سویا تھا جنگل کا راجہ اک برگد کے نیچے
پڑا ہوا تھا ضدّی چوہا یوں ہی اس کے پیچھے
شیر کے تن پر اُچھل اُچھل کر چوہا دوڑ لگاتا
لیکن شیر کے پنجّے میں وہ جلد ہی پکڑا جاتا
شیر نے بولا چھوٹے چوہے تیری اتنی جراءت
نیند سے تُو نے مجھے جگایا ایسی تیری ہمّت
اب میں تجھ کو کھا جاؤں گا کروں گا قصّہ پاک
چوہا بولا مجھ چوہے سے بھوک مٹے گی خاک
آج مجھے جو چھوڑو گے تو کل آؤں گا کام
رحم کرو جنگل کے راجہ اور کرو آرام
چوہے سے یہ سن کر چھوڑا بخش دی اس کی جان
شیر نے اپنی نیند کی چادر دوبارا لی تان
اُس دن ایک شکاری آیا شیر پہ ڈالا جال
شیر جال میں پھنس کر تڑپا برا تھا اس کا حال
گیا شکاری سرکس کی اک لاری کو لانے
تھوڑی دیر ہی گزری ہو گی بس اس کو جانے
اپنی بل سے چوہا نکلا دیکھا یہ منظر
سب چوہوں کو دعوت دی کہ آؤ سارے مل کر
میرا اک احسان چکا دو آج کتر دو جال
جس نے میری جاں بخشی تھی برا ہے اس کا حال
سب چوہوں نے جال کو کترا شیر ہوا آزا د
رحم کے بدلے رحم ہی پایا ہوا کہاں برباد
ایک سبق ملتا ہے اس سے رحم کرو سب پر
رب بھی ہم پر رحم کرے گا یقیں رکھو رب پر