باب پنجم : حصہ اوّل
اقبال کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ
’’غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خان غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا ٗ اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد ِخاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے ٗ اور اس نے پنجاب کے ایک گوشہ میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘(1)
سر عبدالقادر نے اقبال کی پہلی کتاب کے دیباچے میں اقبال کی شاعری کی جانب غالب کی مماثلت کے حوالے سے اشارہ کیا ہے۔ اس سے ہمیں اقبال کی شاعری کے بہت سے عناصرِ ترکیبی سے آگاہی ہوتی ہے۔ غالب نے اردو شاعری میں فلسفیانہ مضامین کے بیان سے ایک نئی طرح ڈالی تھی جسے اقبال نے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اقبال ایسا شاعر ہے جس کے ہاں گہری فکر اور حکمت جاری و ساری نظر آتی ہے۔ اقبال نے تہذیب و تمدن کے جملہ پہلوؤں پر غور و فکر کیا اور انسانی زندگی میں مذہب کے کردار ٗ ادب کی تہذیبی اہمیت ٗ کائنات میں انسان کا مقام ،غرض بے شمار سنجیدہ ٗ فکری اور فلسفیانہ مضامین کو شاعری کا جامہ یوں پہنایا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیات جنم لیتی دکھائی دیتی ہے۔
کسی بھی عظیم شاعر پر بات کرتے ہوئے ہمیں ایک بات کو مدّ ِ نظر رکھنا چاہیے کہ شعر و ادب کی اپنی منطق ہوتی ہے جو فلسفہ اور زندگی سے بہت حد تک مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے شعرو ادب کے تصورات اخذ کرتے وقت خصوصی احتیاط برتنی چاہیے اور جلد بازی سے ایسے نتائج اخذ کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو شاعری کی کُلّی تفہیم سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔
اقبال کی شاعری کا فکری اور فنی جائزہ لیتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس کی شاعری فنی اعتبار سے دنیا کے عظیم شعراء کے مقابلے میں پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی مربوط فکر اور مذہبی تعلیمات کو اپنی شاعری میں سمونے سے اردو شاعری میں ایک نئی طرز کی بنا ڈالی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری سے مسلم قوم کے زوال کے خاتمے اور مسلم نشاۃِ ثانیہ کے عظیم کام کی انجام دہی کے لیے کام لیا۔ اس سلسلے میں خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں:
’’اقبال نے شاعری سے جو کام لیا ہے اس کی نظیر مسلمانوں کی شاعری کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہے وہ عدیم المثال ہے۔ شاعری کو عام طور پر لطفِ طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو اعمالِ حسنہ میں شمار نہیں کیاجاتا۔ زیادہ تر شاعری ہوتی بھی ایسی ہے لیکن شاعری کی ایک وہ قسم ہے جو گِرتوں کو ابھارتی ہے اورخستگانِ حیات کے دل قوی کرتی ہے۔ انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ جس شاعری سے ملّت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوںاس کو اعلیٰ درجے کے اعمالِ حسنہ میں شمار کرنا چاہئے۔ ‘‘(2)
خلیفہ صاحب نے بجا طور پر اقبال کی شاعری کے اس پہلو کو ابھارا ہے جو خود اقبال کو بھی بہت عزیز تھا۔ وہ اکثر اپنے احباب کی مجالس میں اس بات کا اظہار کیا کرتا تھا کہ وہ شاعر نہیںہے اور فنی نزاکتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا، اس لیے اُس کی شاعری تو اس پیغام کی ترسیل کے لیے ہے جو وہ اپنے لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اپنے اس برملا اعتراف کے باوجود اقبال کے ہاں ایسے فنی سقم کم ہی ملتے ہیں جنہیں عیب شمار کیا جا سکے۔ اقبال نے اردو ٗ فارسی اور انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس سے اسے شعری رموز کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ اقبال کے ہاں لفظ ٗ نگینوں کی طرح جڑے ہوتے ہیں اور لفظ و معانی میں مکمل مطابقت نظر آتی ہے۔ اگر ہم اقبال کی شعری لغت کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اس نے بہت سے ایسے الفاظ کو بھی اپنی شعری لغت کا حصہ بنایا جنہیں عموماً غیر شاعرانہ سمجھ کر شاعری سے باہر رکھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اقبال نے بہت سے لفظوں کو نئے معنوں میں استعمال کیا۔ اس سلسلے میں عابد علی عابد کا یہ بیان بر محل معلوم ہوتا ہے:
’’اقبال ان شعراء میں سے ہیں جو نہ صرف اپنے کلام کی ادبی خوبیوں کی وجہ سے جاذبِ توجہ ہوتے ہیں بلکہ جو اپنے مطالب و معانی کے اعتبار سے بھی تحقیقی مطالعے کا موضوع بنتے ہیں۔ ان کے یہاں یہ بات بھی ہے کہ انھوں نے تغزل اور تصوف کے ذخیرہ ٔعلامات و مصطلحات میں سے اکثر الفاظ و تراکیب کو اپنے معانیء قدیم سے جدا کرکے گویا بہ جبر و قہر سینہء الفاظ میں ایک روحِ نو پھونکی۔ علائم و رموز کو سمجھنا یوں بھی دشوار ہوتا ہے لیکن جب یہ الجھن بھی پیدا ہو جائے کہ کوئی لفظ یا ترکیب ایک علامتی شکل اختیار کر لے اور پھر اپنی علامتی اہمیت سے ہٹ کر ایک اور علامتی معنویت پیدا کرے تو یہ پیچ در پیچ استعارے کی صورت پڑھنے والے کے لیے اکثر و بیشتر گمراہی کا موجب بن سکتی ہے۔ اقبال کے ہاں علائم صاف اور سامنے کی چیزیں ہیں اور کچھ رموز پیچ دار اور پراسرار ہیں‘‘۔ (3)
عابد صاحب نے اپنے اس بیان میں ایک جانب اقبال کے طریقِ کار اور ان کے رموز و علائم کی اہمیت پر بات کی ہے تو دوسری جانب انھو ںنے اس مشکل کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے جس کے سبب قاری کو کلامِ اقبال پیچیدہ اور الجھا ہوا محسوس ہوتا ہے اور مطالب کو گرفت میں لینے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اپنی اسی کتاب میں آگے چل کر عابد صاحب نے اقبال کے رموز و علائم کی مفصّل وضاحت کی ہے جس سے ہمیں کلامِ اقبال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اقبال نے اپنا شعری خاکہ خود ترتیب دیا تھا۔ اقبال نے بڑی مہارت سے اپنے راستے کا انتخاب کیا اور اپنا راستہ خود بناتا ہوا منزل تک پہنچا۔ اقبال کے فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس پر لکھنے کی ابھی کافی گنجائش موجود ہے۔
یہاں ہم اس سمت میں مختصر اشارہ کرنے پر اکتفا کریں گے۔ چونکہ اقبال جن تصورات و افکار کا اظہار شاعری میں کرنا چاہتا تھا، وہ اردو شاعری کے لیے نئے تھے اس لیے اسے اپنے لیے نئے استعارے بھی تراشنے پڑے۔ اس نے اپنی فکر کے لیے جو جہانِ فن تخلیق کیا۔ وہ اس کی فکر سے مطابقت رکھتا تھا، اس لیے دونوں کے اشتراک سے اعلیٰ درجے کی شاعری تخلیق ہوئی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کا یہ بیان قابل توجہ ہے:
’’اقبال کی فکری بلوغت اور ان کے فن کی بلاغت الگ الگ اکائیاں نہیں ہیں، ایک ہی اکائی کے دو پہلو ہیں جن کے درمیان فرق تنقید کی چشمِ امتیاز چاہے تو کر سکتی ہے۔ جبکہ شاعری کے لمحہء تخلیق میں دونوں ایک دوسرے کے اندر بالکل مدغم ہیں۔ اور اس ادغام کا نتیجہ واحد ہے جو اجزائے ترکیب سے ترتیب پانے والا ایک ایسا مرکب ہے جس کے اجزاء اپنی جداگانہ حیثیت کھو چکے ہیں اور ایک کل کے اجزائے ترکیبی بن چکے ہیں۔ فکر و فن کے مکمل ادغام کی یہ صورت صرف اس خلوص کی بنا پر رُوبہ عمل آئی ہے جو اقبال کے معاملے میں بیک وقت فکر اور فن دونوں کی خصوصیت ہے۔ اقبال کے سارے افکار و تصورات نہ صرف ان کے مشاہدات و مطالعات ہیں بلکہ احساسات و جذبات بھی ہیں۔ یعنی تجربات اوروار دات بن چکے ہیں۔ واقعات محسوسات میں بدل گئے ہیں۔ حقائق کوائف میں ڈھل گئے ہیں۔ شاعر کے خلوص کی شدت وحدتِ کائنات و حیات کے تمام مظاہر و مناظر کو تپا اور گھلا کر ایک تخلیقی وحدت کی شکل دے دیتی ہے۔ یہی وحدت اقبال کا فن ہے جو فکر کے تمام ضروری اجزاء سے مرکّب اور فن کے تمام ضروری عناصر پر مشتمل ہے‘‘۔(4)
ڈاکٹر عبدالمغنی نے اقبال کے فکر و فن کے ا تّصال سے پیدا ہونے والی شاعری کی خصوصیت اور اہمیت کی طرف بڑے خوبصورت اشارے کیے ہیں۔ اس بات کی گنجائش بہرحال موجود ہے کہ اس بیان پر ایک طویل بحث کی جا سکے اور اس میں بہت کچھ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس جگہ ہم اقبال کے فن پر بحث کو ختم کرتے ہیں اس لیے کہ آگے چل کر جب اقبال کی شاعری پر تفصیل سے بحث کریں گے تو بات واضح ہو جائے گی۔
اقبال کی شاعری کے تفصیلی مطالعے کے لیے عموماً تین طریقہ ہائے کار اختیار کیے جاتے ہیں:
1۔ اقبال کی شاعری کا موضوعات کے اعتبار سے جائزہ ۔
2۔ اقبال کی شاعری کا تاریخی تناظر میں جائزہ۔
3۔ اقبال کی شاعری کا شعری اصناف کے اعتبار سے ارتقائی جائزہ۔
ان تینوں طریقوں سے اقبال کی شاعری کو سمجھا جا سکتا ہے اور ہر طریقے کے اپنے اپنے محاسن ہیں۔ یہاں ہم تیسرا طریقہ کار اختیار کریں گے یعنی شعری اصناف (غزل ٗ نظم ٗ طویل نظم اور متفرق اصناف) کے حوالے سے ان کی شاعری کا جائزہ لیں گے۔
اقبال کی غزل
غزل اردو شاعری کی ایسی صنف ہے جو بڑے تخلیقی تجربے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اردو شاعری میں کسی بھی شاعر کو جانچنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ اس نے کیسی غزل کہی ہے۔ ولی ٗ میر‘ درد ٗ سودا ٗ غالب ٗ آتش ٗ داغ اور بے شمار دوسرے شعراء کو اردو شاعری میں بڑا مقام حاصل ہے اس کی وجہ ان کا غزل کے میدان میں بڑے تخلیقی تجربے کا اظہار ہے۔
اقبال نے بھی شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔ ابتداء میں اس نے داغ سے اصلاح بھی لی جو اس وقت ہندوستان کے شعری منظر نامے پر چھائے ہوئے تھے۔ اقبال کی ابتدائی غزلوں میں ہمیں داغ کے واضح اثرات ملتے ہیں۔ یہ غزلیات بانگِ درا کے پہلے حصے میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ غزلیں جو اقبال نے بانگِ درا میں شامل نہیں کیں وہ باقیاتِ اقبال میں شامل ہیں۔
اقبال نے بانگِ درا کے پہلے حصے میں جن غزلیات کو شامل کیا ہے ان کی ابتدائ1901 ء سے ہوتی ہے۔ پہلی غزل یہ ہے ؎
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آیا ہے تو جہاں میں مثالِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستیٔ نا پائیدار دیکھ
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ ٗ مرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہ گزر میں نقشِ کفِ پائے یار دیکھ
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔124 )
موجودہ صدی کی ابتداء میں اگر ہم برصغیر میں ہونے والی اردو شاعری کو (جس میں داغ سب شاعروں پر چھائے ہوئے تھے) ذہن میں رکھتے ہوئے مندرجہ بالا غزل کا مطالعہ کریں تو ہمیں خوشگوار حیرت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ غزل کے پہلے شعر ہی سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اپنے انداز ِ بیان ٗ زبان اور مواد کے اعتبار سے ہم اردو غزل کے ایک نئے ذائقے سے روشناس ہو رہے ہیں۔ اس غزل کا شاعر اشیاء پر غور و فکر اور گہرے مشاہدہ کا حامل نظر آتا ہے۔ لڑکپن کی رومانویت جو بعض شعرا کا تمام عمر پیچھا نہیں چھوڑتی ہمارے شاعر سے کوسوں دور ہے۔ سیدھے سادے عامیانہ مضامین کو بھونڈے طریقے سے بیان کرنے کی بجائے شاعر گہرے مطالب کے حامل شعر کہہ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شعر سنوارنے کا سلیقہ نمایاں ہے۔ ایک اور خوبی جوا س غزل سے عیاں ہے، وہ اپنے دور کی شعری لغت سے انحراف کی شعوری کوشش ہے۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں کہ جس شاعر کے ابتدائی کلام میں یہ عناصر موجود ہوں آگے چل کر اس کے ہاں بڑا شاعر بننے کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ یہی خصوصیات تھیں جن کی بدولت اقبال نے نہ صرف اپنے ہمعصر شاعروں میں نمایاں مقام حاصل کیا بلکہ اپنے عہد کے مانے ہوئے اساتذہ سے بھی خراجِ تحسین وصول کیا۔
ڈاکٹر عبدالمغنی نے اقبال کی اس پہلی غزل کے تجزیئے کے بعد لکھا ہے:
’’اس ہیئت سخن میں فن کے روایتی سانچے کو توڑا نہیں گیا ہے۔ اک موڑ آ گیا ہے۔ اس میں تبدیلی کی بجائے توسیع کی گئی ہے اور انقلاب کی بجائے ارتقاء ہوا ہے۔ تغزل کی ساری مسلّم ا لثّبوت ادائیں اس غزل سرائی میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود احساس ہونے لگتا ہے کہ ان ادائوں میں ایک نئی جہت خموشی سے پیدا ہو رہی ہے۔ تغزل میں مجازی و حقیقی شیوے برابر ہی مضمر رہے ہیں لیکن اب دونوں کے امتزاج سے آفاقیت کا ایک نیا عشوہ ابھرتا نظر آ رہا ہے ٗ غزل کو عجم کے آب رکنا باد اور گلگشت ِ مصلیٰ نے پروان چڑھایا ہے ٗ مگر اب اسی دیار میں کوہِ اضم اور ریگِ نواحِ کاظمہ کی ہوائیں چلتی محسوس ہو رہی ہیں۔ یہ شیراز کی تصویر میں نجد کا ترنم ہے۔ اس طرح عشق کی اصلی روایت جس ہیئتِ عتیق سے روئے زمین پر جلوہ افروز ہوئی تھی، صدیوں کے بعد ایک بار پھر اسی کے گرد طواف کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بانگِ درا ہے جو جلد ہی بالِ جبریل پر پرواز کرے گی اور دنیائے غزل پر ضربِ کلیم لگا کر بالآخر زبورِ عجم بن جائے گی اور پیامِ مشرق کہلائے گی۔‘‘ (5)
ڈاکٹر صاحب کی بے جا لفّا ظی کے باوجود ہمیں ان کے بنیادی نقطے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے لیکن انھوں نے جس طرح الفاظ کا بے دریغ قتلِ عام کیا ہے اس سے ان کی بدذوقی بہر طور ظاہر ہو جاتی ہے۔
’’بانگِ درا‘‘ کے حصۂ اول میں اور بھی کئی ایسی غزلیں موجود ہیں جو اپنی مجموعی فضا کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں۔ یہاں ان غزلیات کے چند ایک اشعار درج کیے جاتے ہیں ؎
عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب !
عداوت ہے اسے سارے جہاں سے
کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں
کہاں جاتا ہے ٗ آتا ہے کہاں سے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 125 )
پاس تھا ناکامیء صیاد کا اے ہم صفیر!
ورنہ میں، اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لیے
اس چمن میں مرغِ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 126 )
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا،تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل! فیصلہ کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے پھر یہ وعدہ حشر کا ، صبر آزما کیونکر ہوا
تونے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت !کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے ،رنگیں قبا کیونکر ہوا میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتائوں، ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 127 ۔ 126 )
انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب! رہنے والے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذّت ، خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
مرے اشعار اے اقباؔل! کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو
مرے ٹوٹے ہوئے دل کے، یہ درد انگیز نالے ہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 127 )
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 128 )
جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوںمیں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ٗ ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِبیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔130 ۔129 )
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں ٗ مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں ٗ سزا چاہتا ہوں
(کلّیاتِ ِاقبال ٗ ص۔131 )
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظّارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر
بیگانہ شے پہ نازشِ بیجا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔133 )
اقبال کی یہ غزلیں دو اعتبارات سے خاصی اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے ہمیں ان کی بعد کی شاعری کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ بہت سے موضوعات جو آگے چل کر اقبال کی شاعری کے اہم اور مستقل موضوعات کے طور پر سامنے آئے، ان کی ابتداء بھی ہمیں ان غزلیات میں نظر آتی ہے۔ دوسرا ان سے ہمیں اقبال کی فنی چابکدستی اور مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس حصے کی تین چار غزلیں بہت طویل ہیں۔ باقی غزلوں میں بھی اشعار کی تعداد خاصی زیادہ ہے جس سے ان کی قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال کی ان غزلیات کا صحیح مقام ٗ جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، تبھی معلوم ہو سکتا ہے جب ہم اسے اس دور کے شعری منظر نامے میں رکھ کر دیکھیں۔ اس سلسلے میں یہاں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کا یہ بیان درج کر ناکافی معلوم ہوتا ہے:
’’اقبال کی ان غزلوں کا صحیح مقام متعین کرنے کے لیے اس دور کے ادبی پس منظر ٗ بالخصوص غزل گوئی کی عام روایت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ بیسیویں صدی کے اوائل تک اصلاحِ غزل کے سلسلے میں حالی کی اجتہادی کوششوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ مشاعروں اور ادبی محفلوں میں ابھی تک داغ وامیر کا سکّہ رائج تھا‘‘ (6)
’’بانگِ درا‘‘ کے دوسرے حصے تک آتے آتے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اقبال کی غزل کے موضوعات ٗ اور فن میں گہرائی اور گیرائی آتی جا رہی ہے۔ اب ان کا فلسفیانہ نقطہ نظر زیادہ نکھر کر سامنے آ رہا ہے ؎
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں
دم ہوا کی موج ہے رم کے سوا کچھ بھی نہیں
رازِ ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو
کھل گیا جس دم ٗ تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 161 )
نرالا سارے جہاں سے ٗ اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتّحادِ وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا ٗ کہاں کا جانا ٗ فریب ہے امتیازِ عقبٰی
نمود ہر شے میں ہے ہماری ،کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 162)
کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگِ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔163 )
دوسرے حصے کی غزلیات میں خصوصی طور پر جن موضوعات سے بحث کی گئی ہے ان میں عشق و فلسفہ ٗ معرفت و حکمت ٗ زندگی اور زمانے کے بارے موضوعات شامل ہیں ٗ ان غزلوں میں ایک خاص طرز کی بے باکی ٗ شوخی اور نکتہ سنجی ہمیں نظر آتی ہے اور اقبال کا یہ رنگ حصہ سوم کی غزلیات میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے ٗ جس پر ہم آگے چل کر بحث کریں گے۔ حصہ دوم کی یہ غزلیات ٗ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اب اقبال نے روایتی موضوعات سے تقریباً پیچھا چھڑا لیا ہے اور قدرے نئے تصورات نظم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہیئت غزل میں بھی خفیف سی تبدیلی کے آثار ملنا شروع ہوئے ہیں جو بالِ جبریل کی غزلوں میں پوری طرح نمایاں ہوئے ہیں۔ ان غزلیات کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی نے لکھا ہے:
’’ان غزلوں کے اسلوبِ سخن کا مطالعہ جن سے یہاں اشعار لیے گئے ہیں ٗ صاف صاف بتاتا ہے کہ بہت ہی پیچیدہ ٗ ثقیل اور دقیق خیالات و احساسات کو بھی ٗ جن کا اظہار اب تک غزل میں نایاب تھا ٗ تغزل کے رنگ و آہنگ اور استعارات و کنایات میں اس پختگی اور نفاست کے ساتھ جذب کیا جا رہا ہے کہ عنقریب غزل کا تصور ہی بدل جائے گا۔ اگرچہ تغزل کی تصویر نہ صرف باقی رہے گی بلکہ اس کے نقوش پہلے سے بدر جہا زیادہ تیکھے ہو جائیں گے ۔‘‘(7)
عبدالمغنی صاحب کی اس بات سے اختلاف کرنا مشکل ہے کہ انھوں نے بجا طور پر اقبال کی بہت سی اہم خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں اقبال کے ہاں سے دیکھیں ؎
جو موجِ دریا لگی یہ کہنے ،سفر سے قائم ہے شان میری
گہر یہ بولا، صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل ،وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہوا نہ سرسبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔162 )
بلندی آسمانوں میں ٗ زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں ٗ افتادگی تیری کنارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں ٗ پھول میں ٗ حیواں میں ٗ پتھر میں ٗ ستارے میں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔164 )
اقبال کی اس دور کی غزلیات ہم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے اس بیان کے ساتھ ختم کرتے ہیں جو ہمارے نقطۂ نظر کے کافی قریب ہے۔
’’حاصلِ بحث یہ کہ جس طرح اس مختصر دور کے گوناگوں تجربات اقبال کی شخصیت کی توسیع و تکمیل کا باعث ہوئے اور انگلستان و جرمنی میں سیرو تفریح کے اتنے مواقع اور ایسی صحبتیں میسر آئیں ٗ جن کی یاد عرصۂ دراز تک ان کے لیے سراپا نشاطِ روح بنی رہی ٗ جس طرح وسیع مطالعے اور مشاہدے کی بدولت اقبال کے ذہن و فکر کے زاویے بدل گئے اور وہ مغربی تہذیب کے ظلمات سے گذر کر اسلام کے سرچشمۂ حیات تک پہنچے ٗ اسی طرح ان کا فن بھی احساس و شعور کی ایک نئی جہت، ایک اعلی نصب العین کے نئے سوزو ساز اور نئے آہنگ و انداز سے آشنا ہوا۔‘‘ (8)
بانگِ درا کے تیسرے حصے کا آغاز علامہ اقبال کی وطن واپسی کے بعد ہوتا ہے۔ مغرب میں جہاں اس نے جدید علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی، مغربی فلسفے اور قانون کا مطالعہ کیا، وہیں جدید مغربی تہذیب اور اس تہذیب میں پروان چڑھنے والے مختلف اداروں کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ٗ اس طرح اسے اپنی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کا موازنہ کرنے کے لیے مضبوط بنیادیں میسر ہوئیں۔ یوں اس نے مغربی تہذیب اور جدید تعلیم کی غلط روش کو ہدفِ تنقید بنایا۔
سرمایہ دارانہ اور مغربی سیاسی نظام سے اقبال نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔وہ مشرق کے رہنے والوں کو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا مشورہ دیتا ہے اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے ہاں بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ ہندوستان میں قومیت سے ملت کے تصور کی طرف مراجعت کا آغاز ہوا۔ اقبال نے فارسی شاعری شروع کی جو آگے چل کر ان کے اظہار کا بڑا ذریعہ ثابت ہوئی۔ اس نے تصوف کے بعض تصورات و شخصیات کو ہدفِ تنقید بنایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دور فکرِ اقبال کے حوالے سے ایسا دور ثابت ہوا جس میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اقبال کی اردو غزل کے اعتبار سے بھی انگلستان سے واپسی کے بعد کا دور بہت بار آور ثابت ہوا۔ اس نے اردو غزل میں ایک نئے لہجے کا اضافہ کیا۔ اپنی بعض یادگار غزلیں اسی دور میں لکھیں۔ موضوعات ٗ اسلوب ٗ زبان و بیان اور دوسرے فنی لوازمات کے حوالے سے اقبال کی یہ غزلیں اس کی نمائندہ غزلیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ بعض مثالیں اقبال کے ہاں سے دیکھیں ۔ ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ٗ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 311 ۔310 )
پھر بادِ بہار آئی ٗ اقبالؔ غزل خواں ہو
غنچہ ہے اگر گل ہو ٗ گل ہے ٗ تو گلستاں ہو
تو جنسِ محبت ہے ٗ قیمت ہے گراں تیری
کم مایہ ہیں سوداگر ٗ اس دیس میں ارزاں ہو
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔312 )
کبھی اے حقیقتِ منتظر ٗ نظر آ لباس ِمجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ عشق میں رہیں گرمیاں ٗ نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔313 ۔312 )
تہ ِدام بھی غزل آشنا رہے طائرانِ چمن تو کیا
جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی، نوائے زیرِ لبی رہی
نہ خدا رہا نہ صنم رہے ٗ نہ رقیبِ دیر و حرم رہے
نہ رہی کہیں اسد اللہی ٗ نہ کہیں ابو لہبی رہی
مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہ ہائے عجم رہا
وہ شہیدِذوقِ وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 313 )
اوپر اقبال کی غزلیات سے جو اقتباسات درج کیے گئے ہیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیںکہ یہاں تک آتے آتے دوسرے بڑے شاعروں کی طرح اقبال نے بھی اپنا ایک اسلوب ٗ موضوعات اور دوسرے فنی لوازمات اختیار کر لیے تھے اور وہ آئندہ اردو غزل بلکہ اردو شاعری کے بڑے شاعر کے طور پر طلوع ہونے کے لیے تیار تھا۔
بالِ جبریل کا آغاز ہی غزلیات سے ہوتا ہے اور یہ اقبال کے اردو کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔ اگرچہ ایک دور میں بعض اصحاب کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ اقبال کی یہ شاعری غزل کی ذیل میں نہیں آتی ٗ اس لیے کہ یہ غزل کے طے کردہ معائیر پر پورا نہیں اترتی لیکن یہ اعتراض ان لوگ نے کیا جو مکھی پر مکھی مارنے کو ہی فن خیال کرتے ہیں اور وہ جو ایلیٹ نے کہا ہے کہ ہر بڑا لکھنے والا اپنے فنی معیارات اپنے ساتھ لے کر آتا ہے اور ماضی کے تنقیدی سانچے اس کی تحسین کرنے کے قابل نہیں ہوتے تو ظاہر ہے کہ ان لوگوں تک ایلیٹ کا یہ قول ابھی نہیں پہنچا۔بالِ جبریل کی یہ شاعری یقینا اردو غزل میں بے مثال اضافہ ہے۔ ان غزلیات نے اردو غزل کو بالکل نئی ڈگر پر ڈال دیا۔ ان میں جدید غزل کے خدو خال بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ اقبال کے بعد اردو غزل نے جو ترقی کی اس میں اقبا ل کی ان غزلوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس حصے کی پہلی غزل ہے ؎
میری نوائے شوق سے، شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں ٗ بتکدئہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر، میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل، تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو،دیر و حرم کی نقشبند
میری فغاں سے رستخیز، کعبہ و سومنات میں
گاہ میری نگاہِ تیز، چیر گئی دلِ وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی ،میرے توہمات میں
تونے یہ کیا غضب کیا ٗ مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا، سینۂ کائنات میں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 345)
اقبال کی اس غزل میں ہمیں حمدیہ آہنگ ملتا ہے۔ شاعر اس میں کائنات کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے اردگرد پھیلی اس وسیع و عریض کائنات کے بھید جاننے کے لیے مضطرب ہے اور کائنات کے مختلف مظاہر اسے اپنی ذات کا پر تو نظر آتے ہیں۔ شاعر کی نظر سامنے موجود اشیاء سے ماورا اس حقیقت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بے چین ہے جو ان سب اشیاء کا حسابدار و مصدر ہے۔ یہاں ہمیں اقبال کے ہاں زمین سے اوپر اٹھ کر الو ہی مظاہر کی طرف جست کا رجحان ملتا ہے۔
بال ِجبریل کے اس حصے میں کل 76 غزلیں شامل ہیں اور معیار کے اعتبار سے سب ایک دوسری کی ہم پلّہ ہیں۔ ہر غزل میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ان غزلوں میں ہمیں فکری تسلسل نظر آتا ہے۔ عشق و محبت کے جذبات ہوں ٗ یا کائنات کے راز ،شاعر سب پر ایک نئے زاویے سے نگاہ ڈال رہا ہے۔ تصوف ٗ فلسفہ اور الہٰیات کی ساری بحث جو پہلے صرف نثر میں بیان ہوا کرتی تھی اب اشعار کے پیکر میں ڈھل رہی ہے۔
ان غزلیات کا انتخاب ایک مشکل امر ہے اور غزل کے اشعار کا انتخاب تو اور بھی دشوار ہے، اس لیے ہم آگے جو مثالیں پیش کر رہے ہیں وہ انتخاب نہیں بلکہ سامنے آ جانے والی غزل ہے ؎
کیا عشق، ایک زندگیٔ مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق ٗ جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط کیا ہے ٗ تب و تابِ یک نفس
شعلہ سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگیٔ جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو !
یا رب! وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔349 )
اس غزل سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اب اقبال عارضی اور لمحاتی اشیاء کے فریب سے آزاد ہو کر آفاقی اور لازوال کی خواہش میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اب عشق مجازی ان کے لیے سنگِ میل ہے اور وہ عشقِ حقیقی تک جانے کے لیے بے قرار ہے۔ زندگیٔ جاوداں کے لیے اس کا ذوق وشوق دیکھنے کے قابل ہے اور وہ اپنے دل کے لیے لازوال کسک اور کھٹک چاہتے ہیں ؎
تجھے یاد کیا نہیں ہے ، مرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبت ، وہ نگہ کا تازیانہ
یہ بتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ ، نہ تراشِ آزرانہ
نہیں اس کھلی فضا میں ،کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے ، نہ قفس ، نہ آشیانہ
رگِ تاک منتظر ہے تری بارشِ کرم کی
کہ عجم کے میکدوں میں نہ رہی میء مغانہ
مرے ہم سفر اسے بھی اثرِ بہار سمجھے
انھیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا ، نہ شکایتِ زمانہ
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 353)
اسی طرح ایک اور غزل دیکھیں :
عالمِ آب و خاک و باد ٗ سرِّعیاں ہے تو کہ میں ؟
وہ جو نظر سے ہے نہاں ٗ اس کا جہاں ہے تو کہ میں؟
وہ شبِ درد و سوز و غم،کہتے ہیں زندگی جسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں؟ اس کی اذاں ہے تو کہ میں؟
کس کی نمود کے لیے، شام و سحر ہیں گرم سیر
شانۂ روز گار پر بارِگراں ہے تو کہ میں؟
تو کفِ خاک و بے بصر ٗ میں کفِ خاک و خود نگر
کشتِ وجود کے لیے آبِ رواں ہے تو کہ میں؟
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 365 )
اقبال کو مسلم ہسپانیہ سے جو شغف تھا وہ سب پر عیاں ہے۔مسجدِ قرطبہ اس کی لازوال نظم ہے جو یقینا دنیا کی چند بہترین نظموں میں شامل ہے۔ قرطبہ میں ہی اس نے ایک غزل لکھی جس پر باقاعدہ درج ہے کہ یہ قرطبہ میں لکھی گئی ٗ ملاحظہ کریں ؎
یہ حوریانِ فرنگی ٗ دل و نظر کا حجاب
بہشتِ مغربیاں جلوہ ہائے پابہ رکاب
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحرِ وجود میں گرداب
جہانِ صوت و صدا میں سما نہیں سکتی
لطیفۂ ازلی ہے فغانِ چنگ و رباب
سکھا دیے ہیں اسے شیوہ ہائے خانقہی
فقیہِ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب
وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ و سیماب
ہوائے قرطبہ شاید یہ ہے اثر ٗ تیرا
مری نوا میں ہے سوز و سرورِ عہدِ شباب
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔371 )
مندرجہ بالا غزل میں ہمیں فکرِ اقبال کے بہت سے پہلو نظر آتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک انھیں اپنا اسیر کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ مسلمانوں میں انھیں وہ خلوص اور وہ ایمان نظر نہیں آتا جو کہ ماضی میں ان کا شیوہ رہا تھا۔ اسی لیے اقبال یہ ساری غزل میں نہ ہونے کے موضوع کو خبر و سخن بنا رہے ہیں۔
بالِ جبریل کی غزلیات سے اور بھی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں ٗ جہاں اقبال کے فکرو فن کے ملاپ نے ایسی شاعری کو جنم دیا ہے جس کی کوئی دوسری مثال اقبال کے بعد اردو شاعری پیدا نہیں کر سکی۔ لیکن یہاں ہم آخر میں صرف اقبال کی صرف ایک غزل درج کرکے ضرب ِکلیم اور ارمغان حجازکی غزلوں کی سمت چلتے ہیں ؎
کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی
انھیں کے دم سے ہے میخانۂ فرنگ آباد
نہ فلسفی سے، نہ مُلّا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت، وہ اندیشہ و نظر کا فساد
فقیہِ شہر کی تحقیر، کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد
خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرتِ پرویز
خدا کی دین ہے سرمایۂ غم فرہاد
کیے ہیں فاش ٗ رموزِ قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ، ہو آزاد
رِشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 396 )
غزل کے فن میں جو پختگی اقبال نے بالِ جبریل میں حاصل کر لی تھی ٗ آگے چل کر وہ ضرب ِکلیم کی غزلوں میں برقرار رہی۔ ضربِ کلیم بنیادی طور پر نظم کا مجموعہ ہے لیکن اس میں شامل پانچ غزلیں بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ غزلیں اپنے اسلوب ٗ فنی پختگی اور فکری بالیدگی کے اعتبار سے بالِ جبریل کے تسلسل میں ہیں۔
اردو شاعری میں ’’تغزل‘‘ ان سکّہ بند استعارات ٗ تلازمات سے منسلک ہے جو عشق و محبت کے گرد گھومتے ہیں۔ اس کے زیر اثر حسن ِگریزپاکے نقشے کھینچے جاتے ہیں۔ ہجروصال کے قصے کہے جاتے ہیں اور انھی کے حوالے سے کیفیتِ انبساط و نشاط یادرد و حرماں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ تدریسی تنقید اسے عشقِ مجازی کے خانے میں ڈالتی ہے۔ تصوف کے اثرات نے ان میں بعد ازاں عشق ِحقیقی کے ابعاد کا اضافہ کیا۔ اقبال ان نابغہ روزگار شعراء میں سے تھا جو پامال راستوں پر سفر سے گریز کرتا ہے اور اپنی راہیں خود تراشتا ہے۔ اس میں پہلے سے موجود تلازماتی نظام سے نکل کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی صلاحیت موجود تھی اس لیے اس نے اپنے دائرے خود ترتیب دیے اور عاشقی اور تصوف سے قطع نظر کرکے غزل کو بین الاقوامی معاملات اور سیاسیات سے دو چار کیا۔ اس نے اردو غزل کو پرانے مضامین کی قید سے رہا کیا اور غزل کی قدیم روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ٗ گل و بلبل اور شمع و پروانہ کی بجائے نئے رموز و علامات تشکیل دیے۔ وہ فطرت کے سانچے میں خود ڈھلنے کی بجائے فطرت کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کا قائل تھا، اس کے نزدیک فن کار کا یہی منصب ہے۔ خاص طور پر بال ِجبریل کی غزلیں اقبال کے اس نظریہ فن کی نمائندہ ہیں۔
اقبال نے اپنی غزلوں میں غزل کی مخصوص ہیئت سے رو گردانی نہیں کی ٗ البتہ اس کے مزاج ٗ رنگ و آہنگ ٗ لفظیات اور مضامین کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔اس نے اس صنفِ سخن سے نظم کا کام لیا۔ اس سے پہلے غزل کے بارے میں یہ تصور رائج تھا کہ اس کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل مضمون بیان کرتا ہو اور موڈ کے سوا اس کا باقی شعروں سے موضوعی ربط نہ بھی ہو ٗ تو کوئی حرج نہیں۔ اقبال نے غزل کے تمام شعروں کو آپس میں مربوط کرکے اسے ایک جامع اکائی بنا دیا۔ بلکہ بعض اوقات تو وہ ان غزلوں میں Strained Paradox کو بھی کام میں لاتا ہے۔ وہ اپنی بات کو مختلف انداز میں دہراتا ہے تاکہ گوشِ ناشنوا کو از بر ہو سکیں۔ وہ غزل کو نظم کے قریب لانے میں اس قدر محو ہے کہ تخلیقی رو میں ایک غزل جس کا آغاز ’’کیا عشق ایک زندگیٔ مستعار کا‘‘ سے ہوتا ہے ٗ ایک بالکل مختلف زمین کے شعر میں اختتام پذیر ہوتی ہے ؎
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لا زوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 349 )
غزل میں تسلسل کی سب سے نمایاں مثال ٗ بالِ جبریل کی پہلی ہی غزل ہے جس میں اقبال ایک ہی خیال کی مختلف پرتوں کو ہر اگلے شعر میں سامنے لاتا چلا جاتا ہے ؎
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 345)
یا پھر وہ غزل جس کا شعر ہے ؎
باغِ بہشت سے مجھے، حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر
(کلّیاتِ قبال ٗ ص۔ 347 )
ان غزلوں کے شاعر کا نصب العین زندگی کی جدوجہد اور ارتقاء کے صبر آزما مراحل سے مردانہ وار گزرنے کا پیغام دینا ہے۔ وہ زمانے کے مکرو فریب سے واقف ہے ع ’’کہ میں ہوں واقفِ رازِ درونِ مے خانہ ‘‘ اور وہ ملتِ اسلامیہ کے افراد کو اسی دنیا میں رہنے کا نہیں بلکہ اپنی دنیا الگ بنانے کا سبق دے رہا ہے ؎
حدیثِ بے خبراں ہے تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز
(کلیاتِ اقبال ٗ ص۔354 )
اگر ان غزلوں کی پہنائی میں اتر کر دیکھا جائے تو سیاست اور بین الاقوامی معاملات گردِ راہ نظر آنے لگتے ہیں۔ اقبال زندگی کو بلندی سے اور ایک ارفع سنگھا سن سے دیکھتا ہے۔ وہ حیات و کائنات کے اسرار پر نظر رکھتا ہے اور ان کے مظاہر کے ساتھ ہم پرواز ہے۔ وہ آفاقی نظام کا حصہ ہے۔ اس کی غزلیں ہلکی سی لطیف کیفیت لیے ہوئے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بیک وقت یا کم از کم وجدان کی ایک ہی مسلسل رو اور آمد کی حالت میں لکھی گئی ہوں۔ شاید اسی لیے ایک ہی تاثر کی چند غزلوں کو تو اقبال نے حکیم سنائی کے روضے پر حاضری کی یادگار کے طور پر پھر سے نئی ترتیب دے کر بالِ جبریل میں شامل کیا ہے۔ اس سے پہلے درج غزلوں کی ترتیب بھی 16 پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔
اقبال نے بطور فنکار غزل کی ہیئت میں ایسے مضامین دیے جنھیں غزل نے اپنی ایک ہزارسالہ طویل تاریخ میں قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے افکار اس کے مضامین سے متعلق بہت شدید ہیں اور اسی کے تحت انھوں نے غزل کو یکسر نئے راستے پر ڈال دیا ؎
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 357 )
اہل ہنر نے اس سے پہلے ایسی لفظیات ٗ رموز و علائم بھلا شاعری میں کہاں دیکھے تھے ٗ جنھیں اقبال نے اس قدر سلیقے اور آسانی کے ساتھ شعر کی انگشتری میں نگینے کی طرح جڑا کہ ہر کس و ناکس نے اسے اپنے مزاج اور ذوق کے مطابق پایا۔ آب و گلِ ایران ٗ تبریز ٗ ہند کے میخانے ٗ وارث ِپرویز ٗ سوزو ساز رومی ٗپیچ و تاب رازی ٗ فریب خوردہ شاہین ٗ افرنگ کی زندیقیٗ بندۂ حق ٗ بین و حق اندیش دانہ اسپند ٗ پیمانہء الّا ٗ یدِ بیضا ٗ کافرِ ہندی ٗ اندازِ ملوکانہ ٗ نفسِ جبریل ٗ جیحوں ٗ پارس و شام ٗ بانگِ لاتخف ٗ اور اس نوعیت کی ان گنت تلمیحات ٗ اشارات ٗ تراکیب ٗ استعارات ٗ رموز ٗ علامات ٗ کنایات ٗ کب اس طرح شاعری میں بار پا سکے تھے ٗ جس طرح اقبال نے انھیں تراش کر دائمی چمک دے دی۔ اقبال کے افکار کی اپنی دنیا اور ایک ارفع سطح ہے۔ اس کے ہاں الفاظ و معانی میں گہرا ربط پایا جاتا ہے اور وہ اس قدر بلند آہنگ اسلوب کے بغیر اپنے پیغام کی شاید ترسیل کر ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ اقبال کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ یہ شکوہ ٗ یہ طنطنہ ٗ یہ جلال یہ جمال اور یہ کھنک اردو کے کسی اور شاعر کے نصیب میں نہیں آئی۔
یہ پُر شوکت اندازِ اظہار اقبال کی شاعری پر اس طرح فٹ بیٹھتا ہے کہ ان مضامین کے لیے کسی دوسرے اسلوب کا خیال ہی ذہن میں نہیں آ سکتا ع اگر کج روہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا ؟ ‘وہ حرف ِراز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں یا عالمِ آب و خاک و باد ٗ سرِعیاں ہے تو کہ میں ؟ جیسی غزلیں ٗ اقبال اس طرز کے علاوہ بھلا اور کس انداز سے کہہ سکتا تھا۔
موسیقی اور غنائیت شروع ہی سے اقبال کی شاعری کا اہم عنصر تھا۔ یہ خاصیت ان غزلوں میں درجۂ کمال کو پہنچ گئی ہے حیات و کائنات کے بیشتر مسائل کو اقبال نے ان غزلوں میں برتا ہے اور زندگی کے مسائل کو ایک فلسفی کی نظر سے دیکھا ہے۔ وہ زندگی کے اسرار کی کنہ کو پا چکا ہے اور اس خود آگہی نے اس کی شاعری اور فکر کو اس قدر پختہ کر دیا ہے کہ اس کے انداز میں پیغمبری لحن پیدا ہو گیا ہے ۔ اب اس کے تخیلات دنیائے آب و گل سے بالاتر ہو کر عرش کی کرسی پر ہیں اور وہ فکرو تخیل کی اس ارضیت کو پا چکا ہے جو ہر کسی کی دسترس میں نہیں آتی۔ یہ سب کچھ اس کلاسیکی تغزل سے الگ اور اعلیٰ درجے کا کوئی وصف ہے جس کے لیے نقادوں کو نئے سرے سے سوچنا پڑا ہے اور تنقید کے نئے سانچے بنانے پڑے ہیں اور یہی بطور شاعر اقبال کا اعجاز ہے۔
اقبال کی طویل نظمیں
شاعری میں طویل نظم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ طویل نظم لکھنے کے دوران کسی شاعر کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں اور فن پر اس کی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک مسلسل مضمون کو بیان کرنے کے لیے شاعر کے انتخابِ الفاظ ٗ تراکیب کے استعمال ٗ نظم کی ہیئت اور ان سب کو ملا کر ایک طویل نظم لکھنے سے شاعرانہ اہمیت کا تعین ہوتا ہے۔ دنیا کے بہت سے بڑے بڑے شاعر اپنی طویل اور یاد گار نظموں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ملٹن کا نام آتے ہی Paradise Lost ذہن میں آتی ہے اور ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے ساتھ ہمارے حافظہ میں Wasteland کا نام ابھرتا ہے۔ خود ہمارے ہاں مولانا حالی نے مسدّس لکھ کر طویل نظم نگاری کا باقاعدہ آغاز کر دیا تھا۔
علامہ اقبال کی شاعری میں بھی طویل نظم نگاری کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان نظموں میں جہاں ایک طرف اس کی فنی چابکدستی کا اظہار ہوتا ہے وہیں ہمیں اقبال کی فکر سے بھی بہتر طور پر شناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ کیونکہ مسلسل نظم لکھتے ہوئے اپنی سوچ اور فکر کو مربوط رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ہم اقبال کی طویل نظموں کا تاریخی جائزہ لیں تو ہمیں اقبال کے ذہنی اور فکری ارتقاء کو جاننے کا اچھا موقع ملے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اقبال کے فن میں آنے والے تغیر کو بھی دیکھ سکیں گے۔
اقبال کی طویل نظموں پر بات کرنے کے لیے ہمیں آغاز تصویرِ دردسے کرنا پڑتا ہے جس کا مرکزی موضوع وطن کی محبت ہے۔ غالباً یہ نظم اقبال کی حبِّ وطن کی شاعری میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس نظم میں کل آٹھ بند ہیں لیکن مختلف بند میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ اس نظم میں خطابیہ لہجہ نمایاں ہے۔ جس سے بعض اوقات شاعرانہ حسن مجروح ہوتا نظر آتا ہے۔ اس نظم کا پہلا بند تمہید کے طور پر آیا ہے جس میں اقبال اپنے حالات بیان کر رہا ہے۔ یہاں ہمیں ملک میں سیاسی جبر اور غیر ملکی استبداد کے خلاف آواز بھی ملتی ہے اگرچہ یہ آواز بہت دھیمی ہے۔ مثلاً یہ شعر ؎
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔98 )
نظم کا دوسرا بند پہلے سے مربوط ہے ۔ اس میں شاعر نے بتایا کہ انسان’’ریاضِ دہرمیں نا آشنائے بزم ِعشرت‘‘ ہے۔ یہاں شاعر گریز کرکے اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہے اور اس شعر میں انسان کی محرومیوں اور نارسائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ؎
یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا
سراپا نور ہو جس کی حقیقت ٗ میں وہ ظلمت ہوں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 99)
یوں شاعر نے یاسیت سے رجائیت کی کرن برآمد کی ہے اور آگے چل کر وہ اپنے ملک ہندوستان سے خطاب کرتا ہے، ہندوستان کی حالتِ زار پر آنسو بہاتا ہے اور ہندوستان کے افسانے کو سب افسانوں میں عبرت ناک قرار دیتا ہے۔ وہ اپنی بات اسی جگہ ختم نہیں کر دیتا بلکہ ہندوستان کے باسیوں کو آنے والی تباہی سے خبردار کرتا ہے۔ آگے چل کر اسی نظم میں اس کے خطاب کا رخ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اب وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کی حالتِ زار سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اپنا مستقبل بہتر بنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو دوسرے طبقوں کے ساتھ اتحاد اور محبت سے رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ فنی اعتبار سے یہ نظم مربوط شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ شاعر کے الفاظ کا انتخاب اور تراکیب موزوں ہیں اور لفظ و خیال کی اکائی بہت خوبصورت ہے۔
طویل نظموں کے سلسلے کی اگلی کڑی شکوہ ہے۔ اقبال کی یہ نظم بہت زیادہ متنازع ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ سے ان پر کفر کا فتویٰ بھی لگا ٗ لیکن اس دورکے ناسمجھ لوگوں نے اقبال کے خلوص اور دردِ دل کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی ٗ جو اس نظم میں جھلکتا نظر آتا ہے۔ ایک طرح سے یہ شکوہ مسلمانانِ عالم کی طرف سے اپنے رب سے ہے اور وہ اپنی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے اپنا موازنہ غیر مسلم قوموں سے کرتے ہیں اور اللہ سے پوچھتے ہیں کہ ان کو ایسی پستی میں کیوں ڈال دیا گیا ہے۔
نظم کے کل بند31 ہیں۔ ہر بند تین اشعار پر مشتمل ہے۔ یوں اس نظم میں93 اشعار شامل ہیں۔ فنی پختگی ٗ طرز ِبیان ٗ صفائی کلام اور جوشِ بیان کے اعتبار سے یہ نظم شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ نظم کا آغاز اس بند سے ہوتا ہے ؎
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں ٗ محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں ٗ اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا ! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرأت آموز مری تابِ سخن ہے ٗ مجھ کو
شکوہ اللہ سے، خاکم بدہن، ہے مجھ کو
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 190 )
یہاں سے شروع کرکے اقبال اس نظم کا اختتام اس بند پر کرتے ہیں ؎
چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگِ درا سے دل ہوں
یعنی پھر زندہ اسی عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خُم ہے تو کیا ٗ مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجازی ہے مری
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 199 ۔ 198 )
اسی تسلسل میں ہم جوابِ شکوہ پر بات کرتے ہیں۔ اگرچہ کتاب میں ترتیب کے اعتبار سے اس کا نمبر شمع اور شاعر کے بعد آتا ہے۔ جب شکوہ کی مخالفت میں طوفان حد سے زیادہ بڑھ گیا ٗ تب اقبال کی طرف سے نظم ’’جوابِ شکوہ ‘‘ سامنے آئی۔ اس نظم کا لہجہ شکایت کا ہے اور یہ شکایت اللہ تعالی مسلمانوں سے کر رہے ہیں اور ان کی کوتاہیوں کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ان کے زوال کے اسباب کیا ہیں۔ یوں اقبال ہندوستان کے مسلمانوں کو عروج کی طرف جانے کے لیے ان خامیوں کو دور کرنے کی تلقین کرتے ہیں جن کے سبب وہ زوال پذیر ہوئے۔
جوابِ شکوہ 32 بندوں پر مشتمل ہے ۔ اگرچہ اہمیت کے اعتبار سے یہ شکوہ سے بڑی ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے دونوں کا موازنہ مشکل ہے۔ شکوہ فنی چابکدستی اور مضمون آفرینی کے اعتبار سے اعلیٰ پائے کی چیز ہے۔ اقبال نے جوابِ شکوہ کا اختتام اس بند پر کیا ہے ؎
عقل ہے تیری سپر ٗ عشق ہے شمشیر تری
میرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری
ما سوا اللہ کے لئے، آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 237 )
شکوہ اور جواب شکوہ کا موازنہ ڈاکٹر عبدالمغنی نے خوب کیا ہے ٗ وہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
’’بلاشبہ دونوں حصوں کے اندازِ گفتگو میں کچھ فرق ہے۔ ’’شکوہ‘‘ کا ’’نعرہ ٔمستانہ‘‘ ’’جوابِ شکوہ‘‘ میںموقع کے لحاظ سے ذرا زیادہ حسین ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے۔ انسان اور خدا کی آوازوں کے درمیان امتیاز ہونا ہی چاہیے۔ بہر حال دونوں آوازوں میں شعریت کا مطلق رنگ و آہنگ یکساں ہے۔ چنانچہ شکوہ اور جوابِ شکوہ کی مطابقت تو واضح ہے ٗ لیکن ہر دو الگ الگ ارتقائے خیال اس نقطۂ نظر سے تلاش کرنا عبث ہے کہ کوئی ایک نکتہ یا مضمون نظم کا موضوع ہے اور سارے اشعار اسی کے ارتقا کا سامان کرتے ہیں۔ البتہ نظم کا جو عمومی تخیل ایک ملّت کی مرقّع سازی اور خاکہ نگاری پر مشتمل ہے ٗ وہ شروع سے آخر تک اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ موضوعِ تخیل ہے اور فنکاری کے سارے پیچ و خم اسی مرکزی نقطہ کے گرد نمایاں ہوتے ہیں۔ خیال اور احساسات ایک روانی اور تسلسل کے ساتھ مربوط طریقے پر رونما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ارتقائے خیال کی رفتار اتنی تیز ہے کہ قاری کے لیے دم مارنا مشکل ہوتا ہے۔ ‘‘(9)
شمع اور شاعر کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مختلف بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ پہلا بند فارسی میں ہے جس کے اشعار کی تعداد پانچ ہے۔ اس میں شاعر رات کے وقت شمع سے مکالمہ کر رہا ہے۔ اس کے پانچ بند مسلسل شمع کے جواب پر مشتمل ہیں۔ آخری پانچ بندوں میں شاعر شمع کے اٹھائے ہوئے نکات کا جواب دیتا ہے۔ اس نظم کی خوبی چست مکالمات اور تمثیل کے انداز کو بہترین انداز میں پیش کرنا ہے۔
اپنی کئی دوسری نظموں کی طرح اقبال نے اس نظم میں بھی اپنے ماضی کو خوبصورت انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس نظم میں ہمیں ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانے نظر آتے ہیں۔ اقبال ماضی کے آئینے میں تصویر دیکھتے ہوئے حال پر اس کا اطلاق کرتے ہیں اور مستقبل میں تصویر کا عکس دیکھتے ہیں اس طرح تینوں زمانوں کو ایک ساتھ رکھ کر شاعر نے تاریخ و حیات کے تسلسل کو پیش کیا ہے۔ اس نظم میں بعض جگہ فارسی تراکیب کے استعمال سے اسلوب دقیق ہو گیا ہے لیکن موضوع کا جوش و ولولہ نظم کے بہائو میں اسے کہیں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ شاعری کے بہترین نمونے کے طور پر نظم کا یہ بند دیکھیں جس میں شمع خطاب کر رہی ہے ؎
تھا جنہیں ذوقِ تماشا ٗ وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشان ہو چکی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائیء سوزِ تمام آیا تو کیا
پھول بے پروا ہیں ٗ تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے ٗ آوازِ درا ہو یا نہ ہو
(کلّیاتِ اقبال، ص۔213 ۔212 )
یہ نظم ایک سوال سے شروع ہوتی ہے اور جواب در جواب سے گزر کر جس میں جگہ جگہ یاسیت کے سائے چھائے ہوئے ہیں ٗ ایک نشاط انگیز اختتام تک پہنچتی ہے۔
شمع ٗ اقبال کا بہت محبوب اور معنی آفریں استعارہ ہے۔ بانگ ِدرامیں شمع کے حوالے سے بہت سی نظمیں ہیں مثلاً شمع و پروانہ ٗ شمع ٗ بچہ اور شمع ٗ وغیرہ ۔اسی طرح صرف شاعر کے عنوان سے دو نظمیں بھی اسی مجموعے میں شامل ہیں۔ ٗ شمع اور شاعر ٗ میں اقبال نے شاعر اور شمع کو دو کرداروں کی صورت میں یکجا کیا ہے۔ ان کرداروں کے ذریعے اقبال نے اپنی معروضیت اور جامعیت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کی نظموں میں نیم ڈرامائی کیفیت اور مکالماتی انداز پایا جاتا ہے۔ شمع اور شاعربھی مکالمے کے انداز میں ہے اگرچہ پہلا مکالمہ شاعر کی زبانی فارسی میں ہے ٗ جو محض پانچ اشعار پر مشتمل ہے جبکہ شمع کی طرف سے شاعر کے سوال کا جواب طویل ہے اور دس بندوں پر پھیلا ہوا ہے جس میں اکیاسی اشعار ہیں ۔
یہ نظم فروری 1912 ء میں تخلیق ہوئی (10) یہ وہ دور ہے جب اقبال یورپ کے تعلیمی سفر سے واپس آ چکے تھے اور ان کے افکار و خیالات کسی قدر واضح اور متعین شکل اختیار کرنے لگے تھے۔ یورپ کی تہذیب کی ملمع کاری اور کھوکھلا پن ان پر آشکار ہو چکا تھا اور وہ وطن کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کے نظریے کو غلط سمجھنے لگے تھے۔ اس کی جگہ ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے احساس نے لے لی تھی۔ ان کے خیال میں مغربی سامراج نے جغرافیائی بنیادوں پر قومیت کے نظریہ کو فروغ دے کر ملتِ اسلامیہ کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور بھائی کو بھائی سے جدا کرکے بے کس اور لاچار بنا دیاتھا۔ مسلمانوں کے زوال کا سبب ان کے نزدیک اسلامی اخوت کے اصولوں سے روگردانی اور کردار کی کمزوری تھا۔ ان تمام مایوس کن حالات کے باوجود اقبال قوم کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوتے۔ وہ ملتِ اسلامیہ کی مظلومیت کا بزبان شاعر صرف نوحہ ہی نہیں پڑھتے بلکہ شمع کی زبانی قوم کو امید کی روشنی بھی دکھاتے ہیں۔ شاعر نے شمع کو ان حالات میںSource of Inspiration کے طور پر پیش کیا ہے کہ اس نے تو خود کو شمع کی صورت جلایا ہے لیکن اس کے گرد پروانے جمع کیوں نہیں ہوئے۔ اس کے سوزو ساز میں آخر کیسی کشش ہے کہ کرمکِ بے مایہ سوزِ کلیم کاسبق سیکھتا ہے۔ شمع کی خاصیت یہ ہے کہ وہ خود جلتی ہے اور دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ اس کا مقصد جلنا ہے اور لوگ اس کی روشنی کے شیدا ہیں۔ شمع کو اقبال نے اپنے اردو کلام میں بیس بار اور فارسی کلام میں تیس بار مختلف مفاہیم کی ترسیل کے لیے استعمال کیا ہے (11) لیکن اس کا یہی مفہوم سب پر حاوی رہا ہے۔ شمع اور شاعرمیں شمع نے ایک شاعر کا روپ دھار لیا ہے کہ جو قوم کی زبوں حالی پر کڑھ رہا ہے اور جل رہا ہے۔ اسے پروانوں کو اپنے گرد جمع کرنے کا شوق نہیں ہے کہ اس سے نام و نمود کا سودا اور شوق جھلکتا ہے۔ ’’پروانوں کا شمع کے گرد جلنا شمع کے داخلی سوز کا ایک قدرتی حاصل ہے۔‘‘ (12)
یہ نظم دراصل اقبال کی اس قومی شاعری کا ابتدائیہ ہے جو اقبال نے بعد میں تخلیق کی تھی۔ اقبال نے اپنے اندر خلوت میں جلوت اور جدائی میں رفاقت جیسی خدائی صفات شمع کی طرح پیدا کرنے کی آرزو کا اظہار بین السطور نظم کے پہلے بند میں کیا ہے جو اس سے پہلے ان کی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ میں براہِ راست ان کی زبان سے اس طرح ادا ہوئی تھی ؎
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 64 )
شمع اقبال کو اپنے جواب کی ابتداء ہی میں آئینِ ملت سے روگردانی پر سرزنش کرتی ہے اور گلشن کے برہم ہونے کے بعد اس کے بے محل ترنم اور بے موسم نغمے پر خفگی کا اظہار کرتی ہے کہ شاعر زمانے کے تقاضے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جمعیت کی پریشانی اور کارواں کی بے حسی کے بعد شاعر کا بادِبہاری کا پیغام ٗ وعدہ ٔدیدار عام ٗ گرم نوائی اور آوازِ درا سب بعد از وقت ہے۔ متاعِ کارواں کے لٹنے اور احساسِ زیاں کے مٹنے کے ذکر سے شمع مسلمانوں کے حالات کی دگرگونی کا احساس دلاتی ہے۔ وہ ہنگاموں سے آباد ویرانوں اور سطوتِ توحید کے ذکر سے ملت کو ان کے درخشاں ماضی کی یاد دلاتی ہے اور شامِ غم اور ظلمتِ شب میں صبحِ عید کی نوید بھی سناتی ہے۔
ٹوٹی ہوئی مینا کے رونے اور دشتِ جنون پرور کی خاموشی کے حوالے احساس ہزیمت اور مکمل انفعالیت کے استعارے ہیں۔ جمعیت کی پریشانی ملّی انتشار کو اجاگر کرتی ہے۔ ان تمام ابتدائی بندوں میں احساسِ شکست خوردگی نمایاں ہے اور مقصد اس کے ذکر سے یہ ہے کہ ملّتِ بیضا کو جرأتِ رندانہ پر آمادہ کیا جائے اور سست، روی کاہلی اور خوابِ غفلت کی گراں باری سے آزاد کرکے جہد و عمل کے راستے پر ڈال دیا جائے (13) شمع اسی لیے شاعر کو وقت کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے پھر سے نغمہ پیرا ہونے پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ شاعری کو جزویست از پیغمبری سمجھتے ہوئے محفلِ ملت کو پیغامِ سروش سنا دے اور دل کو سوزِ جوہرِ گفتار سے زندہ کر دے۔ شمع کے نزدیک کاروان ِبو کی پریشانی ذوق تن آسانی اور ملت کی جمعیت کے مٹنے سے پیدا ہوئی ؎
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 217 )
ان خیالات کا مخاطب ہندوستانی مسلمان ہیں جن کی ان خامیوں کے طفیل احساسِ جمعیت ختم ہوا اور اس سے پراگندگی ٗ انتشار اور لامقصدیت قومی زندگی میں داخل ہوئے۔ شمع ایسی حالت میں محبت کو مستور رکھ کر شعلۂ تحقیق کو غارت گر کا نشانہ کرکے ٗ نئے جنون سے نیا ویرانہ پیدا کرکے ٗ شاخِ کہن پر نیا آشیانہ استوارکرنے کی تلقین کرتی ہے ۔وہ شخصی اہمیت کو جو ہرِ آئینہ ایام کہتی ہے۔ دہقان کو دانہ، کھیتی، باراں اور حاصل گردانتی ہے تاکہ انسان اپنی مستور قوتوں کو استعمال میں لائے اور شیرازہ بندی سے نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو۔ آخری بند میں شمع، شاعر میں سوزو ساز کی کمی سے صرف ِنظر کرتے ہوئے اسے بشارت دیتی ہے کہ :
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔321 )
شمع اور اقبال آخر میں ایک ہی پیکر میں ڈھل کر توحید کے وسیلے سے نور کی فرمانروائی ٗ ملّی مقاصد کے حصول ٗ تمنائوں کی بار آوری اور روشن صبح کے طلوع ہونے کی پیش گوئی کرتا ہے۔ ان تمام استعاروں اور ان سے پیدا ہونے والے مفاہیم سے واضح ہے کہ شاعر قومی اور ملّی شعو ر سے بہرہ ور ہے اور تخلیقی قوتوں کی باز آفرینی سے ملی انتشار پر قابو پانے کی آرزو دل میں لیے ہوئے ہے اور ہر اعتبار سے قوم کی رہبری کا فریضہ اورملّت کے اتحاد کا وظیفہ یاد دلا رہا ہے۔
’بانگ درا‘ہی میں ان کی ایک اور طویل نظم ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ہے۔ یہ ایک مرثیہ ہے جو اقبال نے اپنی والدہ کی وفات پر لکھا ہے ۔ اس لیے سوزو گداز ٗ جذباتیت ٗ والدہ سے محبت اور ان کی وفات کا شدید رنج اس نظم کی نمایاں خوبیاں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقبال نے فکر و فلسفہ کے حوالے سے اس میں ایسے نکات بھی اٹھائے ہیں کہ یہ نظم صرف ایک مرثیہ نہیں رہتی بلکہ حیات و ممات ٗ زندگی اور اس دنیا کے بارے میں فکری تصورات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ بڑے شاعر کا کمال یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جس موضوع کو بھی منتخب کرتا ہے اسے عظیم بنا دیتا ہے۔ والدہ کی موت یقینا ایک عالمگیر المیہ ہے ۔بہت سے شاعروں نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنے ذاتی رنج سے اوپر نہیں اٹھ سکے جبکہ اقبال نے اپنی نظم میں اسے عالمگیر المیے کو پیش کیا ہے اور موت کی چیرہ دستیوں کو خوبصورتی سے منعکس کیا ہے۔
والدہ مرحومہ کی یاد میں، ترکیب بند میں ہے جس میں کل ۱۳ بند شامل ہیں۔ ان بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے۔ نظم کا آغاز ایک ایسے بند سے ہوتا ہے جس میں عمومی طور پر شکست و ریخت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ دوسرے بند سے وہ اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور اپنے المیے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس نظم کا یہ مختصر بند فرد کے لیے ماں کی اہمیت کی جانب بھر پور اشارہ کرتا ہے ؎
علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دُنیَوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
بے تکلّف خندہ زن ہیں ٗ فکر سے آزاد ہیں
پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔257 ۔256 )
خضرِراہ میں ایک بات بہت نمایاں ہے اور وہ اس کا سیاسی اور خطیبانہ لہجہ ہے۔ چونکہ اس کا موضوع ایسا ہے کہ ایسا لہجہ در آنا یقینی ہے۔ اس لیے زیادہ غیر ضروری معلوم نہیں ہوتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ نظم میں تخیل کی کار فرمائی اسے معیار سے گرنے سے بچاتی ہے۔ یہ نظم بھی ایک تمثیل کی صورت میں ہے۔ جس میں مکالمے سے بنیادی کام لیا گیا ہے۔ یہ مکالمہ شاعر اور خواجہ خضر کے درمیان ہے۔ خواجہ خضر کا کردار تمام سامی روایتوں اور خاص طور پر مسلم روایت میں اپنی ایک خاص معنویت رکھتا ہے اور اس نظم میں شاعر نے اس تاریخی اور روایتی معنویت کو استعمال کرکے فنی چابکدستی کا مظاہرہ بھی کیا ہے او ر اس خاص تاثر کو بھی ابھارا ہے جو ان کا مقصودِ نظر تھا۔
خضر راہ کی ابتداء بھی سوالات سے ہوتی ہے۔ یہ سوالات شاعر کرتا ہے جو رات کے وقت ساحلِ دریا پر ٹہل رہا ہے اور اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ تب خضر اس کے سوالوں کے جوابات دیتے ہیں جس میں ان کی طویل عمر اور لمبے تجربات کا نچوڑ شامل ہے۔ جوابِ خِضر،یوں شروع ہوتا ہے ؎
کیوں تعجّب ہے مری صحرا نوَردی پر تجھے
یہ تگا پوئے دمادم، زندگی کی ہے دلیل
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 286 )
آگے چل کر حضرتِ خضر زندگی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ شاعر کو تلقین کرتے ہیں کہ زندگی کو پیمانہء امروز و فردا سے نہیں ناپنا چاہیے ٗ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی تو اصل میں جوئے شیر و تیشۂ سنگ گراں ہے۔ اصل انسان وہ ہے جس میں صداقت کے لیے مرنے کی تڑپ موجود ہو ٗ زندگی کے بارے میں خضر اپنے خیالات کا اختتام اس شعر پر کرتے ہیں ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 289 )
اس کے بعد ’’خضر‘‘ سلطنت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا کی مختلف اقوام اور مختلف بادشاہوں کے حوالے دیتے ہوئے وہ مغرب کے جمہوری نظام کو سازِ کہن قرار دیتے ہیں۔ ’’آزادی‘‘ کے خوش کن نعرے کو وہ سرمایہ داروں کی جنگ ِزر گری کہتے ہیں۔ آگے چل کر وہ سرمایہ اور محنت کے بارے میں اپنے تصورات کا اظہار کرتے ہیں۔ اب وہ بندہ ٔمزدور کو بیدار کرنے کے لیے اسے سرمایہ دار کے حیلے بہانوں کا پتا دے رہے ہیں۔ وہ نسل ٗ قومیت ٗ کلیسا ٗ سلطنت ٗ تہذیب ٗ رنگ کو خواجگی کے مسکرات قرار دیتے ہوئے مزدور سے خطاب کرتے ہیں ؎
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔292 )
نظم کے آخری حصے میں خضر دنیائے اسلام کی جانب آتے ہیں، اور ماضی کی عظمت پر اترانے کے رویے کی مذمّت کرتے ہوئے مسلم سے کہتے ہیں کہ اس کا دل دانائے راز نہیں ہے اور یہی سبب اس کی موجودہ زبوں حالی کا ہے۔ مسلمانوں کے زوال کے اسباب گنوانے کے بعد خضر مسلمانوں کو اپنی فریاد کی تاثیر دیکھنے کی ہدایت کرتے ہیں۔
اسی نظم سے متصل اقبال کی ایک اور طویل نظم طلوعِ اسلام ہے جو بانگِ درا کی آخری نظم ہے۔ نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے ؎
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا ٗ گیا دورِ گراں خوابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی ٗ ذہنِ ہندی ٗ نُطقِ اعرابی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 297 )
اقبال کی یہ طویل نظم بھی ترکیب بند کی ہیئت میں ہے جس میں کل ۹ بند ہیں اور اسے ملتِ اسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ کی نوید قرار دے سکتے ہیں۔ اقبال نے اس نظم میں موضوع کی مناسبت سے پر شوکت اور خیال آفریں الفاظ اور تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ فکر انگیز خیالات کے اظہار کی مناسبت سے موزوں الفاظ آئے ہیں اور عمدہ تراکیب تراشی گئی ہیں۔ یہ نظم تصویروں ٗ استعارات اور علامتوں سے بھری ہوئی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اقبال اس نظم میں امت مسلمہ کو عروج کی نوید دے رہے ہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے تصادم ٗ قدیم و جدید کے تضاد اور دین و دنیا کے تقابل سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ آخر میں وہ سارے دکھوں کا علاج اسلامی توحید میں تلاش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملّتِ اسلامی کو کہتے ہیں کہ وہ اپنے عمل سے ایک بار پھر ثابت کر دے کہ مذہبِ اسلام ہی اس دنیا کے مسائل کا حل ہے۔ نظم کی فنی ہیئت کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی نے بجا طور پر لکھا ہے:
’’موضوع کے مختلف پہلوئوں کو ایک ترکیب کے ساتھ مختلف بندوں میں اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر بند دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔ جبکہ ہر بند کے اندر متعدد اشعار بھی آپس میں ربطِ خیال کرتے ہیں یہ اشعار استعارات و علائم، تشبیہات و کنایات اور تلمیحات و تصاویر سے پُر ہونے کے علاوہ ایک انتہائی مترنم آہنگ سے مملو ہیں۔ یہ نقوشِ کلام جزوِ عبارت بن گئے ہیں اور اپنے سیاق و سباق میں بہت ہی معنی آفریں اور خیال انگیز ہیں۔ بلاشبہ نظم کے خیالات و افکار پر اسلام چھایا ہوا ہے لیکن اول تو اسلام کو ایک آفاقی نظریے اور انسان دوست تصور کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ٗ یہاں تک کہ ملت اور مشرق کو باہم مترادف کر دیا گیا ہے اور مغرب کو مشرق کے سامنے ایک فریق سے زیادہ ایک مریض کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب نظم کا موضوع طلوعِ اسلام ہے تو بذاتہٖ لازماً فنی اعتبار سے مضمونِ تخلیق اسلام ہونا ہی چاہیے تھا ٗ ورنہ فکر و فن دونوں ناقص رہ جاتے۔ ‘‘(14)
ان خیالات کی تائید میں ہم نظم سے چند مثالیں پیش کرتے ہیں ؎
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیںپیدا کر اے غافل!کہ مغلوبِ گماںتو ہے
مکاں فانی ٗ مکیں آنی ٗ ازل تیرا ٗ ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو ٗ جاوداں تو ہے
یہ نکتہ سرگذشتِ ملّتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ٗ عدالت کا ٗ شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔300 ۔ 299 )
ایک اور بند کے چند اشعار دیکھیں ؎
تو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا ٗ خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی ٗ وہ خراسانی ٗ یہ افغانی ٗ وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل! اچھل کر بیکراں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سِرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
گزر جا بن کے سیلِ تند رو ٗ کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کرسازِ فطرت میں نوا کوئی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 305 ۔ 304 )
طلوعِ اسلام اقبال کے فکری نظام میں اپنے مرکزی نقطے کے بہترین اظہار کا نمونہ ہے۔ جس میں فکر و فن اس طرح یک جا ہوئے ہیں کہ بہترین فن پارہ وجود میں آیا ہے۔
بالِ جبریل میں اگرچہ غزلوں کی تعداد نظموں کی بہ نسبت زیادہ ہے لیکن اس میں ساقی نامہ اور مسجد قرطبہ جیسی عالی شان نظمیں بھی شامل ہیں جو کہ اقبال کے شعری سرمائے کے بہترین نمونے ہیں۔ جہاں تک ساقی نامہ کا تعلق ہے تو اس بات کا تعین کرنا خاصہ مشکل ہے کہ اس کا موضوع کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس میں فکر ِاقبال کے بنیاد ی عناصر جمع ہو گئے ہیں۔ اقبال نے ساقی نامہ کے لیے مثنوی کی ہیئت اوررواں دواں بحر کا انتخاب کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں بے شمار موضوعات کو اس طرح بھرا ہے کہ کوزے میں دریا بند کرنے کے محاورے کا اطلاق بلاشبہ اس نظم کے ہر ہر مصرعے پر کیا جا سکتا ہے۔
ساقی نامہ میں ہمیں زندگی ٗ سلطنت، دنیائے اسلام ٗ تصورِ خودی، عناصرِ فطرت ٗ عصرِ حاضر کے مسائل ٗ مغرب و مشرق کا موازنہ ٗ مسلم امت ٗ اور ان سب کے ساتھ ساتھ شخصی واردات کا بیان ملتا ہے اور یہ سب عناصر نہایت خوبی سے ایک دوسرے سے پیوست اور گلے ملتے ہوئے ہیں۔ اتنے مختلف موضوعات کو ملا کر نظم لکھنے کے باوجود اس میں بلا کی روانی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک موجیں مارتا ہوا دریا ہے جو بہتا چلا جا رہا ہے۔ اقبال نے اس نظم میں آہنگ کو مرکزی نقطہ بنا کر صوتی حسیات کا بہترین اظہار کیاہے ؎
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ، ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دلِ طورِ سینا و فاراں، دو نیم
تجلّی کا پھر منتظر ہے کلیم
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زُنّار پوش
تمدن ٗ تصوف ٗ شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امّت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذّتِ شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمتِ حق میں مرد
محبت میں یکتا ٗ حمیّت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک ، مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔452 ۔ 451 )
آپ نے دیکھا کہ ایک ہی بند میں اقبال نے کیسے مختلف موضوعات کو سمو دیا ہے۔ اقبال کا ’’ساقی نامہ‘‘ اردو اور فارسی شاعری کی روایات کے تتبع میں لکھا گیا ہے۔ انھی روایات کے تحت اقبال نے ساقی نامے کا آغازِ بہار کے درود کے ذکر کے ساتھ کیا ہے۔ ساقی سے خطاب بھی ساقی نامے کی تسلیم شدہ روایات کا لازمی جزو ہے اسی لیے آٹھویں شعر سے اس خطاب کا آغاز ہوتا ہے اور یہیں سے ساقی سے اظہارِ مطلب کیا گیا ہے ؎
پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز
کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمیرِ حیات
وہ مے جس سے ہے مستیٔ کائنات
وہ مے جس میں ہے سوزو سازِ ازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 451 )
یہاں واضح طور پر مے کے استعارے میں شاعر ساقی سے اس عرفان کا طلب گار ہے جس سے ضمیرِ حیات اور سرِّکائنات اس پر روشن ہو جائے اور وہ اس کے باطن میں اتر کر اس سے پوری طرح واقف ہو جائے تاکہ وہ ابدیت سے ہمکنار ہو سکے۔ یہاں پر اقبال بین السطور نوجوانان ملت سے اپنے گردو پیش کی کائنات کو اپنے عزم و تیقن سے بدلنے کی امید قائم کرتا ہے۔ جوئے کہستاں ٗ کو زندگی اور زماں کی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اقبال دنیا بھر میں بیداری کی ایک لہر کو محسوس کرتا ہے اور تبدیلی کی اس لہر کی ممکنہ تہلکہ خیزی اقبال کو مستقبل کے بارے میں پر امید کرتی دکھائی دیتی ہے اوروہ یہ کہہ اٹھتا ہے کہ ؎
دلِ طُورِ سینا وفاراں، دو نیم
تجلّی کا پھر منظر ہے کلیم
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 451 )
اور ظاہر ہے کہ تلمیح کی نئی معنویت نئی نسل کے کسی کلیم سے ہی اجاگر ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف اقبال عجمیت کے غلبے کی مذمت کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر نوجوانوں کو اس کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کر تے ہیں جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بنے ہیں ؎
تمدن ٗ تصوف ٗ شریعت، کلام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 451 )
وہ نوجوان میں لذت شوق ٗ پیدا کرنے کے آرزو مند ہیں۔ لذتِ شوق میں عرفانِ حقیقت کے لیے وجدان کے طریق ِکار اس کے ہمکنار ہونے کی آرزو اسرار و رموز ِحیات سے آگاہی کا جذبہ اور آگے بڑھنے کے لیے عمل کا عزم سب شامل ہیں۔ اقبال شدتِ شوق کے فقدان پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے نوجوانوں میں پھر اسی شرابِ کہن کے اثرات پیدا کرنا چاہتا ہے جو مسلمانوں کے عروج کی ضامن تھی۔ اسی لیے اقبال انسان کے ذہن اور برتائو پر عقل فرو یہ کے غلبے کے خلاف احتجاج کرتا ہے ؎
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 452)
اقبال نوجوانوں میں دلِ مرتضی اور سوزِ صدیق کا متمنی ہے۔ اقبال ان میں ہمہ زندگی سے ان کے بدن کی نمود کی تمنا کرتا ہے وہ ان سے موت کا تعاقب کرکے اسے زیر کرنے کی کوشش میں منہمک رہنے کی خواہش کرتا ہے۔ اسی نظم میں اقبال نے نوجوانوں میں خودی کو بیدار رکھنے کی تعلیم بھی دی ہے۔ اقبا ل کے نزدیک خودی مکان کی پابند نہیں ہے البتہ وہ وقت کی حدود میں اپنے آپ کو پا سکتی ہے۔ یہ ازل اور ابد دونوں سے منسلک بھی ہے اور وقت کے بہائو سے بھی اس کا رابطہ ہے ؎
ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 455 )
یہاں دریا زندگی کے تسلسل کی علامت ہے۔ زندگی ہر دم ترو تازگی سے عبارت ہے۔ وہ لمحہ بہ لمحہ نت نئے راستے تلاش کرتی ہے اور اپنے راستے کی رکاوٹوں کو اپنی ضربوں سے رواں بناتی جاتی ہے ۔ اس کے ارتقاء کا راز اس کے تجسس میں ہے۔
خودی ایسی قوت ہے جو ہمہ وقت اضطراب اور تنائو میں رہتی ہے اور بالآخر انسانی خود ی کی صورت میں ظہور کرتی ہے جو ایک فعال اور متحرک اکائی ہے ؎
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 456 )
اقبال کی رائے میں خودی کی نشوونما ٗ حریت، فقر، حوصلہ مندی اور سادگی سے ہوتی ہے۔ اسے کم و بیش ٗ نشیب و فراز اور پس و پیش سے واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ اس نہج پر قائم رہتی ہے جس سے وہ دنیا میں سربلند ہو سکتی ہے وہ ایک سجدے کے اہتمام سے باقی ہر سجدے کو اپنے اوپر حرام کر لیتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی فقط خوردو نوش نہیں ہوتی کہ اس کے لیے اپنی عزت نفس دائو پر لگا دی جائے:
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 457)
جرات اور غیرتِ نفس کو پاکر ہی انسان فاتحِ عالم خوب و زشت بن سکتا ہے۔ اور زمین اور آسمان اس کے صید ہو سکتے ہیں۔ ساقی نامہ میر حسن کی مثنوی سحر البیان ٗ کی بحرمیں ہے اور اس کا وزن ففعولن فعولن فعولن فعول ہے۔ یہ بحربہت مترنم اور رواں ہے۔ اقبال نے نثری ترتیب میں باوزن اور مترنم مصرع کہے ہیں اور لفظیات بھی اقبال ہی سے مخصوص ہیں۔
ساقی نامہ سے آگے پیرو مرید کے عنوان سے ایک مکالمہ ہے جو اقبال اور ان کے پیر مولانا روم کے درمیان ہے۔ فکر اقبال پر مولانا روم کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ خود اقبال نے ایک سے زیادہ جگہ پر انہیں اپنا مرشد قرار دیا ہے۔ جاوید نامہ میں وہ اسی پیر کی معیت میں افلاک کی سیر کے لیے نکلتے ہیں۔ یہاں اقبال مولانا روم کو امامِ عاشقانِ درد مند ٗ قرار دیتے ہیں اور ان سے رہبری کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے یاد رہے کہ اقبال نے علوم شرق و غرب کا مطالعہ کر رکھا ہے لیکن یہ علوم اس کی روح کی تشنگی دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس نظم کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہ اردو اور فارسی دو زبانوں میں ہے۔ مریدِ ہندی اردو میں سوال کرتا ہے اور پیر رومی فارسی میں جواب دیتا ہے۔ اس نظم میں اقبال کی دونوں زبانوں پر دسترس کا اظہار ہوتا ہے نظم کا اختتام اس مکالمے پر ہوتا ہے ؎
مُریدِ ہندی :
ہند میں اب نور ہے باقی نہ سوز
اہلِ دل اس دیس میں ہیں تیرہ روز
پیرِ رومی:
کارِ مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔472 )
آخری شعر ہی نظم کا نقطۂ عروج اور لبِّ لباب ہے۔
مسجد قرطبہ،بال جبریل کی لازوال نظم ہے۔ ہم نے اسے اپنے مطالعہ میں آخر پر رکھا ہے اگرچہ کتاب میں ترتیب کے حوالے سے یہ ’’ساقی نامہ‘‘ سے پہلے آتی ہے۔ مسجدِ قرطبہ کو آخر میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے خیال میں اقبال نے اس نظم کے ذریعے مسلم اندلس کو زندہ ء جاوید بنا دیا ہے اس لیے اس کا تذکرہ سب سے جدا ہونا چاہئے۔ اندلس وہ جگہ ہے جہاں مسلمان آٹھ سو سال تک حکمرن رہے۔ مسلم اندلس کی عظمت ٗ شان و شوکت اور علمی برتری بھی دیکھنے کی چیز تھی اور جس طرح اندلس کے مسلماں صفحہ ء ہستی سے مٹ گئے وہ بھی عبرت کا بہت بڑا نشان ہے۔ اگرچہ مسلمان اندلس میں مٹ گئے لیکن اندلس کی یاد مسلمانوں کے اجتماعی حافظے سے کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ قرطبہ ٗ غرناطہ اورا ندلس کے دوسرے شہروں کو یاد کرکے آنسو بہاتے رہے۔ انھیں الحمرا کے درو دیوار کی سرگوشیاں اورمسجدِ قرطبہ کی اذانیں سنائی دیتی رہیں لیکن صدیوں انھیں اس سرزمین پر سجدہ کرنے کی سعادت نصیب نہ ہو سکی۔ صدیوں بعد اقبال نے مسجدِ قرطبہ میں نماز پڑھی اور اللہ کے حضور دعا مانگی۔ یہ دعا بالِ جبریل میں مسجد قرطبہ سے پہلے ہے اور ہم اسے مسجد ِقرطبہ کا ابتدائیہ قرار دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمغنی نے مسجدِ قرطبہ کی فنی اور ادبی حیثیت کے بارے میں لکھا ہے:
’’اس نظم کی ترتیبِ ہیئت میں شروع سے آخر تک ایسی کامل یکسوئی اور اس کے عناصرِترکیبی کے دوران ایسی مکمل پیوستگی ہے کہ خود اقبال کی دوسری اہم نظموں میں مواد کی انتہائی پیچیدگی کو انتہائی ہم آہنگی میں مرتکز کرنے کی اتنی بڑی مثال اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ملتی۔‘‘(15)
’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی کی اس رائے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہم نظم کی باقاعدہ ابتداء پر غور کریں تو ہمیں ایسا جوش و خروش اور جذبے کی تیزی ملتی ہے کہ احساس ہوتا ہے جیسے چڑھتا ہوا دریا ہے جو اپنے راستے کی ہر چیز کو بہالے جانا چاہتا ہے ؎
سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب، تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات، زیر و بمِ ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہء روز و شب، صیرفئی کائنات
تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات ٗ کار جہاں بے ثبات
اوّل و آخر فنا ٗ باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو ٗ منزل آخر فنا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔420 ۔419 )
اس نظم کے آٹھ بند اور ہر بند میں آٹھ شعر ہیں یوں کل ۶۴ اشعار پر مبنی یہ نظم فکر و فن کا نادر شاہکار ہے۔ نظم میں زندگی عشق ٗ فنا ٗ عصر ٗ ایمان اور کئی دوسرے موضوعات کو پیش کیا گیا ہے۔ شاعر نے تاریخِ اسلام اور اسلامی روایت کے رموز و علائم کو اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعر نے مسجدِ قرطبہ کی مرقّع نگاری بھی بے مثال طریقے سے کی ہے۔ اقبال نے مسجد کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ مضمرات اور مسلمانوں کے اجتماعی حافظے میں موجود یادوں کو خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کیا ہے۔ انھوں نے مسجدِ قرطبہ کو مسلم امّت کی علامت بنا دیا ہے۔ اسے ہمارے فردوسِ گمشدہ کی علامت کا درجہ دے دیا ہے۔’’ مسجدِ قرطبہ‘‘ اردو شاعری میں ایک نئے اسلوب کی داغ بیل ڈالنے والی نظم ہے۔ آج اگر ہمیں بہت سے نئے شاعروں کے ہاں مسلَم اندلس ٗ قرطبہ اور دوسری مسلم تہذیبوں کے تباہ حال شہر علامتوں کے روپ میں جلوہ گر ملتے ہیں۔ تو ان سب کی نقیب یہ مسجدِ قرطبہ ہی ہے۔ یوں اس صدی میں اس نظم نے اردو شاعری پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
یہ فنی حکمت عملی کا تقاضا تھا کہ اقبال نے وقت ٗ عشق ٗ فن ٗ تاریخ اور انقلاب کے بارے میں اپنے افکار کو اپنی نظم مسجدِ قرطبہ ٗ کے درو بست میں پرو دیا ہے یہ اقبال کے (اس نظم کے خصوصی حوالے کے ساتھ) غالب شعری محرکات کا درجہ رکھتے ہیں۔ اقبال کی تخلیقی حس کو مسجد قرطبہ کی تعمیری عظمت ٗ شکوہ اور جلال کی کیفیات نے متاثر کیا جو مکانی سیاق و سباق رکھتی ہے۔ یعنی اقبال کا تخیل دراصل اس مکانی نقطے کے گرد گھومتا ہے اور یہی اس کے فن کا نقطۂ ارتکاز ہے۔ مسجدِ قرطبہ کے ذریعے اقبال یہ واضح کر رہا ہے کہ زمان و مکان ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور ایک کے بغیر دوسرے کا تصور ممکن نہیں۔ پہلے بند سے یہ نظریہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ زمان و مکان اصل ہیں اور اس حقیقت کو دراصل زمان و مکان کا تسلسل مشخص کر رہا ہے۔ وقت ایک تجریدی تصور ہے جو مختلف آفات کے ایک لڑی میں پرونے کے خیال سے واضح ہوتا ہے۔ روز و شب کا تسلسل اس کا ہی ایک خارجی مظہر ہے ٗ کیونکہ اسی سے واقعات کا ڈھانچہ ترتیب پاتا ہے جسے آپ حقیقت سے تعبیر کر سکتے ہیں ٗ حیات و ممات بھی وقت کی حدود میں ہی بامعنی ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے کہا ؎
سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سلسلہ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔419 )
اقبال کے نزدیک وقت اور ابدیت کے درمیان نقطۂ انقطاع موجود ہے ؎
سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 419 )
یعنی ایک وقت سازِ ازل کی طرح سلسلہ وار ہے اور دوسراذ ات کے حوالے سے غیر سلسلہ وار جو تواتر کے بغیر تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ وقت کے ہاتھوں پرکھ اور چھان بین کے بعد جو وجود ٗ ذات یا انا حیات کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتی، مٹا دی جاتی ہے لیکن جو شخص زمانے کے بے رحم قانون سے آنکھیں ملا کر اپنی تقدیر خود بنانے پر قادر ہو اس کے لیے زندگی ایک بے معنی تکرار کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے لیے متعین اور معلوم نشاناتِ راہ ٗ فریبِ نظر بن کر رہ جاتے ہیں ع
ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 420 )
اس کے لیے اگرچہ آنی و فانی ٗ معجزہ ہائے ہنرٗ اول و آخر ٗ باطن و ظاہر ٗ نقش کہن، نقشِ نو تمام فنا ہیں تاہم مردِ خدا کے طور پر اس کے نقش میں رنگِ ثبات ِدوام ابھر آتا ہے ٗ عشق اس کو حیات دیتا ہے اور اس پر موت حرام ہو جاتی ہے۔ عشق اور موت کے درمیان ازلی کشمکش ہے لیکن عشق میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے مد مقابل پر فتح پالے۔ اقبال عشق کا ایک جامع تصور رکھتے ہیں اور اس میں پیر رومی کا فیضان بھی شامل ہے۔ نظم کا دوسرا بند عشق کی اندرونی اور بیرونی بے پایاں قوتوں اور اس کے مظاہر خاص طور پر دل ِمصطفے اور دم ِجبریل کا ذکر کرتا ہے۔ فقیہ حرم اور امیر جنود بھی انھی میں شامل ہیں۔ اقبال عشق ٗ کو وقت سے بھی ماورا قرار دیتا ہے اور ان کے خیال میں وقت اپنی اصل ماہیت میں عشق کی توانائی سے مختلف نہیں ہے ؎
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
اسی خیال کو دوبارہ اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے ع
عشق سراپا دوام ، جس میں نہیں رفت و بود
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔421 )
حرمِ قرطبہ کا وجود بھی عشق کے دم ہی سے قائم ہے۔ یہ ایک ایسے فنی جذبے کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے جس میں ایمان اور ایقان کی آمیزش ہے۔ اس کی صناعی میں وقت کو عشق کی بھٹی سے گزار کر لازوال بنا دیا گیا ہے۔ اس کی فضا میں انسان ابدی نشے اور دراز تر ہونے والی سرمستی میں ڈوب جاتا ہے ؎
کافرِ ہندی ہوں میں ، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوٰۃ و درود ، لب پہ صلوٰۃ و درود
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔422 )
چوتھے بند کے حوالے سے اقبال کو مسجد قرطبہ کے حسن ٗ عظمت اور استحکام میں مردِ مومن کے جلال و جمال کی جھلک نظر آتی ہے یعنی سنگ و خشت کا یہ پیکرِ مجسم انھی الوہی تصورات کی خارجی تجسیم ہے۔
پانچویں بند میں مردِ مومن کی زیادہ واضح جھلک ملتی ہے۔ یہاں مردِ مومن خدا کی تخلیقی قوت میں اس کا شریک ہو جاتا ہے ؎
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کشا،کار ساز
یا پھر ع
خاکی و نوری نہاد ، بندئہ مولا صفات
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 424 )
ظن و تخمین کی اس دنیا میں مرد ِمومن کا عزمِ صمیم اور اندرونی یقین کا ایک ایک نقطہ محکم ہے جو اعتدال اور سلامت روی کا ضامن ہے ؎
نقطۂ پر کار حق ، مردِ خدا کا یقین
ورنہ یہ عالم تمام، وہم و طلسم و مجاز
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 424 )
چھٹے بند میں اقبال پھر مسجدِ قرطبہ سے مخاطب ہو کر اسے کعبہء ار باب فن ٗ اور سطوت ِدینِ مبین ٗ جیسی پر شکوہ علامتوں سے نمایاں کرتے ہیں اور صرف قلبِ مسلمان کو اس کے حسن کی نظیر بتاتے ہیں جس کی نگاہوں نے شرق و غرب تربیت کی اور اپنی خرد سے یورپ کو ظلمات سے نکال کر عروج کی طرف گامزن کیا۔
اقبال نے اگلے بند میں اپنے گہرے تاریخی شعور کو برتا ہے اور شکست و ریخت، انتشاراور افتراق کے بعد منجمد اور مجہول زندگی میں گہری اور یک لخت تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس آرزو مندی کو اقبال نے اس طرح اپنی زبان دی ہے ؎
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا؟
گنبدِنیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 427 )
آخری بند میں اقبال امتوں کے وجود کا انحصار کش مکشِ انقلاب کے اصول پر قرار دیتے ہیں۔ ایسا انقلاب عملِ پیہم اور خود احتسابی سے واقع ہو سکتا ہے ؎
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات ٗ کش مکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا، میں وہ قوم
کرتی ہے جوہر زماں، اپنے عمل کا حساب
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 428 )
اس بند میں اقبال نے انقلاب کی بشارت بھی دی ہے اور اس بشارت کے لیے منطقی شرائط بھی پیش کی ہیں۔ نظم کا آخری شعر مسجدِ قرطبہ کے حوالے سے خونِ جگر کے بغیر ایسی دوامی اور لازوال تبدیلیوں کو ناتمام قرار دیتا ہے ؎
نقش ہیں سب نا تمام ٗ خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام ٗ خونِ جگر کے بغیر
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 428 )
اس نظم کے آٹھ بندوں میں ایک سبک اور نفیس شعری منطق پائی جاتی ہے۔ اس کے مختلف حصے ایک دوسرے کے ساتھ حیرت انگیز حد تک مربوط ہیں۔ یہاں تصورات اور ان کے حسّی مبادلات کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں۔ تقلیلِ الفاظ ٗ ایمائیت اور روشن محاکات اس نظم کی رگ و پے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کا آہنگِ خیال فکر اور جذبے کے باہمی امتزاج سے پھوٹتا ہے یہ نظم ایک ترکیبی علامیہ ہے جس میں مذہب ٗ فن اور تاریخ کے محاکات باہم د گر آمیز کر دیے گئے ہیں اور اقبال ایک اونچے فنی سنگھاسن سے رفعتِ تخیل کے ساتھ محوِ کلام دکھائی دیتا ہے۔ اس نظم میں بحر منسرح زمانی آٹھ رکنی بسرامی استعمال کی گئی ہے جس کے اراکین ہیں مفتعلن ٗ فاعلن ٗ مفتعلن ٗ فاعلن ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دریائے وادیء الکبیر میں ایک باقاعدہ نظم کے تحت موجیں اٹھتی ہیں اور کناروں سے ٹکراتی ہیں۔ ہر لفظ مسجدِ قرطبہ کی طرح محکم ،روشن اور مضبوط کھڑا ہے پھر الفاظ کو ترصیع کی صنّاعی سے اس طرح برتا گیا ہے کہ عروضی وقفہ اور داخلی قافیے مل کر موسیقی کا ایک باقاعدہ نظام مرتّب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اقبال کوئی انحطاطی نہیں کہ صنّاعی کا التزام کرے بلکہ یہاں غیر محسوس طور پر با آسانی شعری موسیقی سے ترنّم کی کیفیت خود بخود پیدا ہوتی چلی گئی ہے اور یہی اقبال کی فنی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
اب ہم اقبال کی آخری طویل نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کی طرف آتے ہیں۔ یہ نظم ان کے آخری مجموعے ارمغانِ حجاز کے اردو حصے میں شامل ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ ایک مجلس کی روداد ہے جس میں ابلیس اپنے مشیروں کے ساتھ شریک ہے۔ یہ مشیر باری باری اپنی کارکردگی بیان کر رہے ہیں اور آخر میں خود ابلیس اس مجلس سے خطاب کرتا ہے۔جدید انگریزی شعراء کی طرح تمثیل کے آہنگ میں لکھی گئی یہ نظم ڈرامے کے تقریباً تمام عناصرِ ترکیبی اپنے اندر رکھتی ہے اور اسے بہت خوبصورتی سے اسٹیج کیا جا سکتا ہے۔
نظم کی ابتدا ابلیس کے خطاب سے شروع ہوتی ہے ؎
یہ عناصر کا پرانا کھیل ، یہ دنیائے دوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمنّائوں کا خوں
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کار ساز
جس نے اس کا نام رکھا تا جہانِ کاف ونوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سرنگوں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔702 ۔701 )
پہلا مشیر ابلیس کی تائید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے غلامی کو لوگوں کے لیے ازلی ابدی حقیقت بنا دیا ہے۔ ہم نے مسلمانوں سے خوئے مسلمانی نکال دی ہے اور عبادت کو رسومات میں ڈھال دیا ہے۔ اب ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرا مشیر پہلے کی بات کرتے ہوئے اسے سلطانیٔ جمہور کے غوغا کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلا مشیر جمہوریت کو ملوکیت کا پردہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نے خود شاہی کو جمہوری لباس پہنایا ہے۔ پہلا مشیر کہتا ہے کہ مغرب کے جمہوری نظام کا چہرہ باہر سے روشن لیکن باطن چنگیز سے زیادہ تاریک ہے۔ تیسرا مشیر سب کی توجہ مارکس ازم کی جانب مبذول کرواتا ہے جس کے سبب بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب توڑ دی ہے۔ پانچواں مشیر ٗ اشتراکیت سے گھبرا کر ابلیس سے التجا کرتا ہے کہ وہ ان کی پریشانی دور کرے۔ ابلیس انھیں بتاتا ہے کہ اسے اشتراکی کوچہ گردوں سے کوئی خطرہ نہیں وہ تو امتِ مسلمہ کی بیداری سے ڈرتا ہے۔ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں اقبال نے علامتی انداز میں حکومت کے مختلف نظاموں یعنی سرمایہ داری ٗ اشتراکیت ٗ فاشزم اور اسلامی نظام ِحیات پر بحث کی ہے۔ خود ابلیس کے مشیروں کے ذریعے یہ راز فاش کیا گیا ہے کہ عصرِ حاضر کے مروّجہ نظام، ابلیسیت ہی کے پیدا کردہ ہیں اور در پردہ اسی کے فتنوں ہی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ابلیس کو کارِ جہاں بانی میں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ اشتراکیت بھی ملوکیت ہی کا دوسرا نام ہے۔ البتہ ملّتِ اسلامیہ جس نظامِ زندگی کو بروئے کار لانے کی تیاری کر رہی ہے وہ ضرور ابلیسیت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ابلیس واضح الفاظ میں یہ بتا کر کہ ؎
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امّت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔700 )
اپنے مشیروں کو ایسے حربوں اور سازشوں سے کام لینے کا مشورہ دیتا ہے جو ملتِ اسلامیہ کے خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہونے دیں اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ وہ اسے فقہی مسائل اور علمِ کلام کی تاویلات میں الجھائے رکھیں اور گفتار کے سوا کردار و عمل کی روح اس میں بیدار نہ ہونے دیں ؎
ہے یہی بہتر، الہٰیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
تم اسے بیگانہ رکھو، عالمِ کردار سے
تا بساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
مست رکھو، ذکر و فکرِ صبح گاہی میں، اسے
پختہ تر کر دو، مزاجِ خانقاہی میں اسے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔711 ۔712 )
یہ نظم اقبال کے عہد میں اٹھنے والی سب سیاسی اور سماجی تحریکات کے معروضی چوکھٹے میں پیوست نظر آتی ہے۔ خاص طور پر وہ تحریکیں اقبال کے پیش نظر تھیں جو سرمایہ داری ٗ ملوکیت اور استعماریت کے خلاف ردّ ِعمل کے طور پر ظہور میں آئیں یعنی فاشزمٗ نازی ازم اور کمیونزم جنہیں اقبال نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس نظم میں بیش از بیش طنزیہ لہجے میں ان کا ذکر فنی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ابلیس کے کردار کی جھلکیاں اور اقبال کے یہ موضوعات اور افکار اس سے پہلے بھی اقبال کی شاعری میں موجود تھے لیکن اس نظم میں اقبال نے اپنی تمام عمر کی ریاضت ٗ مطالعے اور تجربے سے کام لے کر پختگی کے ساتھ ان افکار کا احاطہ کیا ہے اور اپنے نقطۂ نظر کو واضح کیا ہے۔ نظم کے بیرونی ڈھانچے اور اس کے مرکزی تصورات کے ساتھ ساتھ اس کے اندرونی دبائو بھی توجہ کے متقاضی ہیں۔
اس کے بعد کی نظم کا عنوان ہے، بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو، جس میں باپ نے بیٹے کو کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اپنے آپ پر بھروسا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ’’تصویر و مصور‘‘ میں خودی کا درس ہے۔عالمِ برزخ میں غلاموں اور آزاد منش انسانوں کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ سر راس مسعود کے مرثیے اور دو تین مختصر نظموں کے بعد چند اردو قطعات ہیں جن میں سعی و عمل کا پیغام دیا گیا ہے۔ ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کے حوالے سے اقبال نے انتیس حیات افروز نکات بیان کیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی حالتِ زار کی دردناک تصویر کھینچی ہے ؎
سرما کی ہوائوں میں، عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہنر جس کا، امیروں کو دوشالہ
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 750 )
سر اکبر حیدری کے نام نظم میں اقبال کی قلندرانہ ٗ درویشانہ اور غیور طبیعت پر روشنی پڑتی ہے۔ بعد ازاں حسین احمد کے عنوان سے مندرجہ ذیل تین فارسی شعر ہیں جو اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی سے اس بیان سے متاثر ہو کر کہے تھے جس میں مولانا نے وطن کو قومیت کی اساس قرار دیا تھا ؎
عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں، ورنہ
زدیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجبی ست
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی ست
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔754 )
اسی مجموعے میں ایک نظم دوزخی کی مناجات، بھی شامل ہے جو دنیا میں مفادات کی کشمکش کا پردہ چاک کرتی ہے۔ دوزخی کے نزدیک دنیا میں غریبوں کی قسمت میں فقط نالہ و فریاد لکھا ہے۔ یہاں پرویز ٗ سراب ہیں اور فرہاد ٗ جگر تشنہ ۔ علم ٗ حکمت ٗ سیاست ٗ تجارت سب فکرِ ملوکانہ نے ایجاد کر رکھے ہیں۔ بلند عمارات والے شہر ویرانہ ء آباد ہیں ۔آخر میں وہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ دوزخ میں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا ؎
اللہ ترا شکر کہ یہ خطۂ پرسوز
سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 722)
یعنی یورپ کی غلامی سے دوزخ کی زندگی قدرے بہتر ہے۔ ارمغانِ حجاز کی آخری نظم حضرتِ انسان ہے جو عظمتِ انسانی کا پرجوش بیان ہے۔ یہ نظم اقبال نے وفات سے چند روز پیشتر لکھی تھی۔ یہ نظم اس شعر پر ختم ہوتی ہے ؎
اگر مقصودِ کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے؟
مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 775 )
چند اور نظمیں اور دیگر اصناف
غزل اور طویل نظم کے حوالے سے اقبال کی شاعری کے فکری اور فنی پہلوئوں پر خاصی بات ہو چکی ہے۔ اب ہم مختصراً اقبال کی مختصر نظموں ٗ قطعات ٗ رباعیات اور ظریفانہ کلام کے حوالے سے بات کریں گے۔ اگرچہ فکرِ اقبال کے مرکزی نقطے اور اس کے حوالے سے دوسرے موضوعات پر سیر حاصل بات ہو چکی ہے اور اقبال کے فنی ارتقاء پر بھی گفتگو کی جا چکی ہے لیکن چونکہ ان اصناف کی اقبال کی شاعری میں الگ اہمیت ہے اور دوسرا چونکہ یہ اقبال کے کلام کا اہم حصہ ہیں اس لیے ہم ان پر بات کرتے ہیں۔ لیکن یہاں ہمارے پیشِ نظر اختصار ہوگا اور ہم فرداً فرداً سب نظموں پر بات کرنے کی بجائے صرف منتخب نظموں پر بات کریں گے۔
اس سلسلے میں ہم اپنی بات کی ابتدا نظم ہمالہ، سے کرتے ہیں جو کلامِ اقبال کی ابتدائی نظم ہے ۔ ہمالہ میں دو موضوعات ہیں، ایک تو فطرت پسندی اور دوسری حب الوطنی ٗ ہمالہ ہندوستان کا ہی نہیں دنیا کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے اور شاعر نے اسے کشورِ ہندوستان کی فصیل قرار دیا ہے۔ اقبال نے ہمالہ، کو ہندوستان کی علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے لفظیات کا انتخاب اور تراکیب کی تراش خراش بہت موزوں ہے۔
فطرت پسندی کے پیش منظر کو ہی اگر پیشِ نظر رکھیں تو ہمیں گلِ رنگین، کے عنوان سے دوسری نظم ملتی ہے جو شاعر کے فطرت کے حوالے سے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتی ہے۔ ’’ابرِ کوہسار‘‘ اور دوسری کئی نظموں کو اس ذیل میں رکھ سکتے ہیں۔بانگ درا کے ابتدائی حصے میں بیشتر ایسی نظمیں شامل ہیں جن پر فطرت نگاری کا اطلاق ہو سکتا ہے پھر ان نظموں کی لفظیات اور نرم لہجہ بھی انہیں رومانی فضا کے قریب لے آتا ہے۔ابربچہ اور شمع کنارِ راوی اور کئی دوسری نظمیں ہم اسی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں جن میں شاعر فطرت سے اپنے قرب اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔
بانگِ درا کے دوسرے حصے کا آغاز محبت نامی نظم سے ہوتا ہے جس میں شاعر نے محبت کے جذبے اور اس جذبے کی نزاکتوں کا بیان کیا ہے۔ اس سے اگلی نظم حقیقت ِحسن، ہے جس میں شاعر نے حسن کے فانی ہونے اور اس فنا سے پیدا ہونے والے افسوس کو موضوع بنایا ہے پیام میں بھی بنیادی طور پر عشق ہی کے جذبے کو اپنا موضوع بنایا گیا ہے۔ حسن و عشق .... کی گود میں بلی دیکھ کر،کلی،وصال سلمیٰ،عاشق ہرجائی ، جلوۂ حسن،پیغام عشق ،فراق ایسی نظموں میں حسن و عشق کے معاملات ہی کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ تمام نظمیں اقبال کے قیامِ یورپ کے دوران لکھی گئی ہیں۔ یورپ میں اقبال کو عطیہ فیضی اور اپنی جرمن زبان کی خواتین اساتذہ کی صحبت میسر آئی اور اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ اقبال ان خواتین سے متاثر ہوئے۔ قیامِ یورپ کے دوران لکھی گئی اقبال کی یہ نظمیں کم و بیش انھیں جذبات و احساسات کا اظہار کرتی ہیں۔
اقبال کی ان رومانی نظموں کے فنی محاسن کے سلسلے میں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کا یہ بیان قابل غور ہے:
’’اقبال کی یہ نظمیں اپنے موضوع اور طرز ِاحساس کے علاوہ اسلوبِ فن کے لحاظ سے بھی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ گذشتہ سطور میں رسالہ ’’مخزن‘‘ کے حوالے سے اردو شاعری میں رومانی رجحان کا ذکر آ چکا ہے۔ اس سہ سالہ دور میں بھی ’’مخزن‘‘ کے صفحات میں مغربی شعراء کی نظموں کے تراجم اور نوبہ نو رومانی تخلیقات و تجربات کا سلسلہ جاری رہا لیکن اگر بیسویں صدی کے عشرہ ٔاول کی صدہا رومانی نظموں کا ایسا انتخاب مرتب کیا جائے جو انیسویں صدی کی انگریزی شاعری کی جمالیاتی اقدار و فنی معیار کی حامل ہو ٗ تو شاید اقبال کی ان نظموں کے علاوہ بہت کم چیزیں اس انتخاب میں شامل ہو سکیں گی۔‘‘ (16)
ڈاکٹر صاحب نے بجا طور پر ان نظموں کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ بہر طور شاعر ی میں ان کی حیثیت مسلّمہ ہے۔
اقبال کے ہاں قومی اور ملی نظموں کا آغاز ہمالہ ہی سے ہو چکا تھا۔ آگے چل کر اس رجحان کی نمائندہ نظموں میںترانہء ہندی، نیا شوالہ، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، سوامی رام تیرتھ اور طلبائے علی گڑھ کالج کے نام کو رکھا جا سکتا ہے۔ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے اور اقبال نے بھی اسی جذبے کے تحت اپنے وطن ہندوستان سے محبت کی ٗ جس کا اظہار ان کی شاعری میں بھی ہوا۔ لیکن ہندوستان کے سیاسی حالات نے اسے رفتہ رفتہ ملت اسلامیہ کو اپنا نصب العین بنانے پر مجبور کر دیا جس کے ساتھ ہی اس کی نظموں میں وطن پرستی کا تصور کم ہوتا چلا گیا اور ملت اور امت کے تصورات حاوی ہوتے گئے۔
بانگِ درا کے تیسرے حصے کا آغاز ہی بلادِ اسلامیہ نامی نظم سے ہوتا ہے۔ جس میں وہ مسلمانوں کو ان کے ماضی کی کھوئی ہوئی عظمت کی یاد دلاتے ہوئے عمل پر ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آگے چل کر انہوں نے وطنیت کے نام سے اپنی نظم میں وطن کے مغربی تصور کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے قومیتِ اسلام کی جڑ کاٹنے کا آلہ قرار دیا ہے ۔خطاب بہ نوجوانانِ اسلام،مسلم،حضور رسالت مآب میںشفاخانۂ حجاز ، فاطمہ بنت عبداللہ ،صدیق کفر و اسلام،بلالؓ اورمذہب کے نام سے شامل نظموں میں انھوں نے کھل کر اپنے مذہبی جذبے اور مذہبی شعور کا اظہارکیا ہے۔ ان نظموں کے مطالعے سے ہم اندازہ کرتے ہیں کہ کس طرح رفتہ رفتہ اقبال کے تصورات میں ارتقاء ہوا اور وہ ملت اسلامیہ کے مسائل کی جانب متوجہ ہوئے۔
ظریفانہ کے عنوان سے اقبال نے بانگِ درا کے آخر میں اپنا ایسا کلام شامل کیا ہے جس میں اس نے طنزو مزاح کے حربے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اقبال سے پہلے اردو میں اکبر الٰہ آبادی نے بڑی خوبی کے ساتھ طنزو مزاح کو اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا۔ لیکن اکبر کے ساتھ المیہ یہ پیش آیا کہ اکثر و بیشتر انھیں ایک مزاحیہ شاعر سمجھ کر پڑھا گیا۔اقبال کے ہاں چونکہ یہ رنگ بہت زیادہ گہرانہیں اس لیے ان کے کلام میں یہ صرف ایک پہلو کی حیثیت رکھتا ہے۔ شاعری کے اس رنگ میں بھی اقبال کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں اور اس نے چند خوبصورت نمونے ہی پیش نہیںکیے ہیں بلکہ جدیدیت کے بعض منفی پہلوئوں پر کچھ مغربی دانشوروں کی طرح تنقید سے کام لیا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مسلمانوں کے ذہنی جمود اور رجعت پسندی کو بھی نشانہ بناتے ہیں ؎
مشرق میں اصول ِدیں بن جاتے ہیں
مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں
رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلّے
وہاں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 315 )
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 315 )
ہندوستاں میں جزوِ حکومت ہیں کونسلیں
آغاز ہے ہمارے سیاسی کمال کا
ہم تو فقیر تھے ہی ، ہمارا تو کام تھا
سیکھیں سلیقہ اب امراء بھی ’’سوال‘‘ کا
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 318 ۔319 )
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن ، ممبری ، کونسل ، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔323 )
بال ِجبریل میں اقبال کی 38 رباعیات شامل ہیں۔ رباعی لکھنا ایک مشکل کام ہے کہ اس کے لیے بحر یںمتعین ہیں جن کے ساتھ دوسرے بہت سے دیگر لوازمات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے جیسا کہ رباعی کا تیسرا مصرعہ اتنا جاندار ہوناچاہیے کہ وہ باقی تینوں مصرعوں کو ایک لڑی میں پرو دے۔ اقبال کی اردو اور فارسی دونوں زبانوں کی شاعری میں رباعی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اقبال نے شاعری کے اس میدان میں بھی اپنے کمالِ فن کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی رباعیات بھی فکر و فن کے اعتبار سے شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ انھوں نے ان میں اپنے تصورات و خیالات اور فکر و فلسفہ کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اقبال کی رباعیات کی چند مثالیں دیکھیں ؎
یقیں ، مثلِ خلیل آتش نشینی
یقیں اللہ، مستی ، خود گزینی
سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار!
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 406 )
نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری
رہا صوفی، گئی روشن ضمیری
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری، بے فقیری
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 408)
زمانے کی یہ گردش جاودانہ
حقیقت ایک تُو ، باقی فسانہ
کسی نے دوش دیکھا ہے ، نہ فردا
فقط امروز ہے تیرا زمانہ
(کلیاتِ اقبال ٗ ص۔ 404 )
بالِ جبریل کی وہ چند نظمیں جو مسجد قرطبہ کے فوراً بعد آتی ہیں۔ ان پر مسجدِ قرطبہ کے اثرات بے حد نمایاں ہیں اور مسلم اندلس کے پس منظر میں ہونے کے سبب مسجدِ قرطبہ سے ان کی قربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت ، ہسپانیہ اورطارق کی دعا اس ذیل میں آتی ہیں۔
بالِ جبریل کی ایک اہم نظم لینن ۔ خدا کے حضور، ہے جس میں اقبال نے لینن جیسے منکرِ خدا کو خدا کے حضور کھڑا کرکے مار کسزم کے سب سے بڑے خدا کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ لوگ جو اقبال پر مارکسی ہونے کا الزام لگاتے ہیں ٗ انھیں اس نظم کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ شاید وہ اس نظم کو پڑھے بغیر ہی اقبال کے مسلک کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرشتوں کا گیت ،فرمانِ خدا، الارض للہ،فلسفہ و مذہب، مذہبی حیثیت کی حامل نظمیں ہیں جو کہ اقبال کے مرکزی خیال سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ چند دوسری نظمیں بھی قابلِ ذکر ہیں جن میں اقبال نے اپنے تصورات کا خوبصورت اظہار کیا ہے ۔ان میں محبت ،جدائی، جبریل و ابلیس ،زمانہ اورلالۂ صحرا، خاص طور پر توجہ کے قابل ہیں۔
بالِ جبریل میں چند قطعات بھی شامل ہیں جو فنی چابکدستی کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ ان میں آخری قطعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے ؎
کل اپنے مریدوں سے کہا پیرِ مغاں نے
قیمت میں یہ معنی ہے درِناب سے دہ چند
زہراب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ
جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 500 )
ضربِ کلیم کی نظموں میں مذہبی شعور اور نیا پن بہت نمایاں ہے۔ ان نظموں کی شعری لفظیات ، تلمیحات، استعارات بھی مذہبی روایات سے اخذ کردہ ہیں۔لاالٰہ الا اللہ اور معراج جو کتاب کی ابتداء میں درج ہیں ٗ اس سلسلے کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ علم و عشق ،مرد ِمسلماں ، مدنیت اسلام اور دیگر کئی نظمیں اسی طرز کی حامل ہیں۔ ’’ضرب کلیم ‘‘میں بیشتر مختصر نظمیں شامل ہیں لیکن فنی چابکدستی، موضوع کے بیان پر مضبوط گرفت ٗ خوبصورت زبان اور دلکش لہجے کے سبب یہ مختصر نظمیں بھی اپنے اندر معنی کے خزانے رکھتی ہیں۔
سیاسیاتِ مشرق و مغرب کے عنوان سے مختصر نظموں کا ایک سلسلہ ہے جس میں متعدد نظمیں شامل ہیں۔ ان کی ایک خوبی تو یہ ہے کہ اپنے طور پر نظم مکمل ہونے کے باوجود اپنے سے پیشتر اور مابعد کی نظموں سے مربوط بھی ہے یوں یہ ایک طویل نظم بھی بنتی ہے۔ اسی طرح کا ایک سلسلہ محراب گل افغان کے افکار ہے جس کے20 جزو ہیں۔ یہ غزل کی ہیئت میں ہے۔ ہر جز اپنے طور پر مکمل ہونے کے ساتھ فکری اعتبار سے اپنے سے ماقبل اور مابعد سے تسلسل بھی رکھتا ہے ۔
ارمغانِ حجاز کی اردو نظموں میں بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ،تصویر و مصور ،عالمِ برزخ، صدائے غیب ،دوزخی کی مناجات اور آوازِ غیب خوبصورت نظمیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ارمغانِ حجاز میں رباعیات کا ایک سلسلہ بھی موجود ہے۔ جو اقبال کے رباعی کے مزاج کو تبدیل کرنے ، ان میں جدید موضوعات کے استعمال اور فنی گرفت کی بہترین مثالیں ہیں ٗ چند رُباعیات دیکھیں ؎
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟
عبث ہے شکوۂِتقدیرِیزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 734 )
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نورِ لا الٰہ سے
فقط اک گردشِ شام و سحر ہے
اگر دیکھیں فروغِ مہرو مہ سے
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 735 )
کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
کبھی دریا کے سینے میں اتر کر
کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر
مقام اپنی خودی کا فاش تر کر
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 735 )
اقبال کی غزلوں اور نظموں کے بنظرِ غائر مطالعے سے یہ واضح ہے کہ وہ بے مقصد رومانویت سے آلودہ شاعری پر نہیں ٗ بلکہ ایسی با مقصد اور متحرک شاعری پر یقین رکھتے ہیں ٗ جو خوابِ غفلت سے عمومی طور پر بنی نوع انسان اور بالخصوص مسلمانوں کو جگا سکے۔ ایسے شاعر کی آواز میں محبوب کی ادا اور نزاکت نہیں بلکہ اسرافیل کے صور جیسی شوکت ٗ جلال اور گھن گرج ہو جس سے تلمیح اور اسلامی عقائد کے مطابق سوئے ہوئے مُردے بھی اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے ؎
مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی
کہ بانگِ صورِ سرافیل دلنواز نہیں
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 376 )
یہ شعر اس امر کا بھی غماز ہے کہ اقبال کی شاعری کلاسیکی رومانویت سے ٹھوس حقیقت نگاری کی طرف سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے۔
ادب میں اظہاریت کی تحریک اصلاح پسندی اور انفرادی فکر سے عبارت ہے۔ اقبال کی شاعری سامراجی ہتھکنڈوں کی شکار قوموں کے لیے آسمانی بجلی جیسی بلند فکری اور روشنی کی علامت ہے۔ ان کے افکار کی روشنی جبرو استبداد کی سیاہ رات میں بھٹکتے ہوئے مسافروں کو راستہ سجھاتی ہے ؎
صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھیریں ظلمتِ شب میں راہی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 400 )
شاعری ایک ایسا فن ہے کہ بغیر تخلیقی صلاحیت کے حاصل نہیں ہوتا اور تخلیقی صلاحیت وہبی ہوتی ہے۔ اقبال اپنی اس وہبی صلاحیت کے ذریعے اپنی قوم کی مردہ رگوں میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے کا دعویدار ہے ؎
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 477 )
یہ شعر نیچری شاعری اور اظہاریت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ شعر کو خدا کی طرف سے ودیعت کردہ صلاحیت کو نیچری شاعری کے زیر اثر اقبال نے ایک جگہ یوں بھی بیان کیا ہے ؎
مری مشاّطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
(کلّیاتِ اقبال ٗ ص۔ 353 )
لیکن ذرا غور کیا جائے تو اس شعر میں فکر کی ایک اور زیریں روبھی موجود ہے۔
اقبال کے شعری محرکات میں سے مظاہرِ فطرت ٗ حبّ ِ وطن اور اہل وطن سے محبت ٗ اسرارِ کائنات ٗ الہٰیات ٗ زمان و مکان ٗ قومیت اور وطنیت کے مغربی تصور سے بیزاری ٗ اسلامی اخوت اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی خواہش ٗ عقل و عشق کی تفریق ٗ عظمتِ انسانی اور فلسفہ خودی و بیخودی ٗ نمایاں تر رہے ہیں۔ ابتداء میں ان کے ہاں روانی ٗ شیرینی اور الفاظ و تراکیب کی دلنشینی ٗ استعارے ٗ مشبہ بہ، مستعار منہ ٗ تلمیحات ٗ تماثیل موجود ہیں لیکن فکر کی گہرائی اور تخیل کی بلندی ان میں رفتہ رفتہ پیدا ہوئی۔ اور بالآخر ان کا کلام الہامی اور آفاقی دکھائی دینے لگا اور خود آگہی کے طفیل ان کا لہجہ پیغمبرانہ ہوتا چلا گیا ۔ اس نے فکر و تخیل کا وہ عروج حاصل کیا ٗ جہاں تک اردو شاعری میں کسی اور کی رسائی ان سے پہلے اور بعد میں نہیں ہو سکی۔
علاّمہ محمّد اقبال کی تمام کتب پنجند۔کام کے اس لنک پر دستیاب ہیں۔
حواشی و حوالہ جات
1۔ (شیخ )عبدالقادر : دیباچہ ’بانگ درا‘ مشمولہ کلیاتِ اقبال، اردو ،شیخ غلام علی اینڈ سننر ، لاہور، 1989 ء ، ص۔ 9 ۔
2۔ (ڈاکٹر) خلیفہ عبدالحکیم:فکرِ اقبال ، بزمِ اقبال ، لاہور ، 1988 ء ، ص۔ 8 ۔
3۔ عابد علی عابد: شعرِ اقبال ،بزمِ اقبال ، لاہور، 1977 ء ،ص۔ 292 ۔
4۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی: اقبال کا نظامِ فن ، اقبال اکادمی ، لاہور ، 1990ئ، ص۔11,10۔
5۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی : کتاب مذکور، ص ۔70 ، 8 ۔
6۔ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی :ـ عروجِ اقبال، بزمِ اقبال ، لاہور ، ص۔ 19 ۔
7۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی : کتاب مذکور ، ص ۔87 ۔
8۔ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی: کتاب مذکور ، ص۔411 ۔
9۔ (ڈاکٹر )عبدالمغنی : کتاب مذکور ، ص۔ 239 ۔
10۔ (علامہ) محمد اقبال : کلیاتِ اقبال اردو ، اقبال اکا دمی پاکستان ، لاہور ، ص ۔210 ۔
11۔ سعد اللہ کلیم : اقبال کے مشبہ بہ و مستعار منہ مشمولہ اقبال بحیثیت شاعر،مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مجلس ترقیٔ ادب ، لاہور ، 1977 ء ، ص ۔438 ۔
12۔ ایضاً: ص۔439
13۔ اسلوب احمد انصاریـ:اقبال کی تیرہ نظمیں، مجلس ترقّیء ادب ، لاہور، 1977 ء ،
ص۔ 35 ۔36 ۔
14۔ (ڈاکٹر) عبدالمغنی : کتاب مذکور ، ص۔ 283 ۔
15۔ (ڈاکٹر ) عبدالمغنی : کتاب مذکور، ص۔ 381 ۔
16۔ (ڈاکٹر) افتخار احمد صدیقی : کتاب مذکور ، ص ۔378 ۔379 ۔