پریشے اور پھپو آج گاؤں کے لیے روانہ ہو رہی تھیں جیسے جیسے گاڑی گاؤں کی طرف جا رہی تھی پریشے کے دل میں سکون اترتا جا رہا تھا دل کی دھڑکنیں یہ سوچ کے بےترتیب ہو رہی تھیں کی جب وہ زوار کے سامنے اظہار کرے گی تو زوار کا ری ایکشن کیسا ہو گا
گاؤں پہنچ کے وہ سامان لے کر گھر آئی اور دروازہ کھول کے وہ دونوں اندر داخل ہوئیں رات کے دس بج رہے تھے دونوں بہت تھک گئیں تھیں تو سو گئیں اگلے دن اس نے اپنی کلینک کھولی تو ایک عورت کلینک کھلی دیکھ کے داخل ہوئی
" ارے ڈاکٹرنی جی آپ آگئے ہو " پریشے اس کی طرف متوجہ ہوئی
" جی۔۔۔ جی اب آگئی ہوں "
" آپ یہاں آگئی ہو اور پتا ہے ملک زوار آپ کو ڈھونڈنے گئے ہیں " وہ چونکی
" مجھے؟؟؟ پر۔۔۔۔۔ تمہیں کیسے پتا؟؟؟"
" وہ میرا شوہر نہ ملک صاحب کے گھر میں کام کرتا ہے اس نے بتایا ہے مجھے "
" اچھا۔۔۔ اچھا " وہ عورت تو چلی گئی مگر وہ سوچ میں پڑ گئی
" چلو کوئی بات نہیں وہ آجائیں گے تو پتا چل جائے گا" اس نے دل میں کہا۔
-----------
زوار آج اسلام آباد آیا تھا پریشے کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا وہ پاگل ہو گیا تھا اس کے حلیے کو دیکھ کے لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہ زوار ہے جس کے رعب و دبدبے سے لوگ ڈرتے تھے کئی کئی دن کے پہنے کپڑے بکھرے بال بڑھی کوئی شیو وہ دیوانہ سا ہو گیا تھا وہ پہنچے ہی تھے کہ اس کے ایک آدمی نے بتایا کہ پریشے گاؤں آ چکی ہے یہ سنتے ہی اس نے واپس جانے کا فیصلا کیا
"سائیں کچھ وقت یہیں ٹہر جائیں آپ کی طبیعت بھی نہیں ٹھیک "
" نہیں کریم۔۔۔ ہم ابھی کے ابھی واپس جائیں گے "
" پر سائیں۔۔۔۔۔"
" ہم نے کہا ہے نا " اس نے تحکم امیز لہجے میں کہا
" جی سائیں جو حکم"
وہ جلد سے جلد اسے دیکھنا چاہتا تھا
"کریم وہ کب آئی گاؤں؟؟؟ "
" سائیں کل آئیں ہیں "
" ہممم۔۔۔۔۔ ٹھیک "
------------
وہ گاؤں پہنچا اور اس کے گھر کی طرف گیا گھر کا دروازہ بجایا کسی بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا
" پریشے " وہ بےاختیار بولا
" بیٹا آپ کون ہو؟؟؟"
" یہاں۔۔۔۔۔یہاں پریشے رہتی تھی"
" جی میں اس کی پھپو ہوں۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔تم یقیناً زوار ہو"
" جی۔۔۔۔۔جی ماں جی پریشے کہاں ہے"
" تم کیوں پوچھ رہے ہو میری بچی کا کیا لگتے ہو اس کے " پھپو مصنوعی غصے سے پوچھا
" وہ۔۔۔۔۔" پھپو اس کا چہرہ دیکھنے لگیں
"آؤ اندر آؤ" وہ زوار کو ساےھ لیے گھر میں آگئیں اور اسے تخت پہ بٹھایا
"ہاں اب بولو"
" وہ۔۔۔۔ میں " وہ پہلی بار کسی کے سامنے نروس ہو رہا تھا
پھپو ایک دم ہنس دیں
"آپ ہنس کیوں رہی ہیں "
" اس لیے کہ پریشے مجھے سب بتا چکی ہے تمہارے بارے میں "
" کیا سچ میں۔۔۔ "
" ہاں "
" آپ کو کوئی اعتراض۔۔۔۔۔۔ مم۔۔ میں بہت خوش رکھو گا اسے ماں جی" وہ ان کے قدموں میں آبیٹھا انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
" مجھے دیکھتے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ تم بہت اچھے ہو اور میری بیٹی کو بہت خوش رکھو گے "
" شکریہ ماں جی میں کوشش کروں گا کہ آپ کی تمام امیدوں پہ کھڑا اتروں"
اور کھڑا ہوا
" بیٹھو بیٹا۔۔۔۔۔پریشے آتی ہی ہوگی"
" نہیں ماں جی۔۔۔۔۔ "
" داماد ہو میرے یہ ماں جی واجی آئیندہ نہیں بولنا " وہ خوش ہوا
" جی پھپو۔۔۔۔۔ اب چلوں گا " وہ چلا گیا لیکن پھپو مطمئن تھیں کہ انجانے میں ہی سہی ایک اچھا بندہ ان کی پریشے کا مقدر بنا تھا۔
--------------
اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد پریشے گھر پہنچی
" ارے آگئی پری بیٹا "
" جی پھپو "
" تمہیں پتا ہے ابھی کوئی آیا تھا"
" کون؟؟؟" پریشے نے پوچھا
" ملک زوار"
" کیااااااا۔۔۔۔۔ سچ۔۔۔۔۔ سچ پھپو زوار۔۔۔۔۔زوار آئے تھے " وہ بےیقینی سے پوچھنے لگی
" ہاں بیٹا تم سچ کہتی ہو وہ بہت اچھا ہے" پریشے کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو رہا تھا
" تو آپ نے انہیں کیوں نہیں بٹھایا؟؟؟ مجھے۔۔۔۔۔ مجھے فون کردیتیں"
" ارے وہ بس تھوڑی دیر کے لیے آیا تھا " وہ خاموش ہو گئی۔
------------
زوار پریشے سے ناراض تھا وہ چاہتا تھا کہ اب پریشے اسے منائے وہ روز پھپو سے ملنے جاتا اور وہیں سے ہو کے آجاتا پریشے سے نہ ملتا پریشے کو بھی لگنے لگا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے پر وہ اسے منائے بھی تو کیسے۔۔۔۔؟؟؟
پھپو کی یہاں بہت سی عورتوں سے دوستی ہو گئی تھی وہ آج انہی کے ساتھ کہیں گئی تھیں پریشے نے آرام کے لیے آج کلینک سے چھٹی کی تھی کہ دروازہ بجا پریشے نے دروازہ کھولا تو زوار کھڑا تھا وہ اندر آیا
" پھپو کہاں ہیں؟؟؟ "
"وہ گھر پہ نہیں ہیں "
" میں بعد میں آؤں گا " اس کو دیکھ کے دل کو حد درجہ سکون ملا تھا لیکن۔۔۔۔۔ ناراضگی بھی اپنی جگہ تھی
" آ۔۔۔آپ کیسے ہیں " زندگی میں پہلی بار اس نے اس سے اتنی آرام سے بات کی تھی
" کیوں۔۔۔۔۔ مجھے کیا ہوا ہے "
" ویسے ہی پوچھ رہی ہوں "
" ٹھیک۔۔۔۔۔" کہہ کر وہ جانے لگا
" بیٹھیں گے نہیں ؟؟؟"
" تم تو مجھے اپنے سامنے نہیں دیکھ سکتی اور آج یہاں بیٹھنے کا کہہ رہی ہو" وہ شرمندہ ہوئی
" جاتا ہوں میں پھپو آئیں تو انہیں بتا دینا "
اور چلا گیا پریشے اداسی سے اسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔