آج زوار کسی کام سے شہر گیا ہواتھا اور یہی سہی موقع تھا یہاں سے جانے کا وہ گھر سے نکلی بس اسٹاپ پہ پہنچی وہ اس گاؤں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور جانا چاہتی تھی جب بس چلی تو اس نے موبائیل کی سم توڑ کے وہ موبائیل گاڑی سے باہر پھینکا وہ اس گاؤں کی کوئی یاد اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتی تھی اور زوار سے تو اب کوئی رابطہ رکھنا نہیں چاہتی تھی گاڑی گاؤں۔کی حدود سے نکل رہی تھی اور اس کا دل پتا نہیں کیوں بے چین ہوا جا رہا تھا جیسے کہ وہ غلط کر رہی ہے جیسے اپنا دل وہ یہیں چھوڑ کے جا رہی ہے دو آنسو ٹوٹ کے اس کی اس کے گال پہ بہہ گئے ایک لمبے سفر کے بعد وہ لاہور پہنچ گئی تھی گھر پہنچ کے پھپو سے ملی رات کے کھانے کے بعد وہ دونوں بیٹھ کے چائے پی رہی تھیں کہ پھپو نے پوچھا
" پریشے کل کب تک جاؤ گی اسلام آباد میں تو کہتی ہوں دو تین دن رک جاؤ پھر چلے جانا "
" نہیں نہیں پھپو مجھے جوائیننگ دینی ہے کل ہر حال میں میں نہیں رک سکتی" وہ جلد سے جلد یہاں سے چلے جانا چاہتی تھی اسے پتا تھا اگر یہاں رکی تو زوار اسے جلد ہی ڈھونڈ لے گا
" پھپو آپ بھی چلیں نا میرے ساتھ " وہ انہیں بھی لے جانا چاہتی تھی
" ارے میں کیسے جا سکتی ہوں پورا گھر چھوڑ کے"
" کوئی بات نہیں نا سب ہو جائے گا بس آپ میرے ساتھ چل رہی ہیں " وہ بضد تھی
" پر بیٹا "
" سب یو جائے گا پھپو آپ کو گھر کی ٹینشن ہے نا تو کوئی بات نہیں سب ہو جانا پر پلیز آپ ساتھ چلیں میں بہت مس کرتی ہوں آپ کو " بہت بولنے پر بھی جب وہ نا مانی تو پھپو نے جانے کی ہامی بھر لی۔
-----------------
پھپو کو منانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آئی
" اففففف۔۔۔۔۔ اس جاہل کا فون بھی آتا ہی ہو گا پتا نہیں کیا ہے روز فون کرتا ہے سر کھانے کے لیے" وہ کیا کر آئی ہے وہ یکسر فراموش کر بیٹھی تھی بہت دیر تک جب کوئی کال نہ آئی تو وہ چونکی اور سیل دیکھنے اٹھی
" میرا سیل۔۔۔۔۔۔اوہ" سیل ڈھونڈنے لگی تو اسے ایک دم یاد آیا وہ تو اس گاؤں کو چھوڑ آئی ہے
یاد آتے ہی دل ایک دم خالی خالی ہونے لگا اداسی روگ و پے میں اترنے لگی وہ شخص اسے اپنا عادی کر گیا تھا
اس نے سر جھٹکا اور سوچا فواد کو کال کرے پر اسے تب اور حیرانی ہوئی جب اس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ فواد سے بات کرے اس نے اپنی حالت کو اھنور کیا اور فواد کو کال کی دو تہن بیل پہ فون اٹھا لیا گیا
" ہیلو " فواد بولا اس کی آواز پہ آج پہلی بار تھا کہ جب اس کا دل نہ دھڑکا
" ہیلو فواد"
" کون؟؟؟"
" میں پریشے"
" کون پریشے "
"فواد میں ہوں پریشے بھول گئے کیا" پریشے کو لگا کہ وہ مذاق کر رہا ہے
" کون ہے فواد" ایک نسوانی آواز آئی
" رونگ نمبر ہے جان " فواد نے کہا اور فون رکھ دیا پریشے فون کو حیرانی سے دیکھنے لگی۔
----------------
زوار دوسرے دن حویلی لوٹا فریش ہو کے سوچا آج پریشے سے ملنے جائے تھوڑی دیر بعد وہ اس کے گھر کے سامنے کھڑا تھا اور دروازے پہ لگا تالا اس کا منہ چڑا رہا تھا اس نے سوچا کلینک پہ ہو گی وہاں گیا تو وہاں بھی تالا لگا تھا اسے سمجھ نہ آئی یہ سب کیا ہے اور پھر دماغ نے یک دم جھٹکا کھایا
" ہم لڑکی کی ہستی مٹا دیں گے" ملک وجاہت کے بولے گئے لفظ اس کے کانوں میں گونجے اور اس کا منہ غصے کی شدت سے سرخ ہو گیا وہ سیدھا حویلی پہنچا
" ملک وجاہت۔۔۔۔ ملک وجاہت کہاں ہو میرے سامنے آؤ" وہ چیخ چلّا رہا تھا
" کیا ہوا ہے پتر کیوں پاگل ہو رہا ہے بھلا باپ کا بجی کوئی یوں نام لیتا ہے" اماں پریشانی سے بولیں
" آپ ہٹ جائیں اماں یہ ملک وجاہت اور ملک زوار کے بیچ کا معاملا ہے " وہ آگے بڑھا اتنے میں ملک وجاہت اس کے سامنے آئے
" کیوں چلّا رہے ہو باپ ہیں ہم تمہارے کس لہجے میں بات کررہے ہو ہم سے تم"
" باپ۔۔۔۔۔ باپ ایسا کرتے ہیں ارے آپ کو باپ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے " ملک وجاہت نے ایک زوردار چانٹا اس کے منہ پہ مارا
" تمیز سے بات کرو ہم سے ملک زوار۔۔۔۔۔ ہمارے بےجا لاڈ نے تمہیں یوں خودسر کردیا ہے کہ تم اب اپنے باپ سے بدتمیزی کرنے لگے ہو" اماں جان نے ایک دم منہ پہ ہاتھ رکھا اور زوار کا بازو پکڑا
" اتنا سب کچھ کر کے آپ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں آپ سے تمیز سے بات کروں۔۔۔" وہ پاگل ہی ہو گیا تھا
" کیا کیا ہے ہم نے "
" کہاں ہے پریشے ؟؟؟ کیا کیا ہے آپ نے اس کے ساتھ ؟؟؟"
" پریشے؟؟؟ وہ ڈاکٹرنی "
" ہاں وہی۔۔۔ بتائیں "
" ہمیں نہیں پتا زوار اس لڑکی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے "
" جھوٹ۔۔۔ جھوٹ بول رہے ہیں آپ سب سے زیادہ آپ خلاف تھے سچ بتائیں ورنہ۔۔۔۔"
" ورنہ کیا" ملک وجاہت بولے
زوار نے جیب سے گن نکالی اور کنپٹی پہ رکھی
" زوار میرے بچے " اماں ایک دم چیخی
" زوار یہ کیا پاگل پن ہے" ملک وجاہت چلائے
" آپ بتاتے ہیں یا نہیں "
"زوار ہم سچ کہہ رہے ہیں ہمیں نہیں معلوم "
" تو پھر کہاں ہے وہ " وہ چلایا
" زوار خدارا یہ نیچے کرو " اماں رو رہی تھیں پر وہ کسی کی نہیں سن رہا تھا
" زوار ہم ملک وجاہت ہیں جو کام ہم کرتے ہیں دن دہاڑے کرتے ہیں یوں چھپ کے نہیں"
" کھائیں میرے سر کی قسم اور سچ بتائیں " زوار نے ان کا ہاتھ اپنے سر پہ رکھا
" ملک زوار باپ پہ اعتبار نہیں۔۔۔۔۔ کھاتے ہیں ہم تمہارے سر کی قسم خوش ہو جاؤ ہم نہیں جانتے وہ کہاں ہے"
زوار ایک دم خاموش ہوا ملک وجاہت نے گن اس کے ہاتھ سے چھینی وہ خاموش رہا اور چلتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا اماں پیچھے روتی رہیں اس نے نا سنا اس کے اندر آج پہلی بار کچھ چھن سے ٹوٹا تھا شاید وہ خود۔۔۔۔۔
وہ مردہ قدموں سے اپنے کمرے میں گیا اور دروازہ بند کر لیا
آکے بیڈ پہ بیٹھا اور سر ہاتھوں میں گرا لیا
" کیا وہ مجھے چھوڑ کے چلی گئی ہے؟؟؟
کیا سچ میں میں غلط تھا جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اس کی پسند اپناؤں گا تو کیا پتا اس کو مجھ سے محبت ہو جائے
کیا فواد کی محبت اتنی زورآور تھی جو اسے اپنا شوہر نظر نہ آیا بھلے یہ رشتہ مجبوری سے جوڑا تھا اس نے پر رشتہ تو تھا نا " اس نے اپنا سر اٹھایا
" ملک زوار کمزور نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ بدلا ضرور ہے پر کمزور نہیں ہوا وہ اب بھی طاقتور ہے۔۔۔۔۔ وہ اپنی عزت اپنی بیوی کسی اور کے پاس کیسے آسانی سے بھیج سکتا ہے۔۔۔۔۔نہیں نہیں پریشے تم واپس آؤ گی۔۔۔۔۔۔ اور اب کی بار اس ہی گھر میں آؤ گی پھر یہیں رہو گی ہمیشہ لیکن تمہیں وہ زوار نہیں ملے گا ہاں میں ویسا رہوں گا جیسے لوگ تمہیں پسند۔۔۔ کیونکہ محبت کے آگے میں بےبس ہوں۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ تمہیں مجھ سے محبت ہو جائے پریشے۔۔۔۔۔ تم نے مجھے بہت تکلیف دی ہے۔۔۔ پریشے توڑ دیا مجھے۔۔۔ تم وہ پہلی اور آخری عورت ہو جسے میرے دل نے چاہا اور وہ تم پہلی اور آخری عورت ہو جس نے مجھے بے دردی سے توڑا ہے۔۔۔۔۔ میں تمہیں ڈھونڈوں گا ضرور ڈھونڈوں پاتال میں بھی تب بھی تمہیں ڈھونڈ کر لی آؤں گا پری" وہ رات گئے تک اس سے مخاطب رہا اور پھر کھڑا ہوا اس نے ٹائم دیکھا رات کے دو بج رہے تھے اس نے ایک نمبر ملایا
"آج کے آج پتا کر کے بتاؤ کہ ڈاکٹر پریشے گاؤں سے کہاں گئی ہیں "
" جی سائیں " اس نے کہہ کر فون رکھ دیا۔
-----------------
صبح کے چار بج رہے تھے وہ پریشے کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا بار بار آنکھوں کے گوشے نم ہو رہے تھے
کیا وہ لڑکی اتنی بااثر تھی جو اس جیسے شخص کو رلا گئی تھی وہ بچپن سے اب تک بس رلاتا آیا تھا اور آج ایک معمولی سی عورت اسے رلا گئی تھی وہ اسی کے بارے میں سوچے جا رہا تھا کہ اس کی فون کی بیل بجی نمبر دیکھ کر وہ بولا
" ہاں بولو "
" سائیں وہ ڈاکٹرنی جی لاہور چلی گئی"
"ٹھیک ہے لاہور جانے کی تیاری کرو اور پتا کرو کہ وہ وہاں کس کے پاس ہے"
" جی سائیں "
------------
تھوڑی دیر بعد وہ اپنے کمرے میں جا کے لیٹینیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اسے اس وقت فواد کی بے رخی نہیں بلکہ زوار کی یاد ستا رہی تھی
" افففف۔۔۔۔۔ لگتا ہے میں نے اسے کچھ زیادہ ہی ذہن پہ سوار کر لیا ہے "
اس نے آنکھیں بند کیں اسے پھر وہ یاد آنے لگا جب وہ اسے فون کیا کرتا تھا اور وہ غصہ ہوتی تھی وہ اٹھ بیٹھی اور سر ہاتھوں میں دے لیا
"سہی کہتا تھا وہ عادتیں محبت سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہیں" وہ بھی تو اس کی ایک عادت اپنے ساتھ لے آئی تھی جو کہ اسے ڈسٹرب کر رہی تھی پر وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اس کی عادت نہیں لے کے آئی بلکہ وہاں اپنا دل چھوڑ آئی ہے۔