وہ سرجھکا کرکلای میں موجودہ چوڑیوں کو دیکھنے لگی اسکا اندازاس قدرالجھا ہوا تھا کہ ماہا اسکےپاس چلی آی
کیاہوا؟کچھ پریشان لگ رہی ہو؟ماہا کےہاتھ کادباو اسکے شانے پرتھا
نہیں نہیں تو۔۔اسنے یکدم سر اٹھا کر کہا
پھرتمھارا چہرہ اتنا فق کیوں ہورہاہے ؟ماہا نے اسکاچہرہ دیکھتے کہا
شاید۔۔۔شایداس پیلےجوڑے کا اثر ہے ماہا ہنس پڑی
ہاں شاید مگر واقعی تم پر یہ رنگ جچ بہت رہا ہے مجھے تو ڈر ہے کوی اس پیلے چاند کا شیدای وتمنای نہ ہو بیٹھے
پوجا کی سونے جیسی کھلتی رنگت یکدم سرخ پڑگی
بکومت وہ بمشکل مسکرای تبھی وہ بولی
چلو مل کرلڈی ڈالاتے ہیں
لیکن مجھے لڈی ڈالنا نہیں آتی
کوی بات نہیں ہم تمہیں سکھا دیں گے
اوں ہوں بابوجی کو اچھا نہیں لگےگا
اف تمہارےبابو جی ہر وقت جانے کیوں تمہارےسر پرسوار رہتے ہیں
وہ ہنس پڑی بہرحال تم بیٹھو اور انجواے کرو ماہا جیسے اسکی بحس سے اکتا کر بولی اور اپنی کزنوں کے ساتھ لڈی ڈالنے لگی
وہ پورےانہماک سے انہیںدیکھ رہی تھی۔تب ہی چہرےپر کسی کسی نظروں کی تپش کااحساس کرکے بےچین ہواٹھی-بلاارادہ ہی سامنے نگاہ آٹھای
لان کے آخری سرے پر ایک ٹولاسالڑکوں کا جمع تھاانہی میںسے ایک وہ بھی تھابلوچست جینز واہاٹ شڑٹ اجلا چہرہ تنومندوجود ہاتھ میں گٹار تھامے(بلکہ گٹاردھیمےسروںمیں بجاتےہوے)
وہ اسی جانب متوجہ تھا پوجا کے اسکی جانب اسطرح دیکھنےپر وہ دھیمے سےمسکرایاتھا
پوجا کا دل یکدم جیسےکانوں میں آن گھسا تھاوہ جلدی سے نگاہیں جھکا گی مگر دھک دھک کی آوازکان پھاڑتی رہی
تبھی میوزک بند ہوا اور ایک شور سا اٹھا لڑکیوں میں اسنے نگاہ اٹھای کہ ماہااسی کاہاتھ تھامے کھنچتی لا رہی تھی گٹار اسکے ہاتھ میں تھا پوجا کادل جیسے بند ہونے لگاہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گیں
سنیں معزز خواتین یہ میرے ڈیر کزن اعیان عمر شیخ پڑوسی ملک یعنی پاکستان سے آے ہیں۔۔
پڑھ تو ایم بی اے میں ہیں مگر گاتے بھی کمال کا ہیں آج یہ ہماری پرزور فرمایش پر آپکو کچھ سنایں گے جی تو اعیان صاحب کیا سنا رہے آپ ماہا نے مسکراکر پوچھا تب وہ وہ بہت دھیمے سے مسکرایا نگاہیں یکدم حرکت کرتی اسکے چہرےکاطواف کرنے لگی
آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا کیا کہوں اور کہنے کو کیا رہ گیا
اسکا اندازاتنا دلکش اورشوخ تھا کہ ہجوم میں یکدم بھرپور شور اٹھااور زبردست داد کےساتھ تالیاںبھی بجای گیں اسکی سیاہ آنکھوں کی جوت مزید بڑھ گی گٹار کےسروں کو دھیرے سے چھیڑا
پہلے اک قطعہ عرض ہے
جب سےتو نے پاوں دھرا ہے دل کے سونے جنگل میں خوشبو سی پھوٹ رہی ہے دل کےسونے جنگل میں لحمہ بھر جو دیکھیں تیری روشن ہنستی جھلمل آنکھیں جنگو رستہ پوچھ رہے ہیں دل کے سونے جنگل میں
واہ واہ واہ۔۔زبردست بہت سی ملی جلی آوازیں ابھریں مترنم قہقہے ابھرے
کون ہے بھی وہ؟ماہا سے بڑی سعدیہ نے بولڈ لہجے میں پوچھ بھی لیاوہ بڑےدلکش انداز میں مسکرایا پھر آنکھیں بند کر باقاعدہ سرمیں گانے لگا
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔
سنگ ہرشخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
جب سےتو نےمجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
پوجا کی ڈھرکنیں جیسے تھمنےسی لگی وہ یکدم اٹھی ماہا کی امی کو بتایا اور پھر تقریبا"بھاگتی گھر آکر بستر پر گر کر کنتی دیر تک گہرے گہرے سانس لیتی رہی مگر دل کا شور پھر بھی مدھم نہ ہوا
ہوسکتا جیسا وہ سوچ رہی ویسا نہ ہو مگر اسکی نگاہ اک عورت کی تھی اور عورت چاہے سولہ برس کی ہو یا ساٹھ برس کی اسکی نگاہ بہت کچھ بھانپنے کی صلاحیت رکھتی ہےاور کچھ نہ ہو مگر مرد کی نگاہ بہت جلد جان جاتی ہے اب پوجا کو جو حالات درپیش ہوں لیکن وہ اسے مکمل نظرانداز کر کے پہلو نہیں بچا سکتی تھی دوسرے دن ڈھولک تھی مگر وہ نہیں گی تیسرے روز مہندی تھی اس روز بھی اسکا ارادہ کچھ ایسا تھا کہ ماہا چلی آی اسے کتاب پڑھتے دیکھ کر گھور کر اسے دیکھا اور بولی
میں سمجھی موت واقع ہو گی اور ابتک کریاکرم بھی ہو چکا ہوگامگر تم تو زندہ سلامت ہو؟
وہ کتاب اک طرف رکھ کر اٹھ بیٹھی سوری دراصل وہ۔۔۔
کوی وضاحت نہیں جلدی تیار ہوکر آجاو ورنہ مجھ سےبرا کوی نہیں ہوگا کچھ دیر تک وہ یونہی بیٹھی رہی اور پھر بے دلی سے تیار ہونے لگی
تب تصور میں جانے کیوں وہ سیاہ جگنووں سی روشن آنکھیں ابھری
سفید سوٹ زیب تن کر کے اس نے پشت پر ڈھیلی سی چوٹی باندھ لی اگرچہ اسکی تیاری کچھ اور تھی اس سوٹ کے ساتھ لوازمات بھی کچھ اور طے تھے اب قصدا"گھنگروں والے پراندے سے پرہیز کیا گیا کانوں میں بوا کے سنہری جھمکوں کی جگہ چھوٹے چھوٹے ٹاپس پہن لیے
آنکھوں میں کاجل بلکل نہ لگایا وہ اپنی طرف سے حفاظتی بند باندھ رہی تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ پہلی اٹھنے والی نگاہ میں جو تاثر بن جاتا ہے وہ دوسری نگاہ اسے بدل نہیں سکتی لٹنے والااک نگاہ میں ہی لٹ جاتاہےکیوپڈ کا تیر کام کر جاتا ہے لوٹنے والے کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ اسنے کیا کچھ لوٹ لیا بس لٹنے والا جانتا ہے وہ سادگی کی تیاری سمیت وہاں پہنچی تو ماہا نے اسے آڑے ہاتھوں لیا
عالم اراوح سے پدھاری ہو کیا آپ؟
وہ شرمندہ سی سر جھکا گی تب وہ اسے تھام کر کمرے میں لے گی۔۔۔۔
مانا یار تمہارا حسن بلا کا قیامت خیز ہے اور اچھی صورت کو سنورنے کی ضروت نہیں ہوتی مگر یہاں تقریب ہےاور آپ کو بیوہ جان کر کوی کچھ کہے نا تو پلیز ذارا سی لپ اسٹک لگا لو اسکا انداز برہم تھا پوجا پہلے تو اسے دیکھتی رہی پھر اسکے ہاتھ سے لپ اسٹک لے کر اک طرف رکھ دی۔۔
بابو جی کو یہ سب اچھا نہیں لگتا مجھے بیوہ نظر آنے کا شوق نہیں مگر سفید رنگ میرا فیورٹ ہےاور ضروری نہیں یہ رنگ فقط بیواوں کے لیے مخصوص ہو یہ پاکیزگی کی علامت بھی تو ہے۔۔
ماشااللہ کیا کہنے ماہا نے اسے داد دی پھر اپنی تیاری میں مگن ہوگی۔۔۔
ماہا ڈریس چینج کرنے ڈریسنگ روم گی تھی تبھی دروازہ اک آوازکے ساتھ کھلا۔۔۔
ماہا۔۔۔یہ پھول۔۔۔پوجا نے یکدم دیکھا اور نظریں دوبارہ جھکا گی وہ دو قدم آگے بڑھ آیا۔۔۔
یہ گجرے وغیرہ منگواےتھے ماہا نے--پوجا نے نگاہ اٹھا کر دیکھا توسامنے اسکا ہاتھ پھیلا ہوا تھا۔۔۔
پوجا نے پیکٹ تھام لیا مگر اسکا ہاتھ اسکے بھاری ہاتھ سے لمحہ بھر کومس کر گیا لمحہ بھر کونظریں ملیں،وہ اپنایت سے مسکرادیا-
آپکا نام؟
پوجا-پوجا راکیش ٹھاکر۔
اوہ-اسکے ہونٹ یکدم سیٹی کے انداز میں سکڑےپھر دوسرے لمحے وہ مسکرا دیا۔
اچھا نام ہے مقدس سا پاکیزہ سا شبنم کے قطروں کی طرح صاف ستھراوہ خاموشی سے سرجھکاے کھڑی رہی تبھی وہ بولا-
ایم اعیان عمر شیخ-فرام پاکستان
میں جانتی ہوں وہ دھیمے سے بولی
کب سے؟وہ شرارت سے بولا-
وہ دراصل ماہا نے تعارف کروایا تھا اس روز وہ بولی تو وہ دلکش انداز سے مسکرادیا---
بہرحال آپ یہ گجرے پوجا کو دے دیجے اور کہیے جلدی ہوکر نیچے آجاے-،
سنیں اتنے دن سے آپ آیں کیوں نہیں؟
اور پوجا کی جیسے سانسیں تھم گیں اسنے دھیرے سےنظریں اٹھاکر دیکھا وہ دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوے اسے دیکھ رہا تھاوہ یکدم بوکھلاکر سر جھکا گی
انداز عام سہی لیکن کہاں عام تھے
پوجا کی پیشانی یکدم نمی قطروں سے ترہوگی
وہ۔۔۔۔۔ دراصل۔۔۔۔۔۔۔اسنے کہنے کے لیے سر اٹھایا۔۔۔زبان کھولی مگر لفظ اندر کہیں دم توڑ گے تب اسنے دیکھا وہ بے حد بھرپور انداز میں مسکرا کر واپس پلٹ گیا تھا
چلو یار کیا بت بنی کھڑی ہودولہا والے آگے ہیں باہر نہیں جانا؟وہ تقریبا"چیخی تھی اسکےکان کےقریب اورتب وہ جیسے خواب بیدار ہوکر اسےدیکھنے لگی تھی اور پھر ہڑبڑکر اٹھ کھڑی ہوی اور باہر آگی دونوں۔۔۔
شادی والے دن اسکا جانے کاکوی ارادہ نہ تھا مگر بواجی کے ٹوکنے پر مجبورا"تیار ہوگی جانا بوا جی کوبھی تھا مگر پھر بابوجی کے خیال سے گھر پر ٹھرگیں کہ شادی والےگھر میں کتنا وقت صرف ہوجاتااور وہ بہت ڈرتی ڈرتی گھر سےنکل آی
ماہا کےگھر آکر وہ اسکے ساتھ چپکی رہی تھی مسلسل۔۔پہلے کمرے پھر کچن میں نوکر کو ضروی ہدایتیں دیتے ہوے اور پھر جب بارات آگی تب وہ اسکے سواگت کو باہر چلی گی اسکا خیال تھا وہ بھی ساتھ چلے مگر اسنے سہولت سے انکار کر دیا تھا اور ماہا کی بھابھی کے پاس ہی ٹک گی جو ڈراینگ روم میں بیٹھی بچوں کو تیار کر رہی تھی
تم نہیںگی باہر؟لڑکیاں تو تمام باہر گی ہیں
انہوں نے اسکی طرف دیکھتے پوچھا
وہ دراصل۔۔۔میری سینڈل مجھے تنگ کر رہی ہے اسنے بروقت بہانہ بنایا اب شکرانہوں نےپھر کوی سوال نہیں پوچھا اور دوبارہ اپنے بچوں کےساتھ مصروف ہوگیں تب وہ سرجھکا کر اپنے ناخنوں پر سےکیوٹکس کھرچنے لگی تھی ابھی زیادہ لمحے نہیں گزرے تھےکہ اچانک وہ اندر داخل ہواتھا اس پر نگاہ پڑی تو آنکھوں میںروشنی سی بھر گی وہ سرجھکاے بیٹھی تھی انداز میں اضطرابی اور الجھن کے اثار تھے
باقی سب لوگ تو باہر ہیں آپ تنہا یہاں بیٹھی کیا کوی چلہ کاٹ رہی ہیں؟وہ مسکراکر اسے مخاطب کیا اور پوجا نے گبھراکر سر اٹھایااور ساکت رہ گی بھابھی جانے کب کی وہاں سے جاچکی تھی اور اب وہ تنہا تھی اس طرح چھپ کر بیٹھنا پوزیشن آکورڈ سی لگی اب اسکی نظریں اسکے بھاری جوتوں پر تھی (یہ ہر وقت میری ٹوہ میں کیوں لگا رہتا آخر اتنا خیال کیوں اسے؟)
اسنےڈرتے ڈرتے نظراٹھای وہ پوری توجہ سےاسے دیکھ رہاتھا وہ نظر فورا"جھکاگی۔۔
اتنی خوفزدہ اور سہمی سی کیوں رہتی آپ؟
جواب میں وہ کیا کہتی سو چپ رہی
آپکو دیکھ کر مجھےبچپن کی پڑھی اک کہانی یاد آتی ہے جس میںسبتگین نامی بادشاہ جنگل شکار کو جاتا اور اسکا شکار ہونے والی ہرنی اسے دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتی ہیں مجھےآپ ویسی ہی خوفزدہ ہرنی لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
پوجا کے ہاتھ پاوں جیسے سرد ہونے لگے اسے اپنا وجود بےجان سا ہوتا محسوس ہورہاتھا وہ یوں تنہا اک شخص کےساتھ اک انجان مسلم شخص کے روبرومحوگفتگو اگر کوی دیکھ لیتا تو اسکی چھوٹی سی دنیا میں قیامت آجاتی وہ اسکی جانب دیکھے بنا باہر نکل گی اور ستون کے ساتھ لگ کر کتنے لمحے گہرے گہرے سانس لیتی رہی پھر ماہا کی تلاش میں بڑھ گی بعض اوقات جوکچھ ہم محسوس کرتے ہیں
جس خطرے کو بھانپتے ہیں اسکے سدباب کےطور پر بہت سے اقدامات بھی کر لیتے ہیں مگر کوی لمحہ ایسا بھی ہوتا ہیں کہ سب دیواریں ڈھیر ہوجاتی ہے آنےوالا لمحہ اتنا مظبوط ہوتا کہ سب بند کھوکھلے سےہوکر رہ جاتے اور ہم لاکھ بچتے رہیں لیکن وہی ہوتا جو ہونا ہوتاہے۔۔ تبھی جب وہ واپس آرہی تھی تووہ بھی کسی کو بکن طرح تمام رکاوٹوں کو توڑتےہوےاسکے سامنے آکھڑا ہواتھا
مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔
اور اسکے دل اک ہنگامہ برپا ھوگیا وہ کچھ نہیں بولی بس اردگرد دیکھنے لگی جیسےاسے کچھ کہنے سےباز رکھنا چاہا تھا اور تبھی وہ بھی کچھ کہنےکا ارادہ ملتوی کر تا اک کاغذ کا ٹکرا اسکےہاتھ میں تھما کر تیزی سے واپس مڑگیا اور وہ حیران و ساکت رہ گی۔