وہاں بہت بڑا آگ کا الاؤ روشن تھا ۔ ارد گرد موجود مرد بہت پرجوش نظر آتے تھے ۔ حیرت اس بات کی تھی کہ وہاں موجود لوگوں میں ایک بھی عورت کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ۔ یہ جنگل کا وہ علاقہ تھا جو گاؤں سے تھوڑی دوری پر واقع تھا اچانک ایک شور سا بلند ہوا جیسے کوئی خوشی سے بے قابو ہو رہا ہو ۔ ان مردوں کا ہجوم دو طرف بٹ گیا اور ایسا کرنے سے ان کے درمیان ایک رہ گزر سی بن گئی ۔ ایک آدمی اس رہ گزر کے بیچ میں کہیں سے وارد ہوا۔ سر کے لمبے بال شانے کو چھو رہے تھے اور آنکھوں میں سرخی اتنی تھی کہ انہیں دیکھنے پر خود کو خوف سا معلوم ہوتا ۔ ماتھے پر تین سفید دھاری کھینچی ہوئی اور موٹے موٹے ہونٹ اس کی کریہہ صورت میں مزید اضافہ کر رہے تھے ۔ اس کا دھڑ برہنہ تھا جس کی وجہ سے سینے پر موجود گھنے بال صاف نظر آتے تھے ۔ اس نے کمر سے گھٹنوں تک آتا ایک بھورے رنگ کا کپڑا لپیٹ رکھا تھا ۔ ایک ہاتھ میں لوہے کا کڑا اور سرخ دھاگہ باندھے دوسرے ہاتھ میں ایک نہایت خوبصورت اور کم سن لڑکی کا بال سختی سے تھامے وہ ان لوگوں کے درمیان سے گزر کر سامنے موجود ایک چبوترے پر آ ٹھہرا ۔ لڑکی اس کے ساتھ زمین سے رگڑتی روتی ہوئی آئی ۔ اس کے پھٹے ہوئے لباس سے ظاہر تھا کہ کافی ذہنی جسمانی اذیت کا شکار ہوئی ہے ۔ جا بجا خون کے دھبے اور چہرے پر کسی کی انگلیوں کے نشان اس کا واضح ثبوت تھےکہ وہ کافی تشدد سے ہو کر گزری ہے ۔ چبوترے پر ایک لکڑی نصب تھی ۔ اس مکروہ آدمی نے اسے لکڑی سے باندھ کر کھڑا کر دیا ۔ اب اس کے دونوں ہاتھ اوپر کی طرف بندھے ہوئے تھے اور برہنہ پاؤں زمین پر رہ گئے ۔ جب وہ شخص اپنی کاروائی سے فارغ ہوا تو ہجوم کی طرف متوجہ ہوکر خوشی سے انہیں دیکھنے لگا ۔
" میرے دوستوں ۔۔ آج اماوس کی اس اندھیری رات میں اس لڑکی کی بلی ( قربانی ) سے دیوتا ہم پر ضرور مہربان ہوں گے اور ہمیں وہ طاقت دیں گے جس کا مقابلہ کرنا روۓ زمین کے کسی شخص کے بس کی بات نا ہوگی ۔"
اتنا سننا تھا کہ وہ ہجوم پاگلوں کی طرح چیخنے اور ناچنے لگا ۔ دور جھاڑیوں کی اوٹ سے جھانکتے ایک وجود نے افسوس سے انہیں دیکھا اور پھر ترحم نگاہوں سے لڑکی کو دیکھا ۔ اسے پتا تھا کہ اب اس لڑکی کے ساتھ کیا ہوگا لیکن وہ وجود اکیلے کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا ۔ اس نے اپنا سر جھٹکا اور دوسری طرف بڑھ گیا ۔ پاگل ہجوم کے پیشوا نے پہلے سندور ، گلقند ، لیموں اور کچھ ایسی ہی اشیاء اس لڑکی کے سامنے رکھی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا ۔ شیطانیت عروج پر ناچ رہی تھی اور پھر کچھ ہی دیر بعد لڑکی کی دلخراش آواز سنائی دی اور ایک لمبی کیل اس کے گلے کے آر پار ہو گئی ۔
***
سعاد نے اپنا چشمہ درست کرتے فون سے نظر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو اسے کچھ ہی فاصلے پر زوبیہ کسی کتاب میں ڈوبی ہوئی نظر آئی ۔ ایک شرارت بھری مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی ۔ اس نے اپنے پاس رکھے چاکلیٹ کے ریپر کو خاموشی سے ہاتھ میں لے کر گول مول کیا اور پھر اچانک ہی اسے زوبیہ پر دے مارا ۔
" زوبی بچو ۔۔ کاکروچ ۔۔"
زوبیہ جو اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی سعاد کی آواز پر چیخ مار کر اچھل پڑی اور ہاتھ میں پکڑی کتاب کو لے کر کود کود کر خود سے چاکلیٹ کا ریپر دور کرنے لگی ۔ سعاد ہنستے ہنستے بے حال ہونے لگی تو زوبیہ کی نظر ریپر پر پڑی ۔ اسے مذاق اچھی طرح سمجھ آ گیا ۔
" بہت بڑی وہ ہو تم ۔۔" زوبیہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب اس کی کمر پر زور سے ماری ۔
" ہئے ۔۔۔گرلز کیا حال ہیں ۔؟" میر نے اچانک ہی انٹری دی تو ہنستی ہوئی سعاد اور ہانپتی ہوئی زوبیہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ " کیا ہوا یہاں پر ۔؟"
میر کے سوال پر سعاد نے اسے ہنستے ہوئے تمام صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ بھی اپنی ہنسی روک نا پایا ۔
" تم ہنس رہے ہو ۔؟" زوبیہ نے اسے گھورا ۔
" کم آن یار ۔۔۔ " میر نے منانے والے انداز میں کہا وہ جانتا تھا کہ زوبیہ اس سے ناراض نہیں ہو سکتی ۔ " اچھا یہ سب چھوڑو ، کلیم ، حارث اور میں نے مل کر ایک پلان بنایا ہے جسے بتانے میں تم دونوں کے پاس آیا ہوں ۔" میر نے سلجھے ہوئے انداز میں کہا ۔
" کیسا پلان ۔؟" سعاد اور زوبیہ نے بیک وقت پوچھا ۔
" ہمیں جو دو ہفتے کی چھٹی ملی ہے اسے انجوائے کرنے ہم راجستھان کے شہر بھان گڑھ جانے والے ہیں اگر تم چاہو تو ہمیں جوائن کر سکتی ہو ۔" وہ مسکرا کر گویا ہوا ۔
" تم لوگ پاگل ہو ۔؟" زوبیہ چیخ کر بولی ۔ " سب جانتے ہیں وہ کیسی جگہ ہے ان فکٹ گوگل پر بھی لکھا ہے کہ وہاں آسیبی خلل ہے ۔" اس کا رنگ اڑ چکا تھا ۔
" صرف وہاں کے فورٹ کے بارے میں ایسا کہا جاتا ہے اور ضروری نہیں کہ جو کہا جائے وہ سچ بھی ہو ۔" کلیم نا جانے کب ان کے پیچھے آ کھڑا ہوا ۔
" گائز مجھے لگتا ہے زوبیہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ اگر یہ جھوٹ بھی ہو تو ہم ایسی جگہ کا رسک کیوں لیں ۔؟" سعاد قدرے متامل تھی ۔
" تم لوگ نہیں آنا چاہتی تو کوئی بات نہیں ۔" کلیم نے میر کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔" ہم تو جا رہے ہیں ۔" میر اس بات پر ہلکا سا مسکرایا ۔ زوبیہ الجھ گئی ، وہ میر کو اکیلے جانے نہیں دے سکتی تھی اور میر رکنے پر رضا مند نہیں تھا ناچار ہو کر وہ جانے کے لئے تیار ہو گئی تو سعاد نے بھی حامی بھر لی ۔ وہ سب کالج کے سٹوڈنٹس تھے اور اپنے سیمسٹر کے بعد ملنے والی چھٹیوں کو خوب مزے سے گزارنے کے لئے بھان گڑھ جا رہے تھے جہاں ایک مختلف دنیا ان کی منتظر تھی ۔
***
فادر سمتھ کئی سالوں سے اس چرچ میں مقیم تھے اور اس چرچ سے لگ کر ایک عیسائی قبرستان تھا ۔ آبادی سے کچھ دور ہٹ کر بنا یہ چرچ اور قبرستان رات کا اندھیرا پھیلتے ہی خوفناک سا تاثر دینے لگتا ۔ فادر سمتھ اپنے کمرے میں بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جب ایک نن ہانپتی کانپتی وارد ہوئی ۔
" فادر ۔۔ فادر ۔" وہ بے حد خوفزدہ لگ رہی تھی ۔
" آرام سے مائی چائلڈ کیا ہوا ہے تمہیں ۔؟" انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا ۔
" فادر نیچے ۔۔ نیچے ایک ۔۔ ایک لڑکی کی لاش ۔۔۔" اس سے آگے اس نن سے کچھ بولا نہیں گیا فادر سمتھ تیزی سے باہر کی طرف لپکے تو دیکھا کہ یسوح مسیح کے بت کے سامنے رکھی گئی ٹیبل پر ایک نوجوان اور بہت خوبصورت لڑکی کی لاش پڑی تھی اور دیوار پر لٹکی صلیب الٹی نصب تھی ۔
" اوہ گاڈ ۔۔" وہ بھاگ کر آگے آے اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر نبض ٹٹولی لیکن جیسے ہی ان کی نظر لڑکی کی گردن پر پڑی وہ سن ہو کر رہ گئے ۔ اس لڑکی کی گردن پر دو سوراخ موجود تھے جو اب نیلے سے پڑنے لگے تھے ۔ فادر سمتھ اس کا ہاتھ چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے ۔
" یہ سب کیا ہے ۔؟" پاس کھڑے ایک اور پادری نے پوچھا ۔
" یہ ۔۔۔ " سمتھ کی خوفزدہ نظریں اب بھی لڑکی پر ٹکی ہوئی تھیں ۔ " یہ ۔۔۔ ویمپائر کی انسانی دنیا میں آمد کا اعلان ہے ۔" انہوں نے لڑکی کی گردن کی طرف اشارہ کیا تو سوال پوچھنے والا راہب خوفزدہ سا ہو کر لڑکی کو دیکھنے لگا اور پھر اپنے سینے پر صلیب کا نشان بناتے گھٹنوں کے بل جھک گیا ۔ رات اپنی تاریکی کو دنیا پر مسلط کرتی جا رہی تھی ۔
***
" یار ابھی تک حارث کیوں نہیں آیا ۔؟" وہ چاروں کب سے حارث کا انتظار کر رہے تھے لیکن حارث تھا کہ آ ہی نہیں رہا تھا ۔ آج انہیں بھان گڑھ کے لئے نکلنا تھا ۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ انہیں ایک وین آتی دکھائی دی ۔ وہ وین ان کے قریب آکر رک گئی اور ایک نہایت خوش شکل لڑکے نے وین سے جھانکتے ہوئے کہا ۔
" کسی کو مدد تو نہیں چاہئے ۔؟" وہ مسکرا رہا تھا ۔
" بہت جلدی نہیں آ گئے تم ۔؟" سعاد نے اس پر طنز کیا تو وہ کھل کر مسکرایا ۔
" یار حارث حد ہوتی ہے لیٹ پن کی بھی ۔" میر نے جیسے حارث کو شرم دلائی تو وہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر گویا ہوا ۔
" معاف کر دو یار ۔۔ اب تو آ جاؤ ورنہ اکیلے ہی چلا جاؤں گا ۔" حارث کے کہنے پر وہ سب وین میں سوار ہوئے ۔
" ویسے یہ کھٹارا ہی ملی تجھے ۔۔ کوئی اچھی کار کا آپشن نہیں تھا کیا ۔" کلیم نے کہا تو حارث نے گھور کر اسے دیکھا ۔
" یہ کھٹارا اس لئے تاکہ تم لوگ حمال بننے سے بچ جاؤ کیوں کہ کار میں تم لوگوں کے جہیز نہیں آتے ۔" اس کا اشارہ سامان کی طرف تھا ۔ زوبیہ اس بات پر بے ساختہ ہنس پڑی ۔راستے بھر وہ لوگ مستی مذاق کی باتیں کرتے ہوئے بھان گڑھ میں داخل ہوئے ۔ جب انہوں نے شہر کی سرحد کو عبور کیا تو گاڑی اچانک رک گئی ۔
" اب اسے کیا ہوا ۔؟" حارث بڑبڑا کر وین سے اتر آیا ۔ یہ جگہ جہاں گاڑی رکی تھی قدرے ویران تھی ، ہاں البتہ جھاڑیوں اور درختوں کی کمی نہیں تھی ۔ ابھی حارث وین کو چیک کر ہی رہا تھا کہ کسی کے غرانے کی آواز آئی ۔اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا تو قریب ہی ایک نہایت خوبصورت لڑکی درخت سے ٹیک لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ گوری رنگت اور گلابی ہونٹوں کی حامل وہ لڑکی سفید لمبے گاؤن اور دوپٹہ نماز کی طرح باندھے موجود تھی ۔ حارث کے متوجہ ہونے پر وہ اس کے پاس چلی آئی ۔
" کیا ہوا ۔؟"
" ہماری وین خراب ہو گئی ہے ۔" حارث نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی ۔
" خراب نہیں ہوئی بلکہ ٹائر پنکچر ہو گئے ۔ پیچھے والا دیکھیں ۔" لڑکی نے اسے بتایا تو وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا ۔ اندر بیٹھے کلیم اور میر نے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھا ۔
" کہیں یہ اپنے حارث کی ہیروئن تو نہیں ۔؟" کلیم نے اپنا خیال ظاہر کیا ۔
" چل باہر چلتے ہیں ۔" میر نے کہا تو وہ دونوں بھی وین سے اتر آے ۔
" ٹائر گئے یار ۔۔ اب ٹائم لگے گا ۔" حارث نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تو کلیم ٹائر چینج کرنے لگا ۔
" آپ لوگ یہاں کیوں آے ہیں ۔؟" لڑکی نے پوچھا ۔
" ہم یہاں چھٹیاں گزارنے آے ہیں اور آپ کون ہیں ۔؟" میر نے جواب کے ساتھ ہی سوال بھی کر دیا ۔
" سیما ۔۔" اس لڑکی نے جواب دیا ۔
" اوہ خوشی ہوئی مل کر ۔۔ میں میر ، یہ حارث وہ کلیم اور دو بندری اندر ہیں ۔"
" بندری ۔۔؟" سیما نے حیرت سے کہا تو حارث ہنس پڑا ۔
" بندری مطلب ہماری دوست سعاد اور زوبیہ ۔" اس نے سیما کو سمجھایا ۔
" اوہ ۔۔۔ " سیما نے کہا ۔" آپ لوگ رکیں گے کہاں ۔؟"
" ابھی تو کچھ سوچا نہیں ۔" کلیم اتنی دیر میں ٹائر ٹھیک کر کے آ چکا تھا ۔
" آپ لوگ چاہیں تو میرے گھر رک جائیں ویسے بھی رات ہونے والی ہے ۔" سیما نے سنجیدگی سے کہا ۔
" رات ۔۔؟" میر نے اسے حیرت سے دیکھا ۔" ابھی تو شام کے سات بھی نہیں بجے ۔"
" یہاں رات شام کا اندھیرا پھیلنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ اس رات سے پہلے کسی محفوظ مقام پر پہنچ جائیں ۔" سیما نے جواب دیا ۔
" اوکے ۔" حارث نے حامی بھر لی ۔ " پھر آپ ہمارے ساتھ آ جائیں ۔" وہ لوگ وین میں بیٹھنے لگے جب سب بیٹھ چکے تو آخر میں سیما وین کا دروازہ پکڑ کر اس سمت دیکھنے لگی جہاں سے حارث کو کسی کے غرانے کی آواز آئی تھی ۔ سیما کے لبوں کو ایک مدھم سی مسکراہٹ چھو گئی اور وہ وین میں سوار ہو گئی ۔
***
وہ گھر نہیں کوئی عالیشان حویلی تھی جہاں سیما انہیں لے آئی ۔ سیاہ پتھروں سے بنی اس حویلی کے گرد چار دیواری کافی اونچی تھی ۔ جگہ جگہ جلتے سنہرے دیئے اس جگہ کو بہت خوبصورت بنا رہے تھے ۔
" یہ آپ کا گھر ہے ۔؟" سعاد نے حیران ہو کر پوچھا ۔ وہ لوگ وین سے اتر کر کھڑے ہوئے اور کلیم میر کے ساتھ مل کر گاڑی سے سامان نکالنے لگا ۔
" ہاں یہ میرا گھر ہے ۔۔۔ آئیں ۔" وہ انہیں لے کر آگے آئی ہی تھی کہ اچانک حویلی کا دروازہ کھلا اور سامنے سے ایک ادھیڑ عمر عورت آتی دکھائی دی ۔ وہ انہیں دیکھ کر ذرا ٹھٹکی ۔
" یہاں آئیں آپ ۔" سیما نے انہیں مخاطب کیا اور اس عورت کو لے کر کچھ دور جا کر باتیں کرنے لگی ۔ ان کی آواز اتنی مدھم تھی کہ کوئی سن ہی نہیں سکا ۔ جب وہ دونوں باتیں کر کے پلٹیں تو ان کے چہروں پر میزبانی مسکراہٹ تھی ۔
" آئیں ناں کھڑے کیوں ہیں ۔" وہ بوڑھی عورت سیما کی دائی اماں تھیں ۔ سعاد ، زوبیہ ، کلیم، میر اور حارث ان کے اخلاق سے کافی خوش ہوئے ۔ انہیں جو کمرے سیما نے دئے وہ بہت خوبصورت طریقے پر سجے ہوئے تھے ۔ گھر کی آرائش اور انواع و اقسام کے کھانوں سے ثروت مندی جھلکتی تھی ۔ وہ لوگ کافی تھک چکے تھے اس لئے ڈنر کرتے ہی سو گئے ۔ آدھی رات کے بعد کا وقت تھا جب حارث کو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے کمرے میں موجود ہو ۔ اس نے کروٹ لے کر آنکھیں کھولیں تو کسی کا ہیولہ نظر آیا ۔ حارث گھبرا کر اٹھ بیٹھا ۔
" کون ہے وہاں ۔؟" اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔
" حارث ۔۔ دروازہ کھولو میں سیما ہوں ۔۔" حارث نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے دروازہ کھولا تو سیما فوراً اندر آ گئی ۔ حیرت کی بات تھی کہ وہ حارث کے بر خلاف اپنے انہیں سفید کپڑوں میں ملبوس تھی جو اس نے پہلے سے پہن رکھا تھا ۔
" تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔؟"
" تمہاری آواز سنی تو یہاں آ گئی ۔ تم کسے آواز دے رہے تھے ۔؟" سیما نے پوچھا تو حارث نے کھڑکی کی طرف دیکھا جہاں کچھ دیر قبل کسی سایے کا گمان ہو رہا تھا ۔
" پتا نہیں ۔۔ شاید میں نے کوئی خواب دیکھا تھا ۔ " اس نے وجہ بتانا مناسب نا سمجھا ۔
" اچھا ۔۔ " سیما نے ایک ٹھنڈی سانس لی ۔ " بے فکر سو جاؤ اب کوئی خواب نہیں آے گا ۔"
" اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو ۔" حارث نے مسکرا کر دریافت کیا ۔
" کیوں کہ میں دعا کر کے جاؤں گی کہ تمہیں برے خواب نا ستائیں ۔ " اتنا کہہ کر اس نے زیر لب کچھ پڑھا اور حارث پر پھونک کر مسکرا دی ۔
" شب بخیر ۔۔ " سیما پلٹ گئی ۔
" سنو ۔۔"
" ہاں ۔" وہ لمحے میں رک کر اس کی طرف مڑی ۔
" تم صبح کب ملو گی ۔؟ مطلب کہ جاگو گی ۔؟"
" کیوں ۔؟" سیما نے ابرو اٹھائی ۔
" دراصل بات کرنا چاہتا تھا ۔ " حارث نے ایک ایک لفظ توڑ کر کہا ۔ پہلے پہل تو سیما حیران ہوئی پھر ہلکا سا مسکرائی ۔
" جب تم اٹھ جاؤ گے تو مجھے بیدار پاؤ گے ۔" وہ اسے الجھا ہوا چھوڑ کر آگے بڑھ گئی اور یہاں حارث کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔
***