ایمرسن کہتا ہےکہ انسان جوسوچتا ہے وہی بنتاہےمگروہ کبھی اپنی سوچوںمیں خودنہ کو تلاش کرسکی بہرحال اسنے خودکوکھوجنا اور سوچناپھربھی ترک نہیں کیاتھا
وہ ان دنوں جینے اورزندگی کاڈھنگ سیکھ رہی تھی جب پھرماہا آگی۔۔۔۔
ہم بنگلور جارہے ہیںماریہ آپی کے سسرال میں انکے دیورکی شادی ہےچلوگی؟تمہاری بھی تفریح ہو جاے گی اوربنگلورگھومنےکابھی موقع مل جاےگا۔۔۔۔
بنگلور ہونہہ۔۔۔۔یہاںابھی ٹھیک سے بمبی نہیں دیکھا تم چاند پرجانے کی بات کرتی ہو۔۔
چاند پر نہیں بنگلورکہہ رہی ہوں پاگل۔۔۔۔
ہمارےلیےبنگلورجانے کےمترادف ہے
تمہاری مرضی
ماہاچلی گی اورپھر بہت دن تک نہ آی پکا وہ بنگلورجاچکی تھی
وہ خود سےالجھتےالجھتے تھک گی تھی تبھی اس دن بواجی سے اپنی تعلیم کی بات کہہ بیٹھی
بھای جی نہیں مانیں گے۔۔۔
تبھی انسے نہیں کہہ رہی آپ سے بات کررہی ہوں۔۔
مگرمیں تیرے لیے کیاکرسکتی؟انکی آواز میں بےچارگی تھی کہ وہ یکدم انکے قدموں میں بیٹھ گی۔۔
ہم کب تک یونہی گھٹ گھٹ جیتے رہیں گے بوا جی کب تک؟
ہمارا نصیب یہی ہے انہوں نےاسکے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا۔۔
بابو جی ایسا کیوں کررہے ہیں؟
وہ مرد ہیں۔۔بااختیارہیں-
ہم بے اختیار کیوں ہیں ؟ہم بھی تو انسان ہیں۔
ہم عورتیں ہیں جنہیں سداظلم کی بےرحم چکی میں پسنا پڑتا ہے بےرحم ہواوں کےتھپڑوںسے جینا پڑتا ہےمردوں کے معاشرے میں ہماری کوی حثیت کوی وقعت نہیں
بوا جی میں اس ماحول میں گھٹ کر مرجاوںگی۔۔
میری روح انہی ویرانوں میں بھٹکتی رہے گی۔وہ انکے گھٹنوں پرسر رکھ کر رونے لگی۔۔
جب بابوجی دوسرابیاہ رچاہ چکے ہیں پھر کیوں ہمیں ہمارے حال پرنہیں چھوڑتے کیوں ہمیں تڑپاتڑپاکرماررہےہیں۔۔۔
وہ باقاعدہ سسکیوں رونے لگی تھی
پھرجانے کب تک وہ خودکو کھونے میں بھٹکتی رہتی کہ اچانک جیسے اس پر قسمت نے اپنےخوشیوں کے درواکردیے۔۔
بابوجی نے اسےکالجج جانےکی اجازت دےڈالی
وہ تویہ سن کر ساکت رہ گی کبھی کبھی زیادہ خوشی بھی تو ساکت کردیتی ہے نا۔۔وہ بھی ایسی حیران رہ گی
بوا جی یہ سب کیسے ہوا بابو جی کیسے مان گے؟
بس بچی شایدبھگوان نےتیرےباپ کےدل میں دیا ڈال دی ہے بواجی نے تار پرکپڑےڈالتے ہوا کہااورتب وہ اطمینان کی سانس خارج کرتی ماںجی کے کمرے میں آگی مگروہ دوایوں کے زیراثر سو رہی تھیں نیند میں بھی انکاچہرہ متفکر اوراداس تھاوہ دھیرے سے آگےبڑھی انکے ماتھے پر دھیرے سےبوسہ دیا اورپھر ان پر کمبل ڈال کرباہر نکل آی۔۔۔۔
اسی کی طرح ماہا نے بھی جب خبر سنی تو حیران ہونے کےساتھ خوش بھی تھی۔۔
میراخیال ہے انہیں اپنی آخرت کی فکرستانے لگی ہے پھروہ شوخی سے بولی تووہ بھی مسکرادی۔۔
پھرماہا نے ہی اسکاایڈمیشن اپنے کالج میں کروادیااوروہ اسی کےساتھ کالج آنے جانے لگی ڈری سہمی سی وہ خوفزدہ سی ہمیشہ اسی کےساتھ چپکی رہتی پتا نہیں کیوں بابوجی کےساےسےنکل کر بھی خودکوآزادمحسوس نہیں کرتی اسےلگتاانکی سرخ سرخ آنکھیں اسکےتاقب میں ہوں ماہا اسکےمقابلے میں پراعتماداور بولڈتھی بہرحال کالج میں ہر طرح کے لوگ تھے۔۔
وہ سب کی جانب سے کان بند کرکے فقط اپنی اسڈی میں مگن تھی¤¤
موت ایک اٹل حقیقت سہی لیکن اسنے کبھی نہیں سوچا تھاکہ اف دن اسکےہاتھوں سے سب کچھ چھین لے گی اور اسے تہی داماں کر دے گی وہ بھرے ہاتھوں تو کبھی نہ تھی مگر ایک سکھ تو تھا کہ ماں کا سایا ہے اسکے سر پر زندہ لاشے کی صورت ہی سہی مگر وہ موجود تو تھی مگر رات اچانک جانے کیسے انکی طبیعت بہت بگڑ گی اور وہ ڈاکٹر کی آمد سے قبل ہی دم توڑگیں اک ظلل وبریرت کی بے بس تصویر بےجان بت بنی اسکے سامنے تھی اور بواجی سمیت بابو جی انکےسرہانے کھڑےآنسو بہارہے تھے کاش جابر اور ظلم معاشرے کوبھی کہیں دفن کیا جاسکتا ہمیشہ کے لیے کاش اک جابر کے مرنے کےبعددوسرا ویسا غاضب پیدا نہ ہوتا۔۔
وہ سامنے سے اٹھ کر بواجی کے پاس آبیٹھی
بواجی بڑی خاموشی کے ساتھ صحن کے کھردرے فرش پر لکڑی کے بجھے کویلے سے آڑی ترچھی لکیریں کھنچ رہیں تھیں(انکی قسمت بھی انہی آڑی ترچھی لکیروں جیسی تھی)
بواجی۔۔اسنے دھیمے سے پکارا پھر انکے سامنے بیٹھ گی انہوں نے یکدم اپنا ہاتھ روک دیا مگر سراٹھا کر نہیں دیکھا بوا جی گھر میں فقط ہم دوہی وجود ہیں کیا ضروری نہ ہوگا کہ اک دوجے کو احساس دلانے کے لیے کہ ہم زندہ ہیں کبھی کبھی بول لیا جاے۔۔۔
بواجی نے یکدم سر اٹھا کر دیکھا اور دھیمے سے مسکرا دی
زندہ وجودوں کو اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لیے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
وہ کتنی دیر انہیں دیکھتی رہی اور سرجھکا گی
ہم اگر زندہ نہیں تومرکیوں نہیں جاتے؟
مرے ہوے تو ہیں۔۔
ہمارے ہاں رواج ہے ہم اگر کسی کو کچھ بھی نہیں دیتے بلکہ لے لیتے ہیں چھین لیتے۔
بواجی۔۔نہ زندگی ہے نہ موت ہے
کیا کریں ہم کس طرح ہم اپنا وجود میں رہیں۔۔
بھگوان سب ٹھیک کردےگااتنی مایوس نہ رہا کر۔۔
اوراگر بھگوان نے ہماری نہ سنی تو؟وہ سہمی ہوی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔
وہ اتنا بے رحم نہیں ۔۔پوجا نے دھیرے سے سر انکے گھٹنوں پر ٹکا دیا
بواجی۔۔
ہونہہ۔۔
بھگوان کے علاوہ بھی کوی ہماری سننے والا ہے؟چارسو بگھوان ہے۔۔
خدا اللل
سب بگھوان ہی نام ہیں۔۔
ماہا کہتی ہے اسکی دعایں کبھی رایگاں نہیں جاتیں اسکے الللہ اسکی تمام آشاوں کو پورا کردیتے ہیں
بواجی میرا دل چاہتا ہے میں بھی اسکے الللہ میاں سے ایک التجا کروں ایک دعا مانگوں۔۔
کیا؟
ہمیں دولت مال نہیں چاہیے ۔بس سکون عطا کر دےاک بھکاری پجارن تیرےدر کی سوالی ہو رہی ہوں اسے اپنے پیروں کی خاک سےنوازدے ہم پاپی سہی خطاوار سہی مگریہ گناہوں کی سزا ہمارے گناہوں سے بہت بھاری ہے۔
اسکے آنسو بوا کا دامن بھگو رہے تھے
تجھے اس طرح دعا مانگنی کس نے سکھای بوا جی حیران ہوی کسی نے نہیں بس خدا کوپانے کی جستجو میں آپ ہی آپ لفظ بن گے بواجی خدا واقع دکھ دور کرسکتا ہے؟
ہوں اسکی ذات بہت بڑی ہے
میں ڈھونڈنا چاہتی ہوں اسےوہ کہاں ہے ؟وہ دھیمی سی سرگوشی کے انداز میں بولی
کتنی بلندیوں پر رہتا ہوگا وہ؟کیسے اس تک رسای پاوں گی کیسے اپنی عرضی اس تک بھیجوں گی؟وہ تو نظر بھی نہیں آےگا مجھے پاپی جو ہوں میں پھر وہ ہمارا خدا تو نہیں
خدا سب کااک ہی ہوتا ہے پگلی-بواجی نےکسی عالم کی طرح اسکے الفاظوں کی نفی کی وہ ہر جگہ ہے پاپی گناہ گاروں سبکی سنتا ہےوہ۔سبکی عرضیاں وصول کرتا ہے۔۔
آپنے دیکھا کیا؟ اسنےعجب سوال داغ دیا وہ لحمہ بھر کو چپ ہوگیں ہوں بس زارا جھلک دیکھی تھی کبھی-
پھر؟
پھر کوہ طور کی طرح جل کر راکھ ہو گی۔۔۔!
کوہ طور۔۔۔۔یہ کیاہے؟
وہ پہاڑجہاںحضرت موسی خدا کی عبادت کیا کرتے تھے جہاںخدا انسے مخاطب ہوتا تھااورجہاں اک بار موسی نے خدا کو دیکھنے کی خواہیش ظاہر کی تھی
آپ سب کیسے جانتی ؟وہ یکدم سیدھی ہوکر انہیں دیکھنےلگی وہ یکدم نظرین جھکا گیں انکے چہرے پر عجیب سارنگ پھیل گیاتھا۔۔
تیرے بابوجی آنے والے ہیں جلدی سے کھانا بنا لے ورنہ آتے شور مچادیں گے وہ اٹھیں اور تیزی سے اندر بڑھ گیں اور پوجا انکی پیشت دیکھتی رہ گی۔۔
¤¤¤۔۔۔۔۔۔¤¤¤۔۔۔۔۔۔۔¤¤¤
ماہا کی بڑی بہن کی شادی تھی اور اسنے پوجا کو بطور خاص بلوایا تھا اگرچہ وہ ڈری سہمی خود میں سمٹی رہنے والی اور ہجوم سے ڈرنے والی لڑکی تھی مگر اس گھڑی جانے کیوں اسے تقریبات میں جانے کا بے حد اشتیاق ہوا
وہ جانتی تھی گھر قریب ہونے کی وجہ سے بابو جی ہرگز انکار نہیں کریں گے
تبہی اس تقریب میں شراکت کی انہوں نے پوجا کو اجازت خوشی خوشی دے دی اور پوجا کی خوشی کا کوی ٹھکانا نہ رہا تھا
نیلے پیلے سرخ نارنجی سنہرے کالے کاسنی کتنے رنگوں کے اسنے کپڑے بنوالیے تھے یہ مایوں کے لیے اسکے ساتھ چاندی کے آویزے یہ مہندی کے لیے اسکے ساتھ پتھر کے سبز رنگوں والا سیٹ ۔اور یہ بارات کے لیے اسکے ساتھ سرخ یاقوت کا نفیس سا سیٹ سفید براق گھیروالی قمیص کے ساتھ چست چوڑی دار پاجامہ اور سواتین گزکا سفید براق آنچل جسکے کناروں پر سنہری ڈوری اور گھنگرو بندھے تھے اسکے ساتھ بیلے کے پھولوں کازیور اورکانوں میں بواجی کے سنہری جھمکےگلے میںگلوبندبالوں میں چھن چھن کرتا پراندہ اور کتنے ہی دلکش تصوراسنے باندھ لیےتھے پلو میں آس کے لاتعداد جگنو مٹھی میں قید کرنے کو بےتاب تھی
اسنے گلی کے بچے کوبھیج کرپتا کروایا تھا کہ مایوں کی رسم کب شروع ہو گی کہ نہیں۔اور خود اندر آکر تیار ہونے لگی لباس تبدیل کر کے آبھی شیشے کے سامنے آکر کھڑی ہوی تھی کہ بچہ پیغام لے کر آگیا
دیدی ماہا آپی کہہ رہی آپ جلدی سے آجایںشاید دولہا والے رسم کرنے آنے والے ہیں
بچہ کہہ کر باہر نکل گیا
اور تب وہ بہت عجلت کے ساتھ چوٹی کو بل دینے لگی کانوں میں چاندی کے آویزے پہننے کے بعد جلدی سے ہاتھوں میں بھی کانچ کی نازک چوڑیاں پہنیں اور پھر آنکھوں میں کاجل کی دھار لگانے کے بعد اسنے لپ اسٹک بھی اٹھا لی ابھی کور ہٹا کر کھول کے ہونٹوں کے پاس کی ہی تھی کہ یکدم پیشت سے بابوجی کی بھاری کرخت آواز ابھری
کس کو دیکھانے جانا ہے تیرے کو ادھر کسکے لیے اتنا سنگھار کر رہی ہے تو؟اسکے ہاتھ جہاں تھے وہیں تھم گے۔۔۔
بیچی ہے راکیش بھیا۔۔کیسی باتیں کررہے ہیں آپ؟بچیاں شادی بیاہوں پر نہیں سجیںگی تو بھلا اور کب سجیں گی بواجی نے کمزور سی دلیل دی
مگر یہ نہیں سجے گی انہوں نے لپ اسٹک اسکے ہاتھ سے لے کر اپنے پاوں تلےروند ڈالی اور کمرے سے نکل گے۔۔
اور وہ آنکھیں شدت سے بند کر کےاپنےاندر کا سارا درد اندر کہیں دفن کرنے لگی۔۔
ماہا کے ہاں جب وہ داخل ہوی تو تقریب شروع ہوچکی تھی وہ جلتی آنکھوں اور جلتے ذہن سمیت قدرےسنسان گوشے میںٹک گی وہ خیالوں کےتانے بانےبننے میں لگی تھی کہ جب اچانک ایک دلکش سا لہجہ اسکے کان سے ٹکرا کر گلاب سےبکھیر گیا وہ یکدم اپنی سوچوں سے نکل کر ادھر ادھر دیکھنے لگی مگراردگرد کوی نہ تھا
پیلا سا ایک چاند۔۔۔۔ آواز جیسےسماعتوں بازگشت کی طرح گنجنے لگی اسنے یکدم اپنے پیلے ریشمی آنچل کو جو سبزے پر جھول رہا تھا تھام کر شانے پر پھیلا لیا۔۔۔
اداس سوگوار سرخ مگر کاجل کی دھار سے مزین آہو چشم پھر ادھر ادھر سر گرداں ہوی دل یکدم کانپا اور وہ اپنی تنہای کا خیال کر کہ یکدم اٹھ کھڑی ہوی اور دو قدم چلی تھی کہ ایک سفید گلاب اسکے قدموں میں آن ٹکرایا۔۔وہ یکدم ٹھر گی۔ نظر سبزگھاس پر اسکےقدموں کے عین قریب پڑے سفیدتروتازہ گلاب پر پڑی اسکے دل میں یکدم ہلچل سی مچ گی اسنے چونک کر ادھر ادھر نگاہ ڈالی چند فٹ کے فاصلے پر ماہا کی بہن کی رسم ادا ہو رہی تھی سب لوگ اگرچہ مگن تھے مگر اسے لگا جیسے ہر کوی اس پر نگاہ جماے بیٹھا ہے
وہ بھاگ کر فرار چاہتی تھی اور اسنے قدم اٹھایاہی تھا کہ دوسرے قدم پر اک سرخ گلاب اسکے قدموں میں پھر سےآن ٹکرایا وہ حیران سی دیکھنے لگی وہ یقینا"ایسے گلاب کےحملوں کے لیے تیار نہ تھی اسنے سرخ گلاب کو اٹھا کر گھنے پودوں کی باڑ میں ڈال کر تیزی سے آگے بڑھ آی دل میں شور اسقدر تھا کہ کان پھٹتے محسوس ہورہے تھے زندگی کی یہ اولین ہلچل تھی یہ پہلا احساس تھا کہ دل کی موجودگی کا احساس ہوا تھا جب دل نے باور کروایا تھا کہ وہ بھی پہلو میں ہے
اف۔۔۔وہ گہری اضطراری کفیت میں اک کرسی پر جم گی ایسا لگ رہا تھا سب اسکی جانب متوجہ اسے دیکھ رہے ہو بہرحال کچھ بھی نہ تھا اسکا دل خودمصروف عمل تھا
پہلی بار ایسا کچھ ہوا تھا
وہ انہی سوچوں میںگم تھی کہ ماہا نے اسے پکار لیا
پوجا کی بچی ۔۔کہاں غایب تھی تم؟ابھی آرہی ہو دیکھو رسم ادا ہو چکی۔۔
اوہ۔۔۔آی ایم سوری وہ بمشکل مسکراکر بولی وہ دراصل۔۔۔
چلو کوی بات نہیں اب جلدی سےآجاو لڈی ڈالتے ہیں ماہا نے مسکرا کر اسکی مشکل آسان کردی
لڈی؟مگر مجھے تو لڈی ڈالنی نہیں آتی اسکے پیلے چہرے کا رنگ یکدم اور بھی پیلا ہوگیا
اف کیا غضب کی لگ رہی ہو مکمل شاہکار ایک حسین پیلا چاند پیلا جوڑا۔وہاٹ براق ڈوپٹاجیسے بادلوں کی اوٹ سے پیلا چاند جھانک رہا ہو ماہا نےاسکی بھر پور تعریف کی
اف--اسنے یکدم گھبرا کر ماہا کی جانب دیکھا--پیلا چاند"ٹھر گیا ہے سراسمیہ سا پیلاسااک چاند
کوی گنگناتا ہوا لہجہ اسکی سماعتوںمیں ہلچل مچاگیا ۔