ڈھونڈتی ہیں جانے کیا یہ بجھی بجھی آنکھیں
پھول پھول جسموں میں چاند چاند چہروں میں
زندگی
دھوبن چڑیا ہے
اجلے پروں کا لباس
پاوں جوتوں سے بے نیاز
آنکھوں میں بھوری آس
زبان پر سمندر کی پیاس
مگر میں نے ہمیشہ اسے اپنی قبر پر بیٹھے دیکھا ہے!!
وہ گم صم بیٹھی ہمیشہ دھند لکےراستوںکوتکتی رہتی کبھی دیوانی بدلیوںکی اوٹ میں چھپےشریرچاندکو دیکھے جاتی اور کبھی یونہی بے نشان راستوںپرنکل کھڑی ہوتی اور کبھی خشک پتوںکو گرتےدیکھتی اسے بہار سے زیادہ خزاں اچھی لگا کرتی اب بھی اپنے خیالوں میں کھوی سی کھڑی تھی کہ اندرسےبوانےپکار لیا
پوجا چندا!وہاں کہاںکھڑی ہو-دیکھوں کس قدرٹھنڈ ہے بیمار پڑ جاوگی اندرآجاو
وہ بہت انہماک سےچاندکوبادلوںکےساتھ اٹھکلیاں کرتےدیکھ رہی تھی آواز پر یکدم مڑکردیکھنے لگی
پوجا او پوجا بابو جی کی تیز آواز اسکے کان سے ٹکرای وہ تیزی سے پلٹی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہال کمرےمیں آگی بوا جی کھانا لگا رہی تھی وہ ہاتھ دھو کر ٹیبل پر آگی کہاں تھی تم؟بابو جی نےکڑک لہجے میں پوچھاوہ نظریں اٹھاکہ نہ دیکھ سکی کتنی بادر کہا ہے اپنی بوا کہ ساتھ گھر کہ کاموں میں ہاتھ بٹایا کروگھر داری سکھوں اپنی بیمار ماں کا خیال رکھا کرو اب تم چھوٹی بچیی نہیں رہیں زیادہ دیر بالکونی میںمت کھڑی رہا کرو بابو جی نے کہہ کر کھانا شروع کیاوہ یونہی ساکت بیٹھی رہی بوا جی ماںجی کوکھانا دینے کے بعد وہاں آییں تواسے اس طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا دیکھ کر ڈپٹتے ہوے بولیں پوجا کھانا ٹھنڈاہورہاہےاورتب وہ بڑبڑا کربےدلی سے کھانے لگی پوجا ہندو گھرانےکا فردتھی لیکن نجانےکیا بات تھی اسکی دوستی کسی ہندو لڑکی سے نہیں تھی بلکہ اسکی دوستی مسلم گھرانے کی لڑکی سےدوستی تھی جہاں وہ آتی جاتی رہتی تھی انکے اطوار عبادتیں محبتیں بہت پسند تھی وہ بچپن سے اس گھرانے سے بہت متاثر تھی ماہا اسی گھرانے کی فرد ہے پوجا اور ماہا کی دوستی بجپن سے چلی آرہی تھی اسی دوستی کہ ساے میں پل کر دونوں جوان ہوگیں پوجا دل شکستہ لڑکی تھی اوریہ شکستگی اسے اپنےماحول سےملی تھی اسکاباپ ظالم تھا اوراسکی ماں پر بہت ستم ڈھاتا تھاماں کی حالت پر پوجا کڑھتی رہتی مگرباپ کو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی پوجا کی کنواری پھوپی بھی انکے ساتھ ذہتی تھی جسے پوجا بوا جی کہتی وہ پوجا کا بہت خیال رکھتی۔پوجا بہت حساس ہوگی تھی وہ جھلستی ہوی زرد دوپہرمیں اب بارہااسےماں جی کی سسکیاں ان دوپہروں کا بین معلوم ہوتی ویران سردشاموں میں اسے بواجی کے خواب خون رنگ ہوتے نظر آتے تھےاور جب زمین کی آخری حد میں سورج گم ہورہاہوتاتواسکےگردپھیلےساے اسے اپنا آپ منتشرروپ لگتےسنسان ویران راتوں میں بواجی کے کنوارےارمانوںکے بین وہ صاف سنتی انکی خاموش سرد آنکھوں کےسوال اسکےسامنے یکدم چیخ پڑتے۔۔۔
گرتےپتوںکی صداکےساتھ اسےماںجی کی ڈوبتی ابھرتھی دھڑکنوںکی صداسنای دیتی اوریکدم وہ خودسے کہیںکھوجاتی اسےخودکودیکھنے خودکوڈھونڈنےان آوازوںکےتاقب میںبہت دورتک نکل جاتی وہ ہرجگہ جاتی اپنی ماںجی کی سسکیوںکوسنتی اوربواکےخوابوںکےبین اسےسرپٹ دوڑاےچلے جاتےاورپھریکدم بابوجی کی کھردری آوازاسےواپس کھنچ کراسی ماحول میں واپس لاپٹختی اورتب وہ چونک کراپنے اردگردکے ماحول کودیکھتی اوربے دلی کےساتھ آوازکے تاقب میں قدم اٹھاتی اپنے اصل مقام پر آن مجودہوتی۔۔۔آج اسے اپناوجودبےجان گڑیاسالگتابےحدحسین کانچ سےبھی نازک گڑیا۔۔۔
جب بابوجی بےحدترنگ میں ہوتے تب وہ اسے گڑیا کہہ کر مخاطب کرتےاورتب جانے کیوںاسکےذہن میں بس اک نام کی بازگشت ہوتی چلی جاتی۔۔گڑیا۔۔۔گڑیا۔۔۔گڑیا۔۔۔۔گڑیا۔۔۔۔گڑیا۔۔اورکبھی اسےاپنا وجود گڑیا ہی لگتا بےجان نازک بےوقعت بے قیمت بےاختیارجسکی ڈوری کسی کے ہاتھ میں ہو اوروہ ہاتھ جب چاہے اسے متحرک کر کےخط اٹھا لے محفوظ ہولے اورجب دل نہ چاہے ایک کونے میں ڈال دے۔۔اسکی عمر اتنی بڑی نہ تھی اسکی عمر کی لڑکیوںکی دلچسپیاں کچھ اور ہواکرتی ہیں مگروہ سب سے الگ تھلگ ایک کونےمیں دبکی جانے کیوںخودسےاورلامتناسوچوں سے الجھی رہتی ایک اسکےپڑوس میں ماہا ہی ایسی تھی جو اسکی اچھی سنگی ثابت ہوی تھی۔وہ ہر روزاسکےپاس آتی اس سےباتیں کرتی اسکی سوچوںکو پڑھتی خیالوں میں اترنے کی کوشش کرتی مگروہ اور بھی خود میں سمٹنے لگتی۔۔۔یار مجھےاپنی اچھی دوست سمجھوجودل میں ہےمجھ سے شیر کروجو پریشانی ہے انہیں میرے ساتھ بانٹودوستی مقدس رشتہ ہےمیں کبھی اس رشتے کی بے حرمتی نہیں کروگی ماہا نے اسکی خاموشی توڑتے ہوے کہا دوستی۔۔۔وہ یکدم چونک کر دیکھنے لگی ہاں دوستی میں تمہاری بچپن کی دوست ہوں۔۔ہاں تم ہی تو ہو جیسے دیکھ کہ جینے کو دل چاہتا ہے تب وہ مسکرا کر معصومیت سے دیکھتی تو وہ بے ساختہ اسکی بھوری گہری ساکت آنکھوں کی ویرانی کو دیکھے جاتی۔
پوجا تو اپنی عمرسے پہلے بڑی ہورہی ہے اسکے لہجے میں افسوس ہوتا میں بڑی ہوچکی ہوں۔۔۔وہ بےپروای سے اپنی سیاہ کاکلوں سے کھیلنے لگتی۔۔اسکا نتجہ اچھا نہیں ہوگا۔۔ایک مفکر کہا ہے اپنی عمرکےخول سے قبل ازوقت نکل کے جینے والے کبھی زیادہ دیر تک نہیں جیتے انکی زندگی کی مدت کم دشواراوربےثبات ہوتی ہے ماہا نے مفکرانہ انداز میں کہا
زندگی کا نام بےثباتی ہے۔۔۔
تجھے احساس نہیں تو شعورکے جس راستےقدم بڑھارہی وہ تجھے تجھ سے چھین لے گا اور تجھے بےرنگ ویران کر ڈالےگا۔۔پھر کیا ہوگا؟اسنے نظر اٹھا کر دیکھا اسکی آنکھوں میں گہرےسمندرڈول رہے تھے تب ماہا نےاسکاہاتھ تھام لیا
پوجا بولا کروہنسا کرو رنگوں تتلیوں سے پیار کیا کرو۔پوجا تو مر جاے گی
اب بھی کہا زندہ ہوں
تم زندہ ہو تم زندہ ہو کیوں بے حس ہورہی ہوایک زندہ لاشے میں تبدیل ہورہی ہو۔اک سردوجودبن رہی ہو زندگی کوزندگی کی طرح گزارو۔
مجھے جینا نہیں آتا۔۔۔
پھر مر جاو۔۔۔۔وہ اکتا کر کہتی
مر بھی نہیں سکتی اسکی آواز میں بے بسی ہوتی گھر میں پڑی رہوگی توایسی خرافات توجنم لیں گی باہر نکلو ایڈمیشن لے لو کسی اچھے کالج میں۔۔
بابوجی کو جیسے تم جانتی نہیں اسکے ہونٹوںپر اک فاتحانہ مسکراہٹ آں ٹھری
بابوجی۔۔ہونہہ کیسے آدمی ہیں وہ خود توجی بھر کر زندگی کے مزےلوٹ رہے اورپابندیاںلگا رکھی اک معصوم سی جان پر۔۔
پلیز ان کےبارے میں کچھ مت کہو
ہاںفرشتاہیں نا وہ ماہا نےاسکی آنکھوں میں جھانکتے دریافت کیااوروہ سرجھکا تھی وہ حق بجانب ہیں کس لیے ؟تمہاری ماں انہیں ایک عدد وارث نہیں دے سکی اسلیے انکو حق ہے
صرف اس لیے کہ وہ مرد ہیں اور تمہاری ماںجی اگرآج وہ موت اور زندگی کے درمیان اک نکارہ وجود بن کر جی رہی ہیں تو یہ سراسرکمال تمہارےبابوجی کاہے
پلیز ماہا۔۔۔اسنےگھبراکرکانوں پرہاتھ رکھ کراپنی سماعتیں بند کرنا چاہیںاورتب ماہا اسےاسی حالت میں چھوڑ کر باہرنکل گی۔۔