں مجموعی طورپر اور چھٹے خطبے میں خصوصی طورپر اسلامی فقہ کو زمانے کی ضرورت کے مطابق ڈھالنے پرزوردیا ہے۔ اقبال اجتہاد کو جاری و ساری سمجھتے ہیں اور انھوںنے ماضی میں اسلام اور مسلمانوں کی تمدنی ، سیاسی اور علمی کامیابیوں کو مجتہدانہ کوششوں ہی کا مرہونِ منت قرار دیاہے۔
وہ اس عہد میں اسلامی نظریات و افکار کی تشکیلِ جدید سے ملت اسلامیہ میں ارتقاء کی ایک نئی لہراور تڑپ پیداکرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ نئی ایجادات اور سائنسی کمالات اور مذہبی اقدار میں ہم آہنگی پیداکرنے میں بھی ان خطبات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
جدیدیت اور مذہبیت دونوں حوالوں سے اجتہاد کی تعریف نظری حصے میں بیان کی جاچکی ہے۔ اقبال نے بھی اجتہاد کی وہی تعریف بیان کی ہے اور اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ ’’فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ کوشش ہے جو کسی قانونی مسئلہ میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘(70) اقبال یہ رائے قائم کرنے کے لیے دلائل کی جڑیں(1) قرآن حکیم (2)حدیث(3) اجماع اور(4) قیاس میں تلاش کرتے ہیں اور مجتہد کے لیے (1) اسلام کا علم (2)اسلامی نظامِ حیات کا فہم(3) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مزاج اور طریقہ کار سے آگاہی اور(4) ذاتی طورپر اعتماد کے قابل اور بلند سیرت ہونا لازمی سمجھتے ہیں۔ اپنی نظم ’’اجتہاد‘‘ میں وہ یہی باتیں شاعرانہ انداز میں مگر دو ٹوک لہجے میں بیان کرتے ہیں ؎
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہو کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
(کلّیاتِ اقبال،ص534- )
o
پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق
(کلّیاتِ اقبال،ص641 -)
اجتہاد فی نفسہٖ حرکت، تبدیلی اور ارتقاء کا نام ہے اس لیے اجتہاد سے روگردانی علم اور عقل سے روگردانی ہے۔ اقبال نے دلائل سے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ’’ختمِ نبوت انسان کے عقلی ارتقاء کی وہ حد ہے جس کے بعدانسان اپنی آزادانہ رائے کے تقاضے کے مطابق عقل اور مشاہدے کے سہارے زندگی کے ارتقائی مراحل طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی منزل سے اجتہاد کی منزل کا آغازہوتاہے۔‘‘(71)
جب انسان اجتماعی فکروعمل سے گریزکرتا ہے تو معاشرہ تنزل اور انتشارکاشکارہوجاتاہے۔ اسلام میں زوال کا آغاز اجتہاد سے منھ موڑنے سے ہوا۔ اقبال نے اپنے چھٹے مقالے ’’اسلام کی تعمیرمیں اصولِ حرکت‘‘ میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اس کی تین وجوہات بیان کی ہیں:
۱۔ معتزلہ فرقے کی ابتدا ،عروج لیکن بعض معاملات میں حدود سے تجاوز خاص طورپر قرآن کے ازلی یا مخلوق ہونے کا مسئلہ اور قدامت پسندوں کے مقابلے میں قرآن کو مخلوق قراردینا۔ مزیدبرآں امام غزالیؒ کا قدامت پسندانہ ردّ ِعمل جس سے اسلام میں اجتہاد کا راستہ بندہوا۔
۲۔ صوفیا میں باطنی اور ظاہری تقسیم سے پیدا کردہ جمود اور راہبانہ تصوف جیسے غیراسلامی افکار کی پیروی۔
۳۔ منگولوں کے ہاتھوں بغدادکی تباہی سے جامعات اور کتب خانوں کی بربادی، علمائے کرام کا قتل یا ہجرت اور علم کے مراکز کاخاتمہ۔(72)
اقبال نے ان المیوں پر اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں جابجاتبصرہ کیا ہے اور امّتِ مسلمہ کے زوال کا نوحہ لکھا ہے لیکن وہ محض نوحہ گری پر رک نہیں گئے وہ ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کرنے کے بعد افق سے ابھرتے ہوئے آفتاب کی طرف بھی مسلمانوں کی توجہ مبذول کرواتے ہیں اور امت اور اس کے رہنمائوں کو اجتہاد کی ضرورت اوراہمیت کا احساس دلاتے ہیں تاکہ زوال کے عمل کو روک کر ترقی کی راہ پر گامزن ہواجاسکے۔ اقبال کے خطبات میں الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کا مقصد اولیٰ یہی ہے۔اسلامی فقہ کی ازسرِنو ترتیب و تشکیل اقبال خود بھی کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں اس کا وقت نہ مل سکااورانھوں نے ’’یہ تمام تر ذمہ داری کسی روشن دماغ عالم کے سپردکرنے کا فیصلہ کیا۔ غالباً اسی خیال کے پیشِ نظرانھوں نے مختلف اوقات میں مولاناشبلی نعمانی، سیدانور شاہ کاشمیری اور سیدسلیمان ندوی کو پنجاب منتقل ہونے کی دعوت دی۔‘‘(73)
اقبال کا اجتہاد قدامت اور جدّت کے امتزاج سے پیداہوتا ہے۔ اقبال نے قصۂ قدیم وجدید کو دلیل تنگ نظری کہا اور جب ان کی زبان پر ترکی کے قومی شاعر ضیاگو کالپ کے یہ الفاظ آئے کہ ’’…مذہب نام ہے علمِ قطعی کا اور اس کا مقصد یہ ہے کہ قلب انسانی کو روحانیت سے بھر دے۔‘‘(74) اور اس کے علاوہ بھی انھوں نے جابجا روحانیت اور عقلیت میں اشتراک کی راہیں تلاش کرکے توازن اور اعتدال کی راہ اختیار کی تو بعض مفکر یہ کہنے لگے کہ ’’اقبال نے بھی عقل پر زور دیا مگر کہیں کہیں عقل پر مذہب و وجدان کو فوقیت دے کر امام غزالیؒ بننے کی کوشش کی۔‘‘(75)
اقبال کے ہاں اجتہاد دراصل مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کی تحریکوں سے وابستہ ہے، جو اندھی تقلید کے خلاف جدوجہد اور احیائے علوم کی کوشش سے عبارت تھی۔ اس دور میں اسلامی دنیا میں اقبال سے ذرا پہلے اور ان کی زندگی میں شاہ ولی اللہ اور سرسیداحمد خان عقل کی پذیرائی کرنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ مصر میں محمدعبدہٗ اور اخوان المسلمین کی تنظیم اور ترکی میں ضیاگوکالپ کے افکار کا ذکر خوداقبال کے خطبوں میں مل جاتا ہے۔ جمال الدین افغانی نے بھی عقل کو بروئے عمل لاکر سائنسی انکشافات کی روشنی میں الٰہٰیات اسلامیہ کی تشکیلِ نو کی تحریک برپا کردی تھی۔
اقبال ایک روشن خیال، وسیع النظر اور وسعتِ قلب کے حامل معاشرے کی تشکیل کے خواہاں تھے۔ انھوں نے اجتہاد کے مصادر، طریقہ کار، دائرۂ عمل اور اجتہاد کی اہلیت پر بھی قلم اٹھایا جن میں سے بعض عوامل اور نکات کا ذکر اوپرآچکا ہے۔ اقبال نے اجتہاد کے مصادر میں سے ایک اتفاق رائے یا اجماع، کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے ذریعے اجتہاد ممکن ہے۔ جمہوری روح کی نشوونما اور مسلمان ممالک میں اسمبلیوں کی تشکیل جدیدیت کی طرف ایک بڑا قدم ہے اس لیے اجتہاد کا حق فردِ واحد سے عوام کی نمائندہ اسمبلی کو دیاجاسکتا ہے۔ نمائندہ اسمبلی میں مختلف فکری رجحانات رکھنے والے احباب قومی قانون سازی کے لیے اکٹھے ہوں گے اور اس میں یہ بھی ممکن ہوگا کہ قانونی بحث و مباحثے میں وہ لوگ بھی حصہ لے سکیںگے جو اگرچہ بہت پڑھے لکھے نہیں ہیں مگر اپنے معاملات کی حقیقت پسندانہ تاویل پیش کرسکیں گے۔ اس طریقے سے ہم اپنی خفیہ صلاحیتوں کو قانونی زندگی میں بروئے کار لاکر ایک ترقی پذیر زاویۂ نگاہ پیدا کرسکیں گے۔ (76)
کسی بھی معاشرے میں انصاف، مساوات، تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا سب سے بڑا داعی اسلام ہے۔ اقبال کے افکار کی روشنی میں ہمیں مغرب کی تقلید سے گریز اور تقابل میں تمیز کے جوہر کی تعمیرکرنا ہے۔ تخلیق کے رجحان کی پرورش کرنا ہے۔ ثقافت اور اجتہاد کے رشتوں کو پہچاننا ہے، انسانوں کی فطری خدمات اور جوہر کی تقویت اور ایک وسیع اور جامع نظامِ تعلیم مرتب کرنا ہے ،وسعتِ نظر، وسیع المشربی اور روشن خیالی پیداکرنا ہے جو نتیجتاً اجتہاد کی راہیں ہموار کرکے اسلامی معاشرے پر ترقی کے نئے در وا کرے گی ؎
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کی سحر کر
(کلّیاتِ اقبال،ص621- )
جدیدیت سے مراد وہ تہذیب بھی لی جاتی ہے جو گزشتہ چارپانچ سو سال کے دوران میں یورپ سے ابھری۔ اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اس دور سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا۔ یونانی اور لاطینی علماء اس کے نتیجے میں وہاں سے ہجرت کرکے مغربی یورپ میں پھیل گئے۔ دوسری طرف جدید اسلامی علوم کا گہوارہ اندلس عیسائیوں کے قبضے میں چلاگیا۔ ان علماء اور اندلسی مسلمانوں کے علوم کے زیراثر یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا اور بتدریج نت نئی ایجادات سے یورپ کی پسماندگی اور جہالت رفع ہوئی۔ چنانچہ یورپی اقوام کو اپنی مصنوعات کے لیے منڈیوں کی تلاش ہوئی اور وہ نئے بحری راستے تلاش کرتے کرتے ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف انڈونیشیا تک جو اس وقت جزائرشرق الہند کہلاتاتھا، جاپہنچیں۔ انھوں نے پہلے پہل مشنریوں کے ذریعے اور پھر معاشی اور تجارتی ہتھکنڈوں سے ان علاقوں کو اپنے تصرف میں لے لیااور ایشیا اورافریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا جس کی بنیاد آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے پڑی تھی۔ مسلمان ممالک خاص طورپر یورپی سامراج اور تہذیب و تمدن کا ہدف بنے۔ ترکی، ایران، مصر، حجاز، فلسطین، مراکش، تیونس، طرابلس، سوڈان، ہندوستان، عراق اور شام جیسے مسلم ممالک کی یورپ کے ہاتھوں غارت گری اور تباہی پر اقبال کا دل اسلامی تہذیب کے زوال کے حوالے سے بہت کڑھتاتھا ؎
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
(کلّیاتِ اقبال،ص293- )
یعنی اقبال کو یقین ہے کہ دراصل جدیدیت مسلمانوں کی میراث تھی جسے مغرب لے اڑا۔ لیکن مغربی جدیدیت اس حکمت سے خالی ہے جو اسلامی فکر کی پہچان تھی۔ اقبال کو سب سے زیادہ رنج اس بات پہ تھا کہ سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے دل و دماغ یورپی تہذیب کی گرفت میں آتے چلے جارہے تھے۔ ان کے خیال میںجدیدیت کی رو میں یورپی تہذیب کی مادیت پرستی قابل مذمت اس لیے ہے کہ اس سے کسبِ زر، زندگی کی معراج سمجھاجاتا ہے۔ مادی لذتوں کو یورپ نے اس قدر اہمیت دے دی ہے کہ یہ لذتیں بجائے خود ان کا مقصودبن گئی ہیں۔ اس سے بے مروتی اور سنگدلی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور انسان اور روحانی اقدار پس ِپشت ڈال دی گئی ہیں ا س سے معاشرہ اعتدال، توازن اور ہم آہنگی سے محروم ہوگیا ہے۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ خالص مادیت کی بنیادوں پرکسی بھی تہذیب کو استحکام نصیب نہیں ہوسکتا ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص305- )
یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے کہ یہ ظلمات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبّر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیّت کی فتوحات
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
(کلّیاتِ اقبال،ص434-435- )
جدیدسائنس نے انسان کو فطرت سے آزادی ممکن حد تک دلادی ہے لیکن اس سے انسان اپنی نفسی کمزوریوں پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس سے انسان کی زندگی حیوانوں سے بھی پست ہوگئی۔ اگر ان علوم کا مقصد انسانی خدمت نہ ہو تو وہ نعمت نہیں زحمت بلکہ لعنت ہوجاتی ہے۔ اس سے زندگی اپنی پوری جزئیات اور امکانات آشکارکرنے سے قاصر رہتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے کہا ؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
(کلّیاتِ اقبال،ص583- )
دراصل مغرب کے دینی عقائد جامد تھے اور سائنسی انکشافات سے ٹکراتے تھے۔ علم کی روشنی سے ان کے بے لچک دینی عقائد متزلزل ہوئے تو وہ مذہب اور اس کی اقدار ہی کے منکر ہوگئے۔ مادی اسباب کی فراوانی نے عیش پرستی اور خود غرضی کے رجحانات کو جنم دیا اور اخلاقی اور روحانی اقدار سے انکار نے مے خواری، عریانی، سودخوری اور اخلاقی پستی کا فساد برپاکیا ؎
صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے
مے و قمار و ہجومِ زنانِ بازاری
(کلّیاتِ اقبال،ص661- )
یورپی طاقتوں نے مسلمان ممالک پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی کوشش کی اور اپنی تہذیب کی خامیوں کو ان ممالک کو زیرِدست رکھنے کے لیے ان میں عام کیا۔جدید تہذیب کے بارے میں اقبال تین مختلف زاویوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ ان میں پہلا تناظر مسلمانوں کے ماضی سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرا عہدِحاضر کی مغربی تہذیب کا منظر ہے اور تیسرا اس مستقبل کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے جو یقینی طورپرعالمِ اسلام کی عصری تاریخ میں آشکار ہونے کو ہے ؎
خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے
(کلّیاتِ اقبال،ص395- )
مغرب کی مادیت کی شدیدمذمت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اقبال مادی ترقی کے سرے سے مخالف ہیں۔ اس معاملے میں ان کی صریح رائے تھی کہ انسان کو مغرب کے مادے کے سامنے سر نہ جھکاناچاہیے اور نہ ہی بعض ترک ِدنیا کے طالب علموں کی طرح مادے سے انکار کردیناچاہیے بلکہ ضرورت ہے کہ مسلمان اسلام کی روح سے آشنا ہوجائیں جو مادہ سے گریز کی بجائے اس کی تسخیر کی کوشش کرتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ اسلام کی روح مادے کے قرب سے نہیں ڈرتی۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ تمہارا دنیا میں حصہ ہے۔ اس کو نہ بھولو۔
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک اور بڑی خامی عقل پرستی کا خمیر ہے۔ جدیدتمدن انسانی افعال اور افکار کو عقل کے علاوہ کسی اور کسوٹی پر پرکھنے کے لیے تیار نہیں جبکہ اقبال کے خیال میں عقل کے پاس حقیقت تک پہنچنے کا کوئی موزوں پیمانہ نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق حواسِ انسانی سے ہے اور حواس حقیقت کے ادراک کے لیے اکثر اوقات ناکافی ہوتے ہیں اس ناموزوں پیمانے سے حاصل شدہ نتائج حتمی نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا اقبال یورپ کے اس نامکمل طرزِ فکر کے نقاد ہیں۔ وہ عقل کو کلی اختیار نہیں دیتے اور عقل کے لیے اخلاق کی پابندیاں اور روحانی رہنمائی لازمی سمجھتے ہیں۔حواس، عقل کے ہاتھ میں ہوں تو وہ سیدھے راستے پر رہتی ہے ؎
یا عقل کی روباہی، یا عشقِ ید الٰہی
یا حیلۂ افرنگی، یا حملۂ ترکانہ
(کلّیاتِ اقبال،ص394- )
اقبال نے سائنسی ترقی کی مددسے محض اپنے مفادات کو مدنظر رکھنے پر بھی مغربیوں کی سرزنش کی ہے کہ انھوں نے بحیثیت مجموعی اس سے انسانیت کی ہلاکت کے اسباب پیدا کیے ہیں اور اس قوت کو کمزور ممالک کو اپنی سامراجی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا ہے اور طرح طرح کی مشینیں ایجادکرکے عالمگیر پیمانے پر معاشی استحصال کا نظام قائم کیا ہے۔ بے درد سرمایہ داروں نے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو آزادی سے محروم کیااور اسے بھی مشین کا پرزہ سمجھا۔ کمزور اقوام کی خام پیداوار سے مصنوعات تیارکرکے انھیں ہی مہنگے داموں فروخت کیاجانے لگا۔ سرمایہ دارانہ قوتوں کی مسابقت اور مقابلے کی حس نے دو عظیم جنگیں برپاکیں۔ یہ جنگیں اس ظالمانہ سرمایہ داری کی پیداوار تھیں جس کو طبعی سائنس سے فروغ حاصل ہواتھا۔
یہ نہیں کہ اقبال سائنس کے مخالف تھے بلکہ وہ تو اس پر اہلِ فرنگ کی اجارہ داری کے مخالف تھے۔ ان کے خیال میں جدیدعلم و حکمت اس لذّتِ ایجاد کا نتیجہ ہے جس سے مغربی اقوام پہلے پہل مسلمانوں کی بدولت آشنا ہوئیں۔ جدید سائنس اسی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ چنانچہ وہ سائنس کو فرنگی زاد نہیں مسلمان زاد کہتے ہیں ؎
حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست
اصلِ اُو جز لذّتِ ایجاد نیست
نیک اگر بینی مسلماں زادہ است
ایں گہر از دستِ ما افتادہ است
دانہ آں صحرا نشیناں کاشتند
حاصلش افرنگیاں برداشتند
ایں پری از شیشۂ اسلافِ ماست
باز صیدش کن کہ او از قافِ ماست
(کلّیاتِ اقبال فارسی،ص749- )
جدیدتمدن کے طریقِ فکر و عمل کے بارے میں اقبال کے خیالات بہت واضح ہیں۔ ان کے نزدیک اس تحریک میں کوئی خرابی نہیں، اس واسطے کہ یورپی تہذیب ذہنی اعتبار سے اسلامی تہذیب کے بعض نہایت اچھے پہلوئوں کی مزیدنشوونما سے عبارت ہے۔
اقبال کو خوف ہے تو یہ کہ کہیں یورپین تہذیب کی ظاہری چمک دمک ہماری اس تحریک کو روک نہ دے اور ہم اس(یورپی تہذیب) کی حقیقی اندرونی روح تک نہ پہنچ پائیں۔اہل مغرب کی انسانی حقوق کی پاسداری اور مساوات کے اصول اقبال کے نزدیک قابل قدر ہیں۔ ان کے خیال میں اس قسم کی اصلاحی فلاحی مملکتیں قائم کرنے کا خیال بھی اسلام سے بہت قریب ہے۔
اہل یورپ کی محنت، ایفائے عہد، کاروباری دیانت اور کاملیت پسندی کے باعث وہ انھیں مسلمانوں کی بہ نسبت اسلام کے زیادہ پابند نظرآتے ہیں۔ وہ ان مشرقی رہنمائوں کی مذمّت کرتے ہیں جو مغرب کی اندھی تقلید سے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا رہے۔ وہ یورپی تہذیب کی حقیقی خوبیوں کو چھوڑ کر صرف ظاہری خوبیوں کو اپنانے کو غیردانش مندانہ فعل کہتے ہیں۔
اصل علم وحکمت اور ترقی و خوشحالی مخصوص لباس، وضع قطع اور بے حجابی سے حاصل نہیں ہوتی۔ فرنگ کی ترقی خوشحالی اور قوت کی بنیاد ان کے علم و فن، قوت ایجاد اور فکرِ چالاک پر ہے۔ مسلمان رہنمائوں نے اس پر توجہ نہیں دی ؎
نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
(کلّیاتِ اقبال،ص654- )
اقبال کو مغرب سے نہیں مشرق سے گلہ تھا کہ وہ اپنی ناسمجھی کے باعث تہذیبِ مغرب کی کورانہ تقلید میں پھنستے چلے جارہے ہیں:
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے ز رقصِ دخترانِ بے حجاب
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
(کلّیاتِ اقبال فارسی،ص648- )
حالانکہ مغرب کی قوت کا راز چنگ و رباب میں یا دخترانِ بے حجاب کے رقص میں نہیں ان کے علم و فن میں پوشیدہ ہے۔ اس علم و فن کا چراغ ہماری آگ ہی سے روشن ہواتھا۔اسی باعث اقبال نے دانشِ حاضر کو سحرِقدیم ہی کو پھر سے تازہ کرنے کا طعنہ دیا ہے اور تاریخی اور علمی اعتبار سے اقبال کا تجزیہ درست بھی لگتا ہے۔
دراصل اقبال کی شخصیت سرتاپا تحرّک، عمل، ارتقا اور تجدید سے عبار ت تھی اور وہ اپنے عہد کے مختلف ادبی، علمی، سیاسی اور معاشرتی مکاتیبِ فکر کے ساتھ صرف اس حد تک متفق ہوتے تھے جس حد تک ان کا تجزیاتی ذہن قبول کرتاتھا۔ کسی خیال یا نظریے کے بارے میں غورکرتے ہوئے اقبال اسے افادیت کے پیمانوں سے ناپتے تھے اور وہ اسی ادب کے علمبردارتھے جو عصرِحاضر کے قومی اور بین الاقوامی تناظر میں ارتقائی میلان رکھتاہو اور تقلید اور رجعت پسندی کے خلاف مؤثر حربے کے طورپراستعمال ہوتا ہو اور اس کے لیے وجدان اور روحانی تجربے سے بھی استفادہ کرتاہو:
’’اقبال کے فلسفے کا وہ حصہ جو معاصر معاشی، سیاسی اورمعاشرتی تحریکوں سے تعلق رکھتا ہے سراسر تجرباتی، عقلی اور ترقی پسندانہ ہے۔ اس کی انقلابی اہمیت اور انقلاب آفرینی مسلم ہے لیکن اقبال کا مابعدالطبیعاتی فلسفہ تجرباتی کم اور قیاسی زیادہ ہے۔ جہاں عقلیت پسندی کی جگہ وجدان اور عقائد لے لیتے ہیں جنہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ناممکن ہے۔ اس اعتبار سے اقبال کا ویژن دو متضاد رویوں سے مرتب ہوتا ہے جن پر مختلف مکاتیب فکر ایک عرصہ سے بحث کرتے چلے آرہے ہیں۔‘‘(77) لیکن حتمی طورپر اقبال ایک جدید ذہن ہی ٹھہریں گے۔ جدیدیت کی روح کہیں ٹھہرنانہیں، کسی نظریے یا خیال پر رُکنا نہیں اور اقبال کے مزاج اور تحریروں میں جدیدیت کی یہی روح سرایت کرچکی تھی۔
حواشی و حوالہ جات
-1 قومی انگریزی- اردو لغت: مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،طبع پنجم،2002 ،ص۔1256 ۔
2- Wikipeadia, free encydlopedia: Internet
3- Ibid
4- Ibid
5- Ibid
6- Ibid
7- Ibid
-8 جامع انگلش۔ اردو ڈکشنری جلد۔۱:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی؛ ص۔811-812 ۔
-9 قومی اردو-ا نگریزی لغت مذکور،ص2119- ۔
10- Professor Mumtaz Ahmed: Literary Criticism;
Ch. Ghulam Rasool & Sons, Lahore, 1989, P.611
11- Ibid: P. 611
-12 (ڈاکٹر) سہیل احمدخا ن۔محمد سلیم الرحمن(مؤلفین):منتخب ادبی اصطلاحات؛ جی سی یونیورسٹی، لاہور،طبع اول،2005 ،ص204- ۔
-13 ایضاً:ص205- ۔
-14 سیدعابدعلی عابد:انتقادادبیات؛سنگِ میل،لاہور،1994 ،ص253 -۔
-15 (ڈاکٹر)سہیل احمدخان،محمد سلیم الرحمن، (مؤلفین):کتاب مذکور،ص۔205 ۔
-16 بحوالہ (ڈاکٹر) انور سدید مقالہ بعنوان ادب، عصری آگہی اور انشائیہ، مشمولہ ادبی
زاویے، مرتبہ خالد اقبال یاسر؛اکادمی ادبیات پاکستان،1984 ،ص120- ۔
-17 (سید)علی عباس جلالپوری، روحِ عصر؛روہتاس بکس،لاہور،طبع سوم، 1989،ص7-8- ۔
-18 ایضاً:ص8-9- ۔
-19 (ڈاکٹر)سلیم اختر:تنقیدی دبستان: سنگِ میل،لاہور،1997 ،ص133-134-
-20 ایضاً:ص136-137- ۔
-21 اردو لغت(تاریخی اصول پر) جلداوّل:ترقی اردو بورڈ،کراچی،طبع اول، 1977 ، ص190- ۔
-22 ایضاً:ص191- ۔
-23 اردو دائرہ معارف اسلامیہ،جلد۔۱:مرتبہ ڈاکٹرسیدعبداللہ، دانش گاہ ِپنجاب، لاہور،طبع اول،1964 ،ص103-105- ۔
-24 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا،جلد 1- (ادبیات):قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی،طبع اول،2003 ،ص354-356- ۔
-25 ایضاً:جلد8- (فنونِ لطیفہ): ص۔184-185 ۔
26. Wikipedia: op. cit.
27. lbid:
-28 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد1- (ادبیات) مذکور، ص۔201 ۔
-29 بحوالہ سیدعلی عباس جلالپوری:کتاب مذکور،ص180- ۔
-30 جامع اردو انسائیکلو پیڈیا جلد 1- (ادبیات) مذکور:ص۔201 ۔
31- The New Encyclopeadia Britannica. P.649
32- lbid p.649
33- lbid: p. 649
34- lbid: p.650
-35 جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، جلد8- ( فنونِ لطیفہ)قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، طبع اول، 2003 ،ص۔476-477 ۔
-36 خالد اقبال یاسر،محمدارشدرازی:نوبل انعام کے103 سال (ادب)،اردو سائنس بورڈ، لاہور،طبع اول ،2005 ، ص۔ 203-207 ۔
-37 ایضاً:ص104-109 ۔
-38 ایضاً:ص64-68 اور72 ۔
-39 اقبال: شذراتِ فکرِاقبال؛ مترجمہ افتخاراحمدصدیقی، مجلس ترقیٔ ادب، لاہور، طبع دوم، 1983، ص66- ۔
-40 بحوالہ کلیاتِ اقبال؛ اقبال اکادمی،لاہور، 1990 ،ص10- ۔
-41 (شیخ) عبدلقادر: دیباچہ کلّیاتِ اقبال، اقبال اکادمی، لاہور،1990 ئ، ص۔ 38 ۔
-42 اقبال، شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص105- ۔
-43 بحوالہ کلیاتِ اقبال مذکور؛ص10- ۔
-44 اقبال: شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص128- ۔
-45 بحوالہ کلیات اقبال مذکور،ص11- ۔
-45 اقبال، شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص138- ۔
-47 ایضاً:ص142- ۔
-48 ایضاً:ص134- ۔
-49 ایضاً:ص132- ۔
-50 بحوالہ کلیات اقبال مذکور،ص13- ۔
-51 (ڈاکٹر)ابواللیث صدیقی؛ ملفوظاتِ اقبال؛ اقبال اکادمی، لاہور، طبع اول، 1977،ص370-
-52 ایضاً:ص371- ۔
53- Iqbal: Reconstruction of Religious Thought in Islam,
P.166-167
-54 بحوالہ مظفر علی سیّد: مقالہ ادب اور تاریخی شعور مشمولہ ادبی زاویے، مرتبہ خالد اقبال یاسر مذکور،ص81-
-55 ایضاً:ص184-
-56 اقبال: شذراتِ فکرِاقبال مذکور،ص165- ۔
-57 (فقیر سیّد)وحیدالدین: روزگارِفقیرجلدددم،لائن آرٹ پریس، کراچی، طبع دوم، ص104- ۔
-58 محمد رفیق افضل(مرتب): گفتارِاقبال،ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، لاہور، طبع سوم، 1986،ص103-104- ۔
-59 ایضاً:ص۔ 104-105 ۔
-60 ایضاً:ص12- ۔
-61 ایضاً:ص86- ۔
-62 ڈاکٹرابواللیث صدیقی:ملفوظاتِ اقبال مذکور؛ص77-
-63 ایضاً:ص77- ۔
-64 ایضاً:ص138-139- ۔
-65 فقیرسیدوحیدالدین:کتاب مذکور؛ ص61-
-66 محمدرفیق افضل(مرتب):کتاب مذکور،ص169-
-67 کلیات ِاقبال مذکور:ص11-
-68 (ڈاکٹر)ابواللیث صدیقی:ملفوظاتِ اقبال مذکور:ص603-604-
-69 اقبال، علامہ محمد؛ کلیات مکاتیبِ اقبال؛جلددوم، مرتبہ: سیدمظفرحسین برنی؛خط بنام صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، اردو اکادمی، دہلی،1993 ؛ص601-
-70 بحوالہ (ڈاکٹر) کنیزفاطمہ یوسف:اقبال اور عصری مسائل؛سنگِ میل،لاہور،
2005، ص465-
-71 ایضاً:ص426-
-72 (ڈاکٹر) رفیع الدین ہاشمی: اقبال؛ تفہیم و تجزیہ، اقبال اکادمی، لاہور، طبع اول، 2000،ص146-
-73 اقبال:تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ،مترجمہ سیدنذیرنیازی،بزمِ اقبال، طبع سوم، 1986،ص247-
-74 پروفیسرخواجہ غلام صادق، فلسفۂ جدید کے خدوخال، نگارشات،لاہور، طبع اول،1986 ،ص341- ۔
-75 اقبال :خطبات مذکور: ص268-271- ۔
-76 ظہیرکاشمیری؛ ادب کے مادی نظریے؛ کلاسیک، لاہور، طبع دوم، 1975 ، ص152-
77- Dr. Anne-marie Schimmel: Gabriel's Wing, E.J.
Brill; Leiden; 1963, P.295.