باب اوّل
ادبی تحریک سے کیا مراد ہے ؟
تحریک میں حرکت اور متحرک ہونے کے معنی پوشیدہ ہیں یعنی ہم اسے جمود کا الٹ قرار دے سکتے ہیں ۔ تخلیقِ کائنات کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ابتداء میں محض ایک جمود تھا ۔ پھر اس جمود ہی سے حرکت پیدا ہوئی جس کے سبب اس کائنات کی ابتداء ہوئی ۔ کائنات کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی بھی تحرک ہی سے عبارت ہے ، شاید اسی وجہ سے مفکّرین نے زندگی کو ’’رو میں ہے رخشِ عمر ‘‘سے تعبیر کیا ہے ۔
فلسفہ میں شروع ہی سے یہ بحث موجود ہے کہ مطلق حرکت ہے یا سکون،اور اس سلسلے میں طرفین نے زوردار دلائل کے ساتھ اپنے اپنے مؤقّف کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔جدید دور میں حرکت کو مطلق تصور کرنے اور سکون کو اضافی جاننے کارویہ نمایاں ہے۔
دوسری طرف اگر ادب کا جائزہ لیں تو اس سے مراد وہ فن ہے جس کے اظہار کے لیے الفاظ کو وسیلہ بنایاجاتا ہے۔ادب کو ہم زندگی کا آئینہ قراردے سکتے ہیں کہ جو کچھ کسی معاشرے میں ہو رہا ہے ادب اسے بالواسطہ طور پر منعکس کر دیتا ہے۔حال کے ساتھ ساتھ ادب کے آئینے میں اپنے ماضی کے نقوش اور مستقبل کے امکانات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ہر لکھنے والا ایک مخصوص معاشرے میں پیدا ہوتا ہے اور اس میں زندگی بسر کرتا ہے۔کسی بھی ادیب کی تحریر اس کے ذاتی تجربات، مشاہدات،تاثّرات،تصوّرات اور شخصی ترجیحات کے ساتھ ساتھ معاشرتی احوال،معاشی کیفیّات، تاریخ کے نشیب وفراز،الغرض بہت سی انفرادی اور اجتماعی کیفیّات کی ترجمان ہوتی ہے۔یہی مختلف اجزاء مل کر ادب میں آفاقیت پیدا کرتے ہیں جس کی بدولت کسی مخصوص عہد میں ایک خاص ثقافت میں بولی جانے والی زبان میں ایسی تحریریں سامنے آتی ہیں جو زمان و مکاں کی قید سے آزاد بھی ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔
ادبی تحریک
تحریک کا بنیادی کام جمود کو توڑنا اور ٹھہرے ہوئے پانی میں ہلچل پیدا کرنا ہے۔ادب میں جب ایک لمبے عرصے تک خیالات،اسلوب،ہیئت اور لفظیات کی سطح پر یکسانیت طاری رہے تو ایسے میں اس بات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ کسی نئی تحریک کے ذریعے ادب کے ٹھہرے ہوئے پانی میں ارتعاش پیدا کیا جائے۔
ادبی تحریک اپنے سامنے دیگر تحریکوں کی طرح ایک واضح ادبی نصب العین رکھتی ہے۔اس کے تحت یہ بات غیر محسوس طور پر یا ارادی طور پر طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ا دب کیا ہے؟اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟کسی صنف یا فن پارے کے لیے ہیئت اور اسلوب کی سطح پر کون کون سی تبدیلیاں ممکن ہیں یا ناگزیر ہیں؟اور موضوعاتی سطح پر ادب کو اب کس نوعیت کے امکانات کو اپنے دائرے میں سمیٹنے کی ضرورت ہے؟
تحریک کا لفظ ادب میں ایک دوسرے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لکھنے والااپنے لیے لکھنے کی تحریک کس چیز سے حاصل کرتا ہے۔ان معنوں میں ہم لکھنے والوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:ایک قسم کے وہ ادیب ہوتے ہیں جو خارج کو زیادہ اہم خیال کرتے ہیں اور اپنے لکھنے کی تحریک خارجی واقعات اور مشاہدات سے حاصل کرتے ہیں،دوسرے وہ جو اپنے باطن میں غوطہ زنی سے اس کے ا سرار کی نقاب کشائی کو ادب کا مقصود قرار دیتے ہیں اور انھی سے متاثر ہوتے ہیں۔لیکن اس معاملے میں کوئی واضح لکیر کھینچنا آسان نہیں ہے۔کوئی بھی لکھنے والا اپنے تخلیقی عمل میںخارج یا باطن دونوں سے تحریک حاصل کر سکتا ہے۔وہی غالبؔ جو یہ کہتا ہے کہ ع آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں،وہی یہ کہتا ہوا بھی پایا جاتا ہے کہ ؎
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
(1)
دوسری صورت مکمل شعوری بیداری کی ہے جس کے بالکل سامنے کی مثال ترقی پسند ادب ہے۔
ڈاکٹر انور سدید نے ا دبی تحریک کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ادبی تحریک فی الاصل ادب کے جمود کو توڑنے اورا س کی کہنگی کو زائل کر کے تنوّع اور نیرنگی پیدا کرنے کا عمل ہے۔‘‘(2)
اگر ڈاکٹر انور سدید کی تعریف کو مدّ ِنظر رکھا جائے تو ادبی تحریک کے تین مقاصد نظر آتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی با ہم پیوست ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ ادب پر سکون کی جو کیفیّت طاری ہو چکی ہے اور جس کے زیر اثر تکرار اور یکسانیت تخلیقات میں راہ پا چلی ہیں ، اس کا سدِّباب کرتے ہوئے نئے اسالیب اور موضوعات کو ادب کے دائرے میں لایا جائے ۔ نئے عناصر کی شمولیت کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی محسوس کی جاتی ہے کہ قدیم اور فرسودہ خیالات ، زبان اور استعارات سے ممکن حد تک اجتناب برتتے ہوئے خود کو کہنہ پن سے دور رکھا جائے ۔ اس طرح ادب میں تنّوع اور نیرنگی پیدا ہوتی ہے ۔
ان مقاصد کے ساتھ ساتھ تحریک ایک اور مقصد بھی سرانجام دیتی ہے اور وہ ہے منتشر عناصر کو یکجا کرنا ۔ یہ کام افراد ، تخلیقات اور افکار ہر سطح پر وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ چونکہ تحریک کسی ایک مرکزی نکتے کے گرد اپنا تانا بانا بنتی ہے اور اس سلسلے میں جو افراد یا لکھنے والے خود کو نئی ادبی تحریک کے بنیادی معاملات سے متّفق خیال کرتے ہیں ، وہ اس تحریک میں شامل ہو جاتے ہیں جس سے ادب کی صورت گری ، انفرادی سطح کا معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی فعل کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس سے اشتراکِ خیال ظاہر اور مترشح ہو تا ہے ۔ اس کے علاوہ ہر تازہ ادبی تحریک کلاسیکی اور متقدم ادب میں سے ان اجزاء کی چھان بین کرتی ہے جو اس ادبی تحریک کے مزاج کے قریب ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ جدّتِ خیال اور ندرتِ فکر کے بین بین نئے سرے سے نئی ترجیحات اور توضیحات کی روشنی میںماضی کے ادبی ورثے کے ساتھ رشتہ استوار کرتی ہے ۔
ادبی تحریک اور سیاسی ۔ سماجی تحریکات
ادبی تحریک کا مقصد معاصر ادب میں تبدیلی پیدا کر کے اسے نئی شکل و صورت دینا ہے جبکہ معاشرے کو تبدیل کرنا ، موجودہ سماجی ڈھانچے کو توڑ کر نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دینا ، موجودہ سیاسی نظام یا سیاسی حکومت کو ختم کرکے اس کی جگہ نئے سیاسی نظام اور نئی حکومت کا قیام ، سیاسی اور سماجی تحریکات کے مقاصد میں شامل ہو تے ہیں ۔ یوں یہ تحریکیں عموماً اپنے معاشرے کی نا ہمواریوں کو نشانہ بناتی ہیں او ر لوگوں کو روشن اور بہتر مستقبل کے خواب دکھاتی ہیں ۔ صرف یہی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی تحریکیں عوام سے یہ مطالبہ بھی کرتی ہیں کہ و ہ بہتر مستقبل کے حصول کے لیے آواز بلند کریں اور اپنی پوری توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پرانے اور شکستہ نظام کے ستونوں کو گرا دیں تاکہ ان کی جگہ ایک نئے او ر بہتر نظام کی داغ بیل ڈالی جا سکے ۔ اس تبدیلی کے لیے سیاسی اور سماجی تحریکیں منفی اور تخریبی ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں ۔ ان کے برعکس ادبی تحریک کا مقصد ظاہری ڈھانچے کی شکست و ریخت نہیں ہوتا بلکہ ایسی تحریک تو معاشرے کے باطن میں موجود اس جوہر کو غیر محسوس طور پر تبدیل کرنا چاہتی ہے جس کے سہارے اس معاشرتی نظام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے ۔ اس لیے یہ تحریک فرد کو خارجی سطح پر متحرک کرنے کی بجائے اس کے باطن کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اس سے زیادہ دیرپا اور گہری نوعیت کی تبدیلی لائی جا سکے ۔سیاسی اور سماجی تحریک فرد کی زندگی کی خارجی سطح کو اپنی گرفت میں لاتی ہے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ دوسری طرف ادبی تحریک فرد کی شخصیت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لانے کا باعث ہوتی ہے تاکہ پرانے ڈھانچے میںسے ایک نئے انسان کو برآمد کیا جا سکے ۔ پروفیسر مجتبیٰ حسین نے ادبی تحریک کی کارکردگی اور اس کی افادیت کے بارے میں بجا طور پر اشارہ کیا ہے :
’’سماجی زندگی ایک مسلسل منشور ہے اور ہر ادیب کے پاس برطانوی دستور کی طرح ایک غیر تحریری دستور ہوتا ہے جس سے اس کی فکر مرتّب ہوتی ہے ۔ ‘‘ (3)
مندرجہ بالا بیان سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ تحریک لگے بندھے اصول و ضوابط اور کسی مقررہ منشور کی شعوری پابندی نہیں کرتی بلکہ اس کا ڈھانچہ بہت حد تک لچکدار ہوتا ہے جس میں ترمیم ، اضافے یا تبدیلی کی ہمہ وقت اور کسی بھی حد تک گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن ہمیں ادب میں ایسی تحریکیں بھی ملتی ہیں جن کے باقاعدہ طور پر تحریر شدہ مینی فیسٹو اس پر دستخط کرنے والوں یا محض متّفق ادیبوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ ادراک اور شعور کی سطح پر ایک خاص قسم کا ادب تخلیق کریں ۔ ان تحریکات کے پسِ پشت واضح سیاسی عزائم ہوتے ہیں ۔ یہ فرد کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھاتی ہیں لیکن تعبیر نہ ملنے کی صورت میں ان تحریکات سے وابستہ افراد مایوسی اور افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں تھوڑے عرصے کے بعد ہی تحریک تنظیمی سطح پر دم توڑ دیتی ہے ۔ ڈاکٹر انور سدید نے ادبی اور سیاسی تحریک کے فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’سیاسی تحریک میں تغیر کا عمل خارج سے شروع ہوتا ہے اور معاشرے کی صرف ایک پرت یعنی اس کے خارجی مظہر کو اثرات قبول کرنے پر مائل کرتا ہے ۔ دوسری طرف ادبی تحریک قلبِ ماہیت کے جس عمل کو بروئے کار لاتی ہے وہ فرد کے داخل میں ظہور پذیر ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ پورے خارج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تحریک کے اثرات پیش منظر بدلتے ہی بالعموم اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور نئی انتظامیہ اقتدار سنبھالتے ہی ان کی کایا پلٹ میں مصروف ہو جاتی ہے لیکن ادبی تحریک کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں اور انہیں بیک جنبشِ قلم حرفِ غلط کی طرح مٹانا ممکن نہیں ہوتا ۔ ‘‘ (4)
اس اقتباس سے اس نقطۂ نظر کی بہتر طور پر وضاحت ہو جاتی ہے کہ ادبی اور سیاسی تحریکیں اپنے طریقِ کار، عمل اور اثرات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کیونکر مختلف ہیں ۔
تحریک اور رجحان کا فرق
تبدیلی کی خواہش کسی بھی فرد کے ذہن میں جنم لے سکتی ہے اور وہ فرد تبدیلی لانے کے لیے اپنے طور پر جدوجہد بھی کر سکتا ہے ۔ لیکن جب تک اس خواہش میں دوسرے لوگ شریک نہ ہوں اور اجتماعی طور پر واضح اور شعوری لحاظ سے اپنی اس آرزو کا اظہار نہ کریں ، اس وقت تک اس نئے طرزِ احساس کو اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں ملتا ۔ جب ادباء کا ایک پورا گروہ ارادی یا غیر ارادی طور پر اپنی اپنی تخلیقات میںکسی خاص طرزِاحساس کو اجاگر کرنے لگے تو عموماً ایسی کیفیت کو رجحان کا نام دیا جاتا ہے ۔ جب یہ رجحان رفتہ رفتہ پھیلنے لگتا ہے اور اس کے زیرِ اثر ادباء اور شعراء کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر یہ رجحان اپنی توسیعی صورت میں تحریک کا روپ دھار لیتا ہے بشرطیکہ یہ نیا ادبی رجحان مبنی بر حقائق ہو، اثر پذیر ہواور اسے عصری صورتِ حال کا معروضی تجزیہ کر کے پروان چڑھایا گیا ہو ۔
رجحان اور تحریک میں بنیادی فرق یہ ہے کہ رجحان اکثر نمایاں اور تیز رفتار نہیں ہوتا۔اس کے برعکس تحریک تند وتیز ہوتی ہے۔تحریک سمت نمائی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے جبکہ رجحان کی سمت واضح نہیں ہوتی اور اس کا نصب العین پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا۔
تحریکات کا آغازعام طور پر افراد اپنی اپنی سطح پر کرتے ہیں جو آہستہ آہستہ اجتماعی صورت اختیار کرلیتی ہیں،یعنی تحریک کا آغاز رجحان کے طور پرہوتا ہے۔رجحان کو ہم کسی حد تک انفرادیت اور تحریک کو اجتماعیت سے وابستہ کر سکتے ہیں۔ادب میں کوئی بھی نیا رجحان ایک خیال یا واضح اشارے کی صورت میں سر اٹھاتا ہے۔اس کی نشوونما کے لیے اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے ادباء بھی اس خیال یا اشارے سے اپنی وابستگی کا اظہار اپنی تحریروں کے ذریعے کرنے لگیں۔یعنی اشارہ رجحان کا عکاس ہوتا ہے جبکہ تحریک اپنے آپ کو علامت کے روپ میںظاہر کرتی ہے،ایسی علامت جو معنی آفریں اور ہمہ گیر ہو تی ہے۔
ادبی تحریک اور عصریت
ادبی تحریک کا عصریت کے ساتھ جو تعلق قائم ہوتا ہے اس کی توضیح ہم دو پہلوؤں سے کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بھی ادبی تحریک کے پنپنے کے لیے اس تحریک کے عصر میں ایسے عناصر کا وجود ضروری ہے جو ادبی تحریک کے پھلنے پھولنے کے لیے ساز گار ماحول اور مناسب فضا تیار کر سکیں۔اردو زبان وادب کے میدان میں اس کی ایک واضح اور بیّن مثال نظیر اکبر آبادی کی شاعری ہے۔نظیر اکبر آبادی نے مولانا الطاف حسین حالی اور ترقّی پسند شعراء کے عہد سے کہیں پہلے ایسی نظمیں تخلیق کیں جو ان کے زمانے کے عوام کے حالات اور کیفیات کی خوبصورتی سے عکاسی کرتی تھیں۔یہی نہیں بلکہ انھوںنے اپنی شاعری کے لیے جو زبان استعمال کی وہ بھی عوامی لہجے اور عام بول چال سے مطابقت رکھتی تھی لیکن ہم نے دیکھا کہ اپنے عصر میں نظیر کی شاعری کو زیادہ پذیرائی نصیب نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ اس دور کے تذکرہ نویسوں نے بھی ان کا شمار اس وقت کے اہم شعراء میں نہیں کیا بلکہ ان کے نام اور کام پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔اس کے برعکس موجودہ صدی میں مولانا الطاف حسین حالی کے زیر اثر ترقی پسند تحریک سے وابستہ اہلِ قلم نے بنیادی طور پر ان عناصر کو ہی اپنی شاعری میں جگہ دی جن سے نظیر کی شاعری کا خمیر اٹھا تھا۔اس سے نہ صرف یہ کہ نظیر اکبر آبادی کے اندازِ فکر کا احیاء ہوا،بلکہ ان کی شاعری نے جس رجحان کی ابتدا کی تھی اس نے اس عہد میں آ کر باقاعدہ طور پر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔چنانچہ نظیرکی شاعری کو از سرِ نو پڑھنے ،سمجھنے اور اس کی قدروقیمت کے تعین کی کوشش کی جانے لگی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بیسویں صدی میں سائنس اور معاشرتی علوم کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن اور شعور کے ارتقاء نے زمین کو ہموار کر دیا تھا اور اب اس نوعیت کی عوامی شاعری کے بیج کے لیے ایسی فضا پیدا ہو گئی تھی کہ وہ تناور درخت بن سکے۔
ادبی تحریک اور عصریت کا ایک تعلق تو وہی ہے جس کی نشاندہی اوپر کی سطور میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دونو ں میں ایک رشتہ اور بھی ہے جو پہلے رشتے کے معکوس ہے۔یعنی یہ کہ ادبی تحریک کی کامیابی کے لیے صرف عصری حالات کا سازگار ہونا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ دوسری جانب ہر ادبی تحریک کے لیے اپنے زمانے کے نمایاں احساسات ،خیالات،رجحانات بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ روحِ عصر کو اپنی بنت میں سمونا بھی اتنا ہی لازم ہوتا ہے ورنہ ادبی تحریک کی نشوونما رکنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر کسی دور کے معاشرتی اور سیاسی احوال کی زیریں لہروں کو جاننے کی ضرورت پیش آئے اور کسی معاشرے کے نمایاں رجحانات کو سمجھنا ہو تو اس زمانے کے ادب کا مطالعہ بے حد معلومات افزا اور فکر انگیز ثابت ہوتا ہے،کیونکہ ادب میں عصری رجحانات، معاشرتی اتار چڑھاؤ اور تاریخ کے نشیب و فراز بالواسطہ طور پر منعکس ہوتے ہیں۔
اعتقادات ،فلسفے،سیاست،معاشر ت اورعلوم کا ادبی تحریک پر اثر
کوئی بھی ادب جس ثقافت کی پیداوار ہوتا ہے ،اپنے اندر اس تہذیب اور ثقافت کے اجزائے ترکیبی بالواسطہ طور پر شامل کر لیتا ہے۔ثقافت کی تعریف پر بشریات کے علماء آج تک متفق نہیں ہو سکے تاہم اس کی تعمیر میں اعتقادات ،مذاہب، فلسفہ ،سیاست ،طرزِ معاشرت اور سائنسی علوم سب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ثقافت کی مقبول تعریف کے مطابق چونکہ اس میں کسی مخصوص تمدنی گروہ کے رواج،توہمات ،آدابِ زندگی اور روزمرّہ معمولات سے لے کر زندگی کے اعلیٰ حقائق کے بارے میںاس کے طرزِ عمل تک تمام پہلو شامل ہوتے ہیں،اس لیے ثقافت بہت سے عناصر اور عوامل سے مرتّب ہو تی ہے ۔ادبِ عالیہ اپنے اندر ثقافت کے ان تمام نمایاں اجزاء کو اس طرح سمیٹتا ہے کہ جوڑ کہیں پر دکھائی نہیں دیتا اور اس طرح وہ ان کی دائمی بقا کا ضامن بن جاتا ہے۔یہ ایک فطری عمل ہے کہ ادب جس معاشرے میں جنم لیتا ہے اسی معاشرے کے خدّوخال نمایاں کرتا ہے۔کسی قوم کے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کے مخصوص عصر میں،جس میں وہ ادب تخلیق ہوا ہو،مروّج رسومات، روایات، توہمات،عادات،فلسفیانہ خیالات ،نظریات،طرزِ معاشرت ،اندازِ فکر ، اس معاشرے میں فروغ پانے والے علوم غرضیکہ ہر اس بات کو جان سکتے ہیں جو اس تمدّن سے مخصوص ہو۔مثال کے طور پر اگر ہم خاص طور پر خواجہ میر درد اور دیگر شعراء کے کلام کا عام طور پر مطالعہ کریں تو ہمیں اس معاشرے پر تصوف کے گہرے اثرات ملتے ہیں کیونکہ اس معاشرے کے عقائد پر تصوّف بہت حد تک چھایا ہو اتھا۔مزید برآں فنا اور جبریت کے فلسفے نے اس پورے عہد کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔یہ دونوں عناصر میر اور اس کے معاصر شعراء کے کلام میں بے حد نمایاں ہیں۔اس زمانے میں ہندوستان معاشرتی اور سیاسی سطح پر ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا تھا اور انگریز مغلیہ سلطنت کی بساط پر اپنے مہرے آزماتے چلے جا رہے تھے۔ملک طوائف الملوکی کا شکار تھا۔سکھ ،مرہٹے اور جاٹ اپنی اپنی کارروائیوں میںمصروف تھے۔مغل حکمرانوںکا اقتدا ر دہلی اور قلعۂ معلی تک محدود ہوتا جا رہا تھا۔میر تقی میر،ان کے معاصر شعراء اور ان کے مابعد شعراء کے کلام میں اس تغیر وتبدّل اور زوال آمادہ تہذیب کی جانب واضح اشارے ملتے ہیں ؎
چند لُچّے ہیں مستعدِّ کار
دس تلنگے جو ہوں تو ہے دربار
(میر تقی میر)(5)
میں ننگ ہوں اتنا کہ قبیلے میں سے کوئی
میراث کے بھی لینے کو وارث نہ کہایا
(میر زا محمد رفیع سودا)(6)
یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ادب اپنے مخصوص دور کے مروّجہ علوم کے جوہر کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن اس کا طریقِ کار دوسرے علوم سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ ادب تفصیل کی بجائے اجمال بلکہ جمالیات کا راستہ اپناتا ہے۔امور اور اشیاء کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ ان کے اجزاء پر توجہ دینے کی بجائے ان اجزاء کی کلّیت پر نظر رکھتا ہے۔ اس طرح یہ کثرت میں وحدت کی جستجو کا عمل بن جاتا ہے جو کہ فلسفے اور جدید سائنسی طرزِ فکر اور طرزِ عمل کے الٹ ہے ۔ لیکن طریقِ کار کے اس اختلاف کے باوجود ادب کا دیگر علوم کے ساتھ رشتہ اٹوٹ اور پختہ ہے اور سب ایک دوسرے کی ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔ ادب نہ صرف یہ کہ سائنس اور فلسفے سے اثرات قبول کرتا ہے بلکہ یہ سائنس اور فلسفے کو متاثر بھی کرتا ہے ۔ سائنس کے میدان میں متعدد انکشافات اور ایجادات ایسی ہیں جن کے ابتدائی نقوش ہمیں ان انکشافات اور ایجادات سے بہت پہلے مختلف ادباء اور شعراء کی تحریروں میں مل جا تے ہیں ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ادب پڑھنے والوں کے تخیل کو مہمیز کرتا ہے ، اس لیے یہ مختلف میدانوں میں تخلیقی کام کرنے والے افراد کو نت نئی راہیں سجھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
ادبی تحریکیں اور شخصیات
اگرچہ تحریک ہمیشہ اجتماعی فکر و عمل سے پروان چڑھتی ہے لیکن جب تک سوچنے والوں اور لکھنے والوں کا ایک قابلِ لحاظ گروہ کسی مرکزی خیال پر شعوری یا غیر شعوری طور پر متفق ہو کر اور مل جل کر ہیئت ، اسلوب ، لفظیات اور موضوعات کی سطح پر اشتراکِ فکر و عمل کا ثبوت مہیا نہ کرے ، ادبی تحریک وجود میں نہیں آ سکتی ۔ اس کے باوجود یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ہر تحریک کے پسِ پشت کوئی نہ کوئی قد آور علمی و ادبی شخصیت ضرور موجود ہوتی ہے جس کے افکار و نظریات تحریک کے لیے اینٹ اور گارے کا کام دیتے ہیں ۔ یوں تحریک فرد سے شروع ہوتی ہے اور اجتماعی صورت میں پروان چڑھتی ہے ۔ مثال کے طور پر ہم علمِ نفسیات کے میدان میں تحلیلِ نفسی کی تحریک کا حوالہ دے سکتے ہیں جس نے نفسیات کے علم کے ساتھ ساتھ بشریات ، ادب، فنونِ لطیفہ اور دوسرے کئی علوم کو بھی متاثرکیا ہے ۔
تحلیلِ نفسی کی اس تحریک سے اس عہد کے بڑے بڑے نام وابستہ ہیں ۔ ان نامور شخصیات میں ژونگ ، ایڈلر ، فرام، سیلون ، راغ اور ایرکسن شامل ہیں ۔ لیکن اس بات سے انکار بہت مشکل ہے کہ یہ سب لوگ جس مرکز کے گرد جمع ہوئے وہ سگمنڈ فرائڈ کی ذات تھی ۔ اگر فرائڈ نہ ہوتا تو تحلیلِ نفسی کی تحریک شاید اس طرح پروان نہ چڑھتی کیونکہ اس تحریک کا سارا مواد فرائیڈ کے نظریات کی تشریح و توضیح یا ردّو قبول کے باعث وجود میں آیا ۔
اگرہم اردو ادب میں سے کوئی سامنے کی مثال لینا چاہیں تو علی گڑھ تحریک کا حوالہ بہت با معنی اور برمحل ہے ۔ اردو ادب میں یہ پہلی باقاعدہ تحریک تصور کی جاتی ہے جو علمی اور نظریاتی خطوط پر استوار ہوئی ۔ اس تحریک میں اس دور کے اہم لکھنے والے کسی نہ کسی حیثیت میں شامل تھے ۔ ان میں مولانا الطاف حسین حالی ، مولانا محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا شبلی نعمانی اور مولوی ذکاء اللہ نمایاں تھے ۔ لیکن یہ تمام سیارے جس ستارے کے گرد گردش کرتے رہے وہ سرسید احمد خان کی شخصیت ہے ۔ اگر سر سید احمد خان ان خلاّق ذہنوں کو ایک مرکز پر جمع نہ کرتے تو شاید علی گڑھ تحریک وجود میں نہ آتی جس نے اردو شعر و ادب ہی نہیں ، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ پر بھی انمٹ نقوش ثبت کئے ۔
ذرا اور آگے بڑھیں تو اس اثر آفریں تحریک کی اگلی اور منطقی کڑی خود اقبال کی شخصیت اور شاعری ہے ۔ اقبال کی شخصیت ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور پر اثر تھی۔ ان کی شاعری اپنے اسلوب ، لفظیات اور موضوعات کے اعتبار سے ایک نئی تحریک کا آغاز ثابت ہوئی ۔ ان کی پیروی میں لا تعداد لکھنے والوں نے اسی اسلوب ، لفظیات اور موضوعات کو اپنی شاعری اور نثری ادب میں جگہ دی جو پہلے پہل اقبال کے ہاں اپنی پوری شدّت ، جدّت اور ندرت کے ساتھ ظاہر ہوئے تھے ۔ یوں اقبال اردو میں ایک نئی تحریک کے پیشرو اور نقیب ہوئے جسے ’’اقبال کی تحریک ‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا اتنا آسان نہیں ہے ۔
اقبال کے بعد اگر اردو ادب کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں بہت سی تحریکیں پہلو بہ پہلو نظر آتی ہیں ۔ ان میں سے مثال کے لیے ترقی پسند تحریک کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک فکری اور نظری لحاظ سے کارل مارکس اور اینگلز کے معاشی ، سماجی اور تاریخی افکار کے گرد گھومتی ہے ۔
چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف ادبی تحریکیں اپنے عروج کے دوران بے شمار افراد کو اپنے جلو میں لے لیتی ہیں ، اگرچہ وہ بنیادی طور پر کسی ایک یا ایک سے کچھ زیادہ علمی و ادبی شخصیات کے افکار سے خوشہ چینی کرتی ہیں ۔
ادبی تحریک اور نصب العین
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ، جب کوئی ادبی رجحان ادبی تحریک میں ڈھلتا ہے تو اس میں کئی واضح تبدیلیاں آتی ہیں ۔ ان میں سے ایک تبدیلی تو یہ ہوتی ہے کہ ادبی رجحان کے برعکس ادبی تحریک ایک ٹھوس نصب العین کی حامل ہوتی ہے ۔ ادبی تحریک کا آغاز کرنے والے کے سامنے اس تحریک کا فکری پس منظر واضح ہوتا ہے اور اپنی منزل کے حصول کا طریقِ کار معیّن ہوتا ہے ۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ادبی تحریکیں اپنے نصب العین کو حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہو جائیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نصب العین کو حاصل کرتے وقت مثالیت پسندی سے کام لیا جاتا ہے جسے حاصل کرنا چاہے ممکن نہ ہو لیکن جس تک پہنچنے کی خواہش اقوام کو مسلسل جدّوجہد پر آمادہ رکھتی ہے ۔
نصب العین ہی سے تحریک کی سمت کا تعین ہوتا ہے جس سے مختلف افراد کو کسی مرکزی نکتے پر مجتمع ہونے میں سہولت ہوتی ہے اور پھر وہ سب مل کر اپنے متعین مقصد کے حصول کے لیے اپنے قلم کے ذریعے غیر شعوری یا شعوری کوشش کرتے رہتے ہیں ۔
حواشی و حوالہ جات
1۔ (میرزا) اسد اللہ خان غالب :نئے پرانے ، انتخاب از امجد اسلام امجد ، التحریر ،
لاہور،1999 ء ، ص۔ 259
2۔ (ڈاکٹر)انور سدید:ـ اردو ادب کی تحریکیں ،انجمن ترقی ٔاردو پاکستان ، کراچی ،1985 ء ،
ص۔60
3۔ مجتبیٰ حسین : تحریک اور ادب ، مقالہ مشمولہ مجلہ پاکستانی ادب کراچی ، شمارہ نومبر1984 ئ،
ص۔5
4۔ (ڈاکٹر ) انور سدید : کتاب مذکور، ص۔ 66
5۔ میر تقی میر:انتخابِ میراز ناصر کاظمی ، مکتبہ ء خیال ، لاہور ، 1989 ء ،ص۔625
6۔ (میرزا) محمد رفیع سودا :نئے پرانے ، انتخاب از امجد اسلام امجد مذکور ، ص۔ 85